’’تمہارا دماغ ٹھیک ہے ماہم۔۔۔؟؟؟؟‘‘
عائشہ ناران سے واپسی پر ماہم کی طرف گئی تو وہاں ملنے والی اطلاع پر اُس کے دماغ کے سارے فیوز ہی بھک کر کے اڑ گئے۔ جب کہ وہ سامنے صوفے سے ٹیک لگائے لاپرواہی سے اپنے ناخن فائل کرنے میں مگن تھی۔عائشہ نے کھاجانے والی نظروں سے اُسے دیکھا ۔
’’اس میں دماغ کی خرابی کی کیا بات ہے،میں نے تمہیں صرف اتنا بتایا ہے کہ میں نے رامس کا پرپوزل ریجیکٹ کر دیا ہے۔۔۔‘‘اُس کا اطمینان قابل دید تھا۔
’’لیکن اس قدرفضول، بے تکی اور احمقانہ وجہ سے کسی بھی انسان کو مسترد کرنا کہاں کی انسانیت ہے یار۔۔۔‘‘ عائشہ کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ ماہم نے برص کے معمولی داغوں کی بنا پر رامس کو بُری طرح ریجیکٹ کر دیا ہے۔
’’تمہیں کیوں تپ چڑھ رہی ہے۔۔۔‘‘ماہم نے ابرو چڑھا کر اُس کا سرخ چہرہ دیکھا۔’’کچھ دن پہلے تک تو تم اس سے بُری طرح چڑتی تھیں اب ایک دم ہی اُس سے ہمدردی کا بخار چڑھ گیا ہے۔۔۔‘‘ماہم کا تمام تر دھیان اب بھی اپنے ناخنوں کی تراش خراش کی طرف تھا۔
’’میں اُس سے اگر کسی وجہ سے چڑتی تھی تو اُس کے پیچھے ایک مضبوط جواز تھا۔۔۔‘‘ عائشہ تھوڑا سا ڈھیلی ہوئی۔
’’مثلاً۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے طنزیہ انداز سے اس کا مضطرب انداز دیکھا جو بڑے سادہ لہجے میں کہہ رہی تھی۔’’مجھے ایسا لگتا تھا جیسے تم میرے بھائی کو مسترد کرکے اب اس کی جگہ اس شخص کو دے چکی ہو۔یہ ایک فطری سی بات تھی جس کے معاملے میں،میں بے بس تھی۔‘‘اُس کے تلخ انداز پر ماہم ایک لمحے کو ساکت ہوئی اور اگلے ہی لمحے اس نے بے ساختہ اپنی نظریں اُس سے چرائیں۔ وہ اب خود کو سنبھالتے ہوئے دانستہ ہلکے پھلکے اندازسے بولی۔
’’میں تو سمجھی تھی کہ شاید تمہیں اس شخص کی پرسنالٹی ہی پسند نہیں۔۔۔‘‘
’’میں اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں نقص نہیں نکالتی اور نہ ہی ان چیزوں پر کمنٹ کرتی ہوں جن کو بنانے میں انسان کا اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ میں نے اپنے کوئی خود ساختہ خوبصورتی کے معیار نہیں بنا رکھے۔ مجھے اللہ کی بنائی ساری مخلوق سے پیار ہے۔اس میں میرا کوئی کمال نہیں، میں فطرتاً ایسی ہوں۔۔۔‘‘ عائشہ کی سادہ سی بات ماہم کو کسی خنجر کی طرح چبھی ۔وہ عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے بولی۔
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں نقص نکالتی ہوں۔۔۔‘‘
’’میں نے ایسا تو نہیں کہا۔۔۔‘‘عائشہ نے کندھے اچکا کر اُسے حیرت سے دیکھا۔جس کے چہرے پر بڑی تیزی سے تپش پھیلی۔
’’اگر تم فطرتاً سادہ ہو تو اگلا بندہ بھی فطرتاً حسن پرست ہو سکتا ہے۔ میں تمہیں بہت پہلے سے بتا چکی ہوں کہ میرے اندر یہ خامی ہے کہ میں ہر چیز میں پرفیکشن چاہتی ہوں اور اپنی اس خامی پر قابو پانے کے معاملے میں بے بس ہوں۔۔۔‘‘ وہ تھوڑا سا تلخ ہوئی۔
’’شاید تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔‘‘ وہ تھوڑا سا افسردہ ہوئی اس کے دل میں رامس کے لیے تاسف بھرتا ہی جارہا تھا۔’’کیا تم نے رامس کو بتا دیا کہ کس وجہ سے تم نے اُس کا پرپوزل مسترد کیا ہے۔؟؟؟؟؟‘‘ اُس نے بے چینی سے دریافت کیا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘ ماہم کے جواب پر عائشہ کو کچھ سکون ہوا۔’’میں نے اُسے بتایا ہے کہ ماماچاہ رہی ہیں کہ کسی آرمی بیک گراؤنڈ کے بندے کے ساتھ میری شادی ہو۔‘‘
’’پھر۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے بے صبرے پن سے پوچھا۔
’’وہ شاکڈ رہ گیا اور کئی لمحوں تک بول ہی نہیں پایا۔۔۔‘‘ ماہم کی اطلاع پر عائشہ پھر بے سکون ہوئی۔ ’’اُس کو لگا تو نہیں کہ اصل وجہ کچھ اور ہے۔۔۔؟؟؟‘‘
