وہ سویرا کو اپنے ساتھ شاپنگ پر لے آیا تھا اپنی پسند سے اس نے اسے شاپنگ کروائی وہ نہیں چاہتا تھا کہ سویرا کو کسی بھی چیز کی کمی محسوس ہو ۔۔۔
” سنئیے ۔۔۔۔” سویرا ایک شاپ سے نکل کر اسے پکار اٹھی
” سنائیے !! کیا سنانا ہے ۔۔۔۔” شہریار نے سنجیدگی سے پوچھا
” میں تھک گئی ہوں اب بس کریں نا !! ادھر گھر میں بھی سب پریشان ہو رہے ہونگے ۔۔۔” وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولی
” ہمم اچھا چلو ۔۔۔۔” وہ اسے لیکر گاڑی میں آیا اب اس کا رخ شہر کے ایک مشہور فائیو اسٹار ہوٹل کی طرف تھا
” آؤ !! ” وہ گاڑی کی چابی پارگنگ بوائے کو پکڑا کر سویرا کا دروازہ کھولتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر بولا
سویرا نے بنا جھجکے اپنا ہاتھ اس کی چوڑی شفاف پھیلی ہوئی ہتھیلی پر رکھا اور اس کے ساتھ اس پرشکوہ ہوٹل کے اندر چلی آئی ۔کاونٹر سے چابی لیکر وہ سویرا کو وی آئی پی سوئیٹ روم میں لے آیا ۔
” ہم ادھر کیوں آئے ہیں ؟؟ گھر میں سب انتظار کررہے ہونگے پھپھو برا مان جائینگی۔۔۔” اسے فرزانہ پھپھو کی ناراضگی کا خوف گھیرے ہوئے تھا
” سوئیٹ ہارٹ ۔۔۔۔” وہ اطمینان سے فون پر کھانا آرڈر کر کے اس کی طرف متوجہ ہوا
” تم سے کہا تھا نہ گھر کو چھوڑو اور اپنے گھر والے کی فکر کرو !! آج رات ہم ادھر ہی رکیں گے گھر کل شام میں واپس جائیں گے ۔۔۔۔” وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا
” قسم سے میرے کوٹ میں پوری جوکر لگ رہی ہو ۔۔۔” وہ اس کا تنقیدی نگاہوں سے جائزہ لیتے ہوئے بولا
” آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں ؟؟ پتہ ہے کلاس میں بھی سب ہنس رہے تھے ۔۔۔” وہ روہانسی ہوئی
” تو جاناں !! تم کوٹ اتار دیتی ۔۔۔۔” وہ سرسری انداز میں اس کے اسکارف کو اتارتے ہوئے بولا
” ایسے کیسے اتار دیتی ؟؟ آپ نے پہنایا تھا تو آپ کی اجازت کے بنا میں کیسے ۔۔۔۔” وہ بولتے بولتے رکی
” لڑکی !! اتنی فرمانبرداری بھی مت دکھاؤ کہ میں دیوانہ ہو جاؤں ۔۔۔” شہریار نے اسے اپنی گرفت میں لیا
کمرے کے ماحول میں فسوں سا چھایا ہوا تھا جب دروازہ ناک ہوا ۔
“روم سروس ۔۔۔” باہر سے آواز آئی
” تم جاؤ جا کر فریش ہو لو ، میں ڈور کھولتا ہوں ۔۔۔” وہ نرمی سے سویرا کو اپنے سے الگ کر کے دروازے کی جانب بڑھا
کھانا سرو کر کے ویٹر جا چکے تھے ابھی وہ سویرا کے ساتھ بیٹھا ہی تھا کہ اس کا فون بج اٹھا
” یس ۔۔۔”
” اوکے ویٹ ٹین منٹس !! میں آرہا ہوں ۔۔۔”
اینا ، پرائیویٹ ڈیٹیکٹیو اور پولیس آفیسر نیچے لابی میں آچکے تھے وہ فون رکھ کر سویرا کو کھانے کا اشارہ کر کے خود بھی اپنی پلیٹ میں فرائی فش ڈال کر مصروف ہو گیا ۔
” مسز تم ریسٹ کرو میں ایک گھنٹے میں ایک میٹنگ بھگتا کر آتا ہوں ۔۔۔” کھانے سے فارغ ہوکر وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا
***************
نیچے پرائیویٹ کیبن میں اینا نے میٹنگ ارینج کی تھی شہریار کے لابی میں آتے ہی وہ سب کو لیکر کیبن میں آگئی تھی تعارف کے بعد پولیس آفیسر نے بات شروع کی
” مسٹر شہریار اب تک کی تحقیقات اور لائےڈیکٹیٹر ٹیسٹ سے یہ کنفرم ہے کہ ڈاکٹر اینڈریو مسز شہریار کے معاملے میں جھوٹ نہیں بول رہا ہے ان دونوں کا کوئی نا کوئی کنکشن ضرور ہے ۔۔
” آفیسر پلیز میری وائف کو اس سے لنک مت کریں اور یہ پتہ کریں کہ وہ اتنے وثوق سے میری مسز کا نام کیوں لے رہا ہے ۔۔۔” شہریار سنجیدگی سے بولا
” مسٹر شہریار کیا ہم آپ کی وائف سے اس بارے میں کچھ انویسٹیگیشن کرسکتے ہیں ۔۔۔” ڈینیئل پرائیویٹ ڈیٹیکٹیو نے پوچھا
” نہیں !! میں اپنی وائف پر مکمل ٹرسٹ کرتا ہوں اور اسے اس سب میں شامل نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔” وہ دو ٹوک لہجے میں بولا
” ویل سر !! کیا آپ ہمیں اپنی وائف کا سیل فون دے سکتے ہیں ہم اس کا ریکارڈ نکلوا لیتے ہیں وہی سے یہ معمہ حل ہوسکتا ہے ۔۔۔” آفیسر نے کہا
” اس کا فون تو فارم ہاؤس میں کہیں گر گیا تھا اور ابھی جو فون ہے وہ بالکل نیا ہے اس سے آپ کو کوئی ہیلپ نہیں ملے گی ۔۔۔” شہریار نے جواب دیا
” باس !!میرے پاس پرانے فون کا سم اور سارا پرچیزنگ ریکارڈ ہے اگر اس سے کام چل جائے ۔۔۔” اینا نے بیچ میں دخل دیا
