پھوپھی جی کو آخر کار گھر جانے کا خیال آ ہی گیا اور ابا کے گھر آتے ہی انہوں نے گھر جانے کی ضد شروع کی ۔ سب کے روکنے پر بھی وہ نہ مانیں ۔ اگلی صبح ابا نہیں اسٹیشن تک چھوڑآئے اور ان کے جانے پر جو جشن عرینہ اور مرینہ نے منایا تھا وہ قابل دید تھا ۔ ” شکر ہے پھوپھی نامہ ختم ہو گیا ۔” عرینہ نے مرینہ سے گلے ملتے ہوئے کہا ایسا ہی ہوتا تھا جب وہ دونوں خوش ہوتی تھیں تو اچھل اچھل کر گلے ملتیں۔
” ہاں ۔ پتہ نہیں یہ پھوپھیاں ہمارے ہی گھر کیوں آتی ہیں ؟” مرینہ نے پوچھا۔
” کاش اماں بھی کسی کی پھوپھی ہوتیں۔” عرینہ نے آرزو کی ۔ ” ہاں ۔ میری ماں اور بڑی ماں میں یہ بات بھی مشترک ہے کہ ان دونوں کا کوئی بھائی نہیں ۔” دینا نے سوچا بڑی دل چسپ حقیقت تھی کہ دونوں عورتیں جو ایک دوسرے سے مکمل مختلف لگتی تھیں میں بہت سی حقیقتیں مشترک تھیں صرف دونوں کا انداز الگ تھا ۔، طر ز عمل جدا تھا ۔ ایک زندگی میں اتنی گھلی ہوئی تھی ، اتنی مگن تھی کہ گمان ہوتا تھا اس کے بغیر زندگی رک جائے گی اور دوسری زندگی سے اتنی دور ، اتنی خاموش اور الگ تھی کہ لگتا ہی نہیں تھا وہ زندگی کا ایک حصہ ہے ۔ دینا نے سرجھٹک دیا ” میں بھی آج کل کیا کیا سوچتی رہتی ہوں ؟” اس نے خود کو ٹوکا ” اورکچھ ہے بھی تو نہیں جس پہ سوچا جائے ۔” اس نے مدافعت کی ۔” اصغر حمید ۔۔۔۔” اس کے دل کے نہاں خانوں سے آواز آئی ۔” اس پہ میں کیا سوچوں؟؟؟” جتنی باتیں ، جتنی یادیں تھیں وہ میں سوچ چکی ۔ میرے پاس اس کو سوچنے کی کچھ نہیں ۔۔۔ کوئی نئی بات ، کوئی نئی یاد۔۔۔ کچھ نہیں ۔ جب سے گیا ہے ایک ہی بار تو مختصر سی بات ہو پائی ہے فون پر ۔ پھر میں اس شخص کو کیا سوچوں ؟ وہ اب خود میں مگن ہوگا !” اس نے تاسف سے سوچا ۔ اصغر کی سوچیں اس کو کس قدر پریشان کر دیا کرتی تھیں ۔ وہ بے انتہا گھبر ا جاتی تھی۔ جاتے جاتے وہ کیا درد سر دے گیا تھا۔ کس مصیبت میں پھنسا کے گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں اپنے خواب سجا کے جانے والے نے تو ایک بار بھی پیچھے مڑ کر اس کی خبر نہیں لی تھی۔ وہ جو ایک بار فون پر مختصر سی گفتگو ہوئی تھی بڑی ماں اور پھوپھی جی کے سامنے اس میں کیا بتاتی کہ کتنے یاد آتے ہو؟”
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” یار ! لائبریری میں دیکھ لی وہ نیو ٹیچر ؟” بریک میں سب سے پہلے کامل بول پڑا۔
” کون ؟ وہ بلیک بیوٹی ؟” مطیع جھٹ سے بو ل بڑا۔ وہ سب کو کتنا ہنساتا تھا ۔ وہ اگر کئی گھنٹے بولتا رہتا تو بھی کوئی تنگ نہیں ہوتا تھا ۔ کوئی بور نہیں ہوتا تھا۔
” ہاں یار ! اینڈ شی از پلیننگ ٹو ارینج این آرٹ ایگزیبیشن۔۔۔” افصہ نے بھی باتوں میں حصہ لیا جب کہ حمائل ، صبار اور تابندہ جوس کے سپ لیتے ہوئے خاموشی سے سن رہے تھے ۔
” او مس ! تو کیوں چُپ ہے۔؟صبار نے تابندہ کو چھیڑا ۔ ” کیا بولوں ؟ آئی ہیٹ آرٹ۔۔۔۔ ” تابندہ اداس ہو کر بولی :” تو تجھے کس نے کہا ہے پارٹیسپیٹ کرنے کو ؟ یہ تو آرٹ لورز کے لیے ارینج ہو رہا ہے ۔” کامل جھٹ سے بو ل پڑا۔
” ہاں یار! آرٹ ایزیبیشن میں چڑیلوں کا کیا کام ؟ مطیع تابندہ کو تنگ کرنے کے لیے ایک بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھالیکن تابندہ بھی کچھ کم نہیں تھی وہ مطیع کی ہر بات ، ہر مذاق اور طنز کا منہ توڑ جواب دیتی تھی ۔
” میں چڑیل ہوں اور تو لمبی دم والا بندر ہے ” تابندہ نے چبا کر کہا۔ سب ہنسنے لگے تھے ۔
” ایک آئیڈیا ہے میرے پا س ۔۔۔” اس سے پہلے کہ مطیع ، تابندہ کو الٹا جواب دیتا اور ان دونوں کی نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہو جاتی ۔صبار نے باتوں کارخ کسی اور طرف موڑ دیا ۔
” کیا ؟” سبھی دوست صبار کی طرف متوجہ ہو گئے ۔
” ہم میں سے کوئی بھی اس آرٹ ایگزیبیشن میں انٹر سٹڈ نہیں ہے تو کیوں نہ ہم اس دن پارٹی ارینج کرلیں۔ انجوائے کرلیں گے ۔” صبار نے تفصیل بتا دی ۔
