وہ چپ چاپ کمرے سے نکلا۔۔
باہر نکلا تو سامنے ہی دو کیڈٹس کھڑے تھے۔۔
وہ جھٹ سے دیوار کے پیچھے چھپا۔۔
پھر موقع دیکھتے ہی آگے بڑھا۔۔
تھوڑا آگے بڑھا تو وہاں بھی ایک کیڈٹ تھا۔۔
وہ اس کی طرف پشت کیے تھا۔۔
وہ جھک کر آہستہ قدم رکھتا۔۔گیٹ کی طرف گیا۔۔
یک دم ہی سامنے کوئی آیا۔۔
وصی کی نظر اس کے قدموں پر تھی۔۔
وصی نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
شفی کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔
“کہاں جا رہے ہو؟” شفی نے مزے سے پوچھا
“مجھے یہاں نہیں رہنا” وصی نے تپ کر کہا
“تجھے کیا لگتا ہے تو یہاں سے بھاگ سکتا ہے؟” شفی نے پوچھا
“تو مجھے خود نکال دو۔۔۔کیوں زبردستی رکھا ہوا ہے؟” وصی نے کہا
“ٹریننگ پوری کرلے پھر چلے جانا۔۔۔اور واپس ہی مت آنا” شفی نے ہنسی دبائی
“جب مجھے رہنا ہی نہیں تو اتنی مشکل ٹریننگ کیوں کروں میں؟”
“ٹریننگ کے بعد ہی تو یہاں سے جا سکتا ہے۔۔پہلے تجھے جانے نہیں دیں گے” شفی نے کہا
“مگر۔۔۔”
“کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔۔آزادی چاہیے تو ٹریننگ پوری کر چپ چاپ۔۔۔” شفی نے سنجیدگی سے کہا
“ٹھیک ہے۔۔اس کے بعد مجھے یہاں سے جانے دو گے” وصی نے پوچھا۔۔
“ڈن۔۔۔” شفی نے مسکرا کر کہا۔۔
وصی جانے کے لیے پلٹا۔۔
“اب بھاگنے کی سزا تو بھگتی پڑے گی۔۔” شفی نے کہا
“فرمائیے کیا کرنا ہے؟” وصی نے ناگواری سے کہا۔۔
“پندرہ پش اپس لگاؤ۔۔۔پھر چلے جانا” شفی نے شرارت سے کہا
“بس پندرہ بیس لگاتا ہوں” وصی نے کہا۔۔
اور شفی کی ہنسی نمودار ہوئی۔۔
“چلا جا روم میں۔۔۔اس سے پہلے کہ سینئرز دیکھیں” شفی نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔۔
نور کو وصی سے بات کیے کتنے دن گزر چکے تھے مگر۔۔
وصی کی نا کال آئی اور نا وہ خود۔۔
وہ یونیورسٹی سے گھر اور گھر سے یونیورسٹی۔۔
اسے وصی کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔۔
شاید وہ بھی اس سے محبت کرتی تھی۔۔
وہ سیڑھیوں پر بیٹھی کسی سوچ میں گم تھی۔۔
جب نا وہاں آئی۔۔
“نور۔۔۔” حنا نے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
“ہاں۔۔۔” نور ہڑبڑائی۔۔
“کہاں گم ہے؟” حنا نے پوچھا
“نہیں کہیں نہیں۔۔۔”
“پھر پریشان ہے؟”
“نہیں۔۔۔” اس نے مختصر کہا
“وصی کا فون آیا” حنا نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا
“نہیں۔۔۔” اس نے اداسی سے کہا۔۔
“تو اس سے پیار کرتی ہے” حنا نے کہا
“میں نے کب کہا؟” اس نے حنا کو گھورا۔۔
“محبت خود ہی ظاہر ہوتی ہے..اور تجھے دیکھ کر صاف پتا لگ رہا ہے کہ تو اس سے پیار کرتی ہے” حنا نے کہا
