’’ انہیں مجھ پر شبہ ہو گیا مگر میں نے انہیں ایک جھوٹی کہانی سنا دی۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور اپنے اڈّے پر میرے قیام کا بندوبست کر دیا۔ اس محبت سے پیش آئے وہ میرے ساتھ کہ پھر میں ان سے جھوٹ نہ بول سکا اور میں نے انہیں پوری کہانی سنا دی۔ وہ پولیس اسٹیشن گئے وہاں میری تصویر موجود تھی۔ چاند خان نے مجھے وہاں سے ہٹا کر ایک خفیہ جگہ رکھا اور پھر وہ میری تربیت کرنے لگے۔‘‘
’’تربیت۔‘‘ میں نے پھر درمیان میں دخل دیا۔
’’ہاں انہوں نے مجھے چاقو چلانا سکھایا، جیب تراشی سکھائی، پستول اور رائفل کا استعمال اور نشانہ بازی۔ زندگی بچانے کے سارے گُر سکھائے انہوں نے مجھے، تاکہ کہیں پھنس جائوں تو اپنا بچائو کر سکوں۔ اس دوران وہ میرے لیے کچھ اور بندوبست بھی کر رہے تھے۔ کسی خاص جہاز کے کپتان سے ان کی دوستی تھی۔ وہ اس کا انتظار کر رہے تھے اور ان کا ارادہ تھا کہ مجھے جہاز سے نکال دیں۔ سنا ہے بحری جہازوں پر خفیہ نوکریاں بھی مل جاتی ہیں۔ مجھے چاند خان کے ساتھ کئی ماہ گزر گئے تھے۔ وعدے کے مطابق میں ناظم پور بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ان لوگوں کا خیال ستاتا تھا اور پھر میں نے چاند خان سے اجازت لے ہی لی۔‘‘
’’کیسی اجازت؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ناظم پور جانے کی۔ اس سے پہلے بھی میں نے کئی بار ان سے کہا تھا، لیکن انہوں نے کہا تھا کہ حالات سازگار نہیں ہیں ابھی جانا بہتر نہیں رہے گا۔ وہ لوگ ابھی ناظم پور نہ بھی گئے تو جہاں جائیں گے وہاں کے بارے میں بتا جائیں گے چنانچہ میں جلد بازی نہ کروں، پولیس سرگرم ہے۔ بالآخر چاند خان نے اجازت دے دی اور اپنا ایک آدمی میرے ساتھ کر دیا۔ ہم چھپتے چھپاتے ناظم پور پہنچے، میں نے شفیق خالو کے مکان کے دروازے میں قدم رکھا ہی تھا کہ شفیق خالو نظر آئے، مجھے دیکھ کر آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے، آئو دیکھا نہ تائو میرا گریبان پکڑ لیا۔‘‘
’’بدمعاش، آوارہ، خونی تجھے میرے گھر میں داخل ہونے کی جرأت کیسے ہوئی۔‘‘ آپ کو معلوم ہے بھائی جان، میں نے ہمیشہ خالو کی عزت کی، وہ بھی مجھ سے اچھی طرح پیش آتے رہے تھے، میں حیران رہ گیا۔ فوراً نکل جا یہاں سے ورنہ پولیس کو بلا لوں گا۔‘‘خالو جان بولے۔
’’خالو جان، میں ان لوگوں کے بارے میں معلوم کرنے آیا تھا۔‘‘
’’اُلٹے قدموں نکل جا ورنہ…‘‘
’’کیا امی، ابو اور دُوسرے لوگ یہاں آئے تھے؟‘‘ میں نے خود پر قابو رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’کسی سوال کا جواب نہیں ملے گا تو یہاں سے دفعان ہو جا۔‘‘
’’مجھے صرف ان لوگوں کے بارے میں بتا دیجیے۔ کیا وہ یہاں ہیں؟‘‘
’’دارالامان ہے نا یہ تو۔ تمہارے باپ کی جاگیر ہے۔ کوئی نہیں ہے یہاں۔‘‘
’’کہاں گئے ہیں وہ کچھ بتا کر گئے ہیں۔‘‘
’’جہنم میں گئے۔ چلو نکلو یہاں سے۔‘‘ خالو مجھے دھکے دینے لگے۔ سر گھوما تھا بھائی جان، لیکن خود پر قابو رکھا، اندازہ ہوگیا تھا کہ اس وقت خالو جان، خالہ سے بھی نہ ملنے دیں گے چنانچہ وہاں سے واپس نکل آیا، لیکن اسی رات گھر کی ایک کھڑکی سے اندر داخل ہو کر خالہ جان کے پاس پہنچ گیا۔ وہ مجھے سینے سے لگا کر زار و قطار روئیں، خالو دوستوں میں گئے تھے تب انہوں نے اپنی بپتا سنائی۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے بے اختیار پوچھا۔
’’خالو جان ویسے ہی تنک مزاج انسان ہیں، ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے اور پھر ابو سے ان کی کبھی نہیں بنی، واقعات کی کچھ بھنک انہیں بھی مل گئی تھی مگر جب یہ لوگ ان کے پاس پہنچے تو وہ ہمدردی سے پیش آئے۔ البتہ انہوں نے اسی وقت کہہ دیا کہ وہ انہیں پناہ نہ دے سکیں گے اور یہ لوگ جلد یہاں سے چلے جائیں کیونکہ اس طرح وہ خطرے میں پڑ سکتے ہیں مگر پولیس تاک میں تھی۔ خالو جان کے ہاں چھاپہ پڑا اورپولیس نے انہیں بھی پکڑ لیا۔ تین دن تک لاک اَپ میں رہے شاید پولیس نے ان سے بھی ہمارے بارے میں پوچھا تھا۔ دس ہزار روپے دے کر جان چھڑائی اور امی ابو وغیرہ کو گھر سے نکال دیا، یہ تھی خالو شفیق کی کہانی۔‘‘
’’خالہ نے کچھ بتایا کہ امی ابو کہاں گئے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’انہیں پتا نہیں تھا۔ کچھ موقع ہی نہیں ملا تھا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’بس بھائی جان، خالو شفیق نے کچھ زیادہ ہی زیادتی کر ڈالی۔ جب میں خالہ کے پاس تھا تو انہیں کسی طرح پتا چل گیا کہ میں اندر ہوں، پولیس کو اطلاع دے کر انہوں نے مجھے گرفتار کرا دیا۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ میں نے ایک سرد آہ بھری۔