” آپ کے پاس یہ ڈیٹیل کہاں سے آئیں ؟؟ ” آفیسر نے اینا کو مشکوک نظروں سے دیکھا
” وہ فون سر کے کہنے پر میں نے ہی خریدا تھا اس کی ساری رجسٹریشن میں نے کروائی تھی ۔۔۔” اینا نے جواب دیا
” ٹھیک ہے مس اینا آپ فون کی ساری ڈیٹیل پرچیزنگ ڈاکومنٹ سب مجھے دے دیں میں سارا ریکارڈ نکلواتا ہوں ۔۔۔۔” پرائیویٹ ڈیٹیکٹیو نے بات سمیٹی
“آپ میرے ساتھ ابھی آفس چلیں میں سارا ریکارڈ آپ کو دیتی ہوں ۔۔۔” اینا نے آفر کی
” سر آپ کو ہم بس دو دن میں ساری تفصیل بتا دینگے ۔۔۔” آفیسر بھی ہاتھ ملاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا
******************
ایک بھرپور دن گزار کر وہ سویرا کو لیکر گھر پہنچا تو لاؤنچ میں محفل جمی ہوئی تھی ۔۔۔
” اسلام علیکم ۔۔۔۔۔” سویرا نے سب کو سلام کیا
” بھی یہ اچھا رواج ہے مہمانوں کو گھر بلا کر میزبان رات رات بھر غائب ہو جاتے ہیں ۔۔۔” فرزانہ بیگم نے سویرا کو گھورتے ہوئے کہا
” آپا آپ کو بتایا تو تھا ایک ارجنٹ میٹنگ آ گئی تھی وہ مجھ سے پوچھ کر شہر سے باہر گیا تھا ۔۔۔” سلیم صاحب نے سویرا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہیں ٹوکا اور سویرا اندر جانے کا اشارہ کیا
” ویسے پھپھو ایک بات ہے جب سے یہ لڑکی میری زندگی میں شامل ہوئی ہے میرا کوئی بھی کام رکتا نہیں ہے اس کا ساتھ میرے لئیے بہت لکی ثابت ہوا ہے ۔۔۔۔” شہریار نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
” چھوڑا میاں اس لکی شکی کو مجھے تو یہ بتاؤ کہ اس ننگی پنگی بےحیا لڑکی سے تمہارا کیا رشتہ ہے ؟؟ ” فرزانہ نے اسے کڑے ہاتھوں لیا
” یہ آپ کس کی بات کررہی ہیں ؟؟ ” شہریار سنجیدہ ہوا
” آپا آپ مجھے بات کرنے دیجئیے ۔۔۔” سلیم صاحب نے شائستگی سے انہیں ٹوکا
” شیرو بیٹا ۔۔۔۔۔۔” انہوں نے اسے عروہ کے آنے کی ساری تفصیل بتانی شروع کی
” تم اتنے عرصے گھر چھوڑ کر سب سے الگ رہے ہو اگر تم نے اس بچی سے کوئی کمٹمنٹ یا وعدہ کیا تھا تو بہتر ہے اسے پورا کرو ۔۔۔۔” انہوں نے سنجیدگی سے بات ختم کرتے ہوئے کہا
” بابا سائیں !! آپ کو مجھ پر ، اپنے خون پر بھروسہ نہیں ہے ؟؟ ” شہریار نے سوال کیا
” بھروسہ ہے بیٹا پر اب میں سوچ رہا ہوں کہیں تم عروہ کی وجہ سے تو سویرا کو اپنانے سے انکار نہیں کررہے تھے ؟؟ ” انہوں نے پوچھا
” بابا سائیں !! وہ جھوٹ بول رہی ہے اگر مجھے عروہ کو اپنانا ہوتا تو اس کے لئیے مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں تھی ۔سویرا آپ سب کا فیصلہ تھی جسے میرے سر پر تھوپا گیا تھا لیکن اگر میں چاہتا تو ۔۔۔۔۔” بولتے بولتے اس کی نظر دروازے پر چائے کی ٹرے لئیے کھڑی سویرا پر پڑی جو سپید پڑتے چہرے کے ساتھ اس کی باتیں سن رہی تھی اس سے نظر ملتے ہی وہ تیزی سے اندر آئی اور ٹرے درمیان میں رکھ کر بنا رکے واپس چلی گئی ۔
” شیرو !! مجھے تو تم یہ بتاؤ اگر تم اتنے ہی سچے ہو تو پھر اس کو اپنے گھر کی چابی کیوں دی ہوئی تھی ؟؟ بولو جواب دو ؟؟ ارے میاں میری ایک بات کان کھول کر سن لو میں سویرا منحوس کے اوپر سوتن نہیں آنے دونگی لو بھلا بیوی بغل میں اور وہ چوہیا سے الگ دل بہلایا جارہا ہے ۔۔۔” فرزانہ بیگم نے اسے ٹھیک ٹھاک لتاڑا
” آپ سب بیفکر رہیں عروہ سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور نا ہی ہوگا یقین کر سکتے ہیں تو کر لیں ۔۔۔” وہ اکھٹر انداز میں بولتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھا ۔۔۔
***************
سویرا سب کو سلام کرکے خاموشی سے کچن میں آگئی تھی اس کا ارادہ چائے بنانے کا تھا سب کے لئیے چائے بنا کر اس نے ٹرے سیٹ کی اور اندر لاونج کی چوکھٹ پر پہنچی ہی تھی کہ شہریار کی سرد آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔۔
” سویرا آپ سب کا فیصلہ تھی جسے میرے سر پر تھوپا گیا تھا لیکن اگر میں چاہتا تو ۔۔۔۔۔”
اتنی بےوقعتی اتنے بے عزتی وہ لرز کر رہ گئی اس نے نظر اٹھا کر اس سگندل کو دیکھا جو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا وہ تیزی سے آگے بڑھی اور چائے کی ٹرے رکھ کر خاموشی سے اپنے کمرے میں واپس آکر ٹیرس میں آکر سر جھکا کر بیٹھ گئی اس کا دل بھر بھر آنے لگا تھا ۔
” سویرا ۔۔۔”