’’میں کیا کہہ سکتی ہوں۔۔۔‘‘ماہم نے اپنے ہاتھوں کو کاٹن سے صاف کرتے ہوئے لاپرواہی سے کہا۔’’میری اُس سے فون پر بات ہوئی تھی بھوربن سے آنے کے بعد میں نے اُس سے کوئی ملاقات نہیں کی۔مجھے اُس پر غصّہ ہی بہت تھا۔‘‘
’’تمہیں کس بات کا غصّہ تھا۔۔۔‘‘ عائشہ نے بمشکل خود کو مشتعل ہونے سے روکا۔
’’اُس نے اتنی بڑی بیماری مجھ سے چھپا کر رکھی ،وہ تو مجھے اچانک پتا چل گیا ورنہ شادی کے بعد پتا چلتا تو کتنا بُرا ہوتا۔۔۔‘‘وہ نزاکت سے ناک چڑھا کر بولی ۔
’’یہ کوئی بڑی بیماری تو نہیں ماہم،میں نے بہت سے لوگوں کو اس کے ساتھ نارمل زندگی گذارتے دیکھا ہے۔خود میری آمنہ آپی کی کہنی پر ایک نشان تھا لیکن انہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔‘‘ عائشہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اپنی نادان دوست کو کیسے سمجھائے۔
’’آئی ایم سوری عائش۔۔۔‘‘اُس کے چہرے پر گہری سنجیدگی اور قطعیت تھی۔’’میرا دل تو پہلے ہی نہیں مان رہا تھا اور اس بات کے بعد تو ہر گز نہیں۔۔۔‘‘اُس نے ہاتھ جھاڑے۔
’’اصل میں بات ہی یہ ہے ماہم کہ تمہارا دل ہی اُس پر نہیں اٹکا اور تمہیں کسی بہانے کی تلاش تھی اور وہ تمہیں مل گیا۔‘‘اُس کے جل کر بولنے پر وہ ہنستی ہی چلی گئی۔ عائشہ نے تاسف بھرے انداز سے اُسے دیکھا۔
’’تم جو بھی سمجھو ،لیکن میری زندگی میں اب رامس کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ،ہر شخص کو اپنے لیے بہتر سوچنے کا حق ہے اور کوئی اس کا یہ حق چھین نہیں سکتا۔‘‘ماہم کی بات پر ایک غضب کی لہر عائشہ کے چہرے پر چھلکی اُسے لگا کہ وہ اپنا ضبط کھو دے گی اس لیے وہ شدید طیش کے عالم میں اُس کے کمرے سے نکل آئی ۔وہ تیزی سے اپنے گھر کا گیٹ عبور کر رہی تھی جب اُس کے سیل پر ایک انجان نمبر سے کال آئی۔ جو نہ چاہتے ہوئے بھی اُس نے اٹینڈ کر لی۔
’’میں رامس علی بات کر رہا ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘ دوسری جانب سے بغیر سلام دعا کے اس فرمائش کو سن کر عائشہ ہکا بکا رہ گئی۔ اُس کے قدموں نے آگے چلنے سے انکار کر دیا۔’’جی۔۔۔‘‘وہ صرف اتنا ہی بول سکی۔
’’پلیز انکار مت کیجیے گا۔۔۔‘‘اُس کے التجائیہ انداز پر عائشہ بالکل چپ کی چپ رہ گئی۔
’’آج شام سات بجے بلیو ائیریا میں سالٹ اینڈ پیپر ریسٹورنٹ میں آپ کا انتظار کروں گا۔۔۔‘‘ اپنی بات مکمل کر کے اُس نے فوراً ہی فون بند کر دیا۔
’’اُف ،کس مصیبت میں پھنس گئی ہوں۔۔۔‘‘اندر آتے ہوئے وہ بُری طرح جھنجھلا گئی۔ گھر میں شاید کوئی گیسٹ آئے ہوئے تھے ۔ٹی وی لاؤنج سے گذرتے ہوئے اُس نے ملازمہ سے ڈرائینگ روم میں آئے ہوئے مہمانوں کے بارے میں اشارے سے دریافت کیا۔ اندر سے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
’’انصر صاحب آئے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘ ملازمہ کی اطلاع پر وہ فوراً اپنے بیڈ روم کی طرف لپکی ۔وہ اس وقت انصر بھائی کی داستان غم سننے کے قطعاً موڈ میں نہیں تھی۔اُسے معلوم تھا کہ انہوں نے ثمن آپی کو سمجھانے کی درخواست کرنی ہے جو کم از کم اُس کے لیے ناممکن کام تھا۔
* * *
’’وہ آپ کی بہترین دوست ہے ۔۔۔‘‘ رامس کا لہجہ آزردہ تھا۔وہ تھکے تھکے انداز سے اُس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔
’’وہ صرف اپنی بہترین دوست ہے۔۔۔‘‘ عائشہ نے اپنے دل میں خود کوجواب دیا۔اُسے بھی ماہم پر کافی غصّہ تھا لیکن پھر بھی وہ اُس کی دوست تھی اس لیے عائشہ نے اپنا تبصرہ اُس کے سامنے محفوظ ہی رکھا۔
’’میں نے ہمیشہ آپ کو ان کے ساتھ دیکھا ہے،آپ ان کو سمجھاتی کیوں نہیں ہیں۔۔۔‘‘ رامس نے جھنجھلا کر اپنے سامنے بیٹھی سادہ اور مہربان سی لڑکی کو غور سے دیکھا ۔جو اس کی درخواست پر نہ صرف اُس سے ملنے کے لیے آ گئی تھی بلکہ پچھلے ایک گھنٹے سے اُس کی داستان غم بھی بڑے تحمل سے سن رہی تھی۔