’’کھاتہ کھول لیا، انہوں نے اپنا بھائی جان۔ قرض تو وصول کرنا ہے ان سے۔‘‘ محمود نے سرد لہجے میں کہا۔
’’اوہ! نہیں محمود، نہیں بیٹے۔ ذہن ٹھنڈا رکھو۔ ہم تقدیر سے نہیں لڑ سکتے، ہاں چاند خان کے اس آدمی کا کیا ہوا جو تمہارے ساتھ تھا!‘‘
’’ظاہر ہے اسے بھاگ جانا تھا ورنہ چاند خان پر پورا کیس بن جاتا۔ مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ عدالت میں پیش کیا گیا، بہت سی باتیں پوچھی گئیں اور ابھی میرا کیس چل رہا ہے مجھے ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا۔‘‘
میں خاموشی سے محمود کی صورت دیکھتا رہا۔ ماں باپ کا کوئی پتا نہیں چل سکا تھا! دماغ میں بہت سے سوالات پیدا ہو گئے تھے اب کیا ہو۔ نہ جانے وہ لوگ کہاں ہوں گے، کس حال میں گزارا کر رہے ہوں گے؟ اگر ان کا پتہ چل جائے تو ہم دونوں کر بھی کیا سکیں گے سوائے اس کے کہ ان کے لیے مصیبت بن جائیں اور اب تو جیل سے فرار اور سپاہیوں کو شدید زخمی کرنے کا جرم بھی عائد ہوگیا تھا۔ دیر تک خاموش رہنے کے بعد میں نے پوچھا۔
’’چاند خان سے اس دوران تم نے رابطہ کیا؟‘‘
’’بالکل نہیں، اور اُصولی طور پر درست بھی ہے۔ کوئی کتنا ایثار کرسکتا ہے۔ وہ جرائم کرتے ہیں مگر یہ تو گردن پھنسانے والی بات تھی۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے گردن ہلائی کچھ دیر تک ہم دونوں خاموش رہے، محمود بھی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ پھر وہ بولا۔
’’مجھے آپ سے اس طرح ملاقات کی اُمید نہیں تھی بھائی جان۔ آپ اس جیل میں کب پہنچے اور یہ سب کچھ کیا ہوا ہے۔‘‘
’’بس محمود بیٹے، تقدیر ہمارے ساتھ یہ کھیل کھیل رہی ہے۔ کیا بتائوں کیا ہوا ہے، ہاں بس اتنا سمجھ لو کہ نہ مجھے جرم کی زندگی سے کوئی رغبت تھی نہ ہے، میں تقدیر کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہوں۔ قدرت مجھے زندہ بھی رکھنا چاہتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کب تک۔‘‘
’’پھانسی گھر میں کیا ہوا تھا؟‘‘
’’جو کچھ ہوا تھا اس میں نہ میرا ہاتھ تھا نہ کوشش۔‘‘ میں نے گول مول جواب دیا، محمود کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، یہ اس کا پیار تھا کہ اس نے مجھے مجبور نہیں کیا۔ پھر اس نے کہا۔
’’آپ کے خیال میں یہ لوگ کہاں جا سکتے ہیں!‘‘
’’امی ابو وغیرہ؟ میں نے سوال کیا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اللہ بہتر جانتا ہے۔ زندگی بہت پیاری ہوتی ہے، کچھ نہ کچھ بندوبست کرلیا ہوگا انہوں نے اپنے لیے اور یہ بہتر ہی ہے محمود، میری نحوست نے سب کو برباد کر دیا، محمود تو بھی میرے بیٹے ان حالات کا شکار ہو کر نہ جانے کیا سے کیا بن گیا، تیرا یہ حال بھی میری وجہ سے ہوا ہے۔ ہمارا ان سے دُور رہنا ہی مناسب ہے، کم از کم انہیں تو سکون ملے۔‘‘ میری آواز بھرّا گئی۔
’’کیسی باتیں کر رہے ہیں بھائی جان۔ ابھی آپ نے تقدیر کے بارے میں کہا تھا، تقدیر سب کی الگ الگ ہوتی ہے۔ میرے ساتھ جو کچھ ہوا وہ میری تقدیر کا معاملہ تھا۔ خیر اب آئندہ کے لیے مجھے بتائیں کیا کیا جائے۔‘‘
’’میری بات مان لو گے محمود۔‘‘
’’کیوں نہیں بھائی جان۔‘‘
’’وعدہ کر رہے ہو۔‘‘ میں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں ہے بھائی جان۔‘‘ محمود نے بھرّائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ہے۔ محمود جان ہے۔ چاند خان کس قسم کے آدمی ہیں، رواروی میں تمہارا ساتھ دینے پر آمادہ ہوگئے تھے یا خلوص دل سے۔‘‘
’’انہوں نے میرے ساتھ جو کچھ کیا بھائی جان، وہ بالکل بے لوث تھا۔ بے غرض تھا اور پھر خاصا وقت صرف کیا انہوں نے مجھ پر، بعد میں بھی میرے ساتھ مخلص رہے، میرے خیال میں اچھے آدمی ہیں، بلکہ خاصے اچھے انسان ہیں، آپ آگے کہیں۔‘‘
’’تو پھر تمہیں چاند خان کے پاس واپس جانا ہوگا، ہو سکتا ہے تقدیر ہمارا ساتھ دے جائے، اگر چاند خان تمہیں ملک سے باہر نکال سکتے ہیں تو اس وقت اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہوگی، کم از کم تم اس جال سے بچ کر باہر نکل جائو، بعد میں جو کچھ ہوگا میں دیکھ لوں گا۔‘‘ محمود کا چہرہ ایک دم ست گیا، وہ خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا، پھر بولا۔
’’آپ کا حکم نہ ماننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا بھائی جان۔ آپ مجھے کنویں میں چھلانگ لگانے کے لیے کہیں گے تو لگا دوں گا۔ لیکن کچھ باتیں تو کرنے کی اجازت دیں…‘‘