” سویرا !!! کدھر گم ہو میں کتنی دیر سے تمہیں پکار رہا ہوں مجال ہے جو جواب ملا ہو ۔۔۔۔” شہریار کی بھنائی ہوئی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی
” آ آپ ۔۔۔” وہ اسے دیکھ کر کپڑے جھاڑتی ہوئی کھڑی ہو گئی
” کیا بات ہے ؟؟ اتنے غور و فکر سے کیا سوچ رہی تھی ؟؟ ” وہ پوری توجہ سے اس کی طرف متوجہ تھا
” کچھ نہیں ۔۔۔۔” وہ دھیمے لہجے میں بولتی ہوئی اندر کمرے کی طرف بڑھی ہی تھی کہ شہریار نے اس کو کلائی سے پکڑ کر روکا
” اتنی بے خبر کیوں بیٹھی تھی دھیان کہاں تھا تمہارا ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا
” میرا ہاتھ چھوڑیں پلیز ۔۔۔”اس نے اپنا ہاتھ کھینچا مگر شہریار کی گرفت بہت مضبوط تھی
” سنو لڑکی !! مجھے روٹھی ہوئی ناراض لڑکی کو منانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن مجھے پتہ ہے تم آدھی ادھوری بات سن کر ہرٹ ہوئی ہو ۔۔” اس نے اسی طرح اس کا ہاتھ ایک ہاتھ سے تھامے دوسرا بازو اس کے شانوں پہ پھیلایا اور اسے اپنے حصار میں لے کر کمرے کے اندر لایا اور بیڈ پر بٹھا کر خود بھی اس کے برابر میں آرام سے بیٹھ گیا
” میری طرف دیکھو سویرا ۔۔۔” اس نے سویرا کے جھکے ہوئے چہرے کو انگلی سے اٹھایا
” میں بہت اسٹریٹ فارورڈ آدمی ہوں ، بار بار محبت کا اظہار اور عشق میں جینے مرنے جیسی فضول گفتگو نہیں کرسکتا تم میری بیوی ہو اور رہو گی ۔تم میری زندگی کی ایک جیتی جاگتی حقیقت ہوں ، ماضی میں جو بھی ہوا وہ گزر چکا ہے اب تم میرا حال ہو اور ہمیں اپنا مستقبل مل کر بنانا ہے ۔اس رشتے میں سب سے اہم آپس میں اعتماد ہوتا ہے میں تم پر بھرپور اعتماد کرتا ہوں اور تم سے بھی یہی امید رکھتا ہوں ۔۔۔۔” اس نے سویرا کی آنکھوں سے جھلکتے آنسوؤں کو بڑی توجہ سے اپنی انگلیوں کی پوروں میں سمیٹا۔۔
” اب بھی ناراض ہو ؟؟ ” اس نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا
” نہیں ۔۔۔۔” سویرا نے نفی میں سر ہلایا
” گڈ گرل ۔
” کیا آپ !!!” وہ جھجکی
” کیا آپ واقعی عروہ جی سے شادی کرنا چاہتے تھے ؟؟”
” یا وحشت !! لڑکی خدا جب عقل بانٹ رہا اس وقت تم کیا گھاس کھانے گئی ہوئی تھی ۔۔۔ ” شہریار نے اسے گھورا
**************
صبح سویرے سویرا حسب معمول یونیورسٹی جانے سے پہلے سب کیلئے تیزی سے ناشتہ بنا رہی تھی روز یونیورسٹی جانے سے پہلے ناشتہ وہ خود بناتی تھی بعد میں سوزن گھر کا چارج سنبھال لیتی تھی شام میں شہریار اسے پک کرتے ہوئے گھر آتا تو سب مل کر چائے پینے کے بعد کبھی واک تو کبھی کوئی پارک وغیرہ کے لئیے نکل جاتے تھے دن گزر رہے تھے فرزانہ پھپھو کو سویرا کا یونیورسٹی جانا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا لیکن شہریار کے آگے وہ بھی مجبور ہو گئیں تھیں ۔۔
” گڈ مارننگ سوئیٹ ہارٹ !!” شہریار نے جاگنگ سے واپس آکر حسب عادت اپنا جوس اور اخبار اٹھایا
” سنئیے !! “سویرا نے اسے مخاطب کیا
” جی مسز فرمائیے !! ” وہ اخبار پلٹتے ہوئے بولا
“آپ اپنا فون گھر بھول گئے تھے اس پر بار بار اینا کی کال آرہی تھی آپ پلیز اسے کال بیک کر لیں ۔۔۔” وہ اس کا فون اٹھا کر پاس لائی
” اتنی صبح اینا نے کال کیوں کی ؟؟ ” وہ فون پر کال لاگ میں صبح کے ساڑھے پانچ کا وقت دیکھتے ہوئے بڑبڑایا اور اس کا نمبر ڈائل کیا
” گڈ مارننگ باس ۔۔۔۔” اینا کی سنجیدگی سے بھرپور آواز گونجی
” گڈ مارننگ !! اینا تم نے اتنی صبح کال کی سب خیریت تو ہے ؟؟ “شہریار نے سوال کیا
” باس !! ڈیٹیکٹیو نے کیس سولو کر لیا ہے وہ آپ سے صبح سات بجے ملنا چاہتا ہے تاکہ جلد از جلد اریسٹ وارنٹ اشیو ہوسکیں ۔۔۔۔” وہ ابھی بھی سنجیدہ تھی
” اوکے اینا میں آفس پہنچ رہا ہوں تو اسے بلا لو ۔۔۔” شہریار نے فون رکھا
” سویرا !! ” اس نے کچن میں مصروف سویرا کو پکارا
” جی !! ” وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اس کے پاس آئی
” میری ایک ارجنٹ میٹنگ آگئی ہے مجھے ابھی نکلنا ہوگا میں ڈرائیور بھیج دونگا وہ تمہیں یونیورسٹی ڈراپ کردے گا ۔۔۔”اس نے ہدایات دیں
” جی ٹھیک ہے ۔۔۔” وہ تابعداری سے سر ہلاتے ہوئے واپس پلٹ گئی ۔
**************
“یہ چیک کریں مسٹر شہریار ۔۔۔۔” ڈیٹیکٹیو نے ایک فائل شہریار کی طرف بڑھائی
” کیا آپ کے علم میں مسز شہریار کا فیس بک اکاؤنٹ تھا ؟؟ ” پولیس آفیسر نے سوال کیا