’’کیا سمجھاؤں ،اُس سیانی بی بی کو۔۔۔‘‘ عائشہ چاہتے ہوئے بھی یہ سوال نہیں کر پائی۔
’’مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ماہم کو اچانک ہوا کیا،اُس نے خود مجھے وہاں بلوایاتھا۔۔۔‘‘رامس کی آنکھیں رتجگوں کی غماضی کر رہی تھیں۔شیو بڑھی ہوئی اور وہ سخت پریشان اور آزردہ حال لگ رہا تھا ۔اُس کی ذہنی حالت کا اندازہ اس کی بے ربط گفتگو سے لگایا جا سکتا تھا۔
’’پتا نہیں بیٹھے بیٹھائے اُسے کیا ہو گیا۔۔۔‘‘وہ اذیت اور حیرت کی انتہا پر تھا۔
’’اُس کا ایسے ہی بیٹھے بیٹھائے دماغ خراب ہوتا ہے۔۔۔‘‘عائشہ یہ فقرہ بس سوچ سکتی تھی ۔
’’اُس نے مجھے اچانک ہی نظرانداز کرنا شروع کر دیا ۔میری کال اٹینڈ نہیں کرتی ،کسی ٹیکسٹ کا جواب نہیں دیتی۔۔۔‘‘ وہ اپنی پیشانی کو مسلتے ہوئے بمشکل بولا۔
’’اچھا خاصا ہینڈسم اور ڈیشنگ بندہ ہے۔ اللہ جانے اس احمق کو وہ داغ کہاں سے نظر آ گئے۔۔۔‘‘عائشہ نے یہ سوچتے ہوئے بے چینی سے پہلو بدلا۔
’’میرا تو سوچ سوچ کر دماغ پھٹنے لگا اور پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ میں آپ سے بات کروں کہ ہو سکتا ہے کہ اُس نے آپ سے اصل بات شئیر کی ہو۔۔۔‘‘ وہ کھوجتی نظروں سے عائشہ کا سپاٹ چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا جب کہ عائشہ کے لیے اُس کے آزردہ چہرے پر نظر ٹکانا اس وقت دنیا کا مشکل ترین کام تھا جسے وہ انتہائی دقتّ سے سرانجام دے رہی تھی ساتھ ہی ساتھ دل میں ماہم کو کوسنے کا سلسلہ بھی عروج پر تھا۔
’’اصل بات سے آپ کی کیا مراد ہے؟آپ کا کیا خیال ہے کہ اُس نے آپ سے جھوٹ بولا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ کے پر اعتماد انداز پر وہ گڑبڑا گیا۔
’’میں نے ایسا کب کہا۔۔۔‘‘وہ بوکھلا کر بولا۔’’اصل میں جب میری ماما اُس کے گھر گئیں تھیں تو اس کی ممی نے بہت اچھا رسپانس دیا تھا اور پھر پی سی میں اُس کی آپی بھی مجھ سے بہت امپریس ہوئیں تھیں۔۔۔‘‘ اُس کی معصومیت پر عائشہ نے ایک دفعہ پھر ماہم کو دل میں بے دریغ گالیوں سے نوازا۔
’’وہ کمینی سارے ہی جہان کو ایسا ہی رسپانس دیتی ہے۔۔۔‘‘عائشہ نے اس فقرے کو بمشکل اپنے لبوں پر آنے سے روکا۔
’’اُس کا تعلق جس کلاس سے ہے میرا نہیں خیال کہ وہاں والدین کی رائے کو اتنی اہمیت دی جاتی ہو گی اور ماہم جیسی لڑکی تو بالکل بھی نہیں دے سکتی۔‘‘وہ تلخ ہوا۔
’’ساری باتیں تو تمہیں معلوم ہیں پھر مجھے کیا یہاں جھک مارنے کو بلایا ہے۔۔۔‘‘عائشہ بس سوچ کر رہ گئی۔
’’وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔(اُس کا دماغ اچانک ہی خراب ہوتا ہے)اُس نے مجھے شام کو چائے پر بلوا یاتھا۔(یہ اُس کا پرانا طریقہ واردات ہے) پھر نہ جانے اُسے کیا ہوا کہ اچانک ہی ہوٹل چھوڑ کر اسلام آباد آ گئی اور مجھے بتایا تک نہیں۔۔۔‘‘(اُس نے بتا کر پھنسنا تھوڑی تھا) رامس کی ہر بات کا جواب وہ دل ہی دل میں بڑی سرعت سے دے رہی تھی۔بظاہر اُس کے ہونٹ خاموش اور نظریں اُس کے پریشان حال چہرے پر تھیں۔
’’اب مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے دوٹوک انداز میں پوچھا۔
’’آپ اُسے سمجھائیں ناں،کہ وہ میرے ساتھ ایسا نہ کرئے۔۔۔‘‘ اُس نے بچگانہ انداز سے کہا۔
’’میرے بس میں اگر یہ ہوتا تو شاید میں سب سے پہلے اُسے اُس وقت سمجھاتی جب اُس نے موحد کو چھوڑا تھا۔۔۔‘‘وہ نہ جانے کیسے بلند آواز میں اس دفعہ سوچنے کی غلطی کر گئی۔ منہ سے نکلی بات کو اندر دھکیلنا ناممکن تھا۔رامس کا چہر ہ تاریک اور عائشہ کا فق ہوا۔
’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟؟‘‘وہ عجلت میں بولا۔عائشہ نے اپنی نگاہیں چرائیں اور خاموش رہی۔
