صبح فجر کے نیم اندھیرے میں اس کے کمرے کےمغرب کی جانب بنی دونو کھڑکیوں کے دونو پٹ کھلے ہوۓ تھے ـ باغیچے میں اس کے کمرے کی دیوار کے ساتھ پھولوں کی کیاریوں سے ،چھٹتی خشبو اس کے کمرے کے ماحول کو تازہ ہوا کے چھٹوں کے ساتھ اندرتک لا رہی تھی ـ پھولوں کی خشبو نے راحت اور تازگی کا احساس اندرتک بھر دیا تھاـ
اس نے دعا کے لۓ ہاتھ اٹھاۓ تو سب سے پہلے شکر کے کلمات زبان سے ادا ہوتے سنے تھےـ اور پھر بی اے میں پاس ہونے کی دعا زبان تک آئی تھی ـ امتحانات کے بعد یہ وہ ا گلی فکر تھی جو آج کل اسے لاحق تھی ـ
سفید ملائی جیسے چہرے کے گرد لپٹا دوپٹا بھی سفید ہی تھا ـ دونوں رنگوں کے امتزاج نے اس کے چہرے کو کچھ اور خوبصورت بنا دیا تھا ـ غلافی آنکھیں سفید ہالے میں کچھ اور واضع ہو رہی تھیں ـ
پشاور میں یہ اس کی چوتھی صبح تھی ـ ایک خوشگوار صبح ــ ـ ـ
اگرچہ وہ لاہور میں کچھ عرصہ خودمختار ہو کر رہنا چاہتی تھی ـ اب بھی اس کی یہی خواہش تھی ـ لیکن گھر والوں کی محبت بھی ایک الگ حقیقت تھی ـ وہ انکے بغیر کہاں زیادہ رہ پاتی تھی ـ لاہور میں ہوتی تو دس دن بعد گھر چکر لگانا ضروری ہوتا تھاـ اگرچہ اس کا بی اے مکمل ہو چکا تھا لیکن تھی تو اب بھی وہی معصوم سی ـ ـ ـ بہت بولنے والی باتونی سی ہر چھوٹی چھوٹی بات پہ پریشان ہو جانے والی فرح خان ـ جس کی تربیت اس سے پانچ سال بڑی اس کی پھوپو نے کی تھی ـ
اسنے دعا مانگ کر ابھی دوپٹا کھولا ہی تھا ـ جب کمرے کا دروازہ ہلکی دستک کے بعد کھلا تھا ـ وہ مڑے بغیر بھی جانتی تھی ـ کہ آنے والا کون تھاـ وہ مسکرا کر مُڑی تھی ـ
پڑھ لی نماز؟ انہوں نے آنے کے ساتھ دروازہ بھی پورا کھول دیا تھا جس سے روشنی کا داخلہ بڑھ گیا ـ
پڑھ لی ۔۔۔۔لیکن آج آپ لیٹ ـ کیوں کیا سوتی رہیں ؟
بس ذرا اٹھنے میں دیر ہو گئ ـ ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی ـ اور یہ بیٹھ کیوں رہی ہوـ اسےواپس بستر پہ بیٹھتے دیکھ کر انہوں نے ٹوکا تھا ـ
اف پھوپھو توبہ ہی ہے ـ آپ کو تو فوجی ہونا چاہے تھا ـ ہر روز صبح خیزی ـ ـ ـ کبھی بندہ چھوڑ بھی لیتا ہے ـ اس کا سونے کو دل چاہ رہا تھا ـ مگر بھلا ہو پھوپھو کا جو ایسا ہونے دیں ـ
ہاۓ فری مت پوچھ میں نے تیری یہ ڈانٹ کتنی مس کی ـ
واہ بہت اچھے آپ کو تو میرے غصے کا کوئی ڈر خوف ہی نہیں ہے ـ یہ بات اس نے مسکراہٹ دبا کر کی تھی ـ
فری بی بی مت بھولو کہ مجھےتمہاری پھوپو جان ہونے کا شرف تمہی کو حاصل ہے ـ اس لۓ لیحاظ ـ ـ ـ
ہاں پچیس سال کی پھوپو ـویسے آپ کو اپنے آپ کو پھوپھو کہلوانے کا اتنا شوق کیوں ہے؟
ھیں یہ تم سے کس نےکہا؟
بس مجھے پتاـ وہ ہنس کر کندھے اچکا گئی تھی
اس کا کمرہ کوٹھی کے دوسرے پورشن میں تھا ـ اور لمبی راہداری جس میں پانچ کمرے تھے اور اختتام پہ سیڑھیاں ـاس وقت وہ دونو تیز تیز ان سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی تھیں ـ پھوپھو آج آپ بہت خوش لگ رہی ہیں خریت؟ جواب وہ جانتی تھی ـ لیکن پھر بھی پوچھ لیاـ
بسس ـ ـ ـ وہ کندھے اچکا گئیں تھیں ـ
