چھے دن ہوچکے تھے․․․کیف نے اس سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں فرش پر بیٹھی آنسو بہانے میں مصرو ف تھی․․․․․اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی زندگی میں وہ اس قدر روتلو بن جائے گی ․․․․․جب سے کیف اس کی زندگی میں آیا تھا اسے بس ایک ہی کام تھا ․․․رونے کا․․․․اور آج بھی وہ رو ہی رہی تھی ․․․․․کبھی اس کی یاد میں رونا تو کبھی اس کے الفاظ پر رونا․․․کبھی اس کو کھو دینے کے خیال سے رونا اور آج اسے کھو دینے پر رونا․․․․․آج آخری دن تھا جب وہ کیف کے لیے حق سے رو سکتی تھی ․․․․․․۔
کل جمعہ کے دن وہ کسی اور کے نام ہوجانے والی تھی ․․․تب وہ کس حق سے کیف کے لیے آنسو بہاتی ․․․․․․؟؟کیف اس کے لیئے بس ایک یاد بن کر رہ جانے والا تھا․․․ایک ایسی یاد جو کبھی اسے کڑکتی دھوپ میں سلگاتی تو کبھی بارش کی ہلکی بوندوں سی اسے تسکین دیتی ۔
وہ اپنے ہاتھ دیکھنے لگی ․․․کسی معصوم بچے کی طرح اپنے ہاتھوں میں کچھ کھوجنے لگی ․․․شاید کیف کا نام․․․․․۔
اسکے سیل فون نے شور مچایا․․ ․․․․اس نے اپنے آنسو صاف کیئے اور سیل فون کی اسکرین دیکھی ۔کوئی انجانہ نمبر اسکرین پر جگمگا رہا تھا۔ وہ کال ڈسکنیکٹ کرنے ہی والی تھی کہ کسی خیال کے تحت اس نے اٹینڈ کرلی ۔شاید اس کے دل کو کیف کا انتظار تھا۔ہوسکتا تھا وہ کسی اور کے نمبر سے اس سے رابطہ کر رہا ہو․․․ہونے کو تو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔
’’ہیلو‘‘۔اس نے کال ریسیو کرکہ کہا۔
’’میں فائزہ ہوں ماہم ‘‘۔ فائزہ نے ہیلو کے جواب میں اپنا تعرف کروایا۔
’’فائزہ؟؟؟‘‘۔ وہ پہچانی نہیں تھی․․․․اس وقت اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی خالہ زاد فائزہ بھی کبھی اسے کال کرسکتی ہے․․․․
’’کیف کی بہن فائزہ ‘‘۔فائزہ نے اب کیف کے نام سے اپنا تعارف کروایا۔۔۔۔کہنے کو تو وہ یہ بھی کہہ سکتی تھی کہ تمہاری خالہ کی بیٹی فائزہ ․․․تمہاری کزن فائزہ ․․․مگر اس نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا․․․․وہ کیف کی وجہ سے ہی اسے کال کر رہی تھی تو تعارف بھی اس نے کیف کے نام سے ہی دینا بہتر سمجھا۔
ماہم کی بھوری آنکھیں حیرت سے پھیل چکی تھیں ․․․وہ اس پل گونگی سی ہوگئی تھی ۔
’’کیف کہاں ہے ‘‘؟۔فائزہ نے سوال کیا۔
’’کیف کہاں ہے مطلب؟ ‘‘۔ وہ مزید حیران ہوئی ۔
’’فائزہ کو لگا وہ اسے بتانا نہیں چاہتی اور شاید بتائے گی بھی نہیں․․․․․ اس لیے اس نے بحث کرنے کے بجائے سیدھا بات کی طرف آنا مناسب سمجھا۔
’’امی تمہاری امی سے تمہارے رشتے کی بات کرنا چاہتی ہیں ․․․․ان سے بات کروادو․․․․‘‘۔اس نے خالہ لفظ استعمال نہیں کیا تھا․․․تمہاری امی کہا تھا۔
’’کیا‘‘؟؟۔ اس نے بے یقینی سے کہا۔
’’تمہاری امی راضی تو ہیں نا ؟؟؟‘‘۔ وہ اتنے سالوں میں فریدہ کو خالہ کہنا ہی بھول چکی تھے جیسے ۔
’’پتہ نہیں ․․․․‘‘۔ وہ ہکی بکی سی بولی ۔
’’کیا مطلب ہے پتہ نہیں ․․؟؟؟․․پتہ کرو اور مجھے جواب دو․․․میں انتظار کر رہی ہوں ․․․․اور اگر تمہیں بات کرتے ہوئے شرم آتی ہے تو میری بات کرواؤ․․․میں ان سے خود ہی پوچھ لیتی ہوں ‘‘۔ فائزہ بغیر کوئی مروت رکھے بول رہی تھی ․․․․ماہم کو سمجھ ہی نہ آیا کہ وہ اس رشتے کو اپنے لیے اعزاز سمجھے یا اپنی توہین ۔
