(Last Updated On: )
رابرٹ لنڈ
مترجم: سلیم آغا قزلباش
’’کیا تم نے ایپکٹی ٹس (epictetus) کا مطالعہ کیا ہے؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘
’’ارے پھر تو تمہیں اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ وہ ٹامی ہے نا! پہلی بار مطالعہ کر رہا ہے اس کا … اور تشویشناک حد تک پر جوش نظر آتا ہے۔‘‘
مجھے اس مکالماتی گفتگو کی بھنبھناہٹ ایک ہوٹل کے لاؤنج میں ساتھ والی میز پر سے سنائی دی۔ لہٰذا میں بڑا مشتاق اور متجسس ہو گیا۔ کیونکہ میں نے ایپکٹی ٹس کو کبھی نہیں پڑھا تھا۔ ہرچند کہ میں نے اس کی تصانیف کو اکثر و بیشتر کتابوں کی الماری میں سجے ہوئے ضرور دیکھا تھا۔ اور شاید میں نے اس کا کبھی حوالہ بھی دیا ہو… چنانچہ میں بڑا حیران ہوا کہ بالآخر مجھے ایسی عقل و دانش سے مملو کتابوں کا پتہ چل ہی گیا کہ جن کی تلاش میں زمانہ طالب علمی سے ہی میں سرگرداں رہا تھا۔ میں اپنے اس ابتدائی عقیدے سے کبھی دست کش نہیں ہوا ہوں کہ دانائی کہیں نہ کہیں کسی کتاب میں ضرور موجود ہے جسے اسی آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے جس سے گھونگا ریت میں سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ دانائی حاصل کرنے کا میں بھی اتنا ہی متمنی ہوں جتنا کہ حضرت سلمان علیہ السلام تھے لیکن شرط یہ ہے کہ دانائی لازماً ایسی صورت میں ہوکہ جسے بہ آسانی حاصل کیا جا سکے۔ یعنی ایسی دانائی جسے کسی وبائی مرض کی طرح پکڑا جا سکے۔ میرے پاس فلسفے کی تھکا دینے والی تلاش کے لیے نہ تو وقت ہے نہ ہمت! میری یہ تمنا ہے کہ فلسفی حضرات اپنی اس مشقت طلب تگ و دو کو جاری رکھیں اور انجام کار مجھے اپنی کاوشوں کے اثمار سے بہرہ مند کر دیا کریں۔ جس طرح میں کسان سے انڈے، پھل اگانے والے سے سیب اور دوافروش سے ادویات لیتا ہوں۔ اسی طرح میں فلسفیوں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ مجھے چندسکوں کے عوض دانائی سے مالامال کر دیں گے یہی سبب ہے کہ میں نے کبھی تو ایمرسن اور کبھی مارکس اور یسیس کو پڑھا اس توقع کے ساتھ کہ میں ان کا مطالعہ کر کے دانش مند ہو جاؤں گا۔ لیکن افسوس کہ میں دانش مند نہ بن پایا۔ ان کو پڑھنے کے دوران میں ان کے فرمودات سے کلی اتفاق کرتا تھا لیکن جب ان کو پڑھ چکتا تو کم و بیش ویسا ہی آدمی بن جاتا جیسا کہ ان کو پڑھنے سے قبل تھا… یعنی ان اشیاء پر نگاہ مرتکز کرنے کے ناقابل کہ جن پران کے خیال کے مطابق مجھے توجہ مرکوز کرنا چاہیے تھی یا پھر ان چیزوں کے بارے میں لاتعلقی پر کاربند کہ جن کے سلسلے میں ان کے نزدیک مجھے غیر جانب دار رہنا چاہیے تھا۔ بایں ہمہ میرا کتابوں پر سے ابھی ایمان نہیں اٹھا ہے۔ یہ یقین کرتے ہوئے کہ کہیں نہ کہیں ایسے چھپے ہوئے مواد کا وجود ہے جس میں سے دانائی اور کردار کی شکتی کو میں بازوؤں والی ایک آرام دہ کرسی میں لیٹے ہوئے سگریٹ پینے کے دوران کشید کرنے کے قابل ہو جاؤں گا۔ یہ اسی طبیعت کی ترنگ کا شاخسانہ ہے کہ میں نے ہوٹل کے لاؤنج میں ہونے والی گفتگو سننے کے بعد ایپکٹی ٹس کو پڑھنا شروع کیا تھا۔