وہ ہمیشہ ایسے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر خوش ہوتی تھیں ـ ان کو کبھی بھی بڑی وجہ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ـ جیسے اب وہ پھولوں ، گیلی ٹھنڈی گھاس کو دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں ـ
بتائیں نا کیوں خوش ہیں ـ
اس لئے میری غلابو کیوںکہ تم میرے ساتھ ہوـ اس کے دونو سرخ سفید گالوں کو انہوں نے چٹکی بھر کر چھوڑا تھا ـ
اہمممم پھوپھو ! اسے انکی اس حرکت سے سخت چڑھ تھی ـ
لان کی گھاس پہ ہمیشہ کی طرح چہل قدمی کرتے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے وہ دونو کہیں سے بھی پھوپھو بھتیجی نہیں لگ رہی تھيں ـ
آپ کو پتا پھوپھو ماہ نور کو میں آپ کی اور اپنی اتنی باتیں تائیں کہ اب تو وہ آپ پہ پورا مضمون لکھ سکتی ہےـ
ہیں ـ ـ ـ بتاؤ کیا تعریفیں کی میری ـ
آپ کو کیوں لگتا کہ میں آپ کی محض تعریف ہی کر سکتی وہ بھی جھوٹی ـ
وہ اس لۓ کہ میرے جیسا اچھا کبھی دیکھا نہ سنا ـ اور یہ جھوٹی والی بات سے مجھے جلنے کی بو آ رہی ہے ـ وہ تو محض انکو کو دیکھ کر رہ گئی تھی ـ
ﷲ پھوپھو آپ تو بہت خودپسند ہو گئ ہیں ـ اس سے مسکراہٹ چھپانا مشکل تھاـ
اس کو خودپسندی نہیں بولا جاتا میری جان ـ
اچھا موٹی! اس کو کیا بولتے ھیں ـ وہ اب چڑھ گئ تھی ـ غضب خدا کا اتنے چکر تو کوئی اسی کلو کے وزن والا بھی نہیں لگاتا ہوگاـ جتنے وہ لگا چکی تھیں
اس کو حقیقت بولتے ھیں ـ اور اپنے آپ کو دیکھو خود کتنی موٹی ہو ـ سچی فری تمہیں ڈائٹ کی سخت ضرورت ہے ـ
ﷲ پھوپو آپ اور ماہا میرے پیچھے ہی پڑگۓ ہوـاس کا منہ بن گیا تھاـ
لوـ ـ ـ سچ بولو تو تمہیں برا لگتا ہےـ
نہیں سننا مجھے آپ کا سچ ـ ـ ـ بھاگنے کا موقع اچھا تھاـاس نے اندر کی طرف دوڑ لگائی تھی ـ
ہوـ ـ ـ دغا باز رکو تو سہی ـ فری ـ ـ دفع ـ ـ ـان کا منہ بن گیا تھا ـ
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
لون خوبصورت رنگوں اور قمقموں سے سجا سجانے والے کاکمال بیان کر رہا تھا۔ ماحول میں عجب سحر تھا۔ ایسےمیں خشبوں میں لپٹےوجود چہروں پہ ڈھیروں مسکراہٹیں لئے یہاں وہاں گھوم رہے تھے۔
بس ایک وہی تھا۔جو لون کے وسط میں اپنی چھا جانے والی شخصیت کےساتھ تن تنہا کھڑا موبائل پہ مگن تھا۔
وہ اس وقت منگنی کے تھیم کے لیحاظ سے سیاہ اور سفید سوٹ میں ملبوس تھا۔ اگرچہ سیاہ سوٹ وہاں بہت سوں نے پہن رکھے تھے۔ لیکن جو بات اس پہنے والے میں تھی۔ شائد ہی کسی میں ہوتی۔
اس کے چہرےکی مسکراہٹ۔۔۔ اس کے سنہری رنگ گالوں کوڈھکتی ہلکی سیاہ داڑھی۔۔۔اس کی آنکھوں کا سرد پن ۔۔۔ اس کے مضبوط کندھے ۔مضبوط کلائیاں۔سوٹ میں نمایاں ہوتا اس کا قد۔غرض یہ کہ وہ وہاں پہ موجود ہرچیز سے بے نیاز ہنڈسم با رعب اور پُروقار شخص تھا۔ مگر بھلاہواسےپروا کب تھی۔
وہ کیا خوب کہتے ہیں کے حسن ہوتو نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ اکمل جو کہ اس سارے فنگشن کا میزبان تھا۔اس کے قریب آ کر گنگنایا تھا۔اور دونوں ہاتھوں موجود جوس کے گلاسوں میں سے ایک اسے بھی تھمایا۔
یہ بکواس کس لئے؟
