زیام گرائونڈ میں ایک کونے میں بیٹھا کچھ پڑھ رہا تھا جب عرزم نے اس کے پاس آیا اور اسے متوجہ کرنے لگا۔۔۔۔ زیام جو کل رات سے ہی عرزم سے ناراض تھا اور صبح سے اسے مکمل اگنور کر رہا تھا نے مڑ کے دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عرزم ہی ہوگا ۔۔۔۔
کیا تم مجھ سے ناراض ہونے کی کوشش کر رہے ہو؟؟
عرزم اس کے پاس بیٹھ کر مصنوعی سنجیدگی سے بولا لیکن آنکھوں میں شرارت واضح رقص کر رہی تھی ۔۔۔۔
نہیں۔۔۔ میں تم سے ناراض ہی ہوں۔۔۔
زیام نے اسے گھور کر جواب دیا ۔۔۔۔
یار زیمی اب یہ ناراضگی کس بات کی ہے؟؟
تم نے بھائی کو وارننگ لیٹر کیوں ایشو کروایا ۔۔۔ تم جانتے ہو اس سب کی وجہ سے ان کا کرئیر خطرے میں پڑ سکتا ہے۔۔۔
زیام نے سنجیدگی سے پوچھا تو عرزم کا چہرہ ایک دم سپاٹ ہوا۔۔۔
میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں جو تمہیں درد دینے کی سوچ رکھتا ہو میں اسے تکلیف کی آخری حدوں تک لے کر جائوں گا۔۔۔۔
عرزم کیا تم نارمل انسانوں کی طرح اگنور نہیں کرسکتے۔۔؟؟؟ ہر وقت سائیکو بننا ضروری ہوتا ہے کیا؟؟؟
عرزم حیدر نارمل انسان نہیں ہے۔۔۔ کم از کم تمہارے معاملے میں مجھے سائیکو بننا اچھا لگتا ہے۔۔۔
عرزم نے غیر سنجیدگی سے کہا تو زیام اسے غصے سے گھورا۔۔۔
اوکے اوکے۔۔۔۔ گھورو تو مت۔۔۔ اب معصوم بچے کی جان لو گے کیا؟؟ اور ویسے بھی رات گئی بات گئی۔۔ سو لیو دس ٹاپک۔۔۔۔
بھائی ہے وہ میرا۔۔۔ ساری رات وہ سو نہیں سکا ۔۔۔ ممی الگ پریشان ہیں ۔۔۔ اور تم کہہ رہے ہو لیو دس ٹاپک۔۔۔۔
زیام نے تلخی سے کہا۔۔۔۔
عرزم نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔۔۔ زیام کو پہلی دفعہ وہ اسے بات کرتے دیکھ رہا تھا۔۔۔
زیمی۔۔۔۔ میں تو بس۔۔۔۔
کیا میں تو بس۔۔۔ تمہیں ہر بات مذاق کیوں لگتی ہے عرزم حیدر۔۔۔ ایسا بھی کیا ہوگیا تھا جو تم اس حد تک چلے گئے۔۔۔ میں نے منع کیا تھا نا انہیں کچھ مت کہنا لیکن وہ عرزم حیدر ہی کیا جو کسی کی سن لے۔۔۔ تمہاری وجہ سے میری فیملی پریشان ہے ۔۔۔ یو نو واٹ عرزم۔۔۔ تم یہ سب کچھ میرے لئے نہیں بلکہ اپنے پاگل پن کو کم کرنے کے لئے کر رہے ہو۔۔۔ تمہیں نہیں سمجھ آ رہا کہ تم کس کس کو کیسے ہرٹ کر رہے ہو ۔۔۔۔ تم ایک خود غرض انسان ہو۔۔۔۔ جسے صرف اپنی انا عزیز ہے۔۔۔ اور اسی انا میں تم نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہو۔۔۔ مجھے لگ رہا ہے اگر تمہاری یہی حرکتیں رہیں تو ہماری دوستی خطرے میں ۔۔۔
شششش۔۔۔۔۔۔ بالکل چپ۔۔۔
زیام سرخ چہرے کے ساتھ بول رہا تھا عرزم نے اسے چپ کروایا۔۔۔۔
