پہلا ذائقہ
پارکنگ لاٹ میں گاڑی کھڑی کر کے جب میں واپس آیا تو وہ اپنی جگہ پر موجود نہیں تھی، اف یہ لڑکی اور اس کی شرارتیں، اب میں اسے کہاں ڈھونڈوں، میں نے خود کلامی کی۔
ہم الہ دین پارک کے باہر کھڑے ہوئے تھے یعنی اب وہ نہیں تھی تو میں اکیلا وہاں کھڑا تھا۔ یہ کراچی کی ایک مشہور تفریح گاہ تھی
میں نے ادھر نظر دوڑائی جدھر پارک میں ٹکٹیں فروخت ہو رہی تھیں اور تبھی ہماری آنکھیں چار ہو گئیں
وہ کھلکھلا کر ہنسی اور ایک ستون کے پیچھے سے نکل آئی۔
یار تمہاری شرارتوں کو نظر نہ لگے۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں دعا مانگی
وہ بلیک کلر کے سوٹ میں تھی جس میں قیمتی ستارے اور نگ لگے ہوئے تھے، اس کا دوپٹہ ہوا میں خوشبوئیں بکھیرتا ہوا۔ گردن میں حمائل تھا اس کا چہرہ اور کھلی ہوئی بانہوں کا رنگ چاند کی طرح چمک رہا تھا
میں نے دو ٹکٹ لیے اور اس کے ساتھ پارک میں داخل ہو گیا۔
یہاں تفریح کا ہر سامان موجود تھا، چھوٹے بڑے جھولے، مصنوعی جھیل، کشتیاں۔۔۔ ہوا میں چلتی ہوئی چئیر لفٹ، کھانے پینے کی چیزیں، دہی بڑے، گول گپے، بن کباب، برگر اور پتہ نہیں کیا کیا
بہت سارے جھولے جھولنے اور بہت ساری چیزیں کھانے کے بعد بھی ہم ایک دوسرے کے قریب نہ ہو سکے، ہمارے درمیان ایک دیوار سی قائم رہی، اگرچہ دل چیخ رہا تھا کہ میں بے تکلفی سے اس کا ہاتھ تھام لوں۔مگر اتنی ہمت کہاں تھی پھر ایک خوف یہ بھی تھا کہ اگر اس نے ہاتھ جھٹک دیا تو کیا عزت رہ جائے گی۔ بزدل عاشقوں والا حال تھا میرا۔
پارک میں ایک جگہ رک کر میں نے سوال کیا۔۔ تم نے کبھی بھوت دیکھا ہے؟
بھوت ! اس نے حیرانی سے پوچھا۔ اور حیرانی کے تاثر سے اس کی آنکھیں مزید خوبصورت لگنے لگیں
ہاں بھوت۔ وہ سامنے دیکھو، وہاں ایک بھوت بنگلہ ہے، چلو گی؟
چلو یہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔۔۔ اس نے ہامی بھری۔
میں نے بیس روپے کے دو ٹکٹ حاصل کیے اور ہم دونوں بھوت بنگلے میں داخل ہو گئے، وہاں کچھ مرد و خواتین اور بچے پہلے سے موجود تھے
بھوت بنگلے میں شو شروع ہوا تو لائٹیں آف کر دی گئیں، تاہم ایک زیرو پاور کا بلب اندھیرے سے لڑنے کیلئے کھلا چھوڑ دیا گیا، پھر بیک گراؤنڈ میوزک سے ڈراؤنی آوازیں نشر ہونے لگیں
وہ آوازیں واقعی خوفناک تھیں، خود مجھے بھی تھوڑا تھوڑا ڈر لگنے لگا
پھر اندھیرے میں کوئی پرچھائیں سی لپکی اور اچانک ایک بھوت نکل کر سامنے آ گیا
خواتین اور بچے چیخ مار کر ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔۔ خود میرے ساتھ ایک وجود آ کے چپک گیا تھا۔
یار کیا ہو گیا ہے، میں نے اسے تسلی دی، یہ کوئی سچ مچ کا بھوت تھوڑی ہے۔۔۔ انسان ہے اس نے ماسک پہنا ہوا ہے بس۔
میرے سمجھانے پر اس نے ہمت کر کے آنکھیں کھولیں اور بھوت کی طرف دیکھا
ارے۔۔۔ بھوت کہاں ہے؟؟
میں نے بھی حیرت سے دیکھا، بھوت اچانک غائب ہو گیا تھا۔
عجیب طرح کی نظر بندی یا چالاکی تھی، کچھ کمال ملگجے اندھیرے کا بھی تھا
ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ شاید شو ختم ہو چکا ہے یکایک دو اطراف سے دو بھوت نکل کر سامنے آ گئے۔۔۔ وہ زور سے چلائی اور مجھ سے کسی بھوت ہی کی طرح چمٹ گئی۔
دو منٹ بعد شو ختم ہو گیا، میں اسے لے کر باہر نکلا
پاگل۔ اس میں اتنا ڈرنے والی کیا بات تھی، میں نے اسے پیار سے ڈانٹا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چلنے لگا۔
شادی کے بعد جب ہم دوبارہ الہ دین پارک میں آئے تو اسی جگہ رک کر میں نے کہا۔
یاد ہے یہ بھوت بنگلہ۔ ؟ پچھلی بار تم کتنا ڈر گئی تھیں، کتنی مشکلوں سے میں نے تمہیں سنبھالا تھا، یاد ہے نا وہ سب کچھ؟
آخری جملہ کہہ کر میں نے گویا سارے رومینٹک مناظر اسے دکھا دئیے
وہ مسکرانے لگی، کچھ جھینپ سی گئی