جانے بہارا تم اس وقت ان تتلیوں کو نہیں دیکھ رہے جو تمہاری خوشبو کے گرد منڈلانے کو بےتاب ہیں۔ مگر تم ہو کہ لفٹ ہی نہیں کروا رہے۔حقیقت تھی۔
بکو مت اکمل۔۔۔ دس بل تھے جو ماتھے پہ نمودار ہوئے تھے۔
لو۔۔۔ یہ بھی صحیح ہے۔پہلے میری ہی بہن کی منگنی میں صاحب بہادر بنے بیٹھے ہو۔اور اب نزلہ بھی مجھ پہ۔
اگر اتنا پرابلم ہے تو چلا جاتا ہوں۔ وہ جانے کس بات پہ غصہ تھا۔
ہاں توآ کر کونسا احسان کیا۔ بول دے نیشاء کو اور چلا جا۔ویسے تو بڑا بھائی بنتا ہے۔
بکواس نہیں کر بنا نہیں ہوں ۔۔۔ ہوں میں اس کا بھائی۔اورچل مومنہ باجی اور آنٹی کو لے آئیں ۔
انکو ہی لے کر آیا ہوں۔تو بس اس فون میں گھسا رہ۔
تف۔۔۔ پہلے نہیں بک سکتے تھے۔
یار تو عجیب ہے۔۔۔
لیکن وہ جا چکا تھا۔
اسلام ُعلیکم آنٹی ۔۔۔ سٹیج کے قریب صوفوں پہ وہ دونو دادی جان اور مریم آپی کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔مریم آپی کچھ روز پہلے ہی آئیں تھیں اپنے بیٹے کے ساتھ۔
اسے دیکھتے ہی وہ کِھل سی گئیں تھیں ۔ذریت میرے بچے کیسےہو؟ انہوں نے محبت سے اس ک ماتھے پہ پیار کیا تھا۔
ٹھیک آپ بتائیں آپ کیسی ہیں۔اور آپی آپ احسن کو نہیں لائیں؟
نہیں۔۔۔اس کے بابا آج ہی لے کر گئے ہیں ۔ویسے بھی ہم لوگ دو دن تک شفٹ ہو رہے ہیں۔اب امی ہمارے پاس ہی ہوں گی۔
آنٹی آپ پلیز نہ جائیں میرے پاس رہ لیں اس نے انکا سلوٹوں والا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ وہ آذر کی امی تھیں وہ کیسے جانے دے سکتا تھا انکو۔۔۔
ہاں آنٹی آپ ہماری طرف رہ لیں ۔ آپ اور دادی مل کر رہنا اور میری بھابی کو ڈھونڈنا۔۔۔ کیوں دادی جان۔۔۔ مریم آپی بھی پرجوش ہو گئیں تھیں۔
میں تو بول چکی ہوں ۔۔۔دادی نے فورس کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔وجہ وہ جانتی تھیں۔وہ کبھی نہیں رہ سکتی تھیں۔کوئی بھی عورت اپنا گھر چھوڑنا پسند نہیں کرتی۔
آپ سب کی محبت ہے ۔لیکن اب میں مومو کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔
ذریت ۔۔۔ اکمل کی آواز پہ اس کے کُھلے لب بند ہوئے تھے۔اس نے مڑ کر آواز کی جانب دیکھا تھا۔ آذر مین اینٹرس کےقریب کسی جوڑے کے ساتھ کھڑا تھا۔لڑکی کی اس کی جانب پشت تھی۔جبکے مرد کا بائیاں حصہ چہرے کا اور باقی دھڑ نظر آ رہا تھا۔
وہ اس کی جانب بڑھا تھا۔
ذریت ان سے ملو مِسٹر اسفند اکرام اور انکی منگیتر مس نتاشا۔۔۔وہ مسٹر اسفند کو ذاتی طور پہ نہیں جانتا تھا۔اکمل ان صاحب کے ساتھ بزنس کرنے کا سوچ رہاتھا۔جن کی عمر ۲۷ کے قریب تھی اور جب اس نے پہلومیں بےزار سی لڑکی پہ غور کیا تو وہ چکرا کر رہ گیا۔تیز میک اَپ کی وجہ سے وہ پہلی نظر میں پہچان نہیں پایا تھا۔وہی تیزتیکھے نقش ۔وہی دوسروں کےلئےبےپروائی ۔پہچانا ،تو غصےنے اس کے اندر باہر آگ لگا دی تھی۔اس کا دل چاہا وہ اس لڑکی کا چہرا جھلسا دے۔وہ بھی وہی اذیت سہے جو آذر نے اس کے دھوکے ،فراڈ اور کھیل تماشے سے واقفیت کے بعد سہی تھی۔
