وہ ہاتھ سے ٹرالی دھکیلتی آگے بڑھ رہی تھی مال میں آئے کافی وقت گزر چکا تھا مگر اسے کچھ پسند ہی نہیں آرہا تھا۔ تاہم گھر کے لیے ضروری سامان لے کر وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھ گئی جہاں بل کی ادائیگی کے لیے ایک لمبی قطار لگی تھی۔
وہ بیزاری سے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر وقت دیکھتی اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔ اتوار ہونے کی وجہ سے مال میں معمول کے مطابق زیادہ رش تھا۔
لوگ ادھر سے اُدھر اپنی اپنی ٹرالی کو دھکیلتے سامان لینے میں مصروف تھے۔ وہ چاروں طرف نظر گھماتی اپنی ٹرالی کو آگے بڑھانے لگی قطار میں کمی تیزی سے واقع ہو رہی تھی کاؤنٹر پر کھڑا لڑکا تیزی سے اپنے ہاتھوں کو کام میں لا رہا تھا۔
وہ ٹرالی کو لیے کاؤنٹر کے سامنے آرکی اور ٹرالی سے سامان نکالتی کاؤنٹر پر رکھنے لگی کہ اچانک ہی اسے خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی اس نے جونہی نظر اُٹھا کر دیکھا تو کاؤنٹر پر کھڑا لڑکا بے باکی سے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
غصّے کی ایک شدید لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی۔ وہ اس وقت برقعے میں تھی حتہ کہ اس نے نقاب بھی لیا ہوا تھا مگر اس سب کے باوجود وہ لڑکا یوں گھور رہا تھا جیسے کوئی ماڈل اس کے سامنے کھڑی ادائیں دیکھا رہی ہو۔
غصّے سے گھورتے اس نے کھری کھری سنانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ فائرنگ کی آواز نے پورے ماحول میں سکتہ طاری کر دیا۔
مال کے داخلی دروازے سے اندر آتے وہ پنتیس چھتیس افراد میں سے ایک شخص نے ہوائی فائرنگ کر کے سب کو دہشت و خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ سب اپنی اپنی گن ہاتھ میں لیے مال میں پھیلتے چلے گئے۔ عورتوں بچوں کو یرغمال بنا کر بندوق ان کے سروں پر تان دی تھی۔
” کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا۔ اگر کسی نے زرا سی بھی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو اُس کو یہیں بھون کر رکھ دینگے۔” فائر کرنے والا آدمی کہتا ہوا آگے بڑھا اور کیشیر کے پاس آکر رک گیا۔
” وہ جلدی سے اپنی ٹرالی پیچھے گھسیٹتی دو قدم دور ہوئی تھی۔”
” تیرا مالک کہاں ہے؟ ” اس آدمی نے کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر پوچھا۔
” ج۔۔جی۔۔ وہ تو بس مہینے میں ایک ادہ بار ہی چکر لگا کر حساب کتاب دیکھتے ہیں۔” کیشیر ہکلاتا ہوا بولا۔
” ہنہہ !! لگتا ہے تیرے مالک کو اپنا دھندا کچھ عزیز نہیں ہے اور نہ ہی تم ملازموں کی کوئی پرواہ ہے تبھی تو ہمارے دادا کے ہاتھوں تم لوگوں کو موت کے منہ اُتارنے کا انتظام کر رکھا ہے۔” وہ ہنکار بھرتے ہوئے بولا اور اس لڑکے کو گریباں سے پکڑ کر سر سے اوپر اُٹھ دیا۔
