وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سرخ لہنگا تھامے پتا نہیں کتنی دیر سے بنا پیچھے دیکھے بھاگ رہی تھی مطلوبہ جگہ پہ پہنچنے کے بعد وہ ایک دم رک گئی تھی اس کا سانس بری طرح پھول چکا تھا گہرے گہرے سانس لیتے ہوۓ اس نے آگے پیچھے دیکھا اور پھر ہاتھ میں پکڑے اس چھوٹے سے موبائل پہ اس نے ایک نمبر ملایا تھا ” “ہیلو! ہیلو! حماد میں گھر سے بھاگ آئی بھاگ آئی ہوں میں آج اس قید خانے سے جہاں مجھے زبردستی کسی ایسے انسان کے ساتھ باندھ رہے تھے جسے میں پسند نہیں کرتی میں صرف اور صرف تم سے پیار کرتی ہوں اب میں تمہیں ایڈریس سینڈ کرتی ہوں پلیز جلدی سے آجاؤں مجھے لینے یہ نا ہو میرے گھر والے مجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں تک پہنچ جائے ٹھیک ہے جلدی پہنچو” دوسری طرف موجود انسان مسلسل کچھ بولنے کی کوشش کر رہا تھا جسے سنے بغیر وہ کال کاٹ چکی تھی میسج کے ذریعے اسے ایڈریس سینڈ کرنے کے بعد اب وہ اسی سنسان سڑک پر کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
آج ایک اور لڑکی اپنے باپ, اپنے بھائی کی عزت کا جنازہ نکال چکی تھی پتہ نہیں کیوں صرف چند ماہ کی ایک نامحرم کی نام نہاد محبت کے آگے ایسی لڑکیاں اپنے ماں باپ کی محبت کو بھول جاتی ہیں۔
“انعم آپی اٹھ جائے پلیز کب سے میں آپ کو اٹھا رہی ہوں احسن بھائی کو فیکٹری بھی جانا ہے لیٹ ہو جاتے ہیں وہ روز آپ کی وجہ سے اب پلیز اٹھ بھی جائے نہ” سائرہ کب سے انعم کو آوازیں دے رہی مگر دوسری جانب موجود ہستی پر کوئی اثر نہیں پڑا ” انعم! انعم! کدھر ہو تیار ہو گئی ہو کیا؟” ابھی سائرہ وہی کھڑی انعم کو جگانے کی کوشش کر رہی تھی جب دروازے سے احسن داخل ہوا ” نہیں بھائی میں بھی کب سے اٹھا رہی ہوں انہیں مگر آپی تو گدھے گھوڑے بیچ کے سوئی ہے” سائرہ نے غصے سے کہا وہ تقریبا آدھے گھنٹے سے انعم کو جگا رہی تھی لیکن انعم میڈم کی نیند ہی پوری ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ تم فکر مت کرو گڑیا صرف دیکھو اب میں کرتا کیا ہوں” کہتے ہی احسن باہر کی جانب چل دیا اور کچھ ہی دیر میں پانی کا جگ ہاتھ میں پکڑے واپس کمرے میں آیا اشارے سے سائرہ کو چپ رہنے کا کہا اور بیڈ کے قریب جاتے ہی جگ میں موجود سارا پانی انعم کے اوپر انڈیل دیا اس سرد موسم میں شدید ٹھنڈے پانی کا گرنا تھا کہ انعم چیخیں مارتی اٹھ بیٹھی تھی سردی سے تھر تھر کانپتے کچھ دیر تو وہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ ہوا کیا ہے لیکن جیسے ہی نظر سائرہ پہ گئی جو صوفے پہ بیٹی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی انعم کا چہرہ غصے سے ٹماٹر کی طرح لال ہو گی اگلی نظر اس نے احسن پر ڈالی تھی جس کا چہرہ ہنسی ضبط کرنے کی وجہ سے لال ہو رہا تھا وہ دروازے میں تیار کھڑا تھا کہ ادھر انعم مجھے مارنے کے لیے بھاگے گی اور میں پہلی ہی دوڑ لگا دوں گا اور وہی ہوا تھا وقت ضائع کیے بغیر انعم احسن کے پیچھے بھاگی تھی سائرہ بھی اب چوکھٹ میں کھڑی دونوں کو دیکھ رہی تھی صحن میں احسن آگے آگے اور انعم اسے پکڑنے کی کوششوں میں بے حال ہوتی اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ “ہو کیا رہا ہے یہ پاگل ہو گئے ہو دونوں صبح ہی صبح پھر سے شروع ہو گئے ہو” بھاگتے بھاگتے دونوں کا سانس پھول گیا تھا جب نوشین بیگم نے درمیان میں آکے ان دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی نا کام سی کوشش کی تھی “امی آج آپ درمیان میں نہیں آئیں گی آج میں اس احسن کا قتل کر کے ہی دم لوں گی” پھولے ہوئے سانس کے ساتھ انعم نے کہا تھا “پہلے پکڑ تو لو پھر قتل کرنا” نوشین بیگم کے پیچھے کھڑے احسن نے کہا تھا “امی یہ دیکھے کیا حرکت کی ہے اس نے اتنی سردی میں اس نے مجھ پہ ٹھنڈا پانی گرا دیا” سردی سے کانپتی انعم نے اپنے گیلے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا “ہاں بہت اچھا کیا ہے میں نے امی کتنی دیر سے گڑیا بیچاری اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن مجال ہے کہ مہرانی صاحبہ آنکھیں کھولنے کی زحمت کر لے میں روز اس کی وجہ سے فیکٹری لیٹ پہنچتا ہوں اور پھر بابا بھی اسے کچھ نہیں کہتے مجھے وہاں سب کے سامنے بےعزت کر کے رکھ دیتے ہیں” احسن نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا جبکہ گڑیا ابھی بھی کمرے کی چوکھٹ میں کھڑی لبوں پہ مسکراہٹ لیے یہ نظارہ دیکھنے میں مصروف تھی ” ہاں تو نا لیکر جاؤ مجھے یونیورسٹی میری ٹانگیں سلامت ہے میں خود بھی جا سکتی ہوں” انعم نے بےنیازی سے کہا تھا “دیکھا امی دیکھا لیا نا آپ نے اب تو میں اسے بلکل بھی نہیں لیکر جاؤں گا خود جائے اب میں پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکا ہوں ابھی تو محترمہ نے ناشتہ بھی نہیں کیا چلو گڑیا تمہیں چھوڑ دیتا ہوں سکول جلدی باہر آؤ” احسن کو بھی غصہ آگیا ایک طرف تو روز وہ انعم کی وجہ سے لیٹ ہو جاتا تھا اور دوسری طرف انعم میڈم کو کوئی پرواہ ہی نہیں “ارے احسن بیٹا سنو میری بات تو سنو اب کیا بہن اکیلی جائے گی رکو” نوشین بیگم آوازیں دیتی رہ گئی مگر احسن جا چکا تھا اور اسکے پیچھے ہی گڑیا سکول کے یونیفارم میں ملبوس بھاگتی ہوئی گئی تھی “تمہیں کب عقل آئے گی انسان بن جاؤ اب یونیورسٹی تک پہنچ گئی ہو لیکن حرکتیں اب بھی تمہاری وہی بچوں والی ہے آنے دو آج تمہارے ابو کرتی ہوں ان سے بات انہوں نے ہی تمہیں سر پہ چڑھایا ہوا ہے” نوشین بیگم غصے سے کہتی کچن کی جانب چل دی جبکہ انعم میڈم ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتی یونیورسٹی کیلئے تیار ہونے چلی گئی
عبید صاحب کے تین بچے تھے احسن, انعم اور سائرہ احسن اور انعم دونوں جڑوا تھے جبکہ ان دونوں سے چھوٹی اور سب کی لاڈلی سائرہ تھی جس کو سب پیار سے گڑیا بولتے تھے احسن اور انعم روز ایسے ہی لڑتے جھگڑتے رہتے تھے لیکن جتنا وہ دونوں لڑتے تھے اتنا ہی دونوں بہن بھائیوں میں پیار بھی تھا وہ دونوں سکول سے لے کہ کالج تک ایک ساتھ پڑھتے آئے تھے اگر انعم کو کوئی کچھ کہتا تو لاکھ لڑائی جھگڑوں کے باوجود احسن اپنی بہن کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جاتا وقت کے ساتھ ساتھ دونوں بڑے ہوتے گئے لیکن لڑنا جھگڑنا اب تک نا چھوڑا انٹر کے بعد ہی احسن نے پڑھائی کو خیرباد کہہ کر عبید صاحب کے ساتھ فیکٹری سنبھالنے کو ترجیح