آپ سےمل کر خوشی ہوئی۔۔۔ اس نے سرد سپاٹ انداز میں کہہ کر سٹیج کی طرف رہ لی تھی۔لیکن وہ لڑکی نتاشا کا وجود اس کی برداشت سے باہر تھا۔اس پارٹی میں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔کہ یہ نتاشا کونسی نتاشا تھی۔سٹیج پہ بیٹھے غیر ایرادی طود پہ وہ اس پہ نظر رکھے ہوئے تھا۔اور یہ بات شائد اس نے محسوس کر لی تھی۔لیکن حیرت کی بات اس نے اس کے چہرے پہ کوئی پریشانی یا اَضطراب نہیں پایا تھا۔وہ بس مسکراتی اپنے منگیتر کے ساتھ یہاں وہاں گھومتی رہی تھی۔اس نےنوٹس کیا تھا کہ وہ اپنےمنگیتر سے کچھ خاص خوش نہیں دکھ رہی تھی ۔بس اجنبیت سی تھی۔ اس نے اسے دادی جان کے صوفے کے پاس جاتے اور وہاں بیٹھتے دیکھا۔اور پھر کسی بات پہ چونک کہ اس کی جانب دیکھا تھا۔وہ اس کی آنکھوں کا انصر سمجھ نہیں پایا تھا۔اس نے اسے حقارت سے دیکھ کر نظریں پھیر لی تھیں۔ذہین آہستہ آہستہ تانے بانے بن رہا تھا۔
آپ کے دوست کو شائد ہم پسند نہیں آئے۔ اکمل بھی ذریت کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہا تھا۔جو ہر ہر بات پہ کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔پتہ نہیں تو کس کو احسان جتا رہا ہے۔منگنی پہ آ کے۔میں اسفند اور اس کی منگیتر کے سامنے بہت شرمندہ ہوا ہوں۔انہیں لگ رہا ہے کہ تمہیں ان کا آنا پسند نہیں آیا۔
یہ تم سے کس نے کہا۔وہ اس وقت موبائل پہ شائد اپنے اسسٹنٹ سے بات کر رہا تھا۔شائد اس کی کوئی میٹنگ تھی۔
اس کی منگیتر نے کئے بار بولا مجھ سے۔۔۔ وہ اس کی بات پہ چونکا تھا۔وہ اسے نوٹس کر رہی تھی۔نہیں ایسی بات نہیں ہے۔کہہ کر وہ دادی جان کی طرف آ گیا تھا۔جو شائد اب گھر جانا چاہ رہی تھیں۔اور ہلے گُلے کی شُدائی مریم آپی رکنے کو بول رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دادی آپ نے دیکھا وہاں کتنی پیاری پیاری کڑکیاں تھیں۔مجھے تو سب ہی ذریت کے لئے اچھی لگ رہی تھیں۔قسم سے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کس کو بھابی بناوٴں اور کس کو چھوڑ دوں ۔دادی جان سویٹر بننے کے ساتھ ساتھ ان کی باتیں بھی سن رہی تھیں۔اور مسکرائے جا رہی تھیں۔توبہ مریم ایک بھائی کی کتنی شادیاں کرو گی۔
لے۔۔۔میں کیوں کر وانے لگی وہ تو میں بس بات کر رہی ہوں۔کہ سب لڑکیاں ہی اچھی تھیں۔اور اب آپ کا لاڈلہ چھوٹا نہیں رہا جو میرے کہنے پہ شادی کر لے۔۔۔اس کے لئے ڈنڈے کی ضرورت ہے۔وہ اپنے بیٹے کو سلا کر نہایت فرست سے منہ پہ بیسن کا پیسٹ لگا رہی تھیں۔
جو میں نے دیکھی ہےنا۔وہ تم چلو میرے ساتھ دیکھنے۔میں نے اس کے ابو سے بات کر لی ہے۔ظفر نے نمبر لے لیا تھا۔اور اب کسی سے ذکر مت کر نا ذریت سے تو بلکل بھی نہیں۔ورنہ وہ منع کر دے گا۔اور میں چاہتی ہوں کہ تم جانے سے پہلے یہ کام کر جاوٴ۔
ہاں میرا بھی یہی خیال ہے۔خیر اب آپ مجھے بلانا مت ۔میں بولو ں گی نہیں۔کرسی پہ دونوں پاوٴں چڑھاکر انہوں نے آنکھوں پہ کھیرے کے ٹکڑے رکھ لئے تھے۔
شاباش ہے۔۔۔یہاں تم مجھے ملنے آئی ہو یا پھر یہ سب کرنے۔جواب ندارد۔افسوس ہے بھئ۔
۔۔۔۔۔
خریت تم ادھر؟۔۔۔وہ لون میں نگھت عبداللّٰہ کا ناول پڑھ رہی تھی۔ جب بابر بھائی کی بات پہ گردن موڑ کر ان کی طرف دیکھا تھا۔