“نہیں !! وہ سوشل میڈیا پر آنے والی لڑکی نہیں ہے ۔۔۔۔” شہریار فائل کو بغور دیکھتے ہوئے بولا
” آفیسر اگر آپ غور کریں تو جس تاریخ کو مسز شہریار کا فون خریدا گیا ہے اسی تاریخ کو یہ فیس بک اکاؤنٹ دوپہر کے وقت اسی فون نمبر پر بنایا گیا تھا ۔۔۔۔” ڈیٹیکٹیو نے سنجیدگی سے کہا
” اور اس اکاؤنٹ سے رات رات بھر ڈاکٹر اینڈریو سے جذبات بھڑکانے والی باتیں ہوئی ہیں جو فائل میں موجود ہیں ۔۔۔۔” آفیسر نے کہا
” آفیسر !! میں نے یہ فون پرچیزنگ کے ایک ہفتے بعد اپنی وائف کو دیا تھا اور اگر پہلے بھی دیا ہوتا تب بھی وہ ایسا ہرگز نہیں کرسکتی تھی جو لڑکی اپنے ہسبنڈ کو آئی لو یو بولنے سے شرماتی ہو وہ کسی سے بھی اتنی گھٹیا باتیں کیسے کرسکتی ہے ؟؟؟” شہریار بلا کے سرد لہجے میں بولا
” ٹیک اٹ ایزی !! مسٹر شہریار ایک اہم ٹرن ابھی باقی ہے ۔۔۔۔” آفیسر نے کہا
“مسٹر شہریار اس فیس بک اکاؤنٹ کی لاگ ان انفارمیشن ایک دوسری ڈیوائس کو شو کرتی ہے یعنی اس اکاؤنٹ کو کسی اور فون نمبر سے بڑی مہارت سے استمال کیا جاتا رہا ہے ۔۔۔۔” ڈیٹیکٹیو نے ایک پرچہ شہریار کی طرف بڑھایا
” کیا آپ اس نمبر کو پہچانتے ہیں ؟؟ ” اس نے سوال کیا
شہریار نے اس نمبر کو بغور دیکھا اس کے ماتھے کی رگیں تن گئیں تھیں آنکھوں میں سرد مہری اتر آئی تھی
” مسٹر شہریار کیا یہ آپ کی ایکس گرل فرینڈ مس عروہ کا فون نمبر ہے ؟؟؟ آپ کنفرم کریں ۔۔۔۔” اب کے آفیسر نے کہا
“وہ میری گرل فرینڈ نہیں تھی بس دوست تھی اور یہ نمبر اسی کا ہے ۔۔۔۔” شہریار نے پرچہ واپس ڈیٹیکٹیو کی طرف بڑھایا
” مسٹر شہریار !! سوشل میڈیا پر فیک اکاؤنٹ بنانا غلط نام رکھنا ایک سیریس کرائم مانا جاتا ہے اور اب تو گورنمنٹ اور باقاعدہ ایسے ادارے موجود ہیں جو دنیا بھر کے اکاؤنٹ کی تفصیلات رکھتے ہیں اور یہ کوئی غیر اہم واقعہ نہیں یہ ایک سیریس سائبر کرائم ہے کسی دوسرے کی آئیڈنٹٹی چرانا اس جرم کی سزا پانچ سال قید بامشقت ہے ہمیں بس آپ سے نمبر کنفرم کروانا تھا ابھی صبح کے نو بجتے ہی مس عروہ کے اریسٹ وارنٹ جاری کردئیے جائیں گے۔۔۔” آفیسر کھٹرا ہوتے ہوئے بولا
شہریار نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ان دونوں سے مصافحہ کیا اور ان کے جاتے ہی وہ اینا کی طرف متوجہ ہوا ۔۔
” اینا مجھے جس دن یہ فون میرے آفس میں لایا گیا تھا اس دن کی سی سی ٹی وی فوٹیج ابھی چاہئیے ۔۔۔”
” اوکے باس ۔۔۔۔” اینا سر ہلاتے ہوئے آفس کے سیکیورٹی روم کی جانب روانہ ہو گئی
دس منٹ بعد اینا سیکیورٹی کیمرے سے سی ڈی برنڈ کر کے لے آئی تھی اور اب شہریار کے لیب ٹاپ پر سی ڈی چل رہی تھی ۔۔۔
کمرہ بالکل خالی تھا کچھ دیر بعد عروہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور وزیٹرز کے صوفے پر بیٹھ کر میگزین دیکھنے لگی کچھ ہی منٹ بعد اینا اندر داخل ہوئی اور عروہ سے کچھ بات کرکے باہر چلی گئی ۔اینا کے باہر جاتے ہی عروہ نے میگزین بند کرکے میز پر رکھا اور چلتی بھی شہریار کی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئی کچھ چیزوں کو ادھر ادھر کرنے کے بعد اس نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے میز کے کونے پر رکھا نئے سیل فون کا پیک اٹھایا اور اسے کھول کر کچھ کام کرنے لگی تھوڑی دیر بعد اس نے وہ فون واپس پیک کر کے رکھا ہی تھا کہ شہریار اندر داخل ہوتا ہوا نظر آیا۔۔۔
” باس !! اس سب سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ساری حرکت عروہ میم نے مس سویرا کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے کی تھیں ۔۔۔۔” اینا نے وڈیو بند ہوتے ہی کہا
اینا کے جاتے ہی شہریار نے جونس کو فون ملا کر ساری تفصیل بیان کی
” جونس !! عروہ کو اس کی کڑی سزا ملنی چاہئیے عورت پر ہاتھ اٹھانا مردانگی نہیں ہے ورنہ میں اسے زندہ زمین میں اس ذلیل عورت کو زندہ زمین میں گاڑ دیتا ۔۔۔” شہریار غرایا
” شیری یار !! جذباتی مت بنو یار میں اس عروہ کو ہینڈل کر لونگا ۔۔۔” جونس نے اس کے غصہ کو نوٹ کیا
