وہ چہرے پر سپاٹ تاثرات سجائے گاڑی میں آ کر بیٹھی تو ارتضی نے بنا دیر کیے گاڑی سٹارٹ کی۔ گھر سے نکلنے کے بعد مین روڈ پر پہنچنے پر ارتضی نے اسے دیکھا جو فرنٹ سیٹ پر لاتعلق سی بیٹھی باہر دیکھنے میں مگن تھی۔
“کہاں چلیں؟” ارتضی نے سٹئیرنگ گھماتے ہوئے پوچھا۔
“آپ کو بات کرنی ہے تو جہاں آپ کہیں۔” مختصر مگر خاصا روکھا جواب آیا تھا۔
“ہممم یہ بھی ٹھیک ہے۔” اس نے برا منائے بغیر کہا۔ وہ رخ موڑ کر دوبارہ شیشے کے پار دیکھنے لگی۔
“آپ نے اپنے بارے میں تو کچھ بتایا ہی نہیں۔” ارتضی نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا۔
“آپ نے پوچھا ہی کب ہے؟”
“یہ بھی ٹھیک ہے۔ ہم لوگ اب ایک رشتے میں بندھنے جا رہے ہیں تو کم از کم ایک دوسرے کی مصروفیات تو پتہ ہوں ۔ چلیں سب سے پہلے مجھے یہ بتائیں کہ آپ کی تعلیم کیا ہے اور کیا کرتی ہیں؟”
“اگر میں کہوں کہ بس واجبی سی ہی تعلیم ہے اور کوئی جاب وغیرہ بھی نہیں کرتی تو کیا آپ اس رشتے سے انکار کر دیں گے؟” دانین نے الٹا سوال کیا۔
“اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔” اس نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔
“ایسی بات تو ہے، پہلے بھی آپ خاصا اجتجاج کر چکے ہیں۔” اس نے چبھتے لہجے میں کہا تو وہ خاموش ہوگیا۔
“کرمنالوجی میں ماسٹرز کیا ہے اور ایک چھوٹے سے کالج میں لیکچرر ہوں۔ کافی دیر تک جب اس کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا تو اس نے آہستگی سے کہا ”
“گڈ۔” ارتضی نے سگنل پر گاڑی روکتے ہوئے کہا۔ ایک سیاہ مرسیڈیز جس کے شیشے بھی سیاہ تھے عین ان کے برابر آ کر رکی۔
“میں مرتضی بھائی کے ساتھ آفس جاتا ہوں اور بس ۔”
“بس؟” دانین نے مڑ کر اسے دیکھا تو اس نے سر ہلایا۔
“اور علیزہ ؟” اس کا لہجہ خود بخود ہی سرد ہوگیا ۔
“وہ میرا ماضی تھا اور میرا نہیں خیال کسی کو اس کے ماضی کو لے کر اسے جتانا چاہیئے۔” اس نے گاڑی ریستوران کے باہر روکتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
“تو پھر میرا بھی تعین کریں کہ میں کیا ہوں؟ آپ کا حال یا پھر فی الحال ؟” اس کے سوال پر گاڑی کا دروازہ کھولتے ارتضی کے ہاتھ ایک پل کے لیے تھمے۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ سوالیہ نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ وہ بنا کوئی جواب دیے باہر نکل کر فرنٹ سائیڈ سے گھوم کر اس کی طرف آیا اور گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے گویا ہوا۔
“ہم لوگ پہنچ چکے ہیں۔”
اپنا سوال پسِ پشت جاتا دیکھ کر وہ لب بھینچتی باہر نکلی اور اس سے ایک قدم آگے چلتی ہوئی ریستوران میں داخل ہوئی۔ ان کے اندر داخل ہونے کے بعد وہ بلیک مرسڈیز بھی وہاں آ کر رکی اور اس میں موجود شخص باہر نکل کر ریستوران کی طرف بڑھا۔
بیرے کو آرڈر دینے کے بعد وہ اس کی جانب متوجہ ہوا جو کرسی پر ٹیک لگائے سینے پر بازو لپیٹے سنجیدگی سے بیٹھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
“ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟” اس کو مسلسل خود کو دیکھتا پا کر اس نے نروس ہوتے سوال کیا۔
“میں نے گاڑی میں ایک سوال کیا تھا اس کے جواب کی منتظر ہوں۔” اس نے سپاٹ انداز میں جواب دیا۔ وہ کچھ لمحے تک اسے دیکھتے رہنے کے بعد گہری سانس لیتے ہوئے گویا ہوا۔
“علیزہ سے میری ملاقات ایک حادثاتی ملاقات تھی۔ تقریباً چھ سے سات ماہ پہلے شہر سے باہر سے واپسی پر مجھے وہ راستے میں ملی تھی۔ اس کی گاڑی خراب ہوگئی تھی۔ مجھ سے لفٹ مانگی تو میں نے دے دی۔ اس کے بعد میں نے کافی بار اسے اپنے آفس کے باہر دیکھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ ہمارے آفس سے دو تین بلڈنگز چھوڑ کر ہی جاب کرتی ہے۔ رفتہ رفتہ ہماری دوستی ہوگئی۔ مجھے وہ ایک اچھی لڑکی لگی، سادہ سی معصوم سی تب مجھے یہ نہیں پتہ تھا کہ ماما کیا سوچ رہی ہیں سو میں اس کی طرف بڑھتا گیا۔ محبت تو نہیں تھی مگر ہاں پسنددیدگی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے دماغ میں نجانے کیا چل رہا تھا مگر میں نے مکمل ایمانداری کے ساتھ اس کی طرف قدم بڑھایا تھا۔ اس سے میں نے کئی بار کہا کہ میں ماما بابا کو بھیجنا چاہتا ہوں رشتے کے لیے مگر وہ ہر بار منع کر دیتی۔ پھر ایک دن ماما نے آپ کے حوالے سے بات کی اس وقت چونکہ میں علیزہ سے کہہ چکا تھا کہ میں اسی سے ہی شادی کروں گا اس لیے زبان سے مکرنا میرے لیے آسان نہیں تھا۔” ویٹر جوس لے کر آیا تو وہ کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوگیا۔ جب وہ جوس رکھ کر پلٹ گیا تو وہ دوبارہ سے گویا ہوا۔
“پھر ایک دن ماما نے اچانک ہی آپ کو رنگ پہنا دی۔ حالات و واقعات کی رو سے میرا اجتجاج کرنا بنتا تھا جو میں نے کیا اور اسی میں ،میں آپ سے بھی بدتمیزی کر گیا جس کا مجھے بہت افسوس ہے۔ پھر ایک دن مجھے علیزہ کے حوالے سے کچھ ملا تصدیق کرنے پر وہ سچ ثابت ہوا اور میں نے اسے چھوڑ دیا اور مجھے اس کو چھوڑنا ہی تھا کیونکہ میں کسی مجرم کو سپورٹ نہیں کرسکتا۔”
“اور اگر وہ مجرم نہیں ہوتی تو؟” دانین نے ابرو اچکائے۔
“تو ظاہر ہے مجھے اس کے ساتھ کیا وعدہ نبھانا تھا اور میں ہر حال میں نبھاتا۔ مجھ میں لاکھ برائیاں سہی مگر زبان کا پکا ہوں۔” اس نے صاف گوئی سے کہا۔
“اس صورت میں میرا کیا مقام ہوتا؟” اس نے خشک لہجے میں پوچھا۔
“میں آپ سے معذرت کر لیتا۔” اس نے جس اعتماد سے کہا تھا وہ اسے دیکھ کر رہ گئی
“تو پھر؟”
“پھر کیا؟” اس نے جوس کا گلاس اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا۔
“میرا سوال ابھی بھی وہیں ہے۔”
“کون سا؟” اس نے جوس کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا۔
“علیزہ آپ کا ماضی تھی اور میں آپ کا حال ہوں یا فی الحال۔” اس نے جوس کا خالی گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے اپنا سوال دہرایا۔
“پہلے وضاحت کریں کہ اس بات کا کیا مطلب ہے؟”
“صاف مطلب ہے کہ آپ مجھے اپنا حال سمجھ کر قبول کر چکے ہیں یا فی الحال اسی پر گزارہ کر لیتے ہیں کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔”
