وہ کوریڈور میں آیا تو نظر نور پر پڑی جو اپنی امی کے ساتھ بیٹھی تھی۔
وہ خاموشی سے وائز کے کمرے میں آ گیا۔
“ہاں جی شوق پورا ہو گیا آپ کا؟”
وہ وائز کو گھورتا ہوا بولا۔
وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا۔
“میں نے سوچا کچھ میری بھی خدمت ہونی چائیے۔”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“اچھا طریقہ ہے خدمت کروانے کا۔۔۔ بھابھی آپ کی امی آئی ہیں کھانا لے کر۔”
وہ کہتا ہوا سائیڈ پر بیٹھ گیا۔
“اچھا۔۔۔ ”
مختصر سا جواب آیا۔
“جاؤ تم۔۔۔ ”
وائز زرش کو دیکھتا ہوا بولا۔
“چلی جاؤں گی۔۔۔ ”
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
“ابھی جاؤ پتہ نہیں کب سے بھوکی ہو۔۔۔ ”
وہ فکرمند ہوا۔
احسن دھیرے سے مسکرانے لگا۔
“جائیں بھابھی میں اس کے پاس ہوں۔”
اس نے عقب سے ہانک لگائی۔
وہ نا چاہتے ہوۓ بھی چلی گئی۔
“سانس اب ٹھیک آ رہا ہے؟”
وہ اس کے پاس آتا ہوا بولا۔
اس نے آہستہ سے سر کو خم دیا۔
“پھر کب تک گھر جانے کا ارادہ ہے؟ اب تو آکسیجن ماسک بھی ہٹا دیا۔ ویسے آپ نے ہمیں ہارٹ اٹیک دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔۔ ”
وہ بولتا ہوا بیٹھ گیا۔
“مجھے خود بھی امید نہیں تھی۔”
وہ نم آنکھوں سے دیکھتا ہوا مسکرایا۔
وہ نظروں کا زاویہ موڑتا مسکرانے لگا۔
~~~~~~~~
“امی آپ کیوں ضد کر رہی ہیں؟ ایک دو دن تک مل جاےُ گی چھٹی۔۔۔ ”
وہ فون کان سے لگاےُ بول رہا تھا۔
“میرا بیٹا ہسپتال میں ہے میں کیسے سکون سے بیٹھی رہوں؟”
وہ روہانسی ہو گئی۔
“امی آپ صبح مل کر گئیں ہیں وائز سے۔۔۔ ”
وہ جیسے یاد دہانی کروا رہا تھا۔
“ہاں تو کیا ہو گیا۔۔۔”
وہ خفگی سے بولیں۔
“بس بہت کر لی تم نے بات لاؤ اِدھر دو ہمیں فون۔۔۔ ”
رضی حیات کی گرج دار آواز گونجی۔
وہ گھبرا کر فون انہیں دیتی وہاں سے غائب ہو گئیں۔
“ہاں کیسی طبیعت ہے وائز کی؟”
وہ فون کان سے لگاتے ہوۓ بولے۔
“ان شاءاللہ ایک دو دن تک چھٹی مل جاےُ گی۔۔۔ ”
وہ ٹہلتا ہوا بولا۔
“ٹھیک ہے ہم نکلتے ہیں پھر۔۔۔ تمہیں کیا کام تھا؟”
وہ پیشانی پر بل ڈالتے ہوۓ بولے۔
“نہایت اہم کام ہے۔۔۔ آپ آئیں گے تو بتاؤں گا۔”
وہ لب کاٹتا ہوا بولا۔
“اچھا چلو ٹھیک ہے پھر انتظار کرو ہمارا۔۔۔۔”
کہتے ساتھ ہی فون بند ہو گیا۔
وہ وائز کے کمرے میں آیا تو زرش اسے سوپ پلا رہی تھی۔
“تم نے زرش کو گھر کیوں نہیں بھیجا؟”
وہ اسے دیکھتا گرجا۔
“بلکل ٹھیک ہوےُ نہیں اور پہلے والی ٹون میں واپس آ گئے۔۔۔ ”
وہ مصنوعی خفگی سے کہتا بیڈ کے پاس آ گیا۔
وائز نے گھورنے پر اکتفا کیا۔
“میں کیا کرتا آپ کی بیگم ضد کی پکی ہیں کسی نہیں سنتی۔۔۔ ”
وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا۔
“تمہیں میری بات سننی ہے زرش کی نہیں۔۔۔”
وہ زور دے کر بولا۔
“وائز میں کیسے چلی جاؤں؟”
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
“تمہارا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور میں کچھ نہیں سنوں گا۔”
وہ چہرے پر سختی طاری کئے اسے دیکھ رہا تھا۔
“نہیں۔۔۔ ”
وہ دھیرے سے منمنائی۔
“تم دوبارہ اس کمرے میں نہیں آؤں گی۔۔۔ ”