” جذبات احساسات سے بنتے ہیں اس وقت میری ذہنی کنڈیشن اس قدر مشتعل ہو رہی ہے کہ میرا دل چاہ رہا ہے ساری دنیا کو آگ لگا دوں ، میری وجہ سے صرف میری وجہ سے سویرا کو اس گھٹیا آدمی کو جھیلنا پڑا اور عروہ اس نے جیسی گھٹیا نیچ باتیں سویرا کے نام سے کی ہیں ذرا سوچوں وہ تو اس سب میں میری سویرا کو تصور کرتا ہوگا ۔۔۔” شہریار کی سرخ آنکھوں میں جیسے آگ دہک رہی تھی
” شیری میں ابھی عروہ کی طرف جا رہا ہوں پولیس کے پہچنے سے پہلے ہی میں ادھر ہونگا اور بے فکر رہو اسے اس منافقت کی سخت سے سخت سزا ملے گی ۔۔۔۔” جونس نے اسے تسلی دی ۔
” نہیں تم وکیل کے پاس جاؤ اور پولیس کے ساتھ ادھر پہنچو میں تمہیں وہی ملوں گا ۔۔۔”
،م
شہریار تیز رفتاری سے گاڑی دوڑاتے ہوئے عروہ کے گھر پہنچا صبح کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے اس نے گیٹ پر پہنچ کر عروہ کا کال کرنی شروع کی
” ہیلو ۔۔۔۔۔” عروہ کی نیند میں ڈوبی ہوئی آواز ابھری
” عروہ اٹس می !! شہریار ۔۔۔۔”
” شیری ؟؟ اتنی صبح ؟؟ ” وہ حیران ہوئی
” اٹس ارجنٹ تم اپنے گیٹ پر آؤ میں ویٹ کررہا ہوں ۔۔” شہریار نے تیزی سے کہہ کر فون رکھا اور گاڑی سے اتر کر سن گلاسز سر پر ٹکا کر دروازے کے بالکل سامنے کھڑا ہو گیا ۔
کچھ ہی دیر میں دروازہ کھلا اور پنک نائٹ پاجامہ اور شرٹ میں بکھرے بالوں کے ساتھ عروہ اسے اندر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے نظر آئی
” مجھے تم سے ایک اہم بات کرنی ہے وقت کم ہے اس لئیے یہ اندر باہر کے تکلفات چھوڑو اور میری بات سنو ۔۔۔” وہ اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا
” جب دو دوست ملتے ہیں تو چائے کے کپ تھام کر بات کرتے ہیں آؤ اندر چلو ۔۔۔” وہ لاپرواہی سے کہہ کر پلٹی
” کیا تم دوست کہلانے کے قابل ہو ؟؟ ” شہریار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا
” تم کہنا کیا چاہتے ہو ؟؟ ” عروہ ٹھٹکی
” عروہ تم کیا ہو ؟؟ ایک فریب دکھاوا چالبازی کا دوسرا نام ، آخر کیا ہو تم ؟جواب دو آخر سویرا کے ساتھ تم نے اتنی گھٹیا شرمناک حرکت کیوں کی ؟؟ ”
” اوہ !!” وہ بری طرح چونکی
تو تمہیں پتہ چل ہی گیا !! لیکن شیری یہ سب میں نے تمہاری محبت میں تمہیں پانے کے لیے تمہاری خاطر کیا ہے ، شیری ڈارلنگ وہ دیسی اولڈ فیشن لڑکی تمہاری بیوی بننے کے قابل نہیں ہے ۔۔۔۔” وہ اس کے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بولی
” شٹ اپ !! شٹ یور ماوتھ ۔۔۔۔” اس نے ایک جھٹکے سے عروہ کو خود سے دور کیا
” فار گاڈ سیک شیری میرے جذبات کو سمجھو ۔۔۔۔”وہ سسک اٹھی
” اپنے اس گھٹیا شرمناک حرکت کو مجھ سے منسوب کرنے کا سوچنا بھی مت ۔تمہیں میں پہلے دن سے بتا چکا تھا کہ میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں اور اب اگر زندگی میں کبھی بھی اپنی ناپاک زبان سے میری بیوی کا نام بھی لیا تو تم زندہ نہیں بچو گی ۔۔۔”
شہریار کے خطرناک تیور دیکھ کر عروہ دہل گئی تھی
” سویرا میری بیوی میری عزت میرا جنون ہے اس کے سوا میری لائف میں کسی دوسری عورت کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا لو ۔۔۔” وہ پھنکارا
اس سے پہلے عروہ اپنے آپ کو سنبھال کر اسے جواب دیتی پورا علاقہ پولیس سائرن سے گونج اٹھا جونس پولیس لیکر آگیا تھا ۔
” گڈ بائے فار ایور مس عروہ ۔۔۔۔” وہ تلخ لہجے میں کہتا ہوا پلٹ کر اپنی گاڑی میں بیٹھا اور کار ریورس کرتے ہوئے گلی سے دور نکلتا چلا گیا ۔اج عروہ نام کا کانٹا اس نے اپنی اور سویرا کی زندگی سے دور نکال کر پھینک دیا تھا
*****************
وہ لوگ ایک ماہ سے زائد عرصہ گزار چکے تھے شہریار نے انہیں اچھا خاصا وقت دیا تھا ہر ویک اینڈ پر وہ انہیں گھمانے باہر لے جاتا تھا سویرا بھی یونیورسٹی سے واپسی پر انہیں پورا ٹائم دے رہی تھی ماضی کے رویوں کے برعکس اب فرازنہ بیگم میں شہریار کو خوش باش ہنستا بستا دیکھ کر تھوڑی تبدیلی آگئی تھی لیکن ان کی زبان ابھی بھی وہی تھی جس سے سویرا نے سمجھوتا کر لیا تھا کہ انسان کی فطرت بدلنا ممکن نہیں ہوتا ۔۔
شام میں وہ اپنے کمرے میں تھیں جب اکرام کا فون آگیا
” ہیلو !! آگئی ماں کی یاد ۔۔۔۔” انہوں نے فون اٹھاتے ہی اس کی کھنچائی کی
” اسلام علیکم امی !! کیسی ہیں ؟؟ ” اکرام ان کی بات نظر انداز کرتے ہوئے خوشدلی سے بولا
” میری چھوڑو تم بتاؤ اتنے دن سے کدھر غائب تھے ؟؟اب کیسے زحمت کر لی فون کرنے کی ؟؟” وہ حسب عادت طنزیہ انداز میں بولیں
