سمارا اب مکمل طور پر صحت یاب ہو گئی تھی۔
آخر کار منصوبہ کو تکمیل دینے کا دن بھی آ گیا۔ عون روزانہ کی طرح ناشتہ کر کے آفس جا چکا تھا۔
سمارا نے مارتھا کو آج چھٹی دے دی تھی تاکہ اس کے اٹھائے قدم کا ہرجانہ مارتھا کو ادا کرنا نہ پڑے۔
ڈیےگو کو کہا کہ وہ ہوسپٹل جانا چاہتی ہے۔
وہ اسے لے کر ہوسپٹل چلا گیا۔ اپنا موبائل وہ گھر چھوڑ آئی تھی تاکہ عون اسے کال نا کر سکے ۔ اور نہ ہی ٹریک کر سکے۔
وہ ہوسپٹل پہنچ چکے تھے۔ وہ گاڑی کا دروازہ کھولنے لگی جب ڈیےگو نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
سینورا;
سینور نہیں چاہتے آپ ان کے بغیر یہاں زیادہ دیر رکیں۔
اس لیے آپ کو ایک گھنٹے میں واپس آنا ہو گا۔
میں یہیں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔
سمارا کو غصہ آیا پر ایک گھنٹہ بہت تھا اس کے لیے۔
اس لیے بناہ کچھ کہے گاڑی سے اتر گئی۔
۔۔۔
وہ ہوسپٹل میں جا کر اس کے دوسرے بیرونی دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔
اسے وہاں سے جاتے ہوئے کارلا نے دیکھ لیا اور اسے پکارنے لگی لیکن وہ نہیں رکی۔
دوسرے گیٹ سے نکل کر اس نے فورأ ایک ٹیکسی بک کی اور بینک جانے کا کہا۔
بینک پہنچ کراس نے عون کے کریڈٹ کارڈ سے پیسے نکلوائے۔
اس نے اتنے پیسے نکلوائے کہ پاکستان پہنچ سکے۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ زیادہ رقم نکلوانے پہ عون کو کوئی شک ہو۔
اس کے بعد اس نے ایئر پورٹ کا رخ کیا۔
۔۔۔
اسے گئے ہوئے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت ہو گیا تھا۔
ڈیےگو نے کئی بار اسے کال کی پر کوئی جواب نہیں ملا۔
آخر کار وہ ہوسپٹل میں جا کر اسےتلاش کرنے لگا۔
پوچھ تاجھ سے پتا لگا کہ وہ دوسری سائیڈ سے چلی گئی تھی۔
۔۔۔
عون اس وقت اٹلی میں ایک نئے پروجیکٹ کے سلسلے میں میٹنگ کر رہا تھا۔
جب اس کا فون بجا۔
وہ جانتا تھا ڈیےگو کسی معمولی بات پہ اسے کال نہیں کرے گا۔
سینور۔۔۔
اس کی آواز میں پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔
سمارا تو ٹھیک ہے ڈیےگو۔
عون نے فون پہ اپنی پکڑ مضبوط بناتے ہوئے کہا۔
جی۔ نہیں وہ کہیں چلی گئی ہیں۔
کیا مطلب۔ کہاں چلی گئی۔
وہ ہوسپٹل آئی تھیں اور دوسرے گیٹ سے کہیں چلی گئیں۔
ان کا موبائل ٹریک کیا تو وہ گھر ہے
لیکن وہ وہاں نہیں گئیں۔
عون کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔
اسے سب سرخ دکھنے لگا۔
میں آ رہا ہوں۔
یہ کہ کر اس نے کال کاٹ دی۔
سامنے پڑا ہوا گلاس اس نے اٹھا کر دیوار پہ مارا۔
______
وہاں موجود لوگ اسے حیران پریشان دیکھنے لگے اور وہ آفس سےنکل گیا۔
۔۔۔
سمارا نے ایئر پورٹ پہنچ کر پاکستان کے لئے سیٹ بک کروائی۔
پر برفباری کی وجہ سے اس فلائٹ نے اگلے دن ٹیک آف کرنا تھا۔
پہلے تو اس نے سوچا یہیں رک جائے۔پرپھر عون کا سوچ کر اس نے قریبی ہوٹل کا رخ کیا۔
ریسیپشن پہ موجود لڑکی کو اس نے کمرہ کا کہا۔
اس کے چارجز اس کی سوچ سے زیادہ تھے۔
پر مجبوری تھی۔اس لیے کروانا ہی پڑا۔
جب اس کا شناختی کارڈ یا پاسپورٹ مانگا تو سمارا نے اپنا پاسپورٹ اور ساتھ میں عون کی شناختی کارڈ کی کاپی بھی دے دی۔
تاکہ اسے بکنگ میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔
