۔۔۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ میں نے پھر سےآنکھیں بند کرلیں، میری حالت اس کبوتر جیسی تھی، جو سامنے آئی مصیبت کو دیکھ کے آنکھیں موند لیتا ہے۔
جاسم نے برق رفتاری سے مجھے سائیڈ پہ کیا اور جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا، میں نے بھی خود کو سنبھالا اور کھڑی ہوگئی، فرش پہ کافی پانی تھی ، ہم دونوں کے کپڑے گندے ہوگئے تھے۔ میں دوپٹے سے اپنی قمیص صاف کرتی انکے گھر کے دروازے سے باہر نکل آئی۔ دل ہی دل میں میں یہی دعا کررہی تھی کہ خدایا جاسم کی امی نے ہمیں نہ دیکھا ہو۔
گھر پہنچی تو امی نے واویلہ مچا دیا کہ اتنی دیر کیوں لگا دی، میرے کپڑوں کی حالت دیکھ کے سوال پوچھنے لگیں۔ میں نے بتایا کہ فرش پہ پانی تھا پاؤں پھسلنے سے گر گئی۔ اتنے میں عابدہ آپی بھی ہمارے پاس آکے کھڑی ہو گئیں ،وہ منہ سے تو کچھ نہیں بولیں لیکن انکی خونخوار نظریں بہت کچھ کہہ رہی تھیں۔ میں جلدی سے کمرے میں گئی اور کپڑے بدل لیے۔
شام تک سارے مہمان ایک ایک کر کے چلے گئے،نادیہ آپی اور انکے شوہر نے بھی اجازت چاہی۔ سب کے جانے کے بعد عابدہ آپی نے بھی تیاری پکڑ لی۔ امی نے انھیں روکا بھی تھا لیکن ارشد بھائی جانے کے لیے بضد تھے۔ جاتے ہوئے عابدہ آپی نے پھر سے مجھے لمبا لیکچر دیا اور میں سر جھکا کے انکی ساری باتیں سنتی رہی۔
سب کے جانے کے بعد میں نے کھانا بنایا، امی اپنے کمرے میں ادس بیٹھی تھیں۔ میں بھی انکے ساتھ جا کے بیٹھ گئی تاکہ انکا من ہلکا ہو۔ دس بجے امی سونے لگیں۔ انھوں نے تاکید کی کہ اب نادیہ تو چلی گئی ہے اس لیے میں اپنے کمرے میں اکیلی سونے کی بجائے انکے ساتھ ہی سویا کروں۔ امی کی آنکھ لگی تو میں باہر صحن میں آگئی، جاسم کا میسج آیا ہوا تھا
“پکچر ابھی باقی ہے۔۔۔!”
میں نے ریپلائی کیا
“کونسی پکچر۔۔۔۔ ؟”
“وہی جو آج تم ادھوری چھوڑ کے گئی ہو”
میں نے غصے والی سمائیلی بھیج دی
اگلے کئی دنوں تک ، جاسم رات میں گھر آنے کی ضد کرتا رہا لیکن میں نے اسکی ایک نہ مانی۔ جو غلطی میں پہلے کر چکی تھی دوبارہ اسے دوہرا نہیں سکتی تھی ۔ کچھ دن مزید گزرے تو اس نے باہر کہیں ملنے کے ضد لگا لی، میں نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ میری کوئی بات سننے کا تیار نہ تھا۔ بالآخر مجھے ہی ہتھیار ڈالنے پڑے۔ بازار سے سامان لانے کے بہانے میں اس سے ملنے چلی گئی، میں سمجھی کہ آج بھی ہم اسی برگر شاپ پہ جائیں گے لیکن اس نے کہا کہ نہیں آج اسکے ایک دوست کا گھر خالی ہے وہاں چلتے ہیں۔ اسکی یہ بات سن کے میں ٹھٹکی، میں نے صاف طور پہ منع کردیا کہ میں وہاں نہیں جاؤں گی۔ وہ مجھ سے ناراض ہوا۔ میں نے بھی ضد ٹھان لی ۔ جب اسکی میرے سامنے ایک نہ چلی تو ہم برگر شاپ پہ چلے گئے، اسکا رویہ بہت روکھا تھا۔ میرا بھی لیا دیا سے انداز تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ مجھے چوک سے پہلے والی گلی میں چھوڑ کے چلا گیا۔