سب اس لڑکے کے آنے والے خوفناک منظر کا سوچ کے لرزنے لگے تھے۔ وہ آدمی لڑکے کو ہوا میں اُٹھائے دور زمین پر اچھالتا کہ اس سے پہلے کسی کی گرج دار آواز نے سب کے دل دہلا کر رکھ دیے۔
” چھوڑ دو اسے غفار۔” اس گرج دار آواز کے بعد ماحول میں سکوت طاری ہو گیا تھا۔ ماحول میں چھائے سکوت کو اس شخص کے بوُٹ کی آواز نے توڑا تھا۔ دراز قد، ورزشی جسم، کالے بال، کالی گہری آنکھیں، مغرور ناک سرخ سفید رنگت کا حامل وہ شخص کسی ریاست کا بادشاہ لگتا تھا۔مگر وہاں موجود لوگوں کو وہ “ملک الموت” ہی لگ رہا تھا۔ وہ چلتا ہوا اپنے آدمی کے پاس آیا۔ اس شخص کے کہتے ہی غفار لڑکے کو نیچے اُتار کر ادب سے ایک طرف ہوگیا تھا۔ وہ شخص آگے بڑھتا ہوا کیشیر کی طرف آیا۔
وہ ابھی تک کاؤنٹر کی طرف ہی کھڑی تھی۔ اس دل دہلا دینے والے ماحول نے سب کو ماؤف کر دیا تھا کوئی بھی شخص کچھ سوچنے سمجھنے کی حالت میں نہیں تھا۔ وہ شخص سرسری سی نظر اس لڑکی پر ڈالتا کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے سے مخاطب ہوا۔
” اگر آج شام تک تمہارا مالک میرے اڈے پر حاضری دینے نہ آیا تو بتا دینا اُسے کل کی صبح صرف اُسے نہیں بلکہ اُس کے پورے خاندان کو نصیب نہیں ہوگی۔”سمجھ میں آیا کچھ یا اپنے طریقے سے سمجھاؤں؟ ”
“ج۔۔۔ جی۔۔ جی سمجھ گیا ” کردم دادا “۔ کیشیر نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
کردم دادا نے ایک بار پھر سرسری نظر اس لڑکی پر ڈالی جو ان لوگوں کی طرف ہی متوجہ تھی۔ وہ پلٹ کر خارجی دروازے کی طرف بڑھ گیا مگر جاتے جاتے ایک بار پھر دروازے سے باہر نکلنے سے پہلے رک کر اس لڑکی کی طرف دیکھا تھا جس کی نظریں بھی اسی پر جمی تھیں۔ وہ دروازہ عبور کرتا باہر نکل گیا۔ اس کے ماتحت بھی اس کے پیچھے چل دیے۔
ان کے جاتے ہی ماحول کا سکتہ ٹوٹا تھا لوگوں میں افراتفری مچ گئی تھی سب اپنا اپنا سامان وہیں چھوڑ کر مال سے باہر نکلنے کے لیے خارجی دروازے کی طرف بھاگے۔
وہ بھی سامان وہیں چھوڑتی خارجی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
۔***********۔
وہ تھکی ہاری گھر میں داخل ہوئی آج کہ واقعے نے اس پر بھی خوف طاری کر دیا تھا۔ وہ ابھی بھی اس واقع کو سوچ رہی تھی جب ماں کی آواز اسے سوچ کی دنیا سے باہر لائی۔
” کتنی دیر لگا دی ” آئینور ” تم نے۔۔ میں کتنا پریشان ہوگئ تھی اور دیکھو خالی ہاتھ آئی ہو جب کچھ لیا ہی نہیں تو تم اتنی دیر سے کہاں تھیں؟ ”
رخسار بیگم نے اسے دیکھتے ہی پریشانی سے سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔
” کچھ نہیں ماما بس آپ کو تو پتا ہے نہ مجھے کچھ اتنی جلدی پسند نہیں آتا۔ میں پورا مال میں گھوم کر آ گئی لیکن کچھ پسند نہیں آیا اس لیے دیر ہو گئی اور بغیر کچھ خریدے ہی واپس آگئی۔”
آئینور نے رخسار بیگم کو پریشان دیکھ کر سچ بتانا مناسب نہ سمجھا ورنہ وہ اور پریشان ہو جاتیں۔
