Congratulations!
Today is your day.
You’re off to Great Places!
You’re off and away!
– Dr. Seuss, Oh, the Places You’ll Go
کشیپ صاحب نے باقاعدہ آج برپا ہونے والے خفیہ کھیل کی تیاری شروع کردی۔ اپنے گھر میں داخل ہونے کے بعد جو سب سے پہلا کام انھوں نے کیا، وہ یہ تھا کہ نشست گاہ میں ٹی۔وی دیکھتے ہوئے بچوں کو گھڑکا؛ ’’یہ کیا آپ لوگ ہر وقت ٹی۔وی سے چپکے رہتے ہیں؟ چلیے فٹافٹ ڈنر کیجیے اور سو جائیے۔‘‘
سمن کچن سے نکل رہی تھی، اس نے حیرت سے کشیپ صاحب کی طرف دیکھا؛ ’’ڈنر کیجیے اور سو جائیے؟ ساڑھے سات بجے؟‘‘
’’ساڑھے سات نہیں میڈم، سات بیالیس ہوا ہے، ڈنر ریڈی کیجیے، ہم نہا کر آتے ہیں ‘‘ کشیپ صاحب نے تصیحح کی ۔ سمن کو اسی وقت ٹی۔وی پر ایک اشتہار سنائی دیا؛ ’’Anytime contraceptive pills…کیوں کہ پیار کا موڈ بھی تو any time ہی بنتا ہے۔‘‘ کبھی کبھی اشتہارات جیسی بے ضرر چیزیں بھی متن کی تفہیم میں نمایاں رول ادا کرتی ہیں۔ اس ایک اشتہار نے بھی سمن کو سب کچھ سمجھا دیا کہ بچوں کو جلدی سلانے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ وہ نئی نویلی دلہن کی طرح شرما کر کچن کی طرف بھاگ گئی۔
سمن نے ڈنر ٹیبل پر بھی کشیپ صاحب کی ہی تائید کی جب پنکی ضد کرنے لگی کہ وہ میرو کے یہاں گانے کی پریکٹس کے لیے جائے گی۔
’’میں کرا دوں گی پریکٹس ۔ اب جو پاپا کہہ رہے ہیں کرو…چپ چاپ کھانا کھاؤ اور سو جاؤ۔‘‘ سمن نے کشیپ صاحب کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھا لیکن ان کی نظر تو نشست گاہ میں حالیہ ہوئی تبدیلی پر ٹکی ہوئی تھی۔
’’یہ statue یہاں راستے میں کس نے رکھا؟‘‘
’’ہم نے رکھا، وہاں صوفے کے پیچھے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔‘‘ سمن نے کہا تو کشیپ صاحب نے ان کی طرف ناگواری سے دیکھا اور کھانا چھوڑ کر کھڑے ہو گئے ، statue کو دوبارہ اپنے پرانے مقام پر جب تک نہ رکھ دیا، انھیں چین نہیں آیا۔ پھر تنقیدی نگاہ پورے کمرے پر ڈالی کہ کوئی اور چیز تو نہیں بدلی۔ جب انھیں اطمینان ہوگیا تو وہ واپس کھانے کے ٹیبل پر آ گئے۔
’’بھگوان کے لیے آپ ہم سے بنا ڈسکس کیے گھر کی سیٹنگ مت بدلا کیجیے…پرابلم ہو جائے گی۔‘‘
’’کیسی پرابلم؟‘‘ سمن کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
’’وا وا وا وا…واستو کی پرابلم‘‘، کشیپ صاحب نے فوراً بات سنبھالی ، ’’سیٹنگ بدلنے سے اسٹارس بدل جاتے ہیں۔ اچھا خاصا lucky آدمی unlucky ہو جاتا ہے۔‘‘