اس لڑکی نے سمارا کو عجیب نظروں سے دیکھا۔
اور پھر اس کے کاغذات لوٹا دیے۔
۔۔۔
عون نے ایئر پورٹ سے پتا کیا سمارا کے نام سے ایک سیٹ بک تھی۔
وہ اب وہیں جا رہا تھا جب اس کا فون بجنے لگا۔
۔۔۔
ارے میں نے تو ایک کمرے کی بکنگ کروائی تھی پر یہ تو لگثری سویٹ ہے۔
اس نے مین ڈیسک پہ فون کر کے کہا تو انہوں نے کہا کہ آج رات ہمارا ہوٹل سپیشل پیکج دے رہا ہے۔
اس نے اس آسائش کا خوب فائدہ اٹھایا۔
اپنے دھیان کو عون سے ہٹانے کے لیے وہ فلم دیکھنے لگی۔
سمارا کو بھوک ستانے لگی تھی۔ رات ہونے والی تھی۔
اس نے کھانا وہیں منگوا لیا۔
وہ اس کمرے کی حفاظت چھوڑنے کو تیار نہیں تھی۔
کچھ دیر بعد سویٹ کے دروازے پر دستک ہوئی۔
باہر ایک بیرا ٹرالی لئے کھڑا تھا۔
اس نے اندر آ کر ٹیبل پہ ٹرے رکھی اور چلا گیا۔
سمارا ٹرے کو اٹھا کر کمرے میں لے گئی۔
بیڈ پر چڑھ کے ٹرے سے ڈھکن اتارا۔
مختلف کھانوں کی خوشبو سے بھوک مزید بڑھ گئی۔
ٹرے میں ساتھ ہی ایک گلاب کا پھول تھا اور ایک کارڈ بھی۔
اس نے کارڈ اٹھا کر دیکھا تو اس کے دل نے دھڑکنا بند کر دیا۔
Enjoy your stay۔ Mon Amour۔
وہ اس لکھائی اور الفاظ کو اچھے سے پہچانتی تھی۔
ٹرے کو خود سے دور ایسے دھکیلا جیسے وہ سانپ ہو
اور پیچھے ہو کر سکڑ کر بیٹھ گئی
پھر کمرے کے دروازے کی طرف بھاگی اور اسے لاک کر دیا
دوبارہ بیڈ پہ سمٹ کر بیٹھ گئی اور دروازے کی طرف دیکھنے لگی
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا
یہ میرا وہم ہے ۔ اسے میرے یہاں ہونے کا نہیں پتا
خوف سے وہ اپنے ہی بال کھینچنے لگی
اسے لگتا کہ ابھی دروازہ کھل جائے گا پر ایسا نہیں ہوا
اگر وہ یہاں تھا تو کیوں نہیں آ رہا کیا وہ میری حالت سے محظوظ ہو رہا ہے
_________
عون اس کے ساتھ کیا کرے گا یہ سوچ سوچ کر وہ اپنے حواس کھو رہی تھی۔
گھڑی رات کے 1 بجا رہی تھی۔
جب تب تک کچھ نہ ہوا۔ تو وہ کچھ ٹھیک محسوس کرنے لگی۔
بھوک نے پھر ستانا شروی کر دیا۔ اس نے آگے بڑھ کے ٹرے اپنی طرف کھینچي اور آہستہ آہستہ دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کھانے لگی۔
ابھی اس نے کچھ نوالے ہی لیے ہوں گے کہ اسے شدت سے نیند آنے لگی۔
اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔
انہیں کھلے رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔
اسے پتا بھی نہیں لگا کب وہ بیڈ پہ گر گئی۔
کوئی اس کے کمرے میں آیا تھا۔
اب وہ اس کے پاس بیٹھا تھا۔
وہ ہل کیوں نہیں پا رہی تھی۔
اس کے ہاتھ پاؤں اتنے بھاری کیوں تھے۔
وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
خواب یہ ضرور خواب ہے۔
آدھ کھلی آنکھوں نے ایک آنسو نکلا تھا۔
اس وجود نے اسے جھک کر اٹھایا تھا۔
اس کے بعد اندھیرا چھا گیا۔
۔۔۔
اسے جاگنے میں اتنی مشکل کیوں ہو رہی تھی۔
سمارا کو ایسے لگ رہا تھا جیسےاس کا سر درد سے پھٹ جائے گا۔
منہ ریگستان کی طرح خشک تھا۔
آہستہ آہستہ وہ اپنے ارد گرد کو سمجھنے لگی۔
جب اسے سب یاد آیا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔
وہ اپنے بیڈ پہ تھی۔
عون اس کے سامنے دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
اپنے ہاتھ اپنی جیبوں میں ڈالے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
