سب سے ہٹ کر لوگوں کو اپنے کام سے مطمئن کرنا۔۔۔” اس کی بات تو دل کو لگتی تھی۔
“کسی بھی کام کو چھوٹے پیمانے سے شروع کرنا چاہیے، اپنی چادر کے مطابق۔ تم بھی گھر سے کام شروع کرو۔ محلے سے، آفس سے یا اپنے ملنے جلنے والوں سے چھوٹے موٹے آرڈر لینا شروع کرو۔ انھیں اپنے ہاتھ سے بنے کیک اور بیکری کی دیگر چیزیں کھلا کر ان کی رائے لو اور پھر کہو کہ میں اتنی مقدار میں یہ چیزیں آپ کو تیار کرکے دے سکتا ہوں۔” جوس کا گھونٹ گھونٹ پیتا سبکتگین توجہ سے اس کا ایک ایک لفظ سن رہا تھا۔
“ہم ایسا کرتے ہیں کہ شہر کی ساری بیکریوں کا چکر لگاتے ہیں اور وہاں دیکھتے ہیں کہ کون سی ایسی چیز ہے جو تم بنا سکتے ہو لیکن شہر میں دستیاب نہیں ہے یا ایسی کوئی چیز جو شہر کی بیکری سے مل سکتی ہے لیکن بہت مہنگی ہے۔ ہم مارکیٹ سے قدرے کم قیمت پہ، یعنی آغاز میں کم منافع کے ساتھ وہ چیز تیار کرکے لوگوں سے آرڈر لے سکتے ہیں۔” نجیب کی بات ختم ہوئی تھی اور اس کا جوس بھی۔
“تم نے بالکل ٹھیک کہا، میں نے اس نہج پہ سوچا ہی نہیں تھا۔ بیکنگ کرنا بذات خود ایک مہنگا شوق ہے نجیب! اس میں استعمال ہونے والی چیزیں خاص کر کہ چاکلیٹس، کریم اور دیگر لوازمات ہی اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ عام آدمی سوچتا ہے کہ اتنا مہنگا شوق پالا ہی کیوں؟ اور اکثر ایک کیک یا سادا سے کپ کیک کو بنانے میں جتنی محنت لگتی ہے، اتنی تو اسے کھانے میں بھی نہیں لگتی۔” اپنی بات پہ وہ خود ہی مسکرایا تھا۔
“ابا جی اکثر کیک کھانے کے بعد کہتے ہیں کیا نیا تھا آج کے اس کیک میں اور اس میں جو دو دن پہلے بنایا تھا۔؟” وہ ہنسا اور بات جاری رکھی تھی۔
“قصور ان کا بھی نہیں ہے ہمارے طبقے میں یا عام آدمی کے نزدیک صرف چاول پکے ہیں چاہے کتنی ہی اعلیٰ پائے کی بریانی ہو یا کوئی کابلی پلاؤ ہو۔ اسی طرح ہر قسم کا کیک بس کیک ہی ہوتا ہے، بنانے والے کے نزدیک اس کا چاہے جو بھی نام ہو۔” نجیب اس کی بات سے متفق تھا۔
“یہ تو سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ نے اور ٹی وی چینلز نے انسان کو شعور دے دیا ورنہ تو بیکری کی ہر چیز بسکٹ یا پیسٹری ہی ہوا کرتی تھی۔” دونوں کو بچپن کی یاد آئی دونوں ہی ہنس دیے تھے۔
“اب ایسا ہے کہ نوکری شروع کرو، اور اماں سے پوچھ کر چھت کے ہال کمرے کو اپنے مطابق سیٹ کروا لو۔ ایک اچھا سا اوون، ریفریجریٹر، شیلف اور چولہا جیسے تمہیں کام کرنے میں آسانی ہو۔ کچن کے سیٹ کرنے پہ ہی کم از کم لاکھ دو لاکھ تو چاہیے ہی ہو گا۔ تو اپنی تنخواہ سے بچت کرکے یہ کام کرواؤ۔ کام کے آغاز میں چچا جان سے تو پیسے مت مانگنا، اور ادھار تو بالکل بھی نہیں لینا۔” وہ ایک اچھے دوست کی طرح اسے مشورے سے نواز رہا تھا۔