وہ انگلی اٹھا کر بولا۔
زرش ہکا بکا سی اسے دیکھنے لگی۔
“وائز یہ سب کیا؟”
وہ ششدر سی بولی۔
“یہ بھی لے جاؤ مجھے نہیں کھانا۔۔۔ ”
وہ بےرخی سے بولا۔
وہ نفی میں سر ہلاتی وہاں سے چلی گئی۔
احسن جو تب سے خاموش تھا اب بول پڑا۔
“یہ سب کیوں؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“اس حالت میں اس کا ہاسپٹل میں رہنا ٹھیک نہیں۔۔۔ میں جانتا ہوں وہ ایسے ہی سمجھے گی۔”
وہ خفا انداز میں بولا۔
“لیکن آپ انہیں نرمی سمجھا سکتے تھے۔”
“نہیں مانتی وہ ایسے جانتا ہوں اچھے سے میں۔۔۔ ”
وہ احسن کو دیکھتا ہوا بولا۔
“چلیں پھر بابا سائیں کے ساتھ بھیج دوں گا آج انہیں۔۔۔ ”
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
“میں نہیں چاہتا اتنے قریب آ کر کوئی مسئلہ در پیش آےُ۔۔۔ میرے لئے میری بیوی اور بچہ مجھ سے بھی پہلے ہیں۔ میں تو اب ٹھیک ہوں ایک دو دن تک گھر چلا جاؤں گا پھر اس کے پاس ہی رہنا ہے اور مجھے کہاں جانا ہے؟”
وہ تکیے سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
“ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔۔ میں انہیں دیکھتا ہوں۔”
وہ دروازے کی جانب قدم اٹھاتا ہوا بولا۔
“آپ ٹھیک ہیں؟”
وہ باہر نکلتا ہوا بولا۔
وہ سر جھکاےُ بیٹھی تھی۔
“بھابھی؟”
اسے خاموش پا کر وہ پھر سے بولا۔
“ہممم ٹھیک ہوں۔ بابا سائیں کب آئیں گے؟”
اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی جو رونے کی چغلی کھا رہی تھی۔
“نکل گئے ہوں گے اب تک۔۔۔ ”
وہ گھڑی پر نظر ڈالتا ہوا بولا۔
“آپ یہیں پر رہنا مجھے کچھ کام سے جانا ہے۔۔۔ ”
وہ جیب میں ہاتھ ڈالے اسے دیکھ رہا تھا۔
“تم فکر مت کرو۔۔ ”
وہ سنبھل چکی تھی۔
وہ مسکراتا ہوا چل دیا۔
~~~~~~~~
“احسن کب تک حیا یہاں رہے گی؟ اب تو اس کے زخم بھی مندمل ہو گئے ہیں۔۔۔۔ ”
وہ پریشان تھا۔
احسن اثبات میں سر ہلاتا حیا کو دیکھنے لگا۔
“چلو میں تم دونوں کو چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔ ”
وہ باری باری دونوں کو دیکھتا ہوا بولا۔
“نہیں ہم چلے جائیں گے۔۔۔ ”
عمر نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
“مجھے ساتھ جانا ہے۔”
وہ ایک نظر اس پر ڈالتا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
عمر شانے اچکاتا حیا کو اشارہ کرتا دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔
گاڑی تنگ و تاریک گلیوں سے گزر رہی تھی۔
“یہاں سے آگے گاڑی نہیں جاےُ گی۔۔۔ ”
حیا جو پچھلی نشست پر بیٹھی تھی سامنے دیکھتی ہوئی بولی۔
“ٹھیک ہے۔”
وہ بیک مرر میں حیا کو دیکھتا ہوا بولا۔
وہ دونوں شکریہ ادا کرتے باہر نکل گئے۔
احسن گاڑی لاک کرتا ان کے عقب میں چلنے لگا۔
“تم کیوں آ رہے ہو؟”
حیا قدموں کی آہٹ پر گردن گھما کر اسے دیکھنے لگی۔
“مجھے کچھ کام ہے۔۔۔ ”
وہ کہتا ہوا ان سے آگے نکل گیا۔
عمر لاعلمی ظاہر کرتا اس کے ہمراہ چلنے لگا۔
“لے آےُ ہو اس جاہل کو۔۔۔ ”
گھر میں قدم رکھتے ہی زاہد کی آواز سنائی دی۔
“کون سا ظلم کر دیا تھا جو اتنے دن ہاسپٹل سے نہیں نکلی یہ؟”
وہ عمر کو دیکھتا ہوا دھاڑا۔
بیرونی دروازہ کھلا تھا۔
