صبح کے اجالوں کا ہلکا ہلکا دھندلکا سست روی سے پھیلنے لگا تھا۔موذن کی آواز نیند میں غافل لوگوں کو فلاح کی طرف پکار رہی تھی۔ فجر کا نور پھیل رہا تھا جسے حاصل کرنے کو لوگ سست روی سے اٹھ رہے تھے۔
اسی احساس کے زیر اثر ایلاف کی آنکھ بھی کھل چکی تھی۔آج کتنے دنوں بعد وہ پرسکون نیند سوئی تھی۔
مندی مندی آنکھوں سے اس نے سوچا ایک نرم گرم سا احساس اسے محسوس ہورہا تھا۔
“کیا تھا وہ؟”اس نے سوچا۔
پھر جھٹ سے پوری آنکھیں کھولیں۔
اس پہ کمبل پوری طرح سے پھیلا ہوا تھا۔
ایلاف کو اچھی طرح یاد تھا کہ وہ رات کو کمبل لئے بنا ہی سوئی تھی صرف چادر لپیٹ کے تو یہ کمبل
یقینا اذلان شاہ نے ہی اس پہ ڈالا تھا۔
وہ بھلے سے منہ سے کچھ نہیں بولتا تھا مگر اس کے ہر عمل سے احساس ہوتا تھا۔
پرواہ کا!
فکر کا
توجہ کا!
ایلاف کہ لبوں پہ بہت جاندار مسکراہٹ ابھری۔
” آپ واقعی میری زندگی میں انعام کی طرح ہیں اذلان شاہ بس مجھے ہی سمجھنے میں دیر لگی۔” ایلاف نے کمبل کی نرماہٹ محسوس کرتے ہوئے سوچا پھر نماز کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی تھا۔
اذلان شاہ کمرے میں نہیں تھا یقینا وہ نماز کی ادائیگی کیلئے جاچکا تھا۔
ایلاف نے نماز ادا کی پھر تلاوت بھی کی۔کرنے کو فی الحال کچھ نہ تھا اس لئے اس نے کمبل تہہ کر کے جگہ پہ رکھا پھر اذلان کا کمبل بھی تہہ کر دیا تھا اور کاؤچ پہ بیٹھ کے بال سلجھانے لگی تھی آج ایلاف نے سنہرے اور گلابی امتزاج کا خوبصورت سا فراک پہن رکھا تھا۔ کہنے کو آج اس کی نئی زندگی کا پہلا دن تھا مگر فی الحال ایلاف کو یہ دن عام دنوں کی مانند لگ رہا تھا۔
بال سلجھ گئے تو اس نے انہیں بنا کے ٹھیک سے دوپٹہ اڑ لیا پھر سبز آنکھوں میں کاجل کی دھار بھی لگا دی تھی۔ سبز کانچ سیاہی سے اور بھی چمک اٹھے تھے۔
ایلاف کھڑکی کے پاس آن کھڑی ہوئی اور باہر کا نظارہ کرنے لگی۔گاؤں کی صبح کا منظر بڑا پرسکون تھا۔
اسی پل دروازہ کھلا تھا۔
ایلاف نے پلٹ کے دیکھا اذلان شاہ کمرے میں داخل ہورہا تھا۔
” صبح بخیر!” اذلان نے کہا۔
ہمیشہ کی طرح پہل اذلان کی جانب سے ہوئی تھی۔
“آپ کو بھی۔” ایلاف نے دھیرے سے کہا۔
” ایلاف!یہ لیجئے۔” اذلان نے اس کی طرف ایک مخملی کیس بڑھایا تھا۔
” یہ کیا ہے؟” ایلاف نے پوچھا۔