’’میں ان سے خود کیسے بات کروں آپی ․․․میں نے اب تک ان سے کوئی ذکر نہیں کیا․․․․میں ان سے آپ کی بات کروادیتی ہوں ‘‘۔ ماہم نے بھرائی ہوئی سی آواز میں کہا۔
’’ٹھیک ہے ․․․میں ان سے بات کرلیتی ہوں ․․․فون دو انہیں ‘‘۔ اس بار فائزہ نے کچھ نرمی سے کہا تھا․․․وہ ماہم کی بھرائی ہوئی آواز پر کچھ شرمندہ ہوئی تھی ․․․․۔
’’آپ ہولڈ کریں ․․․میں بات کرواتی ہوں ․․․مگر آپی ․․․‘‘۔ اس نے کچھ سہم کر کہا۔
’’مگر ؟؟؟‘‘۔وہ متجسس ہوئی ۔
’’وہ میر ے اور کیف کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں ․․․․انہیں کچھ بھی پتہ نہیں ہے ․․․آپ بھی پلیز انہیں کچھ مت بتائیے گا ‘‘۔ لہجہ التجائیہ تھا۔
’’بے فکر رہو‘‘۔فائزہ کو ملنا بھی کیا تھا فریدہ کو کچھ بتاکر ۔
وہ سیل فون ہاتھ میں لیے فریدہ کے پاس دوڑتے ہوئے آئی تھی ۔
’’مما ․․مما․․․․فائزہ آپی کی کال ہے ‘‘۔ اس نے سیل فون فریدہ کی طرف بڑھایا۔
’’کون فائزہ ‘‘؟۔ اتنی جلدی میں انہیں بھی یاد نہ آیا․․․ظاہر ہے فائزہ کی کال کی امید انہیں بھی نہ تھی ۔
’’اپنی فائزہ مما․․․․خالہ خالدہ کی بیٹی ‘‘۔ اس نے سیل فون مزید بڑھایا۔
فریدہ حیرت اور بے یقینی کے تاثرات لیئے ماہم کو دیکھنے لگیں ۔
’’بات کریں ورنہ کال کٹ جائے گی ‘‘۔ ماہم نے کہا۔
’’ہیلو․․․فائزہ ؟؟؟․․․‘‘۔ اسی حیرانی کے عالم میں انہوں نے جیسے تصدیق چاہی ۔
’’جی فائزہ بول رہی ہوں ․․․․․کیسی ہیں آپ ؟‘‘۔ فائزہ نے رکھائی سے نہیں نرمی سے کہا تھا۔
’’میں بالکل ٹھیک میری بیٹی ․․․․سالوں بعد تمہاری آواز سنی ہے ․․․تم کیسی ہو‘‘؟؟۔ فریدہ اب جذباتی سی ہونے لگی تھیں ۔اس سے پہلے کے فائزہ جواب دیتی وہ مزید سوال کرنے لگیں ۔
’’خالد ہ کیسی ہے ؟؟ عادل بھائی کیسے ہیں ؟؟ بھول ہی گئے تم سب مجھے ․․․․سالوں میں ایک فون تک نہیں کیا․․․‘‘۔ سوالوں کے ساتھ ساتھ اب وہ شکوہ بھی کرنے لگیں ۔
’’آپ کو نہیں بھولے خالہ․․․اور ہم سب بالکل ٹھیک ہیں ․․․․بس آپ سے کچھ مانگنا چاہتے ہیں ‘‘۔فائزہ نے تمہید باندھی اور فریدہ کے محبت بھرے الفاظ نے اسے خالہ کہنے پر مجبور کر ہی دیا۔
’’جان بھی حاضر ہے میری بیٹی ․․․․ترس گئی ہوں تم سب کے لیے ․․․اپنی بہن کے لیے ‘‘۔ وہ اب ساتھ ہی آنسو بھی بہانے لگی تھیں ۔
’’ہم بھی ترس گئے ہیں خالہ ․․․․اسی لیے اس سارے قصے کو ختم کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔وہ بھی کچھ جذباتی ہوئی ․․․․ساتھ ہی وہ اب موقف کی طرف آنے لگی ۔
’’ آپ کے گھر سے رشتہ نہ ملنے پر سارا فساد کھڑا ہوا تھا ․․․․․․․․․اگر آپ وہی رشتہ ہمیں دے دیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔
’’کیا مطلب․․․میں سمجھی نہیں ‘‘۔وہ واقعی نہیں سمجھی تھیں ۔
’’ہم کیف کے لیے ماہم کا ہاتھ مانگنا چاہتے ہیں ‘‘۔
فریدہ کو سن کر جھٹکا لگا۔ماہم بھی بے چین سی مسلسل ان کے تاثرات دیکھ رہی تھی ۔
’’یہ کیسے ممکن ہے ؟؟․․․․‘‘۔ بے یقینی سے کہا۔
’’ممکن آپ نے بنانا ہے خالہ ․․․․ہم سب راضی ہیں ․․․․․․بس اب آپ سب ہامی بھریں تاکہ یہ سالوں کی ناراضی ختم ہو‘‘۔ وہ بڑی رسانیت سے بولی ۔
’’مگر فائزہ․․․‘‘۔انہوں نے کچھ کہنا چاہا
’’آپ ایک آدھ دن سوچ لیں خالہ․․․کوئی جلدی نہیں ہے ․․․میں دوبارہ آپ سے رابطہ کروں گی ‘‘۔فائزہ نے سوچنے کے لیے مہلت دی․․․․کال کرنے سے پہلے وہ نہیں جانتی تھی کہ فریدہ سب باتوں سے بالکل ہی انجان ہے اور ایسے میں اس کو سوچنے کے لیے وقت تو چاہیے ہی ہوگا۔