اگلے دو دن تک اس نے مجھ سے ٹھیک طرح سے بات نہیں کی۔ میں بھی اس سےخفا تھی۔ بالآخر ہماری صلح ہوگئی۔ وہ مجھ سے شکائیت کرتا رہا کہ میں اس پہ اعتماد نہیں کرتی، لیکن میرا جواب اب بھی وہی تھا کہ مجھے تم پہ تو یقین ہے پر کون جانے کب ہم دونوں شیطان کے بہکاوے میں آکے غلط قدم اٹھا لیں۔
اگلی صبح جاسم کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے دوستوں کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں گھومنے کے لیے جارہا ہے۔ وہاں پہ نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے وہ مجھ سے بات نہیں کر پائے گا۔ میں اداس ہوگئی۔ جاتے جاتے اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ واپس آتے ہی اسکا سب سے پہلے کام اپنے والدین کو منانا ہے۔ اور اس نے یہ بھی یقین دلایا کہ وہ انھیں منا کے ہی رہے گا۔ میں خوش ہوگئی، بلآخر اس معمالے میں وہ سنجیدہ تھا۔ میں نے یہی سوچا کہ جہاں اتنے دن انتظار کیا ہے وہاں کچھ دن اور سہی۔۔۔
اسی دن شام میں عابدہ آپی کا فون آیا، انکا سب سے پہلا سوال یہی تھا کے جاسم کے گھر والے کب آرہے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ جاسم دوستوں کے ساتھ گھومنے چلا گیا ہے، واپسی پہ آکے وہ اپنے گھر والوں سے بات کرے گا۔ میری یہ بات سنتے ہیں عابدہ آپی نے فون پہ چلانا شروع کردیا
“دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا، وہ تمہیں مسلسل بیوقوف بناتا جا رہا ہے اور تم بن رہی ہو، ہوش کے ناخن لو۔۔۔۔”
“آپی ۔۔ ! ایسا کچھ نہیں ہے ، وہ آکے ضرور بات۔۔۔۔۔۔۔۔” میں جاسم کی سائیڈ لینے کی کوشش کررہی تھی
“نادیہ کی شادی کو کتنے دن ہوگئے ہیں؟ گن کے بتاو۔۔۔؟” وہ میری بات کاٹ کے بولیں
“آں۔۔۔ وہ۔۔۔ میرے خیال میں” میں انگلیوں پہ گننے لگی
“ایک مہینہ اور گیارہ دن۔۔۔۔۔ ! ”
“ہاں۔۔ بالکل”
“اس عرصے میں اس نے ابھی تک اپنے والدین کے کانوں میں بات نہیں ڈالی، تو تم کس آس پہ اسکا انتظار کررہی ہو؟”
“آپی۔۔۔۔۔۔! تسلی رکھیں وہ مجھے دھوکہ نہیں دے گا، بہت پیار کرتا ہے مجھ سے۔۔۔۔”
“یہ جھوٹی تسلیاں تم خود کو دو۔۔۔۔ مجھے بھروسہ نہیں ہے۔ اب میری بات دھیان سے سنو، نادیہ نے مجھے کل فون کیا تھا، اس نے بتایا کہ اسکی ساس اپنے چھوٹے بیٹے کا رشتہ تم سے کرنا چاہتی ہیں۔اس سلسلے میں نادیہ نے امی کو بھی آگاہ کردیا ہے۔ امی نے مجھے فون کرکے رائے لی تو میں نے سوچا کہ پہلے تم سے بات کرلوں کی اگر اس لڑکے کا ارادہ ہے تو میں امی کو منا لیتی ہوں ، لیکن یہاں تو کہانی ہی الگ چل رہی ہے۔ میں ابھی امی کو فون کرتی ہوں اور کہہ دیتی ہوں کہ بنا کسی تاخیر کے وہ تمہارا رشتہ پکا کردیں” انھوں نے میرے اوپر بم گرادیا