” پارٹی میں کھانے کو کیا ملے گا ؟” مطیع جھٹ سے بول پڑا۔
” تجھے ذبح کر کے تیرا گوشت بھون کر کھا لیں گے ۔” تابندہ بھی مطیع سے کچھ کم نہیں تھی ۔
” ہاں چڑیل! میں بھول گیا تھا تو انسانوں کا گوشت کھاتی ہے ۔” مطیع نے تابندہ کو چھیڑا ۔
” شٹ اپ!” تابندہ نے مطیع کو آنکھیں دکھائیں ۔
” افوہ! تم دونوں ٹام اینڈ جیری سے کچھ کم نہیں ہو ۔” افصہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔
” پارٹی کہاں پر ارینج کرلیں ؟” کافی دیر سے چپ بیٹھی حمائل نے حالات کو سنبھال لیا ۔ وہ آج کل کم ہی بولتی تھی ۔
” میرے گھر پر ۔۔۔۔صبار کی اس بات سے سب خاموشی سے اس کی طرف دیکھنے لگے ۔
” گھر میں تو دم گھٹتا ہے میرا۔ ان کے ساتھ ہوتی ہوں تو وقت اچھے سے گزر جاتا ہے ۔ اب اپنے گھر میں کہاں چھپ جائوں؟! ایسا کیا کروں کہ ان کا چہرہ نہ دیکھوں ؟” حمائل کو یک دم گرمی لگنے لگی۔ اس کے گال انگارہ ہورہے تھے ۔وہ پھر سے جلنے لگی تھی ۔ اپنے دوستوں کے پاس سے اٹھ کر وہ تقریباً بھاگ کر واٹر کولر کے پا س گئی تھی اور ٹھنڈے پانی کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر بھر کر اس نے اپنے لال بھبھوکا منہ پر دے مارا تھا ۔ سب کی حیران نگاہوں کے جواب میں اس نے دھیرے سے کہا تھا۔
” میں ٹھیک ہوں بس گرمی لگی تھی۔”
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
آخر کار اس نے بی۔اے میں داخلہ لے لیا ۔ پڑھائی سے زیادہ اسے اپنی سہیلیوں سے ملنے کی خوشی تھی۔ اب وہ پھر سے کالج جا کرروز اپنی سہیلیوں سے ملے گی۔ مستیاں کرے گی اور کالج کی لائبریری میں موجود ڈھیر سارے ناول باری باری گھرلا کر چوری چھپے پڑھا کرے گی ۔ کبھی کمبل میں گھس کر ٹار چ کی روشنی سے اور کبھی تاریخ ،اردویا پھر انگریزی کی کتاب کے درمیان میں ناول چھپا کر ۔۔۔۔۔
زندگی ایک بار پھر رنگوں سے بھر گئی تھی ۔ وہ بے حد خوش تھی کم از کم اماں کی ہروقت کی ڈانٹ سے تو وہ آدھ دن محفوظ رہتی۔ وہ تووہ باورچی خانے میں دال ،چاول اور کڑاہی ہی پکاتی رہ جاتی اور پوری زندگی یوں ہی گزر جاتی ۔۔۔ سالن بناتے بناتے ۔۔ پر وہ کبھی بھی ڈھنگ سے کھانا بنانا نہ سیکھ پائی جس وقت اماں اس کو ہدایت دے رہی ہوتی تھیں اس وقت وہ اپنے تکیے کے نیچے رکھے ناول کی ہیروئن کے بارے میں سوچ رہی ہوتی تھی یا پھر اس ظالم کردار کے بارے میں ، جو ہیروئن پر ظلم کرتا تھا ۔ وہ دل ہی دل میں اسے ہزاروں بددعائیں دیتی بلکہ کبھی کبھی تو اس کو الٹا ہیروئن پر غصہ آجاتا تھا ” یہ کیا اللہ میاں کی گائے بنی بیٹھی ہرکسی کا بر ا بھلا سب سنتی ہے ؟ ارے بھئی ! ہر آدمی کی اپنی انا ہوتی ہے اور انسان کو اب اتنا بے غیرت بھی تو نہیں ہونا چاہیے ناں کہ کوئی کچھ بھی کہے او ر آپ خاموشی سے سنتے جائیں۔ ” اور اسی وقت اس کو اماں کی دھاڑ سنائی دیتی ” میں نے جو بتایا وہ سمجھ گئی ؟ اور وہ یونہی اثبات میں سر ہلا تی رہ جاتی اور اسی لمحے اسے اپنا آپ کسی ناول کی ہیرئون سے کم نہیں لگتا تھا جو ہر کسی کی اچھی بڑی باتیں خاموشی سے سن لیا کرتی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” تمہارے کالج میں کوئی نئی ٹیچر آئی ہیں ؟” لائونج میں پڑے سیاہ رنگ کے قیمتی صوفے پر بیٹھی امی نے حمائل سے پوچھا ۔
” یس !آرٹ ایکسپرٹ ہے ۔” حمائل نے ملازمہ کے ہاتھ سے چائے کا کپ لے کر امی جی کو جواب دیا۔
” ہاں ۔ منزہ بہت خوش ہے بلکہ اسے تو وہ ٹیچر بہت پسند آئی ہے ۔ کہہ رہی تھی بہت پیاری ہے۔” امی جی نے ٹی وی پہ چینل بدلتے ہوئے کہا ۔
” نو امی جی ! شی از ناٹ پریٹی۔۔۔ سانولی سی ہے اور سانولے لوگ تو پیارے نہیں ہوتے ۔” حمائل کے لہجے میں حقارت تھی ۔