سمارا کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔
تم نے مجھے شرمندہ کیا ہے۔
اس نے تر ابھی کچھ بھی نہیں کیا تھا تو پھر وہ کیوں کانپ رہی تھی۔
میرے پیچھے آؤ۔
یہ کہ کر وہ کمرے سے چلا گیا۔
ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا کہ خود کو اندر بند کر لے۔
پر اس سے وہ عون کو اور طیش دلاتی۔
اٹھ کر عون کے پیچھے چل دی ۔ وہ آفس میں چلا گیا۔
عون خاموش کیوں ہے
اس کی اتنی خاموشی اسے اور پریشان کر رہی تھی۔
عون نے اپنے لیپ ٹاپ پہ کچھ بٹن دبائے۔
اور پھر دیوار پہ لگی بڑی سکرین کو آن کر دیا۔
سکرین پہ کچھ لوگ دکھ رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ویڈیو بنا رہا ہو۔
سمارا نے نہ سمجھی سے عون کو دیکھا۔ کہ یہ کیا ہے۔
یہ لائیو ہے۔ میں ہر وقت یہاں رہ کہ تمہیں مانیٹر نہیں کر سکتا۔
اور نہ ہی میں ہر وقت تمہارے بارے میں پریشان رہ سکتا ہوں۔
یہ کہ کر اس نے سکرین کی طرف اشارہ کیا۔
وہاں وہ اب میکس کو دیکھ سکتی تھی۔
عون نے آواز بڑھا دی۔
ان لوگوں نے میکس کو گھیر رکھا تھا۔ اور اس پہ ہاکی اور بیٹ سے حملہ کر رہے تھے۔
________
یہ یہ سب کیا ہے۔ عوووون۔ کیا ہے یہ سب وہ میکس کو کیوں مار رہے ہیں۔
یہی ہے نہ جس کی وجہ سے تم نے یہ قدم اٹھایا۔
نہیں نہیں یہ کیا کہ رہے ہیں آپ۔ اس کا اس سب سے کوئی تعلق نہیں۔
میکس کی چیخیں صاف طور پہ سنائی دے رہی تھیں۔ اس کے سر سے خون نکل رہا تھا۔
وہ لوگ بےدردی سے اسے ماررہے تھے۔
اس کی یہ حال دیکھ کر وہ رونے لگی۔
عون عون روکیں یہ سب پلیز۔
نہیں تمہارے لیے یہ سبق اہم ہے۔ میں ہر اس چیز کو دور کر دوں گا جو ہمارے درمیان آئے۔
عون پلیز میں معافی مانگتی ہوں۔ میرے کئے کی سزا اسے مت دیں۔
میکس کی حالت دیکھنا اس کی چیخیں سننا بہت دردناک تھا سمارا کے لئے۔
عرن نے سمارا کا چہرہ پکڑ کے سکرین کی طرف کر دیا۔
دیکھو اسے آج وہ تمہاری وجہ سے جان سے جائے گا۔
نہیں عون پلیز ۔ بس کر دیں پلیز۔
وہ عون کے پیروں میں بیٹھ گئی اور شدت سے رونے لگی۔ اتنا بڑا بوجھ وہ نہیں اٹھا سکتی تھی۔
پلیز رک جائیں۔
کیا تم دوبارہ ایسا کرو گی۔
نہیں نہیں کبھی نہیں۔
وہ دھندھلائی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
گڈ چوائس۔ میں تمہیں کرنے بھی نہیں دوں گا۔
اس نے فون نکال کر کسی کو کال کی۔
سمارا سکرین کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ لوگ
میکس کو وہیں خون سے لتھڑا چھوڑ گئے۔
وہ حرکت نہیں کر رہا تھا۔ مشکل تھا یہ جاننا کہ سانس بھی لے رہا ہے یا نہیں۔
عون اسے وہیں فرش پر چھوڑ کے سکرین بند کر کے چلا گیا۔
وہ کتنی ہی دیر وہاں بیٹھی روتی رہی۔
۔۔۔
اگلے دن مارتھا کہیں نہیں دکھی۔
سمارا کو کافی تعجب ہوا۔
کیونکہ اتنے عرصے میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا اسے لگا کہیں وہ بیمار نہ ہو۔
لیکن ایک نئی آزمائش اس کا انتظار کر رہی تھی۔
مارتھا آج سے کام پہ نہیں آئے گی۔ اس لیے اب سب کام تم کرو گی۔
نہیں آئے گی۔ مگ
مگ مگر کیوں۔
کیونکہ تمہیں دی ہوئی آسائشوں کے باوجود تم نے اتنہ بڑا قدم اٹھایا۔
جب تمہیں ان کی قدر نہیں تو میں نے انہیں واپس لے لیا۔
آرام سے کندھے اچکا کر کہا گیا۔
اب جلدی ناشتہ بناؤ۔ خیال رہے کہ جلے نہیں۔
