یار سمیرا باہر چل کر بیٹھتے ہیں- بتول کو باہر جانی کی جلدی تھی کیونکہ اسکی ماں اور ممانی کا بنایا گیا پلان پورا کرنا تھا-
کیوں۔۔۔یہی بیٹھو- ابھی مولوی صاحب باہر نکاح پڑھانے لگے ہیں-
افف یہ لائٹ بھی اسی ٹائم جانی تھی- چلو باہر- بتول اسکا ہاتھ گھسیٹتے ہوئے اسے لے جاچکی تھی- اور سجل اب اکیلے اندھیرے میں بیٹھی تھی- ابھی دو منٹ ہی گزرے تھے کہ اسے واپس دروازہ کھلنے کی آواز آئی-
سمیرا۔۔۔بتول لائٹ کیوں چلی گئی اچانک؟ سمیرا اور بتول ہوتیں تب ہی جواب دیتی نا-
بولو بھی گونگیاں ہوگئی ہو-؟ جو کوئی بھی تھا اب وہ کمرے کو لاک لگا کر اسی کی طرف آرہا تھا-
جانِ مصطفی اتنا چیخنا صحت کیلئے اچھا نہیں ہوتا- ابھی تو تمہیں یہ چیخیں بہت بار چیخنی ہیں- وہ اب اسکے پاس آکر بیٹھ چکا تھا اور سجل کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تو فوراً اٹھ کھڑی ہوئی- پر بھاگ نہ پائی تھی کیونکہ اسکا ہاتھ مصطفی کے ہاتھ میں تھا-
تم ہی نے تو مجھے دعوت دی تھی اور اب بھاگ رہی ہو- مہمان کی میزبانی بھی نہیں کروگی–
میں تمہیں نہیں جانتی کون ہو تم؟؟ میرا ہاتھ چھوڑو- سجل اس سے اپنا ہاتھ چھڑانے میں لگی تھی اور تب ہی لائٹ آگئی تھی- سجل نے اب تک اسے نہیں دیکھا تھا-
کون ہوں میں اور کیوں آیا ہوں- یہ سب بات میں بتاؤں گا- ابھی میرے پاس بلکل بھی وقت نہیں ہے- تم میری باتیں چپ چاپ غور سے سنو اور سمجھ لو- وہ اسے بیڈ پر زبردستی دھکا دے کر بٹھا چکا تھا اور سجل اسے دیکھتے ہی سکتے میں چلی گئی تھی-
یہ دیکھو ویڈیو اور یہ نکاح نامہ۔۔۔۔خیر یہ نکاح نامہ جھوٹا ہے اور تم نے باہر جاکر سب کو صرف اتنا بولنا ہے کہ تم مجھ سے پیار کرتی ہو اور مجھ سے نکاح کرچکی ہو- اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر میں تمہیں ساری دنیا کے سامنے زبردستی اٹھا کر لے جاؤں گا- مجھے روکنے والا یہاں کوئی بھی نہیں ہے- پر تمہاری عزت کی دھجیاں اڑانے والے بہت بیٹھے ہیں- مصطفی اسے ہر ایک بات سے آگاہ کرچکا تھا اور اب سب کچھ کرنے کی باری سجل کی تھی- وہ اپنی عزت کبھی بھی داغدار نہیں ہونے دے سکتی تھی- اسی لیے اسکی ہر ایک بات مان چکی تھی-
میں ایسا ہی کروں گی- پر تمہارے ساتھ کہیں بھی نہیں جاؤں گی- وہ اپنے ہاتھوں سے آنکھوں میں آئے آنسو رگڑ کر صاف کرتے ہوئے بولی-
ہاہاہاہا۔۔۔۔سجل صفدر شاہ۔۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے اس سب کے بعد تمہیں اس گھر میں کوئی رہنے دےگا- ٹھیک ہے اگر رہنے دیگا تو یہ میرے لیے زیادہ اچھا ہے۔۔۔میں تمہیں اپنے گھر کی نوکرانی کے علاوہ کسی اور حیثیت سے کبھی قبول نہیں کروں گا- مصطفی سفاکی سے بولا-
