"وہ لڑکی بد کردار ہے طالش کیوں نہیں سمجھ رہے پتہ نہیں اُس رات کس کے ساتھ بھاگ گئی اور اب تمہیں میرے خلاف کرنے کے لیے بستر پر لگ گئی ہے”
وہ بولتی جارہی تھی جبکہ تالش کی مٹھیاں سختی سے بھینچی ہوئی تھیں آنکھیں لال انگارا ہوئی پڑی تھیں چہرے سے تاثرات تن چُکے تھے
"امی میں آپ کو ماں سمجھتا ہوں یہ نہ ہو ایک بیٹا مجبور ہوکر اپنے ہاتھ پر گرفت کھو دے”
نظریں ابھی بھی نیچے جبکہ لفظ بہت چبا کر کہے تھے اور اُنکا مفہوم بھی واضح تھا
"کیا کہا اب تم ایک طلاق یافتہ ۔۔۔بد کردار ۔۔۔۔پتہ نہیں کیا ایسی بات ہوگی جو نکاح کے دس منٹ بعد اگلے طلاق منہ پر مار کر چلے گئے ۔۔۔۔۔۔اُس لڑکی کے لئے اپنی ماں جس نے چھوٹے سے ہوتے کو پالا اُس پر ہاتھ اٹھاؤ گے تم”
غُصہ سے لال پیلی ہوتی اُسکے سامنے آئی
تو تالش نے سامنے پڑی چیئر کو اتنی زور سے کک لگائی کے دور جا گری
ایک لمحے کے رُخسار سہم کر پیچھے ہوئی
"وہ میری عزت ہے میری اولاد کی ماں میں اُسکے کردار پر ایک لفظ برداشت نہیں کروں گا آئندہ یہ بات ذہن میں رہے”
غُصہ سے چنگڑا
"کس عزت کی بات کر رہی ہو وہ اُس رات تمہارے چہرے پر کلک تھونپ کر ۔۔۔۔۔”
تالش نے اُسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ دیا
"مجھے یہ بھی پتہ ہے آپ نے نکلا تھا اُسے اور کیوں نکالا تھا یہ بھی جانتا ہوں”
اُسے شدد چھوڑ کر آگے بڑا
"میں اب دوبارہ اپنی بیوی کو اس جنہم میں نہیں لاؤں گا رکھیں اپنا گھر اپنے پاس ”
گھر کے کاغذات اُسکے منہ پر مار کر دروازہ کی طرف بڑا
"تمہارے باپ کی وصیت کے مطابق اگر یہاں سے جاؤ گے تو ایک انا بھی نہیں ملے گا ”
آنکھوں میں ایک شیطانی جھلک آئی
"یہاں میری بیوی اور بچہ غیر محفوظ ہوں میں ایسی دولت پر تھوکتا بھی نہیں ہوں”
حقارت بھرے لہجے میں بول کر وہاں سے چلا گیا
"دیکھتی ہوں شروع سے دولت میں کھیلتے ائے ہو اب کیسے رہو گے تمہارے پاس تو ڈگری تک نہیں ہے تالش ابراہیم”
پیچھے سے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتی با آواز بولی تو تالش نے پیچھے دیکھا ہی نہیں بلکہ سیدھا باہر چلا گیا
••••••••••••••••••••••••
کلائی پر لگا زخم اب بھر چکا تھا اُسکے بعد بازل کا سامنا کم ہی ہوا تھا کھانا وہ اکثر باہر سے ہی کھاتا تھا ادھر آکر بس نور میں ہی کھویا رہتا تھا
"سنو ”
ابھی باہر لاؤنچ میں بیٹھی کافی کو بھاپ اُڑا تھی جب پیچھے سے بازل کی آواز آئی
لیکن پوری ڈھیٹ ہونے کی ثبوت دیتے ہوئے اسے اگنور کرتی کھڑی رہی
"آج پارٹی ہے بس تھوڑے ہی لوگ ہونگے تو تھوڑا تیار ہوجانا اور نور کو بھی تیار کردینا ”
دو منٹ انتظار کے بعد خود ہی بولنا پڑا
"تو تمہیں کیا لگا میں تم جیسے فضول انسان کے کہنے پر کہیں جاؤں گی یہ تیار ہونگی تو غلط فہمی ہے تمہاری”