“نہیں ایسا کچھ نہیں۔۔وہ میرا بہت اچھا دوست ہے” نور نے تصحیح کی۔۔
“وصی۔۔اچھا لڑکا ہے نور۔۔خود کو اور اسے دھوکہ مت دے۔۔اپنے دل کی بات سن۔۔” حنا نے کہا۔۔
اور خاموشی سے سوچوں میں گم ہوئی۔۔
اکیڈمی کے شب و روز گزر رہے تھے۔۔
اور اب وصی نے ناچاہتے ہوئے بھی ٹریننگ پوری کرنی تھی۔۔
شفی حیران تھا وصی کی طرف سے کوئی شرارت کوئی۔۔
کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں ہوئی تھی۔۔
ان کا سیکنڈ ٹرم اسٹارٹ ہوچکا تھا۔۔
وصی کو کسی قسم کی چھٹی نہیں ملتی تھی
وہ جانتے تھے کہ وصی کو موقع ملا تو وہ بھاگ جائے گا۔۔
شفی کی سوچ تھی کہ وصی ٹریننگ کے بعد خود سے آرمی چھوڑ کر نہیں جائے گا
اسے دلچسپی ہوجائے گی
وہ یہ دن کبھی نہیں بھولے گا۔۔
شفی باقائدہ اس پر نظر رکھے ہوئے تھا۔۔
کتنا ٹائم ہوگیا تھا اسے گھر گئے۔۔۔
وصی کو شدت سے ددا ددو اور اپنی وہی آزادی کی لائف یاد آنے لگی۔۔
مگر وہ چپ چاپ رہ رہا تھا۔۔
یہاں کے رولز اور سختیوں کو کافی حد تک برداشت کرنے کی عادت ہوچکی تھی اسے۔۔
مگر اس کے دماغ میں وہی بات فٹ تھی کہ اسے ہمیشہ آرمی میں نہیں رہنا۔۔
حور کی وہی روٹین چل رہی تھی۔۔
کالج سے گھر شام میں ٹیوشن اکیڈمی اور پھر واپس گھر۔۔
اس کا دماغ بس پڑھائی کی طرف تھا۔۔
مغرب کا وقت ہورہا تھا جب وہ ٹیوشن کلاسس سے واپس آئی۔۔
واپس آتے ہی اس نے بیگ سائیڈ پر رکھا اور کچن کی طرف بھاگی۔۔
“مما۔۔۔” وہ کچن میں آئی۔۔
“آج پتا ہے سر اتنے خوش ہوئے مجھ سے میری اتنی تعریف کی۔۔” حور نے خوشی سے بتایا۔۔
“اچھا وہ کیوں؟” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“مجھے سارے اینائن اور کیٹائن یاد تھے۔۔کیمسٹری میں۔۔
اور سر نے جوسوال دیے وہ میں نے جھٹ سے کرلیے۔۔” حور نے چہک کر بتایا۔۔
“اچھا واہ میری بیٹی تو ہوشیار ہے۔۔”شائستہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔۔
“چائے پیو گی؟” شائستہ بیگم نے پوچھا
“جی مما۔۔۔” حور نے کہا
اور شائستہ بیگم چائے بنانے لگی۔۔
“مما۔۔وصی کب آئے گا؟” حور نے پوچھا
“بس کچھ ہی دن میں۔۔۔ٹریننگ پوری ہوجائے بس۔۔” شائستہ بیگم نے کہا
“اچھا۔۔۔” حور نے سادگی سے کہا۔۔
اور یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگی۔۔
نور اداس سی بیٹھی ناول کو ہاتھوں میں تھامے گھور رہی تھی۔۔
اسے وصی پل پل یاد آرہا تھا۔۔
“کیا میں بھی وصی سے محبت کرتی ہوں؟” وہ سوچنے لگی۔۔
“وصی۔۔کب آؤ گے یار۔۔” وہ بے بسی کی انتہا پر تھی
“ہاں شاید میں اس سے محبت کرنے لگی ہوں۔۔۔مگر میں اسے نہیں بتاؤں گی۔۔” نور نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا
تبھی اس کا فون بجنے لگا۔۔
اس نے دیکھا وصی کا نمبر جگمگا رہا تھا۔۔
“وصی۔۔۔” ایک خوشی کی لہر نور کے چہرے پر نمودار ہوئی
اس نے جھٹ کال رسیو کی۔۔
“ہیلو۔۔وصی” نور نے کہا
“ہیلو۔۔۔کیسی ہو نور؟” وصی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔
کتنے وقت کے بعد وہ یہ آواز سن رہی تھی۔۔
اس کی آنکھ سے دو آنسوں گرے۔۔اور وہ لمحہ بھر خاموش ہوگئی۔۔
“نور۔۔۔کین یو ہیئر می۔۔۔ہیلو” وصی کی آواز وہ چپ چاپ محسوس کر رہی تھی۔۔اس کا دل کیا کہ یہ آواز وہ سنتی چلی جائے۔۔
“ہیلو۔۔نور۔۔” وصی نے پھر کہا
“ہاں۔۔ سن رہی ہوں” نور نے کہا
“میری یاد آئی؟” وصی نے سوال کیا۔۔
“نہیں۔۔بلکل بھی نہیں” نور نے صفائی سے جھوٹ بولا
اور وصی کا قہقہہ اس کے کانوں کو چیرتا ہوا گیا
“جھوٹ بھی مہارت سے بولتی ہو۔۔۔خیر میں پرسو آؤں گا ٹریننگ ختم ہوگئی میری۔۔۔” وصی نے کہا۔۔
“اچھا۔۔مبارک ہو آرمی مین بن گئے ہو۔۔” نور نے کہا
“اب تو تمہاری امی سے تمہارا رشتہ مانگ سکتا ہوں نا؟” وصی نےہنس کر پوچھا۔۔
اور اس کے سوال پر نور خاموش ہوگئی۔۔
ددا نے اسے گلے سے لگایا۔۔
وہ اس پر فخر محسوس کر رہے تھے۔۔
ددا کے گلے لگ وصی کے کب سے ٹھہرے آنسوں روانی سے بہنے لگے۔۔
وہ اتنی سخت ٹریننگ پوری کر چکا تھا۔۔
مگر ان چند مہینوں میں اسے ان کی محبت اور شفقت کی شدت سے کمی محسوس ہوئی۔۔
ددا تو اسے دیکھ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔۔
انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کا وصی۔۔
جو آرمی کے نام سے بھی بھاگتا تھا۔۔
آج وہ بہترین بن چکا۔۔وطن کا جانباز چن لیا گیا۔۔
وہ اپنے کمرے میں آئی تو سائیڈ ٹیبل پر رکھا اس کا فون بج رہا تھا۔۔
اس نے فون اٹھایا تو وصی کا نمبر جگمگا رہا تھا۔۔
“ہیلو” نور نے کال رسیو کرتے ہی کہا
“کیسی ہو؟” وصی نے پوچھا
“ٹھیک ہوں۔۔تمہیں آج آنا ہے نا میں آؤ اسٹیشن تم سے ملنے” نور نے بے تابی سے پوچھا۔۔
“ہاہاہا نہیں ددا ہیں۔۔۔تم بس آج رات تیار رہنا” وصی نے کہا۔۔
“کیوں۔۔۔آج رات کیا ہے؟” نور نے پوچھا
“بس تم تیار رہنا سرپرائز ہے”
“اچھا جی چلو ٹھیک ہے۔۔” نور نے ہنس کر کہا
“ریسٹورنٹ آجانا۔۔پورے آٹھ بجے لیٹ مت ہونا”
“اچھا ٹھیک ہے۔۔۔گر میں گھر میں کیا کہوں گی؟”
“یار کوئی بھی بہانا بنا دینا۔۔۔”
“اچھا بھئی آجاؤں گی۔۔” نور نے ہار مانتے ہوئے کہا
“اور ہاں۔۔۔بلیک ڈریس پہن کر آنا۔۔۔”
وصی کی بات پر وہ چونکی
“وصی۔۔تم۔۔۔” اس سے پہلے نور کوئی سوال کرتی وصی نے بات کاٹی
“بعد میں بات کرتا ہوں۔۔۔اوکے بائے” وصی نے کہ کر فون کاٹ دیا۔۔
اور نور فون کو دیکھ مسکرا دی۔۔