الفاظ وہی منہ سے نکالو زیمی جو تمہارے لئے بعد میں تکلیف کا باعث نہ بنیں ۔۔۔ میں جانتا ہوں تم یہ سب کس کے کہنے پر کر رہے ہو ۔۔۔ ڈیڈ جب صبح لان میں کھڑے ہو کر تمہیں کال کر رہے تھے سب سن چکا تھا میں۔۔۔ اگر تمہیں لگتا ہے کہ میرا تمہیں جاننے کا دعوا صحیح ہے تو پھر یہ بھی ذہن میں رکھا کرو کہ میں تمہارے احساسات کو تم سے زیادہ محسوس کرتا ہوں۔۔ یہ جو تم میرے سامنے سرخ چہرے سے لمبی تقریر کرنے کی کوشش کر رہے تھے نا؟؟؟ میں تمہارا چہرہ دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا یہ غصے سے نہیں بالکل خود کو ضبط کرنے کے چکر میں سرخ ہے۔۔۔ اور میری جان تمہاری ایکٹنگ مجھے بالکل متاثر نہیں کر سکی اس لئے دو منٹ بعد ہی روک دیا۔۔۔ اگلی بار اس سے اچھی کوشش کرنا۔۔۔۔
عرزم مسکراتے ہوئے بولا اور اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔۔۔۔ جیسے ہی وہ جانے کے لئے مڑا زیام نے اسے آواز دی۔۔۔
عرزی۔۔۔ سوری یار۔۔۔
زیام معصومیت سے بولا۔۔۔
عرزم نے اسے گھورا اور دانت پیس کر بولا۔۔۔۔ پچاس دفعہ سٹ سٹینڈ کرو اور ساتھ سوری بولو۔۔۔ پھر بات کرتے ہیں۔۔۔۔
عرزی۔۔۔ تم مجھے سزا دے رہے ہو؟؟
جو الفاظ تم تھوڑی دیر قبل استعمال کر رہے تھے نا انہوں نے مجھ سے زیادہ تکلیف تمہیں دی ہے اور تمہاری تکلیف اور گلٹ ختم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے ۔۔۔ اب چلو شروع ہو جائو۔۔۔ میں کائونٹ کرتا ہوں۔۔۔۔
عرزم اس سے چار قدم دور بینچ پر بیٹھ گیا اور زیام نے بیچارگی سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
اگر ایک منٹ اور لیٹ ہوئے تو پچاس پش اپس بھی ساتھ انکلوڈ ہو جائیں گی۔۔۔
عرزم کی بات پر زیام نے اسے گھورا ۔۔۔۔
ہٹلر، جلاد، کھڑوس، سائیکو، سڑیل ،کریلا۔۔۔
زیام بڑبڑایا اور جلدی سے سٹ سٹینڈ کرنے لگا۔۔۔۔۔ جبکہ عرزم اس کی گھوریوں پر بمشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کر کے بیٹھا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روحی یار تمہیں ہوا کیا ہے؟؟؟ صبح سے چپ چپ ہو؟ اب تو میں بور ہو رہی ہوں۔۔۔۔
رحاب اور نتاشا یونیورسٹی کیفے میں بیٹھی تھیں جب نتاشا نے مسلسل اس کی خاموشی کو نوٹ کرتے ہوئے اکتا کر پوچھا۔۔۔۔۔
رحاب تھوڑا سا مسکرائی اور بولی ۔۔۔
یار تھوڑا سا سر میں درد ہے بس اس لئے۔۔۔۔
لیکن تمہاری مسکراہٹ بتا رہی ہے کہ ماجرا کچھ اور ہی ہے۔۔۔۔
نتاشا نے اس کی زبردستی کی مسکرانے کی کوشش پر چوٹ کی تھی۔۔۔۔۔
اس سے پہلے رحاب کوئی جواب دیتی اس کی نظر کیفے میں داخل ہوتے عرزم اور زیام پر پڑی۔۔۔۔ کل رات کا سارا واقعہ اس کے ذہن میں ایک فلم کی طرح چلنے لگا تھا۔۔۔ بمشکل وہ خود کو کمپوز کرتے ہوئے نتاشا کو دیکھ کر بولی۔۔۔۔
تم نے ٹھیک کہا نتاشا ۔۔۔۔ ماجرا اس بار واقعی کچھ اور ہے۔۔۔۔ خیر چھوڑو اور چلو گرائونڈ میں چلتے ہیں ۔۔۔۔
رحاب یہ بول کر اٹھی اور نتاشا کا جواب سنے بغیر ہی کیفے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار پتہ نہیں یہ اکنامکس کس نے بنا دی؟؟ اتنا بور بندہ بک دیکھ کر نہیں ہوتا جتنا اکنامکس کی ٹیچر کی سڑی ہوئی شکل دیکھ کر ہوجاتاہے۔۔۔