اٹھو اور اپنا حلیہ درست کرو۔۔۔مسز مصطفی بن کر باہر نکلنا ہے تمہیں اور میں ایسی بیوی کا تعارف نہیں کرواسکتا- وہ اسکے آنسو سے بھرے چہرے کی طرف اشاہ کر رہا تھا اور سجل روتے ہوئے واش روم میں جا گھسی—-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ارے واہ تم نے تو نے تو میرے نام کی مہندی لگائی ہے- تمہیں کیسے پتہ تھا کہ تم میری بیوی بن کر اس گھر جاؤ گی۔۔۔۔وہ واش روم سے نکلی تو مصطفی کی نظر اسکے ہاتھوں پر پڑی-
ہنہہ تمہارے نام کی نہیں۔۔مزمل کے نام کی پر شاید وہ میری قسمت میں نہیں ہے- سجل اب آئینہ کے سامنے کھڑی اپنے بال درست کرکے ﮈوپٹہ اڑنے لگی-
بہت پیاری ہو تم۔۔۔۔ میری ہی پسند کے سوٹ میں اور سادہ سے روپ میں بھی قیامت ﮈھارہی ہو– سجل اسکی باتوں پر صرف اسے دیکھتی رہ گئی- یہ وہی شخص تھا جسے وہ شہزادہ سمجھی تھی پر وہ اسکے لیے شہزادہ نہیں نکلا تھا- اسے یہ کوئی ﮈراؤنا خواب لگ رہا تھا-
میں اپنی ﮈائری ساتھ لوں گی- کیونکہ میں کھانا تو چھوڑ سکتی ہوں پر اپنی ﮈائری چھوڑنا میرے لیے ناممکن ہے- وہ اب اپنی ﮈائری لاکر سے نکال کر اسکے پاس آگئی-
پھر تو بہت اچھی بات ہے- تمہیں کھانا بھی پکانا نہیں پڑے گا– مصطفی ہنستے ہوئے بولا اور سجل کا دل کیا تھا اسکی ہنسی نوچ لے-
سجل۔۔۔سجل بیٹا دراوازہ کھولو- باہر اسکے بابا دروازہ بجا رہا تھے- مصطفی نے اسکا ہاتھ تھاما اور دروازے کی طرف قدم بڑھادیے-
سجل بیٹا۔۔۔۔جیسے ہی دروازہ کھلا تھا صفدر شاہ اسے کسی آدمی کے ساتھ دیکھ کر حیران رہ گئے-
سسر صاحب آپکی بیٹی یہی ہے۔۔۔کہیں نہیں گئی- چلیں باہر چل کر بات کرتے ہیں۔۔۔مصطفی ہمدانی سجل کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتا ہوا باہر لا چکا تھا اور صفدر علی شاہ بمشکل وہ راستہ طے کرکے اپنی بیٹی کے پاس آئے تھے-
کون ہو تم۔۔۔۔نائلہ بیگم کے ہوش اڑ گئے تھے کہ یہ کون آگیا تھا- انکا سارا پلان انھیں خراب ہوتا دکھا-
انسپکٹر مصطفی ہمدانی– سجل شاہ کا شوہر ہوں- اس سے زیادہ اچھا تعارف نہیں کراسکتا- اسکے ہاتھ میں اب بھی سجل کا ہاتھ تھا-
سجل یہ شخص جھوٹ کہ رہا ہے نا۔۔۔بولو سجل- مزمل اسکے پاس آکر اسے جھنجوڑتے ہوئے پوچھنے لگا-
نہیں۔۔ یہ سچ کہ رہا ہے۔۔۔میں اسکی بیوی ہوں- اور مزمل یہ وہی شخص ہے جس نے مجھے یہ سوٹ دلایا تھا- میں اسے پسند کرتی تھی اور کرتی ہوں- اب ہمارا نکاح ہوچکا ہے اور یہ سب ہمارے بنائے گئے پلان کے مطابق ہوا ہے-
سجل سب کچھ ایک ساتھ بولتی گئی تھی- وہ خود نہیں جانتی تھی کہ اسکے اندر اتنی ہمت کہاں سے آگئی-
سن لیا مزمل۔۔۔نکلی نا بیٹی بھی ماں جیسی– آوارہ اور بد چلن۔۔۔بہت شوق تھا نا تمہیں اسکے ساتھ شادی کرنے کا- بھگتو اب–