“حور لان میں بیٹھی تھی کہ فاروق صاحب کی گاڑی گیٹ سے اندر آتی دکھائی دی۔۔
حور مسکرا دی۔۔
حور جلدی سے اندر بھاگی۔۔
“مما۔۔۔مما” حور نے کچن میں داخل ہوتے ہی کہا
“ہاں۔۔۔” شائستہ بیگم نے کہا
“مما۔۔نانا ابا آگئے ہیں” حور نے بتایا۔۔
“اچھا۔۔۔”شائستہ بیگم اس کے ساتھ باہر نکل گئی۔۔
فاروق صاحب اندر داخل ہورہے ہیں تھے۔۔ان کے ساتھ ہی وصی اور شفی بھی تھے۔۔
“ہائے میرا بچہ آگیا” دادو آگے بڑھی اور وصی کو پیار کیا گلے سے لگایا۔۔
“وصی ہمیں بہت یاد آئی تمہاری” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“پلان بنا کر بھیجا تھا آپ سب نے مجھے۔۔” وصی نے خفگی سے کہا۔۔
“ہاں لیکن تیری بھلائی کے لیے کیاتھا نا سب” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“اس عذاب میں بھیجنے میں بھلائی تھی۔۔؟” وصی نے کہا
“اسے تو یہ وقت ہمیشہ یاد رہے گا پھپھو۔۔” شفی نے صوفے پر ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔۔
“تو تو چپ ہی رہ۔۔۔ ددا پتا ہے اس نے مجھے کتنا تنگ کیا” وصی نے شکایت لگائی۔۔
“شفی۔۔۔یہ کیا کہ رہاہے؟” ددو نے پوچھا
“میں نے کچھ نہیں کیا ددو” شفی بوکھلایا۔۔
“اب آگیا ہوں واپس اب کیسے بھیجیں گے واپس۔۔میں نہیں جاؤں گا” وصی نے کہا
“وصی۔۔۔اتنی مشکل ٹریننگ کرلی اب چھوڑنا چاہتے ہو۔۔” ددا نے پوچھا
“مجھے اپنی ددو سے دور نہیں رہنا” وصی نے ددو کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔
ددو بھی اسے پیار کرنے لگی۔۔
“حور۔۔” وصی نے پکارا
“وہ جو مٹھائی پلیٹ میں ڈال رہی تھی۔۔پلٹ کر دیکھا
“جی۔۔۔” حور نے پوچھا
“کیا کر رہی ہو؟” وصی نے پوچھا
“سب کو مٹھائی دینے جا رہی ہوں” حور نے کہا
“اچھا ایک کام کرو۔۔۔مجھے پھپھو کا چارجر لا دو۔۔میرا چارجر پرابلم کر رہا ہے۔۔۔” وصی نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“اچھا میں لاتی ہوں” وہ کہ کر چلی گئی۔۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ کچن میں واپس آئی وصی وہیں کھڑا تھا۔۔
“یہ لیں چارجر” اس نے وصی کی طرف بڑھایا۔۔
“تھینک یو” وصی نے مسکرا کر کہا۔۔
حور ہلکا سا مسکرائی پھر مٹھائی کی پلیٹ اٹھائی۔۔
“حور۔۔تمہیں پتا ہے شفی کو لڈو بہت پسند ہے۔۔۔تم ایسا کرو یہ لڈو بھی لے جاؤ۔۔۔” وصی نے پلیٹ میں رکھتے ہوئے کہا۔۔
“اچھا۔۔۔” وہ کہ کر باہر نکلی۔۔
وصی بھی بھاگ کر اس کے پیچھے گیا۔۔
“ددا پتا ہے شفی کو مجھ سے دشمنی ہے مگر مجھے بہت پیار ہے اس سے” وصی نے شفی کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔۔
شفی نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