دی جبکہ انعم مزید آگے پڑھنا چاہتی تھی اسی لیے عبید صاحب نے لاہور کی ایک بہت اچھی یونیورسٹی میں انعم کا داخلہ کرادیا اس کے علاوہ گڑیا میٹرک میں تھی اور کچھ ہی دن بعد اس کے امتحانات ہونے والے تھے احسن روز انعم کو یونیورسٹی جبکہ گڑیا کو سکول چھوڑنے کے بعد فیکٹری جاتا تھا گڑیا تو وقت پہ تیار ہو جاتی تھی لیکن انعم کو صرف نیند سے جگانا ہی اونٹ کو رکشے میں بیٹھانے کے برابر ہوتا تھا جس کی وجہ سے احسن روز فیکٹری دیر سے پہنچتا اور نتیجتاً عبید صاحب بیٹی کو کچھ کہنے کے بجائے روزانہ احسن کی بے عزتی کر دیتے آج احسن کو بھی غصہ آگیا تھا اور انعم کو ایسے ہی چھوڑکر خود چلا گیا۔ یہ عبید صاحب کا ایک ہنستا بستا گھرانہ تھا جہاں ہر جانب خوشیاں ہی خوشیاں تھی
وہ غصے سے کھولتے ہوئے گلی میں جا رہی تھی احسن سے تو اس نے کہہ دیا تھا کہ وہ اکیلی چلی جائے گی مگر اب ان سنسان گلیوں سے گزرتے ہوئے اسے ڈر لگ رہا تھا کیونکہ بچپن ہی سے وہ اور احسن دونوں ساتھ پڑھتے آئے تھے احسن کے ساتھ ہونے کی وجہ سے انعم کو ڈر کبھی محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن آج جب وہ اکیلی تھی تو اسے ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے آس پاس گزرنے والے سب اسے ہی دیکھنے کیلئے کھڑے ہو “اب تو میں کبھی بھی احسن کے بغیر نہیں آؤں گی سب کیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں میری توبہ اب روزانہ احسن کے ساتھ ہی آؤں گی” اپنی ہی سوچوں میں مگن وہ تیز تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی جب اچانک اس کے کان میں آواز پڑی تھی “ایکسکیوز می میڈم” انعم نے جھٹکے سے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا وہ ایک چوبیس پچیس سالہ نوجوان تھا انعم نے گھبرا کر ارد گرد دیکھا تھا وہ یونیورسٹی کی گلی سے ایک گلی پیچھے تھی اردگرد اور کچھ نہیں تھا سوائے ایک ہوٹل کے وہ بھی کافی فاصلے پر تھا”ج جی” انعم نے گھبراتے ہوئے جواب دیا “وہ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟” اس لڑکے نے چہرے پر معصومیت طاری کرتے ہوئے پوچھا تھا جبکہ سوال سن کر اب انعم آنکھیں پھاڑے اس لڑکے کو دیکھ رہی تھی جو اس کے بلکل سامنے کھڑااب جواب کا منتظر تھا ” م میرا جو بھی نام ہو اس سے آپ کو مطلب اپنے کام سے کام رکھیں ورنہ میں ابھی چلاکرسب کو یہاں اکٹھا کر دوں گی پھر دیکھنا کیا حال ہو گا آپ کا” انعم نے خود کو مضبوط ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا لیکن زیادہ سخت الفاظ بولنے سے خود کو باز رکھا تھا دل میں ڈر بھی تھا ایک تو وہ اکیلی لڑکی اوپر سے قریب کوئی تھا بھی نہیں جسے مدد کے لیے کہتی “ارے آپ ایسے کیوں بول رہی ہے میں ویسا لڑکا نہیں ہوں جیسے آپ سمجھ رہی ہیں میں روز آپ کو اس راستے سے گزرتا دیکھتا ہوں آپ سچ میں مجھے بہت اچھی لگی کیا ہم دونوں بات کر سک……. ابھی اس نے بات مکمل بھی نہیں کی تھی کہ انعم کو اپنے پیروں کے نیچے سے زمین نکلتی محسوس ہوئی تھی اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا انعم بھاگتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ پیچھے موجود انسان مسکراتے ہوئے کچھ فاصلے پرموجود ہوٹل کی طرف بڑھ گیا تھا جہاں اس کے تین دوست بیٹھے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