“ہاں لیکن۔! جہاں جہاں، جیسی اور جس قسم کی مدد چاہیے ہوئی تو بندہ حاضر ہے۔ چھوٹے موٹے آرڈر تو میں بھی تمھیں لا دیا کروں گا ” اس نے سر تسلیم خم کیا تھا، سبکتگین نے مسکرا کر اپنے بچپن کے دوست کو دیکھا جو ہمیشہ ہر قدم پہ اس کے ساتھ تھا۔ اس نے اللہ کا نام لے کر ملازمت شروع کی تھی۔ دونوں کی کمپنی اگرچہ الگ تھی لیکن آفس ایک ہی پلازے میں تھے اور گھر بھی آس پاس ہونے کی وجہ سے عموماً دونوں ایک ہی موٹر سائیکل پہ جایا کرتے تھے۔
آفس گھر سے قدرے دور تھا۔ موٹر سائیکل پہ بھی چالیس سے پینتالیس منٹ لگ جاتے تھے۔ شروع کے چند دنوں میں تو اسے اپنے معمولات سیٹ کرنے میں ہی لگے تھے۔ تھکاوٹ ہی جان نہیں چھوڑتی تھی کہ کچھ کر سکے۔ اس روز وہ گھر پہنچا تو اریبہ آئی ہوئی تھی۔ شاہنواز بھی وہیں موجود تھا۔
“کیسے ہیں سبکتگین بھائی!؟”
“میں تو اللہ کا شکر ہے بالکل ٹھیک ہوں، تم آج کیسے رستہ بھول گئیں؟” شاہنواز کے برابر بیٹھتے اس نے ماں کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیا تھا۔
“کب سے آنا چاہ رہی تھی بھائی، ٹیسٹ ہو رہے تھے اس لیے آ نہیں پائی۔ لیکن آپ نے بھی کئی دن سے کوئی کیک نہیں کھلایا نا۔۔!”
“یوں کہو کہ بھوکی! بھائی سے کیک کھانے آئی ہو۔” شاہنواز نے اسے چھیڑا تھا۔ وہ خالہ زاد بھی تھے اور چچا زاد بھی، اتنی نوک جھونک تو روز مرہ کا معمول تھی۔
“ہاں نا۔! بھوکی ہوں تو بھوکی سہی۔” وہ شاہنواز کو دو بدو جواب دے کر دوبارہ سبکتگین سے مخاطب ہوئی:
“بھائی! بنا کر کھلائیں نا کوئی کیک، قسم سے بہت دل کر رہا ہے۔ وہ اقدس کی بچی جب بھی کیک بناتی ہے ہمیشہ جلا دیتی ہے۔” وہ برا سا منھ بنائے کہہ رہی تھی جس پہ سبھی ہنس دیے۔
“چلو میں دیکھتا ہوں کہ کیا بنایا جائے۔”خالی گلاس میز پہ رکھتے سبکتگین اٹھ کھڑا ہوا، اس کے اندر کا شیف جاگ گیا تھا۔
“میں مدد کرواؤں بھائی؟!” اس کے ساتھ کھڑے ہوتے، اریبہ نے پوچھا۔
“ضرور! جب تک میں کچن میں ہوں، تم دونوں اندر نہیں آؤ گے۔” بشرٹ کے بازو کہنیوں تک موڑتے اس نے شاہنواز اور اسے تنبیہ کی تھی۔
” کیوں۔!!؟” دونوں بیک وقت چیخے تھے۔ جواباً اس کی گھوری کا پس منظر جان کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے وہیں صوفے پہ گر گئے تھے۔ بیکنگ کے دوران اگر وہ دونوں ساتھ رہتے تو آدھی سے زیادہ چاکلیٹ یا کریم، کیک کی بجائے ان کے پیٹ میں جاتی تھی۔ وہ منع کرتا ہی رہ جاتا تھا۔ لیکن تب اس کی سنتا ہی کوئی نہیں تھا۔ اب بھی اسی لیے وہ منع کرکے گیا تھا