“یہ بھی رسم کا ایک حصہ ہے ہم کسی کے سامنے اپنی سبکی نہیں چاہتے۔” اذلان نے بتایا۔
ظاہر ہے سب اس سے پوچھتے کہ اذلان نے اسے منہ دکھائی میں کیا دیا؟
انکے لئے یہ رشتہ فی الحال تکلفات کے پردے میں اور کاغذی سطح تک محدود تھا مگر دنیا والوں کیلئے ان دونوں کا رشتہ وہی روایتی تھا۔
ایلاف نے ہاتھ بڑھا کے کیس لیا،کھول کے دیکھا تو اس میں خوبصورت چمکتی ہوئی نوز پن تھی۔
ایلاف ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئی۔
” کیا بات ہے آپ کو پسند نہیں آیا؟” اذلان نے اس کے تاثرات دیکھے۔
“وہ بات نہیں ہے،پسند ہے مجھے۔” کہہ کے ایلاف نے کیس دراز میں رکھنا چاہا۔
” یہ کیس میں رکھنے کیلئے نہیں ہیں اسے پہن لیں۔ ” اذلان نے کہا۔
” بنین بھابھی آئیں گی تو ان سے کہوں گی۔ وہ پہنا دیں گی مجھ سے اس کا لاک نہیں بند ہوگا صحیح سے۔گر گیا تو۔” ایلاف نے وجہ بتائی۔
” ادھر دیجئے۔” اذلان نے مٹھی کھولی۔
ایلاف نے حیرانگی سے اس کی طرف کیس بڑھایا۔
” ادھر آئیں!” اذلان نے پاس آنے کو کہا۔
وہ دو قدم چل کے اس کے مقابل آئی۔
” سیدھی کھڑی ہوں!ہلیں مت۔” اذلان نے ہدایت دیتے ہوئے کیس کھول کے نوز پن نکالی۔
ایلاف کی ناک کو ہولے سے پکڑ کے احتیاط سے نوزپن سوراخ میں اتاری۔
ایلاف سی کر کے رہ گئی ابھی تو نئی نئی ناک چھیدی تھی سو درد کا احساس ہوتا تھا۔
ایلاف کی آنکھوں میں آنسو کی لکیر سی چمکی۔
اذلان شاہ نے گہری نظروں سے اس کا چہرہ دیکھاجو اس سمے میں بہت پاس تھا۔
صبح کے اجالوں سے جھانکتا وہ اجلا صبیح چہرہ نہ جانے کیوں اذلان کو اپنا اپنا سا لگا۔
سبز کانچوں کی جھلملاہٹ میں اذلان کو کچھ ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔
یہ ان کے رشتے کا اعجاز تھا۔
جو بولتا نہیں تھا
مگر
اپنا احساس
دھیرے دھیرے دلاتا ہے
محسوس کرعاتا ہے
اپنی اہمیت منوا کے چھوڑتا ہے
نکاح کے بولوں میں بہت طاقت ہوتی ہے
وہی طاقت اب محسوس ہورہی تھی
مقناطیس کی طرح!
“آپ تو چھوٹے کام کرتی نہیں سو ہم نے سوچا ہم ہی کردیں۔” اذلان نے اسے کل کی بات کا حوالہ دیا۔
وہ ان لمحوں میں کوئی الگ ہی بات کررہا تھا۔
” یہ کوئی اور اچھی سی بات نہیں کرسکتے۔” ایلاف نے سوچتے ہوئے اذلان کی شہد رنگ آنکھوں میں جھانکا۔
” کوئی میٹھی سی سرگوشی!”
