آسمان پہ سیاہی دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔دھوند کا زور بڑھ چکا تھا۔اور اس کی گاڑی سرئت سے سڑک پہ رواں دواں تھی۔
ہمنوار سڑک کا اختتام اس کے گھر کے گیٹ کے سامنے ہوا۔صبح ہی صبح صاحب کی گاڑی کا ہارن سُن کر ملازم نے جھٹ گیٹ کھولا۔اور سلام کرنے کو ہاتھ ماتھے تک لے گیا۔گاڑی میں بیٹھے ذریت نے سر کے اشارے سے اسے جواب دیا۔اور کار سرخ اینٹوں کے روشنیوں کے جگمگاتے پورچ میں جا رکی۔
اس نے طمانیت کی سانس خارج کی اور باہر نکلا۔
پیرس کے پرسکون ہوٹلوں میں بھی جیسے اس کے لئے سکون ختم ہو چکا تھا۔کل رات اسے دادی جان نے جلدی گھر آنے کو بولا۔تو اسے لگا جیسے وہ اسی آواز کا منتظر ہو۔اس نے تمام اہم میٹنگز کرنے کے بعد باقی کو اپنے سیکٹری کو ہینڈل کرنے کا بولا اور فلائٹ لے کر آ گیا۔
راہداری سے گُزرتے اس کی نظریں مکینکی انداز میں دائیں بائیں چکر بھی کاٹ رہی تھیں۔
دادی جان کے کمرے کی روشنی جل رہی تھی۔اور وہ قیام میں تھیں۔تہجد۔۔۔وہ بہم سا مسکرا یا اور پھر آہستہ سے چلتا ان کے بیڈ پہ بیٹھ کر جوتے اُتارنے لگا۔مگر پھر اس سے پہلے کہ وہ جوتے اُتارتا وہ رُکا اورپھر جھٹکے سے اُٹھتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
راہدار کے اختتام پہ اوپر کو جاتی سیڑھیوں پہ قدم وہ تیزی سے اُٹھا رہا تھا۔
کمرے کو بغیر دستک کے کھولا۔تو دروازہ کھولتا چلا گیا۔کمرے میں اندھیرے کا راج تھا۔اس نے لمحوں میں بٹن گِرایا۔اور ایک نظر خالی کمرے میں دوڑائی۔شکنوں سے پاک بیڈ۔۔۔جابجا صفائی۔گویا وہاں ہفتے سے کوئی رہا ہی نہ ہو۔اس نے ذرا حیرت سے کمرے میں ایک نظر اور ڈالی ۔۔۔بیوی کو دیکھنے کا اشتیاق شائد صاحب بہادر کے دل میں پہلی بار اُمڈا تھا۔مگر افسوس کے اس وقت وہ کسی نازک مزاج محبوبہ کی طرح منہ بنائے اپنے میکے بیٹھی تھی اور اس وقت بالکل میسر نہ تھی۔اس نے باتھروم کے کھولے دروازے کو دیکھا۔مُڑنے سے پہلے ایک بار پھر سے کمرے میں نظر دوڑائی اورواپس مُڑ گیا۔
اسے لگا شائد وہ دادی جان کے روم کے باتھ روم میں ہو۔وہ تیزی سے اس جانب گیا۔
اسے دادی جان نے آگاہ نہیں کیا تھا۔کہ ماہ نور گھر سے جا چکی ہے۔
اب کی بار اس کے کمرے میں پہنچنے تک دادی جان سلام پھیر چکی تھیں۔اور اب متفقر سی دروازے کو دیکھ رہی تھیں۔
کمرے میں آ کر اس نے دادی کو مسکرا کردیکھ پھر ایک نظر باتھ روم کے کھولے دروازے کو دیکھا۔ اور پھر مایوسی کو چھُپاتا بے دل مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتا آگے بڑھا اور مسکرا کر گھٹنوں پہ جھک کر ان کے ماتھے کا بوسہ لیا۔
اسلام علیکم دادی جان۔۔۔تھکی تھکی آواز میں مسکرا کر کہتے وہ اُنہیں بہت پیارا لگا۔پر افسوس کے اس کے چہرے کی تھکاوٹ اب شائد کچھ عرصے تک اُنہیں دیکھنی پڑتی۔
تم اتنی صبح کیسے آ گئے؟اٹھ کر پوتے سے پوچھتے اور پھر جائے نماز کو اکٹھا کرنے لگیں ۔تو وہ آگے بڑھا اور ہاتھ سے پکڑ کر اُنہوں بیڈ تک لے آ یا۔
آپ نے مجھے بلایا ۔اور میرا خُد بھی وہاں مزید رُکنے کا ارادہ نہیں تھا۔اس لئے میں آگیا۔
آپ کو میرا آنا اچھا نہیں لگا۔مسکرا کر پوچھا۔وہ ہنس دیں۔
بچے ہی رہنا تم ۔۔۔اس کے کندھے پہ ہلکے سے دھپ لگاتے اُنہوں نے کہا۔تو وہ مسکرایا اور ایک بار پھر سے متفقر سا باتھ روم کا کھولا دروازہ دیکھا۔
آپ کی بہو کہاں ہے؟
بہو۔۔۔وہ رُکیں۔۔۔
یہیں ہے۔اس نے کہاں جانا ہے۔
کہاں؟مجھے تو کہیں نظر نہیں آئی۔ لہجے میں ہلکا سا جوش اُبھرا۔اسے لگا تھا ۔وہ عام روائیتی بیوئیوں کی طرح رات سے اس کی منتظر ہو گی ۔پر وہ کہیں نظر ہی نہیں آئی ۔
دادی جان دھیمے سے مسکرائیں۔(ابھی وہ کہتی ہے۔کہ ذریت کو اس سے محبت نہیں)
ارے بچے میرے سے تھوڑی سی باتیں تو کر لو۔پھر بہو کے پاس بھی چلے جانا۔
ہیں۔۔۔مجھے تو اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرہا۔
اوہ خُدا تیرا شکر۔۔۔میرا گھر بھی روائتی گھر بنا۔شوخی خوب عروج پہ تھی۔وہ ہنس دیں۔
بکو مت۔۔۔وہ اپنے بھائی کے گھر گئی ہے۔
کیوں؟وہ جو لیٹ کر سر ان کی گود میں رکھنے والا تھا۔فوراً سیدھا ہوا۔آپ نے تو مجھے ایسا کچھ نہیں بتایا۔اور اس کے فون کو کیا ہوا ہے؟
اس نے میری ایک بھی کال رسیو نہیں کی؟ایک دم سے اگلے پیچھلے سارے سوال کر ڈالے۔
پتہ نہیں۔۔۔تم مل کر خود پوچھ لینا۔
اور اب مجھے بتاؤ کہ بھوک تو نہیں لگی؟اگر لگی ہے ۔تو میں ظفر سے کہہ کر کچھ بنوا دیتی ہوں۔
نہیں میں نے فلائٹ میں کھانا کھا لیا تھا۔اس کا موڈ سخت آف نظر آیا۔وہ ن کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔تو دادی جان اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں۔
ذریت کو سخت افسوس ہوا تھا۔دادی جان کو اکیلے چھوڑ کر اسے نہیں جانا چاہے تھا۔کم از کم میرا انتظار ہی کر لیتی۔اسے جیسے ماہ نور سے اس اقدام کی اُمید نہیں تھی۔
:::::::
ماہ نور
جی؟بھائی۔وہ لان میں مورنگ واک کر رہی تھی۔جب پُشت پہ ہامپتے بابر کی آواز سُنی تو مُڑی۔وہ ابھی ابھی باہر سے آیا تھا۔
تم نے ذریت بھائی سے کوئی بات کی؟
کب؟
وہاں سے آنے کے بعد۔وہ کیا ہے۔کہ میں سوچ رہا تھا۔اس لئے تمہیں دیکھ کر پوچھ لیا۔اتنی صبح صبح ذریت کے ذکر پہ ماہ نور کا چہرہ اُترتا دیکھ کر کہا۔تو وہ سر ہلا گئی۔