“پھر کیا بنا اس لڑکی کا” حماد کے دوست زبیر نے پوچھا “مجھے تو لگ رہا تھا کہ ابھی بےہوش ہوجائے گی محترمہ” ارحم نے بھی اپنا حصہ ڈالا جبکہ ندیم مسکراتے ہوئے ان کی باتیں سن رہا تھا “ہاں کافی ڈرپوک تھی نام بھی نہیں بتایا کانپتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئی لیکن کوئی بات نہیں کل پھر آئے گی آج نہیں تو کل سہی آخر کار بتا ہی دیں گی” ارحم نے لاپرواہی سے کہا تھا “کیا مطلب کل پھر یہی لڑکی؟” زبیر نے پوچھا تھا “ہاں ہاں یہ باقی لڑکیوں سے ذرا مختلف تھی اس لیے اس سے تو اب بات کرنی ہی پڑے گی ” حماد بول رہا تھا جبکہ آخری جملے پہ سب قہقہہ لگا کر ہنسے تھے۔
حماد,زبیر,ندیم اور ارحم چاروں کی دوستی بہت گہری تھی وہ چاروں بچپن سے ہی دوست تھے ایک ساتھ سکول اور کالج پڑھنے کے بعد ایک ہی یونیورسٹی سے ہی ماسٹرز کیا امیر کبیر گھرانے سے تعلق تھا کسی نوکری کے چکر میں پڑنے کے بجائے چاروں ہی دن بھرآوارہ گردی کے بعد کچھ وقت کیلئے اپنے والد کے آفس چلے جاتے تقریبا ایک مہینہ پہلے ان چاروں نے پروگرام بنایا تھا کہ کل سب ناشتہ ایک ساتھ کریں گے وہ بھی کسی فائیو سٹار ہوٹل میں نہیں بلکہ کسی عام سے ہوٹل میں یہ بھی ان کے لیے ایک ایڈونچر ہی تھا صبح صبح وہ چاروں اس ہوٹل میں پہنچ گئے تھے جہاں کا ندیم نے ایڈریس بتایا تھا ناشتے کے بعد وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے جب ارحم کو پتا نہیں کیا سوجھی کہ اس نے حماد سے کہا ” حماد چل نا یار یہ سامنے دیکھ لڑکی جا رہی ہے شاید اگلی گلی میں جو گرلز یونیورسٹی ہے وہاں کی سٹوڈنٹ ہے یار اس کا نمبر لا دے نا جلدی کر” “میں کیوں لاؤ بات تم نے کرنی ہے یا میں نے جو میں لے کہ آؤں خود جاؤ” حماد نے بیزاری سے کہا تھا “اس کی شکل دیکھو اور ایمان سے بتاؤ اس کی شکل ایسی ہے کہ کوئی لڑکی اسے اپنا نمبر دے دیں” زبیر کی بات پہ ان تینوں نےایک ساتھ قہقہہ لگایا تھا سوائے ارحم کہ جو غصے سے لال پیلا ہو گیا تھا لیکن یہ سچ بھی تھا ارحم ایک معمولی شکل و صورت والا انسان تھا جبکہ حماد بہت خوبصورت تھا اور اس کی پرسنیلٹی بھی بہت اچھی تھی یونیورسٹی میں بھی وہ جس لڑکی کیطرف دوستی کیلیے ہاتھ بڑھاتا وہ انکار نا کرتی اس لیے ارحم نے حماد سے ہی نمبر لانے کے لیے کہا “نا لاؤ لیکن خبردار جو میرا مذاق اڑایا تو بہت برا حشر کروں گا” ارحم نے غصے چبا چبا کر کہا تھا “اچھا یار مت رو جاتا ہوں لیکن بڑی تیز ترار لڑکی لگتی ہے کہی تھپڑ ہی نا مار دے” حماد نے ہنستے ہوئے کہا “تو کیا ہوا اپنے دوست کیلیے ایک تھپڑ نہیں کھا سکتے” ارحم نے اپنے نا نظر آنے والے آنسو صاف کیے تھے “اچھا اب ڈرامے بند کرو جا رہا ہوں” یہ کہتے ہی حماد وہاں سے چلا گیا اس لڑکی سے اسی طرح نام اور نمبر پوچھنے کے بعد اس نے حماد کی اچھی خاصی عزت افزائی کر دی تھی جبکہ ہوٹل میں بیٹھے باقی تینوں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہے تھے اس دن کے بعد یہ ان چاروں کا معمول بن گیا تھا روز اسی ہوٹل میں