وہ تو جیسے جل بھن گئی تھی اس کی باتوں سے۔ اسے ناشتہ بنا کہ دیا۔
اس کے جانے کے بعد صفائی کی۔
پھر لانڈری۔
دوپہر کھانا بنا کے کھایا۔
اب وہ تھک کے نڈھال ہو چکی تھی۔
زندگی میں پہلی بار اتنا کام کیا تھا اس نے۔
عون کی واپسی کا وقت قریب تھا۔ اس لیے ڈنر بنانے لگی۔
عون واپس آ چکا تھا۔ دونوں نے خاموشی سے ڈنر کیا۔
اور وہ اٹھ کے جانے لگی۔
یہ برتن کون دھوئے گا۔ چہرے کے تاثرات بگاڑ کر پوچھا گیا۔
میں میں بعد میں دھو دوں گی۔
جب مارتھا تھی تو کبھی ایسے بکھرے ہوئے برتن دیکھے تم نے؟
نن نہیں۔ اس نے شرمندگی سے کہا۔
عون نے سامنے پڑا باؤل اٹھا کر دیوار پہ دے مارا۔
سمارا اس کی حرکت سے ایک دم اچھا پڑی۔
تو جلدی صاف کرو۔
اور یہ سب بھی۔ ٹوٹے ہوئے باؤل کی طرف اشارہ کر کے وہ چلا گیا۔
سمارا اپنے آنسو پیتی کام میں لگ گئی۔
۔۔۔
دن گزرنے لگے۔
عون روز اسے کوئی نہ کوئی حرکت کر کے تنگ کرتا۔
کبھی برف میں اسے ٹیرس پہ نکال دیتا۔
کبھی کچھ فرش پہ گرا دیتا۔ تو کبھی کچھ۔
اس کی موجودگی میں سمارا کا سانس لینا بھی مشکل ہو گیا تھا۔
۔۔۔
وہ دونوں ڈنر کر چکے تھے۔ اور سمارا برتن دھر رہی تھی۔
عون کچن کی دیوار سے ٹیگ لگا کر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔
اس کی ایسے خاموشی ہمیشہ سمارا کے لئے طوفان لاتی تھی۔
تمہاری اگلی اپائنمنٹ کب ہے۔
عون نے اچانک سے سوال کیا۔
سمارا سمجھ نہیں پائی۔
کیسی اپائنٹمنٹ۔
تمہارا اگلا شوٹ ڈاکٹر کے پاس۔ کب ہے وہ؟
اوہ۔۔ وہ 5 دنوں میں۔
گڈ۔ تم اب کوئی ڈوز نہیں لو گی۔
کیییا۔
سمارا کے لئے یہ بات سرخ جھنڈی کے مترادف تھی۔
میں چاہتا ہوں ہم اپنی فیملی سٹارٹ کریں۔
یہ صحیح وقت ہے۔ وہ آرام سےکہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
اور سمارا وہاں سن کھڑی رہی۔
بچہ اسے اب بچہ چاہئیے۔ نہیں وہ اس کی زندگی بھی جہنم بنا دے گا۔
نہیں ایسا نہیں ہوگا۔
۔۔۔
سمارا نے مارتھا کو کال کی۔ اور مارتھا اس کی مدد کے لیے تیار تھی۔
مارتھا تم یہاں کیا کر رہی ہو۔
ڈیےگو جو کہ اب عون کی غیر موجودگی میں پینٹ ہاؤس کے باہر ہی ہوتا تھا مارتھا سے پوچھنے لگا۔
_______
اوہ ڈیےگو میں یہاں پہ کچھ سامان بھول گئی تھی وہی لینے آئی ہوں۔
ٹھیک ہے جو بھی ہے جلدی لے لو۔
تھینک یو۔
۔۔۔
مارتھا شکر ہے تم آ گئی ۔ میں بہت پریشان تھی۔
مسز عون مجھے لگتا ہے آپ کو اپنے شوہر کو ایا موقع دینا چاہئیے۔
آپ کم عمری کی وجہ سے کچھ غلط مت کرنا۔
میں اسے ضرور موقع دوں گی۔ مگر اسے خود میں پہلے تبدیلی لانی ہوگی۔
آپ سوچ سمجھ کے قدم اٹھائیں۔
مارتھا میں ایک بچے کے ساتھ ظلم نہیں ہونے دوں گی۔
کیا تم دوائی لائی۔
جی یہ لیں۔ اور یہ فون بھی ہے۔
اگر آپ کو کبھی مدد کی ضرورت ہو تو اس سے رابطہ کیجئے گا۔
تمہارا شکریہ۔
۔۔۔
ایک کے بعد ایک دن گزرنے لگا۔
عون خوشخبری کے انتظار میں تھا۔
لیکن اب اسے سمارا پہ شک ہونے لگا۔
آخر کار خود کے شک کو ختم کرنے کے لئے گھر میں لگے کیمرے چیک کئے اور جواب سامنے تھا ۔
عون آج گھر ہی تھا۔
سمارا کھانا لگا کر آفس میں اسے بلانے گئی۔
عون اپنا سر تھامے بیٹھا تھا۔ جیسے پریشان ہو۔
عون کھانا کھا لیں۔
یہاں آؤ سمارا۔
سمارا بھی اب پریشان اس کی طرف بڑھنے لگی۔