ویسے تم پاکستانیوں نے ہر چیز عجیب ہی ایجاد کی ہے۔وہ اس کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گئے تھے۔
چھااااا۔ ہم پاکستانی اورآپ کیا افریقی ہو۔وہ ان کی بات پہ ہنسی تھی۔
نہیں یار۔۔۔انہوں نے بالوں میں دائیاں ہاتھ پھیرا اور پھر ہاتھ میں پکڑے موبائل کی سائڈ کے بٹن سے سکرین آن کی تھی۔
کیا ہوا میرے پاکستان نےبورکر دیا؟اس نے کتاب کو بند کر دیا تھا۔وہ آج سارا دن انکو ٹائم نہیں دے پائی تھی۔
ہاں بہت زیادہ ۔۔۔کوئی دوست نہیں۔اور تم بھی بورنگ عورت گھر میں گھوسی ہوئی۔پلیز چلو کہیں چلتے ہیں۔وہ خاصے بوریت سے تنگ آئے لگ رہے تھے۔
اللّٰہ۔۔۔۔ بابر بھائی آپ تو بولتے تھے۔ کہ آپ لیمٹ لیس ہو۔پھر اب ایسا کیا ہو گیا۔اور یہ ساتھ والوں کے گھر ہیں تو سہی آپ کی عمر کے لڑکے۔۔۔
کون۔۔۔وہ سنگل پسلی۔۔۔رہنے دو ماہا ۔۔۔بہت شوخا ہے وہ۔دو منٹ کی بات ہوئی تھی میری لیکن اس کے بعد وہ جہاں سے گزرتا تھااگر مجھے وہ نظر آ جاتا تو میں رستہ بدل لیتا ۔
کتنی بری بات ہے۔پتہ وہ آنٹی اتنی اچھی ہیں نا۔اور تھوڑی لڑاکا بھی۔اگر انکو پتا چل گیا نا آپ انکے بیٹے کو شوخا بول رہے تھے۔پھر وہ بتائیں گی آپ کو۔اور میں نے تو ماننے سے ہی انکار کر دینا کہ آپ میرے بھائی ہو۔وہ اب اسے چھیڑ رہی تھی۔
بہت سیلفش ہو پھر تو تم۔میں تو سوچ رہاتھا کہ تمہیں کہوں گا کہ اپنے لئے کوئی بھابی ڈھونڈنے کی فکر کرو۔تمہارا بھائی بڑا ہو گیا ہے۔لیکن چلو یوں تو یوں ہی صحیح۔۔۔ڈرامہ عروج پہ تھا۔
ہیں ۔۔۔یہ کب ہوا۔کون ہے؟اور یہ بتائیں کیسی ہے؟وہ یہ سوچ کر ہی پُرجوش ہو گئی تھی کہ اس کا بھائی کسی لڑکی میں دلچسپی لے رہا ہے۔
دیکھو ذرا۔۔۔ٹیپکل عورت ہی ہو تم بھی۔میں ڈھونڈنے کی بات کر رہا اور تم۔۔۔توبہ توبہ تمہیں میں ایسا لگتا ہوں۔میرے لئے تو سب لڑکیاں ہی بہنیں ہیں۔بس ایک تمہاری بھابی کے سوا۔وہ کہیں سے بھی مزاق کرتا نہیں نظر آ رہا تھا۔
میں بابا سے بات کروں؟
کیا۔۔۔ نہیں نہیں پگلی تم تو سیریس ہی ہو گئی۔تم بس اپنی فکر کرو۔
کیا مطلب اپنی فکر کرو؟اس بات کا کیا مطلب تھا؟
او ۔۔۔کچھ نہیں تم عورتیں بھی نا۔۔۔ چلو اُٹھو باہر چلتے ہیں۔
نہ میں نے نہیں جانا۔میرا موڈ نہیں۔اس نے واپس ناول کھول لیا تھا۔
چلو بھی یار۔۔۔انہوں نے بُک جھپٹ کر سائڈ پہ رکھ دی تھی۔
نہیں نہ جب سے فری گئ میرا گھر سے نکلنے کو دل نہیں کرتا۔
چلو جی۔بس ایک فری ہی ہے۔میں تو تمہارا کچھ لگتا ہی نہیں بھول گئی۔میں کس طرح تمہارے اس بڑے سے منہ میں چوکلیٹ ڈالتا تھا۔میرے یہ نازک سے ہاتھ تم چبا ڈالتی تھی۔اور وہ بھی یاد نہیں کیسے میں اپنے ہوم ورک کے ساتھ ساتھ تمہارا بھی کرتا تھا۔وہ کہیں سے بھی ماہا کا بڑا بھائی نہیں لگ رہا تھا۔اور عمر بھی کونسا زیادہ تھی۔بس تئیس سال۔
توبہ ہی ہے۔چلیں اُٹھیں اس نے اٹھ کر کپڑوں کی سلوٹوں کو ہاتھوں سے ہی سیدھا کیا تھا۔اور سر پہ اوڑھے دوپٹے کو پھیلا لیا تھا۔اس طرح کے ماتھے سے کمر تک وہ رنگین آنچل سے ڈھک گئی تھی۔لیکن یاد رہے شاپنگ اور لنچ آپ کی طرف سے۔
