تایا جان آپ امازیہ کو جانے کی اجازت دے دیں ‘‘ ڈائیننگ ٹیبل پر اس نے کہا تو منہ کی طرف چمچ لے جاتی امازیہ کا ہاتھ بیچ میں ہی رک گیا جبکہ باقی افراد بھی حیران ہو گئے
’’تو اس نے اب تم سے سفارش کروا دی ‘‘ سکندر خان بولے
نہیں تایا جان ۔امازیہ نے کچھ نہیں کہا مجھ سے ، میں خود سے آپ سے اجازت لے رہا ہوں ‘‘
’’بچوں کے ساتھ بچہ مت بنو ارشم ‘‘ سکندر خان نے غصہ ضبط کرنے کی نا کام کوشش کی
امازیہ میری بیوی ھے تایا جان۔۔۔اور مجھے اس پورا بھروسہ ہے ‘‘ وہ بھی بضد تھا
میں جانتا ہوں کہ میری بیٹی اب تمھاری بیوی ھے مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ میں خاندانی روایات سے منہ موڑ لوں ‘‘
میں جا نا نہیں چاہتی ارشم ‘‘ امازیہ نے دانت پیستے کہا جس کا ارشم پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا
’ تایا جان علمص بھی ساتھ جائینگی تو مازیہ آکیلی نہیں ہونگی ‘‘ ارشم تو آج ٹھان کر ہی آیا تھا کہ سکندر خان کو منا کر ہی چھوڑے گا۔
’’ٹھیک ہے تمھاری بیوی ہے لے جاو۔۔۔ مگر تم ساتھ جاو گے اور شادی ہوتے ہی لے آنا ‘‘سکندر خان کو ماننا پڑا اس بار۔انہوں نے کہا اور کرسی گھسیٹ کر وہاں سے باہر کو چل دیے
’’مجھ پر اس مہربانی کی ضرورت نہیں تھی ‘‘ امازیہ اپنی دلی خوشی چھپاتے ہوئے بولی
’’خیر اب تو کر لی مہربانی۔اب جانے کی تیاری کرو۔ال گھنٹہ بعد نکلنا ہے ‘‘
’’میں تمھارے ساتھ نہیں جاونگی ‘‘ ’’بری بات ہے امازیہ۔اپنے شوھر سے اس طرح بات نہیں کرتے
۔۔۔۔۔۔اچھا اٹھو جاو تیاری کرو تم دونوں ۔۔ علمص تم بھی اٹھو اب دیر مت کرو ،،اور ہاں وہاں پر کسی سے زیادہ بات نہ کرنا ‘‘عدیرہ بیگم نے ھدایات جاری کی اور امازیہ اور علمص بھی اٹھ کر تیاری کرنے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تم بلاتی اور میں نہ آتی۔۔۔دیکھا منا لیا نہ بابا کو ‘‘ مہندی کے پیلے لباس میں ملبوس زرتاب کے ساتھ مہندی رنگ کے قیمتی لباس پہنے امازیہ نے اترا کر کہا جیسے یہ سارا کارنامہ اسی کا ہو
’’اللہ معاف کرے بھابھی جان۔۔اتنا بڑا جھوٹ تایا جان کو تو بھائی نے منایا ہے میں اور امی جان اس بات کہ گواہ حاضران ہے ‘‘ علمص نے کانوں کو ہاتھ لگایا
’’ہاں تو میں نے بھی محنت کی تھی۔۔۔‘]بات کرتے کرتے اس کی نظر اچانک ارشم پر پڑی جو ایک ماڈرن سی لڑکی کے ساتھ محو گفتگو تھے
’’چلو شکر ہے تم دونوں آگئیں ۔۔ویسے بھی تم دونوں کے علاوہ میر ی کوئی فرینڈ نہیں ہے ‘‘ زرتاب نے پہلے علمص پھر امازیہ کی طرف دیکھا اور پھر اس کی نطروں کی تعاقب میں ارشم خان کو دیکھا
’’ وہ لڑکی کون ہے زرتاب۔۔۔۔ جس سے ارشم اس طرح خوشگوار موڈ میں بات کر رہا ہے ‘‘امازیہ کوبرداشت نہیں ہوا کہ اس کا شوھر کسی اور کے ساتھ بات بھی کر رہا ھے