بغیر پیچھے کی طرف موڑے ڈھنکے کی چُوٹ پر جواب دیا
"مت بھولو اُس فضول انسان کی بیوی ہو تم”
اُسکا بازو اپنی اہنی گرفت میں لیتے ہوئے غرایا
"تو مسٹر بازل آج سورج کس رخ سے نکلا جو تم مجھے بیوی کہہ رہے ہو وہی ہو نہ جو کہتے تھے کی میری طرف دیکھنا بھی تمہاری اوقات سے باہر ہے ”
اُسے لاجواب کرگئی اور ساتھ چہرے پر ایک تمسر تھا
"اور میں اکثر اپنی باتوں سے مُکر جایا کرتا ہوں”
اُسکے اور اپنے درمیان حائل فاصلے کو کم کرتا بلکل اُسکے قریب جا کھڑا ہوا اب دونوں کے درمیان بس چند انچ۔ کافیصلہ تھا مایا نے دو قدم پیچھے کو لیے چہرے کے تاثرات ابھی بھی سپاٹ تھے
"لیکن میں وعدوں اور ارداوں کی پکی ہوں”
"کس کے ساتھ کیے ہیں وعدہ تم نے یہاں تک مجھے لگتا ہے تم چھوڑ کر چلے جانے والوں میں سے ہو”
ہر بار وہ اُسکی ایسی رگ پر ہاتھ رکھتا تھا جس کے احساس جُرم رات بھر سونے نہیں دیتا تھا
"لیکن تمہارے طرح لوگوں کی مجبوریاں کو فائدہ نہیں اٹھاتی”
پتہ نہیں کیوں پر دونوں ایک دوسرے کو آخری حد تک تکلیف دینے کی بات پر آمادہ تھے
"اٹھایا تھا میڈم آپ نے ایک غریب کی مجبوری اور محبت کا فائدہ”
اشارہ محد کی طرف تھا
"اور اگر میں کہوں کے کسی کو ساتھ رکھنے کے لیے اگر مجبوری کا فائدہ اُٹھانا پڑے تو اُٹھا لینا چاہئے ۔۔۔محبت مجبوریاں کو فائدہ اٹھانے کا نام ہی ہے”
بات ادہ کرنے کے زبان دانتوں تلے دبائی دل میں کہیں اُس کے پاؤں میں مُحبت کی زنجیر نہ باندھ دے
"محبت ۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔مت کہنا تم نے بھی محبت کی ہے۔۔۔۔وہ بھی اُس بیکاری سے”
وہ تمسخر اڑاتا ہنسی سی لوٹ پوٹ ہو رہا تھا
"ہاں ہے وہ میری محبت ۔۔کرتی ہوں میں محبت وہ بھی محد سے ۔۔۔۔کیوں کے وہ انسان ہے تمہارے جیسے جانور نہیں ہے”
چیختی ہوئی بولی
"مایا شیخ۔۔۔۔تمہارے دل میں زبان پے اور ذہن میں بس ایک نام ہونا چاہیے اور وہ ہے بازل شاہ”
بازل نے جنونیت سے اُسکا جبڑا دبوچا
"جس چیز پر بازل شاہ کی مہر لگ جاتی ہے اُسے حاصل کرنا ایک خواب ہے اور جو چیز بازل شاہ کی دسترس میں آجائیں وہ دنیا کے لیے ناپید ہو جاتی ہے”
وہ دونوں میں حائل فاصلے کو ختم کر چُکا تھا اب اُسکی گرم سانسیں مایا کا ماتھا جلسا رہیں تھی سانسیں کے لمس بھی اُسکی طرح خطر ناک تھے
"میں چیز نہیں ہوں ۔۔۔۔بازل شاہ ۔۔۔۔۔اور نہ تم مجھے کبھی حاصل کر سکتے ہو ۔۔۔۔۔میرے دل میں دماغ میں اور زبان پر ایک ہی نام رہے گا محد ”
اُسے لگا تھا جیتنا وہ محد کے نام پر چیرتا ہے جنونی تو ضرور ہوگا اور دُکھ بھی انتہا کا ہوگا اور مایا کیسے جانے دے سکتی تھی کوئی بھی موقع اُسے تکلیف دینے کا
"پھر اُسے اس دُنیا سے جانا ہوگا ۔۔۔۔۔مُحبت نہیں ضد ہو تم میری یہ ضد پر آنے کو بھی مجبور تم نے ہی کیا ہے اب بتاؤں گا تمھیں اپنی ضد کیسے حاصل کرتا ہوں”