سمن ان کی باتیں نہیں سن رہی تھی، وہ تو آنے والے لمحوں کے سحر کی گرفت میں تھی۔ جب سے ممبئی آئی تھی، کشیپ صاحب اس کی طرف کروٹ لے کر سوئے تک نہیں۔ پہلے تو ایسے نہ تھے، کبھی کبھی تو سمن ہی روز روز کے اس روٹین سے اکتا جاتی تھی۔ بھلا ایسا آدمی اتنا دن کیسے برداشت کرسکتا ہے۔ ہو نہ ہو، ان پر کسی نے جادو ٹونا کردیا ہے، یہی سوچ کر اس نے اپنی ماں کو یہاں بلا لیا تھا۔ لیکن آج جب کشیپ صاحب نے بچوں کو جلد سونے کا حکم دے کر اسے اشارہ دیا تو جیسے سمن کے ہاتھ میں کوئی پرانا خزانہ ہاتھ آگیا ہو۔ وہ آج کشیپ صاحب کا سات خون معاف کرنے کو تیار نظر آ رہی تھی۔
سمن نے جب کپڑوں کی الماری سے کافی ڈھونڈ ڈھانڈ کر دو مختلف رنگوں کی نائٹی نکالی تو اس وقت کشیپ صاحب بستر پر ادھ لیٹے کسی میگزین کی ورق گردانی کر رہے تھے۔
’’ سنیے!‘‘ سمن نے انھیں بڑے دلبرانہ انداز میں آواز دی۔ کشیپ صاحب نے پلٹ کردیکھا تو اس نے اپنے ہاتھوں میں دونوں نائٹی کو دکھاتے ہوئے پوچھا؛ ’’کون سی پہنوں؟‘‘
’’کوئی بھی پہن لیجیے…اندھیرے میں کچھ نظر آتا ہے کیا؟‘‘ کشیپ صاحب نے سمن کے تپتے جذبات پر سر دمہری کے چھینٹے مارے۔ سمن مایوس تو ہوئی لیکن پھر ایک نائٹی اٹھا کر غسل خانے چلی گئی۔ کشیپ صاحب اپنے سینے کو کھجانے لگے اور اچانک انھیں کچھ احساس ہوا، انھوں نے بغور دیکھا تو ان کے صفا چٹ سینے پر اب نئے بالوں کی کھمبیاں نظر آنے لگی تھیں۔ وہ اچھل پڑے۔
کشیپ صاحب نے بڑی بے صبری سے غسل خانے کا دروازہ تھپتھپانے لگے۔ سمن نائٹی میں شرماتے ہوئے غسل خانے سے باہر آ رہی تھی۔
’’آپ تو ایسے بے صبرے ہو رہے ہیں جیسے فرسٹ نائٹ ہو۔‘‘
’’فرسٹ نائٹ ہی تو ہے۔‘‘ کشیپ صاحب تیزی سے غسل خانے کے اندر گھسنے لگے لیکن دفعتاً رک گئے، ’’فرسٹ نائٹ؟‘‘ انھوں نے سمن کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’تھوڑا صبر کیجیے…بچے ابھی سوئے نہیں ہیں، کوئی اٹھ کے آ گیا تو شرمندگی ہو جائے گی۔‘‘ سمن نے مسکراتے اور شرماتے ہوئے کہا اور دوڑتی ہوئی بیڈ روم کی طرف چلی گئی۔ کشیپ صاحب نے اسے حیرانی سے دیکھا لیکن پھر غسل خانے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا۔
کشیپ صاحب نے بڑے احتیاط کے ساتھ اپنے سینے کو دوبارہ بالوں سے آزاد کیا اور آئینے میں خود کو نہارنے لگے۔ پل بھر کے لیے محسوس ہوا جیسے میرو نے پیچھے سے آکر انھیں اپنی باہوں میں جکڑ لیا ہے۔کافی وقت لگا انھیں ہوش آنے میں…بہت مشکل سے اپنے دل کو سمجھایا…دل تو سمجھ گیا لیکن کم بخت جسم کو سمجھانے میں ذرا وقت لگ گیا۔
کشیپ صاحب بیڈروم لوٹے۔ انھوں نے سب سے پہلے نائٹ لیمپ کی سوئچ آف کی اور احتیاطاً اس کا پلگ بھی نکال دیا، پھر سوچنے لگے؛ ’’جوہر کو اپنے بیڈ کا پلگ نکالنا یاد ہوگا کیا؟ ‘‘ پھر خود کو سمجھانے لگے؛ ’’ آپ کے plug-ins صحیح بیٹھ گئے تو وہ نائٹ لیمپ کے پلگ کیوں ڈھونڈیں گی؟ Be positive! Just focus on her wild-button …وہ ہِٹ تو سب فٹ۔‘‘ان کے تصور کا گھوڑا دوڑنے لگا تھا، پھر کچھ سوچا اور اس کی لگام زور سے کھینچی۔