“میرے کیک بیک کرنے تک اگر تم دونوں کچن کی دہلیز کے قریب بھی آئے تو میں اسی وقت بیکنگ چھوڑ دوں گا۔” اس کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی تھی وہ دونوں وہیں رک گئے تھے۔ اب وہ اتنے بھی بےوقوف نہیں تھے کہ کیک سے محروم ہونے والا کام کرتے۔ سبکتگین کپڑے تبدیل کرکے کچن میں آیا تھا۔ قمیص کی آستین کہنیوں تک موڑے، اس نے چیزیں کچن شیلف پہ اکٹھی کرنا شروع کیں۔ کئی دن سے وہ چاکلیٹ چپ کوکیز بار (chocolate chip cookies bar) بنانے کا سوچ رہا تھا کہ یہ نئی ترکیب بھی آزمائے، روزانہ سوچتا ہی رہ جاتا تھا۔ آج اریبہ نے فرمائش کی تو وہی بارز بنانے لگا تھا۔
“میدہ، چینی، براؤن شوگر، انڈے۔۔” نوٹ پیڈ پہ لکھی ترکیب سے چیزیں نوٹ کرتا رہا۔
“اور یہ رہا مکھن اور چاکلیٹ چپس” ایک اچھے بیکری شیف کی طرح وہ مرحلہ وار سارے کام کرتا تھا۔ چیزیں شیلف پہ رکھی تھیں۔ اس نے سب سے پہلے چوکور سانچے کو تیل لگا کر، اس میں بٹر پیپر لگا کر تیار کیا۔ اوون کو پری ہیٹ موڈ پہ لگایا۔ پھر پیمانہ نکال کر خشک اجزاء جیسا کہ میدہ، بیکنگ پاؤڈر اور بیکنگ سوڈا وزن کرکے چھان کر الگ رکھے تھے۔ پھر مکھن کا وزن کیا اور اسے ہلکی آنچ پہ پگھلا کر رکھا تھا۔ سفید اور براؤن دونوں قسم کی چینی بھی وزن کے مطابق نکال کر مکھن میں ملائی تھی۔ انڈے شامل کیے اور خوب دل لگا کر مکھن، چینی اور انڈوں کے آمیزے کو پھینٹنے لگا تھا۔ ونیلا ایسنس کی بوتل کا ڈھکن کیا کھلا تھا شاہنواز بوتل کے جن کی طرح کچن کے دروازے کے پاس آیا تھا۔
“خبردار! جو تم نے اندر قدم بھی رکھا تو۔۔” آہٹ پر اس نے پلٹ کر دیکھا تھا۔
“آنے دیں نا بھائی! کریم تو آپ استعمال کر نہیں رہے جو میں چاٹ سکوں۔ اب یہ کچے انڈے والا آمیزہ تو کھانے سے رہا۔” وہ بےچاری سی صورت بنا کر کہہ رہا تھا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ معصوم سی صورت بنائے کھڑا وہ لڑکا بی بی اے کے پہلے سمسٹر کا طالب علم تھا۔
“تم سے کچھ بعید نہیں کہ یہ کچا آمیزہ ہی چٹ کر جاؤ۔” وہ اب میدہ ملا رہا تھا۔ شاہنواز دونوں ہاتھ سینے پر باندھے دل جمعی سے اسے دیکھے گیا۔ اسے سبکتگین کو بیکنگ کرتے دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔
“بھائی۔!” ہلکے بھورے رنگ کے آمیزے میں چاکلیٹ چپ ملاتے سبکتگین نے پلٹ کر اسے دیکھا۔
“جب آپ ایک مشہور شیف بن جائیں گے نا اور کسی بڑے ٹی وی چینل پہ بیکنگ کا کوئی پروگرام کیا کریں گے تو میں سارے کام چھوڑ کر آپ کا پروگرام دیکھا کروں گا۔” وہ اس کی بات پہ مسکرایا اور چاکلیٹ چپس کے چند ٹکڑے اس کی جانب بڑھائے۔