” آپ واپس کب آرہی ہیں ؟؟ ” وہ بھی آرام سے پوچھنے لگا
” فی الحال میرا واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ابھی دو تین ماہ مزید رہو نگی اس کے بعد اگر دل چاہا تو واپسی کا سوچوں گی ۔۔” انہوں نے اسے اپنا پروگرام سنایا
” امی !! دو ماہ ہونے والے ہیں آپ لوگوں کو ادھر ڈیرا ڈالے اب واپس آجائیں ویسے بھی میرے پاس آپ کے لئیے ایک اچھی خبر ہے ۔۔۔۔” وہ پرجوش ہوا
” اب تم میرا ضبط آزما رہے ہو ؟؟ عرصہ ہوگیا اچھی خبریں تو لگتا ہے زندگی سے روٹھ سی گئی ہیں ۔۔۔” وہ اداس ہوئیں
” امی مبارک ہو آپ دادی بننے والی ہیں ۔۔۔۔۔” وہ ماں کے لہجے کی اداسی محسوس کرکے فوراً بولا
” اللہ !!! کیا کہہ رہے ہو ؟؟ ” وہ چونک کر کھڑی ہو گئیں
” سچ کہہ رہا ہوں آپ دادی بننے والی ہیں ۔۔۔۔”
” ارے اللہ !! اتنی دعاؤں کے بعد میرا میرا شاہان آرہا ہے ۔”انہوں نے خوشی سے جھوم کر کہا
” شاہان !! کون ؟؟ ” اکرام الجھا
” شاہان میرا پوتا اور کون ۔۔” انہوں نے اکرام کو تنک کر جواب دیا
” امی ہوتا یا پوتی اللہ کے ہاتھ میں ہے آپ بس دعا کریں جو بھی ہوں صحتمند اور صالح ہو ۔۔۔” اکرام نے سمجھانا چاہا
” تو فکر مت کر !! بس اب جلدی سے میرا شاہان جائے اسے اپنی گود میں کھلاؤں سینے سے لگاؤں تو ہی چین ملیگا اور اکرام اب تو فون رکھ میں شکرانہ پڑھ کر سلیم سے کہہ کر واپسی کا ٹکٹ کرواتی ہوں ۔۔۔” وہ فون رکھ کر تیزی سے وضو کرنے چلی گئیں
نماز پڑھ کر انہوں نے شہریار کے کمرے کا رخ کیا حسب عادت بنا کھٹکھٹائے اندر داخل ہوئی پورا کمرہ خالی پڑا تھا پر ٹیرس کا دروازہ کھلا پڑا تھا وہ ٹیرس کے دروازے پر آئیں اور باہر کا منظر دیکھ کر ان کا چہرہ تپ اٹھا
” استغفرُللہ !! توبہ توبہ ۔۔۔۔” انہوں نے اپنے گال پیٹے
***************
شہریار ٹیرس میں کھڑا بارش انجوائے کر رہا تھا جب سویرا اس کیلئے بلیک کافی بنا کر لائی
” اندر آجائیں آپ کی کافی ٹھنڈی ہو رہی ہے ۔۔۔” اس نے دروازے پر کھڑے ہو کر شہریار کو پکارا
” کافی ادھر ہی لے آؤ ساتھ مل کر پیتے ہیں ۔۔۔۔”شہریار نے نکھری نکھری سویرا کو دیکھتے ہوئے حکم جاری کیا
” میں کیسے آؤ !! اتنی تیز بارش ہے ۔۔۔” وہ موسم کے تیور دیکھ کر گھبرائی
” تمہیں کیا بارش سے الرجی ہے ؟؟ یا پھر تم بارش سے بھی ڈرتی ہو ؟؟ ” شہریار نے پوچھا
” پلیز !! اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔” وہ گھبرائی
” کیا اچھا نہیں لگتا ؟؟ میں یا بارش ؟؟ ” شہریار نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے لیکر ٹیرس میں آیا تیز بارش کی پھوار نے دونوں کو مکمل بھگو دیا تھا
” بولو ؟؟ کیا اچھا نہیں لگتا ؟؟ ” اس نے پھر سوال کیا
” وہ !! ” سویرا ہچکچائی
” وہ کیا ؟؟ ” شہریار نے اس کے چہرے پر سے بھیگی لٹ ہٹائی
” آپ سمجھتے کیوں نہیں !! ” وہ زچ ہوئی
” تو مسز آپ سمجھاتی کیوں نہیں ۔۔۔۔” وہ اس کا ہاتھ اپنی گرفت سے آزاد کرکے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے بولا
” ابھی بھی ڈر رہی ہو ؟؟؟ ” اس نے سرگوشی کی
” میں بارش سے نہیں ڈرتی لیکن !! لیکن آپ کے ساتھ یوں بھیگنا ۔۔۔۔۔” وہ چپ ہو گئی
” یوں میرے ساتھ کیا ؟؟؟ ۔۔۔۔” شہریار نے اس کے چہرے پر نظریں جما کر پوچھا
” مم مجھے شرم آتی ہے ۔۔۔۔۔” سویرا نے تیزی سے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا
اس سے پہلے شہریار اس کی اس شرمیلی ادا پر نثار ہوتا
” کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟ ” پھپھو کی پاٹ دار آواز گونجی
سویرا تیزی سے شہریار سے الگ ہوئی اور ٹیرس کے دروازے پر جم کر کھڑی پھپھو کو دیکھتے ہی اندر بھاگ گئی
” آئیے پھپھو لندن کی بارش انجوائے کریں ۔۔۔۔” شہریار نے ہاتھ بڑھایا
” بارش !! رہنے دو میاں یہ شہر تو جب دیکھو نگوڑ مارا بھیگتا ہی رہتا ہے تم یہ بتاؤ آخر یہ چل کیا رہا ہے ؟؟ ” انہوں نے شہریار کو گھورا
” میں آپ کی بات سمجھا نہیں ۔۔۔۔”
” خیر اب اتنے ننھے بھی نہیں ہو کہ بات نا سمجھو ارے کیا پورے گھر میں تمہیں جگہ نہیں ملتی جو کبھی باورچی خانے میں تو کبھی چھجے پر ٹنگے ملتے ہو ؟؟ ”
” چھجے ؟؟ پھپھو یہ ٹیرس ہے ۔۔۔۔” شہریار نے تصیح کی
