“بھاگ چلیں۔” جان نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا “کیسی بچوں کی سی باتیں کرتے ہو جیک۔ بھلے آدمی ہم ان سے بچ کر کہاں جا سکتے ہیں اور فرض کر لو کہ ہم بھاگ بھی گئے تو اپنے جہاز کو سمندر میں کس طرح ڈالیں گے؟ کیا ہم سب مل کر جہاز اٹھا سکتے ہیں! میرے خیال میں ہر گز نہیں۔ اور پھر یہ جہاز ساحل سے اس وقت یقیناً چار فرلانگ کے فاصلے پر کھڑا ہے۔ تم نے اسے کھینچنا بھی چاہا تو کیا اتنی دور تک کھینچ لو گے۔؟”
جان واقعی ٹھیک کہہ رہا تھا۔ ہماری آزادی میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ کبڑا بڑی دیر سے خاموش تھا۔ مگر اس وقت چونکہ اس کی جان پر بن رہی تھی اس لئے بولا۔
“اس سے بہتر تو یہ ہے کہ ہم سمندر ہی میں ڈوب جائیں یہ دیو تو پتہ نہیں ہماری کیسی گت بنائیں گے؟”
ایک ملاح نے اس کی ہاں میں ہاں ملا کر کہا “ڈوبیں کیوں صاحب۔ اگر ہم بچ گئے تو اس جزیرے سے کوئی درخت کاٹ کر اس کی کشتی بنا لیں گے۔ کشتی بنانا ہم دونوں کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ درخت کے تنے کو اندر سے کھوکھلا کر کے اس کی ایک معمولی سی کشتی آسانی سے بنائی جا سکتی ہے۔۔۔”
“چاہے تمہاری کشتی کچھ دن بعد بیچ سمندر میں جا کر ڈوب ہی کیوں نہ جائے۔ نہیں یہ طریقہ غلط ہے، اس سے تو اسی جگہ گھٹ گھٹ کر مر جانا بہتر ہے۔” جیک نے جلدی سے جواب دیا۔ اس کے لہجے میں نا امیدی صاف جھلک رہی تھی۔
میں خاموشی سے ان سب کی باتیں سن رہا تھا آخر میرے دماغ میں بھی اچانک ایک ترکیب آئی۔ میں نے جان سے کہا۔
“میرے خیال میں ایک طریقہ آزاد ہونے کا ہو سکتا ہے۔”
“وہ کون سا؟” سب نے ایک ساتھ پوچھا۔
“بارود اور چاقوؤں کی مدد سے ایک لمبی سی سرنگ بنائی جائے یہ سرنگ ہمارے اس قید خانے سے کوئی آدھے فرلانگ کی دوری پر جا کر نکلے۔ ہم اس سرنگ کے راستے قید خانے سے باہر نکل سکتے ہیں اس سرنگ پر دوسرا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ قید خانے سے سرنگ میں داخل ہونے کا راستہ ہم اوپر سے کسی طرح ڈھک کر سرنگ میں چھپ جائیں گے۔ دیو سمجھیں گے کہ ہم کسی طرح نکل بھاگے ہیں۔ وہ ہمیں پورے جزیرے میں تلاش کرتے پھریں گے، مگر ہم ان کے ہاتھ نہیں آ سکیں گے انہیں اس کا کیا علم کہ ہم نے سرنگ بنا لی ہے اور ہم اس میں چھپے بیٹھے ہیں۔ آزاد ہو جانے کے بعد جہاز کو سمندر میں واپس لے جانے کے بارے میں سوچنا بعد کی بات ہے۔”
