تھوڑی ہی دیر میں اسے پارسل مل گیا تھا وہ بے تابی سے اسے تھامے اپنے کمرے میں آئی۔۔
اور جلدی جلدی اسے کھولنے لگی۔۔۔
اس نے جیسے ہی کھولا حیران رہ گئی۔۔
ایک نہایت ہی خوبصورت سا ڈریس اس کے سامنے تھا۔۔
اس نے ڈریس اٹھا کر دیکھا۔۔
وہ ایک بلیک کلر کی فراک تھی جس پر ہلکا سا کام تھا۔۔
اس ڈریس کو دیکھ نور کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔۔
اس نے لمحہ بھر کچھ سوچا پھر سیل فون اٹھایا۔
اور وصی کا نمبر ڈائل کیا۔۔
دوسری ہی بیل پر کال رسیو ہوئی۔۔۔
“ہیلو وصی” نور نے کہا
“ہاں۔۔نور پارسل ملا؟” وصی کی مصروف سی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔
“ہاں۔۔مل گیا”
“کیسا لگا؟”
“بہت خوبصورت۔۔مگر مجھے کس خوشی میں دیا ہے؟” نور نے ہنس کر پوچھا
“ایک تو تم لڑکیوں کو کچھ دو بھی مسئلہ نا دو تو بھی مسئلہ” وصی نے کہا
“پھر بھی اب دنیا کا سب سے بڑا کنجوس انسان بنا مانگے کچھ دے رہا ہے تو پوچھنا تو بنتا ہے” نور ہنسی۔۔
“سب باتیں چھوڑو تم کل آرہی ہو نا۔۔۔یہی پہن کر آنا” وصی نے حکم دیا
“تم تو ایسے خوشی خوشی گفٹ بانٹ رہے ہو جیسے تمہاری منگنی ہو”
“میری بھی ہوجائے گی۔۔لڑکی تو ملے”
” مل جائے گی۔۔بس وہ اندھی ہو” نور نے شرارت سے کہا
“اندھی؟ کیوں؟”
“کیوں کہ تمہاری شکل دیکھ کر، حرکتیں دیکھ کر تو کوئی تم سے شادی کرے گی نہیں اندھی ہی کر سکتی ہے” نور نے چھیڑا۔۔
“اچھا۔۔تو میری شکل اچھی نہیں ہے؟”
“اب تم خود سچ بول رہے تو میں کیا بولوں” نور نے ہنس کر کہا
“مجھے کوئی نہیں ملی نا میں تم سے ہی شادی کرلوں گا” وصی نے ہنس کر اسے تپانا چاہا
“تم سے شادی۔۔۔اتنے برے دن نہیں آئے میرے۔۔۔” نور نے برا سا منہ بنایا
“اچھا پھر کس سے کرو گی شادی؟”
“میرے لیے تو کوئی ہیرو آئے۔۔جیسے ناولز میں ہوتا ہے۔۔۔وہ ہیرو اپنی ہیروئن۔۔۔۔” نور اپنی بات پوری کرتی اس سے پہلے ہی وص نے اس کی بات کاٹی۔۔
“اوہ سائیکو۔۔۔میں فون رکھ رہا ہوں۔۔مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں تمہاری ناولز کی ہیروئن اور ہیرو کی تعریف سننے کا ٹائم نہیں۔۔۔” وصی نے ٹوکا
“وصی تم” نور کچھ کہتی کہ فون بند ہوچکا تھا۔۔
“سڑیل”نور نے فون کو گھورا۔۔
پھر فون سائیڈ پر رکھ کر ڈریس کو پھر سے دیکھنے لگی۔۔
“ددو۔۔۔میری پیاری ددو” شفی نے ددو کو پیار کرتے ہوئے کہا
“کیا بات ہے آج اتنا پیار کیوں آرہا ہے؟” ددو نے پوچھا
“میں تو ہمیشہ سے پیار کرتا ہوں آپ کو” شفی نے انہیں کاندھوں سے تھامتے ہوئے کہا
“کرتے تو ہو مگر آج بات کچھ اور ہے” ددو نے کہا
