آرزو تو ہے کہ اظہارِ محبّت کر دوں
لفظ چنتا ہوں تو حالات بدل جاتے ہیں
پارسا آدھی رات کو پھر سے رامش کے کمرے میں پہنچ گئی جہاں وہ گہری نیند میں سو رہا تھا۔ پارسا وہیں بیڈ کے ایک طرف ہو کر لیٹ گئی اور رامش کے قرب کو محسوس کرنے لگی۔۔
“دیکھو رامش میں تم سے اتنا پیار کرتی ہوں کہ کسی تیسرے وجود کو برداشت نہیں کر سکتی۔۔ ایک تم ہو جو میری طرف دیکھتے بھی نہیں ہو۔ کیا ہے اس رمشا میں جو مجھ میں نہیں ہے۔ میں اس سے زیادہ خوبصورت ہوں مگر میری یہ خوبصورتی بھی تمہیں میرا اسیر نہیں کر سکتی رامش۔۔ آج میں تمہاری خاطر اپنی عزت کا وہ تماشا بنانے جا رہی ہوں جس کے بعد تم زندگی بھر کے لیۓ میرے ہو جاؤ گے۔۔۔” ایک تلخ مسکراہٹ نے پارسا کے سراپے کو گھیرے میں لے لیا۔۔
اس نے رامش کے ناک کے قریب رومال کیا جس سے کچھ ہی لمحوں میں وہ بے ہوش ہو گیا۔۔ اس کے بعد اس نے رامش کی شرٹ کے بٹن کھولے اور خود کو اس کے مزید قریب کر لیا۔۔
“میرے نہیں تو پھر اس رمشا کے بھی نہیں۔۔۔۔” پارسا کے وجود میں شرارے سے پھوٹنے لگے۔۔
*————————-*
نعمان نے جیسے ہی رانیہ کا حجاب اتارا تو فائر الارم کی آواز ہوٹل میں ہر طرف گونجنے لگی۔ اس نے اپنی جان بچانے کا سوچا اور رانیہ کو وہیں چھوڑ کر باہر لابی میں آ گیا جہاں ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ دھوئیں کی وجہ سے باہر جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اچانک ہی لوہے کی ایک بھاری سلاخ نعمان کے دائیں کندھے پر آ کر گری اور وہ وہیں گر گیا۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا مگر کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا۔۔
*————————-*
“ایبک تم اس ٹائم ادھر کیا کر رہے ہو۔۔۔؟؟” ایبک کے پاس گاڑی روک کر رمشا نے شیشہ نیچے کیا اور اس سے سوال کیا۔۔
“وہ میں۔۔۔ ایک کام تھا ادھر قریب تو اسی لیۓ۔۔” ایبک نے خود کو حتی المقدور نارمل کرتے ہوۓ جواب دیا۔۔
“تم نے اس لڑکی کو کہیں دیکھا۔۔۔” رمشا گاڑی سے نیچے اتری اور موبائیل میں رانیہ کی تصویر ایبک کو دکھاتے ہوۓ استفسار کیا۔۔
“یہ سوال تم مجھ سے کیوں کر رہی ہو رمشا۔۔۔؟؟” ایبک کے چہرے پر ایک دم میں پریشانی در آئی۔۔
“کیوں کہ میں صرف سچ جاننا چاہتی ہوں۔۔ دیکھو ایبک تمہارا ایک جھوٹ کسی کی ذندگی خراب کر کے رکھ دے گا اور پھر شاید تم خود کو کبھی معاف نہ کر سکو۔۔”
“چلو میرے ساتھ رمشا۔۔۔۔” رمشا نے مہرین کو گاڑی سے باہر آنے کا اشارہ کیا۔۔ پھر گاڑی لاک کی اور ایبک کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔۔۔
“یا اللہ میری آپی کو کچھ نہ ہو پلیز۔۔ وہ تو آپ سے بہت پیار کرتی ہیں اللہ۔۔ آپ انھیں جلدی سے ہم سے ملوا دیں۔۔۔” مہرین نے اللہ سے رانیہ کی سلامتی مانگی۔۔۔