’’موحد آپ کا بھائی ہے ناں،جو مجھے اُس دن فنکشن میں ملا تھا۔۔۔‘‘بے صبری اور بے چینی اُس کے انگ انگ سے نمایاں ہوئی۔عائشہ سر ہلا کر رہ گئی وہ بہت بُرے طریقے سے پھنسی تھی۔اُس کے منہ سے بے ساختگی میں نکلی ہوئی بات رامس کے دل میں تیرکی طرح پیوست ہوئی تھی۔
’’ماہم کا اُس سے کیا تعلق تھا۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس کی آنکھوں میں وحشت کے سبھی رنگ جاگ اٹھے۔وہ ٹکٹکی باندھے کھوجتی نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔
’’وہی تعلق جو ماہم کاآپ سے تھا۔۔۔‘‘ عائشہ نے سچ بولنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ بعض دفعہ ایک تلخ سچ انسان کو مستقبل کی بہت سی پریشانیوں سے بچا لیتا ہے۔عائشہ کی بات پر اُسے جیسے سکتہ ہی تو ہوا تھا۔
’’پھر ۔۔۔؟؟؟‘‘ رامس کی قوت گویائی سلب ہوگئی اس لیے اُس نے آنکھ کے اشارے سے سوال کیا۔
’’پھر وہ سوات آپریشن میں معذور ہوگیا اور ماہم کی تیز رفتار زندگی میں ایسے لوگوں کی گنجائش کہاں نکلتی ہے۔۔۔‘‘ اُس کے لہجے میں کڑواہٹ سی گھل گئی۔
’’لیکن میری تو دونوں ٹانگیں سلامت ہیں۔۔۔‘‘عائشہ کو وہ یہ سوال پوچھتا ہوا تھوڑا سا ابنارمل لگا۔
’’آپ کی ٹانگیں سلامت ہیں لیکن اُن پر۔۔۔‘‘ وہ سخت تذبذب کا شکار ہوئی۔
’’بس رہنے دیں ،مجھے پتا چل گیا۔۔۔‘‘اُس نے تیزی سے عائشہ کی بات کاٹی ۔ اُس کے لہجے میں بے یقینی،دکھ اور صدمے کے سارے رنگ تھے۔اُس کی یادداشت کے منظر نامے پر اُس سے آخری ملاقات کا سین بڑی قوت سے اُبھرا۔ وہ ابھی تک ششدر سی حالت میں تھا۔
’’میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اتنی معمولی سی بات کو جواز بنا کر ایک جیتے جاگتے انسان کو رد کر سکتی ہے۔۔۔‘‘بہت دیر بعد وہ سرگوشی کے انداز میں بولا تو عائشہ نے سکون کا سانس لیا۔ورنہ وہ تو اس کی حالت دیکھ کر خوفزدہ ہو گئی تھی۔
’’جب وہ ایک معمولی سے سوراخ کی وجہ سے اتنا خوبصورت لباس مسترد کر سکتی ہے تو آپ تو ایک بالکل زندہ حقیقت ہیں۔۔۔‘‘ عائشہ نے اُسے اُس دن والا واقعہ یاد دلایا تو وہ کچھ ڈھیلا سا پڑ گیا۔دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھامے وہ کئی منٹوں تک ایک ہی پوزیشن میں رہا۔ عائشہ کو اُس پر ترس آیا۔ان دونوں کے سامنے پڑی کھانے پینے کی اشیاء ٹھنڈی یخ ہو گئیں تھیں۔
’’لیکن ایک سوٹ اور زندہ جیتے جاگتے انسان میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے ناں۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس نے سر اٹھا کر سرخ آنکھوں سے عائشہ کو دیکھا تو خوف کی ایک لہر اُس کے پورے وجود میں دوڑ گئی۔وہ جان گئی تھی کہ وہ ضبط کے کڑے مراحل سے گذ ر رہا ہے۔
’’ہاں کچھ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ بے جان اشیاء میں دل کی دھڑکنیں نہیں ہوتیں لیکن زندہ لوگوں کی تو نبض چلتی ہے اور انہیں دکھ،غم،تکلیف جیسے سارے جذبے کرب کی بھٹی میں دھکیل سکتے ہیں۔۔۔‘‘عائشہ کے لہجے میں چھلکتا رنج مصنوعی نہیں تھا۔وہ بالکل بے بس انداز میں ایسے اُس کے سامنے بیٹھا تھا کہ ایک دفعہ تو عائشہ کو اُس پر موحد کا گمان ہوا۔
’’آپ میرے لیے موحد کی طرح ہیں اور میری خواہش ہو گی کہ میں آپ کو بھی اُسی طرح زندگی میں کامیاب اور خوش وخرم دیکھوں ،جیسے میں ا ب اپنے بھائی کو دیکھتی ہوں۔‘‘اُس کے پرخلوص انداز پر وہ چونکا۔اُس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
’’زندگی میں بعض دفعہ ہم یونہی چلتے چلتے غلط موڑ مڑ جاتے ہیں ،تھوڑا سا چلنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ یہ راستہ تو ہماری منزل کو نہیں جاتا۔اس لمحے وہاں بیٹھ کر خود کو کوسنے سے بہتر ہے کہ بندہ یہ سوچ کر پلٹ جائے کہ کوئی نہ کوئی راستہ تو ہمارا ہو گا ناں۔۔۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں بڑا نرم ساتاثر تھا وہ بے یقینی سے اُسے دیکھتا گیا۔