اور شفی بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنسا
“کوئی بات نہیں ہے ددو” شفی نے ہنسی روکتے ہوئے کہا
“اچھا مان لیتی ہوں” ددو نے اس کا گال تھپتھپایا۔۔
“ددو آپ خوش ہیں؟” شفی نے پوچھا۔۔
“ہاں بہت خوش ہوں۔۔اور میرا بچہ؟” ددو نے پیار سے پوچھا۔۔
“یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے ددو۔۔” تبھی وصی لاؤنج میں داخل ہوا
“اس کے دل میں تو لڈو پھوٹ رہے ہیں۔۔لڈووو” وصی نے شرارت سے کہا
اس کی بات پر ددو ہنسنے لگی۔۔
“چھیڑ لے بیٹا میں نہیں چڑ رہا” شفی نے مسکرا کر کہا
“دیکھا ددو منگنی کی خوشی میں آج تو چڑنا بھی چھوڑ دیا۔۔۔کیا بات ہے” وصی نے کہا
“اچھی بات ہے اللہ ہمیشہ خوش رکھے میرے بچے کو” ددو نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا
“ددو مجھے تو کبھی ایسے پیار نہیں کرتی آپ؟” وصی نے منہ بنایا
“تو لائق ہی نہیں۔۔۔” شفی نے تپایا
اور ددو ہنسنے لگی۔۔
“تجھے بھی کردوں گی آجا” ددو نے پیار سے بلایا
اور وہ فوراً اٹھ کر ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔۔
“میرا بچہ اب فوج میں جائے گا” ددو نے اس کی پیشانی چوما۔۔
“ددو۔۔۔” وصی نے چڑ کر انہیں انہیں دیکھا اور ددو کے ساتھ شفی کی بھی ہنسی نکلی۔۔۔
وہ بلیک ڈریس پہنے خود کو آئینے میں دیکھ رہی تھی۔۔
کھلے بال ہلکا سا میک اپ کیے وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔
پھر ہیل پہنی اور روم سے نکل گئی۔۔
“مما۔۔۔میں جا رہی ہوں” نور نے کہا
“نور۔۔نومی کو بلا چھوڑ آئے گا” کوثر بیگم نے کہا
“ارے مما میں چلی جاؤں گی۔۔” نور کہا
“نہیں۔۔نومی کے ساتھ جا۔۔اور جب آنا ہو کال کردینا میں بھیج دوں گی نومی کو۔۔رات کا ٹائم ہے” کوثر بیگم نے حکم دیا
اور نومی کو اس کے ساتھ بھیج دیا جو اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔
وہ باہر گیٹ کے پاس ہی کھڑی تھی۔۔
اندر کی جلتی لائٹنگ باہر تک پھیل رہی تھی ۔۔
وہ بنا ہچکچائے اندر کی جانب بڑھ گئی۔۔
اندر کافی لوگ تھے۔۔جن میں اسے وصی کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔۔
وہ یہاں وہاں دیکھ رہی تھی۔۔
تبھی وصی کی نظر اس پر پڑی۔۔
وہ بے ساختہ مسکرایا۔۔
اور چل کر اس کے قریب آیا۔۔
“ہے بیوٹیفل لیڈی۔۔۔بہت اچھی لگ رہی ہو” وصی نے مسکرا کر کہا۔۔
“تھینک گوڈ وصی تم آگئے۔۔میں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں” نور نے سکون کا سانس لیا۔۔
“اندر آؤ” وصی نے کہا۔۔
اور وہ اس کے ساتھ چل دی۔۔
“ویسے بلیک کلر میں بہت خوبصورت لگتی ہو تم” وصی نے تعریف کی۔۔
