تارکول کی سڑک پر تانگہ پانی میں چلتی ہوئی کشتی میں ہچکولے کھاتا ہوا برابر ایک ہی رفتار سے دوڑ رہا تھا، ٹپ ٹپ گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز بنا کسی رکاوٹ کے فضا میں تحلیل ہو رہی تھی۔ پائے دان پر پیر رکھ کرتا نگے کے ڈنڈے پر بیٹھا ہوا کوچبان کبھی کبھی ڈوری کی بنی ہوئی چابک کو گھوڑوں کی پیٹھ پر اور پیٹ پر ہلکے سے مار دیتا تھا اور کبھی کبھی پیچھے مڑ کر دیکھ بھی لیتا، ٹانگے پر سیٹیں بنی ہوئی تھیں۔ اگلی سیٹ پر سلّو سمٹی سمٹائی دلہن بنی بیٹھی تھی۔ اُس کے برابر رحمت دوسرے دن کے دولہے کی شکل میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سر پر ٹوپی اب بھی تھی لیکن سہرا اور صافہ اُتر چکا تھا۔ سفید قمیص اور سفید پاجامہ تھوڑے تھوڑے مسک چکے تھے۔ اس کے ہاتھوں پر لگی ہوئی مہندی کتھے کا لیپ معلوم ہو رہی تھی، کبھی کبھی وہ شرمائے ہوئے انداز میں نگاہیں اٹھا کر سلّو کی طرف دیکھتا اور خود ہی خود مسکرانے کی کوشش کرتا۔ ایک بار رحمت بالکل سلّو کی طرف کھسک گیا۔ سلّو فوراً اس سے بچنے کے لئے دوسری طرف کو دبی اور ہاتھ سے رحمت کو ہٹانے لگی۔ رحمت نے اس کا مہندی لگایا ہاتھ دبا دیا تو سلّو نے تیزی سے کھینچ لیا۔ رحمت بھی اس طرح سیدھا بیٹھ گیا جیسے اس نے کوئی غلط کام کیا ہو۔ ہاتھ بھر لمبے چہرے پر پڑے ہوئے نقاب سے سلّو کو الجھن سی ہو رہی تھی وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد نقاب اُٹھا کر پیچھے کی طرف دوڑتے ہوئے کھیتوں کو دیکھ لیتی۔ سلّو گورے رنگ کی اچھّی خاصی قبول صورت تھی، جب دلہن بنی تو سب ہی عورتیں اسے رشک سے دیکھ رہی تھیں۔ اُس کی سہیلیوں نے اُسے خوب سجایا تھا۔ اونچی پیشانی پر لٹکا ہوا چاند نما ٹیکا بغیر تاروں کا چاند ہی سا لگ رہا تھا۔ بڑی بڑی آنکھوں میں لگے ہوئے کاجل نے آنکھوں کو اور بھی سیاہ اور نکیلا بنا دیا تھا۔ پتلی اور لمبی ناک میں چوڑی کے برابر کی نتھ لگی ہوئی تھی، اس کا لال دھاگا بائیں کان کے پاس سے ہوتا ہوا بالوں میں لگا دیا گیا تھا۔ سلّو کتھئی رنگ کا ریشمی برقعہ پہنے ہوئے تھی جس کے اوپری حصے پر سنہری جال بچھا ہوا تھا۔
اس تانگے کے پیچھے اور بھی تانگے آ رہے تھے لیکن ان میں سیٹیں نہیں تھیں۔ وہ شہروں کی سامان لادنے والی گھوڑا گاڑی کی شکل کے تھے جنہیں ریڑی کہا جاتا ہے۔ ان میں سواریاں بھی سامان ہی کی طرح بھری ہوئی تھیں۔ ان میں برات کے دوسرے آدمی تھے۔ وہ سب دولہا کے تانگے سے کافی فاصلے پر تھے۔
