معروف دانشور محقق، نقاد، ادیب، پروفیسر مرزا سلیم بیگ (حیدر آباد )
امین جالندھری ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔وہ جس کام کا بھی بیڑا اُٹھاتے ہیں نہایت سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے انجام دیتے ہیں۔ مثلاً اُنھوں نے ادبی کالم نگاری کی تو برسوں تک کرتے چلے گئے۔ رابطہ کی داغ بیل ڈالی تو سال ہا سال ادبی مٖحافل برپاہوتی رہیں۔اُن محافل میں شام افسانہ، نئی کتب کی تقاریب اجرأ، تخلیق کاروں کے ساتھ شامیں اور مرحومین کے لیے تعزیتی پروگرام اور ہر پندرہ دن کے بعد تنقیدی نشستوں کا اِنعقادشامل ہے۔ اِتنی گوں نا گوںسرگرمیوں کے بعد اُنھیں اپنی اوراپنے احباب کی کتب کی اشاعت بھی کبھی نہیں بھولی۔جب کہ اُن کا اصل کام جو اُنھیں زندہ رکھے گا،وہ افسانہ نگاری ہے۔
حال ہی میں اُن کی تیسری کتاب ’حرف حرف کہانی‘رابطہ ، حیدرآباد کے اہتمام سے شائع ہو کر منظر عام پر آیٔ ہے۔یہ دراصل امین جالندھری کی کہانیوں کا دوٗسرا مجموعہ ہے کہ اِس سے قبل اُن کے افسانوں کا پہلامجموعہ ’دو حرف‘کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔گو کہ اِس بات کو کئی برس بیت چکے ہیں لیکن اِتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی اُس کی گونج ادبی محفلوں میں سنایٔ دیتی ہے۔شائد اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ کتاب ایسے وقت پر شائع ہویٔ جب حیدرآباد سے وہ دوشیزہ جس کا نام افسانہ تھا رُخصت ہو رہی تھی۔کچھ افسانہ نگار کراچی چلے گئے تھے اور باقی ماندہ ایک ایک کرکے اللہ کو پیارے ہورہے تھے چناں آج جب کہ ’حرف حرف کہانی‘ جیسا یادگار تحفہ امین بھایٔ نے ادبی دنیا کو دیا تو حیدرآباد میں اُس کی تحسین کرنے والی کویٔ شایان شان شخصیت موجود ہی نہیں ہے۔شہر ادب میں فکشن رائٹرز کا ایسا قحط الرجال پڑے گا یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں یہ اُن کا دوٗسرا مجموعہ ہے اِس لیے اِس مجموعے میں شامل افسانے فنی ارتقا ٔ کی بتدریج بلند ہوتی ہویٔ سطح پر نظر آتے ہیں مثلاً ’آدھے راستے کا آدمی‘، ’شو ٹائم‘، اور ’خمار‘ کو دیکھیے: ’خمار ‘میں ابتدأ ہی سے تجسس پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یا ایک اور افسانہ ’چک گ ب ۴۵‘میں جب ایک فقیر بچے کی ولادت سے کئی ماہ قبل ہی گھر کی چوکھٹ پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور اہل ِخانہ سے کہتا ہے کہ’نو مولود کا چہرہ دیکھے بہ غیر نہیں ہٹوں گا‘تو اہل ِخانہ کے ساتھ قاری بھی حیران ہوئے بہ غیر نہیں رہ سکتا۔اور۔ آگے چل کر جب وہی فقیر نومولود کے کان میں اذان دینے کے بعد روانگی سے قبل نومولود کی ماں سے کہتا ہے کہ ’یہ (بچہ)ہماری امانت ہے، جوان ہوتے ہی ہم سے آن ملے گا‘۔ تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے قاری کے تجسس کا کیا عالم ہوگا۔زیادہ کچھ نہیں لیکن اِتنی بات تو یقینی ہے کہ قاری اِس افسانے کو مکمل پڑھے بغیر چھوڑ نہیں سکتا۔یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے جو امین بھایٔ کے افسانوں عام طور پر پایٔ جاتی ہے۔