” آپی۔۔۔ ! میری مرضی کے بنا آپ لوگ ایسا کیسے کرسکتے ہیں” میری آواز بھرائی
“تم نے جو عشق بازی کے چکر چلائے ، ہم سے مشورہ لیا تھا؟ اب میرا منہ مت کھلوا چھوٹی۔۔۔ اگر وہ لڑکا ایک فیصد بھی تیار ہوتا تم سے شادی کے لیے تو سب سے پہلے میں ساتھ دیتی لیکن وہ جھوٹا اور دھوکے باز ہے، میں تمہیں اسکے کے لیے زندگی برباد نہیں کرنے دوں گی” انکا فیصلہ اٹل تھا
“آپی ۔۔۔ پلیز۔۔۔۔ ایسا ظلم مت کریں”
“ظلم تم کررہی ہو اپنے ساتھ۔۔۔۔ میں تمہاری اور کوئی بکواس نہیں سننا چاہتی۔ امی تم سے اس بارے میں بات کریں گی بنا چوں چراں کیے تم ہاں بول دینا۔ اور خبرادر امی کے سامنے اس لڑکے کا ذکر بھی کیا تو۔۔۔۔۔”انھوں نے مجھے دھمکی دے کے کال کٹ کردی
میرے تو ہو ش اڑ گئے ، یہ آناً فاناً ہو کیا رہا ہے میرے ساتھ۔ میں نے جاسم کا نمبرڈائل کیا، لیکن نمبر بند تھا۔ میں مسلسل ٹرائی کرتی رہی لیکن کال نہیں ملی۔ اف میرے خدایا۔۔۔ کسی طرح جاسم سے میری بات ہوجائے۔۔۔۔۔میں کسی زخمی پرندے کی طرح گھر میں ادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھی۔ امی نے دو چار بار آکے مجھ سے پوچھا بھی کہ میری ہوائیاں کیوں اڑی ہوئی ہیں۔ پر میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ کئی منتیں اور شکرانے کی نوافل ماننے کے بعد رات کے ایک بجے جاسم کے نمبر پہ بیل جانے لگی۔ اس نے فون اٹھایا
” جاسم۔۔۔ !”
“ہیلو۔۔۔ !” اسکی طرف سے بالکل آواز نہیں آرہی تھی۔ شائید نیٹ ورک کا مسئلہ تھا
“ہاں ۔۔ بولو۔۔۔ اب آواز آرہی ہے۔۔۔” بالآخر اسکی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ لیکن ساتھ ہی کال کٹ ہوگئی
میں نے دوبارہ اسکا نمب ڈائل کیا۔ نمبر بند ملا۔۔۔۔ میں مسلسل ٹرائی کرتی رہی، یہاں تک کے صبح ہوگئی، جاسم کا نمبر آن نہیں ہوا۔ میرے دل میں طرح طرح کے سوال اٹھ رہے تھے۔ کہیں عابدہ آپی کی بات سچ نہ ہوجائے۔ خدایا۔۔۔۔ جاسم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا۔ رات سے صبح اور صبح سے دوپہر ہوگئی لیکن جاسم کا نمبر مسلسل بند رہا۔ دوپہر میں عابدہ آپی نے دوبارہ مجھے فون کیا اور بتایا کہ امی نے اس اتوار کو سبھی بہنوں کو گھر پہ بلایا ہے، نادیہ اور اسکے سسرال والے بھی آئیں گے۔
میرے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے، دو دن بعد تو اتوار تھا۔ یہ سب کیسے روکوں؟جاسم سے بھی رابطہ نہیں ہو پایا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ میں پاگلوں کی طرح اس کا نمبر ڈائل کرتی رہی۔ بالآخر میں نے ہتھار ڈال ہی دئیے۔ عابدہ آپی کی ہر بات سچ تھی، میں اب تک ایک جھوٹ کے پیچھے بھاگتی رہی ہوں۔ میرے دل میں وہ درد اٹھا کہ سانس لینا دشوار ہوگیا تھا۔ جاسم نے میرے جذبات مٹی میں روند ڈالے ۔