سلّو اللہ بخش کی پوتی تھی۔ اس کی امّاں اور ابّا بچپن ہی میں اُسے چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ اللہ بخش کو بڑھاپے میں جوان بیٹے کا زخم کھانا پڑا تھا اور اُسی زخم کو بھرنے کے لئے اس نے سلّو کو بڑے لاڈ پیار سے پالا۔ اسے ہر بات کی آزادی دے رکھی تھی۔ اس سے کسی کام کے لئے بھی منع نہیں کرتا۔ وہ جیسا کہتی، ویسا مان لیتا۔ چاہے اس میں اسے تھوڑا بہت نقصان ہی کیوں نہ اُٹھانا پڑے۔ اور جب کبھی اللہ بخش اُسے کوئی نصیحت کرتا تو سلّوبھی اس طرح خاموشی سے سنتی جیسے ملّانی سے سپارہ پڑھتے وقت اپنے اندر کے اُبھرتے ہوئے شیطان کو روکتی تھی۔ قرآن شریف تو اس نے بہت جلدی ہی پڑھ لیا تھا۔ سلّو کی بوڑھی دادی بھی اس کے ناز نخرے اُٹھانے میں کوئی کسر نہ رکھتی تھیں۔ ہر طرح سے بن ماں باپ کی پوتی کی دلجوئی کرتی تھیں۔ اسی چھوٹ کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کسی سے دبتی نہیں تھی۔ ویسے تو وہ کسی سے خواہ مخواہ اُلجھتی نہیں تھی لیکن اگر کوئی پھٹے میں ٹانگ اڑاتا تو اس کی ایسی خبر لیتی کہ اُسے ٹانگ نکالنا دشوار ہو جاتا۔ اللہ بخش لوہار تھا۔ سلّو بوڑھے دادا کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ اس لئے لوہے کی طرح مضبوط ہو گئی تھی۔ سلّو کے جوان ہوتے ہی اللہ بخش کو اس کی شادی کی فکر ہوئی۔ لڑکا اس نے دیکھ رکھا تھا۔ رحمت جیسا سیدھا سادا لڑکا اسے قسمت سے مل گیا تھا، اس لئے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق بڑی دھوم دھام سے بہت جلد سلّو کے ہاتھ پیلے کر دئے تھے۔ رخصت کے وقت جب دادا سے ملی تو اس طرح پھوٹ پھوٹ کر روئی کہ بعض عورتیں تو گھبرا ہی گئیں۔ لیکن جب اس کے ماموں نے گود میں اٹھا کرتا نگے میں بٹھا دیا تو وہ بالکل خاموش ہو گئی۔
رحمت کے گھر پر جا کرتا نگہ رک گیا۔ گھر میں بچی ہوئی عورتیں، بچّے بے چینی سے بہو کا انتظار کر رہے تھے۔ تانگہ دیکھ کر شور مچانے لگے۔ بہو آ گئی۔ بہو آ گئی۔ تانگہ سے اُتار کر گھر میں لاتے لاتے رحمت کی بڑی بہن کا سانس پھُول گیا تھا۔
اس نے سلّو کو لا کر کمرے میں بچھی ہوئی دری پر بٹھا دیا۔ سلّو نے سنہری سینڈلوں میں سُرخ موزے پہنے ہوئے تھی۔ سرخ ساٹن کی شلوار کے پائنچوں پر گوٹے کا کام ہو رہا تھا۔ نقاب سے اب بھی اس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔ پھر دوپٹے کا لمبا سا گھونگھٹ نکال کر اُسے دری پر بٹھا دیا گیا۔ ہرنی کی سی قلانچیں بھرنے والی سلّو سمٹی سمٹائی سچ مچ دلہن بنی بیٹھی تھی۔ گھر اور محلّے کی ساری لڑکیاں اسے گھیرے میں لئے ہوئے تھیں پھر تمام رسموں کی ادائیگی ہوئی۔