صفیہ بیگم کو موقع میسر تھا تو وہ کیوں نہ بولتیں- سجل خاموشی سے سب سنتی رہی تھی کیونکہ اب اسکے پاس بولنے کیلئے کچھ باقی نہیں بچا تھا-
صفدر شاہ اسی وقت بے ہوش ہوکر گڑ پڑے۔۔۔سجل انکے پاس جانی لگی تھی پر اسکا ہاتھ مصطفی ہمدانی نے تھام رکھا تھا اور وہ اسے سب مہمانوں کے سامنے گھسیٹھتا ہوا لے جاچکا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
صفدر شاہ کا ہر آئے دن گھر آنا جانا عثمان اور کلثوم کو اچھا نہیں لگ رہا تھا پر عثمان کچھ نہیں کہ سکتا تھا کیونکہ اب وہ اسکا محتاج ہوچکا تھا- اسے پرانی جاب سے نکال دیا گیا تھا اور گھر میں کھانے تک کیلئے کچھ نہ بچا تھا- اسے صفدر شاہ سے ہی مدد لینی پڑی تھی- صفدر شاہ جہاں جاب کرتا تھا عثمان کو بھی اسنے وہیں جاب دلوا دی تھی- اب اگر عثمان ہمدانی کچھ کہتے تو وہ اسے جاب سے نکلوا بھی سکتا تھا-
اور اب اس بات کو تین سال گزر چکے تھے- صفدر شاہ کی بھی ایک بیٹی ہوچکی تھی جو ابھی ایک سال کی تھی-
عثمان یار آج کلثوم بھابھی کے ہاتھ کا کھانے کا دل کر رہا ہے- تو جانتا ہے عاصمہ کو باہر آنے جانے سے ہی فرصت نہیں ملتی تو کھانا کیا بنائے گی- صفدر ایسے بول رہا تھا جیسے ساری زندگی بھوکا رہتا آیا ہو-
یار آج تو کلثوم کی طبیعت نہیں ٹھیک ہے۔۔۔پھر ابھی بچی بھی پیدا ہوئی- کھانا میں ہی بناتا ہوں گھر جاکر- کسی دن میں انوائیٹ کردوں گا تجھے- عثمان ہمدانی آج تو بہانہ بنا چکے تھے پر وہ اپنے کیبن میں آکر یہی سوچ رہے تھے کہ وہ ایسے بہانے کب تک بناتے رہیں گے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
کلثوم صفدر ہمارے گھر آنا چاہ رہا ہے کھانے کیلئے- پہلے بھی وہ بولتا رہا ہے اب کیا کروں- عثمان ہمدانی کھانا نکالتے ہوئے بولے-
ابھی مصطفی کی سالگرہ آرہی ہے۔۔۔تب آپ انوائیٹ کردیں انکی فیملی کو- کلثوم بانو کو اپنے بیٹے سے بہت پیار تھا وہ لوگ اسکی ہر سالگرہ مناتے تھے-
ہاں صیح کہ رہی ہو۔۔۔۔میں انوائیٹ کردیتا ہوں- پھر اسکی بھی بیٹی کی سالگرہ ہے نا- مصطفی کی اور صفدر شاہ کی بیٹی کی سالگرہ میں ایک دو دن کا فرق تھا-
پتہ نہیں شاید 5 جنوری کو ہی آتی ہے ان کی بیٹی کی سالگرہ۔۔۔آپ پوچھ لیجیئے گا ان سے-
ہمم۔۔۔ٹھیک ہے- عثمان ہمدانی اب کھانے کی طرف متوجہ ہوچکے تھے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مصطفی کی سالگرہ تھی۔۔۔صفدر شاہ اپنی بیٹی اور بیوی کے ساتھ خوشی خوشی آئے تھے- عثمان ہمدانی کے کہنے پر سجل اور مصطفی ہمدانی نے ساتھ کیک کاٹا تھا کیونکہ جس دن مصطفی کی سالگرہ تھی اسی کے اگلے دن سجل شاہ کی تھی-
مصطفی کو وہ چھوٹی سی گڑیا بہت پیاری لگی تھی-
پاپا اسکو ہم رکھ لیں- بہت پیاری ہے یہ گڑیا۔۔۔میں اسے چاکلیٹ بھی دوں گا-