’’کیا…‘‘
’’آپ کے خیال میں ان حالات میں اپنی جان بچا کر باہر نکل جانا ایک خوشگوار عمل ہوگا، کیا میں سکون پا سکوں گا، کیا مجھے یہ احساس نہ ہوگا کہ میں نے آپ سب کو چھوڑ کر خود غرضی کا ثبوت دیتے ہوئے صرف اپنی جان بچا لی ہے؟‘‘
میں محمود کا چہرہ دیکھتا رہا، پھر میں نے سرد لہجے میں کہا۔ ’’یہ ایک جذباتی احساس ہے محمود، اور یہ ہمیں کچھ نہیںدے گا، ہم الگ الگ رہ کر اگر زندگی پا سکتے ہیں تو اس میں جذباتیت کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔ پہلے تم اپنے طور پر باہر نکل جائو۔ میں اس دوران امی اور ابو کو تلاش کروں گا اور جیسے ہی کوئی موقع ملا میں امی اور ابو کے ساتھ اپنی زندگی بچانے کی جدوجہد بھی کروں گا۔ کم از کم ایک طرف سے تو مطمئن ہو جائوں۔ ہاں اگر تم اس مصیبت کا شکار نہ ہوتے تو میں تم سے پوری پوری مدد لیتا لیکن بیٹے اگر پھنسے تو دونوں ہی پھنس جائیں گے، اس طرح کم از کم ایک تو محفوظ ہو جائے تاکہ زیادہ ہمت سے کام کرنے کا موقع مل جائے۔‘‘ محمود سوچتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔
’’اور اگر آپ مصیبت میں گھر گئے تو…؟‘‘
’’میری صرف ایک بات سن لو محمود، میں کسی بھی مصیبت میں گھر جائوں، ابھی مر بھی نہیں پائوں گا، کیونکہ جو پُراسرار قوتیں مجھے اپنا آلۂ کار بنائے ہوئے ہیں۔ وہ میری موت نہیں، زندگی چاہتی ہیں۔ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے محمود، مجھے ایک مکروہ عمل کرنے کے لیے مجبور کرنے کا طریقہ ہے، اور میں وہ عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ پہلے میں ان ناپاک قوتوں کو شکست دوں گا اور اس کے بعد اپنا کام کروں گا۔‘‘ محمود نہ سمجھنے والے انداز میں مجھے دیکھتا رہا۔ مگر اس نے کچھ کہا نہیں تھا۔ پھر وہ بولا۔
’’بھائی جان، خدا کی قسم آپ کے ساتھ رہ کر زندگی کی ہر صعوبت جھیلنے کے لیے تیار ہوں۔ جان بچا کر نہیں بھاگنا چاہتا، لیکن اگر یہ آپ کا حکم ہے کہ میں نکل جائوں یہاں سے، تو کوشش کر کے دیکھ لیتے ہیں، چاند خان سے دوبارہ ملاقات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پتا چل جائے گا کہ اب ان کا نظریہ کیا ہے۔ وہ اگر گھبرائے تو اللہ مالک ہے کچھ اور دیکھیں گے، سوچیں گے اور اگر آمادہ ہوگئے ہمارا کام کرنے پر، تو پھر میں آپ کے حکم کے مطابق ان سے فائدہ اُٹھائوں گا لیکن ہوشیار رہنا بے حد ضروری ہے۔‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ محمود اور میں اس پروگرام پر متفق ہوگئے تھے۔ اپنے بھائی سے مجھے بے پناہ محبت محسوس ہو رہی تھی۔ حالانکہ پہلے بھی ہم دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے لیکن میں چونکہ اپنے مشاغل میں مصروف رہتا تھا اور محمود کو صرف پڑھنے لکھنے سے دلچسپی تھی، اس لیے بہت زیادہ قربت نہیں تھی لیکن اب یہ احساس ہو رہا تھا کہ محمود میرے لیے دُنیا کی سب سے قیمتی شے ہے۔ آنکھوں میں بار بار گزرا ہوا ماضی دَر آتا تھا، ایک پرسکون گھرانہ ہنستے مسکراتے لوگ، بے چارے ماموں ریاض، صرف نام کے ماموں تھے ورنہ ہمارے لیے تو وہ بڑے بھائیوں جیسے ہی تھے، رہن سہن کا وہی انداز، وہی سب کچھ۔ سب ہی مصیبتوں میں گرفتار ہوگئے تھے۔ ہوٹل میں کافی وقت گزرا، کمروں میں محصور ہوگئے تھے، اخبار وغیرہ منگوا لیا کرتے تھے لیکن کسی بھی اخبار میں ہم سے متعلق کوئی بھی خبر ہمیں نہ مل سکی۔ بالآخر جب کئی دن گزر گئے اور ہم نے اپنی تمام تھکن اُتار لی تو پھر تیاریاں کرنے لگے، چاند خان دوسرے شہر میں رہتے تھے اور یہاں سے ہمیں وہاں تک کا سفر کرنا تھا۔ ہر طرح کا سفر ہی کیا چاردیواری سے باہر نکلنا بھی عذاب ہی تھا، کسی بھی وقت مصیبت دوبارہ نازل ہو سکتی تھی لیکن کیا کرتے، البتہ حلیہ صرف تبدیل کیا تھا۔ پٹھانوں جیسے لباس پہنے تھے ہم دونوں نے، بازار سے کچھ خریداری بھی کی تھی اپنے لیے۔ جس سے کچھ حلیہ بدلنے میں مدد ملی تھی، اپنے طور پر جس قدر ممکن ہو سکتا تھا، کیا اور اس کے بعد ٹرین میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ مطلوبہ جگہ پہنچنے کے بعد میں محمود کے ساتھ چاند خان کے اڈے پر پہنچ گیا۔
بڑا سا مکان تھا، خاص قسم کا احاطہ، اندر بہت سے لوگ تھے۔ انہوں نے ہمیں اجنبی نگاہوں سے دیکھا لیکن پھر کسی نے محمود کو پہچان لیا اور دوڑ کر اس سے لپٹ گیا۔ وہ لوگ محمود سے بڑی محبت کا اظہار کر رہے تھے۔ چاند خان اندر موجود تھے۔ اطلاع ملی تو باہر نکل آئے۔