” کوئی بھی رنگ اچھا یا برا تو نہیں ہوتا ۔ ہاں ! ہماری سوچ کسی رنگ کو اچھا اور کسی کو برا بنا دیتی ہے ۔ بات اپنے اپنے نظریے اور سوچ کی بھی تو ہوتی ہے ۔” منزہ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا اور ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئی ۔ حمائل نے منزہ کی اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا اور خاموشی سے چائے پینے لگی ۔
” لائونج میں سب سے الگ تھلگ صوفے پر بیٹھے سیرت النبی ۖ پڑھتے ہوئے اس کی نظریں بے اختیار منزہ کی جانب اٹھ گئیں ۔انہیں لگا وہ اکیس سال پیچھے چلے گئے ہیں ، اس شام میں جب وہ اپنے گھر کی چھت پر کھڑے اس کی منتیں کررہے تھے لیکن وہ نہیں مان رہی تھی ۔ وہ پکے ارادوں والی خاموش سی لڑکی ۔۔۔۔ جو آج بھی ان کو بے چین کیے رکھتی تھی ۔ جس کے فیصلے آج بھی اس کے اعلیٰ ظرف ہونے کا ثبوت پیش کرتے تھے ۔ سوچ اور نظریے کی بات اکیس سال پہلے اس نے ان سے کہی تھی ۔ اس اندھیری شام میں ، جب وہ اس کے فیصلے کے خلاف تھے ۔ اور آج سوچ اور نظریے کی بات۔۔۔ اس اندھیری شام میں ۔۔۔ ان کی نگاہ غیر ارادی طور پر لائونج کی کھڑکی کی طرف گئی ۔ شام واقعی خلاف معمول اندھیر ی تھی ۔ انہوں نے حیرت سے منزہ کے چہرے کو دیکھا ۔ وہاں اطمینان تھا ، سکون تھا اور بے نیازی ۔” دو انسان اس قدر مشابہ کیسے ہو سکتے ہیں ؟” وہ حیرت اور بے یقینی سے منزہ کو تکتے رہے ۔ ” اکیس سال پہلے سوچ اور نظریے کی بات اس نے مجھ سے کہی تھی اور آج ۔۔۔۔” انہوں نے اپنی آنکھیں بھینچ لیں ۔” یہ تم میرا پیچھا کر رہی ہو ۔ یہ ٹھیک نہیں ۔۔ یہ غلط ہے ۔ میری زندگی سے چلے جانے کا یہ فیصلہ تمہارا اپنا تھا ۔۔ بنا پوچھے جانا اور بنا پوچھے آجانا۔۔۔۔ یہ غلط ہے ۔ سر اسر غلط ہے ۔ ظلم ہے ، زیادتی ہے وہ پھر سے بے چین ہوگئے تھے ۔ ” کسی کو بھول جانے کے لیے اکیس سال کافی ہوتے ہیں ۔ میں تمہیں بھول بھی جاتا لیکن تم مجھے خود کو بھلانے نہیں دے رہی ۔ پھر میں کیا کروں؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ تم نے جا کر ظلم کیا ہے یا یاد آکر ظلم کررہی ہو ؟” انہیں اپنی آنکھوں میں نمی اترتی محسوس ہوئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
کالج سے چھٹی ہوتے ہی وہ مرینہ اور لیزا کے ہمراہ کالج گیٹ سے نکل آئی ۔” ہائے ۔ لیزا! ابھی وہ تینوں سامنے کھڑے رکشے کی سمت جا ہی رہی تھیں کہ لیزا کو کسی مردانہ آواز نے پکارا۔
” شمعون؟” لیزا شمعون کی آواز پہچانتے ہوئے حیرانی سے ادھر ادھر نگاہیں دوڑانے لگی ۔
” وہ وہاں ہیں ۔” عرینہ نے لیزا کا بازو پکڑ کر دھیرے سے کہا ۔ وہ سفید رنگ کی موٹر کا ر کا دروازہ کھولے کھڑا تھا ۔ لیزا مسکراتے ہوئے اس کی جانب بڑ گئی ۔
” میں نے اپنی زندگی میں اس شمعون سے زیادہ بے وقوف انسان کہیں نہیں دیکھا ۔” مرینہ نے شمعون کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔وہ بڑی فراخ دلی سے مسکراتے ہوئے لیزا کے ساتھ باتیں کرنے میں مصروف تھا ۔
” کیوں ؟” عرینہ نے بے دھیانی سے پوچھا۔ اس کی نگاہیں اور اس کا دھیان شمعون اور لیزا کی طرف تھا ۔
” ایک بے وقوفی اس نے یہ کی کہ آپ کی اس چڑیل دوست سے منگنی کر لی اور اس کے اوپر جو بڑی بے وقوفی کررہا ہے وہ یہ کہ اب اس کالی کلوٹی کو لینے کالج بھی آگیا ہے اپنے حسن کو چار چاند لگانے۔
” اس کی اپنی زندگی ہے اس کی مرضی جو بھی کرے ۔تجھے کیا ؟” عرینہ نے بہ دستور شمعون اور لیزا کو دیکھتے ہوئے مرینہ کو ڈانٹا ۔
” آپ کو بہت برا لگتا ہے جب میں آپ کی اس کلموہی ” لیزا ” کے بارے میں کچھ بولتی ہوں” مرینہ نے شکوہ کیا ۔
” بس چھوڑ بھی دو چلو چلیں ۔” عرینہ نے شمعون اور لیزا پرسے نگاہیں ہٹاتے ہوئے کہا۔
” ہاں ۔ چلتے ہیں ۔ آپ کی ” لیزا” تو اپنے شمعون کے ساتھ جائے گی ۔ او مائی گاڈ۔۔۔” مرینہ نے طنز کیا لیکن عرینہ نے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا اور رکشے میں بیٹھنے لگی ۔
” سنو !عرینہ ۔۔۔رکو ۔۔۔۔ لیزا کی پکارسے وہ دونوں مڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگیں ۔