وہ ان جادوگر لمحوں اور مقابل کھڑے ساحر کے زیر اثر آرہی تھی۔
” آپ ابھی مجھ سے واقف نہیں ہیں۔میں واقعی بہت بڑے بڑے کام کرتی ہوں۔” ایلاف نے دھیان ہٹانا چاہا۔
” ہاں واقعی!جیسے ایک لفظ سے مکمل داستان بنانا،آدھی بات سن کے پورا سچ گھڑنا۔واقعی آپ ہی کرسکتی ہیں،آئی ایم ایمپریسڈ۔” اذلان نے توصیفی لہجے میں اس کی پچھلی باتیں یاد دلائیں۔
ایلاف پہ گھڑوں پانی پھر گیا۔
“میں مانتی ہوں مجھ سے بیوقوفیاں ہوئیں ہیں مگر آپ مجھے موقع دینے کا وعدہ کر چکے ہیں۔” ایلاف نے یاد دلایا۔
“چلیں آپ کی بیوقوفیاں تو دیکھ لیں اب آپ کی عقلمندیوں کی داستان بھی سن لیں گے۔” اذلان نے اسے چڑاتے ہوئے کہا۔
اتنی آسانی سے تو وہ بھی بخشنے والا نہیں تھا۔
” آپ کیا لڑنے کے موڈ میں ہیں؟”ایلاف نے اسے گھورا۔
“اونہہ ہوں! قطعا نہیں۔” اذلان نے کہا۔
” تو پھر۔۔۔” ایلاف نے وضاحت چاہی۔
“ہر بات کی،ہر لفظ کی وضاحت نہیں چاہتے ایلاف بی بی ورنہ جان مشکل میں پڑی جاتی ہے۔” اذلان نے کہا۔
ایلاف اس کی شکل دیکھ کے رہ گئی۔
اذلان کا کام ہوچکا تھا اس نے ایلاف کی ناک ہولے سے دبا کے چھوڑ دی تھی۔
ایلاف اسے گھور کے پیچھے ہوئی۔
اذلان مسکرا کے آگے بڑھ گیا۔
______________________________
دن کچھ اور چڑھا تو بنین شاہ اور کچھ اور لڑکیاں اس کے کمرے میں آکے ایلاف کو لے گئی تھیں۔
ناشتہ سب نے ہال کمرے میں کیا تھا ناشتے کے بعد ایلاف شاہ بی بی کے پاس بیٹھ گئی تھی
ایلاف کے چہرے پہ انہوں نے کچھ کھوجا۔
” ایلاف خوش ہو؟”
” جی!” ایلاف نے دھیرے سے سر ہلایا۔
” اذلان کا رویہ ٹھیک تھا؟”
” جی!” ایلاف نے انہیں صبح کا واقعہ بتایا تھا۔
شاہ بی بی کو تسلی سی ہوئی۔
مہمانوں کے سامنے ایلاف کی اتنی پریڈ ہوتی تھی کہ رات تک ایلاف کا جوڑ جوڑ ہل جاتا تھا اور وہ بے سدھ سی سوجاتی تھی۔
اذلان شاہ سے اس کا سامنا پھر ہوا ہی نہیں ہوا تھا۔
وہ کب آتا کب جاتا پتا ہی نہیں چلتا تھا۔
آج بڑے دنوں بعد مہمانوں کا رش کم ہوا تو بنین ایلاف کو لے کے پچھلے صحن میں آگئی تانیہ شاہ چھوٹی حویلی میں تھی۔
” کیا کرتیں تھیں شادی سے پہلے ایلاف تم؟” بنین شاہ نے پوچھا۔
“پڑھتی تھی۔” ایلاف کو بہت کچھ یاد آیا تھا۔
اس کے اونچے خواب
آدرش
خیال!
وہ اس کے ڈگری ہولڈر ہونے کے خواب۔
” تھیں سے کیا مطلب،اب نہیں پڑھو گی کیا؟” بنین شاہ نے پوچھا۔
” پتا نہیں!اب تو زندگی کا دائرہ ہی بدل گیا ہے۔اب کیسے پڑھ سکتی ہوں؟اس اونچی حویلی میں کیسے؟” ایلاف آزردگی سے بولی۔
” اونچی حویلی سے تمہاری کیا مراد ہے ایلاف۔تمہیں شاید لگ رہا ہے کہ ہمارے ہاں لڑکیوں کو تعلیم نہیں دی جاتی۔ارے ایک زمانے میں ہوتا تھا یہ اب نہیں ہوتا۔میں نے خود پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز شادی کے بعد کیا ہے کمال کی حمایت پہ۔” بنین نے اسے بتایا۔