احسن اس معمولی سے گھر کو دیکھتا اندر آ گیا۔
“کون ہو تم بھائی؟”
اس سے قبل کہ عمر کچھ بولتا زاہد پیشانی پر بل ڈالے احسن کو دیکھنے لگا۔
“مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔ ”
وہ وہاں موجود افراد کو دیکھتا آگے بڑھنا لگا۔
“ہم تو نہیں جانتے تمہیں۔۔۔ ”
نہایت بداخلاقی سے جواب آیا۔
“میں حیا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ ”
اس نے گویا بم پھوڑا۔
سب کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
حیا گردن گھما کر پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
“کون سا عاشق ہے یہ تیرا؟ کیا کرتی پھر رہی ہے تو؟”
وہ حیا کو بالوں سے دبوچتا ہوا بولا۔
“بھائی میں نہیں جانتی یہ کیوں ایسا بول رہا ہے۔۔۔ ”
وہ درد سے کراہتی ہوئی بولی۔
حیا کی ماں ایک کونے میں کھڑی آہیں بھر رہی تھی۔
“حیا کا اس میں کوئی قصور نہیں۔۔۔۔”
وہ زاہد کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔
وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھنے لگا۔
“تم تو۔۔۔۔”
وہ پہچاننے کی سعی کر رہا تھا۔
“میں رضی حیات کا چھوٹا بیٹا ہوں۔۔۔ آپ حیا کی شادی مجھ سے کر دیں۔”
وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوا بولا۔
“کیوں؟ تم کیوں میری بہن سے شادی کرنا چاہتے ہو؟”
وہ تفتیشی انداز میں بولا۔
“مجھ سے زیادہ پیسہ اس ساٹھ سال کے آدمی کے پاس نہیں ہوگا۔ لیکن دوبارہ حیا کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤ گے تم۔۔۔ ”
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
“اوہ۔۔ تو اس نے تمہیں کہانی سنائی ہے؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“مجھے اس سب سے کچھ نہیں لینا دینا۔۔۔ جواب چائیے میرے بابا سائیں آ رہے ہیں اگر ہاں تو میں مولوی صاحب کو ساتھ لے کر آؤں؟”
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
حیا کبھی زاہد کو دیکھتی تو کبھی احسن کو۔
آخر تم کیوں یہ سب کر رہے ہو؟ وہ پوچھنا چاہتی تھی لیکن زاہد کے سامنے بول نہ سکی۔
“ہممم ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“کچھ ہی دیر میں آؤں گا نکاح کی تیاری کر لینا۔”
احسن ایک نظر حیا پر ڈالتا باہر نکل گیا۔
“سچ سچ بتانا یہ عاشق ہے نہ تمہارا؟”
وہ حیا کی بازو پکڑتا ہوا بولا۔
“بھائی مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔۔ ”
وہ اس کے زخم پر ہاتھ رکھے ہوۓ تھا۔
“چھوڑ دو اب تو اس کی جان۔۔۔۔”
صفیہ دونوں کے وسط میں آتی ہوئی بولی۔
“امی ہٹ جائیں آپ میں اس بےغیرت سے پوچھ کے رہوں گا۔۔۔ ”
وہ بل کھاتا ہوا بولا۔
عمر خاموش تماشائی بنا ہوا تھا۔
“ایک ہی بار میرا گلا کیوں نہیں دبا دیتے آپ۔۔۔۔ اس کے بعد بھی دل نہ بھرے تو میری قبر پر لکھ دیتا باقی کی تکلیفیں۔”
وہ ضبط کی انتہا پر کھڑی چلا رہی تھی۔
“حیا خاموش ہوجاؤ خدا کے واسطے۔۔۔ ”
صفیہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی۔
“میرے آگے زبان چلاؤ گی تم؟ اتنی ہمت آ گئی ہے؟”
وہ آگے بڑھتا ہوا بولا۔
“خدا کے لئے بس کر دو۔۔۔ ہر روز ایک نیا تماشا کھڑا کیا ہوتا ہے تم لوگوں نے۔”