” شمعون چاہتاہے تم دونوں ہمارے ساتھ چلو۔” لیزا ان کی طرف آتے ہوئے بولی ۔ اس سے پہلے کہ عرینہ کوئی بہانہ بناتی مرینہ شمعون کی گاڑی کی طرف بڑھ گئی تھی ۔ کیوں نہ آج رکشے کی بجائے آرام سے موٹرمیں گھر چلے جائیں ۔” اس نے بڑے ہی آرام سے سوچا تھا اور مجبوراً لیزا کے ہم راہ آتی عرینہ نے بڑی بے بسی سے سوچا تھا ۔
” نہ جانے کیوں میں اس شخص کو نہیں دیکھنا چاہتی ؟ مرینہ شاید ٹھیک ہی کہتی ہے یہ بے وقوف ہے لیکن مجھے یہ شخص کسی بھی زاویے سے بے وقوف نہیں لگتا ۔” موٹر میں بیٹھتے ہوئے اس نے ایک بار شمعون کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا جو خفیف اندازمیں اپنی نگاہیں عرینہ پر جمائے ہوئے اور مرینہ کی نگاہوں نے یہ منظر دیکھ لیا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” ایگزیبشن کی ڈیٹ فکس ہو گئی ۔” افصہ نے ٹینس ریکٹ حمائل کو تھماتے ہوئے بتایا ۔
” کب ؟ تجھے کیسے پتا چلا ؟” حمائل نے اپنے ٹینس کورٹ کی طرف جاتے ہوئے افصہ سے سوال کیا ۔
” آج صبح۔ میم رقیہ نے انائونسمنٹ کی ۔ آپ تو لیٹ ہو گئی اور مس کر دیا ۔” افصہ نے شارٹ مارتے ہوئے بلند آواز میں کہا ۔
” مجھے کوئی انٹرسٹ بھی نہیں ۔” حمائل نے بے دلی سے کہا ۔
” انٹرسٹنگ بات یہ ہے کہ اس دن کامی کا برتھ ڈے ہے ۔” افصہ نے تفصیل بتائی تو حمائل شارٹ مارتے مارتے رک گئی ۔ ” یو مین پانچ ستمبر؟”
” یس! ” افصہ حمائل کی سمت آتے ہوئے مسکرائی ۔
” فنٹاسٹک !” حمائل نے اپنے سپورٹس بیگ سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے کہا اور پانی پینے لگی۔
” سٹوپڈز! ایڈیٹیس!” منہ ہی منہ میں گالیا ں دیتا کامل برہم لگ رہا تھا ۔اس نے آتے ہی حمائل سے پانی کی بوتل لی اور غٹا غٹ پانی پی گیا ۔
” وہاٹ ہیپنڈ ؟” حمائل ٹشو پیپرسے اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے بولی ۔
” ان دونوں کی وجہ سے ہر بار ہمارا سپورٹس لیسن خراب ہوجاتا ہے ۔ ” کامل کے لہجے میں شکایت تھی ۔
” تم کس کی بات کررہے ہو ؟ ” حمائل نے نہ سمجھتے ہوئے کہا ۔
” آف کورس ۔ آئی ایم ٹاکنگ ابائوٹ تابو اینڈ میٹ ۔”
اوہ ۔ اچھا ” وہ مسکرائی ۔
” سپورٹس ماسٹر سخت غصے میں ہے ۔۔۔۔ تابو نہ تو اپنا گیم چینج کرتی ہے اور نہ اپنی زبان کو قابو میں رکھنا جانتی ہے ۔” کامل اب بھی برہم تھا ۔
” یار !اس کی ٹیچر ایسی ہے ۔ وہ کرکٹ بھی کھیلے گی اور میٹ کی جان بھی نہیں بخشے گی ۔” افصہ نے اپنا سپورٹس بیگ اٹھایااور کامل اور حمائل کے ہمراہ ٹینس کورٹ سے نکل گئی ۔
وہ تینوں گراؤنڈ کے اس حصے کی جانب چلے گئے ۔ جہاں صبار ، مطیع ،تابندہ کے بیچ صلح کروانے کی ناکام کوشش کررہاتھا ۔
” چھوڑو یہ سب ۔ چلوکامی کے برتھ ڈے کیلئے کچھ پلین کرتے ہیں ۔ حمائل نے آتے ہی موضوع بدل ڈالا کیوں کہ وہ جانتی تھی مطیع او ر تابندہ اگلے لمحے پھر سے کسی اور بات پر لڑ پڑیں گے اس لیے ان کی صلح کروانا فضول ہے ۔
” یارکامی !میں کسی اور دن تیرا برتھ ڈے سیلی بریٹ کر لوں گا ۔ اس چڑیل کو کائی بھروسہ نہیں ۔کیا پتہ یہ کیک کی نایف سے میرا گلا کاٹ دے ۔” مطیع کا اندازسنجیدہ تھا ۔
” شٹ اپ” تابندہ کی دھاڑ سنتے ہی وہ سیدھا ہو کربیٹھ گیا تھا ۔گھنٹی بجتے ہی سب کلاس کی طرف جانے لگے ۔ یہ طے تھا کہ سب دوست کامل کا برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنے اس کے گھر جائیں گے لیکن مطیع اور تابندہ کی موجودگی میں پارٹی کیا موڑ لے گی ؟” اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” شمعون واپس چلا گیا ۔” لیز ا نے عرینہ کو بتایا ۔ وہ آج کچھ اداس سی تھی ۔
” اچھا ۔” عرینہ نے لیز ا کے ہمراہ کلاس کے اندر جاتے ہوئے آہستہ سے کہا ۔ بھلا اس کو شمعون کے آنے یا جانے سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی ؟” ممی کہتی ہیں کہ میرا بی۔اے اور اس کا ایم ۔اے مکمل ہو جائیں تو پھر شادی کر لیں گے ۔” لیزا نے اچانک خوش ہوتے ہوئے کہا ۔ شمعون کے بارے میں بات کرتے وقت اس کی آنکھوں میں جو چمک آتی تھی وہ واقعی قابل دید تھی ۔