نہیں بیٹا آپکی بہن ہے نا وہی آپکی گڑیا ہے- یہ ہماری گڑیا ہے- صفدر شاہ اپنی بیٹی کو گود میں لیتے ہوئے بولے اور مصطفی ان کی بات پہ چڑ گیا- اسے وہ انکل بلکل بھی پسند نہیں تھے پر وہ اپنے باپ کی وجہ سے چپ رہتا تھا-
ہاں میری بہن ہی میری گڑیا ہے- یہ بھی گندی بچی ہے بلکل آپکی طرح۔۔۔مصطفی چیخ کر بولا تو عثمان ہمدانی کا ہاتھ اس پر اٹھ گیا اور وہ روتے ہوئے کمرے میں چلا گیا-
صفدر سوری یار۔۔۔پتہ نہیں اسکو کیا ہوگیا ہے۔۔۔وہ پہلے کبھی ایسا نہیں بولتا تھا-
اٹس اوکے عثمان۔۔۔کوئی بات نہیں- بچے کبھی کبھار جذباتی ہوجاتے ہیں-
صفدر امی کی کال آرہی ہے- میں سجل کو لے کر جارہی ہوں- صفدر کی بیوی اپنی بیٹی کو لے جاچکی تھی۔۔۔عثمان اور کلثوم روکتے رہ گئے پر وہ نہیں رکیں- عثمان کو بھی ایک کال آگئی تو وہ سننے چلے گئے-
بھابھی مصطفی کہاں ہے؟ میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں- صفدر شاہ اپنے منصوبے کو آج پورا کرنا چاہتے تھے- کیونکہ آج انکو بہت اچھا موقع مل گیا تھا-
جی وہ اوپر ہے اسکا روم۔۔۔آپ جائیں میں عثمان کو بلا کر آتی ہوں- کلثوم اٹھنے لگیں تھیں-
بھابھی۔۔۔مجھے نہیں پتہ کونسا روم۔۔۔عثمان ویسے ہی فون پر لمبی بات کرے گا- کیونکہ کال باس کی تھی- وہ اپنے باس کا ﺫکر کرتے ہوئے بولے تو کلثوم کو ماننا پڑا-وہ انکے ساتھ مصطفی اور نور العین کے کمرے میں آگئیں تھیں- مصطفی اور نور العین دونوں سو چکے تھے-
تو آج آخر کار تم میرے ہاتھ لگ گئی کلثوم بانو– تم نے کیا سمجھا تھا۔۔۔میرے دوست سے شادی کرکے مجھ سے بچ جاؤگی– نہ نہ آج تمہیں بچانے والا کوئی بھی نہیں ہے-
کلثوم اپنے بچوں کے پاس بیڈ پہ بیٹھیں تھیں اور صفدر شاہ روم کو لاک لگا کر اب انکی طرف بڑھ رہے تھے-
صفدر بھائی آپ پاگل ہوگئے ہیں- باہر جائیں ورنہ میں چیخ چیخ کر عثمان کو بلا لوں گی– کلثوم بانو کو لگ رہا تھا کہ وہ آخری سانسیں لے رہی ہیں-
ہاہاہاہا کلثوم بانو آج تمہیں مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا- عثمان بھی نہیں۔۔۔۔کیا سمجھتا تھا وہ خود کو- بہت ہی پاکباز ہے۔۔۔۔اب اسکی عزت سر عام نیلام ہوگی- صفدر شاہ کے ہر انداز سے درندگی چھلک رہی تھی- وہ نہیں جانتے تھے عثمان ہمدانی کا بیٹا بہت سمجھ دار اور اس وقت وہ انکی ہر ایک ایک بات سن رہا ہے-
بکواس بند کرو۔۔۔ صفدر شاہ– تم شیطان۔۔۔۔تمہاری بیٹی بھی ہے یہ مت بھولو اور اگر تم نے میرا ساتھ کچھ بھی کرنے کی کوشش کو تو مت بھولنا یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔۔۔تمہیں اسکا انجام بھگتنا پڑے گا— کلثوم بانو روتے ہوئے چیخ پڑیں تھیں- اور نیچی تک یہ چیخ عثمان ہمدانی نے بھی سنی تھی-