“بٹرنگ” نور نے ہنس کر کہا
“ارے سچ میں۔۔۔” وصی روہانسی ہوا۔۔
“اسی لیے تو میں نے بلیک ڈریس بھیجا تھا۔۔۔” وصی نے کہا۔۔
“ہاں واقع بلیک میں اچھی لگ رہی ہیں آپ” اس بار آواز پیچھے سے آئی تھی۔۔
دونوں نے چونک کر دیکھا
”
Congrats
…”
نور نے اسے مبارک باد دی
“تھینک یو۔۔۔” شفی نے مسکرا کر کہا۔۔
وصی اس کی شرارت سمجھ گیا تھا۔۔
تبھی پھپھو نے شفی کو پکارا جو تھوڑی قریب ہی کھڑی تھی۔۔
“Excuse me”
وہ کہتا وہاں سے چلا گیا اور وصی نے سکون کی سانس لی۔۔
وہ آئینے کے سامنے بیٹھی تھی وہی ملٹی کلر کا لہنگا پہنے جو شفی نے اس کے لیے پسند کیا تھا۔۔
سلور کلر دوپٹہ جو یچھے جوڑے پر ٹکا تھا۔۔
کچھ کرل کیے ہوئے بال آگے کاندھے پر پڑے تھے۔۔
اس نے آئی لیش سے ڈھکی پلکیں اٹھا کر خود کو آئینے میں دیکھا۔۔وہ آج کچھ الگ ہی روپ دکھا رہی تھی۔۔
کوئی دیکھ کر نہیں کہ سکتا تھا وہ ایک سولہ کم عمر لڑکی ہے۔۔
بناؤ سنگھار نے اسے کچھ اور ہی بنا دیا تھا۔۔
تبھی شائستہ بیگم کمرے میں آئی۔۔
ان کی نظر جیسے ہی حور پر پڑی ان کے چہرے پر مسکان ابھر آئی۔۔
“ماشاءاللہ۔۔میری بیٹی تو آج واقع حور لگ رہی ہے” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
اور وہ مسکرا دی۔۔
انہوں نے اسے پیارکیا اور اپنے ساتھ لے جانے لگی۔۔
“تمہارا بھائی غلط سمجھ رہے ہیں۔۔۔” نور نے کہا
“کیا مطلب؟” وصی نے پوچھا
“مطلب وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم دونوں۔۔۔۔ یو نو گرل فرینڈ، بوئے فرینڈ۔۔۔” نور نے ہنس کر کہا
“گرل فرینڈ،بوئے فرنڈ تو ہم ہیں” وصی نے تصحیح کی
“میرا مطلب ہے وہ سمجھ رہے ہیں ہم ریلیشن میں ہیں دونوں۔۔ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔۔۔” نور نے سمجھایا
“ہاں۔۔وہ صحیح سمجھ رہا ہے۔۔۔” وصی نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔۔
“کیا مطلب۔۔” وہ چونکی
“ہاں میں تمہیں پسند کرتا ہوں۔۔۔۔” وصی نے اسی انداز میں کہا
وہ ابھی بھی اس کے چہرے کو دیکھنے سے پرہیز کر رہا تھا۔۔
اس کی بات سن نور نے اسے بے یقینی سے دیکھا۔۔
“کک۔۔۔کیا؟” نور کی نظر اسی پر تھی۔۔
“کچھ نہیں وہاں دیکھو۔۔۔کتنی اچھی جوڑی ہے” وصی نے سامنے اشارہ کیا۔۔
نور اس طرف دیکھا۔۔
جہاں سے حور اور شفی چلتے آرہے تھے۔۔ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے۔۔کتنی ہی لائٹنگ نے انہیں گھیرا تھا۔۔
کتنے ہی لوگوں کی نظریں ان پر جمی تھی۔۔
حور نظریں جھکائے شفی کے ساتھ چل رہی تھی۔۔