وہ پھٹ پڑیں۔
“اپنی اس آوارہ بیٹی کو سمجھا لیں خود ہی ورنہ میں خود سمجھا لوں گا۔”
وہ قہر آلود نظر ڈالتا باہر نکل گیا۔
حیا ہچکیاں لیتی کمرے میں بھاگ گئی۔
“عمر وہ کیوں حیا سے شادی کرنا چاہتا ہے؟”
صفیہ اشک صاف کرتی ہوئی بولی۔
“تائی امی وہ ہمارا کلاس فیلو ہے۔۔۔ لیکن مجھے بھی سمجھ نہیں آیا وہ کیوں حیا سے شادی کرنا چاہتا ہے؟”
وہ لاعلمی سے شانے اچکاتا ہوا بولا۔
“اچھا اتنے دن ہاسپٹل میں کیوں رہے؟ خرچا کہاں سے کیا تم نے؟”
وہ تشویش سے بولیں۔
“احسن نے کیا خرچا۔۔۔ وہ جو ابھی آیا تھا نہ۔”
وہ کمرے کی جانب دیکھتا ہوا بولا۔
“چلو ﷲ تمہیں خوش رکھے تم ہمیشہ برے وقت میں ہمارے کام آےُ ہو۔”
وہ اس کے سر پر پیار دیتی ہوئی بولیں۔
“بس تائی امی آپ کی دعا چائیے۔۔۔”
وہ کہتا ہوا منہ دھونے چل دیا۔
“میں سالن گرم کر دیتی ہوں روٹی کھا لو تم۔۔۔ اس بھاگ دوڑ میں تھک گئے ہو گے۔”
وہ فکر سے کہتی باورچی خانے میں چلی گئی۔
~~~~~~~~
“میں نے تمہیں یہاں سے جانے کو بولا تھا؟”
وہ سوالیہ نظروں سے زرش کو دیکھ رہا تھا۔
“تم کیسے میرے ساتھ اتنے تلخ ہو سکتے ہو؟”
وہ شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“تمہاری بھلائی کے لئے۔۔۔ اس وقت تمہیں اپنا خیال رکھنا چائیے اور یہ میری صحت سے زیادہ اہم ہے کیونکہ تمہارے ساتھ ایک اور جان بھی جڑی ہے۔”
اب کہ وہ نرمی سے بولا۔
“لیکن میں کیسے چلی جاؤں تمہیں چھوڑ کر ؟”
وہ چہرہ جھکا کر بولی۔
“تم کہو گی تو کل ہی آ جاؤں گا۔۔ ”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“نہیں جب تک ڈاکٹر چھٹی نہیں دیں گے تم گھر نہیں آؤ گے۔۔۔ ”
وہ نفی میں سر ہلاتی قطعیت سے بولی۔
“اچھا تم اس دن کیا کہہ رہی تھی؟ کہ میں نے معاف کر دیا تھا لیکن بیچ میں؟ کیا بیچ میں؟”
وہ الجھا ہوا تھا۔
“وہ کسی نے انجان نمبر سے مجھے تمہاری ویڈیو اور تصویریں بھیجی تھیں۔۔۔”
وہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔
“فون دو اپنا؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“کیا کرو گے تم؟”
وہ فون اس کے ہاتھ پر رکھتی ہوئی بولی۔
“ٹھیک ہے یہ لو۔۔۔ ”
وہ نمبر اپنے فون میں سیو کرتا ہوا بولا۔
“اب تم گھر جاؤ اور آرام کرو۔۔۔۔ جب میری یاد آےُ تو کال کر لینا، لیکن صرف ویڈیو کال کی اجازت دوں گا میں۔”
وہ تیکھے تیور لئے بولا۔
“کیوں؟”
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگی۔
“میری مرضی۔۔۔ جیل میں تمہاری یاد بہت شدت سے آتی تھی۔”
وہ اس کے ہاتھ کی پشت اپنی آنکھوں پر رکھتا ہوا بولا۔
زرش کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
“آئم سوری۔۔۔ ”
وہ نادم تھی۔
“کس لیے؟”
وہ اسی پوزیشن میں بولا۔
“تمہیں تکلیف دینے کے لئے۔۔۔ ”
وہ لب کاٹتی ہوئی بولی۔
“ہاں حساب کتاب ہم گھر جا کر کریں گے۔۔۔ یہ جگہ کچھ اچھی نہیں۔”
وہ ناک چڑھاتا ہوا بولا۔
“بہو چلیں؟”
رضی حیات دروازہ کھولتے ہوۓ بولے۔
“جی۔۔۔ ”
وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
“گھر پہنچ کر مجھے کال کر دینا۔۔۔ ”
وہ اس کا ہاتھ اپنی گرفت سے آزاد کرتا ہوا بولا۔
