میں اس دریا کا ذکر قدرے تفصیل کے ساتھ کرنا چاہوں گا۔
اس کے دونوں کنارے کئی سنگلاخ پہاڑ ہیں جو بہت زیادہ اونچے نہیں اٹھتے۔ ان پہاڑوں میں ننگی چٹانوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاں، ان کے نیچے کے میدانوں میں کافی گہری ڈھلانیں ہیں جن پر سال کے پرانے جنگلوں کے شانہ بہ شانہ یوکلپٹس کے پیڑ لہراتے رہتے ہیں جنھیں محکمہ جنگلات نے اگایا ہے۔ ان ڈھلانوں سے دریا جیسے جیسے نیچے کی طرف اترتا گیا ہے وہ کشادہ ہوتا گیا ہے، مگر اوپر کی طرف جہاں مسعودہ کا گاؤں واقع ہے اس کے پانی میں بھنور بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ مگر یہ اپنے آپ میں اتنا اہم نہیں جتنی یہ بات کہ اس کے دونوں کنارے کی ڈھلانوں پر سال کے درختوں کے بیچ کچھ پرانے مکانوں کے کھنڈر اب بھی کھڑے ہیں۔ ان گھروں کے یہاں بنانے کی کیا وجہ رہی ہو گی اور وہ کیا مجبوری رہی ہو گی کہ لوگ نقلِ مکانی پر مجبور ہوئے؟ اس دریا کا پانی بہت زیادہ گہرا ہے، مگر کنارے کی طرف اس کا پانی کافی گاڑھا ہو کر کہیں کہیں رک سا گیا ہے جس میں طرح طرح کے رنگ تیرتے رہتے ہیں جنھوں نے پانی سے نکلی ہوئی چٹانوں کے زیریں حصوں میں عجیب طرح کی مصوری کر رکھی ہے۔ یہ رنگ شاید ان کل کارخانوں کی دین ہوں جو پہاڑوں کے سبب نظر نہیں آتے یا شاید کسی تھرمل پاور اسٹیشن کا گندا مواد بہتا ہوا آ گیا ہو۔ ان رنگین کناروں میں ناگ پھنی کے پودے دور تک چلے گئے ہیں۔ جگہ جگہ پانی سے فرن کے رنگین پتے بھی نکلے ہوئے ہیں جو، جیسا کہ مسعودہ نے بتایا، بارش کے دنوں میں پانی کے اندر ڈوب جاتے ہیں۔ آخر ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ اور تم ایک دریا سے کیا امید رکھتی ہو؟ میں نے اس سے پوچھا۔ تم اس کے پانی کو سمجھنے کی کوشش مت کرو، اس نے جواب دیا۔ میں اپنے بچپن سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتی آئی ہوں۔ یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ اس کا یہ جواب میری تشفی کے لئے کافی نہ تھا۔ اس کے گاؤں نے مجھے بہت زیادہ متاثر بھی نہیں کیا۔ اس میں نہ کوئی پچ کا راستہ تھا نہ کوئی سرکاری نل۔ ایسا لگتا ہے جیسے سرکار کے تمام ترقیاتی منصوبے یہاں آنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ زیادہ تر گھروں کی چھتیں ٹن کی تھیں۔ اس میں بجلی بس ایک دو گھنٹے کے لئے آتی جس کے لئے زیادہ تر لوگ ہُک کا استعمال کرتے۔ اس کے اپنے گھر میں کم و بیش وہی حالات تھے جن سے اپنا پیدائشی وطن واپس لوٹنے پر میری ماں کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہم نے اوبڑ کھابڑ راستوں پر سرکاری بس کا ایک لمبا سفر طئے کیا تھا اور بہت دیر سے پہنچے تھے جب سورج کا خون ہو چکا تھا اور آسمان کی گہرائیوں سے اندھیرا اتر رہا تھا۔ مسعودہ کے کمرے کو کسی طرح رات گذارنے کے قابل بنا کر ہم نے اپنے ساتھ لایا ہوا کھانا کھایا۔ دوسری صبح وہ سویرے سویرے جاگ گئی۔ گھر صاف کرنے میں اسے آدھا دن لگ گیا۔ اس کے کمرے میں پرانے دنوں کے کئی بھاری فرنیچر تھے جن کے پایوں اور لٹووں پر کی گئی کاریگری نے مجھے حیران کر دیا۔ کیا ان دنوں لوگوں کے پاس اتنی فرصت تھی؟ گھر کے دوسرے لوگوں نے ہم سے گفتگو کرنے سے احتراز کیا تھا۔ ہم اب بھی شہر سے لایا ہوا کھانا کھا رہے تھے۔ دن ختم ہو رہا تھا جب ہم کچھ ضروری سامان خریدنے بازار گئے۔ بازار ہمیں پسند آیا۔ وہ ایک کافی پرانی مسجد کے احاطے کے گرد بنا ہوا تھا۔ مسجد کے بیرونی برامدے پر درزی اپنی مشینوں پر بیٹھے کپڑے سی رہے تھے۔ برامدے کی کئی سیڑھیاں تھیں جن میں سے ایک پر ایک نانبائی کی دکان تھی۔ بازار میں ضرورت کے تقریباً سبھی سامان موجود تھے۔ دھیرے دھیرے گھر کے لوگوں کو میں پہچاننے لگا۔ ایک بوڑھی عورت تھی جس کا چہرا چھوارے کی طرح سوکھا ہوا تھا۔ اس کے بال کافی لانبے تھے جنھیں وہ چارپائی کے ادوائن پر پھیلا کر ہمیشہ ان سے جوئیں نکالا کرتی۔ میں نے ایک دن اس سے بات کرنے کی کوشش کی تو مجھے پتہ چلا وہ نپٹ بہری تھی۔ میں نے اس کے لئے ایک ساری خریدی۔ میں نے ایک تیرا چودہ برس کی لڑکی کو دیکھا جو حمل کے آخری اسٹیج پر تھی اور ہمیشہ رنگین ساری پہنے رہتی۔ مجھے پتہ چلا گاؤں کے پچھلے پیش امام کے ساتھ اس کی شادی کر دی گئی تھی جو اس کے حمل کے ٹھہرنے کے بعد اچانک ایک دن لا پتہ ہو گیا تھا۔ مسعودہ نے بتایا کہ یہ اس پیش امام کا پرانا پیشہ تھا جس کا پتہ گاؤں والوں کو اس کے جانے کے بعد چلا تھا۔ وہ اسی طرح ہر گاؤں میں کنوارا بن کر نمودار ہوتا اور اپنی جڑیں چھوڑ جاتا۔ باقی عورتیں مجھے دیکھتے ہی لمبے گھونگٹ نکال لیتیں۔ دھیرے دھیرے بچے میرے قریب آنے لگے۔ میں ان کے لئے پلاسٹک کے سستے کھلونے اور بسکٹ لایا کرتا، اینٹیں سجا کر ان کے ساتھ کرکٹ کھیلتا۔ گھر کے زیادہ تر مرد شہروں میں کام کرتے تھے اور مہینہ میں ایک دو دن کے لئے گھر آتے تو سارا وقت اپنی بیوی کے پاس بیٹھے رہتے بلکہ دن میں بھی کمرے میں ایک آدھ بار بیوی کے ساتھ بند ہونے سے نہیں جھجکتے۔ انھوں نے ہمارے رشتے کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا تھا، مگر یہ بات وہیں پر ختم ہو گئی تھی۔ شاید ہمارے سلسلے میں ان کے اندر کچھ شبہات تھے جنھیں الفاظ کی شکل دینے کے لئے ان کے اندر طاقت نہ تھی۔ میں نے بھی جان بوجھ کر ان سے دوری قائم رکھی۔ شروع شروع میں مسعودہ نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔ پھر ایک دن اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے کہا، میں ٹھیک نہیں کر رہا ہوں، مجھے ان بچوں سے دور رہنا چاہئے۔ اس سے پیچیدگیاں بڑھ سکتی ہیں۔ وقت کاٹنے کے لئے میں گاؤں کے اندر اکیلا گھوما کرتا۔ مگر یہ گاؤں اتنا چھوٹا تھا کہ جدھر بھی جاؤ راستہ بہت جلد ختم ہو جاتا اور پھر چھوٹے موٹے تالاب نظر آنے لگتے یا بانس کے جھنڈ جن کے پیچھے سبزی کے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا جہاں پر دلچسپی کے لائق کچھ بھی نہ تھا سوائے پرانی شرٹ اور پتلون پہنے ہوئے اُن بھچکاگ کے جو سر کی جگہ ہانڈیاں اٹھائے بانس پر کھڑے نظر آتے مگر پرندے ان سے ڈرنے کی بجائے عین ان کے سروں پر بیٹھے اپنی چونچ سے ان پر نشان لگایا کرتے۔ کبھی کبھار دریا کے کنارے کنارے چلتا ہوا میں سال کے جنگل میں چلا جاتا اور بوسیدہ گھروں کے کھنڈروں کے درمیان چکر لگایا کرتا۔ ان گھروں کی زیادہ تر دیواریں ڈھ چکی تھیں، چوکھٹ اور روشندان نکال لئے گئے تھے مگر ان کے باغیچوں کے اندر کھڑے پیڑ اب بھی گھنے تھے جن میں ایک پر میں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا شہد کا چھتہ لٹکتے دیکھا۔ ان کھنڈروں کے اندر چینٹیوں نے مٹی کے کافی بڑے بڑے ٹیلے بنا رکھے تھے جن میں سے کسی کسی نے تو کسی پیڑ کے تنے کو نصف حصے تک ڈھک رکھا تھا۔ یہاں بھی ناگ پھنی کے پودے تھے مگر اب انھیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے انھیں کوڑھ کی بیماری ہو گئی ہو جن کے پھوڑوں سے پیب نکل رہی ہو۔ مجھے یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ کبھی ان کھنڈروں میں زندگی کی چہکاریں گونجا کرتی ہوں گی۔ بلکہ ایک جگہ کھڑے ہو کر مجھے ایسا لگا جیسے میں ان آوازوں کو سن سکتا ہوں۔ مگر بہت جلد مجھے پتہ چل گیا کہ یہ شہد مکھی کا ایک چھتہ تھا جہاں سے یہ آواز آ رہی تھی۔ یا پھر کون جانے یہ میرا تصور بھی ہو سکتا تھا۔ شاید کوئی ان دیکھا بھنورا آس پاس بھنبھنا رہا ہو۔ ایک دن میں نے مسعودہ سے کہا کہ میں اس دریا کو اور اس کے کنارے کے کھنڈروں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس نے مجھے ایک بار پھر ہوشیار کیا کہ میں اس دریا سے دور رہوں تو بہتر ہے۔ اس میں ہر سال کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ میری سمجھ میں اس کی بات نہیں آئی۔ وہ کیا کہنا چاہتی تھی۔ یہ ایک معمولی سا دریا ہی تو تھا، شاید ایک بڑا سا پہاڑی نالا جس میں پانی کا اچھا ذریعہ تھا اور جو کہیں کہیں چٹانوں کے بیچ کسی کنویں کی طرح گہرا ہو گیا تھا۔ مگر مجھے بہت جلد پتہ چل گیا کہ اس کا کہنا صحیح تھا۔ ہمیں وہاں آئے کئی ماہ ہو چکے تھے۔ رہ رہ کر وہ بیمار پڑنے لگی تھی اور گاؤں کے واحد ہومیو پیتھی ڈاکٹر کی دائمی مریض بن چکی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا، اس کا ٹیومر اپنا جلوہ دکھانے لگا ہے، مگر اسے زیادہ خطرہ اس کے پھیپھڑوں سے ہے جو کاغذ کی طرح سوکھ چکے ہیں۔ مگر وہ میری دوا سے ٹھیک ہو جائے گی۔ میں نے اس سے بھی خراب مریضوں کو ٹھیک کیا ہے۔ مجھے یہ جاننے میں دیر نہ لگی کہ اس کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی۔ پہلے وہ سائکل پر چوری کا کوئلہ ڈھویا کرتا تھا، لیکن کوئلے سے زیادہ اسے لوگوں کی بیماریوں سے دلچسپی ہو گئی۔ تو اس نے ہومیو پیتھی کی دوا کے بارے میں جاننا شروع کر دیا۔ اس نے کچھ دنوں تک ایک ہومیو پیتھ کے یہاں پڑیا باندھنے کا کام کیا اور پھر اس دور دراز گاؤں میں یہ پیشہ اختیار کر لیا۔ میں نے سوچا، اس کام کے لئے اس گاؤں کا انتخاب صحیح تھا۔ یہاں پر کوسوں دور تک کوئی تھانہ تھا نہ پولس کی چوکی۔ اور پھر ملک کے ہر گاؤں کی طرح اس گاؤں کو بھی ایک نیم حکیم کی ضرورت تھی۔ یہ اس کا ایک بنیادی حق تھا۔
مسعودہ ایک لمبی بیماری کے بعد کچھ دنوں سے کافی اچھا محسوس کر رہی تھی۔ گرمی کا موسم ختم ہو رہا تھا۔ اس دن دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم کافی گہری نیند سو گئے۔ میں جاگ کر باہری برامدے میں مٹی کے گھڑے کے ٹھنڈے پانی سے منہ دھو رہا تھا جب میں نے دیکھا گھر کے سارے دروازے بند پڑے تھے۔ میں آنگن میں آیا۔ گھر پر کوئی فرد نظر نہیں آ رہا تھا۔ صرف بوڑھی عورت اپنی چارپائی پر بیٹھی اپنے لمبے سن کی طرح سفید بالوں میں تیل لگا رہی تھی۔ یہ اس کی موت سے سات ماہ پہلے کا واقعہ تھا۔ وہ ابھی ابھی نہا کر اٹھی تھی۔ اس نے مسکرا کر مجھے اپنی ساری دکھائی جسے اس نے غسل کے بعد اپنے جسم پر لپیٹ رکھا تھا۔ یہ میری دی ہوئی ساری نہ تھی، مگر وہ شاید ایسا ہی کچھ سمجھ رہی تھی۔ میں باہر آیا تو سامنے کا کچا راستہ اور اس کے کنارے کے اوکھ کے کھیت اور ٹن کے چھپروں والے اکے دکے گھر قبرستان کی طرح خاموش نظر آئے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سارا گاؤں ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا ہو۔ میں نے مسعودہ کو نیند سے جگا کر جب اس واقعے کے بارے میں بتایا تو پہلے تو اس کا چہرا فق پڑ گیا، پھر اس نے کہا، ہم اسے زیادہ اہمیت نہیں دے سکتے۔ میری دوا ختم ہو چکی ہے۔ کیا تم میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلو گے؟ اس نے میرے لئے چائے بنائی۔ ہم نے کپڑے بدلے اور بازار کی طرف چل دئے۔ بازار میں زیادہ تر دکانیں بند تھیں۔ جو کھلی تھیں وہ سنسان پڑی تھیں۔ خود وہ ہومیو پیتھی کا جعلی ڈاکٹر بھی غائب تھا جب کہ اس کا مطب کھلا ہوا تھا جو مسجد کے ایک کمرے میں واقع تھا۔ اس کی سائکل باہر اپنی جگہ کھڑی تھی۔ ہم وہاں اس کا انتظار کر رہے تھے جب مسجد کا لکڑی کا پھاٹک کھول کر ایک دبلا پتلا آدمی باہر آیا جس کے سر پر ایک بھی بال نہ تھا۔ اس نے بتایا کہ تمام لوگ دریا کی طرف گئے ہوئے ہیں۔ جب ہم نے سبب جاننا چاہا تو اس نے آسمان کی طرف اشارا کیا جس میں چیل اور کوے اڑ رہے تھے۔ ہم نے آسمان سے نظریں ہٹائیں تو دیکھا وہ آدمی جا چکا تھا۔ چونکہ ہم دوا لئے بغیر واپس نہیں لوٹ سکتے تھے ہم بھی دریا کی طرف ہو لئے۔ ہم دریا سے تھوڑے فاصلے پر تھے جب ہم نے محسوس کیا آسمان میں چیل اور کوے اچھی خاصی تعداد میں اڑ رہے تھے جوان ویرانوں کے لئے حیرت کی بات تھی۔ ہمیں دریا کے دونوں کنارے لوگوں کا بھاری ہجوم نظر آیا جیسے وہاں پر کوئی میلا لگا ہوا ہو۔ لوگ بہتے پانی پر نظریں ٹکائے کھڑے تھے اور وقفے وقفے سے شور مچا رہے تھے۔ وہ رہ رہ کر انگلی سے دریا کی طرف اشارے کرتے جاتے۔ اگلی بار شور اٹھا تو لوگوں کی انگلیوں کا تعاقب کرتے ہوئے ہم نے دیکھا دریا کے پانی میں کوئی بھاری چیز بہتی ہوئی آ رہی تھی۔ یہ ایک جانور کا مردہ تھا۔ وہ عین ہمارے سامنے سے گذرا۔ یہ ایک سور تھا جس کا پیٹ اور ٹانگیں اوپر کی طرف اٹھی ہوئی تھیں اور ایک کان پتوار کی طرح پانی کو تھپیڑے لگاتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ لوگوں میں ایک بار پھر شور پیدا ہوا۔ یہ ایک دوسرا سور کا مردہ تھا جو اس کے پیچھے پیچھے بہتا ہوا آ رہا تھا۔ اتنی دوری سے وہ دریا کے جسم پر کسی پھوڑے کی مانند نظر آ رہا تھا۔ ’’وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے بہتے آ رہے ہیں۔‘‘ کسی نے ہمارے کانوں میں سرگوشی کی۔ ہم دیر تک اپنی جگہ کھڑے رہے۔ واقعی دریا میں رہ رہ کر سوروں کے مردے بہتے آ رہے تھے بلکہ اب تو ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہ مردے پانی پی کر پھول کر کپا ہو رہے تھے، ان میں سے زیادہ تر جانوروں کے بدن اس قدر سڑ گل چکے تھے کہ ہوا میں سڑاندھ پھیلنے لگی تھی۔ دیکھتے دیکھتے مردے تعداد میں اتنا زیادہ ہو گئے کہ لوگوں نے چلانا بند کر دیا اور دریا سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے بدبو سے بچنے کے لئے اپنی ناک پر کپڑا یا ہاتھ رکھ لیا تھا اور اپنی جگہ خاموش کھڑے ان کی طرف تاک رہے تھے۔ مردے پانی میں چکر لگا رہے تھے، کناروں سے ٹکرا رہے تھے، ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے، کبھی کبھار کوئی مردہ کسی چٹان سے ٹکرا کر رک جاتا، مگر پھر پیچھے سے پانی کا ایک زبردست ریلا آتا یا کوئی دوسرا مردہ آ کر اس سے ٹکرا جاتا اور وہ چٹان کے گرد چکر کاٹ کر دوبارا اپنے سفر پر روانہ ہو جاتا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسیے اوپر کی طرف بستیوں میں سوروں کے اندر کوئی بھاری وبا پھیل گئی ہو۔