سب ہی نے میری اس تجویز کو پسند کیا اور اسی وقت سرنگ کے کھودنے کا کام شروع ہو گیا۔ ملاحوں نے کھدائی کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ جیک نے مٹی باہر نکالنے کا اور کبڑے نے اس مٹی کو زمین پر پھیلانے کا۔ مٹی ہم اس لئے زمین پر پھیلانا چاہتے تھے کہ اگر دیو آ جائیں اور اندر جھانک کر دیکھیں گے تو انہیں مٹی کے ڈھیر نظر نہ آئیں۔۔۔ کوئی دو گھنٹے کی لگاتار محنت کے بعد ہم لوگ صرف دس ہی فٹ لمبی سرنگ کھود سکے۔ کھودتے کھودتے جب ہم تھک جاتے تو کچھ دیر آرام کر لیتے اس کے بعد پھر فوراً اپنا کام شروع کر دیتے۔ شام کے پانچ بجے تک ہم نے تقریباً تیس فٹ لمبی سرنگ کھود لی۔ آگے کام جاری رکھنے کا ارادہ تھا کہ یکایک ہمیں پھر ہاتھی کی سی چنگھاڑیں سنائی دیں۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ دونوں پھر آ پہنچے۔ اس لئے جلدی جلدی ہم سرنگ کے مونہہ پر بیٹھ گئے تاکہ انہیں کچھ نظر نہ آئے۔ جلد ہی ان کے قدموں کی دھب دھب سنائی دی، اور پھر انہوں نے اندر جھانک کر دیکھا۔ میں نے انہیں دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجائیں۔ تالیوں کی آواز سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور خود بھی تالیاں بجانے لگے۔ کچھ دیر تک یہی تماشا ہوتا رہا۔ آخر ان میں سے ایک نے جھک کر کوئی چیز اٹھائی اور پھر اسے ہمارے قید خانے میں پھینک دیا۔ وہ چیز دراصل ایک تقریباً آٹھ فٹ لمبی مچھلی تھی اور اس وقت تک زندہ تھی۔ اپنے خیال میں انہوں نے ہمیں یہ چھوٹی سے چھوٹی مچھلی دی تھی۔ مگر درحقیقت ہم سب کے لئے یہ کافی تھی۔ اپنی زندگی میں اتنی لمبی مچھلی میں نے شاید ہی کبھی دیکھی ہو!
سورج اب آہستہ آہستہ سمندر کی طرف جھک رہا تھا۔ نہ جانے اچانک کیا بات ہوئی کہ انہوں نے جلدی سے پلٹ کر سورج کو دیکھا اور پھر ایک دوسرے سے آپس میں کچھ باتیں کیں اور گھبرا کر واپس چلے گئے۔ ہم نے اطمینان کا سانس لیا اور سرنگ کا کام ادھورا چھوڑ کر مچھلی پر پل پڑے مگر اب یہ سوال پیدا ہوا کہ بغیر لکڑیوں کے ہم مچھلی کو آگ پر کس طرح بھونیں؟
“ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔” جان نے کہنا شروع کیا “ہم لوگ سرنگ کھود کر اس قید خانے سے باہر نکل جائیں اور جزیرے سے سوکھی ہوئی لکڑیاں چن کر لائیں۔ اس کے بعد سرنگ میں بیٹھ کر مچھلی بھونیں۔ شام ہو رہی ہے۔ سرنگ کھودتے کھودتے رات ہو جائے گی اور رات کو یہ کام آسانی سے ہو سکے گا۔”
جان کی یہ تجویز سب کو پسند آئی اور ہم پھر سے اپنے کام میں جت گئے۔ جلد ہی ہم نے پندرہ فٹ لمبی سرنگ اور بنا لی اس طرح پینتالیس فٹ لمبی سرنگ جب جزیرے کی زمین میں سوراخ بنا کر اوپر کی طرف نکلی تو ہم نے جزیرے کی کھلی زمین پر قدم رکھا۔ چاند نکل آیا تھا اور اس کی ہلکی روشنی میں ہر چیز صاف نظر آ رہی تھی۔ ہمیں لکڑیاں ملیں ضرور مگر سب کی سب سیلی ہوئی تھیں۔ جان نے بتایا کہ دھوپ کے نکلنے کے بعد بھی یہ لکڑیاں گیلی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یقیناً یہاں رات کو پانی آ جاتا ہو گا یا پھر ہو سکتا ہے کہ شاید یہ وہی جزیرہ جس کی ہمیں تلاش ہے۔ کیوں کہ وہ جزیرہ بھی چاند رات کو سمندر میں سے ابھرتا ہے اور پندرہ دن تک پانی کے اوپر رہتا ہے!