ناشتے کے بعد وہاں سے گزرتی لڑکیوں میں سے کسی سے نام پوچھتے تو کسی سے نمبر مانگتے کچھ لڑکیاں ایسی ہوتی جو اچھی خاصی عزت افزائی کر دیتی کچھ لڑکیاں صرف مسکرا کر گزر جاتی جبکہ بعض لڑکیاں ایسے نظرانداز کر دیتی جیسے ان سے نہیں کسی اور سے پوچھا گیا ہو ایسے ہی آج حماد کی نظر اس لڑکی پہ پڑی جو ڈرتے ڈرتے تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے گزر رہی تھی حماد بھی وقت ضائع کیے بغیر اس کے پاس پہنچ گیا اور آخر میں وہ لڑکی بھاگتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی ایسا تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا اب اسے یہ سب کرنے میں مزہ آرہا تھا اور اس نے سوچا تھا کہ کل پھر اسی لڑکی سے بات کروں گا۔
یونیورسٹی سے واپسی پہ انعم کو لینے کیلیے احسن آیا تھا ہوٹل کے قریب سے گزرتے ہوئے انعم نے یہاں وہاں دیکھا لیکن اسے وہ صبح والا لڑکا کہیں نظر نہیں آیا ” کوئی بہت ہی چھچھورا انسان تھا جو کوئی بھی تھا” انعم نے ناگواری سے سوچا اور احسن کے ساتھ وہاں سے روانہ ہو گئی “آج اتنی خاموش کیوں ہو میری کچرا رانی؟” احسن نے انعم کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے اسے چھیڑا تھا اور ہمیشہ کی طرح وہ بھڑک اٹھی تھی “احسن دیکھو میرا دماغ خراب نا کرنا ورنہ یہی روڈ پہ تمہیں ماروں گی” “اچھا مجھے مارو گی ہاتھ تو لگا کہ دکھاو ذرا میں نے بھی چوڑیاں نہیں پہنی اور ہاتھ میرے بھی سلامت ہے” اب وہ دونوں پھر سے شروع ہو چکے تھے۔
آج صبح سوریرے تیار ہونے کے بعد احسن ناشتے کیلئے جیسے ہی کچن میں داخل ہوا اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی کچن شیلف کے پاس انعم سب کیلئے ناشتہ بنانے کی کوشش کر رہی تھی میز کے قریب رکھی کرسی پہ نوشین بیگم اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے بیٹھی تھی جبکہ گڑیا انعم کے پاس ہی غصے میں کھڑی تھی “یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں میرے اللہ کیا یہ سب سچ ہے؟ یہ جو مجھے نظر آرہا ہے یا محض میری نظر کا دھوکہ ہے میں بےہوش ہونے والا ہوں انعم عبید آج کچن میں کوئی پکڑو مجھے ارے کوئی تو پکڑو مجھے” احسن کرسی پہ گرنے کے انداز میں بیٹھا تھااور اب وہ انعم کو تنگ کرنا شروع کر چکا تھا اس کی مزاحیہ باتیں سن کر گڑیا تو باقاعدہ قہقہہ لگا رہی تھی جبکہ نوشین بھی ہنستے ہوئے احسن کو ہی دیکھ رہی تھی ” بیٹھ جاؤ بیٹھ جاؤ تمہارے لیے بھی ناشتہ لے کر آرہی ہوں” انعم نے لاپرواہی سے کہا تھا “احسن دیکھو بیٹا صبح صبح پتا نہیں اس پہ کون سے جن بھوت آئیں ہیں کہ خود یہاں کھڑی ہو گئی ہے ناشتہ بنانے چائے بنانی تو اسے آئی نہیں آج تک اور ناشتہ بنائے گی یہ میڈم تم ہی سمجھاؤ اسے کچھ میری تو نہیں سن رہی یہ” نوشین بیگم نے عاجز آکر احسن سے کہا تھا۔” اوے ادھر آ کہ بیٹھ جاؤ یہ سب کرنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے” احسن نے ایک بار پھر اس کا مذاق اڑایا تھا “کیوں نہیں ہے آج میں آپ سب کو ناشتہ بنا کر دکھاؤں گی اور امی آپ تو روز طعنے دیتی ہے کہ تمہارے عمر کی لڑکیاں سارا گھر سنبھالتی ہے یہ کرتی ہیں وہ کرتی ہیں آج جب