وہ صوفے کی پشت پر سر ٹکاےُ آنکھیں بند کر کے سوچنے لگی۔
وائز کا حویلی میں نماز کے لیے جاگنا، راتوں کو رونا، اس کا خیال رکھنا، ہر کام خود کرنا، پھر راستے میں نماز کے لیے رکنا،وہ ڈانس والی ویڈیو۔۔۔
اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں۔
“کیا وہ سچ میں سدھر گیا ہے؟ تو پھر وہ ویڈیو؟۔۔۔۔”
وہ خود کلامی کر رہی تھی۔
“میں نے گرم پانی بھی چلا دیا ہے تم فریش ہو جاؤ۔۔۔ اور یہ بتاتی جاؤ کھانے میں کیا کھاؤ گی؟”
وہ جیب میں ہاتھ ڈالے بائیں جانب کھڑا تھا۔
وہ چند لمحے خاموش اسے تکتی رہی۔
“ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“کچھ بھی بنا لو کھانے میں۔”
وہ اپنی سوچوں کو جھٹکتی ہوئی بولی۔
“ٹھیک ہے۔۔۔ ”
وہ سادگی سے مسکرایا۔
وہ اسے دیکھے بنا کمرے میں چلی گئی۔
“تم یہ سب کیوں کر رہی ہو؟”
وائز کمرے میں آیا تو وہ الماری کھولے کھڑی تھی۔
“میں اپنا کام خود کروں گی۔”
وہ زور دے کر بولی۔
وہ ٹرے بیڈ پر رکھتا خفگی سے اسے دیکھنے لگا۔
“خبردار اگر تم نے بیڈ سے پاؤں بھی نیچے رکھا تو۔”
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ کے پاس لے آیا۔
“بیٹھو جلدی۔۔۔ ڈھنڈا ہو جاےُ گا۔”
وہ ٹرے کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔
وہ اسے خفگی سے دیکھتی بیٹھ گئی۔
کچھ سوچ کر وہ پاؤں نیچے رکھے سلیپر پہننے لگی۔
“میں نے کہا تم بیڈ سے نیچے پاؤں نہیں رکھو گی؟”
وہ گھورتا ہوا بولا۔
“واش روم بھی نہ جاؤں میں؟ ہاتھ دھونے ہیں۔ عجیب ہو تم بھی۔۔۔ ”
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
وہ مسکراتا ہوا بیٹھ گیا۔
“ویسے کبھی تم نے کیڑے نہیں نکالے کھانے میں۔۔۔ کیا بہت اچھا بناتا ہوں؟”
وہ دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“مجھے عادت نہیں ہے کیڑے نکالنے کی۔”
وہ تنک کر بولی۔
“ویل بہت اچھی بات ہے۔۔ اچھا میں سوچ رہا تھا کچھ دنوں کے لیے شمالی علاقے میں چلتے ہیں سیر بھی ہو جاےُ گی، ٹائم بھی اچھا پاس ہو جاےُ گا۔”
وہ اجازت طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
“میں ٹھیک ہوں یہاں ہی۔”
وہ ٹرے پیچھے کرتی ہوئی بولی۔
وائز کی جیب میں پڑا فون وائبریٹ کر رہا تھا جسے وہ کافی دیر سے نظر انداز کر رہا تھا اب چونکہ وہ بتا چکی تھی کہ مزید بات نہیں کرے گی سو وہ فون نکال کر دیکھنے لگا۔
“ہاں فیڈی بول؟”
وہ کھڑا ہو کر دروازے کی جانب چلنے لگا۔
“کہاں میرے گھر کے باہر؟”
وہ دروازے میں رک گیا۔
“اچھا میں آتا ہوں۔۔۔ ”
وہ فون جیب میں ڈال کر اس کے پاس آیا اور ٹرے اٹھا کر چل دیا۔
“فیڈی آیا ہے۔۔۔ ملو گی اس سے؟”
وہ دروازہ پکڑے کھڑا تھا۔
“نہیں میں سونے لگی ہوں۔”
وہ بےرخی سے کہتی لائٹ آف کر گئی۔
“گڈ نائٹ۔۔۔ ”
وہ کہتا ہوا باہر نکل آیا۔