’’یقین کریں کہ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ۔۔۔‘‘ اب بولنے کی باری عائشہ کی تھی وہ ہونٹ بھینچے اُسے سن رہا تھا۔
’’وہ ایسی کیوں ہے۔۔۔؟؟؟؟‘ ‘ساری بات سن کر وہ بمشکل بولا۔
’’وہ جیسی ہے وہ ویسی ہی رہے گی۔ اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے چیزوں کو اُسی طر ح قبول کرنا شروع کردیں جیسی وہ حقیقت میں ہوتی ہیں۔ ناں کہ انہیں ویسا بنانے کی کوشش میں اپنی زندگی کو ہلکان کر لیں جیسا کہ ہم چاہتے ہیں۔۔۔‘‘ عائشہ نے پانی کا گلاس اُس کی جانب بڑھایا اور اُس نے چپ چاپ پکڑ کر لبوں سے لگا لیا۔وہ ایک ہی سانس میں پورا گلاس خالی کر گیا۔
’’کیا آپ بھی ماہم کی طرح ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ا‘س نے گلاس میز پر رکھتے ہوئے بہت عجیب سا سوال کیا۔
’’کیا میں آپ کو ویسی لگتی ہوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے اُس کی خالی آنکھوں میں جھانکا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘وہ ایک لمحے کے توقف کے بغیر بولا۔’’ماہم کہتی تھی کہ عائشہ بہت عجیب لڑکی ہے۔انسانیت کا پرچار کرتی ہے۔آج کل کے دور میں ایسی کتابی باتیں بھلا کون کرتا ہے۔‘‘وہ خود فراموشی کے عالم میں اُس کی بات دہرا رہا تھا عائشہ ہنس کر چپ ہو گئی۔
’’لیکن میں اب سوچتا ہوں کہ عجیب آپ نہیں وہ خود تھی۔۔۔بھلا کوئی اتنی معمولی سی بات پر چیزوں کے ساتھ انسانوں کو بھی ریجیکٹ کرتا ہے۔‘‘اُس کا صدمہ کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ عائشہ کو اُس پر رحم آیا۔
’’بس ہر شخص کے زند گی گذارنے کے اپنے اصول اور ضابطے ہوتے ہیں ،ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔۔۔‘‘ عائشہ نے بڑی صفائی سے اپنا دامن بچایا۔وہ تو ابھی بھی اُس لمحے کو کوس رہی تھی جب وہ بے اختیاری میں اُس کے سامنے موحد کا راز افشا کر گئی۔
’’تھینک یو سو مچ۔۔۔‘‘وہ اچانک اٹھ کھڑا ہوا۔’’آپ نے مجھے بہت بڑی الجھن سے نکالا۔‘‘ وہ اب اپنے والٹ سے پیسے نکالتے ہوئے مزید بولا۔’’میں نہ جانے کب تک یہ سوچ سوچ کر پاگل ہوتا رہتا کہ آخر اُس نے مجھے کیوں چھوڑا،وہ مجھے بے شک رد کر دیتی لیکن اصل وجہ بتا دیتی تو میں آپ کو کبھی زحمت نہ دیتا۔‘‘ وہ اب بل بک میں بغیر گنے پیسے رکھ رہا تھا۔
’’آپ ٹھیک ہیں ناں،میں آپکو ڈراپ کر دوں۔۔۔‘‘عائشہ خود بھی گھبرا کر کھڑی ہوئی۔
’’آپ ٹینس نہ ہوں ،میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘وہ کھڑے کھڑے اُسے تسّلی دیتے ہوئے زبردستی مسکرایا۔
’’پھر میں اس بات کی امید رکھوں کہ میری اگلی ملاقات آپ سے کسی ہسپتال یا سائیکلوجسٹ کے کلینک میں نہیں ہوگی۔۔۔‘‘عائشہ کی بات پر وہ ہلکا سا چونکا اور اب کے وہ کھل کر مسکرایا۔
’’انشاء اللہ ۔۔۔‘‘ اُس کے لہجے میں کچھ تھا جو عائشہ نے مطمئن ہو کر سر ہلادیا۔
’’میں آپ کو آپ کے گھر ڈراپ کردوں۔۔۔‘‘وہ اب بالکل متوازن لہجے میں اُس سے پوچھ رہا تھا۔ ’’نو تھینکس،میرے پاس گاڑی ہے۔۔۔‘‘عائشہ اب اس کی ہمراہی میں ریسٹورنٹ سے باہرنکل رہی تھی۔
’’میرے پاس ایک پینٹنگ ہے ،میں اگر وہ آپ کو دینا چاہوں تو کہاں ملیں گے آپ۔۔۔‘‘ عائشہ نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے اُسے دیکھا جو باہر کی فضا میں اب کھل کر سانس لے رہا تھا۔اُسے اندازہ ہوا کہ وہ دوبارہ اُس سے ملنے کا کیوں کہہ رہی ہے۔
’’یقین کریں ،میں کچھ ایسا ویسا نہیں کروں گا،آپ مطمئن رہیں۔۔۔‘‘اُس نے بڑی سرعت سے عائشہ کی سوچ کوپڑھا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔’’آپ ماشاء اللہ بہت ذہین ہیں۔‘‘