میں نے چاند خان کو دیکھا، وہ چہرے ہی سے پروقار اور کسی اچھے گھرانے کے فرد معلوم ہوتے تھے۔ محمود کو بڑے خلوص سے سینے سے لگایا ، پھر میری جانب دیکھا اور چونک کر بولے۔
’’اوہو، یہ مسعود ہیں، کیوں میں نے غلط تو نہیں کہا؟‘‘
’’نہیں خان صاحب، بھائی جان ہی ہیں۔‘‘ محمود بولا۔ چاند خان نے ہم دونوں کو بازوئوں کے حلقے میں لے لیا اور اندر داخل ہوگئے۔
’’شیروں کی جوڑی ہے پنجرے میں کیسے رہ سکتی تھی۔‘‘ وہ بولے۔ اندر ایک سجے ہوئے کمرے میں ہم دونوں کو بٹھایا گیا اور چاند خان نے باہر رُخ کر کے کہا۔
’’چلو شہزادوں کے کھانے پینے کے لیے کچھ لے آئو۔‘‘ پھر میری طرف متوجہ ہو کر بولے۔
’’ایک بات کہوں محمود یقین کر لینا میری بات پر، مجھے تمہاری واپسی کا یقین تھا۔ انتظار کر رہا تھا۔ کئی کام تھے آنے جانے کے مگر تین مہینے کے لیے سارے کام ملتوی کر دیے تھے سوچا تھا بس تم پرکام کروں گا۔ مگر یہ خیال بھی تھا کہ شاید مجھے ہاتھ ہلانے کی ضرورت نہ پڑے۔‘‘
’’وہ کیسے خان صاحب۔‘‘
’’بھئی تمہارے خالو نے غداری کی، پولیس سے مل کر تمہیں پکڑوا دیا، میرے آدمی نے مجھے اطلاع دی۔ کوئی طوفانی قدم تو اُٹھا نہیں سکتا تھا بس تیاریاں جاری رکھیں، بات جب آخری حد میں آ جاتی اور کوئی ذریعہ نہ رہتا تو کچھ کرتے۔ خبر مل گئی کہ تم جیل سے بھاگ گئے۔‘‘
’’کیسے خان صاحب۔‘‘ محمود بولا۔
’’تمہارا کیا خیال تھا تم پکڑے گئے اور ہم چپ ہو کر بیٹھ گئے، دیکھو چندا تم حیات پور لے جائے گئے۔ تھانے میں رہے پھر چار پیشیاں ہوئیں تمہاری۔ اس کے بعد نئی آبادی جیل میں گئے، وہاں سترہ دن رہے، اس کے بعد دُوسری جیل گئے اور منگل کی رات کو وہاں سے نکل گئے۔ ایک سنتری مار دیا تم نے اور ایک زخمی کر دیا!…‘‘ چاند خان نے کہا۔ نہ صرف میری بلکہ محمود کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’آپ کو سب معلوم ہے خان صاحب!‘‘
’’معلوم رکھنا تھا بیٹے۔ ورنہ تم خطرے میں نہ پڑ جاتے موقع کی تاک میں تھے بس۔ مگر مسعود میاں کی خبر نہ تھی۔‘‘
’’یہ اطلاعات آپ کو کہاں سے ملتی رہیں خان صاحب۔‘‘
’’میاں ہر جگہ آدمی رکھنے پڑتے ہیں اپنے۔‘‘ چاند خان بولے اتنی دیر میں چائے کے ساتھ کھانے پینے کی بہت سی چیزیں آ گئیں اور ہم نے بھی تکلف نہیں کیا مصروف ہوگئے۔ چاند خان مخلص تھے میں نے سب سے پہلا سوال ان سے یہی کیا۔
’’آپ نے اسے باہر بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا خان صاحب۔‘‘
’’ہاں اور لیگون ہارڈو آیا ہوا ہے، نو تاریخ کو واپس جا رہا ہے۔‘‘
’’لیگون ہارڈو؟‘‘
’’جہاز کا نام ہے۔ یونانی کمپنی کا ہے۔ کپتان ہمارا دوست ہے۔‘‘
’’کیا محمود کو یہاں سے نکالاجا سکتا ہے؟‘‘
’’اُمید تو ہے۔‘‘
’’تو خان صاحب یہ کام کر دیجیے۔ یہ ہمارے خاندان پر احسان ہوگا، مجھ پر احسان ہوگا۔‘‘ میں نے عاجزی سے کہا۔ خان صاحب کچھ سوچتے رہے، پھر
بولے۔
’’تمہارے لیے بھی بات کروں مسعود میاں۔‘‘
’’نہیں خان صاحب، بس آپ اسے نکال دیں۔ یہی کافی ہے۔‘‘
’’دیکھو میاں۔ اس وقت موقع اچھا ہے ذرا اُوپر نیچے کر لیں گے ہم اپنے دوست کو۔ باقی کام بعد میں دیکھے جائیں گے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ تم اپنے ماں باپ کی وجہ سے یہاں سے نہیں جانا چاہتے ہو، یہ ذمہ داری ہمیں سونپ دو، ہم ان کا خیال رکھیں گے، وعدہ کرتے ہیں تم سے۔‘‘
’’اس بے لوث محبت کا ہم کوئی جواب نہیں دے سکیں گے خان صاحب۔ ہاں دُعائیں ضرور دیں گے آپ کو، ابھی صرف محمود کو یہاں سے نکال دیں، میں یہ ملک نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘میں نے ممنونیت سے کہا اور خان صاحب کچھ سوچنے لگے۔ پھر بولے۔
’’خود ملنا پڑے گا کپتان سے کیونکہ وقت کم رہ گیا ہے۔ کیوں بھئی محمود تیار ہو؟‘‘
’’ہاں خان صاحب، بھائی جان کا یہی کہنا ہے۔‘‘
کل صبح نکل چلیں گے۔ تیار رہنا، اللہ بڑا کارساز ہے، اُمید تو ہے کہ کام ہو جائے گا مگر مسعود میاں یہاں رُکنا، بھاگ مت جانا یہاں سے۔‘‘
’’جو حکم خان صاحب۔‘‘ میں نے گردن جھکا کر کہا۔
’’اب ہم زیادہ نہیں بیٹھیں گے تمہارے پاس۔ کام فوراً شروع کر دینا ہے، تم دونوں بھائی آرام کرو۔‘‘ خان صاحب اُٹھ گئے۔ ہم دونوں وہیں رہ گئے تھے۔ میں نے کہا۔
’’کونسی دُعا دوں خان صاحب کو محمود، اگر یہ کام ہو جائے تو عرصہ دراز کے بعد مجھے ایک خوشی نصیب ہوگی۔‘‘
’’مگر آپ کو تنہا چھوڑ کر مجھے خوشی نہ ہوگی بھائی جان۔‘‘ محمود بولا اور میں نے اسے لپٹا لیا۔