’’یہ جوہر، اتنے برسوں میں wild-button کی صحیح لوکیشن نہیں ڈھونڈ پایا؟ الو کا پٹھا۔ انٹرنل پینل میں یہ بٹن کہاں ہو سکتا ہے؟ باندرہ اور دادر میں تو نہیں ہوگا…چرچ گیٹ پر ہی کہیں ڈھونڈنا پڑے گا…آپ کو چرچ گیٹ پر extra large stay چاہیے، کشیپ صاحب!‘‘
کشیپ صاحب اپنے خیالوں میں گم تھے اور اُدھر ان کی بیوی سمن ہم آغوشی کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ دفعتاً کشیپ صاحب کو ایک بار پھر کچھ یاد آیا، وہ ایک بار پھر بیڈ سے اچھل کر کھڑے ہوگئے اور غسل خانے کی طرف بھاگے۔
کشیپ صاحب نے غسل خانے کی cabinet سے دوائیوں کا بیگ نکالا اور اس میں سے “Shilajeet capsules” کی بوتل نکالی۔ ایک گولی پانی کی مدد سے نگل لی، پھر ایک اور، پھر ایک اور کیپسول۔
کشیپ صاحب بیڈ روم لوٹے تو سمن ان کی طرف مزید کھسکتے ہوئے بولی؛ ’’کیا ہوا، پیٹ خراب ہے؟‘‘کشیپ صاحب نے صرف انکار میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔سمن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کشیپ صاحب پہل کرنے میں اتنی دیر کیوں لگا رہے ہیں۔ پہلے تو وہ اس پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ پھر اسی نے ہمت کی اور کشیپ صاحب کی طرف اندھیرے میں پیار بھری نظروں سے دیکھا اور پھسپھسائی؛ ’’بچے سو گئے ہوں گے۔‘‘
کشیپ صاحب نے دوسری طرف کروٹ لیتے ہوئے کہا؛ ’’آپ بھی سو جائیے، گڈ نائٹ۔‘‘ سمن نے اس کے باوجود ان سے قریب ہونے کی کافی کوششیں کیں لیکن کشیپ صاحب کے مصنوعی خراٹوں نے اس کے تمام ارمانوں پر پانی پھیر دیا اور اس کا یہ یقین مستحکم ہوگیا کہ ان کے پتی پر واقعی کسی نے جادو ٹونا کردیا ہے۔
کشیپ صاحب کی گھڑی نے رات کے پورے ایک بجائے اور اس کے ساتھ ہی میدان عمل میں اترنے کی نوید نے انھیں اندر تک گدگدا دیا۔ وہ محتاط انداز میں بستر سے اٹھے۔ سمن گہری نیند میں تھی، اس کا منھ کھلا ہوا تھا، وہ خراٹے لے رہی تھی۔ کشیپ صاحب نے دھیرے سے اس کے کھلے منھ کو بند کردیا، خراٹے کی آواز رک گئی۔ پھر انھوں نے چپل پہنے اور دبے پاؤں بیڈ روم سے باہر نکل گئے لیکن قصداً دروازے کو تھوڑا کھلا چھوڑ دیا۔
کشیپ صاحب دالان سے گذرتے ہوئے بچوں کے کمرے کے پاس رکے۔ دونوں سو رہے تھے لیکن حفظ ماتقدم کے تحت انھوں نے دونوں بچوں کا نام لے کر سرگوشی کی، کوئی جواب نہیں۔ وہ آگے بڑھ گئے۔
صدر دروازے کو کھولتے ہوئے بھی کشیپ صاحب کی کوشش تھی کہ کم سے کم آواز میں وہ کھل جائے۔ انھوں نے منصوبے کے تحت دروازے کو ادھ کھلا ہی چھوڑ دیا۔ اپنے لان تک پہنچتے پہنچتے وہ پسینے میں بھیگ چکے تھے۔’’دھڑکنیں بے قابو اور بدن پسینہ پسینہ… شاید شلاجیت کی ایک کیپسول زیادہ لے لی ہم نے۔‘‘ پھر انھوں نے اپنے سر کو جھٹکا، اب لے لی تو لے لی، اس وقت زیادہ سوچنے کا وقت نہیں ہے۔