شاید نظریں اٹھا کر لوگوں کی نظریں خود پر دیکھتی تو بھاگ جاتی واپس۔۔۔مگر اس وقت اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکان تھی۔۔
“واقع خوبصورت لگ رہے ہیں دونوں ” نور نے مسکرا کر کہا
“ہاں۔۔۔آؤ۔۔۔تصویر بنواتے ہیں” وصی نے اس کا ہاتھ تھاما۔۔۔اور اسے اسٹیج کے قریب لے گیا۔۔
جہاں ابھی ابھی حور اور شفی براجمان ہوئے۔۔
وہ اسٹیج کے قریب آیا تھا کہ کسی نے اسے پکارا
“ایک منٹ نور۔۔۔” وصی نے کہا۔۔
اور وہاں سے چلا گیا۔۔
تھوڑی دیر جب وہ واپس آیا تو۔۔رنگ کی ڈبی ہاتھ میں لیے تو وہاں نور نہیں تھی۔۔۔
“یہ کہاں گئی؟” اس نے یہاں وہاں دیکھا۔۔
“وصی۔۔۔” کسی نے اسٹیج سے پکارا۔۔اور وہ آگے بڑھ گیا۔۔
اس نے رنگ نکال کر شفی کو دی۔۔
شفی نے حور کا نرم و ملائل ہاتھ تھام کر اس کی انگلی میں ڈال دی۔۔
ایک الگ ہی خوشی تھی دونوں کے چہرے پر۔۔
پھر شائستہ بیگم نے رنگ نکال کر حور کی طرف بڑھائی۔۔
جسے حور نے پکڑنا چاہا مگر اس کے ہاتھ سے پھسلتی رنگ نیچے گر گئی۔۔
حور نے چونک کر یہاں وہاں دیکھا۔۔
رنگ لڑھکتی وصی کے قدموں میں جا گری۔۔
ایک رنگ تو سمبھال نہیں پا رہی یہ شفی تجھے کیسے سمبھالے گی” وصی نے شرارت سے کہا اور سب ہنسنے لگی۔۔
وصی نے جھک کر رنگ اٹھائی۔۔
اور چل کر حور کے قریب آیا۔۔
یہ لو۔۔۔”وصی نے مسکرا کر اس کی طرف رنگ بڑھائی۔۔
جسے چپ چاپ اس نے پکڑ لیا۔۔
شفی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔۔اور حوریں نے اس کی انگلی میں وہ رنگ پہنا دی۔۔
تبھی وصی کی سیٹی کی آواز گونجی اور سب نے شور مچا کر ان دوں کی خوشی کو دوگنا کردیا۔۔
وصی نے برابر میں کر کتنی ہی سیلفی بنائی۔۔
وہ بہت خوش تھا۔۔
وہ آکر کونے میں کھڑی ہوگئی تھی۔۔
اور دور سے سارا منظر دیکھ رہی تھی۔۔
نورکی سماعت سے بس ایک ہی جملہ ٹکرا رہا تھا۔۔
(میں تمہیں پسند کرتا ہوں)
وصی کا تھوڑی دیر پہلے کہا گیا جملہ۔۔
“کیا وہ سچ کہ رہا تھا؟” اس نے سوچا
“نہیں۔۔۔ہم صرف دوست ہیں بہت اچھے دوست” نور نے ود کلامی کی
“لیکن اگر وہ سچ میں تمہیں پروپوز کردے تو؟”
“نہیں۔۔وصی کو مزاق کرنے کی عادت ہے۔۔ابھی بھی وہ مزاق ہی کر رہا تھا۔۔” اس نے خیالات کو جھٹکا۔۔۔
وہ سوچوں میں گم تھی جب اسے پیچھے سے کسی نے پکارا
وہ پلٹی تو سامنے وصی کھڑا تھا۔۔
“کہاں غائب ہوگئی تھی؟” وصی نے خفگی سے کہا
“کہیں نہیں۔۔بس ویسے ہی” نور نے ہچکچا کر کہا۔۔
“چلو آؤ۔۔۔تصویر بنواتے ہیں” وصی نے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔
“نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں” نور نے کہا
“اچھا۔۔۔چلو یہیں سیلفی لیتے ہیں۔۔” وصی نے اپنا سیل نکالا۔۔
