وہ اک بھولی بھالی سی صحرائی خواہش
جو اِس دل کے صحرا میں بستی تھی
آنکھوں میں اُمید کی روشنی کے دیئے سے جلاتی
کبھی دل کے زَم زَم سے چھینٹے اُڑاتی
وہ میرے ہی چھینٹوں سے مجھ کو بھگو کر جو ہنستی
تو جیسے مِرے دل کا صحرا
کھجوروں کے سرسبز میٹھے پھلوں والے
اونچے درختوں کی ٹھنڈک میں
ساری بہاریں سمیٹے ہوئے مسکراتا
مِرے دل کا صحرا کھجوروں کے سرسبز
میٹھے پھلوں والے
اونچے درختوں کی ٹھنڈک میں ساری بہاریں
سمیٹے ہوئے مسکراتا تو دہکے ہوئے گرم سورج
کے سینے میں بھی پھول سے کھلنے لگتے
مگر ایک دن کیا ہوا
جانے کیسے ہوا
وہی بھولی بھالی سی صحرائی خواہش
مجھے چھوڑ کر چاند میں جا بسی
پتھروں کے نگر میں وہ جاتے ہوئے
میرے صحرائے دل کو بھی ہمراہ لیتی گئی
اس کے بدلے میں وہ مہرباں
میری آنکھوں کو کوئی سمندر عطا کر گئی
تب سے آنکھوں کو بخشا ہوا یہ سمندر
سدا چاند کی سمت
امنڈتا، چھلکتا
ہمکتا ہی رہتا ہے!