“استغفراللہ۔” اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
“آپ نے مجھے کیا ایسا سمجھ رکھا ہے؟” اس نے صدمے سے اسے دیکھا۔
” ابھی کچھ دیر پہلے آپ نے ہی حالات و واقعات کی بات کی ہے اور حالات و واقعات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔”اس نے کندھے اچکائے
“میں تمام صورت حال آپ کو بتا چکا ہوں اس کے باوجود بھی آپ ایسا کچھ سوچ کر میرے کردار پر انگلی اٹھا رہی ہیں۔” وہ تھوڑا برہم ہوا۔
“اچھا چلیں میں آپ کو کچھ بتاتی ہوں۔ میں ایک لڑکے کو پسند کرتی ہوں اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“واٹ؟” وہ تقریبا چیخا۔
“میں نے صرف بات شروع کی ہے اور آپ اچھل پڑے ہیں۔ خود کو میری جگہ پر رکھیں اور ایمان داری سے بتائیں اگر جو واقعی ہی میرا کسی سے افیئر ہوتا تو آپ یہ بات جان کر بھی مجھے اپناتے؟ اگر جو اپنا لیتے تو کیا ساری زندگی میرے کردار سے مشکوک نہیں رہتے؟ کسی مرد سے بات کرتا دیکھ کر یہی سمجھتے کہ میں کچھ غلط کر رہی ہوں۔ صرف اس لیے کہ میرا کردار آپ کی نظر میں مشکوک ہوچکا ہوگا۔ اپ کبھی بھی مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے۔ کیا کبھی کر پاتے؟” اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ نظریں جھکا گیا۔ دانین تلخی سے مسکرائی۔
“نہیں کرتے، تو پھر مجھ سے کیوں توقع کر رہے ہیں کہ میں آپ کا اپنی طرف پلٹنا اتنی آسانی سے قبول کر لوں گی۔”
“آپ حق بجانب ہیں۔ میری غلطیاں تھیں اور۔۔۔” بولتے بولتے اس کی نظر سائیڈ پر گئی جہاں ایک لڑکا بہت انہماک سے دانین کو گھورنے میں مصروف تھا۔ ارتضی نے اسے زبردست گھوری سے نوازا تو وہ گڑبڑا کر نظریں جھکا گیا۔ دانین اس کو بات ادھوری چھوڑتے دیکھ کر اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی۔
“میں مانتا ہوں میری کچھ غلطیاں تھیں مگر یقین کریں دل پھینک نہیں ہوں جو آج ایک جگہ اور کل دوسری جگہ۔ میرے نزدیک میری کمٹمنٹس سب سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔ اس سے زیادہ میں اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہوں گا اور نہ ہی میں بڑی بڑی باتیں کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔ اپنے عمل سے آپ کو ثابت کر دوں گا کہ میں اپنی باتوں میں کہاں تک درست تھا۔”
“ایک آخری سوال؟” دانین ٹیک چھوڑ کر سیدھی ہوتی ہوئی بولی۔
“جی پوچھیں۔”
“آپ نے کہا آپ علیزہ سے محبت کرتے تھے تو میں اس محبت کی حد جاننا چاہتی ہوں۔” اپنی بات کے ردعمل پر اس نے ارتضی کا دھواں دھواں ہوتا چہرہ دیکھا۔
“کیا ہوا؟ کچھ غلط پوچھ لیا؟” اس نے اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہ آنکھیں بند کر کے ایک طویل سانس لے کر خود کو سنبھالتے ہوئے سیدھا ہوا
“نہیں ۔ بس آپ کی صاف گوئی مجھے حیران سے زیادہ پریشان کر گئی۔” وہ پھیکا سا مسکرایا۔