نور کی نظر اس کے چہرے پر ٹکی تھی۔۔
بلیک سوٹ میں، کلین شیو، بالوں کی پف ماتھے پر گرائے کسی ہیرو سے کم نہیں لگا اسے۔۔۔
جتنی اس کی عمر تھی وہ اس حساب سے حرکتیں کرتا۔۔
ہر وقت مستی مزاق۔۔
نور نے کبھی اسے سیریس نہیں دیکھا تھا۔۔
اور ابھی بھی اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکان تھی۔۔
نور اسے دیکھ مسکرائی۔۔
پھر اس کے فون پر جمے ہاتھوں کو دیکھا۔۔
“وصی۔۔۔تم یہ رنگ کیوں پہنتے ہو؟” نور نے اس کی چھوٹی انگلی میں پہنی رنگ کو دیکھا۔۔
وصی نے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔۔
“یہ۔۔ہاں ایسے ہی۔۔۔چلو سیلفی بناتے ہیں” وصی نے اس کی بات کو اگنور کرتے موبائل سامنے کرتا تصویر بنانے لگا۔۔
اور نور الرٹ ہوتی مسکرا دی۔۔۔
گھر پہنچتے ہی اس نے ہیل اتار کر سائیڈ پر پھینکی۔۔
“مما پتا ہے کتنا مزاہ آیا۔۔لڑکی تو بہت ہی حسین لگ رہی تھی۔۔۔چھوٹی سی تھی۔۔مجھ سے بھی چھوٹی” وہ کوثر بیگم کو ڈیٹیل دینے لگی۔۔
“اچھا۔۔۔” کوثر بیگم مسکرا دی
“ہاں مما ڈیکوریشن اتنی اچھی تھی۔۔اتنے لوگ آئے تھے۔۔” وہ بولتی جارہی تھی۔۔
“مما میری منگنی ہوگی نا تو اس بھی اچھی ڈیکوریشن کریں گے۔۔” نور نے کہا
اور کوثر بیگم اس کی بات پر ہنس دی۔۔
“مطلب لڑکا ڈھونڈوں میں۔۔؟” انہوں نے شرارت سے کہا
“نہیں ابھی نہیں۔۔” نور نے کہا۔۔
“اچھا پھر کب؟”
“اتنی جلدی نہیں۔۔ابھی تو مجھے لائف میں بہت کچھ کرنا ہے” اس نے کہا
“ناولز سے نکلے گی تو آگے کا سوچے گی نا” انہوں نے طنز کیا
“آپ سنانے کا موقع جانے مت دیں۔۔۔ سونے جا رہی ہوں میں” وہ اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔
کمرے میں جا کر اس نے چینچ کیا اور بیڈ پر کمبل اوڑھے لیٹ گئی۔۔
اس نے آنکھیں بند کی تو وصی کا کھلکھلاتا چہرہ اس کے سامنے آیا۔۔
“اوہ گوڈ۔۔۔یہ وصی۔۔جس سے ملتا اسے اپنا بنا لیتا ہے” نور بڑبڑائی
“ویسے آج وصی کیا کہنا چاہ رہا تھا؟” وہ سوچنے لگی۔۔
“مجھے گفٹ بھیجنا، تصویریں بنوانا، اپنے گھر انوائٹ کرنا۔۔کہیں وصی مجھ سے۔۔۔” وہ الجھی
“نہیں اس نے آج سے پہلے کبھی نہیں کہا” نور سوچ میں پڑ گئی
“ہم بہت اچھے دوست ہیں۔۔” اس نے خیالات کو جھٹکا اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔
سب بہت تھک گئے تھے اور اپنے اپنے کمرے میں جا کر سوگئے تھے۔۔
حور اپنے کمرے میں بیٹھی آج کے فنکشن کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔
وہ بہت خوش تھی۔۔
شاید کم عمر تھی اور شوق بھی تھا۔۔
پھر سائیڈ سے پانی اٹھانے لگی تو پاس رکھے ایک چھوٹے سے گفٹ پر نظر پڑی۔۔