“مجھے معلوم ہے کہ یہ مکھن اسی لیے لگایا جا رہا تھا۔”
“نہیں نہیں بھائی! میں سچ کہہ رہا ہوں۔” اس نے کچھ ٹکڑے اپنے منھ میں ڈالے اور کچھ اریبہ کے لیے سنبھال لیے تھے۔
“مجھے آپ کو بیکنگ کرتے دیکھنا بہت پسند ہے۔” اس کے الفاظ و انداز میں سبکتگین کے لیے ڈھیروں پیار چھپا تھا۔
“زیادہ پسند مت کرنا، ورنہ ابا جی کا پتا ہے نا۔!” تیار شدہ آمیزہ سانچے میں منتقل ہو چکا تھا۔ اسنے کپڑے سے ہاتھ پونچھے، اوون کا درجہ حرارت سیٹ کیا اور سانچہ اس میں رکھ کر وقت نوٹ کرکے ٹائمر سیٹ کیا تھا۔
“اب تو ہم اندر آ سکتے ہیں نا!” اریبہ بھی آن دھمکی تھی۔ شاہنواز کے ہاتھ سے چاکلیٹ لیتی وہ برتن کے کنارے پہ لگا آمیزہ انگلی سے چکھنے لگی۔
“آں ہاں۔۔! کچا انڈا ہے اس میں اریبہ۔” وہ سنک میں برتن جمع کرنے لگا، نل کھولتا، کہ اس سے پہلے ہی اریبہ نے آگے ہو کر اس کے ہاتھ سے برتن لیا تھا۔
“آپ رہنے دیجیے اب، میں دھو لیتی ہوں۔” وہ جانتا تھا کہ اریبہ اپنی موجودگی میں اسے کبھی برتن دھونے نہیں دے گی۔ لہٰذا کوئی بھی بحث کیے بغیر وہ ایپرن اتار کر وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔
“میرے لیے چائے بنا دینا ایک کپ۔” اس نے اریبہ سے فرمائش کی تھی۔ وہ برتن دھو کر چائے بنانے لگی، ان دونوں بہنوں کا اپنے تایا ابا اور خالہ کا گھر ایسے ہی آنا جانا تھا جیسے اپنا گھر ہو۔ گھر کی زمین الگ تھی لیکن دل سب کے باہم جڑے ہوئے تھے۔
“اقدس کیا کر رہی تھی؟” سبکتگین نے پوچھا، اسے اپنی نک چڑھی، نخریلی سی وہ کزن اپنے نخروں اور نازک مزاجی کی وجہ سے بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ بھی جان بوجھ کر اسے تنگ کرتا رہتا تھا۔
“کچھ دن پہلے اس نے بلیک چاکلیٹ کیک بیک کیا تھا؟” اس نے حیرت سے پوچھا تھا، کیونکہ خود اسے بیکنگ کرتے سالوں گزر گئے تھے۔ لیکن چاکلیٹ کی یہ بلیک قسم اس کی نگاہوں سے نہیں گزری تھی۔ اس کے استفسار پہ اریبہ ہنستے ہوئے ساری بات بتانے لگی تھی کہ کیا اور کیسے ہوا تھا۔؟
“میں تو وہ کیک آپ کو دینے کے لیے آ ہی رہی تھی لیکن اس کی شکل پہ ترس آ گیا تھا۔” چائے کا کپ اس کے ہاتھ سے لیتے وہ شرارت سے بولا:
“شکل پہ ترس آیا تھا یا اس کی چیخ و پکار سے ڈر گئی تھی؟” اریبہ کا قہقہہ سبکتگین کی بات کو سچ ثابت کر گیا تھا۔ ٹائمر بجا تھا۔ چائے کا خالی کپ رکھتے اس نے اوون کھولا اور سانچہ باہر نکالا، سوندھی سی، دل کو لبھاتی خوشبو پورے کچن میں پھیلی تھی۔