’’پتہ نہیں ، شا ید لڑکے والوں کی طرف سے ہے ‘‘ امازیہ اب بھی ناگواری سے اس کی طر ف د یکھ رہی تھی اور پھر اگلے روز بارات میں بھی ارشم اسی کے ساتھ پایا گیا۔
واقعی رشم۔ لڑکیاں تم پر مرتی تھی مگر تم بھی تو کسی کو گھاس نہیں ڈالتے تھے ‘‘
’’کیونکہ مجھے ایسی لڑکی نہیں چاہئے جو مجھ پر مرتی ہو ‘‘ارشم خان نے لولڈ ڈرنک کا سپ لیتے ہوئے کہا ‘‘ ایسی لڑکیاں آج مجھ پر تو کل کسی اور پر مرتی ہے ‘‘
’’ارشم بھائی آپ یہاں ہے اور آپ کے گھر والے آپ کو بلا رہے ہیں ‘‘ زرتاب کے بھائی نے آکر بتایا
’’چلیں چلتے ہیں ‘‘ ارشم اسے خدا خافظ کہہ کر چلا آیا جہاں چہرے پر ناگواری لیے امازیہ خان فرنٹ سیٹ پر براجماں تھی
’’کہاں تھے بھائی ۔۔اتنی دیر کر دی ‘‘ پیچھے بیٹھی علمص نے کہا
’’فرینڈ کے ساتھ مصروف تھا ‘‘ ارشم نے جواب دیتے ہوئے گاڑی میرج ہال یس نکال دی امازیہ خان نے ایک نظر اس کے مسکراتے چہرے پر ڈالی پھر منہ موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہاں ہاں رات کو ہی پہنچ گئے تھے زیادہ دور نہیں بس دو گھنٹے کا فاصلہ ہے وہاں سےُ ‘‘ وہ فون پر بات کر رہا تھا
’’ آف کورس تم ہمیشہ کی طرح بہترین لگ رہی تھی ‘‘ ارشم کو پتا ہی نا چلا کہکب امازیہ کمرے میں داخل ہوئی ہے
’’تم کس سے بات کر رہے ہو ‘‘ امازیہ نے کہا جس پر وہ حیرانی سیمڑا اور فون بند کر دیا
’’فرینڈ سے ‘ ارشم نے مختصرا کہا
’’ وہی تو میں پوچھ رہی ہوں کہ کونسی فرینڈ سے بات کر رہے ہو ‘‘
’’تم مجھ سے پوچھنے کا حق نہیں رکھتی امازیہ خان ‘‘
’’میں حق نہیں رکھتی۔۔ میں حق کیوں نہیں رکھتی ارشم ۔۔میں حق رکھتی ہوں ۔۔۔ بیوی ہوں میں تمھاری نکاح کیا ہے تم نے مجھ سے ‘‘
’’ اوہ تو امازیہ خان کو یاد آ گیا ہے کہ میں نے اس سے نکاح کیا ہے اور وہ میری بیوی ہے۔۔۔۔ ‘‘ ارشم نے کہا اور امازیہ کے قریب آکر کھڑا ہو گیا ’’بہت دیر سے تمہیں یاد آیا ہے امازیہ کہ تم میری بیوی ہو ‘‘ اس نے ’بیوی ‘ پر زور دیتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا ۔امازیہ نا سمجھی سے اس دروازے کو دیکھتی رہ گئی جس سے ابھی ابھی ارشم پر سکون مسکراہٹ کے ساتھ نکلا تھا۔ ہمیں ہی حق ہوتا ہے دوسروں کو ستانے کا، انکو ہرٹ کرنے کا، تلخی سے پیش آنے کا اور پھر جب وہی کچھ ہمارے ساتھ ہوتا ہے تب ہی درد کا احساس ہوتا ہے تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہماری وجہ سے کوئی کس اذیت سے گزرا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میرے خاندانی زیورات ہے میری تو عمر ہو گئی اب مین نے ان سب کا کیا کرنا ہے اب ان سب پر تمھارہ حق ہے ‘] عدیرہ بیگم کے کمرے میں زیورات کے ڈبے کھلے ہوئے تھے جس کو علمص اور امازیہ دیکھ رہی تھی