’’ذہین لوگ ہی ہمیشہ احساس کی بھٹی میں جلتے ہیں۔عقل نہ ہو تو بہت سے مسئلوں کا تو ادراک ہی نہیں ہوتا۔۔۔‘‘ اُس کے خوشگوار انداز پر عائشہ ایک دفعہ پھر ہنس دی۔
’’کل فاطمہ پارک میں شام پانچ بجے،ڈن۔۔۔‘‘عائشہ نے فوراً ہی پروگرام ترتیب دیا۔
’’او ۔کے ۔۔۔ڈن۔۔۔!!!!‘‘ وہ اب کھل کر مسکرا رہا تھا اُسے اپنے سامنے کھڑی مہربان سی لڑکی کے سارے اندیشے سمجھ میں آ رہے تھے اور وہ اُسے مزید پریشان کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔
* * *
’’نی سکینہ ،عصر کا ویلا (وقت)ہوگیا کہ نہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘
امّاں نے بالکل بے حسّ و حرکت لیٹی سکینہ کو مخاطب کرنے کے لیے یونہی پوچھا۔اُسے اس طرح بالکل ساکت لیٹے دیکھ کر ایک لمحے کو تو جمیلہ مائی کے دل کو کچھ ہوا۔وہ کئی گھنٹوں سے ایک ہی پوزیشن میں لیٹی ہوئی چھت کی کڑیاں گن رہی تھی۔
’’نی سکینہ پتّر،میں تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔‘‘امّاں نے خوفزدہ انداز سے ذرا اونچی آواز میں اُسے مخاطب کیا۔
’’پتا نہیں امّاں۔۔۔‘‘اُس کے وجود میں بالکل بھی جنبش نہیں ہوئی ۔امّاں دہل کر اٹھ بیٹھی۔
’’نی سکینہ ،میری دھی ایسے کیوں لیٹی ہے۔۔۔؟؟؟‘‘امّاں بے تابی سے اس کا چہرہ چھو کردیکھنے لگی۔
’’پھر کس طرح لیٹوں امّاں۔۔۔؟؟؟؟‘‘سکینہ کا لہجہ کسی گہرے دکھ میں ڈوبا ہوا اور چہرے پر ویرانی ہی ویرانی تھی۔
’’چل میری دھی اٹھ کر بیٹھ ،ایسے لیٹی ہے میرے دل کو ہول اٹھ رہے ہیں۔۔۔‘‘امّاں نے اُسے سہارا دے کر بیٹھایا۔ وہ چپ چاپ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
’’لان کی سیر کو چلے گی میری دھی رانی۔۔۔؟؟؟‘‘ امّاں نے اُس کے ماتھے کا بوسہ لیا۔
’’نہیں امّاں،دل نہیں کر رہا ۔۔۔‘‘وہ نہ جانے کیوں اس قدر بے زار تھی۔
’’اچھا پھر میں اپنی دھی کو ٹی وی چلا دوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ امّاں کے منہ سے یہ غیر متوقع بات سن کر بھی سکینہ کو حیرت نہیں ہوئی۔
’’رہنے دیں امّاں ،کیا دیکھنا ہے ،وہ ہی روز کے ایک جیسے سیاپے۔۔۔‘‘ وہ جیسے نیند میں بولی اور اُس کے جواب پر امّاں کو یقین ہو گیا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ورنہ ٹی وی کی تو وہ حد درجہ شوقین تھی۔خبریں ،حالات حاضرہ اور سبھی ڈراموں کی کہانیاں اُسے ازبر تھیں۔
’’میں اپنی دھی کو باہر سے تازہ اخبار لا دوں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کو اس کی خاموشی اور بے زاری کسی پن کی طرح چبھ رہی تھی۔
’’نہیں امّاں۔۔۔‘‘ وہ ہلکا سا جھنجھلا گئی۔
’’کیا کوئی درد یا تکلیف تو نہیں ہو رہی میری چندا کو۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کو ابھی ابھی ایک خیال آیا۔
’’امّاں مجھے یہ چندا ، وندا نہ کہا کر،بھلا اتنا کالا کلوٹا بھی چاند ہوتا ہے بھلا۔۔۔‘‘اُس کے چڑ کر بولنے پر امّاں مسکرا دی۔ اُس کے وجود میں گہرا اطمینان اترتا گیا۔
’’اب ایسے مشکوک انداز میں کیوں دیکھ دیکھ کر ہنس رہی ہے۔۔۔‘‘ سکینہ کی جھنجھلاہٹ میں کوفت بھی شامل ہوئی۔
’’بس تو میری دھی بے شک ایسے ہی لڑتی رہا کر مجھ سے، لیکن ایسے چپ کر کے نہ لیٹا کر میرے دل میں ہول اٹھتے ہیں۔۔۔‘‘امّاں کی سادہ سی بات پر سکینہ کو ایک دم ہی غصّہ آیا۔
’’تو بھی امّاں بہت ہی عجیب ہے، لڑتی ہوں تو تب بھی تجھے غصّہ آتا ہے اور چپ کر کے لیٹ جاؤں تو تب بھی سکون نہیں۔۔۔‘‘وہ اب بُرا سا منہ بنا کر لیٹ گئی۔بازو کی پشت سے اُس نے آنکھوں کو ڈھانپ لیا۔اُسے نہ جانے کیوں پچھلے ایک ہفتے سے خوامخواہ ہی بے زاری ہو رہی تھی
’’اے سکینہ یہ وڈّے ڈاکٹر صیب کیا باہر کے ملک گئے ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ جمیلہ مائی نے اس کا پسندیدہ موضوع چھیڑا تو اُس نے فوراً آنکھوں سے بازو ہٹا کر امّاں کو دیکھا جو اپنا کروشیہ سنبھال کر بیٹھ گئی تھی۔