“مجھے شاید اجازت نہ ملے۔” ایلاف نے خدشہ ظاہر کیا۔
” کیوں بھئی؟ایلاف’اذلان بھایا تو خود تعلیم کا سب سے بڑا حامی ہے۔ انہی کی کوششوں سے ہی جاگیر میں لڑکیوں کیلئے ہائی اسکول بنا ہے تو وہ اپنی بیوی کو کیسے روک سکتے ہیں۔تم پڑھنا چاہتی ہو تو اذلان بھایا یقینا تمہارا ساتھ دیں گے۔” بنین شاہ پریقین تھی۔
ایلاف کو لگا اسے کچھ کرنے کو مل گیا ہے۔ یہاں حویلی میں تو پھر وقت گزر جاتا تھا ظاہر ہے وہاں شہر میں وہ وقت کیسے گزارتی تھی۔
اور پھر اذلان شاہ جیسے ویل ایجوکیٹیڈ کے ساتھ وہ صرف گیارہوں پاس لڑکی،نہیں ایلاف بی بی موقع سے فائدہ اٹھاؤ۔ تم ایک معمولی انسان کی نہیں پیر اذلان شاہ کی بیوی ہو۔
ایلاف نے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنی پڑھائی جاری رکھے گی۔
اسی عزم کے ساتھ وہ شہر لوٹ آئی تھی۔ اذلان شاہ اسے گھر چھوڑ کے دوسرے شہر جا چکا تھا۔
” اس آدمی کے پاؤں میں چکر ہے۔کتنا گھومتا ہے۔” ایلاف نے جل کے سوچا۔
پھر خود ہی بولی
” صبر کر ایلاف۔جلد بازی میں پہلے بھی کام بگاڑا تھا تم نے اب انتظار کرو آجائیں گے اذلان شاہ اور ابھی تو میرے پاس نہ کتابیں ہیں نا ڈاکومنٹس وہ بھی تو لانے ہیں۔” ایلاف نے سوچا۔
ایک بار پھر اسے ان گلیوں میں جانا تھا۔وہ جانا نہیں چاہتی تھی مگر مجبوری تھی اس کی اب تک کی محنت وہاں تھی۔
______________________________
“بی بی جی! سائیں آگئے ہیں۔ ” امیراں نے بتایا۔
ایلاف فورا کھڑی ہوگئی تھی۔آج چار دن بعد وہ لوٹا تھا اور ان چار دنوں میں ایلاف ماسیوں والے حلیے سے بھی برے حلیے میں گھوم رہی تھی۔
ملگجا لباس
بکھرے بال
” میں کپڑے بدل کے جاؤں کہاں
بال بناؤں کس کیلئے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا
اب باہر جاؤں کس کیلئے”
کی عملی تفسیر بنی ہوئی تھی۔
مگر اب وہ شخص لوٹ آیا تھا۔
سو ایلاف کو بھی اپنا حلیہ درست کرنا تھا۔
” میرا سامان کہاں ہے؟” ایلاف نے الماری خالی دیکھ کے امیراں سے پوچھا۔
” وہ تو جی پیر سائیں کے کمرے میں رکھ دیا تھا میں نے آپ کا سارا سامان۔” امیراں کے انکشاف پہ ایلاف کا دماغ بھک سے اڑا۔
” تم سے کس نے کہا تھا بیوقوف عورت؟میرا کمرہ یہ ہے تو ساماں وہاں کیا کر رہا ہے۔” ایلاف دانت کچکچا کے بولی
” لو جی میاں بیوی کے کمرے الگ کب سے ہوگئے اب تو خیر سے ولیمہ بھی ہوگیا ہے۔” امیراں نے اس کے ہاتھوں پہ مہندی کے مٹے مٹے نقش دیکھتے ہوئے حیرانگی سے کہا۔
” اف خدایا!تم اپنا دماغ ذیادہ نہیں چلایا کرو.” ایلاف نے کہا۔
اب وہ اس کے کمرے میں جائے وہ بھی اس حلیے میں۔
“اب کیا کروں میں؟” ایلاف نےپوچھا۔
” بی بی؟پیر صاحب اسٹڈی میں ہیں۔آپ چلی جائیں ان کے کمرے میں۔” امیراں نے حل بتایا تو ایلاف کی جان میں جان آئی۔