*————————–*
“اوہ مائی گاڈ۔۔۔ یہ سب کیسے۔۔۔” ہوٹل کے در و دیوار سے لپٹے شعلے دیکھ کر ایبک کا رنگ فق ہو گیا۔۔۔
“کیا ہوا۔۔۔؟؟ کہاں ہیں میری آپی۔۔؟؟” مہرین نے ایبک سے پوچھا۔۔
“وہ تو اس ہوٹل کے اندر۔۔۔” ایبک نے ہوٹل کی طرف اشارہ کیا۔۔
“کیا کہہ رہے ہو ایبک۔۔ رانیہ یہاں کیسے۔۔۔؟؟” رمشا بھی بول پڑی۔۔۔
“وہ سب تو میں تمہیں اس ٹائم نہیں بتا سکتا رمشا۔۔۔”
مہرین اندر کی طرف بھاگنے لگی تو رمشا نے اس کا دایاں بازو پکڑ لیا۔۔
“یہ کیا کرنے جا رہی ہو مہرین۔۔ دیکھو فائر بریگیڈ والے اپنا کام کر رہے ہیں۔۔ ہمیں یہیں ویٹ کرنا چاہیۓ۔۔۔”
“آپ اتنی بے حس کیسے ہو سکتی ہیں رمشا باجی۔۔ میں آپی کو اس طرح اندر نہیں چھوڑ سکتی۔۔ خدا کے لیۓ مجھے جانے دیں ورنہ میرا سانس بند ہو جاۓ گا۔۔۔” آنسوؤں کا گولہ مہرین کے حلق میں اٹکا ہوا تھا۔۔ اسے کسی بھی چیز کا ہوش نہیں تھا۔۔ اس کے ذہہن میں تو صرف رانیہ کا چہرہ گردش کر رہا تھا۔۔
مہرین نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور اندر کی طرف بھاگنے لگی مگر وہاں موجود عملے نے اسے اندر نہیں جانے دیا۔۔
*————————-*
رانیہ ہوش میں آئی تو دیکھا کہ کمرے میں ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا۔ فرنیچر کو آگ لگی ہوئی تھی۔۔ اس نے جھلسا ہوا دوپٹا اٹھایا اور دروازہ کھولنے لگی مگر شاید باہر سے کسی نے اسے لاک کر دیا تھا۔ اسے اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔۔ وہ باہر بالکونی میں جا کر بیٹھ گئ۔۔
“اللھُم اجِرنی مِن النَار”
“اے اللہ ہمیں جہنم کی آگ سے بچا”
“یا اللہ ہم دنیا کی یہ آگ برداشت نہیں کر سکتے تو دوزخ کی آگ کیسے برداشت کریں گے۔ اے اللہ ہم پر رحم فرمائیں اور ہمارے گناہوں کو بخش دیں۔۔ یا رحیم و غفور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچائیں۔ میں نہیں جانتی کہ آج مجھے بچانے کوئی آۓ گا یا نہیں مگر مجھے آپ کا آسرا ہے اللہ کہ آپ میرے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دیں گے۔۔۔” آنسوؤں کی لڑیاں رانیہ کے گندمی چہرے کو تر کرنے لگی۔۔ وہ آج بھی کسی دنیاوی سہارے کو نہیں پکار رہی تھی بلکہ اس کی زبان پر ایک ہی نام تھا۔۔ اللہ۔۔ اللہ۔۔۔
*———————*
مخصوص دلوں کو عشق کے الہام ہوتے ہیں
محبت معجزہ ہے, معجزے کب عام ہوتے ہیں
شہریار آفریدی کو نیند نہیں آ رہی تھی تو اس نے ٹی وی آن کر لیا۔