ٹرے کچن میں رکھ کر وہ باہر آ گیا۔
“بیل کیوں نہیں دی؟”
وہ گھورتا ہوا بولا۔
“تو کہاں بزی تھا؟ اتنی کالز کیں میں نے۔۔ ”
وہ منہ بناتا ہوا اندر آ گیا۔
“زرش کے پاس تھا میں۔۔۔ بیٹھ تو۔”
وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔
“بیوی کے ساتھ سیٹ ہو ہی گیا پھر تو؟”
وہ قہقہ لگاتا ہوا بولا۔
“ہاں وہ تو ہونا ہی تھا۔ سعد پھر لاہور گیا ہے؟”
وہ صوفے پر نیم دراز ہوتا ہوا بولا۔
“ہاں۔۔۔ سوچ رہے ہیں نکاح کر لیں تاکہ رشتہ مضبوط ہو جاےُ ابھی پڑھائی مکمل ہونے میں ٹائم جو ہے۔”
وہ دائیں بائیں دیکھتا ہوا بولا۔
“اچھی بات ہے۔۔۔۔ ”
وہ سر اثبات میں ہلاتا ہوا بولا۔
“کمرے میں چلتے ہیں کچھ سموکنگ وغیرہ۔۔۔۔”
وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا ہوا بولا۔
“نہ بھئ چھوڑ دیا سب میں نے۔۔۔ ”
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
“مذاق نہ کر یار۔۔۔ ”
اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
“میری شکل سے لگ رہا کہ میں مذاق کر رہا ہوں؟میرے روم میں دیکھ ایک بھی سیگرٹ مل جاےُ تو نام بدل دینا۔۔۔۔”
وہ گھورتا ہوا بولا۔
“نہیں لیکن یہ تو ناممکن ہے۔”
وہ یقین کرنے پر رضامند نہ تھا۔
“اب کیا سٹامپ لکھواؤں پھر یقین کرے گا؟”
وہ بدمزہ ہوا۔
“نہیں ایسی بھی بات نہیں لیکن دماغ ابھی بھی قبول نہیں کر رہا۔”
وہ قہقہ لگاتا ہوا بولا
“نہ کر تو۔۔۔ ”
وہ کشن مارتا ہوا بولا جو اس نے مہارت سے کیچ کر لیا۔
“لڑکیوں کو بھی چھوڑ دیا؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“شریف بن گئے ہیں ہم۔۔ ”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“ہاےُ آپ کی شرافت۔۔۔ لڑکیوں میں جان تھی تیری۔ عینی کا فون آیا تھا مجھے۔”
وہ اسے وہی کشن مارتا ہوا بولا۔
“بتا دینا تھا شادی شدہ ہو گیا ہوں میں،اب اپنا گھر دیکھنا ہے بھئ پہلے بہت بدنام ہو گئے۔”
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
“تم دونوں کے بیچ سب ٹھیک نہیں ہوا؟”
وہ یکدم سنجیدہ ہو گیا۔
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں لیکن دلوں سے کہاں جاتی ہیں پرانی باتیں۔”
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
اپنے گھر کو وہ کسی باہر والے سے ڈسکس نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“وائز سچ میں تو بدل گیا ہے؟”
وہ آگے کو ہوتا بغور اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
“گھر سے باہر نکلتا ہوں تب دل کرتا ہے کلب جاؤں یا ڈیٹ وغیرہ!۔۔۔۔ لیکن گھر میں آتے ہی سیٹ ہو جاتا ہوں۔”
وہ سانس خارج کرتا ہوا بولا۔
فیڈی اثبات میں سر ہلانے لگا۔
“چل آ نماز پڑھنے چلتے ہیں۔”
جونہی اذان کے کلمات اس کے کان میں
باز گشت کئے وہ کھڑا ہو گیا۔
“سئیرئسلی؟”
وہ ششدر سا بولا۔