” میرے ساتھ آؤ اور سارا سامان واپس لاؤ۔” ایلاف کہہ کے باہر نکل گئی۔
” یہ بی بی اتنی انوکھی کیوں ہے؟” امیراں نے سوچا اور اس کے پیچھے چل دی۔
وہاں حویلی میں رہنا تو مجبوری تھی مگر یہاں اس طرح ایلاف اذلان کے کمرے میں رہ کراسے یہ احساس نہیں دلانا چاہتی تھی کہ وہ اس پہ حاوی ہو رہی ہے۔
اذلان نے اسے موقع دیا تھا تو وہ حد میں رہ کے ہی اپنے حق کو حاصل کرنا چاہتی تھی۔
اسے پھر سے بدگمان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
نہا کے اپنا حلیہ درست کر کے ایلاف اسٹڈی کی طرف چلی گئی تھی اذلان ابھی وہیں تھا۔ امیراں نے اس کی رہنمائی کی تھی اسٹڈی تک،ایلاف نے اندر آکے سلام کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔
اذلان شاہ جو آرام کرسی پہ نیم دراز تھا۔ ہاتھ میں سگار تھا جس سے وہ وقفے وقفے سے کش لے رہا تھا اسٹڈی میں اطالوی موسیقی پھیلی ہوئی تھی۔
بڑا خوابناک سا ماحول تھا۔
اذلان نے ایلاف کو دیکھ کر ہاتھ میں موجود سگار ایش ٹرے میں رگڑ دیا تھا۔
وہی نو اسموکنگ لیڈیز کی موجودگی میں والے اصول پہ عمل کرتے ہوئے
ایلاف ہلکا سا مسکرائی۔
“آپ سے بات کرنی تھی ایک۔” ایلاف نےتمہید باندھی۔
” جی کہئے!” اذلان ہم تن گوش ہوا۔
” میرے پیپرز ہونے والے ہیں۔” ایلاف نے یوں کہاجیسے موسم کا حال سنا رہی ہو۔
“تو!” اذلان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
” میں پڑھنا چاہتی ہوں۔”
” ضرور!ہمیں خوشی ہوگی۔کوئی تو ڈھنگ کا کام کریں گی آپ۔” اذلان نے ٹھہر،ٹھہر کے کہا۔
ایلاف نے اس کا طنز نہایت سکون سے ہضم کیا۔
” ایک مسئلہ ہے،میرے سارے ڈاکومنٹس اور کتابیں وہاں ہیں۔” ایلاف نے وہاں پہ زور دیا۔
” اوہ!تو یہ بات ہے۔” اذلان نے سوچا۔
” کتابوں کا تو مسئلہ نہیں وہ یہاں بھی مل جائیں گی۔اصل مسئلہ واقعی ڈاکومنٹس کا ہے،کچھ سوچتے ہیں اس کا حل۔” اذلان نے کہا۔
ایلاف خاموشی سے اسکی شکل دیکھتی رہی۔
“آپ کب جانا چاہتی ہیں وہاں؟ایسا کیجئے کل صبح دس بجے تیار رہئے گا آپ کو گاڑی آجائے گی لینے۔ ”
” میں کبھی وہاں جانا نہیں چاہتی نہ کالج۔۔۔۔” ایلاف نے جملہ ادھورا چھوڑا۔
” کونسا سبجیکٹ ہے آپ کا؟” اذلان نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
” کامرس!” یک لفظی جواب حاضر تھا۔
” پھر تو آپکی سپلی پکی ہوتی ہو گی۔کونسی کلاس میں ہیں آپ؟” اذلان کو اس سے کوئی خاص امید نہ تھی۔
” آپ کیا سمجھتے ہیں مجھے؟فرسٹ ائیر میں اے ون گریڈ تھا میرا اور اب پیپرز میں بھی آپ میرا رزلٹ دیکھ لیجئے گا۔ایک دن میں ورلڈ کلاس اکنامسٹ ہوں گی پھر آپ کو پتا چلے گا۔” ایلاف خفگی سے بولی۔
اذلان شاہ دھیرے سے ہنس دیا ایلاف نے پہلی بار اسے ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔
گھمبیر سی دل میں اتر جانے والی ہنسی!