’’ علمص یہ تمھارے لیے ہے ‘‘ عدیرہ بیگم نے علمص کو بھی چند ڈبے پکڑائے
اور یہ تمھاری ماں کے زیور ہے امازیہ۔ ‘‘ سائڈ پر رکھے ہوئے چند اور ڈبے بھی انہوں نے امازیہ کی طرف کئے جس کو امازیہ کھول کر دیکھنے لگی
’’ اب یہ رکھنے نہیں ہے پہن لیا کرو سہاگن کے ساتھ اچھی لگتی ہے ‘‘’جی چچی جان ‘‘ اس نے احتراما کہا اور پھر اٹھ کر آئینے کے سامنے کچھ زیور پہن کر دیکھنے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون بند کر دو اب مجھے ڈسٹربنس ہو ر ہی ہے ‘‘ امازیہ سونے کی کوشش کر رہی تھی مگر ارشم کی فون پر باتیں بدستور جاری تھی
’’اچھا ‘‘ ارشم نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا
’’ ارشم میں کہہ رہی ہوں کہ بند کر دو اب فون اور تم ۔۔۔ ‘‘ امازیہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور غصے سے کہا ۔ارشم نے احتیاطا موبائیل پر ہاتھ رکھ لیا کہ کہی آگے والا اس کی آواز نہ سن لے
کیا مصیبت ہے یار ‘‘ ارشم فون بند کرنے کے بجائے ٹیرس کی طرف چلا گیا جس نے اما زیہ کو تشویش میں مبتلا کر دیا اور وہ بھی اٹھ کر اس کے پیچھے چل دی
[’ کس سے بات کر رہے ہو ارشم ‘‘ وہ پیچھے سے بولی
’’کسی سے نہیں تم جا کر سو جاو ‘‘ ارشم نے پر سکون لیجے میں کہہ کر فون بند کر دیا اور کمرے کی طرف بڑھا ۔امازیہ وہی کھڑی رہ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ رزلٹ کیسا رہا تمھارہ ‘‘ ڈائیننگ ٹیبل پر سکندر خان نے پوچھا
’’اچھا رہا بابا جان 65% مارکس ہے ‘‘
’’اور علمص تمھارہ ‘‘
تایا جان 62% مارکس ہے ‘‘ علمص تھوڑا شرمندہ ہوئی اور ہچکچاتے ہوئے کہا
’’بابا جان مین آگے پڑھنا چاہتی ہوں ‘‘ امازیہ نے ڈرتے ڈرتے اپنی خواہش ظاہر کی
’’ہمارے خاندان کی کسی لڑکی نے انٹر سے آگے تعلیم حاصل نہیں کی اور تم بی اے سے آگے بھیپڑھنا چایتی ہوں ‘‘ سکندر خان کو ناگوار کزرا
’’بابا جان ارشم نے بھی تو باہر سے MBA کیا ہے تو میں ۔۔۔۔ ‘‘
’’ارشم لڑکا ہے امازیہ اور ہمیں یہ منظور نہیں ہے کہ ہماری بیٹھی لڑکوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرے یہ مجھے منظور نہیں ہے ‘‘
’’اس میں کوئی خرج نہیں ہے تایا جان ‘‘ ارشم جو خاموشی سے سر جھکائے گفتگو سن رہا تھا نے پہلی بار مداخلت کی ’’اور صرف لڑکیوں کی یونیورسٹیاں بھی تو ہے اگر امازیہ وہاں ۔۔‘‘امازیہ کو آج ارشم اپنے خاندان سے الگ لگا اس نے ایک نگاہ ارشم پر ڈالی اور پھر ایک غیر ارادی سی نظر عدیرہ بیگم پر پڑی ج سکے چہرے پر ناگواری کے اثرات واضح تھے
’’ نہیں با با جان میں یونیورسٹی نہیں جاونگی۔ میں پرائیوٹ پڑھونگی ‘‘ اج امازیہ نے ایک اور خواہش قربان کر دی تاکہ اس کے باپ کا مان قائم رہ سکے ،اس کے شوھر کو کسی کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑھے پھر چاہے وہ اس سے کتنی ھی ناراض کیوں نہ ہو