نہیں۔۔۔ان کی کال آئی تھی۔پر میں نے رسیو نہیں کی۔کیوں؟
آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟
میں سوچ رہا تھا۔کہ میں ذریت بھائی کو خود کال کر لوں۔رات میں نے گھر کال کی تھی۔تو تمہارا ملازم بتا رہا تھا۔کہ ذریت چار بجے گھر پہنچے گا۔
اوہ۔۔۔اب تک اُن کو پتہ چل چکا ہو گا۔کہ میں گھر پہ کیوں نہیں ہوں۔اسے جیسے اس کے آنے کی اُمید نہ تھی۔
ہاں شائد۔۔۔بابر نے شانے اُچکا کر بے پروائی دیکھائی۔
ویسے تم چاہو۔تو سب واپس ٹھیک ہو سکتاہے۔کیونکہ تم نہیں جانتی کہ حقیقت کیا ہے۔سوچ کر بولتے اس کی نظریں گھاس پہ تھیں۔اور پاؤں گھاس اُکھیڑ رہے تھے۔
لیکن میں نے خود ان کو باتیں کرتے سُنا ہے۔اور اگر کوئی بات نہیں تھی۔تو ان کو چاہے تھا۔کہ مجھ سے بات کرتے۔مجھ سے شئیر کرتے۔اس نے منہ بنا کر کہا۔تو بابر نے سر ہلا دیا۔
چلو۔۔۔ابھی تم کسی سے کوئی بات مت کرنا۔میں دیکھتا ہوں کیا کرنا ہے۔اور ہاں۔۔۔ایک اور بات۔
فرح تمہاری جو فرنڈ ہے۔اس کی فیملی کا پتہ ہے کہاں سے ہے؟
میرا مطلب ہے۔کہ کوئی ایڈریس ؟لہجے کو قدرِ نارمل رکھتے اس نے پوچھا تو ماہ نور چونکی۔
بھائی؟
ہم۔۔۔
آپ کو لگتا ہے۔کہ فرح وہ لڑکی ہے۔جسے ابرار بھائی پسند کرتے ہیں۔نئی؟ایک ابرو اُٹھا کر پوچھا۔تو بابر چونکا۔
میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔اور تم مجھے کچھ بتا رہی ہو۔اس نے انکار نہیں کیا تھا۔
میں بتا نہیں رہی۔آپ سے پوچھ رہی ہوں۔کیونکہ میں جانتی ہوں۔کہ جسے وہ پسند کرتے ہیں۔آپ جانتے ہیں وہ کون ہے۔اور شائد میں بھی۔آخر میں وہ مسکرائی تھی۔
بابر نے سر جھٹک کر آسمان کی طرف دیکھا۔بولا کچھ نہیں۔
اور اگر ایسا ہو ۔تو مجھے نہیں لگتا ۔کہ عتراض کی کوئی وجہ بنے گی۔
اوہ۔۔۔تو آ پ کو لگتا تھا۔کہ میں عتراض کروں گی۔خوشگوار حیرت سے کہتے ۔آخر میں اس نے بُرا مناتے ہوئے کہا۔تو بابر ہنس دیا۔
خیر ابھی ان باتوں کا وقت نہیں ہے۔ابھی ضیاء پہ بھائی لوگ کیس کر رہے ہیں۔اور فرح کو بھی اس کے گھر بھیجنے کا انتظام ہو رہا ہے۔پھر اس کے بعد سوچیں گے کیا کرنا ہے۔
میں بھی ساتھ جاؤں گی۔
ہاں۔۔ظاہر ہے۔خیر۔۔پلیز مجھے۔فریش جوس بنا دو۔اندر کی جانب قدم بڑھاتے اس نے کہا۔تو ساتھ دو انگیاں ماتھے تک لے جا کر اشارا کرتا آگے بڑھ گیا۔ ماہ نور مسکرا دی۔
:::::::::::::
سورج کی کرنیں کھڑکی سے چھن کر نیچے اس کے بستر پہ آتی ا سکے چہرے پہ پڑ رہی تھیں۔اس نے کسلمندی سے آنکھیں مسلتے ارد گِرد دیکھا۔اور اُٹھ بیٹھا۔وہ اس وقت دادی جان کے بیڈ پہ سو رہا تھا۔صبح آنے کے بعد وہ وہیں سوتا رہا تھا۔دادی جان نے بھی اسے نہیں اُٹھایا۔اور اب وہ نیچے جا چکی تھیں۔کیسے گئیں یہ اسے معلوم نہیں تھا۔وہ جوتے گھسیٹتا اُٹھا اور باہر نکل گیا۔اس کا رُخ اپنے کمرے کی جانب تھا۔
اس نے کمرے میں آتے ہی واڈرروب کھولی اور پھر سیاہ شرٹ کے ساتھ نیلی جنز کو نکالتا باتھ روم میں گھس گیا۔
وہاں سے باہر آ کر ا س نے جیکٹ پہن کر بالوں کو ڈرائے کرنے کے بعد جیل سے عادت کے مطابق سیٹ کیا اور پھرنیچے آ گیا۔۔۔
دادی جان ڈائنگ ٹیبل پہ بیٹھیں اسی کی منتظر تھیں اور ظفر کو کہنے ہی والی تھیں کہ ذریت کو نیچے بلائے۔۔۔
ٹیبل پہ ان کے سامنے نتاشا کی دی ہوئی تمام تصویریں پڑی تھیں۔اسے آتا دیکھ کر اُنہوں نے مسکرا کر اسے اپنے قریب کی کرسی پہ آکر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ مسکراتا ان کے ساتھ کی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔اس کی نظر سب سے پہلے خاکی لفافے پہ گئے تھی۔اس نے تعجب سے اُنہیں دیکھا۔تو اُنہوں نے ظفر کو بھیجتے ہوئے تصویریں اس کی جانب بڑھائیں۔
یہ کیا ہے؟ایک ابرو اُٹھا کر اس نے پوچھا۔اور پھر تصویروں کا لفافہ پکڑنے سے پہلے سامنے پڑ ی پھلوں کی ٹوکری سے سیب اُٹھا کر دانتوں سے کاٹنے لگا۔
سیب کھانے کے دوران اس نے لفافہ کھولا تو بہت سی تصاویر اوندھی ہو کر اس کی جھولی میں آ گِریں۔
یہ۔۔۔
یہ کیا ہے۔۔۔پہلی تصویر پلٹ کر دیکھا تو گویا ہلق میں ایک دم سے کانٹے اُگنے لگے۔ہونٹ بھینچے گئے۔اور ہاتھ میں پکڑا آدھا سیب اس نے گلا کھنکار کر سامنے میز پہ پڑی پلیٹ میں رکھ دیا۔دادی جان اس کے چہرے کے ایک ایک تاثر کو دیکھ رہی تھیں۔جو ہر تصویر کے بعد بدل رہا تھا۔اس نے تقریباً چھ سات تصویروں کو بڑے تحمل سے دیکھا۔اور پھر دادی جان سے نظر ملائے بغیر کرسی گھسیٹ کر اُٹھ گیا۔
کیا ماہ نوربھی اسی لئے گئی ہے؟لہجے میں خشکی اپنے آپ در آئی۔اُنہوں نے سر نفی میں ہلایا۔
اس کے گھر میں کوئی مسئلہ تھا۔اس لئے وہ چلی گئی۔اُنہوں نے کہا۔تو کندھوں سے جیسے بار اُتار۔وہ بغیر کوئی صفائی دئے۔تصویروں کے متعلق بات کئے۔دھڑ دھڑ سیڑھیاں چڑھتا اوپر غائب ہو گیا۔اور ابھی اُنہیں زیادہ انتظار بھی نہیں کرنا پڑا جب وہ واپس اسی تیزی سے اُتر رہا تھا۔چہرے پہ کسی بھی قسم کے تاثر کی چھاپ تک نہ تھی۔اُنہوں نے کوئی کلام پڑھ کر اس کے غائب ہوتی پشت کو دیکھ کر پھونک ماری اور تھرماس سے چائے نکال کر پینے لگیں۔
:::::::::::::
آفس کی کھڑکی میں کھڑا وہ سامنے پھیلے ایک جہان کو دیکھ رہا تھا۔اور ہونٹ آپس میں پیوست تھے۔اکمل نے گلا کھنکار اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی۔مگر وہ اسی طرح جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سامنے دیکھتا رہا۔
