فرش پر پڑا ایک شخص، جس کے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے ہوئے تھے، ابھی تک تھری پیس سوٹ میں ہی ملبوس تھا۔ جس پر جگہ جگہ مٹی لگی ہوئی تھی۔ لمبے بالوں نے اس کے چہرے کو چھپایا ہوا تھا۔ اسلحہ تھامے ایک نقاب پوش آیا اور فرش پر بندھے پڑے اُس شخص کو بالوں سے پکڑ کر سیدھا کیا تو اُس کا چہرہ نظر آیا جس پر تشدد کے نشانات واضح طور پر نظر آ رہے تھے۔ اس کے باوجود بھی اس کا خوش شکل ہونا اس کی شخصیت کو بہت منفرد بنا رہا تھا۔ ابھی اس شخص کی ویڈیو چل ہی رہی تھی کہ یکدم گولی کے چلنے کی آواز آئی اور ویڈیو بند ہو گئی۔
ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ پچھلے چند دنوں میں پروفیسر آزاد کے لئے جتنی ہمدردی لوگوں کے دلوں میں آ چکی تھی تو وہ انہیں جلد از جلد آزاد دیکھنا چاہتے تھے لیکن اس ویڈیو پیغام نے ان کی امیدوں پہ پانی پھیر دیا۔ سب لوگوں نے سمجھا کہ وہ گولی پروفیسر آزاد کے اوپر چلی اور اغواء کاروں کا مقصد انہیں قتل کرنا تھا ۔ چند لمحوں بعد دوبارہ ویڈیو خود بخود چلی لیکن اس بار اس میں نہ پروفیسر آزاد تھے نہ وہ کمرہ ۔
سیاہ رنگ کے نقاب سے اپنے چہرے کو چھپائے ایک شخص ویڈیو میں دکھائی دیا۔ ہاتھ میں اس نے بندوق پکڑا ہوا تھا اور اس کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔
” یہ ویڈیو پیغام صرف اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ تم سب کو پتہ چلے کہ تم لوگوں کا بندہ ابھی تک زندہ ہے مرا نہیں” ۔ اُس نقاب پوش شخص کی آواز آئی۔ جتنی وحشیانہ اس کی آنکھیں تھیں اُتنی ہی ڈراؤنی اس کی آواز اور جس مطمئن انداز میں وہ بات کر رہا تھا وہ ظاہر کر رہا تھا کہ وہ لوگ کوئی چھوڑے موٹے چور ڈاکو نہیں ہیں۔
“بہت جلد اگلی ویڈیو میں ہم اپنے مطالبات سامنے لائیں گے کہ ہم کیا چاہتے ہیں” وہ شخص بغیر رکے بول رہا تھا اور اس کا یہ ویڈیو پیغام تقریباً پورے ملک کے تمام نیوز چینلز پر چل رہا تھا۔
“اگر اس دوران پولیس یا کسی بھی ادارے نے ہمیں ڈھونڈنے کی کوشش کی یا ہمارے خلاف کوئی کارروائی کی تو اسی وقت ایک ویڈیو پیغام تمہارے اس پروفیسر کی عبرتناک موت کا بنا کر سب چینلز کو بھیج دیا جائے گا”۔ اسی کے ساتھ ہی وہ ویڈیو بند ہو گئی اور تمام چینلز کے اینکرز اس ویڈیو پر اپنی اپنی رائے دینا شروع ہو گئے۔ مختلف تجزیہ نگار اس عجیب و غریب واقعے پر اپنی رائے کے ساتھ ساتھ حکومت پر برس پڑے اور اس واقعے کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان قرار دیا۔
ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد احتجاجی مظاہروں نے شدت اختیار کر لی۔ رافیعہ باقاعدہ طور پر ان مظاہروں کو لیڈ کر رہی تھی اور اس معاملے کو لے کر اب تک وہ دس سے اوپر ٹاک شوز میں بھی شرکت کر چکی تھی۔
اغواء کاروں کی جانب سے بھیجی گئی اس ویڈیو پیغام کے فوراً بعد وزارت قانون کی طرف سے یہ کیس پولیس سے لے کر سپیشل برانچ کے سینئیر آفیسرز کے حوالے کر دیا گیا۔
سپیشل برانچ کی پوری ٹیم نے پولیس کی طرف سے کی جانے والی تمام تحقیقات کا شروع سے جائزہ لیا جس کے مطابق پروفیسر آزاد کا ابھی چار مہینے پہلے ہی یہاں تبادلہ ہوا۔ خاندان میں پروفیسر آزاد کی فقط ایک بہن ہے جو شادی کے بعد باہر کے ملک چلی گئی۔ والدین کا دس سال پہلے ہی انتقال ہو گیا۔ ہمسایوں کے مطابق وہ کرائے کے گھر میں اکیلا رہتا تھا۔ بہت ہنس مکھ اور خوش مزاج شخصیت کا مالک تھا۔ جب سے تبادلہ ہوا دوبارہ کبھی وہ واپس نہیں آیا۔
پروفیسر کا کریمنل ریکارڈ بھی بالکل کلیئر تھا،کسی سے کوئی ذاتی رنجش یا دشمنی بھی نہیں تھی۔
“سر یہ ہے وہ رپورٹر جس کو اغواء کاروں کی جانب سے وہ ویڈیو پیغام والی USB ملی تھی”۔ سپیشل برانچ کی ٹیم کو لیڈ کرنے والے آفیسر حامد علی خان کو اس کے ایک ٹیم ممبر نے آ کر بتایا جب وہ پولیس کی جانب سے کی جانے والی تمام تحقیقات کا جائزہ لے رہا تھا۔