کال کٹ چکی تھی ․․․․فائزہ ابھی بھی حیران پریشان سی تھیں ۔
’’کیا کہا آپی نے ‘‘۔ ماہم نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
’’تمہارا ہاتھ مانگ رہی تھی کیف کے لیے ‘‘۔ انہوں نے سیل فون اسے دیتے ہوئے کہا۔
’’ہائیں ؟؟ سچ ؟؟‘‘۔ اس نے مصنوعی حیرت سے کہا۔
’’ہمم‘‘۔ سر کو جنبش دے کر فریدہ بس اتنا ہی کہہ پائی ۔
’’اب آپ کیا کریں گی مما‘‘؟؟۔ اسے تشویش ہوئی ۔
’’پتہ نہیں ․․․‘‘کہیں کھوئے ہوئے وہ بولیں۔
’’مجھے لگتا ہے آپ کو ہاں کردینی چاہیے ․․․․آپ کو ویسے بھی میرا رشتہ کرنے کی جلدی تھی ․․․․تو اس بہانے رشتہ بھی ہوجائے گا اور آپ کی اپنی بہن سے صلح بھی ‘‘۔ اس نے معصوم سا چہرہ بناکر تجویز دی ۔
’’مگر ماہم․․․یہ سب اچانک․․․مجھے تو بڑا عجیب لگ رہا ہے ‘‘۔ وہ الجھ سی گئیں ۔
’’اس میں عجیب کیا ہے مما․․․․کہیں آپ کو میری فکر تو نہیں ․․․․․؟؟․․․․․آپ میری فکر نہ کریں ․․․․میں نے تو آپ کی خوشی کے لیے کاشف تک کے لیے ہاں کردی تھی ․․․․․تو پھر کیف کے لیے کیوں نہیں ․․․․میں جانتی ہوں آپ خالہ کو بہت یاد کرتی ہیں ․․․اور․․․میں آپ کی خوشی کے لیے کیف سے رشتے کے لیے تیار ہوں ․‘‘۔اب وہ چالاک بنی ۔
’’تم پر تو مجھے مان ہے ماہم ․․․․․مگر کمال یہ ہے کہ ہماراسالوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا ․․․․آج اچانک ہی فون آیا اور فون کرتے ہی تمہارا ہاتھ بھی مانگ لیا ‘‘۔وہ اپنی جگہ بالکل صحیح تھیں ․․․ایسی سچوئیشن کسی کو بھی دنگ کر سکتی ہے ۔
’’کیا آپ اپنی بہن سے صلح کرنا نہیں چاہتیں ‘‘؟ اس نے اب جذباتی بلیک میلنگ شروع کی ۔
’’چاہتی ہوں ․․․بلکہ ترستی ہوں اپنی بہن کے لیے ‘‘۔ ان کی آنکھوں میں نمی تیرگئی ۔
’’تو وہ بھی ترستی ہوں گی نا مما․․․․تبھی تو انہوں نے صلح کے لیے ہاتھ بڑھایا ہے ․․․اور میرا رشتہ لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس بات کو ختم کرنا چاہا ہے․․․آپ خود سوچیں اگر وہ میرے رشتہ نہیں لیں گے تو ان کو ساری زندگی خلش رہ جائے گی ․․․․ہمیشہ اپنی بے عزتی بھی یاد آئے گی ․․․․ ‘‘۔ اس نے فریدہ کے سوالوں کے جواب چالاکی سے اپنے حق میں دینا شروع کیئے ۔
فریدہ بھی اس کی باتوں پر یقین کر رہی تھیں ۔
’’ہاں ایسا ہی ہوگا․․․․․اور میں اس بارے میں اگر سوچوں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے․․․․خاندان کے فنکشنز وغیرہ میں کیف سے بھی مل چکی ہوں ایک دو بار․․․․وہ بھی نہایت سلجھا ہوا لگا تھا․․․․محسوس ہو رہا تھا کہ اسے اپنوں سے پیار ہے ․․․․․․خود آکر ملا تھا مجھے جب کہ تم خالدہ سے چھپتی پھرتی ہو ․․․ویسے بھی خالدہ کی تربیت پر مجھے پورا بھروسہ ہے ‘‘۔ وہ مطمئن نظر آئیں ۔
’’تو بس پھر ․․․․ہاں کریں اور صلح کریں ‘‘۔و ہ چہکی۔
’’شہباز ؟؟اور عرش؟؟؟‘‘۔ انہیں یاد آیا۔
ماہم کے چہرے کا رنگ اڑا․․․․اب پھر سے کہیں عرش نامہ نہ شروع ہوجائے ۔
’’بابا کو آپ منالینا ․․․اور عرش کے لیے تو آپ نے اب تک ہاں کی ہی نہیں ‘‘۔ اس نے پھر سے دماغ لڑایا۔
’’مگر ماہم؟؟؟‘‘۔وہ سوچ میں پڑیں ۔
’’اب عرش سے تو کروڑ درجے کیف اچھے ہیں مما‘‘۔ وہ کہے بنا نہ رہ سکیں ۔
فریدہ اسے حیرانی سے دیکھنے لگیں ۔ ماہم ان کی سوالیہ نظروں سے بچنے کی خاطر وہاں سے کھسک گئی ………………..