“تم پلیز اپنا خیال رکھنا۔۔۔ ”
وہ کہتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھنے لگی۔
وہ مسکرا کر سر کو خم دیتا اسے جاتا دیکھنے لگا۔
“بابا سائیں آپ کسی کام سے گئے تھے؟”
زرش گاڑی میں بیٹھتی ہوئی بولی۔
“ہاں تمہارے دیور کا نکاح پڑھوانے گئے تھے۔۔ دونوں بیٹوں کے نکاح عجیب ہی حالات میں ہوۓ ہیں۔”
وہ سرد آہ بھرتے ہوۓ بولے۔
“احسن کا نکاح؟”
وہ تعجب سے انہیں دیکھنے لگی۔
“ہاں لمبی کہانی ہے۔۔۔ حویلی جا کر سب کے ساتھ سناؤں گا تمہیں بھی۔”
وہ مسکراتے ہوۓ بولے۔
“جی بہتر۔۔۔ ”
وہ چہرہ موڑ کر شیشے سے پار دیکھنے لگی۔
رات کی سیاہی نے ہر شے کو سیاہ کر رکھا تھا۔
یہ سیاہی زندگی پر چھائی سیاہی کے مانند تھی۔
حیا کھڑکی میں بیٹھی اس تاریک رات کو دیکھ رہی تھی۔
زندگی عجیب سے عجیب ہوتی جا رہی تھی یا اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا۔
چند گھڑیوں میں وہ حیا رزاق سے حیا احسن بن چکی تھی۔
وہ دائیں ہاتھ سے بائیں بازو کے زخم کو دیکھنے لگی۔
تکلیف کے باعث اس نے آنکھیں میچ لیں۔
“کیا آج رات کی سیاہی میری زندگی کی سیاہی کو ختم کر دے گی؟کیا یہ اذیت کا اختتام ہے یا ایک نئے کرب کی ابتدا؟”
وہ تاریک آسمان کو دیکھتی بول رہی تھی۔
چاند بادلوں کی اوٹ میں تھا جس کے باعث سیاہی اپنے عروج پر تھی۔
تاریکی میں بھاگتے بھاگتے شاید ہماری آنکھوں کی بینائی ہی چلی جاتی تھی۔ تبھی ہماری آنکھیں اچھا برا دیکھنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔
“کیا وجہ ہو گی جو احسن نے مجھ سے نکاح کیا؟ اس کو کیا مجبوری در پیش آئی جو مجھ جیسی لڑکی کو اپنی بیوی بنا لیا؟”
دماغ میں وسوسے جنم لے رہے تھے۔
اور یہ وسوسے اس کا دل دہلانے کو بہت تھے۔
“پتہ نہیں کیا ہوگا؟ اگر اس نے بھی بھائی کی طرح۔۔۔۔”
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
اس سے آگے اس سے بولا نہیں گیا۔
~~~~~~~~
“ہمارا شیر۔۔۔ ”
رضی حیات اسے سینے سے لگاتے ہوۓ بولے جس کی نگاہیں زرش پر تھیں۔
“ابھی آپ کا شیر زخمی ہے۔۔۔ ”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“زخمی شیر زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔۔۔ ”
وہ اسے بازو سے پکڑ کر بولے۔
زرش دوہری کیفیت میں تھی اس کے آنے کی خوشی لیکن اسے دیکھ کر تکلیف ہو رہی تھی۔
بےشک یہی زندگی تھی۔
“کیسی ہو؟”
وہ سب سے آخر میں زرش کے سامنے آیا۔
“تم کیسے ہو؟ احسن نے اچھے سے تمہارا خیال رکھا نہ؟”
وہ بےتابی سے بولی۔
“تمہارے سامنے ہوں۔۔۔ بیٹھ جاؤ۔”
وہ اشارہ کرتا صوفے پر بیٹھ گیا۔
“بال خراب کر دئیے میرے۔۔۔ ”
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا جو عقب سے غائب تھے۔
آپریشن کے باعث اس کے بال کاٹ دئیے گئے تھے۔
“ہاں تو آ جائیں گے۔۔۔ ”
رضی حیات خفگی سے بولے۔
“شیو دیکھو ذرا اپنی۔۔۔ ”
وہ ہنکار بھرتے ہوۓ بولے۔
“یہ تو وائز رضی حیات کا غرور ہے۔۔۔۔”
وہ بڑھی ہوئی شیو پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔
ثوبیہ کو سانپ سونگھا ہوا تھا۔
وہ ناخوش تھی اور یہ اس کے چہرے سے عیاں تھا۔