اتوار کی صبح شمسہ آپی سب سے پہلے پہنچیں۔ امی اور شمسہ آپی نے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور سمجھانے لگیں کہ جب نادیہ آپی کے سسرال والے آئیں گے تو مجھے انکے سامنے کیسے خود کو پیش کرنا ہے۔ میں سر جھکائے انکی ہر بات سنتی رہی۔ اتنے میں عابدہ آپی بھی آگئیں۔ امی نے عابدہ آپی سے کہا کہ وہ مجھے تیار کردیں۔ وہ مجھے لے کے کمرے میں آ گئیں۔
آج انکا روّیہ قدرے ٹھیک تھا۔ وہ میری الماری سے میرے سوٹ نکال کے دیکھنے لگیں ۔ اور میں گم سم سی بیڈ پہ بیٹھ گئی
“یہ کیسا رہے گا۔۔۔۔؟” وہ میرے لیے سوٹ منتخب کرنے لگیں
میں نے کوئی جواب نہیں دیا
“چھوٹی۔۔۔۔” ایک سوٹ ہاتھ میں پکڑے وہ میرے سامنے آکے کھڑی ہوگئیں
“جی۔۔۔۔ !” میں بولی
“کیا ہوا؟” انھوں نے سوال کیا
میں نے حیرانی سے انکی طرف دیکھا۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ انجان بن رہی تھیں۔ وہ میرے پاس آکے بیٹھ گئیں اور میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے بولیں
“گڑیا۔۔۔ ! ضروری نہیں کہ ہمیں وہ سب کچھ ملے جس کی ہم نے خواہش کی ہے۔ اگر مجھے ذرا سا بھی لگتا کہ وہ لڑکا ساتھ نبھائے گا، میں سب سے پہلے تم لوگوں کاساتھ دیتی”
مجھ سے کوئی بات نہیں ہو پائی۔ میں نے انکے کندھے پہ اپنا سر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ انھوں نے مجھے گلے لگایا، اور بولیں کہ جی بھر کے رو لو اور وعدہ کرو کے آج کے بعد اسکے لیے ایک بھی آنسو نہیں بہاؤ گی۔ کچھ دیر رو نے کے بعد جب میرا من ہلکا ہوا تو انھوں نے میرے سامنے ہرے رنگ کا سوٹ رکھ دیا اور بولیں کہ آج یہ پہننا۔ تم پہ بہت جچے گا۔ ہرا رنگ دیکھتے ہی مجھے جاسم یاد آگیا۔ میں نے اس سوٹ کے لیے منع کردیا۔ اور اسکی جگہ نیلے رنگ کا سوٹ منتخب کیا۔ جس پہ سفید رنگ کی کڑھائی ہوئی تھی۔
شام ہوئی تو نادیہ آپی اپنے شوہر ، ساس سسر اور دیور (جس سے میرا رشتہ پکا ہورہا تھا) سمیت ہمارے گھر پہنچیں۔ میری دھڑکنیں پھر سے تیز ہوئیں۔ میں نے کل رات آخر ی بار جاسم کا نمبر ٹرائی کیا ، جب پھر بھی آف ملا تو میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ پھر کبھی اس سے رابطہ نہیں کروں گی۔ لیکن دل تھا جو پھر سے سارے وعدے توڑنے کو تیار تھا۔ میں نے بامشکل خود پہ قابو رکھا۔