“ہاں نہ۔۔۔ اگر تو نے نہیں بھی پڑھنی تو بھی ساتھ آ جا۔”
وہ اسے زرش کے پاس نہیں چھوڑ کر جانا چاہتا تھا۔
“میں تیرا انتظار کرتا ہوں یہیں بیٹھ کر۔۔۔ ”
وہ ریموٹ اٹھاتا ہوا بولا۔
“سیگرٹ پی لینا کہیں کھڑے ہو کر۔۔۔ ”
وہ اس بازو پکڑ کر چلنے لگا۔
“کوئی حال نہیں تیرا۔۔ ”
وہ قہقہ لگاتا باہر نکل گیا۔
وائز اپارٹمنٹ کو لاک کرتا اس کے ساتھ چلنے لگا۔
~~~~~~~~
“مشل کیسی ہو؟”
وہ بیڈ سے ٹیک لگاتی ہوئی بولی۔
“میں ٹھیک تم سناؤ سفر کیسا رہا؟”
وہ فون بائیں ہاتھ سے کان کو لگاتا ہوئی بولی۔
“وائز کس کے ساتھ ہے؟ میرا مطلب۔۔۔ ”
وہ بات ادھوری چھوڑ کر لب کاٹنے لگی۔
“اوہ میں سمجھ گئی۔ دو منٹ میں بس کلاس میں جا رہی ہوں۔”
وہ تیز قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔
وہ خشک لبوں پر زبان پھیرتی سامنے دیوار کو گھورنے لگی۔
” سنو۔۔۔ ”
وہ کلاس میں داخل ہوتی ہوئی بولی۔
“ہاں بولو۔۔۔ ”
وہ سیدھی ہو گئی۔
“یار وہ سعد اور فیڈی کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا ہے۔”
وہ بیگ رکھتی بیٹھ گئی۔
“اور جینی؟”
اس کے لہجے میں تجسس تھا۔
“وہ صفا اور مروہ کے ساتھ بیٹھی ہے۔”
وہ مدھم آواز میں بول رہی تھی۔
“ٹھیک ہے پھر لیکچر ختم ہو جاےُ تو بات کرنا۔”
وہ بیڈ سے اترتی ہوئی بولی۔
“اوکے ﷲ حافظ۔ اپنا خیال رکھنا۔”
مشل نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
وہ فون بیڈ پر رکھتی کمرے سے باہر نکل آئی۔
کچن میں اسے وائز کھڑا دکھائی دیا۔
وہ چولہے کے سامنے کھڑا تھا۔
وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگی۔
“وائز؟”
وہ پکارتی ہوئی آگے بڑھی۔
اس سے قبل کہ وہ اس کے پاس پہنچتی وہ غائب ہو گیا۔
“میرا خیال تھا؟”
وہ سر پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
“تم نے مجھے الجھا دیا ہے وائز۔۔۔ میں اپنے فیصلے میں ترمیم نہیں کرنا چاہتی لیکن تم مجھے کیوں مجبور کر رہے ہو؟”
وہ بولتی ہوئی چئیر کھینچ کر بیٹھ گئی۔
“امی کہتی ہیں کہ تمہیں معاف کر دوں۔۔۔ لیکن میرا دل نہیں مانتا۔”
وہ نفی میں گردن ہلاتی ہوئی بولی۔
“کہنا بہت آسان ہے لیکن جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ میرا درد ہے مجھ پر بیتا ہے میں ہی جانتی ہوں۔”
وہ ٹیبل پر پیشانی رکھے بول رہی تھی۔
“گناہ کرنا بہت آسان ہے، معافی مانگنا بھی آسان ہے لیکن زخم لے کر معاف کرنا بہت مشکل ہے۔ ان زخموں کو بھلانا بہت کٹھن ہے۔ بےشک تم نے نکاح کر کے مجھے اپنا نام دے دیا ہے لیکن وائز وہ بھلانا ممکن نہیں۔ میں تو اسی رات مر گئی تھی اب تم ایک مردہ انسان سے جینے کی توقع کیوں کر رہے ہو؟”
وہ دھیرے دھیرے بول رہی تھی۔
~~~~~~~~
“سدرہ تم رضوان شاہ کے ساتھ کیا کر رہی ہو؟”
وہ ششدر سا بولا۔
وہ اپنی نشست سے کھڑی ہو گئی۔