” جس طرح تم اسے یاد کر کے اداس ہو جاتی ہے ۔ جس قد ر تمہیں اس سے محبت ہے کہا وہ بھی تم سے اتنی ہی محبت کرتا ہے ؟” عرینہ نے حیرت سے سوچتے ہوئے لیزا کو دیکھا ۔ ” کیاوہ واقعی بے وقوف ہے جس طرح مرینہ کہتی ہے ۔” وہ شاید مزید بھی سوچتی لیکن مس زاہدہ کے آتے ہی اس نے اپنے ذہن سے یہ خیال جھٹک دیا ۔ بھلا اس کو شمعون اور لیزا کے رستے اور محبت سے کیا دلچسپی ہو سکی تھی ؟
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” میں کون سا ڈریس پہنوں؟ بلیک یا بلیو؟” ہینگر میں لٹکے کپڑوں کو دونوں ہاتھوں میں تھامے وہ اپنے والدین کے کمرے میں بنا دستک دیے بے دھڑک داخل ہوئی ۔ اس کو بچپن سے ابو جی کی چوائس پر یقین تھا ۔ وہ جو بھی ڈریس سلیکٹ کرتے حمائل اصغر وہی ڈریس پہنتی چاہے کوئی کچھ بھی کہتا۔
” آئی تھنک ۔۔۔ بلیو! ابو جی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
” امی جی ! آئی ایم آسکنگ یو ۔” وہ اپنے لہجے کی خشکی نہ چھپا سکی ۔ ابو جی کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے وہ امی جی کی طرف متوجہ تھی ۔
امی ، ابو دونوں نے حیرانی سے حمائل کو دیکھا ۔ ” تم کہاں جارہی ہو اس کی بات کا جواب دینے کی بہ جائے الٹا امی نے سوال کر ڈالا ۔
” کامی کا برتھ ڈے ہے کل ۔ وہیں جانا ہے ۔” اس نے دھیرے سے جواب دیا ۔” آپ بتائیں ناں کون سا والا ڈریس اچھا ہے ؟” وہ جبراً مسکرائی ۔
” بلیو ۔” امی جی نے مختصر سا جواب دیتے ہوئے کن اکھیوں سے اپنے شوہرکے حیران چہرے کو دیکھا ۔ وہ ہمیشہ سے اصغر حمید کی ہاں میں ہاں ملاتی چلی آئی تھیں ۔ ان کی پسند کو اپنی پسند بنانے والی مسز مرینہ اصغر کی پسند آج ان سے مختلف کیسے ہو سکتی تھی ؟وہ زندگی کو، لوگوں کو، حالات کو حتی کہ خود کو بھی ان کی نظروں دیکھتی تھیں۔ ان کی اپنی نظر تو اکیس سال پہلے اس گھڑی ختم ہوئی تھی جب ان کی شادی ہوئی تھی اور تب سے آج تک ان آنکھیں وہ کچھ دیکھتی تھیں جو اصغر حمید دیکھتا تھا ، جو کہ ان کا محبوب شوہر تھا جس سے انہوں نے چپکے چپکے بے پناہ محبت کی تھی ۔
حمائل خاموشی سے کمرے سے نکل گئی تو ابو جی کے ذہن میں حیرت کے نئے دروا ہو گئے ۔ یکدم ان کو احساس ہو گیا کہ وہ ان سے ناراض ہے ۔ لیکن اس کی ناراضی کی وجہ کیا ہوسکتی تھی ۔اس کا ان کو اندازہ بھی نہیں تھا ۔ حمائل ان کی لاڈلی اور پیاری بیٹی تھی ۔ وہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی اور شہروز سے کہیں زیادہ ان کے دل کے قریب تھی لیکن آج حمائل کے رویے کی اس تبدیلی نے ان کو گہری سوچ میں مبتلا کر دیا تھا۔ ” تمہاری اس ناراضی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟” نہ جانے ایسا کیا کر دیا میں نے کہ تم مجھ سے یک دم اتنی پرائی ہوگئی ؟کاش تمہیں احساس ہو جائے کہ مجھے تمہاری یہ بے رخی کس قدرتکلیف دیتی ہے۔” انہوں نے تاسف سے سوچا ۔ نجانے وہ حمائل کے بارے میں سوچ کر ہمیشہ جذباتی کیوں ہو جاتے تھے ؟ یک لخت انہیںوہ دن یاد آگیا جب وہ پیدا ہوئی تھی ۔ وہ کس قدر رورہی تھی ۔ اورجب انہوں نے اسے گود میں اٹھایا تھا تو وہ بالکل خاموش ہو گئی تھی ۔ اسی لمحے انہوں نے اسے دل سے لگایا تھا اور جس میٹھے احساس سے وہ دوچار ہوئے تھے اس نے ان کے دل کی ویران دنیا کو آباد کر دیا تھا اور تب ان کی آنکھوں سے اشکوں کے چند موٹے موٹے قطرے گرے تھے۔ کمرے سے نکل کر وہ باہر چلے گئے ۔ دوپہر کا وقت تھا لیکن ان کے دل کے اندر تو ایک اداس سی شام چھائی ہو ئی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