مجبوراً ہم نے وہی گیلی لکڑیاں اکٹھی کیں اور سرنگ میں آ کر بڑی مشکل سے وہ مچھلی بھون کر کھائی۔ جب پیٹ بھر گیا تو جسم میں طاقت آ گئی اور وہیں آگ کے قریب بیٹھ کر ہم آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ ہر ایک اس وقت یہی سوچ رہا تھا کہ اب کیا ہو گا؟
جیک نے بہت سوچ بچار کے بعد کہا “میرا خیال ہے کہ ہمیں اس سرنگ ہی میں چھپ کر بیٹھ رہنا چاہئے۔ اس طرح دو فائدے ہوں گے۔ پہلا تو یہ کہ ہم ان دیو نما انسانوں کا کھلونا نہیں بن سکیں گے اور دوسرا یہ کہ کسی آتے جاتے جہاز کو ہاتھ ہلا کر یا سگنل دے کر ہم اسے اپنی مدد کے لئے بلا سکیں گے۔۔۔”
“دوسرا خیال ٹھیک ہے” میں کے کہا “کیوں کہ سرنگ میں چھپے رہنے سے بھی نقصان ہے۔”
“کیسا نقصان۔۔۔؟” جیک نے دریافت کیا۔
“نقصان یوں ہے کہ ہمیں نہ پا کر وہ دیو غصے میں آ جائیں گے اور اگر کسی نے ہماری سرنگ کے اوپر کوئی چٹان وغیرہ گرا دی تو ہمارے لئے بڑی مشکل ہو گی۔ سرنگ اندر سے کھوکھلی ہوا کرتی ہے۔ چٹان کے گرنے سو وہ اندر سے دب جائے گی اور تب ممکن ہے ان پر ہمارا راز فاش ہو جائے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم کسی غار ہی میں پناہ لیں۔”
جان نے میری اس تجویز سے اتفاق کیا اور پھر ہم رات کے اندھیرے میں، چٹانوں کی آڑ لیتے ہوئے، ادھر ادھر غور سے دیکھتے ہوئے کسی غار کی تلاش میں نکلے۔ بڑی جان توڑ کوشش کے بعد ایسا ایک غار مل گیا۔ مگر یہ غار ایک چٹان کے بالکل نیچے تھا اور سمندر اس کے دہانے سے بالکل لگ کر بہہ رہا تھا۔ ہم نے مجبوراً اسی غار کو اپنے لئے پسند کیا۔ ٹارچ یہاں بہت کام آئی۔ ہم نے اسے جلا کر پہلے غار کو دیکھا۔ نہایت صاف ستھرا غار تھا۔ اس میں قدم رکھنے کے بعد ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ چوں کہ ہم بری طرح تھکے ہوئے تھے، اس لئے غار میں پہنچتے ہی فوراً سو گئے۔
ہماری آنکھ اس وقت کھلی جب کہ سمندر کے پانی نے اندر غار میں آ کر ہمارے جسموں کو گیلا کر دیا۔ شاید یہ تیز ہوا کا کرشمہ تھا۔ ہوا نے سمندر میں پھر زبردست طوفان پیدا کر دیا تھا لہریں بوکھلائی ہوئی آتیں اور غار میں جگہ ڈھونڈنے میں ناکام رہ کر پھر واپس چلی جاتیں۔ اس وقت صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ جاگنے کا وقت تو ویسے بھی ہو گیا تھا۔ لیکن اگر لہریں ہمیں اس طرح آ کر نہ اٹھاتیں تو شاید ہم سوتے ہی رہتے۔ ڈرتے ڈرتے ہم لوگ غار میں سے باہر آئے۔ ہمارے سب کپڑے (اگر آپ انہیں چیتھڑے سمجھیں تو بہتر ہو گا) بھیگ چکے تھے اور اب غار میں جگہ بھی نہیں رہی تھی۔ باہر آتے ہی ایک عجیب نظارہ ہمارے دیکھنے میں آیا۔ وہ دونوں دیو غصے میں بھرے ہوئے تھے اور ہمارے قید خانے کے پتھر اٹھا اٹھا کر ادھر ادھر پھینک رہے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ ہمیں قید خانے میں نہ پا کر وہ یہی کریں گے۔ ہم خاموشی سے ایک چٹان کی اوٹ میں کھڑے ہوئے ان کی حرکتیں دیکھ رہے تھے۔