بندر کی چال چلتے ہوئے کشیپ صاحب سے گذر کر بنگلے کے لوہے کے گیٹ تک پہنچے اور پھر سڑک پر آگئے۔ چاروں طرف اندھیرا بکھرا پڑا تھا، صرف چاندنی بکھری ہوئی تھی۔ لیکن انھیں یہ چاندنی بھی خطرناک نظر آ رہی تھی۔ وہ باؤنڈری کے سائے سے چپکے جوہر کے بنگلے کی طرف رینگنے لگے۔اچانک وہ جوہر سے اندھیرے میں ٹکرا گئے۔
“All set?” کشیپ صاحب نے سرگوشیوں میں پوچھا جس کا جواب انھیں جوہر کی طرف سے اثبات میں ملا۔ پھر اس سے پہلے کہ دونوں ایک دوسرے کو “Good Luck” کہتے ہوئے اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتے، اچانک اس موذی کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی جو دور سے رفتہ رفتہ ان کے قریب ہوتی جارہی تھی۔کشیپ صاحب بڑ بڑائے؛ ’’ اس کی ماں کا…کیا کریں؟‘‘
’’ Let’s proceedکشیپ صاحب! یہ موقع پتہ نہیں پھر کب ملے؟‘‘ جوہر بولتا ہوا کشیپ صاحب کے بنگلے کی طرف بھاگ نکلا۔
کتے کے بھونکنے کی آواز اب کافی قریب ہو گئی تھی۔ کشیپ صاحب نے بھی پاگلوں کی طرح جوہر کے بنگلے کی جانب دوڑ لگا دی۔ بھاگتے ہوئے انھیں احساس ہوا کہ وہ موذی جانور بالکل ان کے پیچھے ہے۔ وہ کسی طرح جوہر کے گیٹ کے اندر داخل ہوئے اور دروازہ بند کردیا۔ لیکن اس عمل میں منصوبے کے خلاف شور کافی پیدا ہو گیا۔ کشیپ صاحب نے گیٹ کے اندر داخل ہونے کے بعد پہلے تو خوب لمبی لمبی سانسیں لیں اور اپنی خود اعتمادی کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ کتے کے بھونکنے کی آواز بھی اب بند ہو چکی تھی۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد دوبارہ بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں تو کشیپ صاحب جوہر کے بنگلے کے صدر دروازے کی طرف لپکے۔
منصوبے کے مطابق اندر مکمل تاریکی تھی۔ کشیپ صاحب نے اپنے ذہن کو مجتمع کر کے قدموں کی تعداد یاد کی اور محتاط انداز میں گن گن کر قدم رکھنے لگے۔ وہ ابھی زیادہ دور تک نہیں گئے تھے کہ اچانک نشست گاہ کی روشنی جل اٹھی۔ کشیپ صاحب بالکل دہشت زدہ ہو گئے، ان کے قدموں کو زمین نے جکڑ لیا۔ تھوڑی دیر بعد ان کے سامنے میرو کھڑی تھی اور انھیں حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔
’’کشیپ صاحب آپ؟ یہاں؟ اس وقت؟‘‘
کشیپ صاحب کی تو بولتی ہی بند ہو چکی تھی، انھوں نے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں کچھ کہنے کی کوشش کی تو میرو سمجھ گئی۔
’’کتے سے بھاگ کر آ رہے ہیں؟ اچھا تو وہ آپ کے اوپر بھونک رہا ہے؟ ابھی ابھی آنکھ لگی تھی، شور نے جگا دیا۔ ‘‘