اوکے منظور۔وہ بھی فٹ مان گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات گہری ہونے کے قریب تھی۔جب وہ گھر آیا تھا۔آپی اور دادی لاوٴنج میں سر جوڑے نہ جانے کیا کھسرپھسر کر رہی تھیں ۔کہ اسے دیکھتے ہی دونو سیدھی ہو گئی ۔
خریت؟آپ دونو کو آج کیا ہوا؟وہ چونکا تھا۔
کچھ نہیں بس ایسے ہی میں دادی جان کو اپنے سسرالیوں کا بتا رہی تھی۔آج گئی تھی نہ۔بس وہی۔۔۔
ہممم ۔۔۔احمد ادھر آوٴ میرے پیارے بیٹے۔اس نے نیچے کارپٹ پہ کھیلتے احمد کو اُٹھانا چاہا تھا۔جو سر ہلا کر انکار کرنے لگا تھا۔نو۔۔۔ میرا موٖ ڈ نہیں ہے۔واہ کیا شہانہ انداز تھا۔وہ حیران کھڑا تھا۔
سوچ لو ۔رات میں آیسکریم کھلانے لے کر جاوٴں گا۔
واٹ۔۔۔مامو آپ نے کیا مجھے بچہ سمجھ رکھا ہے۔جو آیسکریم سے بہل جائے گا۔میں بیٹ مین دیکھتا ہوں۔اور بیٹ مین لورز بچے نہیں ہوتے۔
ذریت سے اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
اچھا۔۔۔ لیکن میں تو بیٹ مین نہیں دیکھتا۔
تو آپ سے کس نے کہا کہ آپ بڑے ہو۔ابھی ماما بول رہی تھیں۔دادی ذریت ابھی بچہ ہے۔ اس نے ویسے ہی نکل اُتاری تھی۔مریم جو آہستہ آہستہ دادی سے بات کر رہی تھیں فوراً سیدھی ہوئی۔احمد بُری بات۔اور پھر سے بات کرنے لگیں ۔لو اس میں کیا بُرا ہے۔وہ شائدجھکا کوئی پزل سولو کر رہا تھا۔سیدھا ہوا۔
کیا میں نے کچھ غلط کہا۔؟
نہیں اس نے جھک کر اس کے ماتھےپہ پیار کیا اور پھر کھانے کا بول کر سیڑھیاں چڑھ گیا تھا۔
ابھی اس نے صوفے پہ بیٹھ کہ جوتوں کو پاوٴں سے الگ کیا ہی تھا۔جب اس کا پہلو میں پڑا موبائل بجا تھا۔آنے والی کال کا نمبر پہلے ہی اس کے موبائل میں سیو تھا۔آنے والی کال نے اس کی تھکاوٹ کو دور کر دیا تھا۔موبائل کو کچھ دیر بجتے ہی رہنے دیا تھا اس نے۔قریباً پانچ منٹ بعد اس نے کال رسیو کی تھی۔
فون کو کان سے لگا کر دوسرے ہاتھ سے وہ شیشے کے سامنے کھڑا کنگھی کر رہا تھا۔جبکہ زبان دوسری طرف اپنی لاعلمی کا بیان دے رہی تھی۔چہرے پہ اگر سرد پن تھا تو شیشے میں آنکھوں میں ہلکورے لیتی نفرت بھی واضح تھی۔۔۔
وہ تو بس آپ سے بات کرنے کی چھوٹی سی خواہش تھی۔جسے وہ سیریس لے گیا شائد۔وہ کہہ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائے بوا نہ کرو۔حیرت سے ان کا منہ کھل گیا ہو جیسے۔
لو مجھے کیا پڑی کہ میں جھوٹ بولتی پھیروں۔بوڑھی نے سر پہ لپٹی چادر کے پلّو کو کہنے کے ساتھ چہرے سے کچھ اوپر ماتھے پہ جمایا جو بار بار سر ہلنے پہ سرک رہا تھا۔
پڑی تو خیر آپ کو بہت گہری ہے۔ تخت پہ لیٹے رسالے کی ورک گردانی کرتے۔اس کی آواز اتنی بلند ضرور تھی کہ بوڑھی سن لیتی۔
ارے بھئ بڑی بیگم سچ پوچھو تو تمہاری یہ لونڈیا بہت شریر ہے۔امی جی کا ذکر سن کر اس نے مڑکردیکھا تو فوراً سےسرجھکا بھی لیا کہ کہیں پتھر کی نہ ہو جائے۔وہ تو سمجھی تھی کہ اس کے اور پھوپھو کے سوا اور کوئی نہیں ہے وہاں پر امی جی بھی وہاں تھیں اور ملازمہ سے اچار بنوا رہی تھیں۔
چھوڑو بوا تم بتاوٴ تم کیا کہہ رہی تھی۔انہوں نے فوراً بات کو اس کے عنوان کی طرف موڑا۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی۔کہ اس کی بہو نے گھر کی ساری شکل ہی بدل دی۔۔۔