’’مجبوری ہے محمود بیٹے۔ مجبوری ہے مگر وقت کے فیصلوں کا انتظار کرنا ہوگا، ہو سکتا ہے ہماری دُنیا پھر سے آباد ہو جائے، ہو سکتا ہے میں اگر آزاد رہا تو چاند خان سے رابطہ قائم کرتا رہوں گا۔ تم جہاں کہیں بھی ہو کسی فرضی نام سے یہاں اپنی خیریت بھیجتے رہنا۔ میں بھی چاند خان سے تمہارے بارے میں پوچھ لیا کروں گا اور یہیں سے تمہیں حالات معلوم ہوتے رہیں گے۔‘‘
دُوسرے دن صبح صبح میں نے محمود اور چاند خان کو رُخصت کر دیا اور محمود کے لیے دُعائیں کرتا رہا۔ یہاں مجھے بڑی عزت دی گئی، ہر شخص میرا خیال رکھتا تھا۔ چاندخان کو گئے ہوئے کئی دن ہو چکے تھے، میں انتظار کرتا رہا، دس تاریخ کو وہ واپس پہنچے، تنہا تھے اور خوش نظر آ رہے تھے۔ میرا چہرہ بھی خوشی سے کھل گیا، چاند خان نے کہا۔
’’جہاز کو سمندر میں دھکیل کر ہی واپس آیا ہوں۔ مبارک ہو محمود نکل گیا۔‘‘ میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے تھے۔ محمود کی زندگی بھی موت سے ہم آغوش ہونے جا رہی تھی اور اگر ایسا ہو جاتا تو میں یہی محسوس کرتا کہ میں اس کا قاتل ہوں۔ لیکن خدا کا احسان ہوا تھا مجھ پر۔ میرے بھائی کی زندگی بچ گئی تھی۔ چاند خان نے مجھ سے کہا۔ ’’اور اب مسعود میاں! ذرا تم سے تفصیل سے باتیں ہوں گی۔ محمود سے مجھے جو حالات معلوم ہوئے ان سے میری تسلی نہیں ہو پائی تھی، مگر چونکہ بچہ مصیبت کا شکار ہوگیا تھا اور مجھے اس کی زندگی کا خطرہ تھا، اس لیے مجھ سے جو کچھ بن پڑا کرتا رہا۔ اب ذرا تم سے اطمینان سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔ تم یہ بتائو کوئی ایسی مصروفیت تو نہیں تمہاری جو میری وجہ سے رُک جائے۔‘‘
’’نہیں خان صاحب، میری مصروفیت ہی کیاہے، محمود سے مل کر ماں باپ کے بارے میں کچھ اطلاعات ملی تھیں، چھوٹی بہن بھی ہے میری۔ ماموں بھی ہیں، جو بھائیوں کی طرح ہیں مگر اب وہ سب نجانے کہاں گم ہوگئے ہیں؟‘‘
’’ویسے تمہارے خالو میاں نے بڑی زیادتی کی۔ ذرا بھی رشتے داری نہیں نبھائی۔ مانتا ہوں کہ حالات خراب تھے مگر رشتے دار ہی تو کام آتے ہیں، کسی سے کیا شکایت، جو کچھ ان سے بن پڑا، وہ انہوں نے کر ڈالا۔‘‘
’’ہاں خان صاحب، بس ہم گردش کا شکار تھے۔ بلکہ ہیں اور جب گردش کا شکار ہوتے ہیں یا مصیبت آتی ہے انسان پر تو لوگ کہتے ہیں کہ سایہ بھی جدا ہو جاتا ہے مگر آپ کے پاس آ کر اس حقیقت کو جھٹلانا پڑتا ہے۔‘‘
’’دیکھو میاں ہم اپنی تعریفیں نہیں سننا چاہتے گناہ گار بندے ہیں، برے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، اگر ایک آدھ کام غلطی سے اچھا ہو جائے تو تم کیا سمجھتے ہو، ہمیں خوشی نہیں ہوتی اس کی۔ مگر تمہارا کیا معاملہ تھا، یہ بتائو۔‘‘
’’بتا دوں گا خان صاحب، اطمینان سے بتا دوں گا آپ بھی تھکے ہوئے آئے ہیں آرام کر لیجیے۔‘‘
’’ہاں ہاں ٹھیک ہے، ذرا تم سے لمبی نشست رہے گی، ساری تفصیل پوچھیں گے اور بالکل پروا مت کرو، اکیلے نہیں ہو تم، ہم تمہارا پورا پورا ساتھ دیں گے۔‘‘
یہ الفاظ بڑی اہمیت رکھتے تھے، حالانکہ دل کے گوشوں میں چور تھا، کم بخت لعنتی بھوریا چرن مکمل طور سے غائب تھا لیکن جو کچھ اس نے کہا تھا وہ بھی ایک حقیقت تھی۔ میرا تعلق جس سے بھی قائم ہوتا، اس پر مصیبت نازل ہو جاتی تھی۔ چاند خان بے شک دُوسری لائن کے آدمی تھے، لیکن یہ بات میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر یہاں زیادہ وقت رُک گیا تو چاند خان بھی مصیبت کا شکار ہو جائیں گے۔ عارضی طور پر بے شک ان کے ساتھ رہا جا سکتا ہے، مستقل نہیں۔ بہرحال اسی رات چاندخان میرے پاس آ گئے، ساتھ ساتھ ہی بستر لگوا دیے تھے انہوں نے… اور تمام ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد حقہ لے کر میرے سامنے بیٹھ گئے اور بولے۔
’’ہاں مسعود میاں مجھے تمہاری داستان سننے سے بڑی دلچسپی ہے۔‘‘
’’خان صاحب کچھ غلطیاں میری اپنی ہیں اور کچھ مصیبتیں نازل ہوئی ہیں مجھ پر۔ میں نے خان صاحب کو ابتدا سے حالات بتانا شروع کر دیے۔ وہ حیرت و دلچسپی سے میری کہانی سن رہے تھے۔ یہ کہانی سناتے ہوئے میرا دل لرز رہا تھا۔ مجھے وہ لمحات یاد آ رہے تھے جب میں نے حکیم سعداللہ صاحب کو یہ کہانی سنائی تھی اور اس کے بعد سعداللہ زندہ نہیں رہے تھے۔ بھوریا چرن کو یہ بات سخت ناپسندتھی کہ اس کی کہانی کسی کو سنائی جائے، مگر اس وقت، اس وقت میں نے شروع سے لے کر آخر تک ساری داستان چاند خان کو سنا دی۔ ان کے چہرے پر سخت حیرت کے آثار تھے، میں خاموش ہوا تو وہ بھی بہت بہت دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔ انہوں نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا رکھا تھا۔‘‘ پھر وہ گہری سانس لے کر بولے۔
