“رانی ارے او رانی کدھر جا رہی ہے ” وہ جو مگن سی اچھلتی کودتی جارہی تھی آواز پر رک کر ادھر ادھر دیکھنے لگی سجی کو سامنے بیٹھے دیکھ کر اسکی طرف آئی “کھیلنے جارہی ہوں ”
“اچھا ادھر آ بیٹھ بات کرنی ہے مجھے تجھ سے” وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاتے ہوئے بولا
“افوہ کیا پے اب میں کھیلنے نہ جاوں سب انتظار کر رہی ہوں گی میرا “اسنے ہاتھ چھڑاتے ہوئے خفگی سے منہ پھلایا وہ ہولے سے ہنس دیا
“جلدی بول کیا کہنا ہے” بے زاری سے کہہ کر وہ سامنے درختوں کو دیکھنے لگی دور تک درخت ہی درخت تھے خوبصورت سر سبز و شاداب درخت
“کچھ نہیں چل جا پھر کبھی بات کر لیں گے “وہ بے دلی سے کہہ کر اٹھنے لگا
“لے یہ کیا اب خودی جا رہا ہے ناراض ہو گیا کیا ؟؟…….ارے سن تو ……”رانی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا
“نہیں میں ناراض نہیں ہوں تو فکر نہ کر “اسنے تسلی دی
“پھر اداس کیوں ہے “وہ فکر مندی سے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
“کچھ نہیں بس بھا یاد آرہا تھا توگھر سے نکل آیا سوچا تجھ سے ملتا ہوں،،، دل بہل جائے گا مگر تُو تو …..”اسکے بے تحاشا حسن کو دل میں اتارتے ہوئے دھیرے سے بولا
“اچھا میں نہیں جاتی تو منہ سیدھا کر……..چل نہ……. مسکرابھی …….”اب وہ اسکے بال کھینچنے کر اسے ہنسانے کی کوشش کر نے لگی
“اچھا اچھا چھوڑتو پہلے “وہ بال چھڑاتے بولا
بھا کا کچھ پتا لگا ”
“نہیں……. اماں تو ہر وقت روتی رہتی
ہے ابا بھی خاموش سا ہو گیا ہے”اسنے افسردگی سے بتایا
“ایک تو تم لوگ ڈرپوک بہت ہو جب بھا نے کچھ نہیں کیا تو جاو پوچھو راجہ سے گھر بیٹھے ہو بزدل بن کے “وہ غصے سے بھڑکی اسکے گلابی گال کچھ اور بھی گلابی ہوگئے
“تو جانتی ہے وہ کتنا ظالم ہے ہم میں سے کوئی بھی گیا تو واپس نہیں آے گا “اسنے حقیقت سے آگاہ کیا
“لے ایویں نہیں آۓ گا” وہ لا پرواہی سے بولی “میں جاؤں گی دیکھنا تم …اور ….’
“بس چپ تو کہیں نہیں جائے گی سن رہی ہے نا “وہ اسکی بات کاٹ کر درشتی سے بولا
“دیکھ میری بات سن” اسنے سمجھانا چاہا مگر وہ کچھ سننے کو تیار نہ تھا تیزی سے بولا
“نہیں کوئی بات نہیں سننی تیری …. بھا کے بعد میں تجھے نہیں کھو سکتا…. سمجھی…. میں آج ہی اماں سے بات کرتا ہوں ہمارے بیاہ کی “وہ اسکا دھیان بٹانے کو بولا
وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی
“میں کونسا بھاگ رہی اس راجے کے ساتھ جو تو ایسے کہہ رہا میں تو بس بات کروں گی” اسکی اب بھی وہی رٹ تھی
“نہیں ،،، نہیں کرے گی تو بات تجھے میری قسم تو وہاں نہیں جائے گی بس” اسنے غصے سے کہہ کر گویا بات ختم کرنا چاہی
“یہی بزدلی ہم سب کو کھا جائے گی وہ ہم سب کو مار دے گا ایک دن اور ہم یوں ہی ڈرتے رہیں گے ہونہہ” وہ اب اپنی بھڑاس نکال رہی تھی
اور وہ تقدیر کے فیصلے سے انجان دل ہی دل میں شکر کر رہا تھا کہ اب وہ جانے کا نام نہیں لے رہی تھی