’’کو ن سے وڈّے ڈاکٹر،یہاں تو سارے ہی وڈّے بنے پھرتے ہیں۔۔۔‘‘سکینہ نے انجان بن کر پوچھا۔
’’او میری جھلیّ دھی رانی میں ڈاکٹر خاور کی بات کر رہی ہوں۔۔۔‘‘امّاں کا انداز انتہائی پرسکون تھا سکینہ کو جمیلہ مائی پر رشک آیا وہ بڑی سے بڑی بات بھی بہت سکون سے کر جاتی ۔
’’مجھے کیا پتا امّاں۔۔۔‘‘اُس نے بیزاری سے ناک پر سے مکھیّ اڑائی۔ ’’میں کون سا ان کی سیکرٹری لگی ہوئی ہوں۔۔۔‘‘
’’لے تجھے کیا ہوا،تو کیوں اوکھی ہو رہی ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی اس کی ناراضگی کو سمجھنے سے قاصر تھی۔
’’تو بھی تو الٹے سیدھے سوال کر رہی ہے،اب مجھے کیا پتا ڈاکٹر صاحب کہا ں گئے۔خود تو سارا دن ہسپتال میں سیریں کرتی ہے،کسی سے پوچھ لینا تھا۔‘‘سکینہ نے ایک دفعہ پھر بازو اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔ڈاکٹر خاور کی غیر موجودگی نے اُس کے دل کا سارا سکون غارت کر رکھا تھا۔دل و دماغ عجیب سی بغاوت پر اترے ہوئے تھے۔ہر چیز کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی۔
’’تجھ سے تو بات کرنا ہی عذاب ہے،ایویں گلے پڑ رہی ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کی بڑ بڑاہٹ سکینہ کی سماعتوں تک پہنچی تھی لیکن اُس نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔اُس کی مسلسل خاموشی سے تنگ آ کر جمیلہ مائی کروشیہ اور دھاگا رکھ کرکمرے سے نکل گئی ۔اُس کا ارادہ ریسپشن پر بیٹھی نرسوں کے ساتھ گپ شپ لگانے کا تھا۔
’’سکینہ۔۔۔‘‘ہلکا سا ناک کرنے کے بعد دروازہ کھلا اور ڈاکٹر خاور نے دھیرے سے اُس کا نام لیا تو کوسکینہ ایسے لگا جیسے اُس کی سماعتیں اُسے دھوکا دے رہی ہوں۔
’’سکینہ ،کیا آپ سو رہی ہیں۔۔۔‘‘وہ اب بالکل اُس کے سرہانے آ کر بولے تو اُس نے ہڑ بڑا کر آنکھیں کھولیں وہ اب بے یقینی سے اپنے سامنے تھکے تھکے سے ڈاکٹر خاور کو دیکھ رہی تھی۔جو آج کافی دن کے بعد اُس کے کمرے میں آئے تھے۔
’’کیسی طبیعت ہے آ پ کی۔۔۔‘‘ انہوں نے سنجیدگی سے اُس کی فائل اٹھائی اور غور سے دیکھنے لگے۔
’’میں تو ٹھیک ہوں ،لیکن آپ کہاں چلے گئے تھے۔۔۔‘‘؟؟؟؟سکینہ کے منہ سے بے ساختہ پھسلا تو ایک پھیکی سی مسکراہٹ ان کے لبوں پر نمودار ہوئی۔
’’اپنا تو یہ ہی حال ہے جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔۔۔‘‘انہوں نے صاف ٹالا ۔وہ اب سکینہ سے اس کی ادویات کے بارے میں دریافت کر رہے تھے۔
’’ڈاکٹر صاحب،آپ پریشان ہیں ناں۔۔۔؟؟؟؟‘‘سکینہ کی بات نے ڈاکٹر خاور کو کچھ لمحوں کے لیے تعجب میں مبتلا کیا’’آپ کو کس نے کہا۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’ہر بات کہنے والی تھوڑی ہوتی ہے۔۔۔‘‘وہ رنجیدہ سے انداز سے مسکرائی ۔’’جن لوگوں سے ہمارا رشتہ دل کا ہو ۔ان کے ساتھ ہمارا تعلق وجدان کا ہوتا ہے۔ان کی پریشانی کی خبروں پر دل کو بے چینی کے پر لگ جاتے ہیں۔ اُن کے سب دکھ سکھ وحی کی طرح ہمارے دلوں پر اترتے ہیں۔‘‘
’’واہ،سکینہ آپ تو فلاسفر ہو گئیں ہیں۔۔۔‘‘وہ کرسی گھسیٹ کر اُس کے پاس بیٹھ گئے۔’’امّاں کہاں ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘انہوں نے دائیں بائیں دیکھا تو وہ مسکرا دی۔
’’امّاں اس وقت راؤنڈ پر نکلیں ہیں ،آج کل انہوں نے آپ کی ڈیوٹی سنبھال لی ہے۔۔۔‘‘سکینہ کہنیوں کے بل اٹھتے ہوئے بولی۔اُس کی شرارت پر وہ مسکرا دیے۔
’’بس کچھ زندگی کے معاملات میں بُری طرح الجھاہوا تھا۔۔۔‘‘انہوں نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
’’جب تک انسان کا سانس کی ڈور کے ساتھ رشتہ قائم ہے ،یہ معاملات تو ایسے ہی چلتے رہیں گے۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کو سکینہ آج پہلے سے زیادہ سمجھدار لگی۔