اِس کے علاوہ امین جالندھری نے چوں کہ ایک بھر پور زندگی گزاری ہے اِس لیے زندگی کے بارے میں اُن کا تجربہ بھی بہت وسیع ہے۔اُس تجربے کا استعمال جب وہ اپنے کرداروں کے ذریعے کہانی کو نکھارنے کے لیے کرتے ہیں تو اُس میں اُن کے قاری کے لیے ایسا بہت کچھ موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے سماجی برائیاںبرہنہ ہوکر نہایت بے شرمی سے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں اور قاری کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ اُن سے نظر چرا کر گزر سکے۔ مثلاً افسانہ ’مستی‘کے دو کرداروں کے درمیان اِس مکالمے پر غور کیجیے اور مصنف کو داد دیجیے کہ اُس نے کتنی آسانی سے ایک معاشرتی برایٔ کو بے نقاب کیا ہے۔ دونوں کردار ہی جیب کترے ہیں اور دونوں ہی بین السطور ایک بہت بڑی معاشرتی برایٔ کو بہت باتوں باتوں میںبے نقاب کر جاتے ہیں۔’کام یابی کے بعد،آج لال سائیں کے ڈبے میں ضروٗر کچھ ڈال دینا۔ یا ر وہ اوقاف والے کھا جائیں گے ‘۔
اِس کے علاوہ کہیں کہیں مصنف روٗحانیت کی بے کراں وسعتوں میں پرواز بھی کرتا نظر آتا ہے۔جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے یہ فضا ٔ مصنف کی طبع سے بہت زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ اِس لیے ہم دیکھتے ہیں جہاں کہیں ایسا موقع ہوتا ہے مصنف کا قلم زیادہ روانی سے حرکت کرتا ہے اور بعض افسانوں میں تو ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ مصنف اِس فضا ٔ کو تخلیق کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور پیچھے مڑ کر دیکھتا ہی نہیں ہے۔جب جب مصنف اِس طرف متوجہ ہوا ہے تجسس کے قدم بہ قدم ایک پُر اسرار طلسماتی فضا ٔ اپنے آپ بن گئی ہے۔مثلاً سہون شریف کے ماحول میں اُن کا ایک کردار دوسرے کردار سے زیارت کے حوالے سے کہتا ہے کہ :’اور، مان لو کہ یہاں بن بلائے کویٔ نہیں آتا‘(خمار)۔افسانے’ موڑ ‘کا یہ مکالمہ بھی دیکھتے چلیے: ’رات کالی ہوتی ہے ۔۔۔کیوں ‘۔میاں! ’اِس میں روٗحیں دھلتی ہیں۔صرف وہ روٗحیں جنھیں وہ چاہے‘۔اِسی افسانے کے آخر میں یہ مکالمہ بھی نہایت معنی خیز ہے۔’تم جان گئے ہو کہ راستہ سیدھااور اِس کا ۔ ۔ ۔سبب وہ عشق ہے جس میں لذت پنہاں ہوتی ہے‘۔مثالیں تو بہت سی دی جاسکتی ہیں کیوں کہ کرداروں اور موضوعات کا تنوع امین جالندھری کی نمایاں خصوصیات میں ایک ہے۔اِن کے کرداروں میں رفیق خان جیسا شاطر اور شیطانی دماغ کا مالک اور ماروی جیسی فتنہ زمانہ عورت اور اُن کے ساتھ فضل خان جیسے کردار جو زندگی کی بساط پر امین جالندھری کے قلم کی ایک جنبش سے سیدھی سادی زندگی کو افسانہ بنادینے میں اُس سے تعاون کرتے ہیں ۔ انھی کرداروں میں وہ کردار بھی ہیں جو زندگی کے مارے ہوئے ہیں اور وہی میرے پسندیدہ کردار ہیں۔ یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن شائد امین جالندھری کے بھی منتخب کردار وہی ہیں۔ویسے تو وہ اپنے ہر کردار پر خواہ وہ منفی ہو یا مثبت یک ساں توجہ دیتے ہیں مگر وہ اسم اعظم جو کسی بھی عام سے کردار کو لافانی بنا دے اپنے چند مخصوص کرداروں کو ہی بتاتے ہیں۔ اصل میں اُن کے وہی کردارمصنف کی زبان اور اُس کے ہاتھ بن کر اُنھیں تخلیقی آسودگی عطا کرتے ہیں ۔اِس طرح وہ حیدرآباد کے ادبی منظر نامے پر سچے تخلیق کار بن کر ابھرتے ہیں۔پورے پاکستان اور پاکستان سے باہر بڑی تعداد میں اہل ِبصیرت اُن کے اِس جوہر کو شناخت کرتے ہیں اور سراہتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭
دل کے رشتے کی مصنفہ عذرا اصغر کا دوسر ا اہم شاہکار ناول
مسافتوں کی تھکن شایع ہو گیا ہے۔
عزیز بک ڈپو اردو بازار لاہور۔