اچھا بوا۔آپ کی بیٹی نے میٹرک کر لیا؟
اسے اب غصہ آ رہا تھا۔آخر دوسرے کی بہو بیوی کے بارے میں بات کرتے لوگ کیوں نہیں سوچتے۔وہ جس کا ذکر کر رہی تھی۔وہ اس کو اچھے سے جانتی تھی۔سسرال کو جوڑ کر رکھنے کے لئے اپنا آپ قربان کرنےوالی ایک نیک عورت ۔۔۔بس اس کی خامی دنیا والوں کی نظر میں یہ تھی۔کہ ایک تو میکہ نہ تھا بیچاری کا ۔اور دوسرا اولاد۔۔۔بس ایک یہ دو باتیں تھیں جو اسے بُرا بنا رہی تھیں۔عجیب معاشرہ ہے۔کیا اتنے بے عقل ہو گئے ہیں سب کہ اللّٰہ کی قدرت اور طاقت کو ہی نہیں سمجھتے۔کوئی اس کی خدمات کو نہیں دیکھتا۔بس سب لگے ہوئے ہیں۔ایک ہی انسان کی ٹانگ کھینچنے۔۔۔
آآآ بس لگی ہی ہوئی ہے۔۔۔اپنی بار جواب دینا مشکل تھا۔
پیچھلے سال بھی تو وہ میٹرک میں ہی تھی نا ۔۔۔کیوں پھوپھو؟پھوپھو جو ہنسی چھپانے کو چہرا گھٹنوں میں چھپا گئ تھیں۔محض سر ہلا کر تائید کی۔
کیا فیل ہو گئی تھی بوا؟۔معصومیت سے پوچھا گیا ایک اور سوال۔
بوڑھی اب کی بار گڑبڑائی تھی۔اےلو اب بھلا لڑکیوں نے پڑھ کر کیا کرنا۔گھر جو سنبھالتی ہے میری لڑکی۔۔۔
لیکن بوا اگر پڑھے گی نہیں تو۔۔۔فرح خان اُٹھو اور جا کر بابا صاحب کے لئے تازہ مکھن بناوٴ۔امی جی نے اس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی اسے اُٹھا دیا تھا۔وہ اور پھوپو مسکراہٹ چھپاتی اُٹھ گئیں۔
میری بات تو سنو۔اپنی لڑکی کو اپنی اس نند سے دور ہی رکھو۔پھر مت کہنا۔اسی کا اثر ہو رہا ہے۔یاد نہیں کیسی تھی یہ ۔وہ بوا کی بات کا مطلب سمجھ نہیں پائیں تھیں۔
کیا مطلب بوا؟
لو کیا اب لڑکی کی ماں ہو کر بھی مطلب پوچھو گی۔وہ چادر سنبھالتی اُٹھ گئی تھی۔جبکہ فساد کی ہلکی چنگاری چھوڑ گئی تھی۔شائد اسی لئے سب سے زیادہ عورتیں جہنم میں ہوں گی۔کیونکہ کسی کو خوش اور خوش حال دیکھ کر اس جیسی عورت سے کہاں برداشت ہوتا ہے۔جل اُٹھتی ہیں فوراً حسد میں۔بوا نامی یہ عورت پاکستان کے ہر محّلے میں پائی جاتی ہے۔جو اپنی کمیوں کو دوسروں کے گھروں میں آگ لگا کر پورا کرتی ہیں۔
دیکھا پھوپو پھر میرا کمال۔اس نے مصنوعی کالر جھاڑا تھا۔
ہاں دیکھ لیا۔اب رات میں تمہاری امی جی کا جلال بھی دیکھوں گی۔بلکہ رات میں کیوں۔ابھی کیوں نہیں۔وہ ہنس پڑی تھیں۔
خریت آج بڑا ہنسا جا رہا ہے؟چچی جی شائد اپنے بیٹے کے لئے فریج سے دودھ لینے آئی تھیں۔
جی وہ میں بس لاہور کا بتا رہی تھی پھوپھو کو۔اس نے مسکراہٹ چھپا کر جھوٹ بولا تھا۔ابھی اگر ماہا ہوتی تو کہتی فری تمہاری ناک لمبی ہو چکی ہے۔اب جھوٹ مت بولنا ورنہ پکڑی جاوٴ گی۔ماہ نور یاد آئی تو ساتھ ہی اس کو فون کرنا بھی یاد آیا تھا۔اور جب اس کو فون کرنا یاد آیا تو وہ بیگ میں چھپایا فون بھی ذیہن کے نقشے پہ اُبھرا تھا۔جس کے ساتھ ہی فکر ہوئی تھی۔پتہ نہیں گھر والے کیا سوچیں۔
اچھا ایسا کیا خاص واقعہ ہے کہ اتنی ہنسی کے فوارے پھوٹ رہے۔ہمیں بھی تو پتہ چلے۔۔۔۔ ہم بھی تھوڑا ہنس لیں ۔
جی بس وہ ایسے ہی کالج کی شرارتیں ۔
ہاں تو میں نے کب کہا کچھ اور۔۔۔ کہہ کر وہ فیڈر بھر کر باہر نکل گئی تھیں جبکہ وہ دونوں ان کی بات میں اُلجھ گئ تھیں۔بات اتنی بڑی نہیں تھی۔جتانا بُرا انداز تھا۔