ذریت۔۔۔
ذریت تم کیا سوچ رہے ہو؟مجھے بھی تو کچھ بتاؤ بھائی۔۔۔وہ اب اس کی خاموشی سے جھنجھلایا معلوم ہو رہا تھا۔
یار میں نے تمہیں کہا نہیں تھا۔کہ اس پہ نظر رکھنا۔نفرت سے اس کے لہجے میں اختتام پہ درشتی کچھ اور بڑھی۔اکمل نے گہرا سانس لیا۔
تم نے کہاتھا ۔مگر بعد میں تم نے ہی منع کر دیا تھا۔تمہارا خیال تھا۔کہ وہ اب چِین سے اب کبھی واپس نہیں آ ئی گی۔اور یہ کہ ا ب وہ خطرہ نہیں بنے۔اور ہم اس سے بدلہ نہیں لیں گے۔
ہاں کہا تھا۔۔۔اسے جیسے اپنے پہ افسوس ہوا۔اسی کا نتیجہ ہے۔کہ وہ عورت ایک بار پھر سے مجھے ہی ڈس گئی۔اسے لگا وہ میرا گھر میری زندگی اجاڑ دے گی۔وہ نتاشا کا نام بھی نہیں لے رہا تھا۔وہ اس کے ساتھ آخر میں نرمی کر گیا تھا۔جو اس نے بار میں کھڑی وائن پیتی اور عجیب بے حودہ سا ڈانس کرتی کی وڈئیو وائیرل نہیں تھی۔اس سے شائد نتاشا کو فرق نہ پڑتا۔مگر اسکے باپ اور چچا ،تایا کی ساکھ ضرور گِر جاتی۔مگر اسے ان سے نہیں نتاشا سے بدلہ لینا تھا۔اور افسوس کے اسی نرمی کا نتیجہ تھا۔کہ وہ ایک بار پھر سے بازی پلٹ گئی۔اور ذریت جیسے آذر کو جاتا دیکھتا رہا تھا۔ویسے ماہ نور کو بھی جانے دیتا۔اس نے بہت لمبا سانس لے کراپنے اندر کی کسافت کو کم کرنے کی کوشش کی اور دونوں ہاتھوں کو بے بسی سے چہرے پہ پھیرتا واپس کرسی پہ آ بیٹھا۔
باس ۔۔۔اگلا کیا لاحِ عمل ہے۔بتاؤ۔۔۔
کچھ نہیں بس۔۔۔ایک آخری بازی۔اس نے مجھے تباہ کیا ہے۔اب میری باری۔میں نے اس کو اس کے قتل کے ساتھ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا تھا۔مجھے ماہ نور کے ساتھ رہنا تھا۔مگر وہ اب مجھے ڈس رہی ہے۔میری بیوی کو تکلیف پہنچانے کی کوشش میں ہے۔جو اب مزید میری برداشت سے باہر ہے۔میرے اختیار میں ہوتا ۔تو میں اسے کہیں دور اپنی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفع کر دیتا۔مگر وہ تو گلے کا طوق بنتی گئی۔اس کا ضبط جواب دیتا جا رہا تھا۔اس نے گہرا سانس لے کرسامنے پڑی فائل سامنے کی دو منٹ تک اوراق کو دیکھتا رہا۔اکمل خاموشی سے اس کا بس جائزہ لے رہا تھا۔
ذریت میں اس کی وڈئیو اس کے باپ کو بھیج دوں؟۔وہ خو دہی اس کا علاج نکال لیں گے۔تمہیں اپنے ہاتھ کسی بھی گُناہ میں گندے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔سوچ سوچ کر وہ کہہ رہا تھا۔میں اپنے ہاتھ گندگی کو صاف کرنے کے لئے استعمال کروں گا۔۔۔اس کے چہرے پہ آخر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
اکمل اُلجھا۔۔۔
مطلب؟
عترافِ جرم۔۔وہ مسکرا دیا۔
اکمل نے ابرو اُٹھایا۔۔۔بس دیکھتے جاؤ۔وہ خود مانے گی۔کہ وہ قاتلہ ہے۔کہہ کر اس نے فائل بند کی اور وہیں ٹیبل سے کار کی چابی اُٹھاتا اکمل کا کندھا تھپ تھپاتا باہر نکل گیا۔
::::::::::
دُھند آج صبح سے ہی پڑتی ہر چیز کو سوگوار سا بنا رہی تھی۔کم از کم اسے لان میں بیٹھے اطراف میں دیکھتے یہی لگا۔اس نے گہرہ سانس لے کر لان کا قدرِ ویران گوشا دیکھا تو وہیں جا بیٹھی۔
چاروں طرف سے امرودوں کے درخت اور انگوروں کی بیلیں اور کیاریوں میں جابجا لگے سدا بہار کے خوش رنگ پھول۔اس نے مسکرا کر ایک پھول کو کیاری سے اُٹھایا جو اپنی ڈال سے الگ پڑا گویا اُداس تھا۔اسے لگا جیسے وہ پھول وہ خود ہو۔اس کے ہونٹ سوگواری سے مسکرائے تھے۔
تم بھی اکیلے ہو؟اس نے مدہم آواز میں خود کو کہتے سُنا۔
ہاں۔۔۔میں بھی اکیلی ہوں۔تمہاری طرح۔۔۔
سب رشتے تھے میرے پاس۔۔۔بس
بس ایک نادادنی انجانے میں ہوئی اور میں نے جیسے اُنہیں کھو دیا۔آنکھوں میں جیسے ایک دم سے مرچیں چُبھنے لگیں۔گلے میں آنسوں کا گولا اٹکا۔اس نے ہونٹ بھیچ لئے۔
میرے گھر والے مجھے پتہ نہیں یاد کرتے ہوں گے بھی یا نہیں۔پتہ نہیں اُنہیں پتہ بھی ہو گا میری حالت کا یا نہیں۔۔۔آنسو اس کی آنکھوں سے آہستہ آہستہ پھیسلنے لگے۔
بھائی۔۔۔آپ نے کیا سوچا ہے؟بابر نے ابرار کے کمرے میں آتے ہی پوچھا۔تو ابرار جو لیپ ٹوپ پہ مصروف تھا۔گھوما۔۔۔وہ سولیہ نظریں لئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
کس بارے میں؟ابرار جیسے نا سمجھ دکھا۔
بھائی۔۔۔آپ اس طرح کب تک خاموش رہیں گے۔کل ہم ان کو بھیج دیں گے۔وہ اپنے گھر چلی جائیں گی۔اور آپ کبھی اُنہیں اپنی بات نہیں کہہ پائیں گے۔بابر کو اپنے بھائی کی اس قدر کم ہمتی پہ افسوس ہوا۔وہ ہمیشہ سے چاہتا تھا ۔کہ ابرار جا کر فرح سے بات کرے۔پر ابرار کی ایک ہی رٹ تھی۔وہ مجھ پہ بھروسہ نہیں کرے گی۔اس کی معصوم آنکھوں میں میرے لئے ناپسندیدگی میرے لئے جان لیوا ہو سکتی ہے۔مگر بابر کو ایک بات سمجھ نہیں آتی تھی۔کہ آخر بھائی کو کمپلیکس کس بات کا ہے۔اسے یہی لگتا تھا۔
یار بابر اگر مجھے وہ ملنی ہو گی تو مل جائے گی۔خامخواہ میں اس کی نظرمیں بُرا نہیں بننا چاہتا۔میں نے اللہ پہ چھوڑ دیا۔ویسے بھی یہ صحیح نہیں ہوگا۔وہ ہمارے گھر پناہ لینے آئی ہے۔وہ کیا سوچے گی۔ابرار نے بڑے تحمل سے جواب دیا۔تو بابر منہ بنا کر رہ گیا۔
آپ میری سمجھ سے باہر ہیں بلکل۔۔۔اس کے منہ بگاڑنے پہ ابرار مسکرا دیا تھا۔
اچھا۔۔۔چلو ابھی نکلو باہر۔خامخواہ تنگ کر رہے ہو۔جو ہو گا وہی اللہ کا لکھا سمجھ کے قبول کروں گا۔میں فرح کا دل نہیں دُکھا سکتا۔اس نے بظاہر لاپروائی سے کہا تھا۔مگر باہر لان میں بیٹھی فرح خان کا دل جیسے سُکڑ کر پھولا۔۔۔