’’ڈاکٹر صاحب کبھی محبت کی ہے آپ نے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ کے سوال سے زیادہ وہ اُس کی جر أ ت پر چونکے۔
’’کیوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ان کی آنکھوں میں استعجاب کی لہر دوڑی۔
’’جب شہر محبت کی ہوا لگتی ہے تو انسان ایسے ہی شروع میں کچھ دن پریشان رہتا ہے۔ اُس کے بعد جب دل کو نئے موسم راس آنے لگتے ہیں تو پھر زندگی میں کافی سکون ہو جاتا ہے۔‘‘سکینہ کی بات نے انہیں جی بھر کر حیران کیا۔
’’اچھا تو آپ کا کیا خیال ہے کہ مجھے شہر محبت کی ہوا لگ گئی ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ انہوں نے دلچسپی سے اپنے سامنے بیٹھی عام سی لڑکی کو دیکھا۔جو کئی دفعہ انہیں چونکا جاتی تھی۔
’’میں کیا کہہ سکتی ہوں۔۔۔‘‘وہ تذبذب کا شکار ہوئی۔’’ایسے معاملات میں باہر کے لوگوں کی نظریں بہت تیز ہوتی ہیں ۔بعض دفعہ خود انسان کو اس چیز کا ادراک بھی دوسروں سے ہی ہوتا ہے۔‘‘ سکینہ نے انہیں مزیدحیران کیا۔
’’نہیں خیر ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘انہوں نے لاپرواہی سے اُسے تسلی دی۔
’’یہ آپ مجھے ’’بتا‘‘ رہے ہیں یا خود کو ’’سمجھا ‘‘رہے ہیں۔۔۔‘‘ سکینہ کے ذومعنی انداز پر وہ گھبرا کر کھڑے ہوئے۔انہیں پہلی دفعہ لگا کہ ان کے سامنے بیٹھی لڑکی نے اپنی آنکھوں میں ایکسرے مشین فٹ کروا لی ہے۔
’’سکینہ آپ نے میری غیر موجودگی میں بڑی بڑی باتیں کرنا کہاں سے سیکھ لیں۔۔۔‘‘انہوں نے فوراً موضوع بدلا۔
’’آپ کی غیر موجودگی میں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا ۔۔۔‘‘اُس کا لہجہ افسردگی میں ڈوبا ہو ا تھا۔’’انسانی چہرے مجھے دلچسپ لگے ۔اس لیے انہیں پڑھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔۔۔‘‘
’’انسانی چہرے پڑھنا آسان کام نہیں ،وہ ہی تو اصل میں دھوکا دیتے ہیں۔۔‘‘انہوں نے واپسی کے لیے قدم بڑھائے۔
’’ ڈاکٹر صاحب ایک منٹ ۔۔۔‘‘اُس نے ان کو جانے سے روکا۔’’آپ کے لئے میں نے ایک کتاب منگوائی تھی۔۔۔‘‘سکینہ نے عجلت میں کہا۔
’’میرے لیے۔۔۔‘‘وہ بڑی خوشگوار حیرت کے ساتھ کھڑے ہوئے۔’’وہ کیوں۔۔۔؟؟؟‘‘
’’آپ بھی تو میرے لیے کئی گفٹس لاتے ہیں ،میں نے تو آپ سے کبھی نہیں پوچھا۔‘‘اُس کے شکوے پر وہ مسکراتے ہوئے مستنصر حسین تارڑکی کتاب کا بیک سرورق دیکھنے لگے۔
’’پیار کا پہلا شہر۔۔۔‘‘کتاب کا نام پڑھتے ہی انہیں جھٹکا لگا۔
’’یہ میرے لیے ہے کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘انہوں نے بے یقینی سے سکینہ کو دیکھا۔جس کی آنکھوں میں محبت کا ایک جہاں آباد تھا۔
’’جی آپ کے لیے۔۔۔‘‘ وہ مسکرائی ۔
’’لیکن یہی ناول کیوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ڈاکٹر خاور کی آنکھوں میں الجھن تیرنے لگی۔
’’مجھے اس ناول کی ہیروئن ’’پاسکل‘‘میں اپنی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔‘‘وہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ گئی ۔
’’لیکن پاسکل کی قسمت میں تو نارسائی لکھی گئی تھی۔۔۔‘‘انہوں نے انتہائی سنجیدہ انداز میں یاد دلایا۔وہ یہ ناول پہلے بھی پڑھ چکے تھے ۔
’’تو کیا ہوا۔۔۔‘‘وہ استہزائیہ انداز میں مسکرائی تو ڈاکٹر خاور نے سوالیہ نگاہوں سے اُسے دیکھا۔
’’مجھے معلوم ہے ہم جیسے لوگوں کی قسمت میں اللہ’’نارسائی‘‘ کا دکھ ان مٹ روشنائی سے لکھ دیتا ہے۔کوئی دوا،کوئی دعا ،کوئی تدبیر بھی اسے نہیں بدل سکتی۔۔۔‘‘سکینہ کے لہجے میں قنوطیت تھی۔وہ بہت عجیب انداز سے مسکرا رہی تھی۔ڈاکٹر خاور کو اس کی مسکراہٹ سے پہلی دفعہ خوف محسوس ہوا۔اس لیے وہ بڑی تیزی سے کمرے سے نکل گئے۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...