’’پتہ لگا کیف کا؟؟ کہاں ہے میرا کیف ؟؟ کیا بتایا ماہم نے ‘‘۔ کمرے میں فائزہ کو آتا دیکھ کر فوراً ہی خالدہ اس کی طرف لپکیں اور سوالات شروع کردیئے ۔
’’ہاں امی ․․․․پتہ لگ گیا ہے ․․․ماہم نے بتایا ہے کہ وہ بالکل ٹھیک ہے ․․․بس ناراض ہے اس لیے اس نے اپنا سیل فون آف رکھا ہوا ہے ‘‘۔ فائزہ نے دانستہ جھوٹ کہہ دیا․․․․ماہم سے کہو اس سے کہے کے اب تووہ گھر آجائے ‘‘۔
’’ہاں امی کہہ دوں گی ․․․آجائے گا وہ‘‘۔ اس نے مزید تسلی دی۔
’’میں ابھی شکرانے کے نفل پڑھ کر آتی ہوں ․․․‘‘۔ وہ فوراً نفل پرھنے کے لیے اٹھیں ۔
انکے جانے کے بعد فائزہ نے عادل کو سب سچ بتایا کہ کیف کا کچھ پتہ نہیں چلا․․․․ماہم نے بھی کچھ نہیں بتایا۔
عادل کی پریشانی میں اضافہ ہوا۔
’’اپنی امی کو مت بتانا فائزہ․․‘‘۔ انہوں نے ہدایت دی
فائزہ نے سر ہلادیا
****************
سات دن ہوچکے تھے کیف نے اب تک ماہم سے کوئی بات نہیں کی تھی رشتہ ہوئے بھی تین دن گزر چکے تھے مگر کیف کی نہ کوئی کال نہ میسج اسے تشویش ہوئی ۔اس نے اب کیف کا انتظار کرنے کے بجائے خود ہی اس کا نمبر ملانا شروع کیا مگر نمبر آف پایا۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز سی ہوئی ․․․․ہوسکتا ہے بیٹری لو ہوگئی ہو․․․اس نے خود کو تسلی دی ۔
سارا دن وہ کیف کا نمبر ملاتی رہی تھی مگر اس کا نمبر مسلسل آف جارہا تھا․․․․اب اسے پریشانی لاحق ہوئی ۔اب وہ اپنی خوشی بھول کر کچھ سوچنے پر مجبور ہوئی تھی کیف؟ آخر کہاں تھا کیف؟ وہ اتنی بوکھلائی کہ ہر منٹ بعد وہ کیف کو کال کرتی نہ جانے اس نے کتنے میسجز بھی کرڈالے تھے ساری رات وہ سوئی نہیں تھی اور ہر منٹ کے بعد وہ اسے کال کرتی تھی اور ہر دفعہ نمبر آف ملتا تھا اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کرے؟ذ
رات کے پونے چار بجے غنودگی کے عالم میں اس نے ایک دفعہ پھر کیف کو کال کی اور اس بار خوش قسمتی سے اس کا نمبر آن تھا۔ وہ جو بے سدھ بستر میں غنودگی کے عالم میں پڑی تھی یک دم ہی اٹھ بیٹھی تھی ۔اس نے بے یقینی کے عالم میں پھر سے کال کی نمبر واقعی آن تھا یا اس کا وہم تھا؟ کسی نے اس کی کال کاٹ دی تھی
اس نے کچھ لمحے انتظار کیا اس امید پر کہ کیف اسے کال بیک کریگا مگر کیف نے کال نہیں کی تھی اسے شدید غصہ آیا رشتہ ہوئے چار دن نہیں ہوئے تھے اور مجنوں میاں کے تیور ہی بدل گئے تھے ۔غصے میں اس نے اپنا سیل فون بستر پر زور سے پٹخا بھاڑ میں جائیں دکھائیں خوامخواہ کے نخرے اب میں بھی بات نہیں کرنے والی
کچھ دیر وہ یوں ہی بستر پر منہ پھلائے پڑی رہی پھر خود ہی دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اسے میسج کرڈالا۔
(منگیتر بنتے ہی یہ حال ہے․․․شوہر بن کر جانے کیا کریں گے)۔
کچھ ہی لمحوں میں رپلائے آیا تھا
(آپ کون؟ اور کیوں آدھی رات کو بے تکے میسج کر کہ پریشان کررہی ہیں )
ماہم کی بھوری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔اس کی محبت ،اس کا منگیتر،اس کا کیف اتنی جلدی کیسے بدل سکتا ہے اسے چکر سا آیا وہ اسے پہچاننے سے انکار کر رہا تھا۔
کیف مزاق کررہے ہوں گے اس نے خود کو تسلی دی
(کال کریں پھر اچھی طرح یاد دلاتی ہوں کہ میں کون )۔ اس نے میسج لکھ بھیجا۔