اس نے دراز سے دوائی نکالی اور ڈیسک پہ رکھ دی۔
یہ سب کیا ہے۔ کیا تمہیں میری کوئی پرواہ نہیں۔
وہ دکھی لگ رہا تھا۔ سمارا نے اسے واقعی گھائل کیا تھا۔
عون آپ کو یہ کیسے ملی۔
کیا یہ اہم ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تم کب سے مجھے دھوکہ دے رہی ہو۔
عون آپ مجھ پہ ظلم کرتے ہیں۔
ظلم ظلم ؟ تم ہمیشہ وہ کرتی ہو جس سے منع کروں۔
آپ۔۔۔
اس کے منہ سے اگلا لفظ نکلتا اس سے پہلے عون نے اسے گلے سے دبوچ کر سامنے ڈیسک پر گرا دیا۔
وہ اس کا گلہ دبا رہا تھا۔
سمارا کو لگا وہ اسے مار دے گا۔
لیکن عون نے ڈیسک پہ پڑا لیٹر اوپنر اٹھایا۔
اور اس کی تیز دھار سائیڈ سمارا کے گلے پہ رکھ دی۔
اس تیز دھار آلے نے جب سمارا کی چمڑی کو کاٹا تو وہ چیخنے لگی۔
عون نے ایک ہاتھ سے اس کا گلا دبا رکھا تھا۔
جس سے وہ ہل نہیں پا رہی تھی۔
اس نے عون کو دھکا دینا چاہا پر اس کی طاقت کے آگے وہ کچھ نہیں کر پائی۔
عون اس کی چیخوں سے لا پرواہ اپنی حرکت کو جاری رکھے تھا۔
سمارا کی گردن سے خون بہ کر اس کے ڈیسک پہ گر رہا تھا۔
عون اسے ایک دم چھوڑ کے پیچھے ہٹ گیا۔
اس کے بعد وہ وہاں رکی نہیں تھی۔
۔۔۔
وہ شیشے کے سامنے کھڑی خون روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اس کی شرٹ خون اور آنسوؤں سے بھیگ گئی تھی۔
زخم اتنا گھرا نہیں تھا کہ جانی نقصان کرے۔
لیکن نشان ضرور رہ جاتا۔
۔۔۔
دو دن بعد۔۔۔
مسز عون اگر آپ کو یہاں سے کچھ لینا ہےتو لے لیں۔
اب سے ہم یہاں نہیں رہیں گے۔
کیا مطلب ہے اس کا ڈیےگو۔
ہم کہاں رہیں گے۔
اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
سینور کو لگتا ہے یہ جگہ آپ کے لیے مناسب نہیں۔
آپ کو جو چاہئیے ہے رہ لے لیں۔
ہاں کچھ بکھرے خواب سمیٹنے ہیں۔ وہ سوچ کر رہ گئی۔
۔۔
وہ ایک عالیشان گھر کے باہر کھڑے تھے۔
یہ کونسی جگہ ہے۔
یہ سینور کے والد کا گھر تھا۔ انہیں وراثت میں ملا ہے۔
وہ جگہ ضرورت سے زیادہ بڑی تھی۔
گھر کے پچھلی جانب ایک سویمنگ پول بھی تھا۔
لیکن یہ جگہ شہر سے دور تھی۔
قریبی گھر بھی کی کلومیٹر دور تھا۔
وجہ صاف تھی وہ اسے اکیلا کرن چاہتا تھا۔
آج شام تک عون کی اٹلی سے واپسی متوقع تھی۔
جانے اب اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔
۔۔۔
مارتھا اپنی نئی جاب سے گھر آ گئی تھی۔
لیکن ہال میں پہنچ کر ایک دم ٹھٹکی۔
مسٹر عون آپ میرے گھر میں۔
ہاں مارتھا سوچا تم سے مل لوں۔
وہ صوفے پہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے۔ مارتھا کی بیٹی کی تصویر ہاتھ میں پکڑے بیٹھا تھا۔
یہ تمہاری بیٹی ہے نا تمہاری طرح دکھتی ہے۔
مسٹر عون اگر آپ کو کوئی بات کرنا تھی تو مجھے کال کر دیتے۔
اس کی ایسے وہاں موجودگی مارتھا کے لیے بری خبر تھی۔
ہاں ضرور کرتا پر معاملہ کچھ ایسا تھا۔
تمہیں میری بیوی سے دور رہنا چاہئیے تھا۔
آپ ان کے ساتھ ٹھیک نہیں کر رہے۔
مارتھا ایک مضبوط عورت تھی۔ اس لئے عون کے ایسے حربوں سے ڈرنے والی نہیں تھی۔
یہ سوچنے کی ضرورت تمہیں نہیں۔
وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔
یہ محبت نہیں مسٹر عون۔
مارتھا کے جواب میں اس کے لبوں میں حرکت ہوئی تھی۔
وہ مسکرا رہا تھا۔ پہلی بار۔
______
اگر کوئی اسے اب مسکراتے دیکھ لیتا تو یقینأ اس کا دیوانہ ہو جاتا۔