وہ چونکی۔۔
پھر ہاتھ بڑھا کر گفٹ اٹھایا۔۔
اور کھولنے لگی۔۔
جب کھولا تو اس میں ایک خوبصورت بریسلیٹ تھا۔۔
“یہ کس نے دیا؟ وہ چہکی
“شاید وصی نے دیا ہوگا” اس نے خود کلامی کی
“مگر وصی نے تو گھڑی دی تھی۔۔” وہ سوچنے لگی۔۔
پھر سوچ کو جھٹکتی۔۔
بریسلیٹ اٹھا کر پہننے لگی۔۔
اس کی گوری کلائی میں وہ بریسلیٹ اور بھی خوبصورت لگ رہا تھا۔۔
وہ بریسلیٹ اسے بہت پسند آیا۔۔
وہ پہنے پہنے ہی لیٹ گئی۔۔
وہ بہت خوش تھی اسے اتنے سارے گفٹس ملے تھے سب کی تعریف ملی۔۔
شاید جتنی اس کی عمر تھی یہی اس کی خوشیاں تھی۔۔
وہ گہری نیند سورہی تھی جب دروازہ بجا۔۔
اس اٹھ کر دروازہ کھولا۔۔
سامنے نومی تھا۔۔
“نور۔۔۔پاپا کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔۔ ہمیں کراچی کے لیے نکلنا ہے۔۔” نومی نےاسے ساری تفصیل بتائی۔
“کیا؟ مما؟ مما کہاں ہے” وہ تیزی سے باہر کی طرف لپکی۔۔
کوثر بیگم صوفے پر بیٹھی رو رہی تھی۔۔
“مما۔۔۔” وہ ان کے قریب آئی۔۔
“مما کچھ نہیں ہوا۔۔۔” نور انہیں چپ کروانے لگی جبکہ پریشانی اس کے چہرے سے بھی عیاں تھی۔۔
“تمہارے پاپا۔۔پتا نہیں کیسے ہوں گے؟” وہ پریشانی سے کہنے لگی۔۔
“انہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔نومی نمبر ڈائل کر دوبارہ” نور نے کہا
نومی نے نمبر ڈائل کیا۔۔۔
“کیا ہوا؟” نور نے پوچھا
“رنگ جارہی ہے کوئی اٹھا نہیں رہا” نومی نے کہا۔۔
نور اس کے جواب پر اور پریشان ہوئی۔۔
“مما سب ٹھیک ہوگا آپ پریشان نہیں ہوں۔۔۔ہم ابھی نکل رہے ہیں کراچی کے لیے۔۔” نور نے انہیں تسلی دی
“نومی تو نمبر ٹرائی کرتا رہ۔۔۔میں بیگ لے کر آتی ہوں” وہ کہتی کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔
اور تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگ کراچی کے لیے روانہ ہوگئے۔۔
دو دن بعد نور کا ایک میسج ملا تھا جس میں اس نے اپنے کراچی جانے کا بتایا تھا۔۔اس کے بعد وصی کی اس کوئی بات نہیں ہوئی۔۔
وصی نے پلان بنایا تھا کہ وہ نور کے سرپرائز رکھے گا۔۔
اسے اپنے طریقے سے پروپوز کرے گا۔۔
وصی نے کتنے ہی دن تک نور کا نمبر ٹرائی کیا مگر اس کا نمبر لگ نہیں رہا تھا۔۔۔
ابھی بھی وہ گاڑی سڑک پر دوڑا رہا تھا جب اس کا فون تیز تیز بجنے لگا۔۔
اس نے کال رسیو کی۔۔
” وصی ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں گھر آجا” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“کیا؟۔۔۔کیا ہوا ددا کو” وصی پریشان ہوا
“تو بس جلدی آجا” شائستہ بیگم نے کہا اور فون بند کردیا
وہ گاڑی تیزی سے بھگاتا گھر کی طرف گیا۔۔