کشیپ صاحب کے لیے اتنا ہی غنیمت تھا کہ میرو نے اس پر کوئی شک نہیں کیا، وہ پلٹتے ہوئے بولے؛ ’’ہم…ہم…چلتے ہیں…sorry for the disturbance ‘‘
’’ارے نہیں…اچھا کیا آپ نے، جو یہاں آگئے…پاگل عورت کا پاگل کتا، کیا بھروسہ؟ لیکن اتنی رات کو آپ باہر کیوں ٹہل رہے تھے؟‘‘
اس سوال پر کشیپ صاحب سٹپٹا گئے لیکن پھر ان کی حاضر دماغی کام آئی؛ ’’بس، وہ…گھر میں تھوڑا suffocation سا لگ رہا تھا، اس لیے…‘‘
’’ہے بھگوان! کیسے پسینہ پسینہ ہو رہے ہیں آپ؟ بیٹھیے ، میں پانی لاتی ہوں۔‘‘ میرو کو شاید ان پر ترس آگیا۔
’’نہیں رہنے دیجیے، ہم چلتے ہیں۔‘‘ کشیپ صاحب منمنائے لیکن میرو پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
’’ بیٹھیے۔ حالت دیکھیے اپنی۔ چہرہ کیسا لال ہو رہا ہے۔ سمن دیدی کو فون کر کے بلاؤں۔‘‘
کشیپ صاحب کی روح ہی تو فنا ہو گئی ، جلدی سے بولے؛ ’’نہیں۔ نہیں۔ میں ٹھیک ہوں۔‘‘
میرو جب تک پانی لائی، کشیپ صاحب پہلو بدلتے رہے۔ انھوں نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھا اور اندازہ لگایا کہ اس وقت جوہر ان کے ہال تک پہنچا ہوگا۔ انھوں نے ایک ہی سانس میں پانی کا پورا گلاس ختم کردیا اور جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن میرو نے ایک بار پھر انھیں روک لیا۔
’’کتا ابھی بھی باہر ہی ہے۔‘‘ میرو کی بات درست تھی کیوں کہ کشیپ صاحب کو کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ لیکن باہر والے کتے سے زیادہ اس وقت انھیں اس کتے سے پریشانی تھی جو ان کے گھر کے اندر پہنچ چکا تھا۔
’’کوئی بات نہیں، I’ll manage ۔‘‘
’’کتے کو manage کر لیں گے مگر اس کی پاگل مالکن کو؟ ادھر آئیے۔‘‘ میرو نے کھڑکی سے مسز رابنسن کے گھر کی طرف اشارہ کیا۔
’’دیکھیے، اس کے روم کی لائٹ جل رہی ہے۔ مطلب بڑھیا جا گ رہی ہے۔ باہر اسٹریٹ لائٹ بھی کسی حرامی نے آج پھوڑ دی۔ ایسے اندھیرے میں باہر نکلیں گے تو جان کا خطرہ ہے۔ بڑھیا کی لائٹ بند ہو جائے تو نکلیے گا۔‘‘
’’ارے بھاڑ میں گئی بڑھیا، ہم چلتے ہیں۔‘‘ کشیپ صاحب کی برداشت جواب دے گئی تھی۔
’’ آپ بڑھیا کو مذاق سمجھ رہے ہیں؟ بھری دوپہر میں اس نے بھٹ پر گولی چلا دی جو اس کے بنگلے کے پاس والے پیڑ پر چڑھا ہوا جانے کیا کررہا تھا۔اور اب ہاسپٹل میں پٹیوں سے جکڑا ہوالیٹا ہے۔ ‘‘ میرو کے اس انکشاف پر کشیپ صاحب کے دماغ کا rewind button دب گیا، انھیں گولی کی آواز اور بھٹ کی چیخ یاد آگئی جس سے دہشت زدہ ہو کر جوہر اور انھوں نے پانی کی ٹنکی کے پیچھے پناہ لی تھی۔
’’بھٹ صاحب پر مسز رابنسن نے گولی چلائی تھی؟‘‘
’’ اس انکلیو میں اور کون ایسا ہے جو اپنے گھر پر بڑی بڑی بندوقیں، خونخوار کتا اور بھیانک بلی رکھتا ہے؟ سنا ہے، پولس یا سی۔بی۔آئی سے ریٹائر ہوئی ہے، اس لیے کوئی کچھ بولتا نہیں ہے۔ کالونی والوں کو لگتا ہے کہ ان کی وجہ سے ہم سب safe ہیں۔ ویسے اس عیاش بڈھے کو اس نے صحیح سبق سکھایا، وہ اسی لائق تھا۔‘‘