اس نے ایک ایک لفظ ان دونوں کا سُنا تھا۔اور جیسے جیسے بات سمجھ آتی جا رہی تھی۔جیسے عصاب کام کرنا بند ہو تے جا رہے تھے۔
وہ۔۔۔وہ
میں۔۔۔
میں؟
اسے جیسے یقین ہی نہ آیا۔آنکھوں میں بے یقینی کی انتہا تھی۔آنسوں میں مزید شدت آئی۔تو وہ تیزی سے کپکپاتی ٹانگوں کے ساتھ وہاں سے فوراً اُٹھ کر باتھ روم کی طرف بھاگی۔
کیونکہ ایک وہی صحیح جگہ تھی رونے کی۔
::::::::::::
ماہ نور نے اطراف کا جائزہ لیتے بہت ستائش سے فرح کے ڈرائینگ روم کو دیکھا۔
بابر سامنے کے صوفے پہ بیٹھا فون پہ مسلسل مگن تھا۔جبکہ ابرار ابھی کچھ دیر پہلے کوئی اہم کال سُننے کو باہر نکلا تھا۔
بابر بھائی۔۔۔آپ کو ایتھکس نہیں ہیں؟ٹانگ پہ ٹانگ جمائے قدرِ صبر کا گھونٹ پیتے اس نے کہا تو بابر نے بڑی بے نیازی سے مسکرا کر شانے جھٹکے۔تھے پر سارے تم کو دے دئے۔
کمال ہے۔وہ منہ بنا کر رہ گئی۔
وہ لوگ فرح کو اس کے گھر لے کر آئے تھے۔چونکہ منصوبہ بندی رات میں ابرار نے کی تھی۔ماہ نور کو لگا فرح اس سے ناواقف ہی رہی۔۔۔مگر جب اسے ایک لمبے سفر کے بعد اس کے گھر کے گیٹ کے سامنے لا کر کھڑا کیا گیا تو جیسے اُلجھ گئی۔۔۔اس نے کچھ نہیں ظاہر کیا ۔کہ وہ جانتی تھی ہ وہ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔وہ یہی چاہتی تھی۔
ماہ نور نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا۔ہاں سوائے اس کے کہ ضیاء کے خلاف کسی مزدور نے کمپلین لکھوائی تھی۔جسے کافی سنجیدگی سے لیا جا رہا تھا۔اور اس پہ چھوٹے موٹے مقدمات بھی ہو رہے تھے۔
وہ لوگ جانتے تھے۔کہ بڑی مچھلی کا چھوٹے کانٹے سے کچھ نہیں بنے گا۔اس لئے۔۔۔اب کی بار اُنہوں نے باضابطہ طور پہ ایک مضبوط منصوبہ بندی کے تحت اسے پہ کرپش ،اور منشیات کی فرشی کے کیس میں اُلجھایا تھا۔جس کی سزا کم سے کم اس کی آگے کی زندگی جیل تھی۔
بس اُنہیں ایک مضبوط گواہ کی ضرورت تھی۔جو ان کے بیچ میں سے ہی ہوتا۔
اسفند اسی پہ کام کر رہا تھا۔
فرح کے گھر میں اس وقت کوئی مرد حضرات میں سے موجود نہ تھا۔ملازم اُنہیں ڈرائینگ روم بیٹھا۔کر خان صاحب کو فون کا کہہ کر چلا گیا تھا۔فرح بھی اندر سیدھی بھاگی تھی۔اب وہ تینوں بیٹھے ارد گرد دیکھ رہے تھے۔
فرح نے آہستہ سے امی جی کے کمرے کا دروازہ دھکیلا تو وہ جیسے کھولتا چلا گیا۔۔۔
نیم تاریک کمرے میں اس کی آنکھیں جیسے سامنے کرسی پہ بیٹھے وجود ہی ٹِکی تھیں۔بڑی بیگم کی ٹانگ پہ پلاسٹر چسپاں تھا۔اور وہ ذرد رنگت کے ساتھ اسے ہی دروازے میں کھڑا دیکھ رہی تھیں۔
فرح نے ایک نظر خاموش گھر پہ ڈالی اور پھر ہونٹ کاٹتی نے ایک تیز بتی جلا دی۔
لمحوں میں سارا منظر واضح ہوا۔۔۔
بڑی بیگم جو اندھیرے میں اس کے چہرے پہ غور کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوچھنے ہی والی تھیں۔کمرہ روشن ہو جانے پہ ٹھٹکیں۔فرح آنکھوں میں بے بسی کے آنسو لئے۔اُنہیں دیکھ رہی تھی۔
اور وہ اسے۔
فری۔۔۔ہونٹ آہستہ سے کپکپائے۔فرح کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر گال پہ لڑکھ گیا۔
امی ۔۔۔وہ تیزی سے ان کی جانب بڑھی۔اور ان کی ٹانگ کا خیال کرتے محض ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔
وہ حیرت و بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔جبکہ فرح رونے میں مصروف تھی۔
تم۔۔۔
تم کیسے؟
کیسے آئی؟انہیں جیسے یقین ہی نہ ہو۔
مجھے آنا ہی تھا امی۔اس نے روتے ہوئے شکستگی سے کہا۔تو اُنہوں نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوڑا لیا۔فرح کی آنکھوں میں خوف اُبھرا ۔دُھتکار دینے کا خوف۔
کیا لینے آئی ہو اب۔لہجے میں جلال لئے وہ پوچھ رہی تھیں۔
امی۔۔۔اس کے رونے میں مزید شدت آئی ۔اس نے ان کا ہاتھ دوبارہ پکڑنا چاہا تو اُنہوں نے ا س کا ہاتھ جھٹک دیا۔
فرح خان ۔۔۔میں پوچھ رہی ہوں کیا لینے آئی ہو؟
جس کے لئے بھاگی تھی۔کیا وہ بھی ساتھ آیا ہے؟
یا اس نے بھی کچرا سمجھ کر نکال دیا۔وہ کیا کہہ رہی تھیں۔فرح کا دل دہق رہ گیا۔
امی آپ۔۔۔
کیا میں؟
تم نے اسی لئے تو چھوڑ اتھا یہ گھر۔۔۔خان جانتی ہو کتنا روئے تھے۔تم نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔
اب کیوں آئی ہو۔۔۔
نکل جاؤ۔ہم تمہیں نہیں جانتے۔تم میرے رضا کے ساتھ ہی مر گئی تھی۔ایک آنسو اب کی بار نکل کر ان کی گال پہ پھِسل گیا۔
امی میری بات سُنیں۔میں
میں نے نہیں کیا کچھ بھی۔میں تو۔۔۔
صفائی کا وقت نہیں ہے فری۔جاؤ۔ساری صورتِ حال اس کی سمجھ سے باہر تھی۔وہ بے بسی سے ان کے قدموں میں بیٹھ کر رونے لگی۔
::::::::::
روتے ہوئے وہ کمرے سے نکل کر لاءونج کی سمت بھاگی تھی۔جبھی بابا اندر داخل ہوئے تھے۔اور فرح کو سامنے دیکھ کر ان کے قدم ساکت ہو گئے۔
فرح روتے ہوئے صوفے پہ بیٹھ چکی تھی۔اور اس نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹا ہوا تھا۔کہ ڈرائینگ روم میں بیٹھے افراد تک اس کی آواز نہ پہنچ جائے۔
تم کس کے ساتھ آئی ہو؟ہاتھ میں ہینڈ کیری پکڑے۔۔۔سیاہ کوٹ سوٹ میں ملبوس بابا کو دیکھ کر ان کی آواز سُن کر وہ روتی سیدھی اُٹھ کھڑی ہوئی۔نظر خودبخود ہی جھک گئ۔