“یہ میرا دوست بھی ہے اور اب تو کلاس فیلو بھی۔”
وہ لاپرواہی سے کہتی احسن کو دیکھنے لگی۔
“کلاس فیلو ہے تو کلاس تک محدود رکھو۔۔۔ یہ ملاقات کا کیا مقصد؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
“اب تم ٹیپیکل مردوں کی طرح بی ہیو مت کرو۔”
وہ اکتاہٹ سے بولی۔
“واٹ یو مین بائی ٹیپیکل مرد؟ میری منگیتر ہو کر تم کسی اور سے ملاقاتیں کرتی پھر رہی ہو؟”
وہ اس کی بازو دبوچتا ہوا بولا۔
“کر دی گواروں والی بات۔۔۔ آخر دکھا ہی دیا کہ گاؤں سے ہو تم۔”
وہ اس کا ہاتھ ہٹاتی ہوئی بولی۔
سدرہ ایک معروف سیاستدان کی بیٹی اور احسن کے دور کے رشتے دار کی بیٹی تھی۔
“سدرہ اپنی حد میں رہو تم۔”
وہ تلملا اٹھا۔
“تم بھی اپنی حد میں رہو۔۔۔ مجھ پر پابندی لگانے کا کوئی جواز نہیں بنتا تمہارا۔”
وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔
رضوان شاہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ اس تماشے کو دیکھ رہا تھا۔
“منگیتر ہوں تمہارا حق رکھتا ہوں تم پر۔”
وہ ضبط کرتا ہوا بولا۔
“منگیتر ہو باپ نہیں سمجھے۔۔۔ اور ہاں آئیندہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا۔”
وہ انگلی اٹھا کر کہتی تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔
“تم کیا سمجھ رہے تھے وہ صرف تم تک محدود رہے گی؟ وہ تمہارے ہاتھ میں آےُ گی یہ سوچ دماغ سے نکال دو۔”
وہ احسن کو تپاتا ہوا چھوڑ گیا۔
“نور یہ سب تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے۔”
وہ ٹیبل پر ہاتھ مارتا ہوا بولا۔
“نہ تم اس حمزہ کو بیچ میں لاتی نہ میں اس سدرہ سے منگنی کرتا۔”
وہ ہنکار بھرتا دروازے کی جانب قدم اٹھانے لگا۔
~~~~~~~~
“وائز کے ساتھ آئی ہو؟”
ثریا دروازے سے باہر دیکھتی ہوئی بولی۔
“نہیں امی اکیلی آئی ہوں۔”
وہ چادر اتارتی ہوئی بولی۔
“کیوں؟ اس کے ساتھ آ جاتی۔۔۔اس حالت میں اکیلے آنے کی کیا ضرورت تھی؟”
وہ خفگی سے بولتی اس کے پاس آ گئیں۔
“امی وہ یونی گیا تھا میں بور ہو رہی تھی تو سوچا آپ سے مل لوں۔ ایک گلاس پانی پلا دیں۔”
وہ خشک لبوں پر زبان پھیرتی ہوئی بولی۔
“یہ بتاؤ تمہارے سسرال میں ٹھیک رہا سب؟”
وہ گلاس اس کی جانب بڑھاتی ہوئی بولیں۔
“جی امی۔۔۔ وہاں کیا ہونا ہے سب کی اپنی اپنی زندگی ہے۔”
وہ چہرہ جھکا کر بولی۔
“تمہاری ساس ہی مجھے صحیح لگتی ہیں باقی سب سے۔۔۔ ”
وہ سوچتی ہوئی بولیں۔
“جی۔۔ وہ تو بہت اچھی ہیں بلکل آپ کے جیسی بہت خیال کرتی ہیں میرا۔”
وہ تعریف کیے بنا نہ رہ سکی۔
“لڑکیاں ساس کی برائیاں کرتی ہیں اور تم تعریف کر رہی ہو؟”
وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔
“کچھ لوگ تعریف کے قابل ہوتے ہیں۔”
وہ گلاس سائیڈ پر رکھتی ہوئی بولی۔
“ڈاکٹر کے پاس گئی تھی؟”
انہوں نے موضوع بدلا۔