“میں بہت سٹریٹ فاروڈ بندی ہوں۔ مجھے ہمیشہ ہی برانڈ سے زیادہ معیار نے اٹریکٹ کیا ہے تو لہٰذا اس لیے میں چاہوں گی کہ میرا لائف پاٹنر بھی صرف میرا ہو، مجھے شراکت داری بالکل بھی برداشت نہیں ہے۔” وہ اس کی جانب جھکی۔
“کسی صورت بھی نہیں۔”
“کیا آپ میرا ماضی بھول نہیں سکتیں؟” ارتضی نے اپنا جوس کا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس سے پوچھا۔
“صرف اُس صورت میں کہ آپ کا بس یہی ایک ماضی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ دن بعد ہم پھر یہیں بیٹھ کر کسی ایسے ہی ٹاپک پر بحث کر رہے ہوں۔”
“آئی پرومس ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔” اس نے جلدی سے کہا تو وہ سر ہلا گئی۔ کھانا آگیا تو وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔ دانین نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو شرارت سے مسکرائی اور پھر اگلے ہی لمحے سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی۔
“آپ نے کہا تھا کہ آپ نے مجھ سے معذرت بھی کرنی ہے۔”
اس نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ بظاہر تو سنجیدگی سے کھانا کھا رہی تھی مگر اس کی آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔ وہ مسکراتا ہوا کھانا چھوڑ کر سیدھا ہوا۔
“تو آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ سے معذرت کروں۔”
“آپ کو کرنی بھی چاہیئے۔ آپ نے مجھ سے بدتمیزی کی تھی۔” اس نے جتاتے لہجے میں کہا۔
“آپ نے کون سا کم سنائی تھیں۔” وہ ایک دم سے ہنستے ہوئے بولا۔
“ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔” اس نے کندھے اچکائے۔
“اوکے! میں معذرت خواہ ہوں اس دن کی بدتمیزی پر بھی اور اپنے خراب رویے پر بھی۔ مجھے آپ سے ایسا رویہ نہیں رکھنا چاہیئے تھا، میری غلطی تھی۔” اس نے سنجیدگی سے کہا۔
“آپ مجھے تم کہہ کر مخاطب کر سکتے ہیں۔” اس نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے کہا تو اس نے خوشگوار سی حیرت سے اسے دیکھا۔
“میرے خیال سے چلنا چاہیئے کافی دیر ہوگئی ہے۔” اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ بولی اور اسے واش روم کا کہہ کر اٹھ گئی۔ ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھا لڑکا بھی اٹھ کر اس کے پیچھے گیا۔ وہ واش روم سے نکلی تو وہ وہیں دروازے کے باہر کھڑا تھا۔ اس کو دیکھ کر وہ ایک مسکراہٹ اس کی جانب اچھالتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
“کیا بات ہے خیریت آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں۔”
“ہاں وہ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔”
“یہ ویمن واش روم ہے۔”
“وہ دراصل۔۔۔۔” اس کے الفاظ حلق میں ہی اٹک گئے تھے وہ اس کے یوں سیدھا اپنے پاس آنے پر کنفیوز ہوگیا تھا۔
“اوہ! اچھا اچھا، سمجھ گئی دوسرے جینڈر سے تعلق رکھتے ہیں۔ چلیں کوئی بات نہیں آپ اندر چلے جائیں۔ میں یہیں کھڑی ہوں ۔ کوئی اس طرف آیا تو سنبھال لوں گی۔” اس نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو اس کی آنکھیں پھٹیں