★★★★★★★★
گیٹ کھلا اور آگے پیچھے چار گاڑیاں اندر داخل ہوئیں گارڈز نے تیزی سے اتر کر اسکی طرف کا دروازہ کھولا وہ بڑی شان سے گاڑی سے اتری اور اپنے اس بے حد خوبصورت محل نما گھر کا جائزہ لینے لگی کتنا کچھ بدل گیا تھا ان 4 سالوں میں وہ ستائشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتی آگے بڑھی جہاں گھر کے سب چھوٹے بڑے اسکے استقبال میں کھڑے تھے کیوں نہ ہوتےآخر وہ راجہ کی اکلوتی بہن تھی
وہ سب سے مل کر راجہ کی طرف بڑھی اور اسکے گلے لگ گئی
“” افففف… میں نے سب سے زیادہ آپ کو اور امو جان کو مس کیابھائی” وہ لاڈ سے بولی
” اور ہم نے بھی تمہیں بہت یاد کیا ہے اب تُوآ گئی ہے نا اسی خوشی میں اب جشن ہو گا جشن کیوں امو جان ” وہ تائید طلب نظروں سے امو جان کو دیکھنے لگا
” ہاں یاں کیوں نہیں” وہ شفقت سے مسکرادیں
” اور وعدہ کو پورا کرنے کا بھی “رانی ماہا نے یاد کروایا
” آ ہاں ہاںں “وہ گڑبڑا گیا پھر فورا سنبھل کر بولا
” کیوں نہیں اب تم اندر جاو …عروسہ بیگم ہماری بہن کو اندر لے جائیں”
وہ اپنی بیوی کو حکم دیتا آگے بڑھ گیا اس سے بے خبر کہ کوئی کتنی شدت سے اسکی ایک نظر کا منتظر تھا
★★★★★★
وہ آدھی رات کو اپنی آرامگاہ میں آیا تو اریکہ کو اپنا منتظر پایا وہ پہلے تو حیران ہوا پھر سخت لہجے میں بعلا
” آپ اس وقت یہاں کیا کرہی ہیں “اسکے لہجے کی ناگواری محسوس کر کے وہ فورا اٹھی
” آپ میرے بستر پر کیوں” وہ مزید غصے میں اگیا اور آگے بڑھ اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا وہ اسکے غصے کو دیکھ کر بری طرح ڈر گئی
“وہ م ..میں ….” اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو لب دانتوں تلے کچلنے لگی اسے بھول ہی گیا وہ کیا بات کرنے آئی تھی اسنے غصے سے اسکا بازو جھٹکا اور باہر کی جانب اشارہ کرتا تیز لہجے میں بولا
” نکلو یہاں سے دوبارہ یہ غلطی کی تو بہت بھیانک سزا ملے گی سمجھی ….”وہ خاموشی سے آنسو بھری نظروں سے اسے دیکھے گئی مگر وہ کتنا بے رحم تھا اِسکا اندازہ اُسے نہیں ہوا تھا
“جاو “اسکی دھاڑ پر وہ بھاگ کر باہر نکل گئی
” پاگل ہو گئی ہے یہ” وہ سر جھٹک کر مڑا سامنے عروسہ بیگم کھڑی تھیں
یہ رواج تھا کہ راجہ کے خاندان میں انکی بیویاں اسکے کمرے میں اسکے ساتھ سو نہیں سکتی تھی کیوں کے وہ راجہ سے کمتر تھی اسکی جوتی کے برابر اس لیےراجہ کے کمرے سے منسلک ایک کمرہ تھا جس کا دروازہ راجہ کی آرامگاہ میں ہی کھلتا تھا
“آپ جاگ رہی ہیں اب تک” وہ اپنے بستر پر بیٹھتے ہوے بولا
” جی آپ اونچا بول رہے تھے تو میں آٹھ کر یہاں آپکو دیکھنے چلی آئی” وہ آگے بڑھ کر اسکی شال اٹھاتی ہوئی بولی
” ہممممم ہم تھک گئیے ہیں اب آرام کریں گے آپ بھی آرام کریں” اسکے چہرے سے بے زاری کا تاثر نمایاں تھادوسرے الفاظ میں وہ اسے یہاں سے جانے کا کہہ رہا تھا
وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی
” میں جانتی ہوں راجہ میں آپکو پسند نہیں لیکن آپ میرے علاوہ کسی کے ہو بھی نہیں ہو سکتے کسی کے نہیں” ایک پر اسرار سی مسکراہٹ اسکے ہونٹوں کو چھو گئی
★★★★★★
“او رانی کدھر مر گئی ہے ادھر دفعہ ہو کب سے بلا رہی ہوں تجھے “اماں اپنی مخصوص کراری آواز میں گرج رہی تھیں وہ جلدی سے انکے پاس پہنچی
” کیا ہے اماں کبھی تو سکون لینے دیا کرو” اسنے تڑخ کر کہا اور وہیں پڑے موڑھے پر جم گئی
“بک بک نہ کر اور جا تیار ہو جا راجہ کے بنگلے میں جانا ہے”
” کیوں؟؟ “حیرت کے مارے وہ اچھل ہی پڑی کیوں کہ اماں اسکے لاکھ کہنے پر بھی اسے کبھی بنگلے میں لے کر نہیں گئی تھی نہ جانے کونسا ڈر تھا اسے
” راجہ کی بہن آئی ہے شہر سے پڑھ کر سب کی روٹی ہے وہاں آج سب جائیں گے تو بھی تیار ہو جا” اماں نے تفصیل اسکے گوشِ گزار کی
” نہ اماں میں نہیں جاوں گی” اسکے انکار پر اماں نے غور سے اسے دیکھا
” کیوں کیوں نہ جاے گی تو”
” ہماری کونسا خوشی ان راجوں کو عزیز ہے جو ہم انکی تقریب میں جائیں اور بھا کو بھی تو یہ…..”
” بس چپ کر جا ایسی بات کسی اور کے منہ پہ مت کریو سنا تو نے “.
اماں نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اسے سمجھایا اور کھینچ تان کے اسے ساتھ لے آئی بنگلے میں آکر اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی
“اتنا سوہنا گھر ہے اماں… ہاے اللہ” وہ منہ کھولے وسیع و عریض سرسبز لان کو دیکھ رہی تھی اور وہ کچھ غلط بھی نہ تھی جو بھی دیکھتا یونہی دنگ رہ جاتا تھا
نوری نے اسکے کندھے پہ ہاتھ مار کے اسکا سکتہ ٹوڑا
” لے تو بھی آئی ہے آج تو مزہ آجاۓ گا چل آجا “وہ اسے لیےہرے بھرے لان کے ایک طرف چل دی
” ارے اندر نہ جایو گلتی سے بی” اماں نے نصیحت کی مگر ادھر پرواہ کسے تھی وہ نوری کا ہاتھ تھام کر اندر کی جانب چل دی
“اری کدھر جا رہی مرواۓ گی کیا چل واپس ” نوری اپنا ہاتھ چھڑوانے لگی
“آجا نہ کچھ نہیں ہوتا میں ہوں نا “اسنے تسلی دی
“او پاگل ہم اندر نہیں جا سکتے “نوری اب بھی ہچکچا رہی تھی
“کیوں ؟؟؟ہم بس دیکھ کے آجائیں گے کہ اندر سے کتنا اچھا ہے یہاں تو کوئی بھی نہیں ” وہ کسی طور ٹلنے والی نہ تھی
رانی اسکا ہاتھ کھینچ کر پیچھلے حصے سے اندر کی طرف بڑھ گئی اندر آکر اسے لگا وہ جنت میں ہو وہ سانس روکے ہر چیز کو دیکھ رہی تھی اتنا خوبصورت اتنا مکمل وہ ایک ایک چیز کو چھونے لگی اچانک اسکے قدم تھم گئے وہ ایک خوبصورت شیشے کا مجسمہ تھا جسکے ایک ہاتھ پہ اسی بنگلہ سے مشابہہ گھر تھا اور دوسرے ہاتھ پہ ایک چھوٹا سا بے تحاشا چمکدار گھڑی کی شکل کا کرسٹل تھا جس پر لکھا تھا
Tap to inter into palace
“یہ کیا لکھا “نوری نے پوچھا مگر اسنے جواب دینے کی بجاے بڑھ کر کرسٹل پر لگے بٹن پش کرنے شروع کر دیے اچانک ایک تیز آواز کے ساتھ سامنے دیوار نے اوپر اٹھنا شروع کر دیا وہ دونوں ڈر کر باہر کو بھاگیں مگر شاید بہت دیر ہو چکی تھی
★★★★★★★★