ابھی کچھ دیر پہلے امی جان نے جو الفاظ اس سے کہے تھے۔اور جو اس کے بھاگنے کی وجہ بتائی تھی۔اس نے اسے شرم سے پانی پانی کر چھوڑا تھا۔
اسے لگا تھا۔وہ جو گھر سے پھوپھو کے ساتھ جا کر اپنے آپ کو ایک اندیکھی کھائی میں گرنے سے بچا رہی ہے۔اسے اب اندازہ ہوا تھا۔وہ احمق تھی۔
اس کے جانے کے اگلے روز چچی جان نے سب گھروالوں سے جھوٹ بولا۔اور دعویٰ کیا کہ فرح نے فون کرکے اپنے نکاح کی خبر دی ہے۔اور کہا ہے۔کہ اب وہ کبھی لوٹ کر نہیں آئے گی۔امی جان نے جس لہجے میں کہا تھا۔فرح نے موت مانگی تھی۔اسے اندازہ نہیں تھا۔کہ چچی اس سے اتنا کیوں نفرت کرتی ہیں۔کیوں اس سے خار کھائے بیٹھی ہیں۔مگر وہ اس قدر انتہا پہ پہنچ جائیں گی اس نے سوچا بھی نہ تھا۔اس کا دماغ پھٹنے کے قریب تھا۔
وہ تیزی سے آگے بڑھی اور بابا کے کندھے سے جا لگی۔
اللہ کی قسم بابا جان جیسا چچی جان نے آپ سب سے میرے بارے میں کہا سب جھوٹ تھا
میں۔۔۔۔میں کسی کے لئے نہیں گئ تھی۔
میں ۔۔۔میں تو۔۔۔
فرح ۔۔۔وہ جو کب سے ان کے ساتھ کھڑی رو رہی تھی۔روکی۔
مہمان کون آئے ہیں؟اور تم کس کے ساتھ آئی ہو۔ ان کے لہجے میں سرد مہری تھی۔فرح محسوس کرکے پیچھے ہٹی۔
ماہ نور۔۔۔اس نے اٹکتے ہوئے کہا۔تو وہ اس کی جانب دیکھے بغیر ہی آگے بڑھ گئے۔
اس نے سانس روک کر انہیں جاتے دیکھا اور واپس بیٹھ گئ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں یقین ہے۔کہ یہی ہے وہ؟
اسفند نے کار کے شیشے سے قدرِحیرت سامنے کھڑے وجود کو دیکھا۔
جی سر پکی خبر ہے۔دوسری طرف سے کہا گیا۔تو اسفند کے پہ چہرے پہ مسکراہٹ گہری ہوئی۔
اچھا ٹھیک ہے۔
اس نے پہلو میں بیٹھے ایس پی امران کو دیکھا۔جو گرلز کالج کی پرینسپل سے فون پہ گفتگو میں مصروف تھا۔
اسفند نے اس کے اشارے پہ کار آگے بڑھادی۔اور وقفے وقفے سے اس کی نظر نا چاہتے ہوئے بھی گیٹ کی جانب جانب اُٹھ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرح نے ہاتھوں کی انگلیاں چٹخاتے ایک نظر ڈرائنگ روم کے بند دروازے کو دیکھا اور کیچن کی جانب بڑھ گئ۔ملازمہ سے چائے بنوانے کے دوران اسے علم ہو چکا تھا۔کہ چچی جان اور چچا نے اس کے جانے کے بعد گھر الگ کر لیا تھا۔
گھر میں اس کے جانے کے بعد کافی لڑائی کے بعد چچا جان نے چچی کی ہڈدھرمی دیکھ کر ہی الگ گھر کا فیصلہ کیا تھا۔کیونکہ چچی جان کو اب اس گھر اور وہاں کے افراد سے بُو آنے لگی تھی۔ہر وقت کی خاندانی سیاست اور لڑائی جھگڑے نے انہیں اپنے بھائی سے الگ ہونا پڑا۔جس کا دکھ بڑے خان کو بھی تھا۔اور شدید تھا۔
فرح کو افسوس ہوا تھا سُن کر۔بابا کی چچا جان سے محبت و یگانگت کی مثال تو سارا خاندان دیتا تھا۔اب ایک زبان اور ایک انتہائی قدم نے سارے خاندان کی جڑ اکھیڑ کر رکھ دی تھی۔فرح کی تکلیف میں اضافہ ہوا۔
ماہ نور خاموشی سے ابرار کو سُن رہی تھی۔جو بڑے خان کے سامنے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے۔بہت بردباری اور تحمل سے لاہور میں درپیش آنے والے واقعات کی تفصیل بتا رہا تھا۔
انکل آپ کی عزت کی حفاظت ہم نے اپنی عزت سمجھ کر کی۔وقت و حالات آپ کے گھر کے جو بھی تھے۔میں نہیں جانتا۔اور نہ میں ان کی تفصیل میں پڑوں گا۔آپ کی بیٹی میری بہن کی دوست ہے۔اس کے ہوسٹل سے ہمارا گھر زیادہ دور نہیں ہے۔میرا خیال ہے۔کہ ایک ایسی جگہ سے جہاں عزت جانے کا خطرہ تھا۔اُنہوں نے ایک سوچ سمجھ کا فیصلہ کیا۔
ضیاء پہ پہلے بھی بہت سے کیس ہیں۔اور اب تو منشیات فروشی بھی شامل ہو چکی۔پولیس اس کیس میں خود کافی دلچسپی لے رہی ہے۔اور یہ معملہ اللہ نے چاہا تو لٹکے گا نہیں۔۔۔
برخوردار تم اتنا اس معملہ سے کیوں اُلجھ رہے ہو۔حلانکہ یہ تمہارا مسلہ تو نہیں ہے۔تھوڑی پہ شہادت کی انگلی رکھے۔خاموش بیٹھے خان نے پوچھا۔تو وہ جو بول رہا تھا لمحے کو چپ ہوا۔
خان قوم کی عزت کسی ایک فرد سے منسوب نہیں ہوتی۔ہر فرد سے ہوتی ہے۔میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا۔آپ کی عزت ہماری۔۔۔اس نے کمال عتماد سےمسکرا کر جواب دیا۔تو دائیں جانب کے سنگل صوفے پہ بیٹھی ماہ نور کہ چہرے پہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
اللہ میرے بھائ کو نظر نہ لگ جائے۔کتنی پیاری باتیں کرتے ہیں۔ماہ نور نے سوچ کر سر جھٹکا تھا۔
ہمم۔۔۔مگر تم اپنا اتنا قیمتی وقت اور عزت داءو پہ کیوں لگا رہے ہو۔ابرار کی بات نے اُنہیں اگرچہ متاثر کیا تھا۔مگر وہ اس وقت ایک بیٹی کے باپ تھے۔اور بہت کا سوچ رہے تھے۔
انکل آپ ایک بیٹی کے والد ہیں۔آپ کی پریشانی اور فکر سے میں بخوبی آگاہ ہوں۔اب کی بار ماہ نور بولی تھی۔خان نے گرد موڑے بغیر محض نظریں پھیر کر اسے دیکھا۔
ماہ نور کو ان کی آنکھوں میں سخت تاثر نظر نہیں آیا تھا۔اس کا عتماد مزید بڑھا۔وہ مسکرائی۔
میرے بابا بھی آپ ہی کی طرح میرے لئے پریشان ہوا کرتے تھے۔میں دس منٹ بھی کالج سے لیٹ ہو جاتی ۔تو وہ خود گاڑی لے کر کالج کے باہر آ کھڑے ہوتے تھے۔اس لئے آپ کی کیفیت میں نے ان کے چہرے پہ بہت بار دیکھی ہے۔اور میں سمجھتی بھی ہوں۔
انکل میں آپ کے سامنے اپنے خاندان یا اپنے بھائی کی پاکبازی پہ کوئی تقریر نہیں کر سکتی۔نہ میرے بھائی کوئی نبی ہیں جن کی پاکبازی کی گواہی آسمان سے آئے۔
وہ کہہ رہی تھی۔اور ابرار سر جُھکائے محض سُن رہا تھا۔خان نے اسے ٹوکا نہیں بس خاموشی سے بولنے دیا۔
