وہ پاگلوں کی طرح اپنے کمرے کا حشر نکال رہا تھا، نہ جانے کوہینور کا کونسا ہیرا کھوگیا تھا جس کی تلاش میں وہ پاگل ہوا جا رہا تھا اب تک الماری کا پیٹ وہ پوری طرح خالی کرچکا تھا اور اب اسنے اپنے بیڈ اور صوفے پر ہلّا بولا ہوا تھا۔۔
اووہ گاڈ کہاں چلی گئی۔۔
یہیں تو رکھی تھی۔۔
وہ چیزیں پھیلاتا ہوا بڑبڑا رہا تھا۔۔
تھینک گاڈ مل گئ۔۔ اسکی کھوئ ہوئی چیز گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد اب مل ہی گئ تھی۔۔
یہ اسکی لکی رنگ تھی جو وہ ہر خاص موقع پر پہنا کرتا تھا اور آج تو اسکی زندگی کا سب سے خاص موقع تھا آج مسٹر زمان سکندر اپنی اکلوتی محبوبہ کے شوہر جو بننے والے تھے،
اسکے دل کی دھڑکن آج معمول سے زیادہ تیز دوڑ رہی تھی، وہ پچھلے تین گھنٹے شیشے کے سامنے کھڑے ہونے کے باوجود بھی مطمئن نہیں تھا، ایک بار پھر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی کریم کلر کی شیروانی کا کالر ٹھیک کرنے لگا۔۔
ہمم مسٹر زمان سکندر آج تو تم واقعی ہیرو لگ رہے ہو بس کسی کی نظر نہ لگ جائے تمھیں۔۔
وہ خود اپنے منہ سے اپنی تعریف کررہا تھا۔۔
زمان بیٹا جلدی کرو نکاح کا وقت ہورہا ہے۔۔ صوفیا سجی سنوری بھاگی ہوئ کمرے میں آئیں تو وہ خود کو فائنل ٹچ دینے لگا۔۔
جی امی بس چلیں۔۔ اسنے پرفیوم لگایا اور کمرے سے رخصت ہونے لگا۔۔
_____________________________________
وہ اپنے ایریا کے سب سے بڑے پارک میں بیٹھا اس وقت اسموکنگ کررہا تھا اسکے چیلے بھی اسکے ہمرا پارک میں لگی بینچز پر بیٹھے تھے۔۔
وہ اس وقت بھی ہر لمہے کی طرح مس امسہ اور انکی بیٹی کہ خیالوں میں گم تھا ہر لمہا اسکے زہن میں کوئ نہ کوئ سازش چلتی ہی رہتی تھی۔۔
شبیر تمھیں اپنے آدمیوں کے ساتھ امسہ کے گھر جانا ہے۔۔
اسنے اپنے سامنے بیٹھے لڑکے کو حکم دیا۔۔
مگر سر شادی تو ۱۹ کو ہے اور وہ لوگ شادی کے لیے مان بھی گئے ہیں تو اب ہم جا کر کیا کریں گے۔۔ اسنے کہا۔۔
تمھیں کیا لگتا ہے وہ لوگ اتنی آسانی سے مان گئے ہیں؟؟ اسنے آنکھوں سے سن گلاسز ہٹاتے ہوئے کہا۔۔
نہیں۔۔ میں تم لوگوں کی طرح بے وقوف نہیں ہوں جو خوش فہمیاں پال کر بیٹھا رہوں۔۔
وہ دونوں ماں بیٹیاں آخری موقع پر مجھے دھوکا دینے کی کوشش ضرور کریں گی اور میں وہ منحوس انسان ہوں جس سے دھوکا بھی دھوکا کھاجائے۔۔
اسکے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ ابھری وہ ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی کے بنھور کا شکار ہوچکا تھا۔۔
تو سر پھر ہمیں کرنا کیا ہوگا؟؟ اس لڑکے نے سوال کیا جبکہ باقی چیلے کھڑے کھڑے ان دونوں کا منہ تک رہے تھے۔۔
تمھیں کرنا یہ ہے کہ ایک دھمکی سے بھری پرچی لکھو اور اپنے لڑکوں سے ان کے گھر بھجواؤ ساتھ ہی کچھ تحفے بھی بھجوا دینا۔۔
اسکے دماغ میں ایک نت نئ سازش جنم لے چکی تھی وہ ہر طرح سے اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتا تھا۔۔