اسے وصی کے پیار پر حیرت ہورہی تھی۔۔
حور نے سب کو مٹھائی دی۔۔
“حور شفی کو بھی تو دو نا” وصی نے کہا۔۔
حور نے پلیٹ اٹھا کر اس کے آگے کی۔۔
“ایک منٹ میں کھلاتا ہوں” وصی نے لڈو اٹھایا اور شفی کے منہ تک لایا۔۔
“آج تجھے اتنا پیار کیوں آرہا ہے مجھ پر؟” شفی نے پوچھا
“دیکھا ددا۔۔میں پیار کرتا ہوں تب بھی اسے شک ہوتا ہے”
وصی نے خفگی سے کہا
“کھلا رہا ہے تو کھا لے نا کیا ہوگیا بھائی ہے تیرا” ددو نے کہا
شفی نے اسے گھورتے ہوئے لڈو کو منہ میں لیا۔۔
اور جیسے ہی اس نے لڈو کھایا۔۔
اس کا منہ چلتا ہوا رکا۔۔
اس نے وصی کو دیکھا۔۔
وصی مسکراہٹ لیے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
“کیا ہوا؟” وصی نے ابرو اچکائی
شفی کو یک دم کھانسی شروع ہوئی۔۔
“پان۔۔۔پانی۔۔” شفی نے جلدی سے کہا۔۔
“لگی مرچیں۔۔۔” وصی نے کہا
اس سے پہلے شفی اسے پکڑتا وہ چھلانگ لگا کر باہر بھاگا۔۔
نور بلیک فراک پہنے بالوں کو پونی میں قید کیے۔۔
ہلکا سا میک اپ کیے خود کو آئینے میں جانچ رہی تھی۔۔
“واقع بلیک مجھ پر اچھا لگتا ہے” نور نے مسکرا کر کہا۔۔
اور پرس اٹھا کر باہر نکلی۔۔
وہ کوثر بیگم کو بتا چکی تھی کہ وہ برتھ ڈے پارٹی میں جا رہی ہے حنا کی۔۔
اس لیے انہوں نے بھی اجازت دے دی تھی۔۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ وصی کے بتائےریسٹورنٹ پہنچی۔۔
سامنے ہی وصی کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔
اسے دیکھ نور مسکرائی۔۔
کتنا بدلا ہوا لگ رہا تھا وہ ہیئر اسٹائل بھی چینج تھا۔۔
نور کو وہ کہیں سے وصی نہیں لگا۔۔
وہ چل کر اس کے قریب آئی۔۔
“میرے انتظار میں کھڑے ہو؟” نور نے پوچھا۔۔
“ظاہر ہے یار” وصی کہ کر اندر کی جانب بڑھا۔۔
نور بھی اس کے ساتھ چل رہی تھی۔۔
“اچھی لگ رہی ہو” وصی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کہنے لگا۔۔
“بس اچھی لگ رہی ہوں؟” نور نے اترا کر پوچھا۔۔
“نہیں بہت اچھی ۔” وہ اوپر پہنچے تو وصی نے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔۔
نور نے سامنے دیکھا۔۔
پھر چلتی ہوئی ٹیبل تک گئی۔۔
جس پر پھولوں کی پتیوں سے آئی لو یو لکھا تھا۔۔
برابر میں ایک دل بنا ہوا تھا پتیوں سے جس میں موم بتییاں جل رہی تھی۔۔
ہلکے سے اندھیرے میں وہ موم بتیاں اور پھولوں سے سجے وہ الفاظ انہیں مزید خوبصورت بنا رہے تھے۔۔
نور کی نظریں ٹھہر گئی تھی۔۔
“کیسا لگا؟” وصی نے اس کے قریب سرگوشی کی۔۔
اس نے مسکرا کر وصی کو دیکھا۔۔
مگر کہا کچھ نہیں۔۔
“بیٹھو” وصی نے کرسی کھنچ کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔
اور خود بھی سامنے چیئر پر بیٹھ گیا۔۔