انکل میں آپ سے جو خواہش اور گُزارش کرنے جا رہی ہوں۔میں نہیں جانتی وقت ٹھیک پہ کر رہی ہوں یا۔میری بات سن کر آپ کا ذہن کیا ردِعمل دے گا۔بہر حال آپ سوچ سمجھ کر جواب دیجئے گا۔۔۔کہتے ہوئے وہ ایک لمحے کو رکی۔بابر آنکھوں میں ناسمجھی لئے اسے دیکھ رہا تھا۔ابرار کا سر جھکا ہوا تھا۔اس نے بابر کو دیکھا۔اور مسکرا کر ایک بار پھر سے خان کو دیکھا۔
انکل میں فرح کو اپنی بہترین دوست کو اپنے خاندان کی عزت بنانا چاہتی ہوں۔اس کی عزت کی پاکبازی کی گواہی میں دے سکتی ہوں۔اور اس کے تمام گھریلو حالات سے محض میں ہی واقف ہوں۔اس لئے انکل آپ مجھے میری خواہش کا جواب بہت سوچ کر دیجئے گا۔اور یہ یقین رکھیں کہ اس میں میرے بھائی کی نئیت شامل نہیں ہے۔یہ میری خوہش ہےاور کیونکہ میں ہی ہوں جو ان کے لئے سوچنے والی ہوں اس لئے مجھے ہی آپ سے بات کرنی پڑی۔اس نے تفصیل سے اور مکمل عتماد دیتے ہوئے ہر بات کہی تھی۔اور اس عرصے کے دوران ابرار جس کے چہرے پہ ہوائیاں اُڑی ہوئیں تھیں۔اس نے غلطی سے بھی نظر نہیں ڈالی تھی۔
بڑی خان نے چہرے پہ بغیر کوئی تاثر دئے بہت تحمل سے اس کی بات سُنی ۔اور آخر میں ایک نظر ابرار کو بھی دیکھا۔ابرار نے شرمندگی سے چہرہ جھکا لیا۔
انکل ۔۔۔سوچ۔
بیٹا میں فرح کی والدہ سے مشورہ کر کے بات کروں گا۔مگر اس سے پہلے میں آپ سے ایک بات پوچھوں گا۔اور آپ ہی مجھے اس کا جواب دیں گیں۔
جی انکل۔۔وہ سیدھی ہوئی۔
کیا فرح اس رشتے پہ راضی ہے؟سوال پوچھنے کا انداز جو بھی تھا ۔مگر ماہ نور کی ایک بیٹ مس ضرور ہوئی تھی۔
انکل یہ تو آپ پوچھیں گےاس سے۔بڑے آپ ہیں۔اور میرا خیال ہے۔کہ اس کا حق بھی آپ کوہی حاصل ہے۔کہ آپ اس کے لئے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔مسکرا کر اس نے کہا۔تو وہ بھی سیدھے ہو گئے۔اور تبھی باتوں کے دوران ملازم چائے لے آیا تھا۔باقی کا وقت بہت خاموشی سے ہلکی پھلکی باتوں میں کٹا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے ماتھے پہ انگنت بل تھے۔اور وہ لان میں تقریباً بیس چکر لگا چکا تھا۔
ماہ نور فون اُٹھاءو۔فون کان سے لگائے وہ دانت پیس رہا تھا۔اس کے جبڑے تنے ہوئے تھے۔اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔کہ ماہ نور تک اُڑ کر پہنچ جاتا۔
بیٹا۔۔۔آپ چائے پئیں۔میں ماہ نور بیٹی کو فون کرتا ہوں۔وہ ماہ نور کے گھر پہ تھا۔اور کوئی فرد گھر پہ موجود نہ تھا۔پریشانی سے اسے چکر لگاتے دیکھ کر گارڈ نے کہا تو وہ گہرہ سانس لے کر رہ گیا۔
گھر پہ کوئی ملازم یا ملازمہ نہیں ہے بابا؟
نہیں ۔۔۔بس میں ہی ہوں۔ابتسام صاحب کی وفات کے بعد ابرار پُتر نے سب ملازمین کو بھیج دیا تھا۔گارڈ ڈھلتی عمر کا سفید داڈھی مونچھ والا قدرِ پست قد کا مالک باریش شخص تھا۔کندھے پہ بندوق لٹکائے اس نے قدر تحمل سے بتایا۔تو ذریت نے ایک نظر گھر کے داخلی حصے کو دیکھا۔اور ہاتھ میں پکڑا فون سائڈ کے بٹن سے بند کرتا آگے بڑھ گیا۔
بابا جب وہ لوگ آئیں تو انہیں بتا دیجئے گا۔کہ میں آیا تھا۔اور یہ بھی کہئے گا۔کہ میں رات میں فون کروں گا۔اپنی پورچ میں کھڑی سیاہ کار کی جانب جاتے اس نے سرد لب و لہجے میں کہا۔تو ملازم سر ہلا گیا۔
اس نے وہاں سے نکلنے میں لمحہ نہیں لگایا تھا۔
اب اسے اندازہ ہو رہا تھا۔کہ وہ اسے اگنور کر رہی تھی۔اس کی سٹیرنگ ویل پہ گرفت سخت ہوئی۔
عورتوں کا مزاج بڑا شاہ قسم کا ہوتا ہے۔کب کونسی بات ان کے مزاج ہہ گراں گُزرے مرد سمجھ نہیں سکتا۔
دادی نے کہا تھا۔کہ وہ ناراض ہو کر نہیں گئ۔پر اب اسے لگ رہا تھا۔کہ وہ ناراض ہو کر ہی گئ ہے۔بلکہ شائد سارے رشتے ناتے توڑ گئ ہے۔
احمق عورت۔۔۔۔بے اختیاری میں اس کے منہ سے یہی نکلا تھا۔کیا تھا جو ایک بار فون اُٹھا کر بات سن لیتی۔
اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔کہ نتاشا کو آگ لگا دیتا۔اس نے کار اکمل کے دفتر کی جانب موڑ دی۔وہی تھا جو اس کی بات سمجھ سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے کالج کے گیٹ سے نکل کر اطراف میں نگاہ دوڑائی۔۔۔اور وہیں کچھ فاصلے پہ سیاہ کار کو دیکھ کر آنکھوں پہ چشمہ چڑھاتی بازو پہ لٹکا ہینڈ بیگ سنبھالتی آگے بڑھی۔
اپنی گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگائے سگریٹ پیتے اسفند نے آنکھیں سکیڑ کر گیٹ سے نکل کر کار کی جانب جاتی سرخ ٹوپ اور سیاہ جینز والی نتاشا کو دیکھا تھا۔وہ سکون سے بیٹھا محض اسے دیکھتا رہا۔اس نے کار کا نمبر نوٹ کر لیا تھا۔اور پولیس آفس میں کمپیوٹر پہ بیٹھے جوان کو موصول بھی ہو چکا تھا۔
نتاشا اپنی موت کا خود وسیلہ پیدا کر رہی تھی۔اسے خود بھی معلوم نہ تھا۔
نتاشا کے بیٹھتے ہی چل چلاتی دھوپ میں کھڑی گاڑی کے تمام شیشے اوپر ہوئے۔اور کار چلاتا ملازم زن سے گاڑی بھگاتا لے گیا۔اسفند نے بہت سکون سے انہیں جاتے دیکھا۔اور سگریٹ کے کش پہ کش لگاتا رہا۔اس کی آنکھوں میں پہچان کی جو رمق نتاشا کو دیکھ کر ابھری تھی۔وہ اب رفتہ رفتہ مانند پڑنے لگی تھی۔وہ آگے بڑھ چکا تھا۔شادی کر چکا تھا۔اسے اس کی تمام سیاہ کاریاں بھی معلوم ہو چکی تھیں۔مگر افسوس کے دل کبھی کبھی پھر بھی اسے کی جانب جھکنے پہ آمادہ ہوتا تھا۔اس کا دل چاہتا تھا۔وہ اپنے دل کے اس حصے کو نوچ کر پھینک دے۔جس میں کہیں نتاشا کا عکس جزب تھا۔اس کی تصویر دھندلا گئ تھا۔مگر وہ جو اس کا اسیر رہا تھا۔اس کی یاد کو دل سے ذہن سےنکالنے کی کوشش کرتا بھی تو مشکل میں پڑ جاتا تھا۔وہ اپنی نائلہ کے ساتھ بالکل مخلص تھا۔اس کے ساتھ کافی حد تک خوش بھی تھا۔مگر نتاشا کسی کانٹے کی طرح اس کے گلے میں اٹکی تھی۔جو نکلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔
گاڑی کی دھول بیٹھ چکی تھی۔جب وہ آگے بڑھا تھا۔آگے کا کام امران کا تھا ۔وہ خاموشی سے گھر کی جانب جانا چاہتا تھا۔اپنی بیوی کے ہاتھ کی چائے پی کر سونا چاہتا تھا۔اور بس۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا تھا ؟
گاڑی کو آگے لے جاتے سٹئیرنگ ویل گھوماتے اس نے بیک وئیو مریر سے ماہ نور کے کھلاکھلاتے چہرے کو دیکھ کر ایک ابرو اُٹھ کر پوچھا ۔تو ماہ نور کی مسکرا ہٹ گہری ہو گئی۔
سرپرائز تھا بھائی۔۔۔کیسا لگا میرا سرپرائز؟وہ معصوم تھی۔اور بالکل اسے گڑیا ہی لگی۔بابر نے ناک سے مکھی اُڑا کر ماہ نور کو چہرہ موڑ کر دیکھا۔
میری محنت تو کوئی اہمیت رکھتی ہی نہیں۔
ہاں آپ بس فوراً جلنا شروع کر دیا کرو۔جل کُکڑے۔۔۔بابر کو ناک چڑھاتا دیکھ کر ماہ نور کو ہنسی آئی تھی۔
تم بھی شامل تھے اس مادام کے ساتھ۔۔۔ابرار کا ہاتھ فوراً بابر کی گردن کی طرف گیا۔وہ فوراً پیچھے ہوا۔
بھائی اللہ کا واسطہ ہے۔پہلے سلامت گھر پہنچا دو۔پھر میری پتلی گردن پہ جتنا ظلم کرنا ہو کر لینا۔ایسے موقعوں پہ بابر ہمیشہ مظلوم بن جایا کرتا تھا۔
اچھا جی۔۔۔آپ کی تو بیٹے خیر نہیں۔۔۔گھر کی طرف جاتے ۔وہ تینوں بہت خوش تھے۔فرح کو اس کے گھر چھوڑ کر اور اس کے والدین سے فرح اور ابرار کے رشتے کی بات کر کے ماہ نور کے کندھے سے بھاری پتھر ہٹ گیا۔آج وہ بابا کی وفات کے بعد کافی دن بعد دل سے خوش ہوئی تھی۔وہ تینوں ہی خوش تھے بس ابرار ظاہر نہیں کروا رہا تھا۔
پر اس کا انگ انگ بتا رہا تھا۔وہ مسرور ہے۔
بھائی ویسے یہ ٹیڈی بڑی میسنی ہے۔اس کو آپ کا سیکرٹ پہلے ہی پتا تھا۔شائد میرے سے بھی پہلے۔۔۔بابر نے اشارہ کرتے کہا تو ماہ نور کا قہقہ گاڑی میں گونجا تھا۔
کونسا سیکرٹ ؟ابرار نے گڑبڑا کر بابر کو دیکھا تھا۔اس نے فوراً ہونٹ دبائے۔
بھائی گاڑی دھیان سے چلائیں۔گھر جا کر آپ کو ابھی بہت حساب چُکانے ہیں۔ماہ نور نے فوراً الفاظ اُچک کر کہا تھا۔ ماہ نور کے لہجے سے شوخی جھلک رہی تھی۔ابرار نے بے اختیار ہنس کے ایک ہاتھ سے کار چلاتے دوسرے ہاتھ سے آنکھوں پہ لگا فریم لیس چشمہ درست کیا۔گویا شرمندہ ہو۔
ویسے ماہا تمہیں پتہ کیسے لگا تھا؟اور کب؟بابر اب کی بار پورا پیچھلی سیٹ کی جانب مڑا۔۔۔ماہ نور نے جواب میں آنکھیں گھومائیں تھیں۔
جب میں بیمار ہونے کے بعد گھر آئی تھی۔آپ دونوں آفس گئے ہوئے تھے۔میں ابرار بھائی کا روم صاف کرنے گئی تھی۔تبھی ۔۔۔اس نے مسکراہٹ دبا کر بتایا اور ساتھ ہی خوشی سے روشن ہوتے ابرار کے چہرے کے عکس کو دیکھا تھا۔
اللہ میرے بھائی کو ہمیشہ خوش اور مطمئن رکھئے گا۔اس کے دل نے بے اختیار دعا کی تھی۔
توبہ۔۔۔بابر نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگائے۔۔۔بھائی یہ چورنی۔۔۔ہمارے پیچھے سے ہمارے کمرے کی تلاشیاں لیتی ہے۔
اللہ معاف کرے ۔۔۔بابر بھائی آپ کو تو ایکٹر ہونا چاہئے تھا۔قسم سے بہت آگے جاتے۔ماہ نور نے بد مزہ ہو کر بے اختیار کہا تھا۔
میرا بھی یہی خیال تھا۔پر گھر والوں نے مجھے سنجیدہ ہی نہیں لیا۔ان دیکھے آنسو صاف کرتے اس کی اداکاری عروج پہ تھی۔ابرار نے گاڑی چالاتے بائیں ہاتھ سے اس کی گردن پکڑ کر ہلکے سے دبائی تھی۔بابر کے منہ سے ایک کراہ نکلی۔اور پیچھے بیٹھی ماہ نور ہنستی چلی گئی ۔
بھائی میں اگر ایسے ہی مر گیا ناں ۔تو اللہ نے آپ کا حساب الگ سے لینا ہے۔
خود تو شادی کرنے لگے ہیں۔اب میری باری جو اللہ اللہ کر کے آنے لگی ہے۔تو مجھے ہی مارنے پہ تُلے ہیں۔اس نے منہ بنا کر کہا تو ابرار کی مسکراہٹ ایک با ر پھر گہری ہوئی تھی۔اس نے ساتھ ہی اس کی گردن بھی چھوڑ دی۔
نہیں مرتے تم حسرتیں لے کر۔بے فکر رہو۔۔۔آخر ابرار نے کہا تو بابر بھی ہنس دیا تھا۔
سارے سفر کے دوران وہ لوگ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی شرارتیں کرتے اور باتیں کرتے آئے تھے۔لمباسارا سفر کیسے طے ہوا پتہ بھی نہ چلا تھا۔اور گھر پہنچ گئے تھے۔
:::::::::::
فرح نے ٹیبل پہ کھانا لگا کر۔۔۔ایک نظر سامنے لگے گھڑیال کو دیکھا۔اور شش وپنج میں اُلجھتی سر پہ دوپٹہ لیتی کمرے کی جانب بڑھی۔
کمرے میں خاموشی تھی۔اس نے ہلکے سے دروازے پہ دستک دی اور پھر اجازت ملنے پہ دروازہ آہستہ سے دھکیل دیا۔
امی جی بیڈ پہ دراض تھیں۔اور بابا کسی فائل کی ورق گردانی میں مشغول معلوم ہوئے۔اسے اندر آتا دیکھ کر اُنہوں نے آنکھوں سے چشمہ ہٹا کر رکھ دیا تھا۔وہ نظر جُھکا کر اُنگلیاں چٹخانے لگی۔
وہ۔۔۔بابا۔
ک۔۔۔کھانا لگایا ہے ۔میں نے۔۔۔اس نے اٹک اٹک کر ذرا گھبراتے ہوئے کہا تو وہ محض غور سے اُسے دیکھتے ہی رہے۔
ٹھنڈا ہو جائے گا۔آپ اور امی آ جائیں۔۔۔اس نے کہنے کے دوران ایک بار بھی سر اُٹھا کر اُنہیں نہیں دیکھا تھا۔