میری ساری بہنیں اور بہنوئی نادیہ آپی کے ساس سسر اور دیور کے ساتھ باتوں میں مشغول تھے۔ میں نے ان لوگوں کو سلام کیا اور اپنے کمرے میں آکے بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر میں عابدہ آپی آئیں اور میری گود میں اپنے بیٹے کو لٹا کے بولیں کہ تم اکیلی بور ہورہی ہوگی اس لیے میرا بیٹا تمہیں کمپنی دینے آیا ہے۔ میں بے حس و حرکت وہیں بیٹھی رہی۔ شائد میری روح گہری نیند میں چلی گئی تھی، صحن سے آتی قہقہوں کی آوازیں بھی میری روح کو جگانے میں ناکام رہیں۔ کھانے کے بعد نادیہ آپی میرے ساتھ آکے بیٹھیں، وہ اپنے دیور کی تعریفیں کرتی رہیں ، اور اپنی خوشی کا اظہار بھی کیا کہ سسرال میں بھی بہن کا ساتھ مل رہا ہے۔ میں ہوں ۔۔۔ہاں میں جواب دیتی رہی۔ وہ اٹھ کے گئیں تو شمسہ آپی آگئیں۔۔
“چھوٹی۔۔۔ نادیہ کی ساس کو ایسا کیا گھول کے پلایا ، وہ تو تمہاری تو مرید ہوگئی ہیں ۔۔۔۔” شمسہ آپی عادتاً ایسی ہی تھیں، چھوٹی سے چھوٹی بات بھی طنزیہ لہجے میں کرتیں۔ میں جواباً پھیکی ہنسی ہنسنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد نادیہ آپی مجھے باہر لے گئیں، اور امی کے ساتھ جا کے بٹھا دیا۔ سب نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے، اور میں بس یہی سوچتی رہی کہ اب کیا مانگوں۔۔۔۔؟
“امی۔۔۔ آپکو پتا ہے، آپکی کی سالوں پرانی رسم کو آج ہم پورا کریں گے” نادیہ آپی چہک کے بولیں
“کونسی رسم۔۔۔۔؟” شمسہ آپی نے پوچھا
“ارے۔۔۔ امی کی کانچ کی چوڑیوں والی رسم۔۔۔۔۔۔ چھوٹی کے لیے چوڑیا ں ہم لوگ لائے ہیں اور پہنائیں گے بھی خود ہی” نادیہ آپی نے جواب دیا
ان کے شوہر نے ایک بیگ اپنی ماں کی طرف بڑھایا اور انھوں نے اس بیگ سے کانچ کی چوڑیوں کا سیٹ نکالا۔ اس سیٹ پہ لپٹا سنہری کاغذ ہٹا کے انھوں نے مجھے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں اٹھ کے انکے پاس بیٹھ گئی۔ انھوں نے میرا بایاں ہاتھ پکڑا اور دو دو چوڑیاں میری کلائی میں چڑھانے لگیں۔ میری نظریں گلابی رنگ کی چوڑیوں پہ جمی تھی۔ دل میں اٹھتے طوفانوں پہ قابو پانا اب مشکل ہوگیا تھا، میری آنکھیں برس ہی پڑیں۔ آنسووں کے چند قطرے ان چوڑیوں سے جاکے ٹکرائے جن چوڑیوں کی کھنک نے میرے خواب مجھ سے چھین لیے تھے۔
“بیٹا یہ ریت ہے دنیا کی، ہر بیٹی کو ماں باپ کا گھر چھوڑ کے جانا ہی پڑتا” نادیہ آپی نے انتہائی شفقت سے میرے گالوں سے آنسو صاف کیے
جب انھوں نے ساری چوڑیاں میری کلائی مین چڑھا دیں تو امی کی آواز آئی
“چھوٹی۔۔۔ ! ان میں سے ایک بھی چوڑی ٹوٹنے نہ پائے، ورنہ تمہاری خیر نہیں ہے” انھوں نے مجھے دھمکی دی
“ہاں چھوٹی۔۔۔۔ اسے دھمکی مت سمجھنا، امی نے بالکل معافی نہیں دینی۔ جب میرا رشتہ پکا ہوا تھا مجھ سے غلطی سے دو چوڑیا ں ٹوٹیں توجھاڑو سے پٹائی ہوئی تھی۔ میرا رو رو کے برا حال تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عابدہ یاد ہے نا تجھے؟” شمسہ آپی کو اپنا وقت یاد آگیا
“ہاں۔۔۔ میں کیسے بھول سکتی ہوں۔۔۔۔ اف۔۔۔۔ وہ دن یاد کرکر کے تو میں نے اپنی چوڑیاں نہیں ٹوٹنے دیں” عابدہ آپی نے جواب دیا