“وصی۔۔یہ سب۔۔” نور نے اسے سوالیا نظروں سے دیکھا۔۔
“آئی لو یو مس نور حدا” وصی کی آنکھوں میں چمک تھی۔۔
اس کے منہ سے اپنا پورا نام سن نور کی ہنسی نکلی۔۔
“تمہیں میرا پورا نام پتا ہے؟” نور نے پوچھا
“ظاہر ہے۔۔مجھے تمہارے بارے میں سب پتا ہے۔۔کیوں کہ تم سے پیار کرتا ہوں۔۔۔” وصی نے کہا
نور مسکرا کر نظریں جھکا گئی۔۔
“نور۔۔ول یو میری می؟” وصی نے پوچھا۔۔
“پہلے میرے سوال کا جواب دو” نور نے یک دم کہا
“کون سا سوال؟” وصی نے کہا۔
“ناول پڑھتے ہو؟” اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔
اس کے سوال پر وصی نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔
“کیا؟…تم ایک آرمی مین سے ناول پڑھنا ایکسپیکٹ کر رہی ہو؟” اس نے ابرو اچکائی
“لیکن میں تو پڑھتی ہوں۔۔۔اور سوری میں تم سے شادی نہیں کرسکتی” اس نے فیصلہ سنایا۔۔
“کیا؟ مگر کیوں” وہ چونکا
“کیوں کہ میں اسی سے شادی کروں گی جو ناول پڑھتا ہو” اس نے چہک کر کہا
“یہ کیا بات ہوئی؟۔۔صرف ناول نا پڑھنے پر شادی سے انکار؟” اس نے حیرانی سے پوچھا
“ہاں کیونکہ میرا یہ ماننا ہے کہ جو ناول پڑھتا ہے وہ بہتر لائف پارٹنر ہوگا۔۔وہ کوئی رومینٹک سا کئیرنگ سا ہوگا۔۔
بیٹرہاف یو نو بلکل ناولز کے ہیرو کے طرح” اس نے خوشی سے مسکراتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔۔
“جو ناول نہیں پڑھتا وہ بھی بہتر لائف پارٹنر ثابت ہوسکتاہے۔۔۔آزما لو” اس نے مسکرا کر کہا۔۔
“اچھا بتاؤ۔۔۔اگر میرے پاؤں میں چوٹ لگ جائے اور مجھ سے چلا نا جائے۔۔تو تم کیا کرو گے؟” نور نے پوچھا نے سوال کیا۔۔
“میں۔۔میں کچھ نہیں کروں گا۔۔بلکہ میں تمہیں کہوں گا کہ چلو ہی مت” وصی نے سادگی سے جواب دیا۔۔
“نہیں۔۔۔تمہیں چاہیے کہ تم مجھے گود میں اٹھاؤ۔۔۔جیسے ناولز میں ہوتا ہے” اس نے اکتا کر تصحیح کی۔۔
“اوہ۔۔۔چلو یہ بھی کرلوں گا۔۔۔۔آگے بولو” وصی نے مسکرا کر کہا
“اور اگر کبھی میں بیمار ہوجاؤں۔۔اور کھانا نا بنا سکوں تو؟” اس نے دلچسپی سے پوچھا۔۔
“تو۔۔۔ میں باہر سے لے آؤں گا۔۔” وصی نے کہا
“پھر سے غلط جواب۔۔تمہیں کہنا تھا تم خود بنا کر اپنے ہاتھوں سے مجھے کھلاؤ گے۔۔” وہ روہانسی ہوئی۔۔
“تم پاگل ہوگئی ہو ناول پڑھ پڑھ کر۔۔۔اور ایک بات بتاؤں کیا تمہاری ناولز کی ہیروئن کیا بیمار ہی پڑی رہتی ہیں۔۔۔جو شوہروں سے خدمتیں کرواتی ہیں؟” وصی نے اکتاکر کہا۔۔
“تم۔۔۔میں تم سے شادی نہیں کروں گی۔۔صحیح کہتے ہیں لوگ فوجی بندہ رومنٹک نہیں ہوتا وہ بس کھڑوس اور اکڑو ہوتا ہے” اس نے جھنجھلا کر کہا۔۔
اور وہ اس کی بات پر اپنا قہقہہ ضبط نا کرسکا۔۔۔