” اچھا چلو ٹھیک ہے تم منہ ہاتھ دھو کر آؤ میں کھانا لگاتی ہوں۔”
” جی ٹھیک ہے۔” وہ اثبات میں سر ہلاتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ رخسار بیگم بھی کھانا لگانے کچن کی جانب بڑھ گئیں۔
۔***********۔
کمرے میں آکے وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنا نقاب اُتارنے لگی تھی کہ تبھی اس کے ذہن میں اس لڑکے کا خیال آیا جو کاؤنٹر پر کھڑا اسے گھور رہا تھا۔ وہ آئینے میں خود کو دیکھنے لگی نقاب سے جھانکتی آنکھیں اتنی حسین تو نہ تھیں کہ مقابل نظریں نہ ہٹا پائے مگر نہ جانے کیوں غلطی سے بھی جب کوئی ایک نظر ان پر ڈالتا تھا تو دوبارہ نظر ڈالنے سے خود کو روک نہیں پاتا تھا۔ یہ آنکھیں ہرن جیسی بڑی اور حسین تو نہ تھیں درمیانی آنکھیں تھیں البتہ لمبی ضرور تھیں۔ یہ گہری بھوری آنکھیں ایک ایسی کشش رکھتی تھیں کہ نقاب پوش ہونے کے بعد بھی مقابل نظریں جمانے پر مجبور ہوجاتا تھا۔
” یہ مرد ہوتے ہی ایسے ہیں نقاب کرنے کے باوجود گھورتے رہتے ہیں پتا نہیں کیا نظر آتا ہے۔ نفس پرست کوئی دین ایمان ہی نہیں ہوتا ان کا۔” آئینور سر جھٹکتی برقعہ اُتارنے لگی ساتھ میں بڑبڑا بھی رہی تھی تبھی کھانے کے لیے بلانے آتی رخسار بیگم کے کانوں میں اس بڑبڑاہٹ پہنچی تو پوچھے بغیر نہ رہ سکیں۔
” کیا ہوا کیوں بڑبڑا رہی ہو کچھ ہوا ہے؟؟ ” انہوں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا جو الماری میں گھسی برقعہ رکھ رہی تھی۔
“کچھ نہیں بس مال میں وہ کیشیر مجھے ایسے گھور رہا تھا جیسے میں کوئی چلتی پھرتی ماڈل ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا نقاب میں بھی ان لڑکوں کو کیا نظر آتا ہے جو یوں گھور رہے ہوتے ہیں۔” وہ جھنجھلاہٹ سے کہتی بیڈ پر جاکے بیٹھ گئی۔
” اصل میں ان لڑکوں کا قصور نہیں ہے میری بیٹی کی آنکھوں میں ہی ایسی کشش ہے جو سامنے والے کو نظریں نہ ہٹانے پر مجبور کر دیتی ہے۔” رخسار بیگم اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
“ماں کی اندھی محبت… ایسی بھی کوئی ہرن جیسی بڑی آنکھیں نہیں کے لوگ ان سے نظر نہ ہٹا سکیں ہاں لمبی ضرور ہیں لیکن اس سے کیا ہوتا ہے۔” آئینور نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ اس کے اسطرح بولنے پر رخسار بیگم مسکراہٹ دباتی گویا ہوئیں۔
” کشش کا تعلق چہرے کے نقوش سے نہیں ہوتا۔ یہ ایک الگ شے ہے۔ جو عام سے نقوش میں بھی جان ڈال دیتی ہے۔ انھیں خوبصورت، جاذب نظر بنا دیتی ہے۔ اچھے سے اچھے نقوش والے میں اگر اللّٰه کشش نہ رکھے تو وہ کبھی نظروں کو بہا نہیں سکتا اور عام سے عام نقوش والے میں اگر اللّٰه کشش ڈال دے تو اسے منظورِ نظر بنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔”