سب ہنسنے لگے۔ نادیہ اور عابدہ آپی نے سب میں مٹھائی تقسیم کرنا شروع کی۔ تھوڑی دیر میں نادیہ آپی کی ساس جو کہ اب میری بھی ساس ہونے کا حق محفوظ رکھتی تھیں، واپس جانے کے لیے کھڑی ہوگئیں۔ امی نے ان سے درخواست کی کہ نادیہ آپی اور انکے شوہر کو آج یہیں رہنے دیں، صبح نذر نیاز دینی ہے تو سبھی بیٹیوں کا ہونا ضروری ہے۔ انھوں نے خوش دلی سے اجازت دی اور اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ گھر واپس چلی گئیں۔
رات ہوئی تو میری تینوں بہنیں میرے کمرے میں آگئیں، سب نے اپنے اپنے وقت کے قصے سنائے، رات کے گیارہ بجے شمسہ آپی سونے کے لیے امی کے کمرے میں چلی گئیں، تھوڑی دیر بعد عابدہ آپی نے نادیہ آپی کو انکے شوہر کے پاس بھیج دیا۔ سب کے جانے کے بعد وہ مجھے تسلی دینے لگیں کے سب اچھا ہوگا بس میں جاسم کو بھول جاؤں اور ایک نئے سرے سے زندگی کی شروعات کروں۔ انکے سامنے تو میں سر ہلاتی رہی لیکن دل کو کون سمجھائے۔ جو کسی تسلی پہ راضی نہ تھا۔ رات گزر گئی لیکن ایک پل کے لیے آنکھ نہ لگی
صبح امی نے نذر نیاز کا انتظام کیا۔ آس پاس کے گھروں میں نیاز بھجوائی۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سب سے آخر میں انھیں جاسم کا گھر یاد آیا۔ میری ساری بہنیں اپنے اپنے گھر جانے کی تیاری میں لگی تھیں۔ امی نیاز کی پلیٹ لے کے میری طرف آئیں اور بولیں کہ سارے بچے نکل گئے ہیں تم جاکے جاسم کی امی کو یہ نیاز دے آو۔ میں ہڑا بڑائی لیکن وہ بضد تھیں۔ جس گھر میں جانے کے میں بہانے ڈھونڈتی تھی، آج وہاں جانا محال ہورہا تھا۔ امی کو کیا خبر کہ اگر میں وہاں گئی تو میرے دل میں سلگتی آگ کیسے شعلہ بن کے مجھے راکھ کردے گی۔ جب وہ کسی صورت نہ ٹلیں تو مجھے چارو ناچار جانا پڑا۔
بوجھل قدم اٹھاتی میں انکے دروازے تک پہنچی، دروازہ کھٹکھٹایا ۔ چند لمحے بعد دروازہ کھلا سامنے جاسم کی امی کھڑی تھیں۔
“ارے ۔۔۔ بیٹا تم۔۔۔ آؤ اندر آجاؤ” وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔
نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے وہ دہلیز پار کر لی
“آنٹی۔۔۔ ! امی نے یہ نیاز بھجوائی ہے” میں نے پلیٹ انکی طرف بڑھا دی۔ واش روم کا دروازہ کھلنے کے آواز پہ میں چونکی۔ مڑ کے دیکھا رتو جاسم نہا کے باہر نکل رہا تھا۔ میرا دل بے قابو ہو نے لگا۔ میں نے اس سے نظریں چرائیں۔ اس نے پل بھر مجھے دیکھا، پھر واش روم کے باہر لگے شیشے میں اپنے بالوں میں کنگھی کرنے لگا
” چوڑیاں تو بہت پیاری ہیں تمہاری۔۔۔۔ کہاں سے لیں؟” جاسم کی امی نے پوچھا
“آنٹی ۔۔۔ میرا رشتہ پکا ہوگیا ہے۔ آپکو تو پتا ہے رشتہ پکا ہونے پہ امی کانچ کی چوڑیاں ڈال دیتی ہیں۔۔۔۔” میں نے جان بوجھ کے اونچی آواز میں انھیں بتایا