عرزم جو میکرو اکنامکس کی کلاس میں بیٹھا بور ہو رہا تھا سرگوشی نما آواز میں زیام سے بولا۔۔۔۔
زیام نے بمشکل مسکراہٹ دبائی کیونکہ سامنے ہی پروفیسر خالد سنجیدہ تاثرات سے لیکچر دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔
تو تم نا پڑھتے اکنامکس ۔۔۔ کس نے کہا تھاکہ اکنامکس میں بی ایس کرو۔۔۔۔
زیام علوی اگر تم میرے دوست نہ ہوتے تو یقینا اس وقت میرے ہاتھوں سے قتل ہو جاتے۔۔۔
عرزم دانت پیس کر بولا۔۔۔۔
جواب میں زیام نے منہ پر ہاتھ رکھ کر بمشکل اپنا قہقہ روکا تھا۔۔۔۔
میں نے کیا کہا ہے ؟؟؟
زیام نے معصومیت طاری کرتے ہوئے پو چھا ۔۔۔۔
کیا تمہیں نہیں معلوم یہ اکنامکس مجھے کتنی زہر لگتی ہے ۔۔۔ اگر تمہیں یہ سنجیکٹ پسند نہیں ہوتا تو قسم سے میں کبھی بھی اس سبجیکٹ میں بی ایس نہ کرتا۔۔۔۔
لیکن وہ زیمی ہی کیا جو آسان چیز پسند کر لے۔۔۔۔
اس سے پہلے زیام کوئی جواب دیتا پروفیسر خالد نےان دونوں کو پکارا۔۔۔۔
رول نمبر ۔۔۔۔ 7 اور 8۔۔۔ سٹینڈ اپ۔۔۔۔
ساری کلاس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔۔۔۔
عرزم اطمینان سے جبکہ زیام فق چہرے کے ساتھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔
کیا آپکو معلوم نہیں ہے کہ کلاس میں بیٹھنے کی کچھ ایٹیکیٹس ہوتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟؟
پروفیسر خالد نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔۔۔۔
لگتا ہے سر اکنامکس پڑھ پڑھ کر ایٹیکیٹس بھول گئے ہیں اس لئے انہیں ہماری مدد درکار ہے۔۔۔ چل زیمی بتا ان کو کہ کیا مینرز ہیں کلاس میں بیٹھنے کے۔۔۔۔۔
عرزم منہ میں بڑبڑایا جبکہ زیام نے اسے گھورا۔۔۔
سوری سر۔۔۔۔
زیام جلدی سے بولا۔۔۔۔
پہلے کلاس کو ڈسٹرب کرو اور بعد میں سوری سر۔۔۔۔ گھوڑے جتنے قد ہیں تم لوگوں کے پھر بھی عقل جیسے چھو کرنہیں گزری۔۔۔۔
سوری سر۔۔۔ اب نہیں ہوگا۔۔۔
زیام بولا جبکہ عرزم اطمینان سے پینٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈال کر کھڑا تھا۔۔۔
اگر اب تم لوگوں نے کلاس کو دوبارہ ڈسٹرب کرنے کی کوشش کی تو میں تم دونوں کو کلاس سے باہر نکال دوں گا۔۔۔۔
پروفیسر خالد نے ان دونوں کوگھور کر کہا۔۔۔
سر کیا واقعی نکال دیں گے؟؟۔۔
عرزم نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔ جبکہ زیام کا دل چاہا کہ اپنا سرپھاڑ لے۔۔۔ کیونکہ اب عرزم حیدر کلاس سے نکلے بنا ماننے والا تھا نہیں۔۔۔
تو تمہیں کیا لگ رہا ہے میں تم سے مذاق کر رہا ہوں؟؟؟؟
پروفیسر خالد نے عرزم کو گھورا تھا۔۔۔