“بھائی جلدی نکالیے۔!” اریبہ اس کے سر ہوئی۔
“پہلے مجھے دیجیے گا۔” شاہنواز دوسری طرف کھڑا اس کا دماغ کھا رہا تھا۔
“ارے بے صبروں۔! کیک گرم گرم نہیں نکالنا سانچے سے، ٹوٹ جائے گا۔” وہ کیک کے کناروں کو چھری کی مدد سے آرام آرام سے سانچے سے چھڑا رہا تھا۔ یہی وہ وقت ہوتا تھا جب تیار کیے گئے کیک کی خوشبو، مجبور کرتی تھی کہ اسے فوراً سے کھا لیا جائے، جبکہ گرم کیک کو سانچے سے نکالتے وقت احتیاط نہ کی جاتی تو آپ کا بیکنگ کا شاہکار، بےکار بھی ہو سکتا تھا۔ ان دونوں نے بمشکل دس منٹ انتظار کیا ہو گا، صد شکر کہ کیک سانچے سے باہر آیا تھا۔ کٹنگ بورڈ پہ کیک رکھے، سبکتگین نے اس کے مناسب سائز کے ٹکڑے کیے تھے۔
“اب آپ دونوں ایسے ہی نوش کرنا پسند فرمائیں گے یا دیگر لوازمات کے ساتھ؟”
“لوازمات کے ساتھ۔۔!” دونوں ندیدوں کی طرح چلائے تھے۔ اس نے الماری سے چینی کی تین پلیٹیں نکالی تھیں۔ بنائی گئی چاکلیٹ چپ کوکیز بار کا ایک ایک ٹکڑا ان پہ رکھا، فریزر سے ونیلا آئسکریم کا ڈبہ نکال کر اس کا ایک ایک سکوپ اوپر رکھا اور پھر اسے چاکلیٹ ساس سے اور تھوڑی سی چاکلیٹ کش کرکے اسے سجایا تھا۔
“خوبصورت۔!” اریبہ نے انگوٹھا اوپر کر کے اسے سراہا تھا۔ شاہنواز اس کا موبائل لیے کھڑا تھا۔
“ہمیشہ کی طرح تصویر تو میں ہی بناؤں گا۔” سبکتگین کی بیکنگ کی تصاویر وہی لیتا تھا۔
“شاہنواز! تم یہ پلیٹ اقدس کو دے آؤ، پھر آ کر کھا لینا۔” اس نے تیسری تیار پلیٹ شاہنواز کو دی تھی۔ سبکتگین اقدس کو بھول جاتا یہ کیسے ممکن تھا؟ اور شاہنواز بھی بھائی کی بات کیسے ٹال سکتا تھا۔ جانا بھی تو سامنے ہی تھا۔ سبکتگین اسے چیز بھجوا کر ہی خود کھاتا تھا۔ یہ بات سب جانتے تھے، لیکن اظہار کوئی نہیں کرتا تھا۔
“آپ نے تو کمال ہی کر دیا بھائی! واہ واہ زبردست۔” اریبہ نے پہلا چمچ لیتے ہی اش اش کیا تھا۔
“آپ خود بھی تو کھائیں بھائی!” شاہنواز بھی پل بھر میں واپس آ چکا تھا۔ اقدس کو اس سے لاکھ اختلاف سہی، لیکن اس کی بھجوائی گئی ہر چیز وہ اپنا حق سمجھ کر وصول کرتی تھی۔
“میں اب کچھ دیر آرام کروں گا بچوں!” اس کے دل میں ایک دم ہی ایک بہترین شیف بننے کا شوق پھر سے سر اٹھانے لگا تھا۔
“لیکن ابا جی، نجانے کب راضی ہوں گے؟” وہ دل گرفتہ سا اپنے کمرے میں آیا تھا۔ دل ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا تھا۔ اسے سب کچھ برا لگنے لگا تھا۔ فون چارجنگ پہ لگا کر وہ خالی الذہنی کی سی کیفیت میں اوندھے منھ بیڈ پہ لیٹ گیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...