اے چل بے۔۔۔۔میں صفدر شاہ ہوں۔۔۔کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا نہ میری بیٹی کا— وہ اپنی مٹھی میں کلثوم بانو کے بال جکڑتے ہوئے بولے تھے– اسی وقت دروازہ بجا تھا۔۔۔
عثم۔۔۔کلثوم کی آواز نکلنے سے پہلے ہی صفدر شاہ انکے منہ پہ ہاتھ رکھ چکے تھے-
مصطفی جو دوسری سائیڈ پہ لیٹا تھا چھپ کر دروازے تک پہنچ کر دروازہ کھول چکا تھا-
صفدر۔۔۔عثمان شاہ اس تک پہچنے لگے تھے کہ صفدر شاہ نے اپنی جیب سے بندوق نکال کر کلثوم بانو کی کنپٹی پہ رکھ دی تھی-
اگر اس سے آگے بڑھے تم عثمان ہمدانی تو یہ تمہیں زندہ نہیں ملے گی- صفدر شاہ درندگی سے بولے تھے- عثمان ہمدانی تو گویا گونگے ہوچکے تھے- وہ سب جانتے تھے کہ وہ اپنی آستین میں سانپ پالے بیٹھے ہیں۔۔۔پر انکو اس سانپ کی اتنی جلدی باہر نکلنے کی امید نہ تھی-
نہ نہ۔۔۔عثمان ہمدانی میں تجھے ماروں گا اور تیری بیوی کے ساتھ ساری زندگی۔۔۔۔۔اس سے آگے وہ کچھ نہ بولا بلکہ قہقے لگارہا تھا— مصطفی 7 سال کا بچہ ہر ایک بات سن رہا تھا اور دیکھ بھی رہا تھا—
تم میرے باپ کو مارو گے تو میں تمہیں ماڑ ﮈالوں گا- مصطفی چلاتے ہوئے بولا تھا- صفدر شاہ اسکی بات پر سر جھٹک گیا تھا- اگر وہ جانتا ہوتا کہ یہ بچہ سچ میں ایسا کرے گا تو وہ کبھی اسکے باپ کو نہ مارتا- صفدر شاہ عثمان ہمدانی کے دل میں تین گولیاں اتار چکا تھا اور کلثوم بانو کو ہوش آیا تو وہ پیچھے سے ان کے ہاتھ سے بندوق اچک چکی تھیں-
صفدر شاہ اگر تم اس گھر سے نہیں گئے تو اسی سے میں تم کو مار ﮈالوں گی۔۔۔۔اس سے پہلے کہ تم یہاں سے دفع ہوجاؤ- کلثوم بانو اپنے بچوں کیلئے ہمت کرگئیں تھیں– وہ جانتی تھیں انکا شوہر اب نہیں بچ سکتا اسی لیے انھوں نے اپنے بچوں کیلئے ہمت دکھائی تھی- وہ نہیں چاہتیں تھیں انکی طرح دوسری کانچ کی گڑیا ٹوٹ کر بکھرے۔۔۔اسی لیے انھوں نے صفدر شاہ کو بخش کر جانے دیا تھا ورنہ وہ چاہتیں تو اسی وقت اس درندے کو موت کا مزہ چھکا چکی ہوتیں- پر انھیں اپنی طرح دوسری کانچ کی گڑیا کو نہیں توڑنا تھا۔۔۔۔صفدر شاہ اس گھر سے فوراً بھاگ گیا تھا اور اپنی بیوی بچی کے ساتھ گاؤں چلا گیاتھا–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
”ایک کانچ کی تھی گڑیا
وہ جو روئی تھی کبھی نہ
اس نے جو خواب دیکھے
وہ بھی تو کانچ کے تھے
ٹوٹ کر بکھر گئے“
یہ رہا تمہارا قید خانہ سجل صفدر شاہ— مصطفی اسے وہاں سے سب کے سامنے زبردستی لے آیا تھا- 2 گھنٹے کے سفر کے بعد وہ لوگ اسلام آباد آچکے تھے اور اب وہ اسے اپنے گھر پہ لے آیا تھا-
تم مجھے زبردستی لائے ہو۔۔۔پر کیوں؟؟ یہ سب کیوں کیا تم نے؟ میں نے آخر تمہارا کیا بگاڑا تھا۔۔۔۔جواب دو۔۔۔بولو- سجل چیخ چیخ کر سوال کررہی تھی-