” سر مجھے بس ایک میسج ملا تھا کہ تمہارے کیرئیر کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز جو تمہاری زندگی بدل دے گی چائیے تو ڈیڑھ گھنٹے میں فلاں جگہ آؤ جہاں ایک ڈبے میں پروفیسر آزاد کے متعلق ایک ویڈیو پیغام کی USB پڑی ہو گی” اس رپورٹر نے USB کے حوالے سے تمام تفصیل سپیشل برانچ کی پوری ٹیم کو بتائی اور پھر وہ تمام لوگ USB ملنے والی جگہ کی طرف نکل پڑے اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے رپورٹر کو وہ USB ملی تھی۔
ویسے ہی ویران سی جگہ، دور دور تک کوئی آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا کی وجہ سے اٹھتی ریت آنکھوں میں بھی پڑ رہی تھی۔ ریگستان ویسے ہی تھا جیسے وہ رپوٹر USB لینے آیا تھا سوائے ایک عجیب بات کے کہ وہاں پر اُس دن موجود ڈبہ جس کے اندر USB تھی وہ آج غائب تھی۔
” یعنی اغواء کار جانتے تھے کہ ہم یہاں پر آئیں گے اور اس سے پہلے ہی وہ یہاں سے ڈبہ واپس لے گئے” سینئر آفیسر حامد علی خان بولے۔
“سر کنٹرول روم سے ابھی خبر ملی ہے کہ وہ پرائیویٹ نمبر جس سے اس رپوٹر کو وہ پیغام موصول ہوا تھا وہ باہر کے کسی ملک کا نمبر ہے اور اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ جس شخص کے نام پر وہ نمبر ہے اسے مرے ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں”
یعنی اغواء کار خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ شاطر بھی ہیں، مطلب کیس کو حل کرتے ہوئے مزا آئے گا۔ سینئر آفیسر حامد علی خان اپنے ساتھی افسر کی جانب سے موصول ہوئی خبر سن کر بولے۔
اغواء سے تین دن پہلے
پروفیسر آزاد ہمیشہ کی طرح پانچ منٹ پہلے ہی اپنی کلاس میں پہنچ گئے۔ پروفیسر آزاد تمام اساتذہ میں سب سے کم عمر تھے اور ملک کے ان چند ذہین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا جنہوں نے کم عمری میں ہی PhD کی ڈگری حاصل کر لی۔
جہاں پروفیسر آزاد کی شخصیت کو اور بھی بہت ساری عادتیں منفرد بناتی تھیں وہیں ان کی شخصیت کا سب سے منفرد پہلو ان کا خوبصورت ہونا تھا۔ دراز قد، بڑی بڑی آنکھیں، لمبے بال اور اس کے اوپر ان کے لباس کی شگفتگی۔
” یار یہ بندہ کتنا ہینڈسم ہے ” پروفیسر آزاد کے آتے ہی کلاس میں موجود دو لڑکیاں آپس میں کھسر پھسر کرنے لگیں۔ لیکچر ختم کر کے جب پروفیسر کلاس سے باہر جانے لگے تو گیلری میں کھڑی ایک لڑکی ان کے پاس آئی اور ان کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھما کر چل دی۔
“میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں اور آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں، پلیز میرے اس نمبر پر رابطہ کریں”۔ کاغذ کو پھاڑ کر اس کے ٹکڑے کوڑا دان میں پھینک کر پروفیسر سٹاف روم کی طرف چل دیئے۔
چھٹی کے بعد جب پروفیسر آزاد اپنے فلیٹ پہنچے تو فلیٹ کا دروازہ پہلے سے ہی کھلا ہوا تھا اور چیزیں اِدھر اُدھر بکھری پڑی تھیں۔ کچن میں کسی برتن کے گرنے کی آواز آئی۔
کون ہے
کون ہے وہاں
پروفیسر آزاد نے صوفے کے اوپر پڑا کرکٹ والا بیٹ اٹھایا اور آہستہ آہستہ کچن کی جانب چل دیا کہ اسی دوران پیچھے سے کسی نے پروفیسر آزاد کی گردن پر چھری رکھتے ہوئے پکڑ لیا۔
“پروفیسر اگر تھوڑا سا بھی ہلنے کی کوشش کی تو گردن اڑا دوں گی”
آواز کچھ جانی پہچانی تھی۔ پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا
“آپ ہی کی جان ہے جب چاہیں جہاں چاہیں لے لیں”۔
گردن پر سے چھری ہٹا کر جب وہ لڑکی سامنے آئی تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ پروفیسر کی ایم فل کی طالبہ رافیعہ تھی۔
“آزاد آخر کب تک ہم یوں چھپ چھپ کر ملتے رہیں گے” رافیعہ نے پوچھا۔
بس کچھ عرصہ مزید پھر اس کے بعد یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ پروفیسر آزاد بولے۔
“میں بھی کچھ عرصے تک آپ کی زندگی بدل کر رکھ دوں گی سر آزاد جی”۔ رافیعہ نے معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