ہمیں ایک ایک جگہ تلاش کرنے کے بعد آخرکار وہ جلدی جلدی پورے جزیرے میں چکر لگانے لگے۔ ان کے ایک قدم کا فاصلہ تقریباً آدھے فرلانگ کا تھا۔ جلد ہی ان میں سے ایک اس جگہ آ گیا جہاں ہم چھپے ہوئے تھے۔ اس وقت ہم لوگوں نے ڈر کے مارے اپنے سانس تک روک رکھے تھے اور سب کے سب چٹان سے بالکل چھپکلی کی طرح چپک کر رہ گئے تھے۔ جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں اس دیو نے شاید ہمیں سونگھ کر پہچانا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے نزدیک ہم زمین کے انسانوں کے جسموں سے کوئی خاص بو نکلتی ہو حقیقت شاید یہی تھی کیوں کہ اس نے جھک جھک کر ہمیں ہر طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ برے پھنسے۔ اگر اس وقت ہم غار ہی میں ہوتے تو یہ کم بخت ہمیں پھر کسی طرح بھی نہ پا سکتا تھا! مگر یہاں کھلے میدان میں کسی بھی وقت ان کی نظروں میں آ جانے کا خطرہ تھا۔!
اور پھر آخر کار یہ خطرہ ہمیں پیش آ ہی گیا۔ اس نے ہمیں دیکھ لیا اور غصے کے مارے اس نے بڑے زور کی چنگھاڑ ماری اور پھر فوراً ہی ہمیں پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ “بھاگو! بھاگو۔” یہ کہہ کر جیک سب سے پہلے اس کی ٹانگوں کے نیچے سے نکل کر بھاگنے لگا۔ دیو اسے بھاگتے دیکھ کر یکایک اس کی طرف پلٹ گیا۔ حالانکہ وہ اپنی پوری قوت سے بھاگ رہا تھا مگر دیو نے ایک قدم بڑھایا تو جیک اس کے دونوں قدموں کے درمیان میں آ گیا دوسرا دیو جیک کو پھنستے ہوئے دیکھ کر ہماری طرف متوجہ ہوا اور پھر آہستہ آہستہ اس نے ہماری طرف اپنا ہاتھ بڑھانا شروع کیا۔
اس وقت وہ سخت غصے میں تھے کیوں کہ ہم نے ان کی مہربانیوں کا نا جائز فائدہ اٹھایا تھا۔ کسے معلوم تھا کہ وہ ہمیں پکڑ کر کیا سلوک کرتے؟ اب جب وہ وقت یاد آتا ہے تو روح لرز جاتی ہے اور سارے جسم میں سنسنی سی دوڑنے لگتی ہے اور میں بڑی دیر تک سوچتا رہتا ہوں کہ کتنے حیرت انگیز اور بھیانک حالات سے مجھے گزرنا پڑا تھا۔! دیو کا ہاتھ اب جان تک پہنچ چکا تھا۔ جیک نے تو خیر بھاگنے کی ہمت بھی کر لی تھی مگر ہم اب بالکل بے بس تھے۔ ہمارے ایک طرف سمندر تھا، دوسری طرف چٹانیں اور تیسری جانب دیو۔ ہم بھاگ ہی نہیں سکتے تھے۔ ملاح بری طرح چیخ رہے تھے اور کبڑا چتین بار بار دیوتاؤں کو یاد کر رہا تھا۔ میں اس زمانے میں بہت زیادہ بہادر تو تھا نہیں اس لئے خوف کے مارے میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