’’بڑی دردناک کہانی ہے۔ بڑی بات ہے کہ تم نے اپنا ایمان قائم رکھا، میں خود بہت بُرا انسان ہوں، پوری عمر ہیرا پھیری میں گزاری ہے میں نے۔ مگر اتنی ہمت سے میں بھی کام نہ لے پایا۔ تم نے ایک پاک بزرگ کے مزار پر ایک ناپاک وجود کو نہ پہنچا کر جو نیکی کی ہے میرا ایمان ہے کہ اس کے صلے سے محروم نہ رہو گے، یہ کالے جادو والے ایسے ٹونے ٹوٹکے کرتے رہتے ہیں اور اس طرح فائدے حاصل کرتے ہیں، اس سے اس ملعون کو کوئی بڑا ہی فائدہ حاصل ہوگا ورنہ وہ اس طرح تمہارے پیچھے نہ پڑتا۔ ویسے نہ تو تمہیں کسی نے مشورہ دیا ہوگا نہ ہی تمہیں اس کا موقع ملا ہوگا کہ اس سلسلے میں کچھ کرتے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کالے جادو کا توڑ بھی تو ہوتا ہے۔‘‘
’’مجھے ایسا کوئی موقع ہی نہیں ملا خان صاحب۔ نہ ہی میں نے اپنی یہ کہانی کسی کو سنائی۔ وہ منحوس سادھو یہ نہیں چاہتا کہ کسی کو اس کی کہانی معلوم ہو۔ خدا آپ کو محفوظ رکھے خان صاحب۔‘‘
’’میرا ایمان ہے کہ مجھے کچھ نہ ہوگا یہی تمہیں بتانا چاہتا تھا۔ یہ دیکھو۔‘‘ چاندخان صاحب نے اپنا سینہ کھول کر میرے سامنے کر دیا۔ ان کی گردن میں چاندی کی موٹی زنجیر میں چاندی کا ایک تعویذ نظر آ رہا تھا، سارے جادو اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتے ہیں، ساری دُنیا کے جادو اس تعویذ کے سامنے بے اَثر ہیں۔ بہت پرانی بات ہے مجھ پر بھی میرے دشمنوں نے جادو کر دیا تھا۔ کوڑھی ہوگیا تھا میں۔ سڑکوں پر گھسٹتا پھرتا تھا، پاگل ہو چکا تھا، لوگ مجھ سے گھن کھانے لگے تھے۔ پھر ایک مرد حق کی نگاہ ہوگئی مجھ پر۔ علیم الدین خان تھا ان کا نام، رتولی نامی جگہ ہے، وہاں ایک پرانی مسجد ہے جس میں ایک نامعلوم بزرگ کا مزار ہے، وہ مجھے اس مزار پرلے گئے ایک مہینے تک مزار پر پڑا رہا، تب ایک صبح فجر کے وقت قبر کے کتبے پر ایک تعویذ رکھا ملا، علیم الدین خان صاحب میرے ساتھ تھے، خوش ہو کر بولے۔ ’’لو میاں چاند خان دلدر دُور ہوگئے تمہارے۔ مشکل حل ہوگئی، یہ تعویذ گلے میں ڈال لو۔‘‘
’’کوڑھ ٹھیک ہوا، دماغ درست ہوا اور اب مالک کا کرم ہے مگر میں یہ تعویذ کسی کو دے نہیں سکتا۔ حکم نہیں ہے تمہارے لیے یہ بیکار ہے، ورنہ دل چاہتا ہے کہ تمہاری ہر مشکل حل کر دوں۔ مگر فکر مت کرو، میں تمہیں رتولی لے جائوں گا، علیم الدین خان صاحب کی خدمت میں بھی بہت عرصہ سے حاضری نہیں دی، ان سے ملاقات ہو جائے گی۔ اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’کیا خان صاحب۔ یہ میری ساری مشکلات کا حل ہوگا!‘‘ میں نے کہا۔
’’فکر مت کرو! یہ کام ضرور ہوگا۔‘‘ چاند خان نے کہا۔ میرے دل میں ایک نئی روشنی پیدا ہوگئی تھی۔ چاند خان کے ساتھ دیر تک بات چیت کرتا رہا، مجھے خود بھی یقین آ گیا کہ چاند خان کیوں محفوظ رہے۔ منحوس بھوریا چرن اس تعویذ کی وجہ سے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تھا۔ خاصی رات گئے خان صاحب مجھے آرام کرنے کی ہدایت کر کے چلے گئے۔ میں بے حد خوش تھا کہ نہ جانے کیا کیا خیالات میرے ذہن میں آ رہے تھے۔ میری نگاہیں چھت پر جمی ہوئی تھیں، پھر اچانک میں نے چھت پر کچھ دیکھا، سفید چونے سے پُتی ہوئی چھت پر سیاہ دھبے رینگ رہے تھے، ان کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ متحرک تھے، میں چونک پڑا، سیاہ دھبے اتنے ہو گئے کہ پوری چھت ان میں چھپ گئی اور پھر اور پھر وہ نیچے اُترنے لگے۔ وہ … وہ مکڑیاں تھیں۔ مکروہ شکل کی منحوس مکڑیاں۔ جو لاکھوں کی تعداد میں تھیں اپنے جسم کے لیس دار مادّے سے تار بناتی ہوئی وہ سب نیچے اُتر رہی تھیں۔ ان کا نشانہ میں ہی تھا۔
میرے دل کی دھڑکن اچانک بڑھ گئی۔ مجھ پر ایسے ایسے مشکل وقت آئے تھے کہ اب کوئی مشکل مشکل نہیںلگتی تھی بلکہ ہر لمحے کسی نئے حادثے کا منتظر رہتا تھا۔ حادثہ نہ ہوتا تو سوچتا تھا کہ اب کوئی زیادہ بڑا حادثہ ہوگا۔اعصاب میں پختگی بھی پیدا ہوگئی تھی اور خوف ذرا کم ہوگیا تھا لیکن انسان تو تھا۔ میری ساخت میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ خوف کے احساس کو ختم تو نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے چاند خان کو بھوریا چرن کی کہانی سناتو دی تھی لیکن دل اس احساس سے دھڑکتا رہتا تھا کہ کہیں وہ کسی مشکل کا شکار نہ ہوجائے۔ بلکہ مجھے حیرت تھی کہ اب تک ایسا کیوں نہیں ہوا تھا۔ ہاں چاند خان نے مجھے وہ متبرک تعویذ دکھایا تھا اور میرے دل میں عقیدت پیدا ہوگئی تھی۔آرزو بھی بیدار ہوگئی تھی کہ کاش اس مزار پر مجھے بھی زندگی کی نوید مل جائے… مگر… یہ مکڑیاں شاید بھوریاچرن نے مجھے کوئی نئی سزا دینے کے لیے انہیں بھیجا تھا۔