” امیزنگ!واقعی اگر ٹیچر ہم جیسا ہوگا تو آپ کے گریڈز واقعی اچھے آئیں گے اب۔” اذلان شاہ کو پہلی بار ایلاف نے متاثر کیا تھا۔
ورنہ اس سے پہلے تو وہ روتی دھوتی رہتی تھی۔
” آپ جیسا! مینز آپ کو کامرس کی شد بدھ ہے؟”
ہائے رے ایلاف تیری بدگمانیاں۔
” میم!آئی ایم سی اے۔” اذلان شاہ نے بتایا۔
” ارے واہ!پر آپ تو سارا وقت یہاں وہاں گیند کی طرح چکر کھاتے رہتے ہیں۔مجھے کیسے پڑھائیں گے؟ ” ایلاف نے دلچسپی سے پوچھا۔
” یہ تو ہے،آپ کیلئے ٹیوٹر کا انتظام ہوجائے گا لیکن اکاؤنٹس اور انگلش ہم پڑھائیں گے۔دیکھتے ہیں آپ صرف باتیں بناتی ہیں یا کچھ آتا بھی ہے۔” اذلان نے کہا تو ایلاف بھی جذباتی ہوگئی۔
” یو ڈونٹ وری!پیر صاحب ہم بھی دیکھتے ہیں آپ کو کیا کیا آتا ہے۔”
ایلاف نے حساب برابر کیا اور وہاں سے چلی آئی۔
______________________________
اگلے دن جب ایلاف تیاری میں مصروف تھی، امیراں نے اسے اطلاع دی کہ گاڑی آگئی ہے۔
” ٹھیک ہے پانچ منٹ میں آتی ہوں۔ ” ایلاف نے کہہ کے اپنا جائزہ لیا۔
وہ آج کسی صورت کم نہیں دکھنا چاہتی تھی۔
وہ بتانا چاہتی تھی۔وہ پہلے والی معمولی ایلاف نہیں۔
اب وہ ایک ذی حیثیت آدمی کی بیوی اور عزت دار گھرانے کی بہو تھی۔
وہ اس وقت میرون رنگ کے گرم سوٹ میں ملںوس،بہترین جوتے کانوں میں ننھے آویزے ,ناک میں چمکتی نوز پن,کلائیوں میں سونے کی نفیس چوڑیاں پہنے ہوئے تھی۔
وہ واقعی اپنے حلیے سے خوشحال گھرانے کی لگ رہی تھی۔چہرہ نقاب کی اوٹ میں کرتے ہوئے وہ باہر آگئی،گاڑی کھڑی تھی۔
اندر دو عورتیں بھی موجود تھیں مودب سی۔
” فیمیل بارڈی گارڈ!” ایلاف سوچتے ہوئےبیٹھ گئی۔
ان عورتوں نے اسے سلام کیا اور چپ چاپ بیٹھ گئیں۔
ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی، گاڑی جانے پہچانے راستوں پہ چل کے اس مقام پہ پہنچ چکی تھی جہاں سے ایلاف کو ذلیل و رسوا کیا گیا تھا۔
یہاں سے ایلاف کی زندگی کا دھارا اذلان شاہ کی طرف موڑا گیا تھا۔
ایلاف مجبوری میں ہی آئی تھی۔چپ چاپ قدم اٹھاتے وہ اس دروازے کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی
جو کبھی اس کا بھی گھر تھا۔
دونوں عورتیں اس کے پیچھے اٹین شن کھڑی تھیں۔
پتا نہیں اذلان نے انہیں کہاں سے برآمد کیا تھا۔
وہاں سے ہر گزرتے فرد کی آنکھ میں حیرت تھی
یہ بڑی گاڑی اور اس میں آئی یہ کچھ جانی پہچانی سی لڑکی،ایلاف کے رکنے پہ ایک عورت نے ہاتھ سے دروازہ بجایا۔
دروازہ دو تین بار دستک دینے کے بعد ہی کھلا تھا۔
ایلاف سمجھ گئی مامی گھر پہ نہیں اپنے کسی دورے پہ ہیں۔
دروازہ راضیہ نے کھولا تھا اورایلاف کو دیکھ کے ساکت رہ گئی تھی۔
” تم!کیا لینے آئی ہو یہاں؟” راضیہ تنفر سے بولی۔
” فکر مت کرو تمہارا کچھ لینے نہیں آئی اپنا ہی لینے آئی ہوں۔اندر آنے کو نہیں کہو گی۔” ایلاف کمال ضبط سے بولی۔