کشیپ صاحب نے گھڑی کی طرف نظر ڈالی پھر انھوں نے اندازہ لگایا کہ جوہر اس وقت بچوں کے کمرے کے پاس سے گذر رہا ہوگا۔ وہ بے خیالی میں بڑ بڑائے؛ ’’پنکو! اٹھ…پنکی۔‘‘
’’کچھ کہا آپ نے؟‘‘ میرو نے کشیپ صاحب سے پوچھا۔
’’ہم چلتے ہیں میروجی۔ مسز رابنسن اپنے کمرے میں ہیں…باہر کچھ دیکھیں گی تب فائر کریں گی نا؟ بائی۔‘‘کشیپ صاحب نے جانے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا لیکن میرو نے ایک ایسی چیز کا انکشاف کیا کہ وہ اپنی جگہ پر بت بن کر کھڑے ہو گئے۔
’’اسے باہر دیکھنے کے لیے، باہر نکلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیمرے لگائے ہوئے ہیں اس نے سب طرف۔‘‘
’’کیمرے؟‘‘
’’جی! اسی سے سب پر نظر رکھتی ہے۔ کتا اتنا بھونکا ہے تو بیٹھی ہو گی اپنے ٹی۔وی پر نظر جمائے…ادھر آئیے، دیکھیے۔‘‘
میرو نے مسز رابنسن کی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ اندر روشنی تھی اور پردے پر اس کا سایہ نظر آرہا تھا اور اس سائے کے ہاتھوں میں ایک بڑے سا رائفل بھی صاف نظر آ رہا تھا۔ کشیپ صاحب کے حوصلے پست ہوگئے۔ انھوں نے نہایت ہی کمزور آواز میں میرو سے دریافت کیا؛ ’’جوہر کو پتہ تھا ان کیمروں کے بارے میں؟‘‘
’’پتہ نہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ انھیں پتہ ہوگا۔ دیکھیے، آپ سے باتوں میں بھول ہی گئی کہ میں انھیں دیکھنے آئی تھی۔ پتہ نہیں کہاں نکلے ہیں؟ آپ کے ساتھ تو نہیں تھے؟‘‘ میرو نے ان سے دریافت کیا۔کشیپ صاحب نے انکار میں سر ہلایا۔ میرو کچھ سوچنے لگی ، پھر اچانک اس نے کشیپ صاحب کو گھورنا شروع کردیا۔
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ یہاں چھپے بیٹھے ہیں اور منا آپ کے گھر میں گھس گئے ہوں۔ وہ بھی کم پھٹّو نہیں ہیں۔‘‘
’’پھٹّو؟‘‘ کشیپ صاحب نے حیرانی سے میرو کی طرف دیکھا۔
’’سوری! آج کل بچے ایسے ایسے شبد استعمال کرتے ہیں کہ انھیں ٹھیک کرتے کرتے ہماری بھاشا خراب ہو جاتی ہے۔ لگتا ہے آپ لوگ ساتھ ہی تھے۔ کہاں ہیں منا؟‘‘ میرو نے کشیپ صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ لیکن کشیپ صاحب تو اندازہ لگا رہے تھے کہ جوہر اب تک ان کے بیڈ روم تک پہنچ گیا ہوگا اور سمن کے بغل میں لیٹنے کے لیے بالکل تیار ہوگا۔ کشیپ صاحب ہڑ بڑا کر کھڑے ہوگئے۔
’’ہم باہر دیکھتے ہیں۔ اگر ملیں گے تو انھیں بھیجتے ہیں۔‘‘
’’آپ دونوں مل کر کوئی خفیہ منصوبہ بنا رہے تھے نا؟‘‘ میرو نے براہ راست سوال ٹھوکا۔
’’جی؟؟‘‘ کشیپ صاحب نے چونک کر میرو کی طرف دیکھا۔