“نن نہیں آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔”
“تو پھر ؟” اس نے معصومیت اور ناسمجھی کا بھرپور مظاہر کیا۔
“آپ بہت خوبصورت ہیں اور آپ کے پاٹنر آپ سے کافی رُوڈ بی ہیو کر رہے تھے۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو کمپنی دے سکتا ہوں۔” وہ شاید اس کے چہرے کی معصومیت سے دھوکا کھاتے ہوئے یا پھر اس کے نارمل رویے کی وجہ سے خود کو سنبھال چکا تھا۔ اس نے جس اعتماد سے آفر کی تھی وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
“کیوں نہیں۔ میرے ہزبینڈ بہت جھگڑتے ہیں مجھ سے، کئی کئی لڑکیوں سے چکر چلا رکھے ہیں مگر میں مجبور ہوں چھوڑ بھی نہیں سکتی۔ میرے ماں بابا کی عزت کا سوال ہے۔ آپ کا بہت احسان ہوگا اگر آپ میرا دل بہلا سکیں تو۔” وہ اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولی تو وہ پیچھے ہٹتا دیوار سے جا لگا۔ وہ چلتی ہوئی اس کے قریب آ کر رکی اور ادھر ادھر دیکھنے کے بعد اس کے ہونٹوں پر سختی سے ہاتھ رکھ کر اس نے اس کے پیٹ میں گھٹنا دے مارا۔ درد کی شدت سے بلبلاتے ہوئے اس نے چیخنا چاہا مگر اس کی سخت گرفت میں ہونے کی وجہ سے پھڑپھڑا کر رہ گیا۔ بے شک وہ مرد تھا مگر دانین کی سخت ٹریننگ کی وجہ سے وہ مکمل طور پر اس کے بس میں تھا۔ اس نے اپنی ہیل کی نوک اس کے پاؤں پر رکھ کر مکمل گھمائی اور وہی پاؤں اس کی پنڈلی میں اٹکا کر اسے نیچے گرایا۔ اس کے منہ سے جیسے ہی دانین کا ہاتھ ہٹا تو اب تک جو چیخیں اس کی دبی ہوئیں تھیں وہ بےساختہ اس کے حلق سے برآمد ہوئیں۔ وہ اس کے پاس نیچے بیٹھی اور ترحم بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے گویا ہوئی۔۔
“میری شکل اور حلیے پر مت جانا۔ کبھی کبھار پیکنگ میں وہ نہیں ہوتا جو باہر سے نظر آ رہا ہوتا ہے۔ تمہاری سوچ سے زیادہ خطرناک لڑکی ہوں۔” اس نے غراتے ہوئے کہا۔ دوڑتے قدموں کی آواز سن کر وہ سرعت سے پیچھے ہٹی اور دوبارہ سے واش روم میں گھس گئی۔
“چوڑیاں کیا پہن لیں سب ہی ہلکا لینے لگے ہیں۔” وہ بڑبڑاتے ہوئے ہاتھ دھو کر اپنے دوپٹے سے خشک کرتی واش روم سے باہر نکلی۔ سامنے ہی کچھ لوگ اس لڑکے کو اٹھا کر لے جا رہے تھے اور ارتضی بھی وہیں کھڑا تھا وہ غالباً چیخ کی آواز سن کر وہاں آیا تھا۔
“کیا ہوا ؟ یہ چیخ کیسی تھی؟” اس نے ارتضیٰ کے پاس آ کر پوچھا۔
“پتہ نہیں۔ لگتا ہے کسی نے مارا ہے مگر بظاہر ایسا کچھ لگ بھی نہیں رہا۔ چیخ کی آواز سنی تو مجھے تمہارا خیال آیا۔”
“خیر چھوڑیں ہم چلتے ہیں بہت دیر ہوگئی ہے آنٹی انتظار کر رہی ہوں گی۔” اس نے کہتے ہوئے باہر کی طرف قدم بڑھائے۔ ارتضی بھی اس کے پیچھے وہاں سے نکلا۔ ان کے پارکنگ سے گاڑی نکالنے کے بعد سیاہ مرسڈیز بھی وہاں سے نکلی اور گھر تک پیچھا کرتے ہوئے آئی۔واپسی پر دانین کا دھیان اس گاڑی پر گیا تھا۔ وہ مسلسل سائیڈ مرر سے اسے پیچھے آتا دیکھ رہی تھی اور دعا کر رہی تھی کہ کوئی گڑ بڑ نہ ہو ایک تو وہ ویسے ہی خالی ہاتھ تھی اور دوسرا ارتضی کے سامنے کوئی سین نہیں بنانا چاہتی تھی ۔ ان کی گاڑی گیٹ کے باہر رکی تو وہ گاڑی بھی کافی پیچھے رکی اور جیسے ہی وہ لوگ گھر میں داخل ہوئے وہ گاڑی بھی واپس پلٹ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ چینج کر کے نکلی ہی تھی کہ اس کا فون بجا ۔ افشین کا نمبر دیکھ کر اس نے اٹھا کر کان سے لگایا