’’بھابھی بیگم ۔۔اگر آپکو اعتراض نہ ہو تو ۔۔ ‘‘ سکندر خان نے عدیرہ بیگم سے پوچھا جو اب تک خاموش بیٹھی تھی
’’نہیں بھائی صاحب جیسے بچوں کی خوشی ‘‘
’’علمص تم ‘‘ انہوں نے علمص کی طرف اشارہ کیا جس پر علمص نے نفی میں سر ہلا دیا
’’ٹھیک ہے پھر ۔۔ارشم تم امازیہ کا ایڈمیشن کرا لو مجھے تم لوگوں کے پڑھنے پر کوئی اعتراض نہیں مگر میرے لیے خاندان بھی اہمیت رکھتا ہے خاندانی روایات ہمارے ہی فائدے اور تخفظ کے لیے ہوتی ہے بس ان کو قبول کرنے کے لیے تھوڑا دل بڑا کرنا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہاں ہاں میں تمہیں ابھی دکھاتی ہوں ساری بکس ٓگئی ہیں ‘‘امازیہ علمص کو لیکر اہنے کمرے کی طرف بڑھی جہاں ارشم فون پر مصروف تھا
’’ہاں ہاں میں جانتا ہوں تم میرا انتظار کر رہی ہوں میں بھی بس نکلنے والا ہوں ‘‘ امازیہ نے فون پر کہا
’’ ارشم ۔۔۔۔ ‘‘ امازیہ چلائی اور علمص بھی حیران ہوی
ارشم کرنٹ کھا کے پیچھے مڑا ‘‘امازیہ وہ میں ۔۔۔ ‘‘ علمص حالات کو سمجھتے ہوئے وہاں سے نکلی
’’میری زندگی برباد کر کے چین نہیں ملا تھا جو رہی سہی کسر بھی پوری کر رہے ہو ‘‘ وہ چلا رہی تھی’’
’’پہلے مجھے اغواہ کریا پھر شادی کی اور اب تم ۔۔۔۔ اگر یہ سب کرناتھا تومجھ سے شادی کیوں کی ‘‘ وہ ا س کا گریبان پکڑ کر رو رہی تھ
’’ اس سب کی زمہ دار تم خود ہو امازیہ خان۔۔۔۔۔ اس ایک سال میں تم مجھے یاد کر کے بتاو کہ تم نے مجھ سے سیدھے منہ بات ہی کب کی ۔۔۔، تم مجھے اس غلظی کی سزا دے رہی ہو جو میں نے کی ہی نہیں ہے ۔ میں نے تمہیں اغواہ نہیں کیا تھا مگر پھر بھی ہر ممکن کوشش کی کہ تمہیں خوش رکھو ۔۔۔ تمھاری خوشی کے لیے مین تایا جان کے سامنے بھی کھڑا ہو ان کی مخالفت مول لی تمھاری خوشی کے لیے مگر پھر بھی تمہارہ دل نہیں پگلا۔۔ وہ سب کچھ کرنے کی اجازت دی اور دلوائی جس کے میں خلاف ہوں اور مجھے پسند نہیں ہے مگر تم تو پتھر دل ہو امازیہ ۔۔۔ خانوں سے بہت نفرت ہے نا تمہیں ،بہت اختلاف ہے نا تمہیں ۔۔۔مگر پھر بھی تم ان کی طرح پتھر دل ہو ۔۔اپنی تکلیف تمہں محسوس ہوتی ہے مگر دوسروں کی نہیں ‘‘ اس نے امازیہ کے ہاتھ اپنے گریبان سے چھڑوائے اور باہر کی طرف لپکا
’مجھے طلاق چاہئے ‘‘ وہ پیچھے کی طرف بولی جس پر ارشم نے مڑ کر دیکھا اور کہا
’’ٹھیک ہے اگر تمھاری یہہی مرضی ہے تو ٹھیک ہے میں دونگا طلاق۔۔۔ مگر اس دن جس دن میں کسی اور سے نکاح کرونگا۔۔۔ یہی میری شرط ہے اگر تمہیں منطور ہے تو ٹھیک ہے نہیں تو تایا جان سیبات کر لو مگر افسوس تمہیں وہاں سے بھی مایوسی ہوگی ‘‘ آج ارشم اپنی اصلی خصلت پر آیا تھا…….
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...