میسج سینٹ ہوئے چند لمحے ہی گزرے تھے کہ اس کی اسکرین پر fiance ji جگمگانے لگا تھا۔ اس نے کیف کا نمبرfiance ji کے نام سے سیو کردیا تھا۔
وہ بے اختیار مسکرائی تھی ساتھ ہی عجیب سی جھجک کا شکار ہوئی مگر اسے کیف سے بہت ساری باتیں کرنی تھیں اور اس کی اچھی کلاس لینی تھی اس لیے اس نے وقت ضائع کیے بغیر اس کی کال اٹینڈ کر لی تھی مگر کچھ بولی نہیں تھی سامنے والا بھی خاموش تھا۔
وہ خوامخواہ ہی مسکرانے لگی تھی آج وہ کیف سے پہلی دفعہ اس کی منگیتر کی حیثیت سے بات کرنے والی تھی اس کے گال بنا کچھ بولے بنا کچھ سنے بس ایک حسیں احساس کے تحت گلابی ہوئے تھے ۔
’’بولیں بھی کون ہیں آپ ‘‘۔ایک اجنبی آواز اس کے کانوں میں پڑی ۔
ماہم کے لبوں سے مسکراہٹ یک دم ہی غائب ہوئی ۔گلابی پڑنے والا چہرہ اب کچھ پیلا سا ہوا۔
’’بولنا نہیں تھا تو کال کا کہا کیوں؟؟ بہت شوق ہے لوگوں کو پریشان کرنے کا ؟؟ کون ہیں آپ‘‘۔وہ ہکی بکی سی سیل فون کو کان سے ہٹا کر اس کی اسکرین دیکھنے لگی اور اسکرین پر نظر آنے والا نمبر۔
وہ نمبر کیف کا ہی تھا․․․․․ہاں وہ کیف کا ہی نمبر تھا․․․اس نے سیل فون دوبارہ کان سے لگایا ۔
’’بولیں بھی ․․․کون ہیں آپ؟؟؟ارے مس چپ رہنے کے لیے اتنی دیر سے کال اور میسج کر رہی تھیں کیا؟؟‘‘
..آ…آپ کون ہیں ؟؟؟‘‘۔ وہ ہکلائی ۔
’’آپ مجھے رات گئے تنگ کر رہی ہیں …اور آپ کو پتہ ہی نہیں کہ میں کون ہوں ….گریٹ…..پہلے تو ذرا آپ مجھے بتائیں کہ آپ کون ہیں ‘‘۔ سامنے والی بنا کسی مروت کے بولی تھا۔
’’میں ماہم قریشی ہوں …..ک ک ک کیف عالم کی منگیتر…..‘‘۔ اس نے تھوک نگلی ….
’’یہ…..یہ کیف عالم کا نمبر ہے….مجھے ان سے بات کرنی ہے …..آپ کون ہیں اور کیف کا نمبر آپ کے پاس ….یا پھر کیف آپ کے ساتھ ؟؟؟‘‘۔ وہ ہڑبڑائی ….اس کے ماتھے سے پسینہ ٹپکنے لگا۔ اچانک ہی کسی خیال نے اس کے ہوش اڑائے تھے …کیا کیف اس وقت کسی لڑکی کے ساتھ تھا…اس کو کی جانے والی کال کسی لڑکی نے ریسیوو کی تھی …..۔
’’دیکھیں مس ….آپ جو کوئی بھی ہیں …یا جس کی بھی منگیتر ہیں ….اب مجھے کال یا میسج مت کیجئے گا‘‘۔ سامنے والی نے رکھائی سے جواب دیا اور کال کاٹ دی ۔
ماہم اپنے سیل فون کو بغور دیکھنے لگی….کیا وہ دوبارہ کال کرے ؟؟؟ مگر اب بچا ہی کیا ہے ؟؟ کیف کسی لڑکی کے ساتھ تھا۔؟؟ رات کے اس وقت ؟؟؟۔
وہ ایسا ویسا کچھ نہیں سوچنا چاہتی تھی مگر نہ چاہتے ہوئے بھی اسے یہی خیال آ رہے تھے…اس وقت کوئی بھی کچھ اور سوچنے سے تو رہا…اور نیند بھی اب آنے سے رہی
اپنے گھر سے جنونی انداز میں کیف باہر نکل آیا تھا …ایک عجیب سی اذیت تھی جو اس کا سانس لینا بھی محال کر رہی تھی …..اگر وہ ماہم قریشی سے اتنی محبت نہ کرتا تو شاید اسے اتنی تکلیف بھی نہ ہوتی …مگر یہ اس کی محبت کی انتہا تھی کہ وہ اس اذیت میں گرفتار ہوگیا تھا۔
یہ کیفیت کچھ شدت اختیار کرتے ہوئے اپنا رنگ بدلنے لگی ….ایک ہی پل میں کیف کو ماہم سے گھن آنے لگتی اور ایک ہی پل میں اس سے محبت ہونے لگتی …..کبھی اس کا دل کرتا کہ اپنے چچا کا گریبان پکڑ لے اور کبھی دل کرتا کہ ماہم قریشی سے نفرت کرے ….اتنی نفرت جو کسی نے کسی سے نہ کی ہو…..