“نہیں آج شام میں جانا ہے۔”
وہ پاؤں اوپر کرتی ہوئی بولی۔
“تم صبح فون کر دیتی تو میں تمہارے ابو سے گوشت منگوا لیتی۔”
وہ خفگی سے گویا ہوئیں۔
“امی میں ساری زندگی یہاں ہی رہی ہوں جو بھی بنے گا کھا لوں گی۔”
وہ گھورتی ہوئی بولی۔
“اتنے دنوں بعد آئی ہو اور تمہیں دال کھلاؤں میں۔۔۔ ”
وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔
“دال حرام ہے کیا؟”
وہ آنکھیں سکیڑے انہیں دیکھنے لگی۔
“نہیں بھئی دال کیوں حرام ہونے لگی۔”
وہ حیرت سے بولیں۔
“پھر مجھے کھانے میں کیا مسئلہ پیش آےُ گا؟ چپ چاپ دال بنائیں میرا دل کر رہا ہے آپ کے ہاتھ کی دال کھانے کا۔ وائز کے ہاتھ کا کھانا کھا کر تھک گئی ہوں میں۔”
وہ مصنوعی خفگی سے بولی۔
“ناشکری کہتے ہیں اسے؟”
وہ اس کے سر پر چت لگاتی باہر نکل گئیں۔
وہ مدھم سا مسکرائی۔
~~~~~~~~
“تم کلب میں کیا کر رہے تھے؟”
وائز اسے کالر سے پکڑے اندر داخل ہوا۔
“فکر مت کریں پینے نہیں گیا تھا میں۔۔۔ بس غصہ آ گیا تھا۔”
وہ اپنی کالر چھڑواتا ہوا بولا۔
“دور رہنا ایسی چیزوں سے۔”
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا زرش کے کمرے کی جانب چلنے لگا۔
“آپ کو کیسے معلوم ہوا میرا؟ اور بھابھی نظر نہیں آ رہیں۔۔۔”
وہ نظر گھماتا ہوا بولا۔
“لوگ بتا دیتے ہیں۔۔۔۔”
وہ کمرے کی جانب چلتا ہوا بولا۔
وائز ششدر سا خالی کمرہ دیکھ رہا تھا۔
“زرش کہاں گئی بنا بتاےُ؟”
وہ دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا باہر آ گیا۔
“کیا ہوا کوئی مسئلہ ہے؟”
احسن اس کی پریشان بھانپ گیا۔
“نہیں وہ میں زرش کو فون کرنے لگا تھا تم فریش ہو جاؤ تب تک میں بات کر لوں۔”
اس نے مسکرانے کی سعی کی لیکن مسکرا نہ سکا۔
احسن سر ہلاتا اس کے کمرے میں چلا گیا۔
وہ فون کان سے لگاتا انتظار کرنے لگا۔
تیسری بیل پر فون اٹھا لیا گیا۔
“زرش کہاں ہو تم؟ کہیں جانا تھا تو مجھے بول دیتی میں آ جاتا یونی سے۔۔۔۔”
وہ چھوٹتے ہی بولنے لگا۔
“میں امی کے پاس آئی ہوں۔”
وہ نادم سی بولی۔
“تو مجھے کہہ دیتی کیا میں لے کر نہ جاتا؟ جانتی ہو کتنا پریشان ہو گیا تھا میں؟ اور اگر چلی بھی گئی تو مجھے ایک کال کر دیتی۔”
وہ خفا تھا۔
“مجھے خیال نہیں رہا۔”
وہ لب کاٹتی ہوئی بولی۔
“آئیندہ تم اس حالت میں اکیلی کہیں نہیں جاؤں گی۔ جہاں جانا ہو مجھے بول دینا میں ہر کام چھوڑ دوں گا۔”
وہ تحکم سے بولا۔
“اچھا ٹھیک ہے۔”
وہ خفت مٹانے کو بولی۔
“اور ہاں احسن آیا ہے۔۔۔ تمہیں لینے آ جاؤں؟”
وہ اجازت مانگ رہا تھا۔
زرش بےیقینی سے اسے سن رہی تھی۔
بہت بار اس نے ایسے ہی اجازت طلب کی تھی زرش سے اور ہر بار وہ یقین کرنے سے انکاری ہو جاتی۔
“دیکھ لو تم۔۔۔ ”
وہ اس پر چھوڑتی ہوئی بولی۔
“ٹھیک ہے پھر ریڈی رہنا میں آتا ہوں کچھ دیر میں۔۔۔ ”