لیکن اس مسکراہٹ کے پیچھے کی کہانی کچھ اور ہی تھی۔
میں جانتا ہوں۔
This is not Love۔ It is Obsession۔
۔۔۔
عون پہلے سےکافی پرسکون تھا۔
سمارا کو بھی کافی وقت دے رہا تھا۔
جب وہ اس پہ ظلم کرتا تھا تو اس کے بارے میں ایک فیصلہ کرنا آسان تھا۔
لیکن وہ ایسا نہیں تھا۔ ایک بار غصہ نکال لینے کے بعد دوبارہ اس واقعہ کو نہیں دہراتا تھا۔
آج صبح وہ خود سمارا کے لئے ناشتہ بنا رہا تھا۔
اس کی ایسی حرکات سمارا کو پریشان کرتی تھیں۔
اس کے کئی روپ تھے۔ ایک فیصلہ کرنا مشکل تھا۔
اس کی سزا کی طرح محبت میں بھی شدت تھی۔
۔۔۔
سمارا کی گردن پہ اب آنسو کا ویسا ہی نشان تھا جیسا عون کی کلائی پہ تھا۔
وہ ہال میں کوئی نیوز چینل لگا کر بیٹھی تھی۔
مگر وہ عون کے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی۔
کیا میں ناانصافی کر رہی ہوں۔ کیا میں مطلبی ہوں۔
ایسے سوالات اس کے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔
شاید عون صحیح ہیں وہ کتنی محبت کرتے ہیں مجھ سے اگر سزا دے بھی لی تو کیا ہوا۔
ارے میں یہ کیا سوچ رہی ہوں۔ انہوں نے جو کیا وہ ظلم تھا۔
تنہائی ایسی ہی ہوتی ہے انسان کو خود کے خلاف کر دیتی ہے۔
خود کو سوچ کے حصار سے نکال کر وہ نیوز کی طرف متوجہ ہوئی۔
اس وقت جو خبر آ رہی تھی اس سے سمارا کے روگٹھے کھڑے ہو گئے۔
وہ منہ پہ ہاتھ رک کے خود کو قابو کرنے لگی۔
مارتھا کی لاش اس کے گھر سے برآمد ہوئی تھی۔
وہ اکیلی رہتی تھی اور جب کئی بار بیٹی کے ساتھ رابطہ نہ ہوا تو اس کی بیٹی نے پولیس کو خبر کی۔
چاقو کے پے در پے وار کئے گئے تھے۔
پولیس کو شک تھا کہ یہ کسی سیریل کلر کا کام ہے۔
لیکن وہ چیز جس سے سمارا بےجان ہو کہ فرش پہ گری تھی۔
وہ مارتھا کے گلے پہ ویسا ہی نشان تھا جیسا عون نے اس کی گردن پہ بنایا تھا۔
اسے لگا کہ اس نے جو کھایا ہے وہ باہر آ جائے گا۔
وہ باتھروم کی طرف بھاگی اور معدہ خالی کرنے کے بعد بیٹھی روتی رہی۔
مارتھا کا بےجان وجود بار بار اس کے سامنے آ رہا تھا۔
اس کی بیٹی کا روتا ہوا چہرہ۔
یہ آپ نے کیا کیا عون کیوں۔
نہیں یہ میری غلط فہمی ہے عون ایسا نہیں کر سکتے۔
وہ روتی خود کو تسلی دینے لگی۔
پر سچ اس کے سامنے تھا اور وہ زیادہ دیر اس سے نہیں بھاگ سکتی تھی۔
عون عون مجھے بھی مار دیں گے۔ مجھے یہاں سےنکلنا ہو گا۔
______
لیکن میں یہاں سے کیسے نکلوں گی۔
وہ مجھے دوبارہ پکڑ لیں گے۔ میں کیا کروں۔
اس کے پاس کوئی موبائل بھی نہیں تھا۔
پھر اسے مارتھا کا دیا ہوا موبائل یاد آیا۔
اس نے وہ باتھروم میں ہی چھپا رکھا تھا۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کسے کال کرے۔
آخر اس نے لوفین کو کال کی۔
۔۔۔
سمارا کیسی ہو تم۔ کہاں ہو ۔ تم جانتی ہو میکس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
لوفین لوفین۔۔۔
اس سے بات کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
لوفین مجھے بچا لو۔
مجھے یہاں سے نکال لو پلیز۔ عون مجھے مار دیں گے۔
سمارا گہرا سانس لو اور پھر بتاؤ مجھے۔
سمارا نے اسے سب کچھ بتا دیا۔
تمہیں پولیس کو بتانا چاہئیے۔
نہیں نہیں پولیس نہیں۔ مجھے بس یہاں سے نکلنا ہے میری مدد کرو۔
آخر کئی بار کی منت کے بعد لوفین مدد کے لیے تیار تھی۔