وقت گزرتا گیا، ناز و نخرے سے پلی سلّو کسی کی بات نہیں سنتی تھی۔ چند مہینوں کے بعد ہی وہ ساس سسر سے الگ گھر میں رہنے لگی۔ رحمت اس کی ہر بات کو پتھّر کی لکیر سمجھتا تھا۔ ایک سال کے اندر ہی وہ ایک بیٹے کی ماں بھی بن گئی لیکن تقدیر نے ایک بار پھر ایسی کروٹ بدلی کہ سلّو کی زندگی اُجڑ گئی۔ ایک سال پورے گاؤں میں ایسی ہیضے کی وبا پھیلی کہ آدھا گاؤں موت کے منہ میں چلا گیا۔ رحمت اور اس کا بوڑھا باپ بھی اس وبا کے شکار ہوئے۔ سلّو ایک بار پھر اس طرح چیخ چیخ کر روئی تھی جیسے رخصت کے وقت اپنے دادا سے مل کر روئی تھی۔ وہ تنہا رہ گئی تھی لیکن کسی کی محتاج نہیں رہنا چاہتی تھی۔ اس نے دادا کے ساتھ رہ کر کافی کام سیکھ لیا تھا۔ خود ہی کام شروع کر دیا اس کا بیٹا پہیہ چلا کر آگ دہکاتا اور وہ لوہے پر ضربیں لگاتی۔
وقت گزرتا گیا، ایک دن رحمت کا بڑا بھائی سلّو کے پاس آیا، سلّو اپنے کام میں لگی ہوئی تھی، کہنے لگا:
’’سلّو! امّاں نے ذرا دیر کے لئے گنڈاسا منگایا ہے۔ ہمارے گنڈاسے کی دھار اُتر گئی ہے۔‘‘
سلّو نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ اس پر ڈالی اور گنڈاسا لینے اندر چلی گئی۔ وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں پہنچ گیا اور بولا:
’’ارے سلّو تو کیوں اپنی جوانی برباد کر رہی ہے۔ میری مان تو شادی کر لے‘‘
سلّو گنڈاسا اُٹھا چکی تھی، اس کی طرف دیکھ کر بولی
’’گنڈاسا لینے آئے ہو یا میری شادی کروانے‘‘
’’ہاں ہاں۔ ۔سلّو میں مجیدن کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں گا اور تیرے منّا کو بھی پالوں گا۔‘‘
سلّو کو غصہ آ گیا، کہنے لگی:
’’چل ہٹ پیچھے، شرم نہیں آتی، اپنی بھابھی سے ایسے کہتے ہوئے؟‘‘
سلّو یہ کہہ کر باہر جانے لگی:
’’سلّو تُو تو مجھے بڑی اچھّی لگتی ہے، میں تو تجھے رانی بنا کر رکھوں گا۔ تجھ سے ضرور شادی کروں گا۔‘‘
اس نے سلّو کی باہیں پکڑ لیں۔ سلّو نے چھڑاتے ہوئے کہا:
’’دیکھ دل لگی مت کر، عورت کو کمزور مت سمجھ‘‘
’’میں دل لگی نہیں کر رہا، سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘
سلّو اس کی نیت بھانپ کر آگ بگولا ہو گئی۔ اور پھر یوں ہوا کہ سلّو کا گنڈاسے والا ہاتھ اٹھ گیا اور اس نے اتنی طاقت سے اس کے سر پر مارا کہ خون کا فوّارہ چھوٹ گیا۔ خون میں لت پت ہو کر وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ سلّو کو سزا ہو گئی۔ اللہ بخش کو جب معلوم ہوا تو وہ روتا پیٹتا آیا۔ پوتی کو اس حال میں دیکھ کر تڑپ اٹھا لیکن سلّو کے چہرے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی، اپنے بیٹے کو پیار کرتے ہوئے کہنے لگی:
’’دادا میرے منّا کو سنبھال کر رکھنا۔ اور اس سے کہنا کہ تیری ماں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اپنی عزت بچانے کے لئے ایسا کیا‘‘
دادا کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرتے رہے۔ سپاہی سلّو کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے گیا۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...