“کہو جناب کیسی رہی ڈیٹ ؟” اس نے چھوٹتے ہی پوچھا
تمہیں کیسے پتہ؟” اس نے حیرانگی سے فون کو دیکھا
مجھے تو یہ بھی پتہ ہے کہ جناب نے کیا کھایا کیا پیا؟ وغیرہ وغیرہ۔”اس نے چہک کر کہا
اوہ تو بلیک مرسڈیز میں تم تھی ۔”اس نے سرجھٹکتے ہوئے کہا
مجھے سر نے تمہاری حفاظت کے لیے پیچھے بھیجا تھا ۔اب اگر میں سر کو بتاؤں گی کہ تم نے ریسٹورینٹ میں ایک بندے کو مارا ہے تو پھر تم شکوہ کرو گی ۔
دیکھو افشی! سر نے کہا تھا میں کوئی کاروائی نہیں کروں ۔ نہ گن سے اور نہ ہاتھ سے ۔یقین کرو میں نے دونوں میں سے ایک کا بھی استعمال نہیں کیا ۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا
بڑی ہی کوئی تیز ہو ۔”افشین کی مسکراتی آواز آئی
وہ تو میں ہوں ہی مگر میں کیا سوچ رہی تھی کہ تمہاری پچھلی حرکت بھول جاؤں گی مگر اب تیار رہنا ۔ بہت جلد تمہاری خدمت میں حاضری دوں گی۔
دانین سنو یار۔”افشین جلدی سے بولی
گڈ بائے۔” اس نے کال کاٹ کر فون بیڈ پر پھینکا اور صوفے پر جا بیٹھی
کافی دیر بعد تک سوچنے کے بعد بھی جب اسے کچھ سمجھ نہ آئی تو اٹھ کر کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی ۔اچانک ہی کوئی خیال بجلی کے کوندے کی طرح اس کے زہن میں لپکا اور اگلے ہی لمحے اس کے ہونٹوں پر شریر سی مسکراہٹ دوڑی ۔ وہ جلدی سے مڑ کر آئی اور فون اٹھاتے ہوئے اشعر کا نمبر ملایا
اسلام و علیکم! کیسی ہو ؟”دوسری جانب سے اشعر کی آواز آئی
وعلیکم اسلام اور مجھے چھوڑو ۔ تم بتاؤ افشی سے شادی کرو گے؟” دانین اِدھر اُدھر کی باتوں کی بجائے سیدھا اپنے مطلب پر آئی
ارے! یہ بات کہاں سے آئی ؟” وہ حیران ہوا
میں پچھلے دس دن سے گھر میں قید ہوں۔اب اگلے پندرہ دن اسے گھر میں قید کرنے کا پروگرام بنا رہی ہوں۔”اس نے ہنستے ہوئے کہا
توبہ ہے ۔ بس اس بیچاری کو اب اللہ ہی بچائے ۔”اس بار اس کی ہنسی میں اشعر نے بھی ساتھ دیا
تم بتاؤ کیا ارادہ ہے؟”
نیکی اور پوچھ پوچھ ۔ میں تو کب سے تیار ہوں ۔ تم نہ سہی تمہاری سہیلی سہی۔”
ایڈیٹ۔” اس نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا
چلو پھر تیار ہوجاؤ۔ جیسے ہی میری پابندیوں میں نرمی آتی ہے ۔چلتے ہیں رشتہ لے کر ۔”
اوکے جناب جو حکم ۔” اشعر نے کہا ۔کچھ دیر تک باتیں کرنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔ اور وہیں کھڑی ہو کر سوچنے لگی
راجہ کی آئے گی بارات۔” وہ گنگناتے ہوئے بیڈ پر گرنے والے انداز میں بیٹھی
ہا۔ درِافشین مائی بیسٹ فرینڈ۔” اس نے ایک زور دار قہقہ لگایا۔ اس کی پلاننگ سے بےخبر افشین اپنے گھر میں لمبی تان کر سونے کی تیاری کر رہی تھی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...