اس نے سمارا کو اگلے دن اسی وقت کال کرنے کا کہا۔
۔۔۔
عون سکون سے بیٹھا ڈنر کر رہا تھا۔
اور سمارا اسے مسلسل بالوں کی اوٹ سے دیکھ رہی تھی۔
کیا بات ہے Mon Amour
کچھ نہیں کچھ بھی تو نہیں۔
ٹھیک ہے مجھے کچھ کام ہے میں آفس جا رہا ہوں۔
آخر وہ اتنا پرسکون کیسے ہے۔ میں پاگل ہو جاؤں گی۔
۔۔۔
اگلے دن میکس نے اس سے بات کی۔
تم جانتی ہو تم جو کہ رہی ہو وہ سنگین ہے۔
میں میں جانتی ہوں پر مجھے یہاں سے نکلنا ہے۔
ہم تمہاری مدد کریں گے لیکن اس کے بعد تمہیں ہرکسی سے رابطہ ختم کرنا ہو گا۔
تمہارے ماں باپ سے بھی۔
پر پر ان سے کیوں۔
اگر تم نے ان سے رابطہ رکھا تو ان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔
لوفین تمہارے لئے نئی شناخت کا انتطام کر رہی ہے۔
فیصلہ مشکل تھا پر اس نے حامی بھر لی۔
باقی منصوبہ کو بھی سوچ سمجھ کے تشکیل دیا گیا۔
سمارا کے لئے سب سے بڑا کام مطلوبہ دن کو یہاں سے نکلنا تھا۔
ڈیےگو ہر وقت گھر کے باہر پہرہ دیتا تھا۔
اور بیرونی دروازے کی چابیاں اس کے اور عون کے پاس تھیں۔
اگر وہ باہر چلی بھی جاتی تو بھی وہ پیدل یہ کام نہیں کر سکتی تھی
اس کے لیے اسے گاڑی کی ضرورت تھی۔
عون کے پاس کافی گاڑیاں تھیں پر ان کی چابیاں عون کے آفس میں ہوتی تھیں۔
جو کہ لاک ہوتا تھا۔ اس کےعلاوہ اسے پیسوں کی بھی ضرورت تھی۔
اگر وہ کسی بھی مرحلے میں پکڑی گئی تو عون اسے نہیں چھوڑے گا۔
پر ایسا کرنا اب مجبوری بن گیا تھا۔
۔۔۔
آنے والے دنوں میں جتنا ہو سکے اس نے خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی ۔
_______
کل اسے یہاں سے جانا تھا۔ میکس اور لوفین نے سب انتظام کر لیا تھا۔
اسے یہاں سے نکل کر اسٹیشن تک پہنچنا تھا۔
پر اس سے پہلے سمارا کو آفس کی چابیاں حاصل کرنی تھیں۔
جوکہ صرف عون کے پاس ہوتی تھیں۔
عون گہری نیند میں تھا۔ پچھلے کئی دنوں سے رہ چیک کر رہی تھی کہ عون کب گہری نیند میں ہوتا ہے۔
عون کا موبائل اور چابیاں سائیڈ ٹیبل پر تھیں۔
سمارا دبے پاؤں چلتی ان تک پہنچی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
وہ آہستہ آہستہ سے آفس کے دروازے تک پہنچی۔
اپنے دل کی دھڑکن وہ صاف سن سکتی تھی۔
اسے لگ رہا تھا کہ جیسے عون بھی سن لے گا۔
آفس کا دروازہ کھول کر اس نے لاک سسٹم میں ببل گم پھنسا دی۔ تاکہ وہ دوبارہ لاک نہ ہو۔
اسی طرح سے دبے پاؤں چلتی کمرے میں گئی اور چابیاں واپس رکھ کے لیٹ گئی۔
وہ ساری رات کل کا پلین ذہن میں دہراتی رہی۔ نیند اس سے کوسوں دور تھی۔
تم ٹھیک تو ہو Mon Amour
جج جی۔ کیوں کیا ہوا۔
تم کچھ بےچین لگ رہی ہو۔
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔
وہ اس کی پیشانی پہ ہاتھ رکھ کے دیکھنے لگا۔
ہمم بخار تو نہیں ہے۔
تم کچھ چھپا رہی ہو۔
کہیں عون کو پتا تو نہیں لگ گیا۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔
میں ٹھیک ہوں آپ پریشان نا ہوں۔ سمارا نے مسکرا کر کہا۔
عون نے جھک کر اس کا بوسہ لیا اور چلا گیا۔
۔۔۔
دوپہر ہونے کو تھی مطلب منصوبہ پہ عمل کرنے کا وقت آ چکا تھا۔
اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا ۔ ڈیےگو سرونٹ کواٹر کے باہر دکھائی دے رہا تھا۔
دروازہ چیک کیا تو وہ لاک تھا۔