نہیں سر۔۔۔ اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسرز اور مذاق ۔۔۔۔ مشرق مغرب کی طرح ہیں۔۔۔۔ میں تو بس اس لئے پوچھ رہا تھا کیونکہ میں واقعی کلاس سے باہر جانا چاہتا ہوں۔۔۔ اب آپ پر ہے کہ آپ مجھے شرافت سے بھیجتے ہیں یا مجھے کلاس کو دوبارہ ڈسٹرب کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔
عرزم مئودب انداز میں بولا جبکہ اس کی بات پر پروفیسر خالد کو اچھا خاصہ غصہ آگیا تھا۔۔۔۔
ایڈیٹ ۔۔۔۔ واٹس یور نیم ۔۔۔۔۔
سر ابھی تو آپ نے بولا ایڈیٹ ۔۔۔۔ پھر نام پوچھ رہے ہیں؟؟؟
عرزم کی غیر سنجیدگی پر جہاں کلاس میں قہقے گونجے تھے وہیں زیام نے اسے التجائیہ نظروں سے دیکھا تھا جبکہ رحاب نے عرزم کو ایک نظر دیکھ کر رخ موڑ لیا تھا۔۔۔۔
سی یو ان ہیڈ آفس۔۔۔
پروفیسر نے عرزم کو گھورا اور کلاس سے چلے گئے کیونکہ کلاس کا ٹائم ختم ہو چکا تھا۔۔۔۔۔
عرزم نے زیام کو دیکھا جو خونخوار نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
سلپ آف ٹنگ ۔۔۔
عرزم نے مصنوعی بیچارگی طاری کرتے ہوئے زیام سے کہا جبکہ زیام نے نفی میں اپنا سر ہلایا۔۔۔۔
اٹس ناٹ سلپ آف ٹنگ۔۔۔۔ اٹس یور شیم فل بیہیور فار می۔۔۔۔
زیمی۔۔۔ وہ۔۔۔۔
رول نمبر 7 اور 8 کو ایچ او ڈی نے آفس میں بلایا ہے۔۔۔۔
اس سے پہلے عرزم کچھ بولتا ایک لڑکے نے بلند آواز کلاس میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
اب کی بار زیام ریلیکس جبکہ عرزم کا رنگ فق ہوا تھا ۔۔۔۔۔
زیمی۔۔۔۔
میں تمہیں جانتا تک نہیں اور میرا یقین مانو میں اس بار یہی کہنے والا ہوں۔۔۔۔۔
زیام اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا جبکہ عرزم اس کی بے وفائی پر اسے گھور کر رہ گیا۔۔۔۔
کمینہ۔۔۔۔۔
عرزم بڑبڑاتے ہوئے زیام کے پیچھے بھاگا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ لائک سیریسلی۔۔۔ تمہیں پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں۔۔۔
زیام اور عرزم یونیورسٹی کیفے میں بیٹھے تھے جب زیام مسلسل اسے ایک بات کے لئے چڑا رہا تھا۔۔۔جب سے وہ دونوں ہیڈ کے آفس سے آئے تھے زیام کی ہنسی ایک منٹ کے لئے بھی بند نہیں ہوئی تھی اور وجہ عرزم کی وہاں ہیڈ کے آفس میں وضاحت تھی ۔ جو اس نے حیدر حسن تک بات نہ پہنچنے کے لئے دی تھی۔۔۔
میں سوری بول دیتا ہوں سر۔۔۔ لیکن مجھے واقعی یاد نہیں کہ ابھی ایک گھنٹہ پہلے میں نے پروفیسر خالد کو کیا کہا ۔۔۔؟؟ ایکچوئیلی سر کبھی کبھی تو میں خود کو بھی بھول جاتا ہوں اور وجہ یہ میرا دماغ ہے۔۔ آپ چاہیں تو زیام سے پوچھ سکتے ہیں ۔۔۔ یہ تو اکثر مجھے سائیکو بھی کہتا ہے۔۔۔۔
زیام ۔۔۔ عرزم کے الفاظ دہرا رہا تھا جو اس نے ہیڈ کے آفس میں کہے تھے ۔۔۔۔ جبکہ عرزم اسے گھور کر رہ گیا۔۔۔۔
یار قسم سے عرزی ۔۔۔۔ اس وقت مجھے تو دنیا کا سب سے بڑا بیوقوف لگا تھا لیکن ہیڈ نے تیری باتوں پر یقین کرکے یہ ثابت کر دیا کہ ابھی تجھ سے بڑے بیوقوف اس دنیا میں موجود ہیں۔۔۔۔