بند کرو چلانا۔۔۔۔مجھے چلاتی ہوئی عورتیں بلکل بھی نہیں پسند۔۔۔۔آئندہ میرے سامنے چلائی تو میرا ہاتھ بھی اٹھ سکتا ہے۔۔۔۔اور یہ جو سارے سوالات تم مجھ سے کر رہی ہو۔۔۔یہی سب ایک مہینے بعد اپنے گھر جاکر اپنے باپ سے کرنا۔۔۔۔ایک ایک سوال کا جواب دیگا وہ گھٹیا شخص— مصطفی نفرت بھرے لہجے میں بولا تھا-
میرے باپ کے بارے میں کچھ بھی مت بولو سمجھے تم۔۔۔۔میں وہ لڑکی نہیں جو تم سے اور تمہاری باتوں سے ﮈر کر چپ کرکے ایک کونے میں بیٹھ جاؤں گی- سجل اسکی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔جیسے اسے خبردار کر رہی ہو–
ہاہاہاہا۔۔۔۔تم باپ بیٹی بلکل ایک جیسے ہو۔۔۔۔یہ مت بھولو سجل شاہ کہ اس وقت تم انسپکٹر مصطفی ہمدانی کے قبضے میں ہو۔۔۔۔میں تمہاری عزت کی دھجیاں بھی اڑا سکتا ہوں— اگر تم نے میرے ساتھ کوئی بھی بد تمیزی کی تو۔۔۔وہ اسے وارن کرتا گاڑی سے اتر چکا تھا اور سجل کے دماغ میں جکڑ چلنے لگے تھے۔۔۔کہ اسنے آج کے دن کیلئے کیا کچھ سوچا تھا اور کیا ہوگیا تھا–
جو اللہ نے جس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے وہ ہوکر رہتا ہے۔۔۔۔ہم اپنا نصیب، اپنی قسمت نہیں بدل سکتے— پر اپنی قسمت اور نصیب بدلنا ناممکن نہیں ہوتا۔۔۔۔۔اللہ کے آگے جھک کر۔۔رو رو کر۔۔دعائیں مانگنے سے بھی ہماری قسمت بدل سکتی ہے۔۔۔۔۔پر ہر کوئی یہ تگ و دو بھی نہیں کرتا اور جب اسکی قسمت بری نکلتی ہے تو اللہ سے شکوہ کرتا ہے— کیوں اور کیسے شکوے۔۔۔؟یہ سب تو ہم اللہ کے سامنے جھک کر بھی بدل سکتے تھے۔۔۔۔پر ہم پر جب آزمائش آجاتی ہے تب ہی اللہ سے گلے شکوے یاد آجاتے ہیں—
اور سجل اللہ سے گلے شکوے نہیں کررہی تھی کیونکہ وہ اس وقت جان چکی تھی کہ یہی اسکی قسمت اور نصیب میں لکھا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
صفدر شاہ اپنے باپ کا لاﮈلا بیٹا تھا جسکی وجہ سے اسکے باپ نے اسے اسلام آباد کی یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت دی تھی- صفدر کا ایک بڑا بھائی ارمان شاہ اور ایک بہن نائلہ بھی تھیں- نائلہ کی طلاق ہوچکی تھی جسکی وجہ سے وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ باپ کے گھر ہی رہتی تھیں- ارمان شاہ کے بھے دو بچے تھے- اور اب صفدر شاہ کی شادی ہوچکی تھی- اسکی ایک ہی بیٹی سجل تھی۔۔۔جس سے وہ بہت پیار کرنے لگے تھے— کیونکہ انکے کانوں میں کلثوم بانو کی آوازیں گونجتی تھیں کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے۔۔۔۔اسی لیے انھوں نے اپنی بیٹی کو ماں کے پاس چھوڑ دیا تھا– انکی اپنی بیوی تو انھیں دھوکا دے کر کب کی جاچکی تھی- صفدر اپنی بیٹی کیلئے بہت حساس ہوگئے تھے- سجل نے وہیں مری میں رہ کر تعلیم حاصل کی تھی- میٹرک میں اسکی تیسری پوزیشن آئی تھی۔۔۔۔