” میاں کچھ شرم لحاظ سیکھ لو بیوی کو اتنا بھی سر پر نہیں چڑھانا چاہئیے اور دیکھو بھلا اب جان کر وہ لڑکی بارش میں بھیگی ہوگی کہ بیمار پڑ جائے اور ہماری مہمان داری نا کرنی پڑے ۔۔۔۔” پھپو دور کی کوڑی لائیں
” پھپو ایسی بات نہیں ہے آپ کا آنا تو ہمارے لئیے باعث عزت ہے ۔۔۔۔”
” ارے چھوڑو مجھے سب معلوم ہے تمہیں اور تمہاری بیوی کو میرا آنا پسند نہیں آیا ہے لیکن میں صاف کہے دیتی ہوں تمہیں اچھا لگے یا نا لگے میں تو بری بھلی بات پر روک ٹوک کرونگی آخر تمہاری خیر خواہ ہوں ۔۔۔۔” انہوں نے کہا
” کاش !! آپ میری اتنی خیر خواہ نہ ہوتیں ۔۔۔” وہ بارش کی بوندیں اپنے چہرے سے صاف کرتا ہوا بڑبڑایا
” کیا کہا ؟؟ ” انہوں نے مشکوک نظروں سے اسے گھورا
” کچھ نہیں پھپو !! آئیں آپ کو اچھی سی کافی پلاتا ہوں ۔۔۔۔” وہ اندر کی طرف بڑھا
” بس بس مجھے نہیں پینا کالے رنگ کا زہر !!تم جلدی سے لباس بدلو کہیں ٹھنڈ نا لگ جائے میں تب تک تمہارے لئیے یخنی بنواتی ہوں ۔۔۔” وہ اسے ہدایات دیتی ہوئی باہر نکل گئیں
**************
جمعہ کی شام سلیم صاحب زاہدہ بیگم فرازنہ پھپھو سب ائیر پورٹ پر کھڑے تھے فلائیٹ میں تھوڑی ہی دیر باقی تھی
” شیرو بیٹا اب تم اور سویرا جلدی سے پاکستان کا چکر لگانا ۔۔۔” زاہدہ بیگم نے ہدایت کی
” جی امی بس سویرا کی چھٹیوں میں کوئی پروگرام بنائیں گے ۔۔۔” وہ انہیں تسلی دیتے ہوئے بولا
“شیرو سویرا۔ !! شاہان کی پیدائش پر تم دونوں لیلی مجنوں کو حویلی میں ہونا چاہیے بس ۔۔۔۔” فرزانہ پھپھو نے حکمیہ انداز میں بات کی
“جی پھپھو !! ” سویرا نے دھیمی آواز میں کہا
فلائیٹ کی اناوسمنٹ ہو چکی تھی سب سے مل ملا کر سلیم صاحب زاہدہ بیگم اور فرزانہ بیگم اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ چکے تھے پلین ٹیک آف کر چکا تھا فرزانہ آنکھیں بند کئیے بیٹھی ہوئی تھیں
سویرا خوش تھی اور سویرا کی زندگی میں خوشیاں ارے ہی سب بدل گیا تھا وہ جو مایوس ہو چکی تھی اب دادی بننے والی تھیں ، سلیم ان کے بھائی کی طبیعت اب بالکل ٹھیک تھی اور اب سے بڑھ کر شاہو ان کا لاڈلا کامیابیاں سمیٹ رہا تھا ۔۔۔۔۔
” چھوٹے بھیا مجھے معاف کردینا لیکن اب سے میں تمہاری گڑیا بیٹی کا خیال رکھوں گئی ۔۔۔” ان کی بند پلکوں سے ایک آنسو گرا ۔۔۔
*****************
وہ دونوں پلین کے اڑنے تک ائیرپورٹ پر رکے رہے تھے ۔۔
“مسز اب چلیں ۔۔۔۔”شہریار جیب سے گاڑی کی چابی نکالتے ہوئے گویا ہوا
” جی چلئیے ۔۔۔۔” سویرا اداسی سے بولی
” اتنی اداس کیوں ہو ؟؟ ” اس نے گاڑی پارکنگ سے نکالتے ہوئے سوال کیا
” سب چلے گئے اب گھر کتنا خالی خالی لگے گا ۔۔۔” وہ بھیگی آواز میں بولی
” یہ بتاؤ تمہارے فرسٹ ائیر مکمل ہونے میں کتنا وقت باقی ہے ؟؟ ” شہریار نے بالکل الٹ سوال کیا
” سات ماہ !! لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ۔۔۔” وہ حیران ہوئی
” مسز شہریار !! ٹھیک سات ماہ بعد ہم اپنے ہنی مون پر نکلیں گے اور چونکہ ابھی چار سال تم نے دل لگا کر پڑھنا ہے تو ہر سال ہم تمہارے ایگزام کے بعد ہنی مون منائیں گے ۔۔۔”وہ سنجیدگی سے اپنا فیوچر پلان بتاتے ہوئے گاڑی چلا رہا تھا
” یہ آپ کدھر جا رہے ہیں ۔۔۔۔” وہ گاڑی کو شہر سے باہر جانے والے راستے پر دیکھ کر بول اٹھی
” فارم ہاؤس !!” اس نے دو لفظی جواب دیا
” لیکن کیوں ؟؟ ابھی گھر جا کر اسائنمنٹ بنانا تھا ۔۔۔” وہ بوکھلائی
” سشش !! مجھے خاموشی سے ڈرائیو کرنے دو ۔۔۔۔” اس نے ٹوکا
فارم ہاؤس پہنچ کر شہریار نے گاڑی اندر پارک کی اور سویرا کو ساتھ آنے کا اشارہ کر کے اندر بڑھ گیا
شام ڈھلنے لگی تھی وہ باغیچہ میں باربی کیو کررہا تھا سویرا اس کے ساتھ کھڑی تھی دونوں نے مل کر ڈنر ساتھ کیا پھر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہی درخت کے نیچے اسے ساتھ لیکر بیٹھ گیا ۔۔
” سویرا !! میں نے کبھی نہیں چاہا کہ تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی ہو میں تم سے عمر میں بہت بڑا تھا میں نے ہمیشہ یہی سوچا تھا کہ میاں بیوی اگر ہم عمر ہوں تو انڈرسٹینڈنگ اچھی رہتی ہے ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں زندگی پرسکون اور خوشگوار گزرتی ہے ۔لیکن میں غلط تھا میاں بیوی کے رشتے میں عمر کا فرق کو معنی نہیں رکھتا اصل چیز ایک دوسرے کو سمجھنا اعتماد کرنا ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھنا ہے ۔۔۔۔” وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامے سنجیدگی سے بول رہا تھا