’’یہ سچ نہیں ہو سکتا۔‘‘ مسعودہ مجھ سے لپٹی ہوئی خوفزدہ نظروں سے سور کے مردوں کی طرف تاک رہی تھی جو کنارے کی کیچڑ یا ناگ پھنی کے پودوں سے اٹک گئے تھے یا فرن کے پتوں کے بیچ رنگین پانی میں ڈول رہے تھے۔ ان میں سے کسی کسی کی ایک یا دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، تھوتھنیوں کا رنگ عجیب گہرا گلابی ہو گیا تھا جیسے ان کے اندر خون جم گیا ہو، اور پانی سے نکلی ہوئی منحنی دمیں اس طرح ہل رہی تھیں جیسے جانور اب بھی زندہ ہوں جب کہ یہ اور کچھ نہیں بہتے ہوئے پانی کا کارنامہ تھا۔ ’’جیسا کہ میں نے کہا تھا، اس دریا میں ہر سال کوئی نہ کوئی حیرت انگیز واقعہ ہو جایا کرتا ہے۔‘‘ مسعودہ نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ اس نے ساڑی کے پلو سے اپنی ناک ڈھک رکھی تھی۔’’مگر یہ پہلی بار ہے کہ میں اتنے سارے مردہ سوروں کو اس میں بہتے دیکھ رہی ہوں۔ اور یہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ کہاں سے آ رہے ہیں یہ؟ کہاں جا رہے ہیں؟ تم چپ کیوں ہو؟ کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں؟ کیا موت کا فرشتہ میرے ساتھ کسی قسم کا کھیل کھیل رہا ہے؟‘‘ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ پہلی بار نہیں تھا کہ میں ایسے کسی دریا کو دیکھ رہا تھا۔ میں ساری زندگی اسی دریا کے کنارے ہی تو چلتا آ رہا ہوں۔
سورج ڈوب چکا ہے۔ مشرق سے اندھیرا آسمان میں قدم بڑھانے لگا ہے۔ زیادہ تر لوگ دریا کے کنارے سے غائب ہو چکے ہیں۔ دریا سور کے مردوں سے اتنا بھر چکا ہے کہ اب وہ ایک دوسرے پر چڑھنے لگے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے مردے خود ہی ایک دوسرے کو ڈھکیلتے ہوئے نیچے کی طرف جا رہے ہوں۔ مغرب کی طرف جہاں آسمان میں اب بھی تھوڑی سی لالی بچی ہے دونوں سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ دریا کے سفید پانی پر سوروں کے مردے اس طرح نظر آ رہے تھے جیسے وہ زمین کے اندر سے ابل رہے ہوں۔
اس رات جب ہم اپنی کوٹھری میں اکیلے ہوئے تو کھڑکی پر چڑیلیں بیٹھی کھسر پسر کر رہی تھیں۔
مسعودہ نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ اس پر نیند کا شدید غلبہ تھا۔ شاید یہ دوا کا اثر تھا۔ اس کے پھیپھڑوں سے وہی خشک آواز نکل رہی تھی۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کے بند پپوٹوں کے نیچے کے حلقے اور بھی بڑے ہو گئے تھے۔ ان سے ایک عجیب دہشت ٹپک رہی تھی جیسے وہ موت کے فرشتے کو دیکھ رہی ہو۔
’’تم چین سے سو جاؤ۔‘‘ میں نے اس کے سر کو اپنے سینے سے ڈھکتے ہوئے کہا۔’’تمہیں اس دریا کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے۔ تمہیں پتہ چلنا چاہئے، یہ دنیا تمہارے بغیر بھی ایک بری جگہ ہے۔‘‘
٭٭
ماخذ: ادب سلسلہ شمارہ ۳ جنوری تا مارچ ۲۰۱۶، تشکر: تبسم فاطمہ
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...