یکایک ایک بہت ہی زور کی چنگھاڑ سنائی دی۔ اتنے زور کی کہ ان دونوں دیوؤں کی چنگھاڑ اس کے آگے کچھ بھی نہیں تھی۔ پتھر لڑھکنے لگے چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں اور جزیرے کی زمین لرزنے لگی۔ ہم نے گردن اونچی کر کے دیکھا۔ اور ہم نے جو کچھ دیکھا اس کے بیان کرنے کو الفاظ نہیں ملتے۔ بس یوں سمجھئے کہ ہمارے اوسان خطا ہو گئے اور جسم کی قوت اچانک ختم ہو گئی۔ ایک تیسرا لیکن سب سے بڑا دیو چٹانوں کے پیچھے سے نمودار ہوا اور آگے بڑھ کر اس نے ایک دیو کا ہاتھ پکڑ لیا، گویا منع کرنا چاہتا ہو کہ ہمیں نہ پکڑے پہلے دونوں دیو اس کے مقابلے میں بچے نظر آتے تھے۔ وہ دونوں سہم گئے اور خوف زدہ نظروں سے آنے والے دیو کو دیکھنے لگے۔ ہم خاموش کھڑے ان تینوں کو دیکھ رہے تھے۔ آنے والے دیو نے فوراً آگے بڑھ کر ان دونوں دیوؤں کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور ہمیں بڑی خاموش لیکن رحم بھری نگاہوں سے دیکھنے کے بعد وہ واپس چلا گیا۔
تب ہمیں معلوم ہوا کہ جن دیوؤں کی ہم قید میں تھے دراصل وہ دونوں تو بچے تھے اور اسی لئے وہ بچوں کی سی حرکتیں کر رہے تھے۔ ہمیں کھلونا سمجھ کر کھیلنا، ہمارے کرتب دیکھ کر خوش ہونا۔ ہمیں اپنے کھلونے (راکٹ) میں بٹھا کر ہوا میں اڑانا اور تالیاں بجانا، یہ سب بچوں کی سی ہی باتیں تو تھیں! جان نے ہمیں بتایا کہ یقیناً آنے والا دیو ان دونوں کا باپ تھا اور انہیں چند انسانوں کو پریشان دیکھ کر فوراً آ گیا اور ہمیں نٹ کھٹ بچوں کی شرارتوں سے بچا لیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد ہم بھی جلدی جلدی ایک اونچی چٹان پر چڑھ گئے۔ تاکہ دیکھیں کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں رہتے ہیں۔ چٹانیں پہلے دیوار بنی ہوئی تھیں اور ان کی وجہ سے ہمیں پہلے جو نہیں دکھائی دیتا تھا وہ بلندی پر آنے کے بعد اب دکھائی دینے لگا۔
ہمارے بالکل سامنے تقریباً ہزار فٹ لمبا ایک بہت بڑا راکٹ کھڑا تھا اس راکٹ کے دروازے کے قریب تیسرے دیو جیسے چار دیو اور کھڑے تھے، جب بچوں کا باپ انہیں گود میں لئے ہوئے دروازے کے اندر داخل ہو گیا تو وہ چاروں بھی جلدی سے راکٹ میں چڑھ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد راکٹ کا نچلا حصہ شعلے اگلنے لگا اور پھر ایک زوردار آواز کے ساتھ راکٹ پلک جھپکتے ہی میں کئی سو فٹ اوپر چلا گیا، چند سیکنڈ تک وہ ہمیں آسمان میں دکھائی دیتا رہا اور پھر تارا بن کر نظروں سے غائب ہو گیا۔ راکٹ کے غائب ہو جانے کے بعد ہم نے اطمینان کا لمبا سانس لیا اور پھر جزیرے پر ایک نظر ڈالی۔ جزیرہ بالکل سنسان تھا۔ آبادی کا ذرا سا بھی نشان نہیں تھا۔ لیکن ایک چیز ایسی تھی جس نے ہم کو حیرت زدہ کر دیا۔ اور وہ چیز کافی فاصلے پر نظر آ رہی تھی۔ درحقیقت یہ عجیب قسم کی تراشی ہوئی چٹانیں تھیں اور اتنی دور سے بالکل انسانوں کے قد آدم مجسمے نظر آتی تھیں۔ جان نے دوربین نکال کر انہیں بغور دیکھا اور پھر حیرت سے کہنے لگا۔