زیام کے لبوں سے مسکراہٹ ایک پل کے لئے بھی جدا نہیں ہو رہی تھی جبکہ عرزم لب بھینچے اسے گھور رہا تھا۔۔۔۔
سالے وہاں جو منت سماجت کی ہے اس کا کیا؟؟؟
ہاں وہ تو میں بھول ہی گیا ۔۔۔ ویسے تمہاری ایکٹنگ پر تمہیں کم از کم بیسٹ ایکٹر کا ایوارڈ ملنا چاہیے تھا۔۔۔۔
زیام مصنوعی افسوس ظاہر کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔ جبکہ عرزم نے ایک پنچ اس کے کندھے پر مارا۔۔۔۔
تجھے میرے ٹیلنٹ کی قدر ہی نہیں ہے۔۔۔
اللہ بچائے ایسے ٹیلنٹ سے۔۔۔
زیام کانوں کا ہاتھ لگا کر بولا تو عرزم نے بمشکل اپنی مسکراہٹ کو لبوں پر روکا تھا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے عرزم کچھ بولتا رحاب کی آواز نے دونوں کو متوجہ کیا۔۔۔
ایکسکیوزمی ۔۔۔۔
دونوں نے بے ساختہ اپنے پیچھے دیکھا تھا جہاں رحاب مسکرا کر ان دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔ عرزم کا اسے دیکھتے ہی چہرہ سپاٹ ہوگیا جبکہ زیام نے مسکرا کر اسے جواب دیا۔۔۔۔
یس۔۔۔۔
کیا میں آپ کے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں؟؟؟؟
رحاب نے اجازت طلب نظروں سے پوچھا۔۔۔۔
زیام نے ایک نظر عرزم کو دیکھا جو ٹیبل کو دیکھنے کم گھورنے میں ذیادہ مگن تھا اور پھر رحاب کو مسکرا کر اجازت دی۔۔۔
یس شیور۔۔۔۔۔
ایکچوئیلی مجھے آپ سے کل کے لئے سوری کرنا تھا۔۔۔ میں نے آپ دونوں سے مس بیہو کیا ۔۔۔ مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔ اس لئے ایم سوری۔۔۔۔
رحاب نے شرمندگی سے کہا ۔۔۔
اچھا واقعی سوری ہو؟؟؟؟
عرزم نے سنجیدگی سے پوچھا جبکہ زیام نے اسے اشاروں اشاروں میں چپ رہنے کا کہا تھا۔۔۔
اگر میں شرمندہ نہ ہوتی تو یقینا معافی بھی نا مانگتی۔۔۔
رحاب مسکرا کر بولی ۔۔۔۔ عرزم نے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ زیام جلدی سے بولا۔۔۔۔
اٹس اوکے مس ۔۔۔۔ کبھی کبھی ہو جاتا ہے۔۔۔ میری بھی غلطی تھی اس لئے میری طرف سے بھی سوری۔۔۔۔
عرزم نے زیام کو گھورا جس کا زیام نے کوئی اثر نہ لیا۔۔۔۔
ج
بائے دا وے۔۔۔ آئی ایم رحاب حسن۔۔۔اینڈ یو۔۔۔۔
رحاب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔
میرا نام زیام علوی ہے اور یہ میرا دوست کم بھائی ذیادہ عرزم حیدر ہے۔۔۔
زیام نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔
کیا آپ دونوں اس یونیورسٹی میں اکیلے ہیں؟؟؟ میرا مطلب کوئی اور دوست نہیں ہے آپکا؟؟؟
تم نے سوری بولا ۔۔۔ زیمی نے سوری بولا حساب برابر ۔۔۔ اب ذیادہ سوال جواب مت کرو اور جائو یہاں سے ۔۔۔
عرزم جو بمشکل اسے برداشت کر رہا تھا سکتا کر بولا ۔۔۔۔ زیام نے اسے گھورا ۔۔۔ اور رحاب کو دیکھ کر بولا ۔۔۔۔