میں کام کر رہی ہوں تو آپ ہی مجھے نہیں کرنے دے رہی” انڈے کو فرائی کرتے وہ ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہی تھی جب اچانک توے سے گرم گھی کے چھینٹے اس کے ہاتھ کی پشت پہ گرے تھے چیختے ہوئے وہ زمین پہ بیٹھ گئی تھی وقت ضائع کیے بغیر احسن اس کے پاس آیا تھا جبکہ گڑیا نے بھاگ کے چولہا بند کردیا تھا ” کیا کر رہی ہو جلا دیا نا اپنا ہاتھ کہا بھی تھا میں نے کہ امی کر لے گی تم سے نہیں ہو گا لیکن کسی کی سنتی کہا ہو تم” احسن نےاس کا ہاتھ پکڑ کہ اٹھاتے ہوئے غصے سے کہا تھا “گڑیا جاؤ ٹوتھ پیسٹ لے کہ آؤ” نوشین بیگم کے کہنے پہ گڑیا جلدی سے ٹوتھ پیسٹ لے آئی تھی احسن نے ہی ٹوتھ پیسٹ لگانے کے بعد اسے اپنے ہاتھ سے ناشتہ کروایا تھا “آج یونیورسٹی مت جاؤ تمہارا ہاتھ بھی جل گیا ہے” احسن نے فکرمند لہجے میں کہا “نہیں مجھے جانا ہے آج ایک بہت امپورٹنٹ ٹیسٹ ہے” انعم نے جواب دیا ” اوکے چلو آؤ دونوں احسن ان دونوں کو لیے گھر سے نکل گیا تھا۔
آج پھر ناشتے کے بعد وہ چاروں وہی ہوٹل میں موجود تھے جب ارحم نے مزاحیہ لہجے میں حماد سے پوچھا” حماد یار اس لڑکی کا کیا بنا پھر وہ جو تجھے دیکھتے ہی بھاگ گئی تھی اس سے بات ہوئی پھر تیری؟ “نہیں یار کہاں ہوئی دیکھتا تو میں اسے روز ہوں لیکن ساتھ میں کوئی لڑکا ہوتا ہے شاید اسکا بھائی ہے اسلیے بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا” حماد نے موبائل کی سکرین پہ نظریں جمائے جواب دیا۔
آج پیر کا دن تھا اور آج پھر انعم دیر سے سےاٹھی تھی وجہ یہ تھی کہ انعم کو ٹیسٹ ملا تھا یونیورسٹی سے رات دیر تک وہ پڑھتی رہی تھی اب جب آنکھ کھول کہ دیکھا تو آٹھ بج رہے تھے وہ بستر سے نکل کر فوراً باہر آئی تھی اور صحن میں موجود نوشین بیگم سے پوچھا “امی احسن کہاں ہے؟ ” وہ اور گڑیا دونوں چلے گئے احسن کہہ رہا تھا کہ آج تمہیں یونیورسٹی نہیں جانا اس لیے وہ چلا گیا” نوشین بیگم نے جواب دیا ” اس احسن کو تو میں چھوڑوں گی نہیں آنے دے ذرا اس کو میں نے کب اسے کہا کہ نہیں جانا بلکہ آج تو میرا ٹیسٹ ہے اب مجھے اکیلے ہی جانا پڑے گا آنے دے آپکے لاڈلے کو آج ابو کو لگاتی ہوں اسکی شکایت” انعم غصے سے کہتی وہاں سے چلی گئی تھی اور کچھ ہی دیر میں وہ منہ ہاتھ دھوئے گندھے پہ بیگ ڈالے جانے کے لیے تیار تھی “اچھا امی میں جا رہی ہوں اللہ حافظ!” انعم نے نوشین بیگم سے کہا جو کہ کچن میں کھڑی انعم کے لیے ناشتہ تیار کر رہی تھی “انعم رکو ناشتہ کر کہ جانا” نوشین بیگم نے کچن ہی سے آواز لگائی “نہیں امی پہلے ہی میں لیٹ ہو چکی ہوں اب یونیورسٹی میں ہی کچھ کھا لوں گی اللہ حافظ! ” نوشین بیگم آوازیں دیتی رہ گئی لیکن وہ بھاگتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی ۔
آج پھر وہ اس راستے پہ اکیلی جا رہی تھی رہ رہ کر اسے احسن پہ غصہ آرہا تھا اس گلی سے گزرتے ہوئے انعم کوکچھ دن پہلے والا واقعہ یاد آگیا تھا اس نے اپنی رفتار مزید تیز کر دی۔
“ایکسکیوز می پلیز میری بات سنے” انعم کے کانوں میں ایک بار پھر وہی آواز گونجی تھی اسکے تیز تیز چلتے قدم ایک دم رک گئے تھے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...