“تعجب ہے کسی صورت سے یقین نہیں آتا۔ کہیں میری نظریں دھوکا تو نہیں کھا رہیں؟”
“کیا بات ہے؟” ہم نے اشتیاق سے ایک ساتھ پوچھا۔
“یہ چٹانیں بڑی خوبی اور مہارت سے انسانوں کی شکل جیسی تراشی گئی ہیں مجسمے ملنا تو خیر حیرت کی کوئی بات نہیں تعجب تو اس پر ہوتا ہے کہ اس ویران جگہ پر یہ مجسمے کیسے آ گئے، اور پھر ایسا لگتا ہے جیسے یہ مجسمے چھوٹے بڑے پتھروں کو جوڑ کر بنائے گئے ہوں کیوں کہ ان میں جوڑ بھی نظر آتے ہیں۔”
“جوڑ۔۔۔؟” میں نے تعجب سے کہا۔
“ہاں فیروز!” جان نے جواب دیا “ان میں جوڑ موجود ہیں اور میرے خیال میں یہ پتھر کے بت ان لوگوں نے بنائے ہیں جو ابھی آسمان میں اڑ کر گئے ہیں؟”
“ہو سکتا ہے۔” میں نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔ “لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ جزیرہ وہی ہے جو چاند رات کو سمندر میں سے نمودار ہوتا ہے تو ان بتوں پر کاہی ضرور جمی ہونی چاہئے۔ جیسے کہ یہاں کی بہت سی چٹانوں پر جمی ہوئی ہے ذرا غور سے دیکھئے کہ کیا ان پر کاہی ہے؟”
جان نے یہ سوچ کر دوربین پھر آنکھوں سے لگائی اور اچانک اس نے مجھے حیرت سے دیکھا اور کہا۔
“نہیں فیروز، تم نے ٹھیک سوچا۔ ان بتوں پر کاہی بالکل نہیں ہے۔”
“اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ وہ جزیرہ نہیں ہے جس کی ہمیں تلاش ہے۔۔۔” جیک نے کہا۔
“مگر پتھر کے ان بتوں کا راز ابھی تک ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔؟” میں نے خوف زدہ نظروں سے اس طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“اور میرا مشورہ یہ ہے کہ ہمیں یہ راز سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرنی چاہئے۔” کبڑے نے جلدی سے کہا۔ “اور جلد سے جلد اس خطرناک جگہ سے دور چلے جانا چاہئے۔”
“بالکل ٹھیک ہے، بالکل ٹھیک ہے۔” ملاحوں نے بھی ایک ساتھ کہا ان کے مطلب کی بات جو تھی!
جان نے پلٹ کر کبڑے کو دیکھا اور پھر کہا “چتین، تم اتنے بہادر ہو کر ایسی باتیں کرتے ہو!”
“ان باتوں سے بہادری کا کوئی تعلق نہیں۔ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ جان بوجھ کر خطرے کے مونہہ میں کودنا مناسب نہیں۔ میں نہ تو بزدل ہوں اور نہ ہی خطروں میں کودنے سے گبھراتا ہوں۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہم جلد سے جلد اس منحوس جزیرے سے دور چلے جائیں کیوں کہ ایسا کرنے سے کم از کم دو فائدے ہوں گے۔”
“کون سے فائدے ہوں گے؟” جان نے جلدی سے پوچھا۔