بچپن میں والدین کی دی ہوئی تعلیم زندگی بھر کے لئے مشعلِ راہ بنی رہتی ہے۔ رضیہ اسماعیل کے والدین نے بھی انھیں بچپن میں حوصلہ مندرہنے اور سچ بولنے کی تعلیم دی تھی۔ رضیہ اسماعیل نے اس پر ہمیشہ عمل کیا۔ گو بقول رضیہ ، اس خوبی نے انھیں بہت دکھ دیئے مگر انھوں نے ریا کاری اور منافقت سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ جو سچ جانا ،ا سے ببانگِ دُہل کہا اور یہی رویہ اس نے اپنی شاعری میں بھی اپنایا۔ مثلاً
جوان چہرے لٹے لٹے سے ، نظر کی شمعیں بجھی بجھی سی
نشے سے اجڑی جوانیوں کو میں کیسے عہدِ شباب لکھوں
رضیہ اسماعیل کے ذہن پر بچپن کے تاثرات بہت گہرے ہیں۔ گاؤں کی کھلی فضا ، لہلہاتے کھیت ، بہتی ندیاں ، تاروں بھری راتوں کی مسحور کن فضا میںبالخصوص تہجد کے وقت ان کے والد کے ’’اللہ ہُو‘‘ کے دل کش وِرد نے رضیہ کو بہت متاثر کیا ۔ کم سن لڑکی رضیہ کے ذہن میں اس کے اطراف و نواح کے ماحول سے جنم پانے والے سوالات نے اس میں غور و فکر کی عادت ڈال دی ۔لیکن ان کا جواب اسے بہت بعد میں ملا۔
رضیہ اسماعیل نے صنفِ شاعری میں غزل کے ساتھ نظم(آزاد ، پابند اور نثری) کے علاوہ ماہیے اور دوہے بھی لکھے ہیں۔’’ گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو‘‘ان کی پہلی شعری کاوش تھی جس کے بعد ۲۰۰۱ء میں ان کی تین کتابیںنظموں کا مجموعہ ’’سب آنکھیں میری آنکھیں ہیں‘‘ ، ماہیوں کا مجموعہ ’’پیپل کی چھاؤں میں‘‘ اور نثری نظموں کا مجموعہ انگریزی تراجم کے ساتھ’’میں عورت ہوں ‘‘ شائع ہوا۔ رضیہ نے نثر میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ افسانے لکھے، اردوا ور انگریزی میں مختصر دورانیے کے سٹیج ڈرامے لکھے۔ کالم نویسی اور رپورتاژ بھی کی۔ مگر طبیعت کی روانی انشاپردازی اور ہلکے پھلکے طنز و مزاح کی طرف مائل رہی۔چناں چہ ۲۰۰۰ء میں ’’چاند میں چڑیلیں‘‘ کے عنوان سے ان کے مضامین کا مجموعہ شائع ہوا۔
نثری نظم کے بارے ان کا کہنا ہے کہ شاعری میں ہر قسم کے تجربے ہونے چاہیے۔ کیوں کہ انسانی طبیعت یکسانیت سے اکتا جاتی ہے ۔ نثری نظم کو ابھی تک اُردو ادب میں دل سے تسلیم نہیں کیا گیا۔ اور اسے اپنی جگہ بنانے میں خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مگر انگریزی اور مغربی ادب میں یہ تجربہ نیا نہیں ہے بلکہ وہاں یہ ایک پختہ صنف کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ بلکہ اس کے بارے میں تو جارج ایلیٹ نے کہا تھا کہ ’’شاعری کی معراج نثری نظم ہے‘‘
رضیہ کے نزدیک کبھی غزل ، نظم کے مقابلے میں احساسات کی ترجمانی کر دیتی ہے اور کبھی نظم، غزل کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے ۔ یہ سب لکھنے والے کے مزاج کی بات ہے۔ ویسے ذاتی طور پر رضیہ کی طبیعت غزل کی نسبت نظم سے زیادہ قریب ہے ۔ کیوں کہ غزل کی ریزہ خیالی کی نسبت ان کی ذہنی ہیئت تسلسل ، تنظیم اور مربوط ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لئے رضیہ نے نظمیں زیادہ لکھی ہیں۔
اُردو شاعری میں وہ پروین شاکر کی شاعری کو نسائی شاعری کا سنگِ میل قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے اکثر مرد حضرات سے سنا ہے کہ پروین شاکر کی شاعری نے جینڈر بیرئیرز (Gender Barriers ) یعنی تذکیر و تانیث کی حد بندی توڑ دی ہے۔ میرے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ پروین نے حد بندیاں توڑی نہیں ہیں بلکہ انھیں اور مضبوط کیا ہے۔ اس نے صرف اور صرف ایک عورت بن کر عورت کے داخلی جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ہے۔پروین کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ خیال بہت شدت سے دامن گیر رہتا ہے کہ یہ ایک عورت کی شاعری ہے۔ان کے خیال میں پروین کے بعد بھی بہت سی شاعرات نسائی احیائی ادب لکھ رہی ہیں۔مگر جس طرح نثر میں عصمت چغتائی نے عورتوں کو بات کہنے کا حوصلہ دیا ہے ، اسی طرح پروین نے نسائی جذبات و احساسات کو بیان کرنے کا قرینہ سکھایا ہے۔ رضیہ کے خیال میں وہ لغت جو عورت کے جذبات و احساسات کی ہر رنگ میں ترجمانی کرے ، جہاں وہ کبھی عاشق اور کبھی معشوق ، کبھی عورت اور کبھی مرد بن کر سوچے ، وہ زبان ابھی ہم نے ایجاد نہیں کی۔جب تک ہم نسائی تصور کو سمجھنے کے لئے اس سطح تک نہیں پہنچ پاتے جو عورت کے انر ورلڈ ( Inner World) یعنی باطنی نفس کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے ۔ ہمیں عورتوں کی تحریروں کو کھلے دل و ذہن سے سننا اور سمجھنا چاہیے۔
ان کے پہلے مجموعۂ کلام ’’گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو‘‘ کا دیباچہ عدیم ہاشمی نے لکھا تھا۔ انھوں نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ :
’’رضیہ ایک اوریجنل (Original)اور جینوئن( Genuine) شاعرہ ہے ۔ اور وہ یقینی طور پر غیر ملکی حیثیت اور خاتون شاعرہ ہونے کے Barriers اگر کراس نہیں کر چکی تو انھیں کراس کرنے کی مکمل صلاحیت ضرور رکھتی ہے۔بلکہ اس سلسلے میں بیرونِ ملک بسنے والی تمام خواتین کو (سوائے افتخار نسیم کے) رضیہ اسماعیل سے باقاعدہ خائف رہنا چاہیے کہ وہ کسی وقت بھی سب کو پیچھے چھوڑ چھاڑ کے ادب کے کسی بھی قابلِ رشک مقام و مرتبہ پر فائز ہو سکتی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...