میں دہشت بھری نظروں سے انہیں دیکھتا رہا، جوں جوں وہ نیچے آرہی تھی میرے دل و دماغ میں وحشت اترتی آرہی تھی۔ میں ان ننھی ننھی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔ سرخ چمکتی ہوئی آنکھیں جو بھوریا چرن کی آنکھیں تھیں۔ان آنکھوں میں نفرت تھی، غصہ تھا، وہ لاکھوں آنکھوں سے مجھے گھور رہا تھا۔
مکڑیوں نے چھت سے رابطہ ختم کردیا، وہ کود کود کر زمین پر آگئیں، کیفیت یہ تھی کہ کمرے کی پوری زمین ان کے منحوس جسموں سے ڈھک گئی تھی۔ تل دھرنے کو جگہ باقی نہیں رہی تھی۔ یہی نہیں وہ دیواروں پر چڑھ گئی تھیں، کھڑکیوں اور دروازوں پر چڑھ گئی تھیں، پردوں پر نظر آرہی تھیں۔ ان کے ننھے ننھے منہ کھل رہے تھے بند ہورہے تھے۔ پردوں میں سوراخ ہونے لگے۔ دروازے کی لکڑیاں برادے کی شکل میں بکھرنے لگیں۔ آہ وہ ہر شے کو کھارہی تھیں۔ ہر چیز چاٹ رہی تھیں اور میں انہیں دیکھ رہا تھا۔ میری آواز بند ہوگئی تھی۔ میرا بدن ساکت تھا۔ ایک بار جی میں آئی کہ انہیں ماروں۔ بدن کو جنبش دی… لیکن جسم مجھ سے باغی ہوگیا۔ اپنے اعضاء پر میرا قابو نہ رہا۔ مجھے بس سانس لینے کی اجازت تھی، سوچنے کی اجازت تھی، میں بدن نہیں ہلاسکتا تھا۔ تعویذ سے چاند خان تو بھوریا چرن سے محفوظ تھا لیکن اس شیطان سادھو کو مجھ پر مکمل اختیار تھا۔ وہ چاہتا تو یہ مکڑیاں دیگر چیزوںکو چھوڑ کر مجھ پر پل پڑتیں۔ مجھے چاٹ جاتیں، میرے بدن میں سوراخ کرکے اندر داخل ہوجاتیں۔ میں انہیںنہیں روک سکتا تھا۔ بھوریا چرن یہ کام کسی بھی وقت کسی بھی شکل میں کرسکتا تھا مگر اسے میری ضرورت تھی۔ وہ مجھے کوئی جسمانی نقصان نہیں پہنچنے دیتا تھا۔ منظر بے حد بھیانک ہوچکا تھا۔ خونی مکڑیاں دروازے، کھڑکیوں کے فریم کھا چکی تھیں، پردے چٹ کرچکی تھیں۔ ڈیکوریشن کے لیے جو کچھ رکھا تھا وہ کھاچکی تھیں، دیواروں کا رنگ نگل چکی تھیں۔ یہ کام انہوں نے چند منٹ میں کر ڈالا تھا اور مجھے اپنی مسہری نیچے ڈھلکتی محسوس ہورہی تھی۔ آہ وہ اسے کھارہی تھیں، یہاں تک کہ میں فرش نشین ہوگیا۔ میرے پلنگ کا بستر، گدا، تکیہ سب ان منحوس مکڑیوں کے پیٹوں میں جاچکا تھا اور اب وہ میرے بدن پر رینگ رہی تھیں۔ مجھے ان کی سرسراہٹیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ وہ میرے پورے جسم پر چھا گئی تھیں۔ میری ناک، میرے منہ، میری پلکوں سے گزر رہی تھیں۔ آہ میں چیخ نہیں سکتا تھا، میں انہیںخود پر سے جھٹک نہیں سکتا تھا۔ میں بے بس تھا، مفلوج تھا۔ دہشت سے میرا وجود اینٹھ رہا تھا۔ مگر میں کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ دماغی قوتیں اس سے زیادہ ساتھ کیا دے سکتی ہیں۔ میں پے در پے پیش آنے والے ناقابل یقین واقعات سے دوچار ہوکر کتنا ہی پختہ کیوں نہ ہوگیا تھا لیکن یہ دہشت ناک منظر میرے حواس چھیننے میں کامیاب ہوگیا اور بالآخر خوف کی انتہا نے مجھے اس کربناک ہوش سے نجات دلادی۔ بے ہوشی ہوش سے بدرجہا بہتر تھی۔ پھر نہ جانے کب سماعت نے ذہن کے پردوں پر دستک دی۔ ہوش واپس آنے لگے۔ پلکوں کے پپوٹوں نے روشنی کا احساس دلادیا۔ آوازیں الفاظ بن کر سمجھ میں آنے لگیں۔
’’ہوش آنے ہی والا ہے‘‘ یہ اجنبی آواز تھی۔
’’بہت بہت شکریہ حکیم صاحب۔‘‘
’’نسخہ مطب سے منگوالینا۔ ترکیب استعمال لکھی ہوگی۔‘‘
’’بہت بہتر…‘‘ دوسری آواز چاند خان کے علاوہ کسی کی نہیں تھی۔ جی چاہا کہ آنکھیں کھولوں لیکن ایک نشے کی سی کیفیت تھی۔ آنکھیں بند رکھنے میں زیادہ لطف آرہا تھا۔ مگر بات سمجھ میں آرہی تھی۔ صبح ہوچکی تھی اور میری کیفیت کا حال دوسروں کو معلوم ہوچکا تھا۔ چاند خان شاید حکیم صاحب کو باہر چھوڑنے گئے تھے۔ یہ شخص بہت اچھا انسان ہے۔ اس دور میں بے لوث اتنی مدد کون کرتا ہے۔ حالانکہ مجھے کچھ اچھے لوگ ملے تھے۔ ریحانہ بیگم اور سرفراز نے مقدور بھر میرے لیے کیا تھا۔ وہ بیچارے اس سے زیادہ کیا کرسکتے تھے۔ پھر بھی ان کا کیا بہت کچھ تھا مگر ان کے اس کرنے کا جواز تھا۔ وہ میری شرافت سے متاثر ہوئے تھے جس کے تحت ان کا گھرانہ ایک المیے سے بچ گیا تھا۔ مگر یہ بھی ان کی نیک دلی تھی۔ ورنہ اس دور میں لوگ کسی کا احسان بھی کہاں یاد رکھتے ہیں۔ وقتی اعتراف اور اس کے بعد اجتناب، کون کسی کے جنجال میں پھنسے۔ چاند خان واپس آگئے۔ رات کے بھیانک واقعات یاد آگئے تھے۔ پتا نہیں دوسرے لوگوں کو اس بارے میں کیا معلوم ہے، اسی دوران چاند خان کی آواز سنائی دی۔