“ہم اس ٹائم آپ کو ایک اہم خبر دے رہے ہیں کہ پرنس ہوٹل کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آگ لگنے کی وجہ ابھی تک سامنے نہیں آئی مگر اس کی نوعیت بہت شدید ہے۔۔ آگ پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ ابھی تک ہمیں بیس جانیں ضائع ہونے کی اطلاع موصول ہوئی ہے اور ٹائم کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔۔” سامنے سکرین پر ہوٹل کے مختلف مناظر سامنے آ رہے تھے۔۔ ایک منظر پر آ کر تو شہریار آفریدی پلک جھپکنا ہی بھول گیا۔۔ رانیہ کے سر پر آدھا جلا ہوا دوپٹا تھا اور وہ بالکونی کے ایک کونے میں بیٹھی رو رہی تھی۔۔
شہریار آفریدی نے ہوٹل کی لوکیشن دیکھی۔۔ موبائیل, گاڑی کی چابی اور والٹ اٹھایا اور باہر نکل گیا۔۔ بیس منٹ میں وہ ہوٹل پہنچ گیا تھا۔۔ گاڑی سے اتر کر وہ سیدھا اندر کی طرف جانے لگا۔۔ عملے نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ اپنا راستہ بنانا جانتا تھا۔۔ آگ کی تپش بہت سخت تھی اور دھوئیں کی وجہ سے اس کا سانس بھی اکھڑ رہا تھا مگر رانیہ کو اس حالت میں چھوڑنا اسے گوارہ نہیں تھا۔۔ بہت مشکل سے راستہ بناتے ہوۓ وہ فرسٹ فلور تک پہنچا۔۔ پہلے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ بالکونی کی طرف گیا تو وہاں کوئی نہ تھا۔۔ اس کے سامنے والے کمرے میں بھی اسے رانیہ نظر نہ آئی۔۔ بالآخر چوتھے کمرے کا دروازہ کھولنے پر اسے رانیہ نظر آ گئی۔۔ اسے دیکھتے ہی رانیہ نے اپنا جلا ہوا دوپٹا درست کیا۔۔ آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ شہریار آفریدی کو دیکھنے لگی۔۔۔
*————————-*
رومیسہ کب سے قریشی کا نمبر ملاۓ جا رہی تھی مگر وہ بند جا رہا تھا۔۔
“قریشی کدھر مر گۓ ہو تم۔۔ ایک کام بولا تھا تمہیں کہ ان تصویروں کو لا دو مجھے اور اس کے بدلے تمہیں اتنا کچھ ملتا کہ دنگ رہ جاتے تم۔۔” وہ دل ہی دل میں قریشی کو کوسنے لگی۔۔۔
رومیسہ نہیں جانتی تھی کہ اللہ نے رانیہ کی لاج رکھ لی تھی۔۔ اللہ کی اطاعت کرنے والی رانیہ کی زندگی میں تاریکی بھرنے والوں کا انجام ہو گیا تھا۔۔ رانیہ کی تصویریں لے کر جانے والا قریشی کھائی میں گر گیا تھا اور اس کی عزت کو خاک میں ملا دینے والا نعمان ہوٹل کی لابی میں جھلس رہا تھا۔۔
*————————-*
میری دُنیا کے مصائب کو سمجھنے کے لیے۔۔
تُو نے دو دن میری دُنیا مِیں گُزارے ہوتے۔۔
شہریار آفریدی بالکونی تک گیا اور رانیہ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا مگر وہ تپتی ہوئی گرِل کا سہارا لے کر اٹھ گئی۔۔ شہریار آفریدی کو یہ سب اچھا نہیں لگا مگر وہ کچھ نہ بولا۔۔۔ رانیہ شہریار آفریدی کے پیچھے چلنے لگی۔۔ کچھ ہی دیر میں اس کی ہمت جواب دے گئی, اسے چکر آنے لگے اور وہ بے ہوش ہونے لگی۔۔ شہریار آفریدی نے اس کے گرتے وجود کو تھام لیا اور اسے اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔ باہر کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔۔ بمشکل شہریار آفریدی سیڑھیوں تک پہنچا اور آرام سے سیڑھیاں اترتے ہوۓ باہر تک آ گیا۔۔۔ اس نے رانیہ کو اپنی گاڑی میں ڈالا اور اسپتال کی طرف گاڑی دوڑائی۔۔