’’آپ ہم عورتوں کو الّو نہیں بنا سکتے۔ سمن دیدی نے مجھے بتایا ۔ پھر میں نے بھی نوٹس کیا۔ میں نے سمن دیدی سے کہا تھا کہ یہ لوگ ضرور ہمیں سرپرائز کرنے کے لیے کچھ پلان بنا رہے ہیں۔ صحیح ہے نا؟‘‘
’’ابھی تو آپ نے ہمیں سرپرائز کر دیا ہے۔ آپ کو جوہر کی ٹینشن نہیں ہو رہی ہے؟‘‘ کشیپ صاحب نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
’’نہیں۔ اگر آپ کے ساتھ نہیں تھے تو مجھے پتہ ہے، کہاں گئے ہوں گے؟… وہ باہر گنیش چوک پر پان والے کی دکان ہے نا؟ لیٹ نائٹ تک کھلی رہتی ہے…وہیں گئے ہوں گے۔‘‘ میرو نے بڑے اطمینان سے جواب دیا، ’’اتنے دن سے سگریٹ پان چھوڑے بیٹھے تھے…میں دیکھ رہی تھی، ان سے برداشت نہیں ہو رہا ہے…آج صبر کا باندھ ٹوٹ گیا ہوگا اور کچھ نہیں۔ آنے دیجیے، پھر بتاتی ہوں انھیں…دروازہ بھی کھول کر چلے گئے۔‘‘
کشیپ صاحب نے گھڑی پر نظر ڈالی اور ان کا دل ڈوبنے لگا۔ یہی وہ وقت تھا جب جوہر کوان کی بیوی کے ساتھ ’’خفیہ کھیل‘‘ شروع کرنا تھا۔ دھڑن تختہ۔
اچانک کشیپ صاحب کا پورا جسم سوکھے پتوں کی طرح لرزنے لگا، ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک بے ساختہ سیلاب جاری ہوگیا۔ میرو ان کی طرف لپکی۔
’’کیا ہوا مسٹر کشیپ! آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘
کشیپ صاحب بھلا کیا جواب دیتے۔ ان کے اندازے کے مطابق اب تک تو جوہر اور سمن بس کلائمکس تک پہنچنے ہی والے ہوں گے۔ انھوں نے شرم سے اپنی گردن جھکا لی اور سسکنے لگے۔
’’کیا ہوا، کشیپ صاحب؟‘‘ میرو نے ایک بار پھر پوچھا۔
’’اب کیا بتائیں آپ کو کہ کیا ہوا؟‘‘ کشیپ صاحب نے آنسوؤں سے بھیگا ہوا اپنا چہرہ اٹھایا اور ایک حسرت بھری نگاہ میرو پر ڈالی، ’’ آپ تو ستی ساوتری کی ستی ساوتری رہیں نا؟‘‘
میرو کچھ سمجھ نہ پائی، کشیپ صاحب ایک جھٹکے سے جانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میرو نے ایک بار پھر انھیں روکنے کی کوشش کی؛ ’’کہاں جارہے ہیں…رکیے، منا آ جائیں تو…‘‘
’’آپ کے منا کے چکر میں ہماری منّی بدنام ہوگئی میروجی!‘‘ انھوں نے بغیر پلٹے کہا اور ایک عزم مصمم کے ساتھ بڑ بڑاتے ہوئے صدر دروازے کی طرف بڑھ گئے، ’’ اب تو بڑھیاگولی مار ہی دے تو اچھا ہے۔‘‘
کشیپ صاحب جب مسز رابنسن کے گھر کے سامنے سے گذر رہے تھے، دوسری طرف سے بھاگ کر آتا ہوا جوہر ان سے ٹکراگیا۔ کشیپ صاحب نے اسے روک کر کچھ پوچھنے کی کوشش کی لیکن وہ راکٹ کی طرح اپنے بنگلے کی طرف بھاگ گیا۔
تھکے ہارے قدموں سے وہ جب اپنے بیڈروم میں آئے تو سب سے پہلے انھوں نے سوتی ہوئی سمن پر نظر ڈالی۔ انھوں نے سوچا کہ ایسی گہری نیند صرف تھکادینے والے وصال کے بعد ہی آتی ہے۔ وہ لڑکھڑا گئے، خود کو سنبھالنے کے لیے انھوں نے کسی چیز کا سہارا لینا چاہا لیکن پھر کسی لاش کی طرح بیڈ پر گر گئے۔