یہ شخص نیم پاگل ہے اس لئے اس کی باتوں کا غصہ مت کرنا ۔۔۔ اور رہی ہمارے اکیلے ہونے کی بات تو دو شخص کبھی اکیلے نہیں ہوتے۔۔۔اور رہی بات دوستی کی تو ہم ایک دوسرے کے لئے کافی ہیں۔۔۔
نیم پاگل نہیں کمینہ۔۔۔ پورا پاگل ہے۔۔۔۔
رحاب نے دل میں سوچا اور بولی ۔۔۔
گڈ۔۔۔ چلتی ہوں میں۔۔۔ انشاء اللہ کلاس میں ملاقات ہوتی ہے۔۔۔۔۔
رحاب یہ بول کر وہاں سے چلی گئی جبکہ زیام نے عرزم کو گھورا اور دانت پیستے ہوئے بولا۔۔۔
لگتا ہے تم واقعی بھول گئے ہو کہ تمہیں لڑکیوں کے ساتھ کیسے بیہو کرنا چاہیے۔۔۔؟؟؟
تم وجہ جانتے ہو زیمی۔۔۔۔
عرزم نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
عرزی کیا ایک انسان کی غلطی کی سزا تم سب کو دو گے۔۔۔؟؟؟
زیمی مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔
عرزم دو ٹوک انداز میں بولا۔۔۔
لیکن مجھے کرنی ہے۔۔۔ جب وہ اپنی زندگی میں خوش ہے تو تم کیوں یک طرفہ محبت کا روگ پا لے ہوئے ہو ؟؟ جب وہ آگے بڑھ چکی ہے تو تم بھی لائف میں آگے بڑھو عرزی ۔۔۔ میں اس طرح تمہیں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔
زیمی تمہیں یہ کیوں لگ رہا ہے کہ میں آج بھی اس خود غرض لڑکی کا روف پال رہا ہوں۔۔؟؟؟ جبکہ تم اچھے سے جانتے ہو مجھے اس سے اب نہ ہی محبت ہے اور نہ ہی نفرت۔۔۔ میرے لئے وہ اسی دن مر گئی تھی جب اس نے تمہارے لئے وہ الفاظ استعمال کئے تھے جنہیں میں تمہارے منہ سے بھی اگر سنتا تو میرا خدا گواہ کہ میں تمہاری بھی زبان کاٹ دیتا۔۔۔ میری زندگی اور دل میں سب سے پہلی جگہ تمہاری ہے اور اگر کوئی تمہارے بارے میں الٹی سیدھی بکواس کرے گا تو میں اس شخص سے ہر رشتہ ختم کر دوں گا۔۔۔۔ ویسے بھی دوستی کا اگر میں حق ادا نہ کر سکوں تو کیا میں دوست کہلانے کے قابل رہ سکتا ہوں ؟؟؟؟
عرزم نے سنجیدگی سے آخری بات پوچھی تھی۔۔۔۔
تو کیا جھوٹ بولا تھا حرا نے؟؟ جو حقیقت تھی وہی تو بیان کی تھی ۔۔۔ اور ویسے بھی تم کب تک میرے لئے لڑو گے؟؟؟
جب تک مجھے یہ نہیں لگتا کہ تم خود لڑنے کے قابل ہو۔۔۔۔ اور پلیز یار اب یہ سیریس باتیں بند کرو اور کچھ کھانے کا آرڈر دو۔۔۔۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔۔۔
عرزم کے بات بدلنے پر زیام نے اسے گھورا ۔۔۔۔
تم ہمیشہ یہی کرتے ہو۔۔۔
زیام نے دانت پیس کر کہا۔۔۔۔
یار ۔۔۔۔ زیمی۔۔۔ بل میں پے کر دوں گا لیکن پلیز آرڈر تو دو۔۔۔۔۔
زیام نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور آرڈر کے لئے کیفے میں موجود ایک لڑکے کو بلایا۔۔۔
عرزم نے ایک نظر تھوڑے فاصلے پر بیٹھی رحاب کو دیکھا جو مسکرا کر نتاشا سے باتیں کر رہی تھی ۔۔۔
لگتا ہے رات کی ڈوز کا اثر ہوا ہے۔۔۔ چلو اچھا ہے اب پنگا نہیں لے گی۔۔۔
عرزم نے سوچا اور پھر زیام کی طرف متوجہ ہو گیا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی۔۔۔۔