مرینہ اور لیزا کالج کے باہر عرینہ کے آنے کا انتظار کررہی تھیں۔ ” میری تو گرمی کی وجہ سے جان نکلی جارہی ہے ۔ ” لیزا نے پریشان ہوتے ہوئے کہا تو مرینہ نے بے زاری سے اس کی طرف دیکھا۔”اونہہ۔ مسز شمعون کے نازو انداز تو دیکھو۔۔۔ ” اس نے حقارت سے سوچا۔ اس کو لیزاسے بلاوجہ چڑ تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ شمعون جتنی خوش شکل نہیں تھی۔
” سنو مرینہ !علی کی آواز سن کر مرینہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔ وہ اس سے ذرا فاصلے پر کھڑا اسی کی طرف دیکھ رہاتھا ۔
” علی بھائی ! آپ ؟ یہاں؟” علی کی جانب چند قدم بڑھا کر اس نے سوال کیا ۔
” وہ ۔۔۔ میں ۔۔” وہ مناسب الفاظ میں اپنی مدعاکہہ دینا چاہتا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ پاگل سی لڑکی الفاظ کے استعمال میں اتنی ماہر نہیں، وہ جو بے دھڑک سب کچھ بول لیتی تھی ۔
” اچھا ۔ اچھا ۔ تو آپ عرینہ بجیاسے ملنے آئے ہیں ۔” اس کے لہجے میں شرارت تھی اور اس کے ہونٹوں پر پھیلی وہ مسکراہٹ ۔ وہ بنا کچھ بولے مسکرایا ۔” تم سمجھ دار ہو گئی ہو ۔ ان کے لہجے میں شرارت نمایاں تھی ۔
” وہ ابھی تک کالج سے باہر نہیں آئیں ۔ میں جا کر ان کو بلا کے لاتی ہوں ۔” اس نے جلد ی سے کہا اور کالج کے اندر چلی گئی ۔
” تو یہاں کیا کررہی ہے ؟ سامنے سے آتی عرینہ نے اس سے پوچھا ۔
” اے بجیا! بڑی دیر لگا دی ۔ ” مرینہ نے شکایت کی ۔
” پیاس لگی تھی ۔پانی پی رہی تھی ۔ ” عرینہ نے بے نیازی سے کہا ۔
” یہاں آپ اپنی پیاس بجھانے میں لگی ہیں اور وہاں کسی کی پیاس بڑھ رہی ہے ۔” اس کی آنکھوں میں شرارت تھی ۔
” کس کی ؟” عرینہ نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس کیطرف دیکھا۔
” آپ کے عاشق مزاج منگیتر صاحب کی ۔ ” اس نے گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے کہا ۔ اس کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی ۔
” کیا ؟” عرینہ کا منہ اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔
” ہاں۔ وہ دیکھیں۔” مرینہ کی نگاہوں کے تعاقب میں اپنی نگاہیں دوڑاتی عرینہ نے علی کو دیکھ لیا تھا ۔
” اجلی شلوار قمیص پہنے وہ اپنی جیپ کے سامنے کھڑا کسی سوچ میں گم تھا۔ ایک لمحے کو اس کے دل کی دھڑکن رکی اور پھر اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔” آپ کا یہ مردانہ پن، آپ کیا یہ رعب اور آپ کا یہ الگ سا انداز ۔۔۔ مجھے آپ کی طرف کھینچتا جاتا ہے ۔” اس نے بڑے کُھلے انداز سے سوچاتھا ۔
” جائیں ۔ کافی دیر سے آپ کا انتظار کررہے ہیں ۔ ” مرینہ نے اس کا بازو پکر کر زور سے ہلایا تو وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی علی کی جانب بڑھ گئی اور مرینہ ، لیزا کے ہمراہ رکشے میں بیٹھ کر گھر چلی گئی ۔
” ہم کہاں جا رہے ہیں ؟ جیپ میں بیٹھتے ہی عرینہ نے سوال کیا ۔
” اغوا کرنے نہیں آیا ۔ کہیں کھانا کھانے چلتے ہیں ۔” علی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
” اماں ۔۔۔ ” عرینہ کے گلے میں جیسے اچانک کوئی چیز اٹک گئی تھی ۔وہ سخت گھبرارہی تھی اور اس کی اسی گھبراہٹ سے علی لطف اندوز ہو رہا تھا ۔فکر نہ کرو ۔ میں نے بندوبست کر دیا ہے ۔” علی کی اس بات سے اس کی گھبراہٹ میں تھوڑی کمی ہوئی تھی لیکن پھر بھی وہ مسلسل خاموش رہی ۔ ” میں نے شاید غلط سُناہے کہ تم بہت بولتی ہو ۔” وہ اس کو بولنے پر اُکسا رہا تھا ۔” میں موقع دیکھ کر بولتی ہوں ۔ اس نے دھیرے سے کہا تو علی کے ہونٹوں پر ایک دل کش مسکراہٹ چھا گئی ۔ ” یعنی میرے ساتھ تم موقع دیکھ کر بات کرو گی ؟وہ اب اسے چھیڑ رہا تھا ۔ وہ جواباً خاموش رہی بلکہ اس کے بعد وہ زیاد ہ تر خاموش رہی تھی ۔ کھانے کے دوران بھی وہ مکمل خاموش تھی صرف ایک بار اس نے علی سے کہا تھا” دیر ہورہی ہے ۔ مجھے اپنے گھر چھوڑ دیں ۔ ” عرینہ کی اس بات پر وہ خاموشی سے اٹھ کر بل ادا کرنے گیا تھا اور واپس آ کر اس نے کہا تھا:” ہاں دیر تو ہورہی ہے ۔ اماں سے بات کرتا ہوں کہ تمہیں اپنے گھر چھوڑ آؤں ۔ مہینوں بعد کہیں جا کر تم سے ملنا۔۔۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ ” وہ سنجیدہ تھا۔ عرینہ نے علی کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔ صرف حیرانی سے ایک بار اس کی طرف دیکھا اور نگاہیں جھکا لیں ۔