یہ چچی جی کی کیا چچاجی سے لڑائی ہوئی ہے۔؟اسے ان کی کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔
مجھے کیا پتہ۔۔۔لیکن یہ بات کیا کہہ کر گئی ہیں؟
پتہ نہیں ۔۔۔چلیں بن گیا مکھن ۔آئیں ہم میرے کمرے میں چلتے ہیں۔مکھن کو فریج میں رکھ کے وہ دونو سیڑھیاں چڑھ گئی تھیں۔جبکہ ملازمہ سے اچار کے مرتبان کیچن میں رکھواتے ہوئے۔امی جی کی نظریں ان دونو پہ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا جان آج ایک عجیب بات ہوئی۔پوچھیں کیا؟وہ تینوں میز کے گرد بیٹھے رات کا کھانا کھا رہے تھے۔جب اس نے ہنستے ہوئے بابا جان کو سارے دن کی روداد سنانا شروع کی تھی۔
اچھا چلیں پھر بتائیں کیا۔۔۔وہ بھی اسی کے انداز میں بولے تھے۔
آج بابر بھائی نے فراخ دلی کا مظاہرا کرتے ہوئے مجھے بہت سی شوپنگ اور لنچ اپنی جیب سے کروایا۔
واہ ۔۔۔بھائی ہو تو ایسا۔اینڈ پہ لقمہ بابر نے خود دیا تھا۔
اچھا تو پھر کیا کیا لیا میری بیٹی نے؟ان دونو کی باتیں سن کر وہ اپنی بیماری بھول جایا کرتے تھے۔جس کے بارے میں خُدا کے بعد وہ اور انکا ڈاکٹر جانتا تھا۔۔۔
اس نے ۔۔۔اس نے ندیدے پن کے سارے ریکاڈ توڑ کر بےشرمی کی انتہا پہ شوپنگ کی۔اور جب مال سے باہر آ گئے تب محترمہ کو اپنے اس معصوم سے بھائی کا خیال آیا۔
اللّٰہ ۔۔۔بابر بھائی آپ کو تو ایکٹر ہونا چاہے تھا۔کیسے دو منٹ میں مجھے ظالم اور اپنے آپ کو مظلوم بنا ڈالا۔وہ حیران رہ گئی تھی۔حلانکہ سب شوپنگ انہوں نے خود کروائی تھی۔
بس اس ملک میں ٹیلنٹ کی قدر نہیں ہے نا اس لئے۔۔۔ ورنہ آج میں بھی کسی فلم کی شوٹ کے لئے بڑے سے سیٹ پہ ہوتا۔
اور میرے چاروں اور میرے مداح ہوتے۔۔۔
بس بیٹا خوابوں سے باہر آ جاوٴ۔۔۔ بابا نے ہنستے ہوئے ٹوکا تھا۔ورنہ شیخ چیلی پتہ نہیں کہاں جا کر رکتا۔اور کہاں انڈے ٹوٹتے۔
مجھے بتاوٴ ابرار کب تک آئے گا؟اب ذراہم باتیں بھی کر لیتےہیں۔ماہ نور نے بھی بھائی کا ذکر سن کے چمچ روک دیا تھا۔وہ بے تابی سے انکا انتظار کر رہی تھی۔
جی۔۔۔بابا جان آج صبح میری بھائی سے بات ہوئی تھی۔کل کا بولا ہے۔شام تک آ جائیں گے۔
ابرار بھائی آ رہے۔وہ سن کر پُرجوش ہو گئی تھی۔لیکن پھر شرمندہ بھی ہوئی۔کیونکہ ابھی بات چل رہی تھی۔
ٹھیک ہے۔گیسٹس بھی صبح ہی آ رہے ہیں۔انکو اب منع نہیں کیا جاسکتا۔مناسب نہیں لگے گا۔ورنہ میں۔بول دیتا۔اور ابرار کا انتظار کر لیتے۔نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے وہ کہہ رہے تھے۔
بابر انکو ہی دیکھ رہا تھا۔اسے وہ پہلے سے کمزور لگے تھے۔نہیں بابا جان آپ نے ٹھیک کیا۔ویسے بھی آنا جانا لگا ہی رہے گا۔
ہم۔۔۔ اور ماہا بیٹا صبح کچھ اہم مہمان آ رہے ہیں تو آپ نے خیال رکھنا ہے۔آنٹی بتول سے اچھا سا کھانا بھی بنوا لینا آپ۔۔۔اُٹھنے سے پہلے اسےبھی تاکید کی تھی۔وہ سر ہلا گئی۔
کون آ رہا ہے۔۔۔ایک منٹ۔وہ بابر بھائی سے پوچھ ہی رہی تھی۔جب وہ ایک منٹ کا اشارہ کر کے بابا کے پیچھے سیڑھیاں چڑھ گئے تھے۔شائد کچھ باقی
رہ گیا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...