“ماشاء اللہ۔۔۔۔ تمہاری ماں نے چپ چاپ ہی رشتہ پکا کردیا ۔ کہاں رشتہ ہوا ہے؟” وہ خفگی سے بولیں
“نادیہ آپی کے دیور کے ساتھ۔۔۔۔۔ اسی کے لیے تو امی نے نذر نیاز دلوائی ہے” میں نے جواب دیا
چھت سے پرندوں کا شور آنے لگا۔ جاسم کی امی پلیٹ میرے ہاتھ پہ رکھ کے بولیں کہ میں جاکے انکے کیچن میں رکھ دوں ۔ انھوں نے گندم دھوپ میں ڈالی تھی ، وہ جلدی سے چھت پہ پرندے اڑانے چلی گئیں۔ میں انکے کچن کی طرف بڑھی، میرے پیچھے پیچھے جاسم بھی آگیا
“ہوگیا رشتہ پکا۔۔۔۔؟” اسکی آواز میرے کان میں پڑی تو میں نے مڑ کے اسکی طرف دیکھا
“تم سے مطلب؟” میں تنک کے بولی
“ویسے تو بڑی بڑی باتیں کرتی تھی، گھر والوں کو نہیں روک پائی؟” وہ طنزاً بولا
“کس کے لیے روکتی۔۔۔۔؟ اس کے لیے جو مجھے پھانسی پہ لٹکا خود سیر کرنے نکل گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ جاسم صاحب جس کے بھروسے پر میں دعوے کرتی تھی وہ مجھے بیچ راستے چھوڑ کے بھاگ گیا ۔۔۔۔۔ ویسے دعوے تو آپکے بھی بڑے بڑے تھے۔۔۔۔۔ کیا ہو انکا؟” میں چڑ گئی
“میں نے تمہیں کہا تھا تھوڑا رک جاؤ۔۔۔۔۔۔ ”
“کتنا۔۔۔۔ ایک سال؟ دو سال ؟ یا دس سال؟”
“مجھے بحث نہیں کرنی یار۔۔۔۔۔ ” وہ اکتا کے بولا
“بحث کا وقت چلا گیا ہے” میں نے پلیٹ انکی فریج میں رکھی اور کیچن سے باہر نکل آئی ، وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آگیا۔ میرے اندر شعلے جل رہے تھے۔ میں نے پھر سے مڑ کے اسکی طرف دیکھا اور بولی
“تم میں ذرا بھی مردانگی ہوتی تو آج یہ دن نہ آتا ہماری زندگی میں ” یہ کہہ کے میں دروازے کی طرف بڑھی۔
وہ میری طرف لپکا اور کلائی سے پکڑا لیا
“مردانگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو میں دکھاتا ہوں تمہیں کہ مردانگی کیا ہوتی ہے” وہ غصے سے لال پیلا ہوگیا
میری کلائی سے پکڑ کے لگ بھگ گھسیٹے ہوئے اپنے کمرے میں لے گیا۔ میں چلاتی رہی کہ میرا ہاتھ چھوڑو اور جانے دو۔ اس نے میری ایک نہ سنی، ایک دھکے سے اس نے مجھے اپنے بیڈ پہ گرایا۔ وہ کمرے کا دروازہ بند کرنے لگا،میں جلدی سے بیڈ سے اٹھی اور دروزے کی طرف بڑھی، اس نے میری چوڑیوں والی کلائی پکڑی۔ میرا ہاتھ پوری طرح مروڑ کے میری پیٹھ پہ لے گیا۔ دوسرا ہاتھ میری کمر پہ رکھ کے اس نے اپنا جسم میرے جسم کے ساتھ لگا لیا۔ میں چلائی
“جاسم۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے ، چھوڑو مجھے۔۔۔۔ پلیز” میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس نے اپنی گرفت اور مظبوط کرلی۔ اسکی درندگی
میری پاکیزگی پہ حاوی تھی۔۔۔۔
میری کلائی پہ بے بسی کے نشانی ڈالتی میری چوڑیاں کرچیوں میں بٹ کر فرش پہ پھیل گئیں۔ اور میری چوڑیوں کی “کھنک” ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...