وہ اپنے گھر سے نکل آیا تھا….سیل فون اور والٹ اس کی جینز کی پاکٹ میں ہی تھا….سب سے پہلے اس نے اپنا سیل فون آف کیا….وہ جانتا تھا اسے اس کے گھر والے ضرور کال کریں گے اور اس وقت وہ کسی کی بھی کال اٹینڈ کرنے کی حالت میں نہیں تھا۔
اس نے انہی زخمی ہاتھوں سے اپنا سیل فون آف کر کے اپنی جینز کی پاکٹ میں ڈالا تھا۔وہ اب کہاں جائے گا….کیسے جائے گا….اسے کوئی اندازہ نہیں تھا…..وہ کیوں گھر سے نکل آیا تھا وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا…کچھ جانتا تھا تو بس اتنا کہ وہ تکلیف میں ہے….اذیت میں ہے….اس کی غیرت اسے جینے نہیں دے رہی ….اب غیرت میں وہ یا تو اپنے چچا کو کچھ کہہ ڈالے یا ماہم قریشی کو۔
یہ ایک صبر آزما مرحلہ تھا اور اس سے وہی صبر ہی نہیں ہوپارہا تھا۔ وہ ایک ایسا لڑکا تھا جسے زندگی میں کبھی بھی لڑکیوں میں دلچسپی رہی ہی نہیں تھی ….اس نے کبھی صنف نازک کو اہمیت دی ہی نہیں تھی …..وہ عجیب مزاج رکھتا تھا….اسے لگتا تھا کہ ہر لڑکی بس شو شاں میں ماہر ہوتی ہے….خوامخواہ معصوم بنتی ہیں ….خوامخواہ نخرے دکھاتی ہیں …..اسے لڑکیوں کی حرکات سے چڑ سی ہوتی تھی ۔
وہ سوچتا تھا کہ اگر لڑکی نے ہیل والی جوتی پہن ہی لی ہے تو چلتے ہوئے اس کی گردن کیوں اکڑ جاتی ہے؟؟؟ اس کے چلنے کا انداز کیوں بدل جاتا ہے ؟؟؟ وہ پیر پٹخنے کیوں لگتی ہے؟؟؟۔
وہ سوچتا تھا کہ لڑکی کچھ دیکھ کر ڈر جائے تو وہ ڈرنے میں بھی سٹائل کیوں نہیں بھولتی ؟؟؟ چیخنا بھی سریلا ہے….اس میں بھی ادا ….افففف۔ چلتے چلتے گرجائیں گی تو اس میں بھی ادا…اس میں بھی نازک مزاجی ……ٹیڑھا میڑھا سا منہ بنائیں گی اور جانے کیا کیا۔
ساتھ ہی وہ لڑکیوں کو چلتی پھرتی میک اپ کی دکان سمجھتا تھا…..اسے لگتا تھا لڑکیاں پیدا ہونے کے بعد روتی نہیں ہوں گی …میک اپ کرتی ہوں گی ۔
ساری زندگی اپنی دو عدد پھوپھیوں اور ایک عدد خالہ ندا کی حرکات دیکھ کر اسے یہی لگتا تھا کہ زیادہ تر عورتیں پیدا ہی چالاکیاں کرنے کے لیے ہوتی ہیں….ادھر کی بات ادھر کرنے کے لیے ہوتی ہیں….بات کو بڑھا چڑھا کر کرنے کے لیے ہوتی ہیں ۔
اس نے لڑکیوں اور عورتوں کا ایک عجیب ہی امیج اپنے دل دماغ میں فکس کرلیا تھا۔ وہ ہر لڑکی کو اسی نظر سے دیکھتا اور اگنور کردیتا….اس کے اسکول کالج میں بھی بہت سی لڑکیوں نے اسے اپنی طرف اٹریکٹ کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ نہیں ہوا تھا۔ لڑکیاں جو اس نیلی آنکھوں والے کے لیے جو حربے آزماتی تھیں…. وہ انہی حربوں سے ہی خار کھاتا تھا۔
ماہم قریشی وہ لڑکی تھی جس کی جانب وہ انجانے میں ہی کھنچا چلاگیا تھا…..ماموں کے گھر میں جب وہ کبھی ڈر جاتی تھی تو گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے لگتی تھی اور ساتھ ہی اچھلنے بھی لگتی تھی ….ہرگز اسے اس بات کی فکر نہ ہوتی کہ وہ بندریہ لگ رہی ہے۔
میک اپ کرنے کو کوشش تو اس کی ناکام تھی ہی …..اور اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر بڑی بڑی باتوں تک وہ اسے سب سے مختلف محسوس ہوئی تھی ….سب سے جدا۔
جب وہ پہلی دفعہ ماہم قریشی کے ساتھ ماموں اظہر کے گھر میں رہا تھا تب وہ سولہ سال کی تھی ….اس نے کیف کی طرف پھول بڑھایا تھا اور خود ہی جھجک بھی گئی تھی …..وہ پہلا موقع تھا جب کیف کے دل میں ماہم قریشی کے لیئے پسندیدگی کے جذبات ابھرے تھے …اسے یہ محسوس ہوا کہ وہ اس معصوم چہرے کو پسند کرنے لگا ہے …..البتہ محبت جیسا خیال اسے فی الحال نہیں آیا تھا……وہ خود بھی تقریباً بیس سال کا تھا….۔
دو سال بعد جب وہ ماہم قریشی سے ملا تب بھی اس کو ویسا ہی پایا جیسے وہ دو سال پہلے تھی …..تب اس کے دل نے اسے یہ محسوس کروایا کہ ماہم قریشی اس کی پسند نہیں ….اس کی محبت ہے ….اور وقت نے یہ احساس کروایا کہ وہ اس کی محبت ہی نہیں ….اس کا جنون بھی ہے
اب جن حالات میں وہ آپھنسا تھا….وہ ماہم قریشی سے رشتہ نہیں جوڑ سکتا تھا…..اس کی غیرت یہ گنوارا نہیں کرتی تھی کہ وہ ساری زندگی اپنے چچا کے منہ سے ایسے الفاظ سنے ۔
وہ جب گھر سے نکلا تھا تو ماہم قریشی کو پانے کی امید چھوڑ کر نکلا تھا….اسے اپنی زندگی سے نکال دینے کے فیصلے پر نکلا تھا….وہ ساری زندگی اپنی غیرت کا امتحان نہیں دے سکتاتھا۔