اس نے کہہ کر فون بند کر دیا۔
انگلی سے آنکھ کا گوشہ صاف کرتا وہ زرش کے کمرے میں چلا گیا۔
“کہاں چلے گئے تھے؟”
احسن وائز کو اندر آتے دیکھ کر بولا۔
“اسلام علیکم بھابھی! ”
وہ زرش کو دیکھتا ہوا بولا۔
“وعلیکم السلام! کیسے ہو؟”
وہ معدوم سا مسکرائی۔
“بلکل ٹھیک آپ سنائیں؟”
وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔
“میں بھی ٹھیک۔۔۔ ”
وہ وائز سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی۔
“تم بتاؤ گھر پسند آ گیا؟ پتہ ہے یہ دو ماہ سے گھر ڈھونڈ رہا ہے لیکن اسے کوئی گھر پسند ہی نہیں آ رہا۔۔۔ ”
وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔
زرش جھجھک کر اسے دیکھنے لگی۔
“جی پسند آ ہی گیا ہے۔”
وہ ناک سکیڑتا ہوا بولا۔
“آج ہی آےُ ہو یہاں؟”
وہ احسن کو دیکھ رہا تھا۔
“کچھ کام سے آیا تھا۔”
وہ نظریں چراتا ہوا بولا۔
“تم دونوں باتیں کرو میں کھانے کا دیکھ لوں۔۔۔ ”
وہ بولتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
“آڈر کر لیں۔۔ آپ خود بناتے ہیں؟”
وہ متحیر سا بولا۔
“ہاں زرش سے کام نہیں کروا سکتا میں اس لئے خود کرتا ہوں۔۔۔ ہم دونوں کے لیے آڈر کر دیا ہے لیکن زرش کے لئے گھر کا کھانا بہتر ہے۔”
وہ مسکرا کر کہتا کچن میں چلا گیا۔
“بھابھی وائز مذاق کر رہا ہے نہ؟ گھر میں انہوں نے کبھی پانی کا گلاس نہیں اٹھایا۔۔۔”
وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھا۔
“نہیں وہ سچ کہہ رہا ہے۔۔۔ میں نے منع کیا تھا لیکن میری بات نہیں مانی؟”
وہ مجرمانہ انداز میں بولی۔
“واہ۔۔۔ آپ نے تو سر تا پیر بدل دیا وائز کو۔”
وہ سراہے بنا رہ نہ سکا۔
وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔
“کیا ایک کام کر سکتے ہیں آپ؟”
وہ جھجھکتے ہوےُ بولی۔
“جی جی کیوں نہیں بتائیں۔”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔
“کیا آپ وائز پر نظر رکھ سکتے ہیں؟ وہ بظاہر تو بدل رہا لیکن اندر سے معلوم نہیں۔اکثر وہ آدھی رات کو گھر سے چلا جاتا ہے۔”
وہ مدھم آواز میں بولنے لگی۔
“آپ کا مطلب کلب وغیرہ؟”
وہ سمجھتا ہوا بولا۔
“میں نہیں جانتی کہاں جاتا ہے۔”
وہ لاعلمی ظاہر کرتی ہوئی بولی۔
“ٹھیک ہے آپ فکر مت کریں یہ ذمہ داری میری ہے۔ بہت جلد آپ کو آگاہ کروں گا۔”
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
“تھینک یو۔”
وہ مسکرا کر بولی۔
“میں غیر نہیں جو مجھے تھینکس بولیں آپ۔۔۔ میں ذرا دیکھوں کیسے کھانا بناتا ہے؟”
وہ شرارت سے کہتا کچن میں چلا گیا۔
“زرش تم کمرے میں جا کر آرام کرو۔۔۔ ابھی ٹائم لگ جاےُ گا۔”
وہ دروازے میں آتا ہوا بولا۔
“اگر میں سو جاؤں مجھے جگانا مت۔”
وہ بیگ اٹھاتی ہوئی بولی۔
“ٹھیک ہے۔۔۔ ”
وہ مسکرا کر کہتا کچن میں چلا گیا۔
وہ سانس خارج کرتی کمرے کی سمت چل دی۔