وہ اس کو لیز ا کے گھر چھوڑ گیا تھا اور جاتے وقت وہ اس کو سونے کا ایک حسین لاکٹ دے گیا تھا۔” دل تو چاہتا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے تمہیں پہنا دوں لیکن تمہاری گھبراہٹ دیکھ کر لگتا ہے کہ خود کو باز رکھوں ۔” اور پھر وہ چلا گیا تھا ۔ عرینہ دل میں ایک حسین احساس لیے لیزا کے گھر گئی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
ملازمہ جب رات کے کھانے پر بلانے آئی تو اس نے بیالوجی کی کتاب بند کرکے سٹڈی ٹیبل پررکھ دی اور کمرے سے نکل آئی۔ منزہ پہلے سے ہی باہر تھی ۔ڈائننگ روم کے اندر جا کر اس نے خاموشی سے ایک کرسی کھینچی اور اس پر بیٹھ گئی ۔
” تمہاری تیاری ہو گئی کل کیلئے ؟ امی نے اس کی پلیٹ میں بریانی ڈالتے ہوئے پوچھا۔
” جی ہو گئی ۔” اس نے مختصر سا جواب دیا اور کھاناکھانے لگی ۔
” کامل کیلئے گفٹ لیا تم نے ؟” امی نے ایک اور سوال کر ڈالا ۔
” Not yet۔۔۔. کل ہو جائے گا۔ ” اس نے رائیتہ اپنی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا تو ابو نے بے اختیار اس کے چہرے کو دیکھا ۔ وہ حد سے زیادہ سنجیدہ اور بے نیاز لگ رہی تھی ۔ان کی بے چینی مزید بڑھ گئی ۔
” پارٹی کس ٹائم ہے ؟” انہوں نے جان بوجھ کر ایک غیر ضروری سوال کیا جس کے جواب میں حمائل کافی دیر تک خاموش رہی ۔
” ایوننگ میں ۔” ان کی طرف دیکھنے کی زحمت کیے بغیر کہا اور جلدی جلدی کھانا کھانے لگی ۔ اور اسی لمحے انہیں اپنے سینے میں دل کہیں بہت نزدیک درد اٹھتا محسوس ہوا ۔ انہوں نے کھانا چھوڑ دیا۔
” بیٹا اب تم بڑی ہو گئی ہو ۔ اپنے دوستوں کا حلقہ محدود کرو اور مختصر رکھا کروI don’t like parties and celebrations۔۔۔ نہ جانے انہوں نے وہ بات کیوں کہی جو وہ کہنا نہیں چاہتے تھے۔
” But i like both of them ” انتہائی خشکی سے ادا کیا گیا وہ جملہ ان کو بڑی تکلیف دے گیا تھا ۔ حمائل اور بھی تیزی سے کھانا کھانے لگی تھی ۔امی نے قدرے غصے اور شہروز نے حیرانی سے حمائل کو دیکھا تھا لیکن اس نے ان کو مکمل نظر انداز کر دیا تھا اور تیزی سے کھانا کھاتی رہی ۔
وہ بڑی بے بسی سے سر جھکائے بیٹھے رہے ۔ کسی بڑے مجرم کی طرح وہ اس پر چیخ بھی سکتے تھے۔ ِچلاَّ بھی سکتے تھے اور اس پر ہاتھ بھی اٹھا سکتے تھے لیکن وہ تو حمائل اصغر تھی ۔ ان کی بیٹی ۔۔ ان کے جینے کی وجہ ۔۔ وہ سرجھکائے خاموشی سے بیٹھے رہے ۔ ” یہ فضول کی نصیحتیں آپ ان کو کریں جو آپ کی اصلیت نہ جانتے ہوں لیکن میں آپ کی اصلیت سے بہ خوبی واقف ہوں ۔” تیزی سے کھانا کھاتے ہوئے وہ سوچتی رہی ۔ غم وغصے کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ۔ اس نے پانی کا گلاس بھر کر پی لیا اور اچانک اسے احساس ہوا کہ اس نے گنجائش سے زیادہ کھاناکھا لیا ہے ۔اس نے بے زاری سے پلیٹ اپنے سامنے سے دھکیل دی۔
نگاہ اٹھا کر اس نے دیکھاامی جی ایک ایک کر کے باری بار ی سب کی باؤلز میں فروٹ چاٹ ڈال رہی تھیں ۔حمائل نے دیکھا ان کے کٹے ہوئے سیاہ بال بڑے سلیقے سے ان کے کندھوں پر پڑے تھے ۔دھیر ے دھیرے ان کی اٹھتی جھکتی نگاہیں ان کی معصومیت میں اضافہ کررہی تھیں۔ ان کی گوری رنگت اور ان کے چہرے کی بشاشت ان کو کس قدر حسین بنا رہی تھی ۔حمائل کو یک لخت ان پر ڈھیر سارا پیار آنے لگا ۔ پھر اس نے نظر گھما کر اپنے باپ کی طرف دیکھا تو ان کے ماتھے پر فکر کی شکنیں تھیں۔ ان کی افسردہ آنکھوں میں بے بسی اور غم و ملال نمایا ں تھا ۔ان کی کنپٹیوں کے قریب بالوں میں سفیدی اتر چکی تھی۔ اسے یک دم تیکھے نقوش والی اپنی حسین ماں کے سامنے افسردہ آنکھوں اور ملول چہرے والا اپنا باپ قدرے عمر رسیدہ اور غم زدہ لگنے لگا ۔ بے اختیار اس کو اپنی ماں پر ترس آنے لگا اس نے جلد ی سے اپنے باپ کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں ۔ اس کو اب اس ماحول میں الجھن ہورہی تھی ۔ وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھی اور ڈائیننگ روم سے باہر چلی گئی ۔کسی نے اسے پیچھے سے آواز دی تھی ۔ شاید ابو نے ۔۔۔ لیکن وہ نہیں رکی تھی ۔