وہ فیصلہ کرچکا تھا کہ اب ماہم قریشی کو اپنا ہمسفر بنانے کا سوچے گا بھی نہیں …..اس میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ایسے الفاظ کے بعد ماہم قریشی کو اپنی بیوی کا عہدہ دے سکے….۔
پر سوال یہ تھا کہ اب وہ اس کے بغیر جیئے گا کیسے ؟؟؟ جسے کھو دینے کے خوف سے وہ سکھر بھاگا چلا آیا تھا….اب اسے ایک بار پھر سے کھونے والا ہے ۔
.وہ اپنی سوچوں میں ڈوبا….زخمی ہاتھ لیے ….دنیا سے انجان…سڑکوں پر بے مقصد چلے جارہا تھا کہ ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے ہوا میں اچھالا اور وہ گھسیٹتا ہوا سڑک کنارے جاپہنچا۔
اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے جو آخری چیز اس نے دیکھی تھی وہ تھا لوگوں کا ہجوم …..اس کے سر پر سڑک پر بری طرح سے گرنے کی وجہ سے بہت بری چوٹ آئی تھی ….ٹانگیں تیز رفتار گاڑی سے ٹکرانے کی وجہ سے بری طرح زخمی ہوئی تھیں ..اس کا سارا جسم خراشوں سے چھلا ہوا تھا..۔
لوگوں نے اسے قریبی اسپتال میں ایڈمٹ کروادیا تھا جہاں اسے کئی گھنٹے آئی سی یو میں رکھا گیا تھا….اس کے سیل فون ٹکرے ٹکڑے ہو گیا تھا جس کی وجہ سے کوئی بھی اس کے رشتے داروں کو اطلاع نہیں کر پایا تھا۔
ہوش آنے پر اس نے اپنے قریب صرف انجان چہروں کو ہی پایا۔اس سے اس کے رشتے داروں کا نمبر پوچھا گیا تو اس نے عابد شاہ کا نمبر دے دیا…..
عابد فوراً کراچی سے سکھر آ گیا تھا….اور کیف کے ساتھ تین دن اسپتال رہا تھا….وہ ڈسچارج لینا چاہتا تھا مگر جب تک وہ پوری طرح سے خطرے سے باہر نہیں ہوا ڈاکٹرز نے اسے ڈسچارج نہیں کیا۔
عابد نے اسے بہت سمجھایا کہ وہ اپنے گھر والوں کو اطلاع دے مگر کیف نے اس کی ایک نہیں سنی ….ساتھ ہی اسے قسم بھی دے دی کہ وہ اس کے گھر والوں کو کچھ نہیں بتائے گا۔
کیف نہیں چاہتا تھا کہ کوئی بھی اس کی یہ حالت دیکھے ….وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی محبت اسے مزید شرمندہ کرے….وہ چچا کے سامنے اپنا یہ حال دکھا کر خود کوتماشہ بھی نہیں بنانا چاہتا تھا….ویسے بھی وہ فی الحال سب سے دور رہنا چاہتا تھا….۔
عابد کیف کو کراچی لے آیا تھا….وہ خطرے سے باہر ضرور تھا مگر اب بھی زخمی تھا…..پاؤں اور کمر میں چوٹوں کی وجہ سے وہ بنا سہارے کے چل پھر نہیں سکتا تھا اور نہ ہی بیٹھ سکتا تھا۔ سر پر بھی کافی ٹانکے لگے تھے ۔
کراچی آنے کے بعد بھی عابد نے بہت اصرار کیا کہ وہ کم از کم گھر کال کرکہ اتنا تو بتادے کہ وہ کراچی میں ہے ….مگر کیف اس پر بھی نہیں مانا۔
ماہم قریشی سے تو ناطہ توڑ ہی چکا تھا شاید اپنے گھر والوں سے بھی ہمیشہ کے لیے ناطہ توڑنا چاہتا تھا….آج وہ اس حال میں ان سب کی وجہ سے ہی تو تھا….اس نے ان سب کو ملزم گردانا۔
اس کا سیل فون ٹوٹ چکا تھا….اسے نئے سیل کا خیال آیا ہی نہیں …اس کا کوئی تھا ہی نہیں جس سے وہ رابطہ کرتا۔ کرن جو اتنے دن سے کیف کا یونیورسٹی میں انتظار کرتی رہی تھی روز عابد سے پوچھتی تھی کہ کیف کب آئے گا۔
جب عابد نے بھی یونیورسٹی آنا چھوڑ دیا کیونکہ وہ کیف کے ساتھ اسپتال تھا اور کیف کا نمبر بھی مسلسل آف ملنے لگا تو اس نے پاگلوں کی طرح عابد کو کالز کرنا شروع کردیں ..کچھ دن تو عابد نے اسے ٹالا مگر جب وہ دونوں کراچی آگئے تو عابد نے کرن کو کیف کے ایکسیڈینٹ کے بارے میں بتادیا۔
کرن فوراً ہی کیف سے ملنے آگئی تھی ….ان دنوں میں اس نے کیف کا بہت خیال رکھا تھا…..اس کے کپڑے وہی استری کر جایا کرتی تھی ….کھانا بھی وہی بناتی تھی ….اس بہانے عابد شاہ کو بھی کھانے کا موقع مل جاتا….اس کے تو مفت میں ہی وارے نیارے ہوگئے تھے ۔
عابد نے کچھ دن بعد کیف کو نیا سیل فون لادیا کیونکہ اسے پریشانی ہوتی تھی ….وہ جب بھی کہیں باہر ہوتا تو کیف کی خیریت نہیں پوچھ پاتا تھا……مگر کیف نے اپنی سم آن نہیں کی تھی ….اس نے عابد کا ہی کوئی نمبر اپنے زیر استعمال رکھا تھا۔
قریب دس دن بعد اسے ماہم قریشی کا خیال آیا ….اسے یہ احسا س ہوا کہ بھلے ہی وہ سب کچھ ختم کر آیا ہے مگر ماہم ؟؟؟ وہ تو اسی کے انتظار میں ہوگی ….بھلے ہی اس نے یہ کہا تھا کہ وہ رابطہ نہ کرے تو ماہم اسے بھول جائے مگر جانے اسے وہ یاد رہا بھی ہوگا یا نہیں ۔ سب کچھ سوچ کر اس نے اپنا نمبر کرن کو دیا اور اسے ہدایت کی کہ وہ یہ نمبر صرف دیر رات کو آن کرے اور جو بھی اسے میسج یا کال کرے اسے کچھ کھڑی کھوٹی سنائے ….