وہ بس اُنگلیاں چٹخاتی رہی۔وہ جانتی تھی۔وہ اسے دیکھ رہے تھے۔اس کا ہلق خشک ہو رہا تھا۔اس نے نظر گھوما کر امی جی کو دیکھا۔جو آنکھیں بند کر چکی تھیں۔فرح کو افسوس ہوا۔
وہ اپنی ماں سے کبھی کوئی تکلیف نہیں شئیر کر سکی تھی۔اور اب حالت یہ تھی۔کہ کوئی کندھا میسر نہیں تھا۔
بیٹھ جاؤ۔۔۔کچھ سوچ کر اُنہوں نے اسے کہا ۔تو وہ خاموشی سے دائیں جانب پڑے سنگل صوفے کی جانب بڑھ گئی۔جیسے اسی بات کی منتظر تھی۔
مجھے آپ سے لاہور میں ہونے والے تمام واقعات سُننے کی اگرچہ ضرورت نہیں ہے۔میں سب جانتا ہوں۔مگر میں پھر بھی آپ سے کہوں گا۔کہ مجھے وہاں کے حالات کے بارے میں بتائیں۔اُنہوں نے اس کی گھبراہٹ دیکھ کر بہت نرمی سے کہا تھا۔فرح کو ا ن کا دوپہر کا لہجہ یاد آیا ۔تو اندر جیسے دل ڈوب کر اُبھرا ۔اس نے گہرہ سانس لے کر ایک ایک لفظ بتانا شروع کیا۔اب کی بار وہ بتانے کے دوران رو نہیں رہی تھی۔
شائد ایسا اس لئے تھا۔کیونکہ وہ خوفزدہ تھا۔کہ اگر اس بار وہ خاموش رہی۔کچھ ایسا نہ بتا سکی جو اہم ہو۔تو شائد وہ اپنی صفائی زندگی بھر نہ دے سکے۔کبھی نہ بتاسکے کہ وہ ہر طرح کی صورتِ حال میں مظلوم تھی۔اس نے کوئی گناہ کوئی غلطی جانبھوج کر اُنہیں ستانے کو یا نفس کے بہلانے پہ نہیں کی تھی۔
اس کی گفتگو کے دوران امی جی بھی اُٹھ بیٹھی تھیں۔خان نے اسے ایک سیکنڈ کے لئے بھی خاموش ہو جانے کا نہیں بولا۔بس خاموشی سے کرسی کی پُشت سے پُشت ٹکائے سُنتے رہے۔
وہ بھول چکی تھی۔کہ وہ کھانے کا کہنے آئی تھی۔اور یقیناًاب تک کھانا ٹھنڈا ہو چکا ہو گا۔
::::::::::
ٹھیک ہے بچے۔۔۔اب آپ جاؤ۔میں اور آپ کی والدہ آتے ہیں۔اس کے خاموش ہو جانے پہ اُنہوں نے کہا۔تو وہ سر ہلا کر اُٹھ گئی۔اس نے ان کے جواب کا انتظار کیا تھا۔اور نہ ایسی کوئی خواہش۔۔۔وہ بس اُنہیں ایک بار سب کہنا،سب بتانا چاہتی تھی۔حقیقت سے آگاہ کر دینا چاہتی تھی۔اس نے یہی کیا تھا۔اپنی کہہ کر اُنہیں ان کا موقع دیتی اُٹھ آئی۔
::::::::::::
زندگی میں اس نے بُرے سے بُرے حالات کے بارے میں تصور کیا تھا۔مگر
مگر منشیات فروشی میں بھی شامل ہوگی۔یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔وہ ایک ایسی دلدل میں جا پھنسی تھی۔جو اس کی سوچ سے کہیں زیادہ خطر ناک تھی۔اس نے گاڑی رُکنے پر آنکھوں سے چشمہ ہٹا کر ہاتھ میں پکڑا اور پھر گاڑی کا دروازہ کھولتی باہر نکل آئی۔
یہ ایک پُرانی شہر سے باہر بنی سکول کی عمارت تھی۔جس کا داخلی دروازہ بہت خستہ حال تھا۔ٹوٹی پھوٹی عمارت کی جانب جاتے اس کے قدم لمحے کو لڑکھڑائے تھے۔مگر پھر صبح رامش سے ہونے والی لڑائی اسے یاد آئی تھی۔
وہ اسے پیسے دے کر طلاق لینے والی تھی۔یہی اس کی شرط تھی۔ڈیڈ نے ایک نئی گرل فرنڈ دھونڈ کر اس کے ذریعے سے ڈوبتے بزنس کو سنبھالنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔اور اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیا تھا۔
ایسا نہیں تھا۔کہ اُنہیں اس سے پیار نہیں تھا۔وہ اس سے پیار کرتے تھے۔مگر اس نے کبھی ان کو اتنی اجازت نہیں دی تھی۔کہ وہ اس کی ذاتیات کو اپنی ذات سمجھتے۔اور وہ بھی اپنے معملہ میں اس سے یہی توقع رکھتے تھے۔اور اس چکر میں وہ سب ایک دوسرے سے الگ ہو کر کہیں خلا ء میں چلے گئے تھے۔وہ جس معاشرے کو پسند کرتے تھے۔جس کو قابلِ فخر سمجھتے تھے۔وہاں یہی ہوتا تھا۔سب کے مسائل اپنے تھے۔کوئی کسی کے لئے پریشان نہیں ہوتا تھا۔وہ بھی ایک دوسرے کے لئے نہیں تھے۔
اس نے سکول کی عمارت میں داخل ہونے کے بعد اطراف میں نظر دوڑائی ۔اور قدم ایک کمرے کے کھولے دروازے کی جانب قدم بڑھا دئے۔
خستہ حال سکول میں گرد اور ٹوٹ پھوٹ کی علامتیں۔۔۔اس بات کی گواہ تھیں ۔کہ عرصے سے وہاں سے کسی کا گُزر نہیں ہوا۔گرد پہ قدم بناتے وہ کمرے میں داخل ہوئی۔نیم تاریک کمرے کے وسط میں ایک میز پڑی تھی۔جس کے دائیں جانب کرسی پہ کوئی بیٹھا تھا۔جس کے چہرے پہ سیاہ کپڑا لپٹا تھا۔نتاشا کو اس کی آنکھوں کی سرخی دور سے ہی نظر آئی۔اس کا دل سُکڑ کرپھولا۔ہتھیلیوں میں پسینہ بھرا۔۔۔اس نے ہلق تر کرتے قدم آگے بڑھائے اور ہاتھ میں پکڑ ا بیگ میز پہ رکھ کر تیزی سے اندر پڑے پیکٹس باہر نکالنے لگی۔
اس کی ایک ایک حرکت کرسی پہ بیٹھے مرد کی نگاہ میں تھی۔اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔وہ دیکھ سکتا تھا۔
وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور آہستہ آہستہ سے۔۔۔مدھم مدھم جوتوں کی دھمک پیدا کرتا ۔اس کی پُشت کی جانب بڑھا اور پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔نتاشا کا سانس اٹکا۔اس کے ہاتھوں میں تیزی آئی۔پُشت پہ کھڑا مرد اس کی گھبراہٹ دیکھ کر مسکرایا۔اور اس کے چلتے ہاتھوں پہ اپنا ہاتھ رکھ کر جیسے کام کرنے سے روکا۔
نتاشا کا چلتا سانس رُکا۔خوف کی انتہا تھی۔اس کی آنکھوں میں پہلی بار ایک ایسا تاثر تھا جو وہ پہلے لوگوں کی نظروں میں دیکھ چکی تھی۔
ان کو ایسے ہی بیگ میں رہنے دو۔اس کے کان کے بالکل قریب وہ بولا۔تو نتاشا کی آنکھیں جیسے حیرت سے پوری کھُل گئیں۔یہ۔۔۔یہ۔
آواز تو۔۔۔اسے لگا جیسے اس نے کسی اور کی آواز سُنی ہو۔اسے لگا وہ پاگل ہے۔ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔اسے اپنے کانوں پہ شک گُزرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...