’’چندا…آنکھیں کھولو‘‘ مسعود میاں۔ ’’اور میں نے آنکھیں کھول دیں۔ ’’کیسی طبیعت ہے اب؟‘‘
’’ٹھیک ہوں خان صاحب۔‘‘
’’چائے منگوالوں تمہارے لیے؟‘‘
’’منگوالیجئے۔‘‘ میں نے کہا اور چاند خان خود ہی اٹھ کر باہر دوڑ گئے۔ خلوص کا وہی عالم نظر آرہا تھا۔ پتہ نہیں رات کے واقعات ان لوگوںکے سامنے کس شکل میں آئے۔ چاند خان پھر میرے سامنے آبیٹھے۔ میں بھی اٹھ کر بیٹھ گیا، میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
’’میرے کمرے کا کیا حال ہے خان صاحب؟‘‘
’’اماں کیا ٹڈی دل گھس آیا تھا کمرے میں؟ کیا ہوا تھا؟‘‘
بچپن میں ایک بار ٹڈی دل دیکھا تھا۔ درخت ننگے کردیے تھے۔ گھاس، پھونس اور پودوں میں ڈنڈیاں رہ گئی تھیں۔ مگر یہ تو ٹڈی دل سے بھی بکٹ کوئی چیز تھی۔ اللہ نے تمہیں بچادیا۔ دروازے کھڑکیاں دیواروں کا چونا ہر چیز… سب کی عقل کھوپڑی سے باہر ہوگئی ہے، کسی کی سمجھ میں کچھ نہیںآرہا۔ ‘‘
’’آہ…گویا وہ صرف میرا خواب نہیں تھا؟‘‘میں نے گہری سانس لیکر کہا۔
’’فضل خان صبح پانچ بجے اٹھنے کے عادی ہیں، پورے گھر کا چکر لگانے کی عادت ہے۔ پڑھ کر پھونکتے ہیں، تمہارے کمرے کے سامنے سے گزرے تو دروازہ ہی غائب دیکھا۔ ناچ کر رہ گئے، اندر گھسے تو واپس نکل بھاگے اور پھر سب کو جگا دیا، تمہارا کمرہ ایسے لگ رہا ہے جیسے کوئی دو سو سال پرانا کھنڈر۔ تمہیں بیہوشی میں اٹھاکر لایا گیا تھا۔ وہ کونسی چیز تھی جس نے یہ کیا۔‘‘
’’کچھ نشان ملے خان صاحب۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’وہ مکڑیاںتھیں۔‘‘ میں نے آنکھیں بند کرکے کہا۔
’’مکڑیاں…؟‘‘خان صاحب حیرت سے بولے۔
’’لاکھوں مکڑیاںجو چھت پر نمودار ہوئی تھیں اور پھر وہ نیچے اترکر ہر چیز کھانے لگیں۔ بس انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔‘‘
’’باہر کیوں نہ بھاگ آئے چندا۔‘‘
’’میں مفلوج ہوگیا تھا۔ آواز تک بند ہوگئی تھی۔‘‘
’’ہوں…‘‘ خان صاحب نے گہری سانس لی۔ چائے آگئی پورا ناشتہ تھا۔خان صاحب بولے۔ ڈٹ کر ناشتہ کرو حکیم صاحب نے کسی چیز کا پرہیز نہیں بتایا۔ اس کے بعد دوا کھانی ہوگی۔‘‘
’’آپ جانتے ہیں خان صاحب مجھے دوا کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ میں نے افسردہ لہجے میں کہا۔
’’چلو چلو ناشتہ کرو! ارے لو بھئی کیا تکلف ہے۔‘‘
’’جی خان صاحب…‘‘ میں نے کہا اور ناشتہ کرنے لگا۔
خان صاحب خود بھی میرے ساتھ مصروف ہوگئے تھے۔ میں نے کہا۔
’’کچھ کہنا چاہتا ہوں خان صاحب!‘‘
’’ہاں کہو۔‘‘
’’میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کہاں…؟‘‘
’’کہیں بھی خان صاحب ، جہاں خدا نے میرا ٹھکانہ بنایا ہوگا۔ آپ نے جو کچھ میرے لیے اور میرے بھائی کے لیے کیا ہے اس کا صلہ میں مرکر بھی نہیں دے سکتا مگر میں اپنے محسن کی زندگی، صحت اور خیریت کا خواہاں ہوں۔ میں نے بتایا تھا کہ حکیم سعداللہ صرف اس لیے شکار ہوئے کہ…‘‘
سمجھ گیا، سمجھ گیا کیا کہنا چاہتے ہو۔ دو باتیں ہیں میاں خان، پہلی بات تو یہ ہے کہ چاند خان برا دھندہ کرتے ہیں مگر لوگوںکا کہنا ہے کہ ہماری نسل بری نہیں تھی۔ رگوں میں کسی چمار کا خون نہیں ہے۔ باپ دادا آن بان پر مٹتے رہے ہیں۔ کچھ تو سرخی ہمارے خون میں بھی ہوگی۔ وہ منحوس اگر اتنا ہی دلاور تھا تو مکڑیاں ہمیں کھا جاتیں، ہم بھی تو دیکھتے۔ اس سے یہ پتا تو چل گیا کہ وہ ہمیں مالی نقصان پہنچا سکتا ہے جانی نہیں اور اس کی ہمیں پروا نہیں۔ ہم نے کونسا محنت سے کمایا ہے۔ دوسری بات یہ ہے چندا کہ ہمیں تمہارا نہیں ان ماں باپ کا خیال ہے جو لٹ گئے ہیں ویران ہوگئے ہیں۔ راج دلارے انسان بڑاکمینہ ہے۔ اسے جو کچھ مل جاتا ہے اسے وہ اپنی عقل کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ حالانکہ دینے والا جانتا ہے کہ وہ کسے کیا اور کیوں دے رہا ہے۔ ہم نے تمہیں رتولی لے جانے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ ہمارے لیے بھی ضروری ہے کیونکہ ہمارے ذریعے کسی کی بہتری ہونے والی ہے اگر ہم نے اس سے منہ موڑا تو ہمارا کیا بنے گا، یہ اللہ جانے۔ جو ہوا بھول جائو۔ ہم تو یہ تعویذ تمہارے گلے میں ڈال دیتے مگر منادی ہے اس لیے مجبور ہیں۔‘‘
’’خان صاحب میں۔‘‘
’’جو بات تھی تمہیں بتادی دلارے۔ ہماری حیثیت گھٹانا چاہو تو دوسری بات ہے۔‘‘
’’نہیں خان صاحب ۔ خدا نہ کرے۔‘‘
’’اور ہاں سنو، اب زیادہ انتظار نہیں کریں گے۔ پرسوں اٹھارہ ہے بس پرسوں نکل چلیں گے۔ میں خاموش ہوگیا۔