کہتے ہی اُسکے کانوں کے لو اپنے دانتوں سے کچل دیے جس سے مایا کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی
"جانور ”
اپنے کان پر ہاتھ رکھ کر چلائی۔۔۔۔دل کی دھڑکنوں میں انتشال برپا ہوا یہاں تک کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں نم ہوگئیں اُسکے لمس ہر بار کوئی نئی روح پھونکتے تھے
بازل جو غُصہ اور جنونیت میں اپنا اصل بھول گیا تھا اُسکے پیچھے ہونے پراپنے کیے پر جی بھر کر شرمندہ ہوا
اپنے کہے گے الفاظ کی سنگینی اب سمجھ میں آئی تو پیچھے کی طرف تیز قدم چلتا ہوا منظر سے غائب ہوگیا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°
"سر محد اپنے کواٹر سے رات کا غائب ہے اور اُسکی ضرورت کی چیزیں بھی وہاں ماجود نہیں ہیں”
پورا ایک ہفتہ وہاں کام کرنے کے بعد محد یکدم منظر سے غائب ہوگیا تھا وہ کہاں تھا کدھر تھا نوفل تک کو معلوم نہیں تھا
"اسکو چھوڑو بازل کی شپ اِس بار سمگلنگ میں ملوث پائی جانی چاہیے ۔۔۔اس سے نہ صرف اُسکا نام بلیک لسٹ میں آئے گا بلکہ سرکار اُسکی تمام پراپرٹی بّھی ضبط کر لے گی”
منان کے سر پر تو ایک ہی بوت سوار تھا بازل کو ناکوں چنے چبانے کا
"اور ہاں حنان آج کل کدھر ہے ۔۔۔۔دیکھو اُسے پیسے کی کمی نہیں آنی چائیے”
سامنے لگی تصویر کو دیکھ دو دن سے غائب بھائی کی یاد آئی
"سر وہ تو لاہور گے ہیں ”
لاہور کے نام پر منان نے سر ہلایا مطلب صاف تھا کے آجکل اعشیوں میں مصروف تھا
"بازل کی کمزوری ڈھونڈوں ساری معلومات اکھٹی کرو ۔۔۔یہ نہیں ہوسکتا اُسکی زندگی میں کوئی لڑکی نہ ہو ”
اپنی کنپٹی سہلاتے ہوئے بولا
"سر اُسکی فیملی میں کوئی بھی نہیں ہے اور نہ ہی اُسکا کسی لڑکی سے افیئر”
کمپیوٹر پر اُنگلیاں چلاتے ہوئے گویا
"ہوگی کوئی نہ کوئی ضرور ہوگی کمزوری جیسے میری کمزوری میرا بھائی ہے ”
سامنے تصویر پر نظریں جمائے ہوا بولا تو سامنے بیٹھے انسان کو حیرت کا جھٹکا لگا
"جن کی زندگی خود برباد کی جائے کب کمزوری ہوتے ہیں”
کمپوٹر پر چلتے ہاتھ رُکے یہ بات بس سوچ ہی سکا تھا
°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"طالش کیا اب ہم کبھی ماما پاپا نہیں بن سکیں گے”
ایک ہفتے میں یہ ہُوا تھا کے تالش کو پہچانئے لگ گئی تھی اکثر بات کرتے کرتے بھول جاتی تھی اور دن دو بار تالش کو بھی بھول جاتی تھی لیکن نے تسلی دی تھی کے ایک ماہ میں ٹھیک ہوجائے گی
ایک گھر کریے پر لیے تھا دیکھنے میں تو بہت چھوٹا تھا لیکن اُنکا آسانی سے گزرا ہورہا تھا
یونی آف ہوگئیں تھی تو ایک پارٹ ٹیم جاب کرتا تھا جبکہ گھر کا سارا کام بھی خود ہی کرتا تھا
"نہیں دیب ایسے نہیں بولتے”
کسی بچے کی طرح اُسکے منہ میں نوالا رکھتے ہوئے بولا
"تالش مجھے کسی نےمارا تھا ”