وہ بچی بچپن سے ہی بہت ﺫہین تھی۔۔۔اسنے کبھی کوئی دوست بھی نہیں بنائے تھے– کیونکہ اسکے دوست اسکے پاس موجود تھے۔۔جن سے وہ اپنی ہر بات شئیر کرسکتی تھی اور وہ دونوں خاموشی سے اسے سنتے تھے— ایک دوست اسکا اللہ تھا اور دوسری ﮈائری۔۔۔جس پر وہ بچپن سے ہر ایک ایک لفظ لکھتی تھی اور اللہ کو سب بتاتی تھی— اسی لیے اس لڑکی کو کبھی دوستوں کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی-
کالج میں آنے کے بعد مزمل سے وہ بہت گھل مل گئی تھی کیونکہ وہ دونوں اسلام آباد جاکر ساتھ ہی پڑھتے تھے— اور ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر بتول اور سمیرا ہر وقت جلتی رہتی تھیں۔۔۔ان دونوں کو پڑھائی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی- صفدر شاہ اپنا بزنس اسلام آباد میں ہی شروع کر چکے تھے—سجل ان سے ہر اتوار ملنے جاتی تھی اور کبھی کبھار وہ گاؤں آجایا کرتے تھے–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
نیا سال مبارک ہو سجل شاہ— اور قید خانہ میں خوش آمدید—- مصطفی ہنستے ہوئے کہ رہا تھا جیسے اسکا تاج محل میں ویلکم کر رہا ہو-
یار سوری کانچ کی گڑیا کیلئے کانٹے نہیں سجا سکا۔۔۔۔ویسے تو ساری زندگی تمہاری کانٹوں سے ہی بھر چکی ہوگی۔۔۔۔ہے نا– مصطفی اسکے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا تھا جو کہ بلکل سپاٹ تھا۔۔۔مصطفی کو لگا تھا وہ جب اسے وہاں سے لائے گا وہ روئی گی۔۔۔چلائی گی پر اسکی سب سوچوں کے برعکس وہ لڑکی چپ چاپ ہر احساس سے عاری تھی-
ہاں مصطفی ہمدانی کمی رہ گئی ہے۔۔۔۔وہ بھی سجا دیتے—-پر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔کیونکہ میں اچھے سے جانتی یہی ہے میری قسمت اور یہی میرا نصیب ہے- مجھے رونے دھونے سے کچھ نہیں ملنے والا۔۔۔۔بس تمہیں میرے رونے سے خوشی مل سکتی ہے۔۔۔اور اس خوشی کیلئے تم ساری زندگی ترسو گے کیونکہ میں تمہارے سامنے اب کبھی نہیں رؤں گی—
سجل بولتی ہی چلی گئی۔۔۔اور مصطفی حیرانی سے اس لڑکی کو دیکھے جارہاتھا- اسے اپنی ماں کی سنائی گئی کہانی آج بھی یاد تھی کہ مرد ہی ایک کانچ کی گڑیا کو توڑ سکتا ہے اور مرد ہی ایک کانچ کی گڑیا کو جوڑ سکتا ہے— پر مصطفی کو کہیں سے نہ لگا تھا کہ یہ کانچ کی گڑیا ٹوٹ چکی ہے—
تمہارا روم بلکہ قید خانہ نیچے بیسمنٹ میں ہے۔۔۔۔خود چلی جاؤ- مصطفی اسے بتا کر اوپر اپنے کمرے میں جاچکا تھا—
وہ پورے گھر کا جائزہ لینے لگی۔۔۔اسے ہر طرف بند کمرے نظر آئے اور ایک کچن۔۔۔۔اسنے سارے روم دیکھے تو سب لاک تھے- اب وہ لاؤنج سے ہوتی کچن کی طرف بڑھ رہی تھی جب اسے کچھ توڑ پھوڑ کی آوازیں اوپر سے آئیں تھیں— اور اسکے قدم خود بخود اوپر مصطفی ہمدانی کے کمرے کی طرف بڑھنے لگے تھے–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟ کیوں آئی ہو یہاں- سجل اسکے روم میں آچکی تھی۔۔۔۔اور مصطفی کا غصہ اسے دیکھ کر بڑھنے لگا-