” تم میرے جان سے عزیز چاچو کی بیٹی ہو مجھے بہت عزیز ہوں میں نہیں چاہتا تھا کہ تم اپنے سے بڑی عمر کے مرد کے ساتھ زندگی گزارو ، تمہارے ساتھ زبردستی کی جائے اسی لیے میں نے خود کو سخت کر لیا تھا لیکن تمہاری موجودگی تمہاری معصومیت مجھے ڈسٹرب کرنے لگی تھی پھر اس رات جب تم چاچو کی تصویر اپنے سینے سے لگائے نیند میں مجھ سے شکوہ کررہی تھی تو مجھے سمجھ آگئی کہ اس رشتے نے ہم دونوں کو باندھ دیا ہے تم بھی مجھے چاہنے لگی ہو اسی لئیے میں نے اس رشتے کو آگے بڑھایا تمہارے معاملے میں میرا دل میرے مقابل ڈٹ گیا ہے تم میری عزت کی ، میری محبتوں کی میری شدتوں کی امین ہو ۔۔۔۔”
وہ حیران سی شہریار کو یک ٹک بنا پلکیں جھپکائے دیکھ رہی تھی شہریار کے چہرے پر جذبے اپنا رنگ دکھا رہے تھے
” سنو اب تو کہہ دو تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہوں ۔۔۔” اس نے سویرا کی گھنی پلکوں کو چھوتے ہوئے اسے اپنے بازو کے گھیرے میں لیا تو چونکی
سویرا نے ایک نظر شہریار کی بولتی ہوئی آنکھوں میں دیکھا
” کہنا ضروری ہے کیا !! ” وہ جھینپ کر دھیمی آواز میں بولی
” خدا کو مانو مسز شہریار !! شرافت سے اظہار محبت کرو ورنہ ۔۔۔۔۔” شہریار نے اسے گھورا
سویرا نے سرخ پڑتے چہرے کو جھکا کر تیزی سے شہریار کو دھکا دیا اور اٹھ کر اندر بھاگ گئی
وہ مسکراتے ہوئے کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھا جو بھی تھا اسے سویرا کی اسی شرم و حیا نے اپنا اسیر کیا تھا وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے اپنے کمرے میں داخل ہوا سامنے ہی سویرا بیڈ پر بیٹھی اپنی سانسوں کو ہموار کرنے میں لگی تھی
” ہممم ” وہ دلچسپ نظروں سے اسے دیکھتا ہوا کھنکھارتے ہوئے آگے بڑھا
” آپ ۔۔۔۔اپ وہ ۔۔۔۔” سویرا لڑکھڑاتے ہوئے بولی
“ہاں میں !! “وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا اور اپنی جیب سے چین اور انگھوٹھی نکالی
” سنو لڑکی !! یہ میری محبت کی نشانی ہے جو اس دن تم نے اتار دی تھی آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے انڈر اسٹینڈ !! ” وہ چین اس کے گلے میں پہنا کر ہاتھ پکڑتے ہوئے انگوٹھی پہناتے ہوئے بولا
” وہ وہ مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا ۔۔۔” سویرا نے نظریں جھکا کر ہچکچاتے ہوئے کہا
” ہاں تو کہوں نا میں تو کب سے بیقرار ہوں ان الفاظ کو سننے کیلئے ۔۔۔۔” وہ ہمہ تن گوش ہوا
” وہ ۔۔۔۔” سویرا انگلیاں مسلتے ہوئے اس کے پاس آئی
” سوئیٹ ہارٹ !! وہ سے آگے بھی بڑھو ۔۔۔۔”
” وہ میرا نام سنو لڑکی نہیں ہے آپ مجھے سویرا کہا کریں ۔۔۔۔” وہ تیزی سے آنکھیں میچ کر بول اٹھی
شہریار نے مسکرا کر اسے دیکھا اور اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے جھک کر ایک استحقاق بھری مہر اس کی پیشانی پر ثبت کی ۔۔
” مسز شہریار !!! تم مسز شہریار ہو جاناں ۔۔۔۔” وہ جھک کر اس کے کانوں میں سرگوشیاں کررہا تھا
محبت کی چاندنی ان دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی ہوائیں گنگنا رہی تھی ۔ خوشیوں محبتوں سے بھرا زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہو چکا تھا
وہ ہم سفر تھا مگر
اوروں سے منفرد تھا بہت
وہ شریک سفر تھا مگر
اسکی شراکت زمانے میں بے نظیر تھی بہت
وہ ہم سفر تھا مگر
اسکی محبت کا انداز نرالا تھا بہت
وہ انا پرست تھا مگر
اسکی رفاقت زمانے سے الگ تھی بہت
وہ زمانہ ساز تھا مگر
اسکی شناسائی مجھ تک ہی تھی بہت
وہ ہم سفر تھا مگر
میری زندگی کی کتاب کا عنوان ہی تو تھا وہ
وہ ہم سفر تھا مگر
میرا محافظ سفر ہی تو تھا وہ
وہ جو سب کی حسرتوں میں تھا
مگر اسکی حسرتوں کی حاصل میں ہی تو تھی
وہ جو تھوڑا سا کڑوا تھا
مگر اسکی مٹھاس میرے لیے ہی تو تھی
وہ ہم سفر تھا مگر
صرف مجھ تک ہی مختص تھا وہ
جس کے دل کی دھڑکن میں ہی تو تھی
ہاں وہ ہم سفر تھا
ہاں وہ ہم سفر تھا
(شاعرہ ۔شزا خان)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...