رخسار بیگم کی باتوں نے اسے لاجواب کر دیا تھا۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھیں وہ ہر ایک کے منہ سے اپنی تعریف سنتی آئی تھی نقاب کرنے کے باوجود مردوں کو اپنی طرف متوجہ پایا تھا۔ یہ کشش ہی تو تھی جو برقعہ پہن کر بھی وہ خوبصورت لگتی تھی۔
” اب کیا ہوا کہاں کھو گئیں؟ ” اس کو خاموش بیٹھا دیکھ رخسار بیگم نے پوچھا۔
” کچھ نہیں آپ نے کھانا لگا دیا؟ مجھے بھوک لگی ہے۔”
” ارے ہاں میں تمہیں کھانے کے لیے ہی بلانے آئی تھی مگر باتوں میں بھول ہی گئی۔” رخسار بیگم نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
” کوئی بات نہیں آپ چلیں میں بس ہاتھ منہ دھو کر آئی۔” وہ مسکرا کر کہتی واش روم میں چلی گئی۔ رخسار بیگم بھی” ٹھیک ہے” کہتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔
۔***********۔
ہاتھ میں ریموٹ پکڑے صوفے پر بیٹی وہ مسلسل چینلز بدلنے میں لگی تھی تبھی اس کی نظروں سے ایک نیوز چینل گزرا جس پر آج مال میں ہونے والے واقع کی خبر چل رہی تھی جس میں یہ بھی بتایا جارہا تھا اس واقعے کے بعد کچھ عرصے کے لیے مال کو بند کردیا ہے۔
” ہنہہ !! یہ نیوز والے بھی پوری واردات ہونے کے بعد خبر پہنچاتے ہیں تب کہاں تھے جب وہ گینگسٹر مال میں گھسے تھے۔” وہ سوچ ہی رہی تھی جب رخسار بیگم کی آواز پر فوراً چینل بدل دیا۔
” بیٹا میں سوچ رہی تھی کچھ دنوں کے لیے لاہور جا کر تمارے پاپا سے مل آئیں۔” رخسار بیگم ہاتھ میں چائے کی ٹرے تھامے کمرے میں آتے ہوئے بولیں۔
” وہ بھی تو کراچی آ سکتے ہیں نا مگر جب اُنہیں ہماری پرواہ نہیں ہے تو ہم کیوں جائیں؟ رہنے دیں اُنہیں وہاں اکیلا۔” اس نے تلخی سے کہتے ہوئے ٹی وی بند کر دیا۔
” بُری بات آئینور وہ باپ ہیں تمہارے۔” رخسار بیگم نے اسے ڈپٹا۔
” ہاں جسے اپنی فیملی کی پرواہ تک نہیں۔” آئینور نے تلخی سے کہا۔
” اچھا ان باتوں کو چھوڑو لیکن یاد رکھنا ہم ضرور ایک دو دن میں جائینگے بس۔” رخسار بیگم نے دوٹوک انداز میں کہا تو وہ بس منہ بسور کر رہ گئی۔
” اچھا ایک اور بات تو سنو۔” رخسار بیگم اس بار اس کے چہرے پر نظریں جمائے گویا ہوئیں۔
” جی۔” وہ چائے پیتے ہوئے بولی۔
“وہ پڑوس میں بخت باجی ہیں نا “۔۔۔ وہ رکیں تھوک اندر نگلا۔
” ہاں ہیں تو پھر؟ ” وہ بے نیازی سے بولی۔
” تو انہوں نے تمہارے لیے اپنے بیٹے کا رشتہ بھیجا ہے۔” وہ ایک سانس میں اپنی بات مکمل کر گئیں۔
آئینور آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھ رہی تھی۔ غصّے کی ایک شدید لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔ وہ چائے کا کپ ٹرے میں رکھتی وہاں سے اُٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔
“مطلب بخت باجی کو انکار کرنا ہے۔” رخسار بیگم اس کو جاتا دیکھ گہرا سانس لیتے ہوئے بڑبڑائیں۔
۔***********۔
” دادا ڈرگز ابھی اڈے پر نہیں پہنچے پاشا کے آدمی نے اپنے آدمیوں کے زریعے بحری جہاز پر حملہ کر کے اپنے قبضے میں کرلیا۔”