اور تم خود اسکی بیٹی ازلفہ کا پتہ کرو کہ کس ٹائم وہ یونیورسٹی جاتی اور آتی ہے، مجھے زرا اس سے ملاقات کرنی ہے۔۔
اسنے بچی ہوئی سگریٹ اپنے جوتے کی نوک سے بجھائ۔۔
ایک حیوانیت تھی اسکے چہرے پر جو اسکے دماغ میں گردش کرنے والے خیالات کا پتہ دے رہی تھی۔۔
_____________________________________
پورا گھر رنگ برنگی روشنیوں سے سجا ہوا تھا۔۔ مہمان بھی زرق برق لباس میں محفل کی شان بڑھا رہے تھے جبکہ نکاح خواں نکاح کے آخری بول پڑھانے میں مصروف تھے، آج وہ دلہن سے زرا کم مگر بہت خوبصورت گولڈن براؤن شرارے میں سجی ہوئ تھی اسکا حسن بھی آج داد کے قابل تھا اپنے نرم و ملائل لبوں سے زمان سکندر کو اپنے نکاح میں قبول کرتی ہوئ وہ شرم سے سرخ ہوئے جارہی تھی۔۔
کتنا حسین پل تھا یہ
تمام زندگی کا حساب لگالیا جائے تو ایک لڑکا اور ایک لڑکی کی زندگی کا سب سے حسین لمہا یہی ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی زندگی کو ایک دوسرے کے حوالے کر رہے ہوتے ہیں اور نکاح کہ ان تین جملوں سے زندگی ایک نیا روپ دھار لیتی ہے ایک نیا زاویہ ایک نئی زندگی ایک نیا انداز، سب کچھ بدل جاتا ہے۔۔
نکاح مکمل ہوگیا تھا اور اب وہ دونوں ایک دوسرے کے زندگی کے ہمسفر بن چکے تھے نکاح ہوتے ہی آنکھ بچا کر ان دونوں نے چھت کا رخ کیا ان دونوں کے پاس اب لائسینز جو آچکا تھا وہ دونوں آسمان کے نیچے کھڑے ایک دوسرے کو نگاہوں میں بسا رہے تھے۔۔
آج تم بہت حسین لگ رہی ہو ازلفہ۔۔ زمان نے اسکی تعریف میں دو بول کیا بولے کہ وہ شرماگئ۔۔
تم بھی بہت اچھے لگ رہے ہو۔۔ اسنے بھی شرماتے ہوئے اسکی تعریف کردی۔۔
اچھا میں تمھارے لیے کچھ لایا ہوں۔۔ زمان نے شاپنگ بیگ سے ایک چمکتا ہوا گفٹ پیپر میں لپٹا ہوا گفٹ نکالا۔۔
تم میرے لیے گفٹ لائے ہو؟؟۔ ازلفہ کے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹنے لگے اسے گفٹ بہت اچھا لگتا تھا۔۔
ہاں میں اپنی بیوی کے لیے گفٹ لایا ہوں تم اسے ابھی کھول کر دیکھو۔۔
اسنے ازلفہ کے ہاتھوں میں گفٹ تھما کر بولا وہ بھی بےقراری کے عالم میں تیزی سے پیکنگ کھولنے لگی۔۔
گفٹ کھولتے ہی اسکو ایک جھٹکا لگا۔۔
یہ کیا ہے زمان؟؟؟
یہ تو جینٹس پرفیوم ہے وہ بھی استعمال شدہ، شاید تم نے مجھے غلط گفٹ دے دیا ہے۔۔
اسنے اندازہ لگایا جو بلکل غلط ثابت ہوا تھا۔۔
یہ میں تمھارے لیے ہی لایا ہوں میری جان، اور یہ پرفیوم میرا ہے اور اسکو استعمال بھی میں نے ہی کیا ہے۔۔ وہ سینے پر ہاتھ باندھے بڑے مزے سے بول رہا تھا۔۔
تمھیں یہ ملا تھا مجھے دینے کے لیے، کوئ لڑکا اپنی بیوی کو اپنا استعمال شدہ آدھا بچا ہوا پرفیوم دیتا ہے بھلا وہ بھی جینٹس پرفیوم؟؟ اسکا پارہ آسمان کا رخ کرنے والا تھا آخر زمان نے آج حرکت ہی ایسی کی تھی۔۔