وہ عون کے آفس میں گئی۔ اور سب سے کم قیمت گاڑی کی چابیاں اٹھائیں۔
اس کے بعد عون کے لاکر کی طرف گئی۔
وہ اس کا کوڈ جانتی تھی اس لیے آسانی سے لاکر کھول لیا۔
اندر کافی کیش اور قیمتی جیولری موجود تھی۔
اس نے بیگ میں کافی زیادہ کیش بھرا۔ اور پھر اسے لاک کر کے اپنے کمرے میں گئی۔
وہاں سے ایک سادی پینٹ اور عون کی ٹی شرٹ بیگ میں رکھی۔ اور مین گیٹ کے پاس رکھے گلدان کے پیچھے اسے چھپا دیا
اس نے کچن میں جا کر چولہا جلایا اور اس پہ کاغذ رکھ کے جلانے لگی۔
جب ان سے دھواں پیدا ہونے لگا تو گھر میں لگا فائر الارم بجنے لگا۔ اور آگ روکنے کے لیے پانی برسانے لگا۔
سمارا دروازے کے پاس جا کر ڈےگو کو بلانے کے لیے چلانے لگی۔
ادھر ڈیےگو پہلے ہی الارم سن کر بھاگا آ رہا تھا۔
وہ سمارا کو سرونٹ کوارٹر میں جانے کا کہنے لگا۔
______
سمارا یہی تو چاہتی تھی۔ ڈیےگو اندر چلا گیا اور سمارا پارکنگ ایریا کی طرف بھاگی۔
ڈیےگو کو سب سمجھنے میں کچھ وقت لگتا اور وہ وقت سمارا کے لیے اہم تھا۔
سمارا نے کار سٹارٹ کی اور وہاں سے نکل گئی۔
ڈیےگو جو کہ سارے گھر میں آگ کے آثار ڈھونڈ رہا تھا گاڑی کی آواز پہ باہر بھاگا۔
سینورا رکیں سینورا۔
ڈیےگو دوسری گاڑی کی طرف بھاگا اور اس کے پیچھے نکل پڑا۔
۔۔۔
کیا یہ آپ کو پسند آئی۔
اچھی ہے پر اسے نازک چیزیں پسند ہیں اتنی بڑی نہیں۔
عون پچھلے آدھے گھنٹے سے سمارا کو گفٹ کرنے کے لیے رنگ پسند کر رہا تھا۔
وہ کچھ ایسا چاہتا تھا جو سمارا کی پرسنیلٹی کے مترادف ہو۔
ڈیےگو کیا بات ہے اس نے کال ریسیو کر کے پوچھا۔
سینورا پھر سے چلی گئیں۔
دو آنسو ان آنکھوں سے بہ کر فرش پہ گرے تھے۔
۔۔۔
ڈیےگو اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ کافی دیر تک وہ اسے پیچھے چھوڑنے کی کوشش کرتی رہی اور آخر کار ایک موڑ پہ اسے ڈوچ کرنے میں کامیاب رہی۔
گاڑی میں فکس فون ایک دم بجا۔ اوروہ اچھل پڑی۔
یہ ضرور عون ہو گا۔
وہ جانتی تھی کہ وہ گاڑی کی لوکیشن چیک کرکے جلد ہی اس کے پیچھے آئیں گے اس لیے قریب ہی سینیما کے سامنے گاڑی روک کر خود اندر چلی گئی۔
وہ وہاں باتھروم میں گئی اور بیگ میں رکھے کپڑے نکال کے پہننے لگی۔
ڈیےگو گاڑی کی لوکیشن سے سینما کے باہر پہنچ چکا تھا اب اسے سمارا کو ڈھونڈنا تھا۔
کہ ایک دم سینیما سے ان گنت لوگ باہر نکلنے لگے ۔ جس سے اور مشکل ہونے لگی۔
سمارا نے یہ موقع غنیمت جانا اور اسی رش میں شامل ہو کر چلنے لگی۔
کچھ آگے جا کر اس نے ٹیکسی بک کروائی اور اسٹیشن جانے کا کہا۔
جب اس نے دیکھا کہ اس کا پیچھا نہیں ہو رہا تو اس نے سکون کا سانس لیا۔
اسٹیشن پہنچ کر اس نے لوفین کو کال کی اور ان کا انتظار کرنے لگی۔
۔۔۔
سمارا میں بہت ڈر گئی تھی کہ تم یہ کر پاؤ گی کہ نہیں۔
ڈر تو میں بھی گئی تھی پر آخر پہنچ ہی گئی۔
یہ لو سمارا یہ تمہارا نیا لائسنس اور شناخت ہے ۔
پر بہتر ہے کہ تم پولیس سے دور رہو ورنہ یہ تمہارے لیے مسئلہ بن جائے گا۔
تمہارا بہت بہت شکریہ میں تم لوگوں کا احسان کبھی نہیں اتار پاؤں گی۔
ارے دوست بھی کہتی ہو اور شکریہ بھی میکس نے اسے چھیڑنے ہوئے کہا۔
مجھے ڈر ہے کہ عون تم لوگوں کو نقصان نہ پہنچائے۔
گھبراؤ نہیں ہم یہ شہر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...