کردم ساحلی سمندر کے قریب والے اڈے پر تھا جب غفار نے آکر اسے خبر دی۔ وہ تیش سے سامنے موجود ٹیبل پر ہاتھ مارتا اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے دھاڑا۔
” تم لوگوں سے ایک کام بھی ٹھیک سے نہیں ہوسکتا۔” اس کی دھاڑ پر غفار دو قدم پیچھے ہوا۔
” سارا کام خراب کر کے رکھ دیا۔ اس پاشا کو تو میں اب کسی صورت میں نہیں بخش نے والا جنگ کا آغاز اس کی طرف سے ہوا ہے مگر ختم میں کرونگا۔”
” معلوم کرو وہ آگے کیا لایا عمل طے کرنے جارہا ہے۔ کوئی تو اس کی دُکھتی رگ ہوگی؟ ” کردم ہاتھ سے ماتھا مسلتے ہوئے بولا۔
” دادا میں نے معلوم کیا ہے اس کی بھانجی ہے جو کراچی گئی ہوئی ہے۔ آج لاہور واپس آرہی ہے۔ مرحوم بھائی بھابھی کی ایک لوتی نشانی ہے۔” اس نے کہتے ہوئے ایک تصویر اس کے سامنے کی۔ غفار کی دی ہوئی خبر اور اس تصویر کو دیکھتے ہی ایک فاتحانہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی۔
” ٹھیک ہے۔ معلوم کرو یہ لاہور جہاز کے زریعے آرہی ہے یا ٹرین کے زریعے؟ ”
” دادا میں ساری معلومات حاصل کر کے آیا ہوں۔ وہ ٹرین کے سفر کی زیادہ شوقین ہے ٹرین سے واپس لاہور آرہی ہے۔” غفار کی بات پر فاتحانہ مسکراہٹ سے بولا۔
“بہت خوب !! تو کب آرہی ہے پھر ہماری مہمان؟ ”
” دادا دو بجے کی ٹرین سے۔”
کردم دادا نے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی جو ڈیرھ بجا رہی تھی۔
” ٹھیک ہے۔ گاڑی نکالوں اپنی مہمان کو لینے میں خود جاؤں گا۔”
“جی دادا ” غفار مودبانہ انداز میں کہتا وہاں سے چلا گیا۔
کردم ہاتھ میں تصویر پکڑے دیکھتا ہوا بولا۔
” تمہیں یہ دشمنی بہت مہنگی پڑے گی پاشا۔” وہ حقارت سے کہتا اسٹیشن جانے کے لیے نکل گیا۔
۔**********۔
لاہور کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی کتنی ہی یادیں کسی فلم کی طرح اس کی نظروں کے سامنے سے گزریں۔ رخسار بیگم کے کہنے پر مجبوراً اسے ہتھیار ڈالنے پڑے اور آج وہ لاہور کے اسٹیشن پر کھڑی اپنی زندگی کے بارے ميں سوچنے لگی تھی۔ کتنی بے رنگ زندگی تھی اس کی۔ جس جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ کر لڑکیاں اپنی خوبصورت زندگی کے جواب سجاتی ہیں اس نے اس عمر میں اپنے اندر ویرانیوں کو پایا۔ وہ چھوٹی سی لڑکی جس کی شکل پر معصومیت اور مسکراہٹ میں شرارتی پن کا راج تھا وہیں اس کی گہری بھوری آنکھوں کی اُداسی سب سے مخفی رہی تھی۔
” کیا ہوا ؟ ” سامان ہاتھ میں لیے رخسار بیگم نے اس کا شانا ہلایا تو وہ خیالوں کی دنیا سے باہر نکلی۔
” کچھ نہیں۔ سارا سامان لے لیا ؟ ” اس نے فوراً بعد بدلی۔
“ہاں !! بس ٹیکسی دیکھ لوں پھر چلتے ہیں۔ تم یہاں رکو میں ٹیکسی دیکھتی ہوں۔”
” ٹھیک ہے۔” وہ اثبات میں سر ہلاتی وہیں کھڑی ہوکر رخسار بیگم کو جاتی دیکھتی رہی۔
۔***********۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...