ارے تم ناراض کیوں ہوتی ہو ازلفہ یہ میں نے اسلیے دیا ہے کیونکہ اس پرفیوم کو میں استعمال کرتا ہوں اور اس کی خوشبو تم اپنے جسم پر لگاؤ گی تو تمھیں میرا احساس ہوگا میری محبت کا احساس ہوگا تمھیں ایسا لگےگا کہ میں تمھارے پاس ہوں۔۔
وہ اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے بہت پیار سے بتارہا تھا۔۔۔
سوچو اس سے زیادہ رومنٹک گفٹ دنیا میں کوئ ہوگا؟؟ اسنے اسکی آنکھوں میں جھانکا تو ازلفہ کے لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ ابھری وہ نظریں جھکائے اس عجیب و غریب تحفے کو دیکھ رہی تھی۔۔
اسے ہنسی بھی آرہی تھی اور پیار بھی زمان معصوم تھا یا بے وقوف اس سوال میں اسکا دماغ الجھ کر رہ گیا۔۔
آج کی رات تو اس تحفے پر ہنسنے میں ہی گزرنے والی تھی۔۔
____________________________________
وہ ڈریسنگ ٹیبل سامنے بیٹھے اپنے کانوں سے ٹاپس اْتار کر ٹیبل پر رکھ رہی تھیں، آج وہ بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہوچکی تھیں اتنی تکان کے باوجود انکا چہرہ پرسکون تھا وہ ایک ایک کر کے خود کو جیولری سے آزاد کر رہی تھیں۔۔
آج ان کو حقیقی خوشی ملی تھی انکی زندگی کا مقصد پورا ہوا تھا جو بیٹی کے ماں باپ کا ہوتا ہے، وہ ہاتھوں سے رسٹ واچ اتار رہی تھیں جب انکا موبائل بجا، اسکرین پر ایک نیا نمبر عیاں تھا وہ دیکھتے ہی سمجھ گئیں کے کوئ رانگ نمبر ہے لیکن خود کو مطمئن کرنے کے لیے انہوں نے کال یس کرلی۔۔
ہیلو کون؟؟
کیسی ہو امسہ؟؟ دوسری جانب سے مردانہ آواز آئ۔۔
سوری کون میں پہچانی نہیں آپکو۔۔ انجان آدمی کے منہ سے اپنا نام سن کر وہ زرا چونک سی گئیں۔۔
پہچانو گی کیسے بھول جو گئ ہو اپنی بیٹی کے باپ کو۔۔ دوسری جانب سے جواب سن کر ایک لمہے کے لیے وہ سکتے میں آگئیں۔۔
محمود تم؟؟ وہ اپنے سابقہ شوہر کو پہچان چکی تھیں۔۔
ہاں میں اور میں نے کال یہ جاننے کے لیے کی ہے کہ کس سے پوچھ کر اور کس کی اجازت سے تم نے میری بیٹی کی شادی کی ہے؟؟
وہ سختی سے پوچھ رہے تھے۔۔
کیا مطلب ہے تمھارا؟؟ انکا رویہ بھی یک دم بدل چکا تھا۔۔
مطلب؟؟ تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ مطلب کیا ہے؟؟
صاف صاف کہو محمود کیا تکلیف ہوگئ ہے تمھیں اچانک؟؟ وہ بھی اپنا آپا کھورہی تھیں۔۔
مجھے تکلیف یہ ہوگئ ہے کہ تم نے مجھ سے میری بیٹی کے باپ ہونے کا حق کس کی اجازت سے اور کیوں چھینا ہے؟؟ میرے علم میں لائے بغیر ایک تو تم نے ازلفہ کا نکاح کردیا اوپر سے مجھے بلانا بھی پسند نہیں کیا کیسے بھول گئیں تم کہ ابھی اسکا باپ زندہ ہے۔۔
وہ بے انتہا غصے میں آپے سے باہر ہورہے تھے۔۔
یہ اچانک باپ ہونے کا خیال تمھیں کیسے آگیا؟؟ اس وقت کہاں تھے جب تمھاری بیٹی کو تمھاری ضرورت تھی؟؟
اس وقت بھول گئے تھے کیا کہ تم ایک بیٹی کے باپ ہو۔۔۔
اور ایک بات کان کھول کر سن لو ازلفہ میری بیٹی ہے صرف میری تم باپ ہونے کا حق بہت پہلے ہی کھو چکے ہو سمجھے۔۔