*————————-*
رامش کی آنکھ کھل گئی تھی۔ اس نے سائیڈ ٹیبل سے گھڑی اٹھائی اور ٹائم دیکھا, صبح کے سات بج چکے تھے۔۔ وہ بیڈ سے اٹھنے لگا تو اس کی نظر دوسری جانب گئی۔۔ پارسا وہاں لیٹی ہوئی تھی۔۔
“یہ سب کیسے۔۔۔ رات کو تو میں اکیلا ہی سویا تھا۔۔؟؟” رامش نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ پارسا کیسے آئی مگر اسے کچھ یاد نہ آیا۔۔ باہر دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔۔ رامش کو لگا کہ دردانہ بیگم آ گئی ہیں اور یہ سب دیکھ کر تو وہ رامش کی کسی بات پر یقین نہیں کریں گی۔۔۔ ویسے بھی انھیں تو پارسا ہی عزیز ہے۔۔ دستک تیز ہو گئی تھی۔۔۔ رامش لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ دروازے پر گیا اور دروازہ کھولا۔۔۔
*————————*
“سر پلیز میری آپی کا کچھ بتائیں۔۔ اتنی دیر ہو گئی ہے اور ان کا کچھ پتا نہیں۔۔” جب آدھے گھنٹے سے اوپر ہو گیا اور رانیہ نہیں نظر آئی تو مہرین نے عملے سے پوچھا۔
“آپ اسپتال جا کر دیکھ لیں۔۔ ہو سکتا ہے انھیں وہاں پہنچا دیا گیا ہو۔۔” عملے میں سے کسی نے جواب دیا۔۔
“چلیں رمشا باجی اسپتال جا کر دیکھتے ہیں۔۔ شاید آپی وہاں ہوں۔۔۔” موہوم سی امید لیۓ رمشا اور مہرین اسپتال جانے لگے۔۔ ایبک کو رمشا نے اپنی شکل گم کرنے کا کہہ دیا تھا اسی لیۓ وہ پہلے ہی گھر جا چکا تھا ۔
ایمرجنسی میں ہی انھیں رانیہ نظر آ گئی تھی۔۔۔ شہریار آفریدی بھی وہیں تھا۔۔۔
“شہریار تم یہاں۔۔۔ سب خیریت۔۔۔؟؟” رمشا نے مشکوک ہو کر سوال کیا۔۔۔
“ہاں میں ایک فرینڈ کی طرف آیا تھا۔۔ تم بتاؤ۔۔؟؟” شہریار آفریدی نے رانیہ کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
“ہم لوگ تو رانیہ کو دیکھنے۔۔ کب سے اسے ڈھونڈ رہے تھے۔۔ پتا نہیں وہ وہاں ہوٹل کیسے پہنچ گئی تھی۔۔۔۔” رمشا یہ کہہ کر ڈاکٹر کی طرف چلی گئی۔۔ شہریار آفریدی بھی پیچھے پیچھے گیا۔۔
“گبھرانے کی بات نہیں ہے۔۔ بس سٹریس کی وجہ سے پیشنٹ بارہا بے ہوش ہو گئی تھیں۔۔ وہ تو اچھا ہے کہ زیادہ دھواں اندر نہیں گیا ورنہ ان کے لنگز بھی ڈیمج ہو سکتے تھے۔۔ باقی ہم نے ٹریٹمنٹ کر دی ہے اور یہ میڈیسنز آپ کو باہر سے مل جائیں گی, ٹائم پر دے دینا۔۔ آپ انھیں لے کر جا سکتے ہیں۔” ڈاکٹر نے کچھ احتیاطی تدابیر بتا کر رانیہ کو لے جانے کا کہا۔۔۔ رمشا اسے گھر لے گئی تھی۔۔ ایک ہیبت ناک رات کا اختتام ہو چکا تھا۔
*————————–*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...