اپنے کمرے میں داخل ہو کر وہ لائٹ آن کیے بغیر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔اس نے دیکھا کھڑکی کھلی تھی اور اس پر سے پردے سرکے ہوئے تھے ۔ باہر ہلکی ہلکی بارش برس رہی تھی ۔ کھلی کھڑکی میں سے ہوا کا ایک سرد جھونکا اند ر آیا اور حمائل کے وجود سے ٹکراکر فضا میں تحلیل ہو گیا ۔اس کے وجود میں ایک سرد لہر دوڑ گئی تو وہ سمٹ کر بیٹھ گئی اور خاموشی سے بارش برسنے کا نظارہ کرتی رہی۔
ہلکی ہلکی بارش برسنے کی آواز پر یوں گمان ہوتا تھا جیسے دو پریمی اندھیرے میں چپکے چپکے سرگوشیوں میں باتیں کررہے ہوں اور دھیرے دھیرے چلتی ہوا کی آواز یوں لگ رہی تھی جیسے کوئی طوائف مجرے سے تھک کر واپس آئی ہو اور بھار ی بھاری قدم اٹھا کر چل رہی ہو اور اس کے گھنگھرو کی چھنکار کسی خوابیدہ نغمے کی مانند فضا میں پھیل رہی ہو ۔ گیلی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو اسے بیڈ سے کھڑکی تک کھینچ لائی ۔ اسے بہت بے چینی ہو رہی تھی ۔وہ حد سے زیادہ جذباتی تھی اس لیے اسے چھوٹی چھوٹی حقیقتیں بے انتہا پریشان کر دیتی تھیں لیکن یہ حقیقت تو نہیں تھی ۔ کاش وہ امی کو یہ بتا سکتی کہ ان کا شوہردھوکے باز ہے ۔ یکد م اسے پیاس لگنے لگی ۔وہ جلدی سے سائڈ ٹیبل کے پاس گئی تھی لیکن جگ میں پانی نہیں تھا۔ اس کا گلا خشک ہورہا تھا ۔وہ کمرے سے نکل گئی ۔
” منزہ ! تم تو پارٹیسپیٹ کررہی ہو ناں اس اس ایگزیبیشن میں ؟ کچن کی طرف جاتے ہوئے اس نے شہروز کی آواز سنی تھی ۔ وہ لاؤنج کے صوفے پربیٹھا ٹی وی دیکھ رہاتھا اور اس سے کچھ فاصلے پر منزہ بیٹھی تھی ۔
” تم وہ ” Sunset ” اور ” Sea beach ” والی پینٹنگرز لے جانا وہ بیسٹ ہیں ۔ شہروز پھر سے بول پڑا تھا ۔کچن کی طرف جاتے اس کے قدم رک گئے ۔ اس نے منزہ کے سنجیدہ چہرے کو دیکھا وہ لڑکی واقعی اپنی ماں پر گئی تھی ۔ حمائل کی نگاہوں میں خالہ کا سنجیدہ اور معصوم سا چہرہ گھو م گیا ۔اسی لمحے حمائل کو لگا اسے اپنی مری ہوئی اس خاموش اور کم گو خالہ سے نفرت ہے ۔
وہ کچن کی طرف بھاگی تھی ۔ فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال کر اس نے غٹا غٹ پانی پیا تھا لیکن اس کی پیاس نہیں بجھی تھی ۔ اس کا دل چاہا وہ کچن سے ایک تیز دھار چھری اٹھا کر منزہ کو قتل کر دے ۔ اس کی جنونی کیفیت لوٹ آئی تھی ۔ وہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی اور ڈریسنگ روم میں اس چھوٹی سی الماری منزہ کی فریم شدہ پینٹنگز نکال نکال کر فرش پر پھینکنے لگی جس میں منزہ اپنی پینٹنگز فریم کروا کر رکھا کرتی تھی ۔
تھوڑی سی جدو جہد کے ساتھ اسے وہی دو پینٹنگز مل گئیں ۔ دوسری الماری سے ایک بیگ نکال کر اس نے وہ پینٹنگز اس میں سما دیں اور ڈریسنگ روم سے نکل آئی ۔
سائڈ ٹیبل پر سے اپنا سیل فون اٹھا کر وہ افصہ کو فون ملانے لگی ۔
” ہیلو۔ ایف ! میں نہیں آپاؤں گی کل کامی کی برتھ ڈے پارٹی میں ” ْ
” کیوں ؟ کیا ہوا ؟ تیری آواز کو کیا ہوا ؟” افصہ نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا ۔
” آئی ایم ناٹ فیلنگ ویل ۔” اس نے اپنی آوا ز مدھم رکھتے ہوئے کہا ۔
” اوکے ۔ ٹیک کیئر ۔ آئی ویل ٹیل کامی ۔”
” بائے ۔فون بند ہوتے ہی وہ ہنسنے لگی ۔ بے تحاشا ہنسنے لگی تھی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...