راج پور جسکا دوسرا نام رانی پور بھی تھا ایک چھوٹا مگر بے حد خوبصورت علاقہ تھا ہر طرف سر سبز لہلہاتے درخت اونچے لمبے پہاڑ شفاف پانی کی ندیاں اور بے شمار قدرتی مسحور کن نظاروں سے بھرپور فطری حسن سے مالامال علاقہ تھا جس پر صدیوں سے راج خاندان حکومت کرتا آرہا تھا مفلسی و غربت کے مارے تعلیم سے کوسوں دور سادہ اور ناسمجھ لوگوں کی بے بسی سے فائدہ اٹھانے والے راجاوؤں کا حکم پورے علاقے پر چلتا تھا زمانہ جاہلیت کی طرح یہاں بھی بیٹی کو منحوس کہا جاتا تھا خاص طور پر راجہ فیملی میں
راجہ علی کے تین بیٹے تھے رحمان علی عدنان علی اور عثمان علی دستور کے مطابق راجہ علی کے بعد انکے بڑے بیٹے راجہ رحمان انکی جگہ پر آۓراجہ رحمان کی شادی انکی چچا زاد سے ہوی تھی وہ بہت نرم مزاج عورت تھیں سب انہیں امو جان کہتے تھے انکے دو بچے تھے بیٹا ابسام اور بیٹی ماہا راجہ رحمان کے بعد یہ نشست ابسام کے ہی حصے میں آئی تھی ظلم و ستم میں اپنے باپ دادا کو بھی پیچھے چھوڑ گیا تھا
عدنان علی کی صرف ایک بیٹی تھی عروسہ بیگم جو کہ ابسام کی بیوی بن چکی تھی یہ الگ بات تھی کہ اس رشتے میں ابسام کی مرضی شامل نہ تھی
سب سے چھوٹے عثمان علی کے تین بچے تھے دو بیٹے اور ایک بیٹی عثمان کی شادی انکی پسند سے ہوئی تھی آملہ بیگم ایک نہایت مغرور قسم کی عورت تھیں انکا بڑا بیٹا سبحان علی شادی شدہ تھا اور خاصہ دبو قسم کا تھا جبکہ چھوٹا بیٹا کسی مزارعے کے ہاتھوں مارا گیا تھا بیٹے کی موت پر تو وہ پاگل ہی ہو گئیں تھیں انہوں نے قاتل کا پورا خاندان زندہ جلا دیا تھا مگ اس پہ بھی سکون نہ ملا تو قاتل کے بدلے اسکی بہن اریکہ کو ابسام کی بیوی بنا کر لے آئیں جو روز انکے انتقام کی بھینٹ چڑھتی تھی اسکا بھائی چھ سال دسے انکی قید میں تھا وہ ابسام سے اسکی رہائی کی بھیک مانگنا چاہتی تھی مگر وہ تواسکی شکل دیکھنے کا بھی روداد نہ تھا راجہ رحمان کی موت کےبعد آملہ بیگم کھل کر سامنے آگئیں امو جان چونکہ چل پھر نہ سکتی تھیں تو گھر کا سارا نظام خودبخود انکے ہاتھ میں چلا گیا یوں ابسام کا راج محل سے باہر تھا مگر گھر کی رانی آملہ بیگم تھیں
کسی بھی لڑکی کو پڑھنے کی اجازت نہ مل سکی تھی سواےرانی ماہا کہ اسکی دو وجوہات تھیں ایک تو وہ راجہ کی بہن تھی اور راجہ کی لاڈلی بھی دوسری وجہ تھی اسکی محبت جی ہاں وہ اپنے ہی علاقے کے ایک غریب لڑکے پر دل ہار بیٹھی تھی جب یہ بات راجہ تک پہنچی تو وہ آپے سے باہر ہو گیا مگر اپنی لاکھ کوشش کے باوجود وہ ماجی نامی لڑکے کو ماہا کے دل سے نہیں نکال سکا تھا تب اسنے آخری چال چلی تھی اسنے ماہا کو پڑھنے کے لیے شہر بھیج دیا تھا اس وعدے پر کہ جب وہ واپس آے گی تو اسکا نکاح ماجی سے کر دیا جاے گا اور اسکے جانے کے فورا بعد وہ لڑکا بھی ٰغائب ہو گیا تھا کہاں یہ کوئی نہیں جانتا تھا
★★★★★★★
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...