” کیوں اس پیر کا دل بھر گیا جو لوٹ آئیں۔”
جواب میں پیچھے کھڑیں وہ دونوں محافظ آگے آئیں تھیں۔
” خاموشی سے پیچھے ہوجاؤ۔ہماری بی بی یہاں تھوکنا پسند نہ کریں وہ یہاں اپنا سامان لینے آئیں ہیں چپ چاپ راستہ دو ورنہ۔۔۔۔” اس عورت کے لہجے میں بلا کی کرختگی تھی۔
” تمہاری بی بی کی تو اصلیت مجھ سے پوچھو۔ایسی آوارہ۔۔۔۔” ابھی بات راضیہ کے منہ میں تھی
جب اسی عورت نے گھما کے ایک تھپڑ راضیہ کو لگایا تھا اور دھکا دے کے اسے سائیڈ پہ کیا۔
” بی بی آپ جائیں اپنا کام کریں جا کے۔اس کے منہ نہ لگیں یہ آپ کو زیب نہیں دیتا۔”
ایلاف کو اب ان عورتوں کا مصرف سمجھ میں آیا تھا۔
اذلان شاہ نے ہر پہلو پہ سوچ کے ہی اسے یہاں بھیجا تھا۔ایلاف دل سے اسکی ذہانت کی قائل ہوئی۔
ایلاف چپ چاپ اندر چلی آئی گھر میں شاید کوئی بھی نہ تھا۔
” چلو یہ بھی اچھا ہوا۔” ایلاف نے سوچا۔
اپنی کتابیں اور ڈاکومنٹس اسے اسی ترتیب سے ملے تھے بس کچھ کتابیں غائب تھیں ایلاف کو دس منٹ لگے تھے سب سمیٹنے میں،محافظوں میں سے ایک عورت نے اس سے سارا سامان لے لیا تھا۔
راضیہ اسے خون خوار نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
” کیا ٹھاٹ ہیں مہارانی کے؟” راضیہ کے گال پہ ابھی تک جلن ہورہی تھی اس لئے بمشکل منہ بند کیا۔
ایلاف مضبوط قدموں سے چلتی ہوئی آئی تھی
” میں نے کبھی تمہارا برا نہیں چاہا تھا ہمیشہ تمہیں اپنی بہن سمجھامگر تم نے جو کیا وہ کوئی غیر بھی نہیں کرتا ہے۔ مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہےکیونکہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے میں سمجھ چکی ہوں۔ماموں کو میرا سلام دینا۔” ایلاف نے کہا اور عورتوں کو باہر نکلنے کا اشارہ کر کے چلی گئی۔
” ایلاف!یہ تم ہو نا۔” اس آواز پہ ایلاف نے پلٹ کے دیکھا تھا۔
وہ رابعہ باجی تھیں اس کی واحد ہمدرد۔
” رابعہ باجی! ” ایلاف ان سے لپٹ گئی۔
جب کسی نے اس کا یقین نہیں کیا تھا تب انہوں نے کیا تھا۔
” آئی ہو اور ملے بغیر جا رہی ہو ہم سے۔واقعی بڑا آدمی بن گئی ہو۔” رابعہ نے شکوہ کیا۔
” ایسا نہیں ہے۔بس اچھا چلیں میں چلتی ہوں آپ کے ساتھ۔” ایلاف ان کے ساتھ جانے کو تیار ہوئی۔
اتنے دنوں بعد کسی پرانے شناسا کو دیکھ کے اچھا لگا تھا۔
” تم لوگ یہاں انتظار کرو میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں۔” ایلاف نے کہا اور رابعہ کے ساتھ چل دی تھی۔
” اور سناؤ ایلاف خیر سے خوش ہو۔” رابعہ کے گھر کے چھوٹے سے صحن میں بچھی چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
” ہاں اب میں خوش رہنے لگی ہوں۔” ایلاف نے اقرار کیا۔
” مطلب؟” رابعہ نے پوچھا۔