جہانگیر تم بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے ؟؟؟ مجھے یہ بھی نہیں چاہیے۔۔۔ ویسے بھی ہماری فیملی مکمل ہے ۔۔۔ شاویز اور شمائل کافی ہیں ہمارے لئے۔۔۔۔۔
پلیز نائلہ۔۔۔ مجھے اب مزید کچھ نہیں سننا ۔۔۔ میں کل بھی تمہیں بتا چکا تھا ہمارا بچہ اس دنیا میں آئے گا مطلب آئے گا۔۔۔ اور ویسے بھی میں اللہ کا ناشکرا بندہ نہیں بن سکتا ۔۔۔۔
جہانگیر علوی نے سرد لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔
جہانگیر تم۔۔۔۔۔
پلیز نائلہ اس بات کو یہیں ختم کرو ۔۔۔ اور میری ایک بات دھیان سے سن لو اگر اس بچے کو کچھ بھی ہوا تو میں تمہیں شاویز اور شمائل کی زندگی سے بھی الگ کردوں گا۔۔۔ اسے میری دھمکی مت سمجھنا کیونکہ تم جانتی ہو جہانگیر علوی ہر حال میں الفاظ پر قائم رہتا ہے چاہے اسے بعد میں پچھتانا کیوں نا پڑے۔۔۔۔
جہانگیر نے یہ بول کر بیڈ کی دوسری سائیڈ پر کروٹ لی جبکہ نائلہ نے نم آنکھوں سے جہانگیر کی پشت کو دیکھا تھا۔۔۔۔
دراب علوی کے دو بیٹے تھے جہانگیر علوی اور ظہیر علوی ۔۔۔ دونوں ہی بہت قابل اور ذہین تھے۔۔۔ جہانگیر پڑھ لکھ کر وکالت کی طرف چلا گیا جبکہ ظہیر نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر بزنس سنبھالا۔۔
دراب علوی نے اپنے ایک دوست کی بیٹیوں سے دونوں کا رشتہ طے کر دیا جن کا نام نائلہ اور رابعہ تھا ۔۔۔۔ دونوں نے بنا کوئی اعتراض کئے باپ کے فیصلے پر سر جھکا دیا ۔۔۔ شادی کے تقریبا دوماہ بعد ہی دراب علوی ہارٹ اٹیک کے باعث اس دنیا سے چلے گئے ۔۔۔۔ جہانگیر علوی اور ظہیر علوی دونوں ہی ان کے جانے سے ٹوٹ گئے تھے۔۔۔ اپنے باپ کی خواہش پر دونوں ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔۔۔۔
دونوں بھائیوں محبت واقعی مثالی تھی۔۔۔ ظہیر علوی نے جہاں بزنس میں اپنا نام بنایا وہیں جہانگیر علوی نے وکالت میں اپنا آپ منوایا تھا۔۔۔ دونوں بھائی خوش تھے۔۔۔ اللہ نے جہانگیر علوی کو دو بچوں سے نوازہ تھا ایک بیٹا شاویز اور ایک بیٹی شمائل تھی جبکہ ظہیر علوی کی ایک بیٹی نمرہ تھی جو شمائل سے دو ماہ بڑی تھی ۔۔۔۔ نائلہ ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی اس لئے اس نے جہانگیر سے مشورہ کر کے شاویز اور شمائل کی پیدائش کے بعد اپنا کرئیر بنانے کا فیصلہ کیا۔۔۔ وہ ایک فیشن ڈیزائنر بننا چاہتی تھی ۔۔۔ لیکن جب کل اسے ڈاکٹر نے ایک بار پھر سے ایکسپیکٹ ہونے کی خبر سنائی تھی وہ تب سے پریشان تھی کیونکہ وہ اپنا کرئیر ہر حال میں بنانا چاہتی تھی۔۔۔ اس لئے اس نے جہانگیر سے ابارشن کی بات کی لیکن جہانگیر نے سخت لفظوں میں اسے انکار کر دیا۔۔۔۔ جہانگیر جانتا تھا وہ اپنے کرئیر کو لے کر فکر مند ہے اس لئے بول رہی ہے لیکن جہانگیر اپنے بچے کو قربان نہیں کر سکتے تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