انہوں نے دوٹوک جواب دے دیا۔۔
تمھاری زبان درازی کی عادت اب تک گئ نہیں۔۔ وہ بھی برابر طنز کے تیر چلا رہے تھے۔۔
ہاں نہیں گئ اور نہ کبھی جائے گی اگر اپنی عزت میری زبان سے داغدار نہیں کروانا چاہتے نہ تو آئندہ مجھے کال مت کرنا سمجھے۔۔
انہوں نے اپنے اندر کا لاوا باہر نکالا اور جواب سنے بغیر ہی لائن کاٹ دی۔۔
ایک بار پھر انکا زہن ماضی کی تلخ یادوں میں الجھ گیا۔۔
_____________________________________
ارے ازلفہ تم کہاں جارہی ہو؟؟ وہ ڈائننگ ٹیبل پر رکھے گلاسز میں جوس نکال رہی تھیں جب انہوں نے ازلفہ کو وہاں سے گزرتے دیکھا۔۔
انکی آواز پر وہ الٹے قدموں انکے قریب آگئ۔۔
ممّا میں یونیورسٹی جارہی ہوں بہت چھٹیاں ہوگئ ہیں مجھے اسائنمنٹ بھی سبمٹ کروانا ہے۔۔ اسنے بیزاری سے ساری داستان سنائ۔۔
ہاں۔۔ چھٹیاں تو میری بھی بہت ہوگئ ہیں آج پروفیسر اریب کی کال بھی آئ تھی، خیر میں تو کل سے جاؤں گی تم جاؤ مگر سنبھل کرجانا بیٹا۔۔
وہ اسکے کندھوں کو چھو کر اپنی فکرمندی ظاہر کرنے لگیں۔۔
ممّا آپ فکر نہیں کریں میں اپنا خیال رکھوں گی۔۔ اسنے بھی انکا ہاتھ تھام کر انہیں تسلّی دی۔۔
ٹھیک ہے بیٹا اللہ حافظ۔۔
انہوں نے پیار سے اسے چھوا اور وہ بھی چہرے پر مسکراہٹ لیے چلی گئ مگر انکا دل ابھی بھی اسکی فکر میں اٹکا ہواتھا۔۔
یونیورسٹی کے گیٹ سے سٹاپ بہت دور تھا وہ اسٹاپ سے پیدل چلتی ہوئ یونیورسٹی کی جانب قدم بڑھا رہی تھی آج اسنے اپنا فیورٹ بلیک کرتا پہنا تھا جس میں وہ اور بھی پیاری لگ رہی تھی۔۔
ابھی وہ سڑک کے ایک طرف تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ ہی رہی تھی کہ ایک بلیک مرسڈیز تیزی سے آئ اور اسکے بلکل سامنے قدموں کے پاس رکی اس اچانک ہونے والی حرکت نے ایک پل کے لیے اسے خوفزدہ کردیا ابھی وہ اس ششوپنج کی کیفیت میں تھی کہ کار کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھلا اور دراز قد کا مالک زلان ملک بلیک جینز اور کورٹ میں کار سے باہر نکلا وہ اپنی رعب دار شخصیت میں چلتا ہوا اسکے قریب آیا کچھ لمہوں کے لیے ازلفہ کی سانسیں زلان ملک کی مٹھی میں قید ہوگئیں مگر اسنے دل ہی دل میں اسکا سامنا کرنے کا ارادہ کرلیا تھا وہ بہادری سے ڈٹ کر اسکے سامنے کھڑی تھی مگر اندر سے اسکا جسم زلان ملک کے اچانک ہونے والے اس حملے کے خوف سے لرز رہا تھا۔۔
ہیلو میڈم کیسی ہیں آپ؟؟ اسنے آنکھوں سے اپنے بلیک سن گلاسز اتار کر کہا،
جس پر ازلفہ نے کوئ جواب نہ دیا۔۔
ہمم کافی گھبرائ ہوئ لگ رہی ہیں آپ۔۔ اسنے ایک نظر اس کے جسم پر ڈالی جس سے ازلفہ کی جان نکل گئ۔۔
تمھیں کیا لگتا ہے مسٹر تم اس طرح بیچ سڑک پر مجھے ٹارچر کروگے تو میں ڈر کر تمھارے قدموں میں گر جاؤں گی؟؟ اسنے بڑی بڑی آنکھوں سے اسے گھورا۔۔
ہمم۔۔۔