ایک بات بتاؤں۔۔۔ اس نے آنکھیں چمکا کر کہا
ہاں بتاؤ۔۔ میں نے شوق سے پوچھا
وہ بولی۔ اس دن مجھے کوئی ڈر، ور نہیں لگا تھا۔۔
دوسرا ذائقہ
ٹیکسی ڈرائیور کو کرایہ ادا کر کے جب میں واپس آیا تو وہ اپنی جگہ پر موجود نہیں تھی۔
اف یہ لڑکی اور اس کی شرارتیں، اب میں اسے کہاں ڈھونڈوں، میں نے خود کلامی کی۔
ہم الہ دین پارک کے باہر کھڑے تھے، مطلب میں کھڑا تھا وہ کہیں چھپی ہوئی تھی، یہ کراچی کی ایک مشہور تفریح گاہ تھی، میں نے ادھر نظر دوڑائی جدھر پارک میں داخلے کی ٹکٹیں فروخت ہو رہی تھیں مگر ہماری آنکھیں چار نہ ہو سکیں، میں وہیں ایک سائیڈ میں بیٹھ گیا کہ جہاں کہیں ہو گی خود ہی آ جائے گی۔
اور وہی ہوا، تھوڑی دیر بعد کسی نے پیچھے سے آ کر چپت رسید کی،
میں نے پلٹ کے دیکھا تو وہی تھی۔
تم مجھے ڈھونڈ نہیں سکتے تھے کیا، وہ خفگی سے بولی، بیٹھے ہو مزے سے۔۔
یار تمہاری شرارتیں گئیں بھاڑ میں۔۔۔ میں نے چپت کا بہت برا منایا۔
وہ بلیک کلر کے سوٹ میں تھی جس میں ایک بھی قیمتی ستارہ یا نگ نہیں لگا ہوا تھا۔
اس کا دوپٹہ ہوا میں پسینے کی بدبو بکھیر رہا تھا، کیونکہ وہ دن بھر کی تھکی ہاری فیکٹری سے نکل کر میرے ساتھ ڈائریکٹ یہیں چلی آئی تھی۔
ہم دونوں ایک ہی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔۔۔
پارک میں تفریح کا ہر سامان موجود تھا، چھوٹے بڑے جھولے، مصنوعی جھیل، کشتیاں۔۔۔ ہوا میں چلتی ہوئی چئیر لفٹ، کھانے پینے کی چیزیں، دہی بڑے، گول گپے، بن کباب، برگر اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر ہم نے کوئی چیز نہیں کھائی، کیونکہ ابھی تنخواہ ملنے میں تین چار دن باقی تھے۔۔۔
میرا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ میں بے تکلفی سے اس کا ہاتھ پکڑ لوں مگر جیب میں پیسے نہ ہوں تو بندہ کس منہ سے ایسی حرکت کرے
پارک میں ایک جگہ رک کر میں نے اس سے پوچھا۔
بھوت دیکھو گی؟
بھوت ! وہ حیرانی سے بولی اور ایسی حیرانی سے بولی جیسے کہہ رہی ہو۔ تو اب تک میں کیا دیکھ رہی تھی۔
میں نے کہا، وہ سامنے دیکھو، وہاں ایک بھوت بنگلہ ہے، دس روپے ملاؤ دو ٹکٹیں لے کر آتا ہوں۔
بھوت بنگلے میں شو شروع ہوا تو لائٹیں آف کر دی گئیں اور بیک گراؤنڈ میوزک سے ڈراؤنی آوازیں نشر ہونے لگیں۔۔۔ پھر اندھیرے میں ایک پرچھائیں سی لپکی اور اچانک ایک بھوت نکل کر سامنے آ گیا۔
خواتین اور بچے چیخ مار کر ایک دوسرے سے لپٹ گئے، خود میں ایک وجود کے ساتھ چپک گیا، بعد میں جب اس نے تھپڑ رسید کیا تو پتہ چلا یہ کوئی دوسری عورت ہے۔۔۔
یار کیا ہو گیا ہے تمہیں، یہ کوئی سچ مچ کا بھوت تھوڑی ہے، انسان ہے، بس ماسک پہنا ہوا ہے، اس نے مجھے تسلی دی۔
میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا، بھوت کہیں غائب ہو چکا تھا،
عجیب طرح کی نظر بندی یا چالاکی تھی، کچھ کمال ملگجے اندھیرے کا بھی تھا ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ شاید شو ختم ہو چکا ہے یکایک دو اطراف سے دو بھوت نکل کر سامنے آ گئے، میں زور سے چیخا اور کسی بھوت ہی کی طرح اس سے چمٹ گیا،
دو منٹ بعد شو ختم کر دیا گیا، ہم دونوں باہر نکلے
پاگل اس میں اتنا ڈرنے والی کیا بات تھی، اس نے مجھے پیار سے ڈانٹا۔
شادی کے بعد جب ہم دوبارہ الہ دین پارک میں آئے تو اسی جگہ رک کر میں نے پوچھا، یاد ہے یہ بھوت بنگلہ؟ پچھلی مرتبہ میں کتنا ڈر گیا تھا، کتنی مشکلوں سے سنبھالا تھا تم نے مجھے، یاد ہے نا وہ سب کچھ؟
آخری جملہ کہہ کر میں نے گویا سارے رومینٹک مناظر اسے دکھا دئیے
اس نے مجھے سخت حیرت سے دیکھا اور کہا، ایک بات بتاؤں۔۔
ہاں، بتاؤ بتاؤ، میں نے شوق سے پوچھا
وہ بولی، میں تو یہاں پہلی بار آپ کے ساتھ آئی ہوں،
اوہ مائی گاڈ۔ میں نے سر پیٹ لیا۔ کہ۔۔ پچھلی بار تو بانو تھی میرے ساتھ۔
٭٭٭