منہ میں جاتے ہاتھ اچانک رکے یہ بات خود کئی بار پوچھ چُکا تھا لیکن تب اُسکے ذہن میں نہیں آتی تھی اور اب خود بتا رہی تھی
"کس نے مارا تھا میرے بچے کو”
پیار سے بچکارا
"تالش وہ آپ کو مار دے گا ”
ایک دم سے ٹون بدل گئی اور انکھوں سے گرم سیال بہنا شروع ہوگیا
"مجھے کیوں مارے گا”
ٹرے سائڈ پر کرکے اُسے کندھے سے لگایا
"تالش نے بےبی کو بھی مار دیا تھا”
ایک بار پھر سے بچہ ذہن میں آگیا تو تالش کے سینے میں چھپتی ہوئی زارو قطار رونے لگ گئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
مایا نے اپنی ضد کے عین مطابق نہ کپڑے چینج کیے نہ کوئی اور تیاری لیکن بازل بھی آخیر کا ضدی انسان ثابت ہوا تھا جان بھوج کر اُسے کمرے سے بولا کر پانی دینے کا بولنے لگا
مہمان واقعی کُچھ زیادہ نہیں بس وہ تھے جو بازل کی پرسنل لائف کے بارے میں جانتے تھے
جن میں دو مرد اور اُنکے بیوی اور بچے جبکہ ایک جوان دوشیزہ جس نے جسم چھپائے کم اور دیکھایا زیادہ تھا
اور بازل کے بلکل ساتھ چپک کر بیٹھی ہوئی تھی
"بیغرت انسان ۔۔۔۔پتہ نہیں گھر میں بیوی ہونے کے باوجود ان مردوں کو یہ آدھی نہگی لڑکیاں کیوں پسند ہوتیں ہیں”
گلاسوں میں مشروب ڈالنے کے ساتھ ساتھ ایک نظر باہر ہال میں بیٹھے لوگوں کو بھی دیکھ رہی تھی اور ساتھ ہی بازل کو گالیاں سے بھی نواز رہی تھی
ایک نظر نور کو دیکھا جو بچوں سے بلکل بھی کھیل نہیں رہی تھی بس اپنے باپ کا موبائل لے کر نیچے کلین پر بیٹھی تھی
"یہ کون ہے بازل”
پتہ نہیں کونسی زبان میں بازل کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے مشروب دیتی مایا کو دیکھ کر کہا تو مایا کو سمجھ تو نہیں ائی لیکن لہجے سے لگ رہا تھا کے اُسکے بارے میں ہی پوچھ رہی
"یہ نئی نوکرانی ہے سویٹ ہارٹ ”
یہ جملہ پہلے اردو اور پھر اُسکی زبان میں کہا تھا
تو مایا کا دل کیا مشروب کا گلاس اُس کمینے انسان پر انڈھیل دے جلد ہی دل کی خواہش کولبيك کہا اور آگے لمحے کُچھ اِس انداز سے بازل پر جوس گرا کے اُسکے بالوں سے ہوتا ہوا سینے سے نیچے تک پہنچ گیا
"ایم سوری سر”
چہرے پر مظلومیت سجائے کھسک کر پیچھے ہوئی
جب بازل نے سر کہنے اور اُسکی طرف دیکھا تو مایا کی نظریں مسکرا رہیں تھی چند سیکنڈ ہی لگے تھے اُسکی مظلومیت میں چھپے چہرے کو پڑھنے میں
"آؤ میرے ساتھ واشروم میں۔۔۔۔۔۔۔صاف بھی تو نوکر ہی کرتے ہیں”
ایک جملہ کہہ کر اُسکے چہرے کے تاثرات دیکھے جو کچا چبانے والے تھے اور ساتھ ہی اُسکو اُسکی ذمےداری سے روشناس کروایا
لیکن وہ ڈھیٹوں کی سردار ٹس سے مس نہ ہوئی تو بازل کی اہنی گرفت کے ساتھ اُسے گھسیٹے ہوئے اپنے ساتھ واش روم طرف لے گیا
پچھلے نقوش حیران بیٹھے دونوں کا تماشا دیکھ رہے تھے
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...