گھر پہنچتے ہی وہ جلدی سے گاڑی سے نکلتے ہی اندر کی طرف بڑھا۔۔
“ددا۔۔۔” وہ پریشان تھا
“کیا ہوا۔۔ددا” وہ کمرے میں داخل ہوا جہاں فاروق صاحب بیڈ پر لیٹے تھے۔۔۔ شائستہ بیگم اور ددو ان کے پاس بیٹھے تھے۔۔
پریشانی ان کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔۔
“کیا ہوا۔۔ددا آپ ٹھیک تو ہیں” وصی گھبرا کر پاس گیا اور ددا کے قریب زمیں پر ہی بیٹھ گیا۔۔
“پتا نہیں اچانک سے طبیعت خراب ہوگئی” ددو نے کہا
“ڈاکٹر کوبلا کر لاتا ہوں۔۔” وصی اٹھنے لگا
“نہیں۔۔نہیں ڈاکٹر کو دکھا دیا وہ کہتے ہیں انہیں کوئی ٹینشن مت دو بس۔۔۔اور آرام کریں بس” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“اچھا۔۔۔ددا آپ آرام کریں بس۔۔۔” وصی نے ان کے ہاتھ کو تھاما۔۔
“اب تو۔۔۔۔ آرام ہی کرنا ہے بیٹا۔۔۔پتا نہیں۔۔۔۔ کتنی زندگی ہے میری” ددا نے کہا
“کچھ نہیں ہوگا ددا آپ کو۔۔۔۔” وصی کی آنکھوں میں نمی تیر آئی۔۔اس نے ان کے ہاتھ کو چوما۔۔
وہ اس کے لیے سب کچھ تھے ان کو تکلیف میں دیکھ وصی کو تکلیف ہورہی تھی۔۔
“وصی بس مرنے سے پہلے ایک آخری خواہش پوری کردے” ددا نے کہا
“آپ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں کچھ نہیں ہوگا آپ کو۔۔۔” وصی نے فوراً کہا
“میری بات مانے گا نا” ددا نے کہا
“ہاں ددا حکم کریں۔۔” وصی نے پوچھا
“تو فوج میں چلا جا۔۔بس یہ خواہش پوری کردے تاکہ میں سکون سے مر سکوں” دڈا نے کہا۔۔
“ددا.. کچھ نہیں ہوگا آپ کو۔۔۔” وصی نے پھر کہا۔۔
“مان لے بیٹا بات ڈاکٹر نے کہا ہے انہیں خوش رکھنا” ددو نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا
“”جی ددو میرے لیے آپ لوگوں کی خوشی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں” وصی نے کہا۔۔
“خوش رہ بیٹا۔۔اللہ تجھے خوب ترقی دے” ددو نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔
اور وہ ددو کے گلے لگا۔۔
“چل آ کھانا کھا لے۔۔۔” ددو اسے باہر لے گئی۔۔
اوریک دم فاروق صاحب اٹھ بیٹھے۔۔
“گیا؟” انہوں نے شائستہ بہگم سے پوچھا۔۔
“ہاں۔۔” شائستہ بیگم نے دیکھتے ہوئے کہا
“ابا آپ بھی نا۔۔۔بیچارہ رونے جیسا ہوگیا تھا” شائستہ بیگم نے ہنس کر کہا۔۔
“ایسے یہ جاتا نہیں فوج میں۔۔۔یہ ناٹک کچھ دن کرنا پڑے گا” فاروق صاحب نے کہا۔۔
“آپ کے پوتے کا کوئی بھروسہ نہیں آپ کی طبیعت ٹھیک ہوئی تو مکر جائے گا” شائستہ بیگم نے کہا
“مکر کیسے جائے گا میں بھی اس کا دادا ہوں۔۔جب فوج میں چلا جائے گا تبھی ٹھیک ہونا ہے مجھے” فاروق صاحب نے کہا
اور شاہستہ بیگم ہنس دی۔۔۔