کیف کو اندازہ تھا کہ اس کے گھر میں سے کوئی بھی دیر رات کو اسے کال نہیں کرے گا البتہ ماہم اگر اس کے انتظار میں ہوئی تو وہ اسے ضرور کال کرے گی ۔
کیف کے کہے مطابق کرن نے نمبر دیر رات کو آن کیا اور پھر صبح سویرے بند کردیا…البتہ عابد کو کال کرکے اسے ساری روداد سنائی تھی جو…کیف کو وہ شرمندگی سے بتا ہی نہ پائی کہ ماہم نے اس کو میسجز میں جانے کتنا برا بھلا کہا ہے ۔………………… کرن نے نمبرآف کردیا تھا اس کے بعد پہلی ہی فرصت میں وہ کیف سے ملنے چلی آئی تھی تاکہ اس کو اس کی سم واپس کرسکے….عابد نے بھی اسے بتادیا تھا کہ کیف کو اس نے سب میسجز کے بارے میں بتادیا ہے ….مگر ساتھ ہی اسے کچھ سوالات کے جوابات بھی چاہیے تھے …اس کا موڈ کچھ ٹھیک نہیں تھا….اس وقت دن کے ایک بج رہے تھے …..کیف کا حال پوچھ لینے کے بعد وہ کچھ سنجیدہ سی ہوکر بولی ۔
’’تم نے مجھے اپنا نمبر اپنی منگیتر سے گالیاں دلوانے کے لیے دیا تھا ‘‘۔
کیف مسکرایا …کرن چڑی ۔
’’تم نے جیسا کہا میں نے ویسا کیا….تم سے ایک سوال بھی نہیں کیا کہ مجھے اپنا نمبر کیوں دے رہے ہو….کسی کو کھڑی کھوٹی سنانے کا کیوں کہہ رہے ہو….میں تم سے کوئی سوال کرتی بھی نہیں مگر اب بات میری سیلف ریسپیکٹ کی ہے….وہ کون تھی جس نے مجھے جانے کیا کیا کہہ دیا‘‘۔ وہ برہم نظر آئی ۔
’’وہ جو بھی تھی ….اس نے جو بھی کہا اس کے لیے میں معذرت کرتا ہوں ….میرا مقصد یہ نہیں تھا….اور تم بھی بھول جاؤ سب ‘‘۔ کیف بھی اب سنجیدہ ہوا۔
’’کیا وہ واقعی تمہاری منگیتر ہے ؟؟‘‘۔اس نے سوال کیا۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے ‘‘۔اس نے ابرو چڑھائے ۔
’’مجھے تو نہیں لگتا…..آج تک تم نے کبھی ایسا کوئی ذکر کیا ہی نہیں …..‘‘ ۔ وہ اعتماد سے بولی ۔
’’جب تمہیں نہیں لگتا …تو سمجھ لو کہ نہیں ہے ‘‘۔ اس نے رسانیت سے کہا اور کرن مسکرادی ۔
’’یہ لو اپنی سم ….اپنے پاس رکھو اسے ….اس پاگل لڑکی کا کیا بھروسہ اب تک گالیاں بکے جارہی ہوگی ‘‘۔ اس نے اپنے ہینڈ بیگ سے سم کھنگالتے ہوئے کہا۔
’’نہ تو وہ پاگل ہے…نہ وہ بکتی ہے ‘‘۔ لہجہ دو ٹوک ہوا۔
’’میرا خیال ہے آئندہ سے مجھے تمہارے ذاتی معاملات میں انوالو نہیں ہونا چاہئے ‘‘۔ وہ خفگی سے بولی اورساتھ ہی کیف کی طرف اس کی سم بھی بڑھادی ۔
’’کافی پیوگی ‘‘؟؟ ۔ کیف نے بات کو بدلا۔
’’تم بنا کر پلاؤگے ‘‘۔اس نے شریر سے انداز میں کہا۔
’’why not‘‘۔ اس نے کندھے اچکائے ۔
’’رہنے دو….آرام کرو….میں خود بنالیتی ہوں…ہاں مگر تمہارے ہاتھ کی کافی ڈیو رہی ‘‘۔ اس کا موڈ اب کچھ ٹھیک ہوچکا تھا