جواب میں ایلاف نے اسے اپنی داستان سنانی شروع کی تھی۔ ابھی بات آدھی ہوئی تھی کہ کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی تھی بہت زور سے۔
” میں دیکھتی ہوں۔” رابعہ اٹھتے ہوئے بولیں۔
اور رابعہ نے آنے میں کافی ٹائم لگایا تھا۔
” کیا ہوگیا تھاباجی؟ ”
” ارے کچھ نہیں۔بلی تھی،ہاں کیا کہہ رہیں تھیں تم۔” رابعہ نے لہجے کو سرسری بنایا تھا۔
” بس اب مجھے عقل آگئی ہے تو سوچا زندگی کو ڈھب سے گزار لیں۔اذلان بہت اچھے انسان ہیں آپ نے سچ کہا تھا۔” ایلاف نے اقرار کیا۔
” خدا تمہیں خوش رکھے۔” رابعہ نے دل سے دعا دی۔
” اوہ!وقت کافی ہوگیا ہے میں چلتی ہوں اب۔ ” ایلاف نے گھڑی میں وقت دیکھا تو کھڑی ہوگئی تھی۔
” ارے رک جاؤ!میں چائے تو بنا لوں۔” رابعہ نے اصرار کیا۔
” نہیں بہت شکریہ،بس چلتی ہوں۔خدا حافظ!” ایلاف اٹھ گئی تھی۔
” خدا حافظ!” رابعہ نے اسے رخصت کیا۔
ایلاف کا دل ہلکا ہوگیا تھا۔
مگر کچھ تو تھا
جو اسے اٹک رہا تھا۔
کیا؟
فی الحال آنکھوں سے اوجھل تھا۔
______________________________
” بی بی! پیر صاحب جی تساں بلا رہے ہیں اسٹڈی میں۔” امیراں نے کتابوں میں سر دئیے ایلاف کو مخاطب کیا۔
پیپر میں دو ماہ تھے اور ایلاف کو نئے سرے سے ابھی بہت کچھ تیار کرنا تھا۔اس کے کچھ رجسٹر غائب تھے
اکنامکس اسے جتنی پسند تھی اکاؤنٹنگ سے اس کی اتنی جان جاتی تھی۔ایلاف نے ان ٹاپکس پہ نشان لگائے جن کی نئے سرے سے اسے تیاری کرنی تھی۔
امیراں کی بات پہ سر ہلاتے ہوئے وہ جوتے پہن کے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
آج موسم بہت سرد ہورہا تھا۔شال اچھی طرح لپیٹ کے وہ اسٹڈی کی طرف چل دی تھی۔
دستک دینے پہ اذلان کی مخصوص گھمبیر آواز میں
” کم ان ” سنایا دیا۔
ایلاف کتابیں لئے آگئی۔
” تو کہاں سے شروع کریں میرے خیال سے انگلش سے کرتے ہیں۔” اذلان نے کتاب اٹھاتے ہوئے کہا۔ ایلاف نے خاموشی سے رجسٹر کھول لیا۔
اذلان اسے رابرٹ فراسٹ کی پوئم پڑھانے لگا۔
پوئم ختم ہوئی تو اس نے کہا۔
” اس کی سمری بنا کے دکھائیں۔”
ایلاف رجسٹر پہ جھک گئی۔پندرہ منٹ کے بعد اس نے رجسٹر اذلان کی طرف بڑھایا تھا۔
” یہ لیں!”
” ہوں!کوشش کی ہے آپ نے مگر آپ تھوڑی ہائی کلاس vocabulary یوز کریں۔” اذلان کے معیار پہ اسکی سمری پوری نہیں اتری تھی۔
” مجھے یہی آتا ہے۔ ” ایلاف کو غصہ آگیا۔
وہ تو تعریف سننے کی منتظر تھی اور یہاں تو نکتہ چینی ہی ختم نہیں ہورہی تھی۔
اذلان نے اس کے انداز پہ اسے گھورا۔
” چلیں ہم آپ کو سیمپل کے طور پہ آج سمری لکھوا رہے ہیں آج۔ ” اذلان نے اس کی طرف رجسٹر بڑھاتے ہوئے کہا۔
رجسٹر کچھ آڑا ہوا تو اس میں سے کچھ صفحات گرے۔
اس سے پہلے کہ ایلاف اسے اٹھاتی اذلان اٹھا چکا تھا۔
ایلاف کا دل اچھل کے حلق میں آگیا تھا۔
_____________________________