سمجھدار ہو کافی اندازہ تو تم نے بلکل ٹھیک لگایا ہے۔۔ وہ مسکراتا ہوا کہہ رہا تھا۔۔
میری ماں تو تم سے ڈر سکتی ہے مسٹر مگر میں تمھارے باپ سے بھی نہیں ڈرتی۔۔
وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ زلان ملک کے سامنے کھڑی ہے، بلاخوف بول رہی تھی۔۔
ہاہاہاہا اسنے ایک قہقہہ لگایا۔۔
یہ ڈائیلوگ کیا تم لڑکیاں حفظ کرتی ہو ہاں؟؟ ڈرتی نہیں ہوں۔۔
ہاہاہاہا۔۔ وہ اس پر ہنس رہا تھا۔۔
ابھی ایک کتّا میں تمھارے سامنے کھلا چھوڑوں گا نہ تو ڈر کر چھپ جاؤ گی۔۔ وہ بری طرح ہنستے ہوئے اسکا مزاق اڑا رہا تھا۔۔
کتے میں اور تم جیسے آدمیوں میں بڑا فرق ہوتا ہے مسٹر، کتّے سے ہوشیار رہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اسکو جب تک کچھ کہو نہ وہ کسی پر بھونکتا نہیں ہے،
مگر تم جیسے مردوں کا کیا بھروسہ کب کاٹے، نوچیں یا بھنبھوڑ کر پھینک دیں۔۔ اس لیے جو عورتیں تمھاری نسل کو پہچان جائیں انہیں تم سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔
وہ چہرے پر نفرت سجائے اسے للکار رہی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسکا انجام بہت برا ہوسکتا ہے۔۔
زبان کو سنبھال کر میڈم کہیں ایسا نہ ہو کہ کتوں کے بجائے شیر سے مقابلہ کرنا پڑجائے۔۔ زلان کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔۔
شیر؟؟ شیر نہیں مسٹر زلان ملک تمھاری مثال ریس کے اس گھوڑے کی طرح ہے جس کی لگام کسی کے پاس نہیں ہوتی جو بے لگام اپنے قدموں کے نیچے آنے والی ہر شئے کو روندھتا ہوا دوڑرہا ہوتا ہے اور دوڑتے دوڑتے اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ نا منزل کا پتہ لگتا ہے نا راستے کا۔۔۔
تم بھی اپنی اس بے لگام محبت کی خواہش میں صرف دوڑ رہے ہو اور تمھیں ہوش اس وقت آئے گا جب تم راستہ بھٹک چکے ہوگے۔۔
وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بلا خوف بول رہی تھی اور پھر وہ اسکو بری طرح نظر انداز کرتی ہوئ جانے لگی۔۔
لیکن دل کی دھڑکن سمیت سانسیں بھی اس وقت اٹک گئیں جب زلان ملک نے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔
یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑو میرا ہاتھ۔۔ وہ اس کے ہاتھ سے زبردستی اپنا ہاتھ چھڑا رہی تھی اسکی آنکھوں کے غوشے بھی بھیگنے لگے تھے۔۔
آج رات کو دونوں ماں بیٹیاں تیار رہنا میں تم دونوں کو لینے آؤں گا شادی کی شاپنگ کروانی ہے۔۔
وہ غصے میں کہتا ہوا اسکی نازک کلائ کو بری طرح مڑوڑ رہا تھا۔۔
سمجھی تم۔۔
اسنے زور سے اسکا ہاتھ جھٹکا جس پر اب اسکی انگلیوں کے سرخ نشان بن چکے تھے،
وہ واپس گلاسز لگاتا ہوا اپنی کار کی طرف بڑھ رہا تھا جبکہ ازلفہ اپنے ہاتھ کو سہلانے میں مصروف تھی اسکے آنکھوں سے سمندر بہہ کر اسکا چہرہ تر کر رہا تھا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...