مجھے روم نہیں ملا۔۔نہ ہی بیسمنٹ کی طرف جاتا راستہ— سجل تھوڑی دیر کیلئے گھبرا گئی تھی پر پھر اسکا وہی اعتماد واپس لوٹ آیا-
چلو آؤ۔۔میں دکھاتا ہوں تمہارے قید خانہ کا راستہ۔۔۔۔مصطفی اسکا ہاتھ دبوچ کر اسے گھسیٹتے ہوئے نیچے لے آیا تھا–
یہ رہا تمہارے قید خانہ جانے کا راستہ۔۔۔۔وہ کچن سے ہوتے ہوئے باہر لان میں نکل آیا تھا- جہاں ایک روم تھا اور نیچے کی طرف جاتی سیڑھیاں۔۔۔
نہیں میں نہیں رہوں گی یہاں– وہ چیخی تھی پر سامنے مصطفی ہمدانی تھا جو سفاکی کی حدیں پار چکا تھا-
میری ماں بھی ساری زندگی ایسے ہی گزار چکی ہے۔۔۔۔اب تمہاری باری ہے سجل صفدر شاہ۔۔۔۔اپنے باپ کے کیے کی سزا اب تم کاٹوگی– مجھ سے کسی بھی اچھے سلوک کی امید مت رکھنا– وہ کہتا ہوا اوپر جا چکا تھا اور سجل اپنی اس نئی زندگی پہ رودی تھی۔۔۔۔کیا کیا نہ سوچا تھا اس نے کہ مزمل کے ساتھ نئے سال کا جشن منائے گی۔۔۔پر اسکے سارے خواب شیشے کی طرح ٹوٹ کر بکھر چکے تھے-
رونے سے فرصت ملی تو اس نے روم کا جائزہ لیا وہاں صرف ایک بلب تھا جسکی روشنی بھی کسی وقت بجھنے والی تھی اور ایک پنکھا تھا۔۔۔۔اسنے اپنی ﮈائری تلاشنی چاہی پر ﮈائری وہاں ہوتی تو ملتی نا– اسے یاد آیا جب وہ مصطفی کے کمرے میں گئی تھی تب اسکے ہاتھ میں ﮈائری تھی—اس نے خوشی سے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا– اور اب نقاحت کے مارے اس سے اٹھا بھی نہیں جارہا تھا-
بابا کیسے ہوں گے۔۔۔مزمل کیا سوچ رہا ہوگا میرے بارے میں کہ میں بھی اپنی ماں جیسی نکلی– اس نے تو شاید بتول سے شادی کرلی ہوگی-
وہ وہیں بیٹھی سوچے جارہی تھی اور کب وہ نیند کی وادیوں میں چلی گئی اسے پتہ ہی نہ چلا تھا—
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
صبح اسکی آنکھ گاڑی کی آواز پہ کھلی اور گاڑی اس گھر میں صرف ایک ہی تھی جو کہ مصطفی ہمدانی کی تھی–
کیا یہ مجھے بند کرکے ہمیشہ کیلئے اس گھر سے جارہا ہے– وہ خود سے بولی تھی–
نن۔۔نہیں اللہ میرے ساتھ ایسا نہ کرنا۔۔۔۔میں مرجاؤں گی– اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے– وہ سارا دن روتی رہی- اور کئی دفعہ دروازہ دیکھ چکی تھی پر وہ باہر سے لاک تھا-
اسکی ساری نمازیں بھی قضا ہوچکیں تھیں۔۔۔مغرب کی اﺫانوں کے وقت اسے گاڑی کی دوبارہ آواز آئی تو وہ اوپر کی طرف بھاگی پر ابھی آدھی سیڑھیاں چڑھی تھی اور چکڑا کر سیڑھیوں سے نیچے ٹھنڈے فرش پر جاگری—-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...