مجھے اعتراف ہے کہ اسے پڑھ کر میں نہایت پرجوش ہو گیا۔ وہ اس نوع کا فلسفی ہے جسے میں پسندکرتا ہوں، جو زندگی کواس طور پیش نہیں کرتا کہ وہ اپنی بہترین صورت میں محض ایک ایسی دلیل لگے جسے پھوہڑ زبان میں بیان کیا گیا ہو، بلکہ دوسری اشیاء کے بیچ رہتے ہوئے وہ اس پہلو پر اظہار خیال کرتا ہے کہ آدمی کو روزمرہ کی زندگی کے معاملات میں کس طرح کا رویہ اپنانا چاہیے … علاوہ ازیں جو کچھ اس نے کہا ہے مجھے اس ضمن میں اس کی کہی ہوئی ہر بات سے اتفاق ہے۔ اذیت، موت اور افلاس سے بے اعتنائی … کافی پسندیدہ شے ہے۔ کسی بھی ایسے معاملے میں جس پر کسی کابس نہ چلے فکر مند نہ ہونا چاہیے۔ چاہے یہ ظالم کی بربریت ہو یا زمینی زلزلوں کا خوف و خطر… اس مجبوری کے سلسلے میں بھی گویا ایپکٹی ٹس اور میں ہم خیال ہیں۔ تاہم اس مماثلت کے باوجود جو ہم دونوں کے خیالات میں نظر آتی ہے، میں یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکاکہ جب میں یہ پڑھتا ہوں کہ ایپکٹی ٹس اپنے خیالات کوقائم رکھنے میں برحق تھا اور میں ہرچند کہ انھیں آراء کا قائل ہوں لیکن برحق نہیں ہوں تو میں ان آراء کو قبول کرنے کے باوجود عملی طور پر انھیں ایک لمحے کے لیے بھی بروئے کار لانے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ میرے خیال میں موت، اذیت اور افلاس سچ مچ کے عفریت ہیں، سوائے اس ایک لمحے کے جب میں آرام کرسی میں لیٹے لیٹے کسی فلسفی کی کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہوں۔ اس دوران اگر فلسفے کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے زلزلہ آ جائے تو ممکن ہے کہ میں فلسفہ کی کتاب کو پڑھنا بھول جاؤں اور صرف زلزلہ پر دھیان دوں اور لرزہ بر اندام دیواروں اور چمنیوں سے بچنے کی کوئی تدبیر سوچوں اور یہ سب کچھ اس بات کے باوجود ہو گا کہ میں سقراط، پلنی اور اسی قبیل کے دوسرے لوگوں کا نہایت پکا ثنا خواں ہوں۔ مانا کہ میں کرسی نشین فلسفی کی حیثیت سے اپنی جگہ مضبوط ہوں مگر میں دیکھتا ہوں کہ بحران کے لمحات میں روح اور جسم دونوں ناتواں ثابت ہوتے ہیں۔
میں زندگی کی ادنیٰ چیزوں کے معاملہ میں بھی ایپکٹی ٹس مکتب فکر کے ایک فلسفی کی طرح خود کو تشفی نہیں دے سکاہوں۔ تاہم مثال کے طور پر جب وہ اس بات کی نصیحت کرتا ہے کہ ہمیں کس طرح دیوتاؤں کے آگے بھینٹ چڑھانی چاہیے۔ حتیٰ کہ دوپہر کا کھانا چننے کی غیر تسلی بخش کار کردگی پر بھی ہمیں انتہائی حد تک صبر و تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے تو یوں لگتا ہے کہ اس کے نزدیک یہ سب کچھ کہنے کا مطلب ایک روحانی رویے کو اپنانے کے مترادف ہے، لیکن جس کو شرف قبولیت بخشنا میری فطرت کے منافی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب آپ کو گرم پانی کی حاجت ہو اور نوکر آپ کے حکم پرکان نہ دھرے یا اگر دھرے تو یوں کہ آپ کو نیم گرم پانی لادے یا اگر وہ گھر ہی سے غائب ہو تو آپ کو غصے سے اجتناب کرنا چاہیے اور پھٹ نہیں پڑنا چاہیے۔ کیا یہ بات دیوتاؤں کے لیے قابل قبول نہیں ہے؟ کیا آپ کو یاد نہیں کہ آپ کن پر حکمرانی کرتے ہیں … وہ جو آپ کے خویش و اقارب ہیں، فطری طور پر آپ کے بھائی بند ہیں اور یہ کہ وہ زیوس کے جگر گوشے ہیں۔ یہ سب حرف بہ حرف درست ہے اور مجھے ایسا آدمی بننے میں بڑی مسرت ہوتی جو کسی ریستوران میں بیٹھ کر بڑی برد باری اور فلسفیانہ انداز سے مسکرا سکے جب کہ یہ بیرا تمام غلط چیزیں لے آئے یا سرے سے کچھ لانا ہی بھول جائے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ صبر آزما حد تک انتظار کرنا مجھے مشتعل کر دیتا ہے۔ میں یہ بات پسند نہیں کرتا ہوں کہ مجھے مشروبات کی فہرست تین بار طلب کرنی پڑے۔ میں خاص طور پر اس وقت آگ بگولا ہو جاتا ہوں جب پون گھنٹے کی تاخیر کے بعد مجھے مطلع کیا جاتا ہے کہ سیلری selery ختم ہو گئی ہے۔ یہ سچ ہے کہ میں ایسے موقعوں پر کوئی ہنگامہ کھڑا نہیں کرتا۔ (مجھ میں ایسا کر گزرنے کا حوصلہ ہی کب ہے!) میں لعن طعن کا اتنا ہی قلیل مقدار میں استعمال کرتا ہوں جتنا کہ ایک فلسفی کرتا ہے لیکن مجھے شک ہے کہ میرے اندر کی ہذیان بکنے والی روح میرے چہرے کے نقوش میں خود کو لازماً اجاگر کرتی ہے۔ واقعی میں خود کو یوں سمجھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ خدمت گار میرا رشتہ دار ہے یا یہ کہ وہ زیوس کی اولاد ہے۔ اگر وہ ایسا ہی ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ زیوس کی یہ اولاد خدمت گاری کے معاملے میں اتنی ہی نا اہل ہو۔ ایپکٹی ٹس نے کبھی ریستوران میں کھانا تناول نہیں کیا تھا۔ پھر بھی اس بات کا امکان ہے کہ اگر وہاں اس کا صبر و تحمل اس کے کام آ جاتا تو پھر مجھ میں اور ایپکٹی ٹس میں کتنا بعد القطبین ہوتا؟ اگر میں اتنے حقیر معاملات میں جن کا میں نے ذکر کیا ہے اس کے شانت رویے کا متنبع نہیں کر سکتا تو ایسی صورت میں یہ کہاں ممکن ہے کہ میں زلزلوں اور ظالموں کی موجودگی میں ایک فلاسفر کا رول ادا کر سکوں، ایک اور مقام پر جب ایپکٹی ٹس مال و متاع کے ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں ان سے بے نیاز رہنے کی تلقین کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں ان کے چوری ہو جانے پربھی قطعاً معترض نہیں ہونا چاہیے اصولاً مجھے اس سے اتفاق ہے تاہم میں عملی طور پر اس کی اس بات کو تسلیم کرنے سے معذور ہوں۔ اس سے زیادہ حتمی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ ایسا شخص جس کی مسرت کا دار و مدار محض اس کے مال و متاع پر ہو خوش و خرم نہیں رہ سکتا جب کہ مجھے کامل یقین ہے کہ ایک دانا آدمی قلیل روزینے پربھی ہنسی خوشی گزر بسر کر سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ ایپکٹی ٹس کے مطابق یا میرے نقطہ نظر سے شادمانی کو زندگی کا نصب العین ہونا چاہیے۔ لیکن کم از کم ایپکٹی ٹس ثابت قدم رہنے والے ایک آئیڈیل پر بھروسہ تو کرتا ہے اور ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ہم اسے حاصل کر لیں گے بشرطیکہ ہم مادی اشیاء پر اتنی کم توجہ صرف کرنے لگیں کہ یہ ہمارے لیے اس حد تک کوئی مسئلہ ہی نہ رہیں کہ کوئی ان کو چرا لے جاتا ہے یا نہیں۔ وہ ہم سے کہتا ہے کہ اپنے لباس کی تعریف کرنا چھوڑ دو اور تم دیکھو گے کہ تمہیں اس شخص پر غصہ ہی نہیں آئے گا جو ان کو چرانے کا مرتکب ہوتا ہے، نیز وہ چور کے سلسلے میں اپنی مسلسل فکر مندی کا اظہار اس پیرائے میں کرتا ہے:
’’وہ اس بات سے نابلد ہے کہ آدمی کی اصل نیکی کن باتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ تاہم اس کا گمان ہے کہ وہ عمدہ لباس کے حصول پر مشتمل ہوتی ہے، بالکل اسی قسم کی خوش فہمی کہ جس سے آپ خود بھی لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔‘‘
تو کیا ایسی صورت میں چور انھیں اڑا نہیں لے جائے گا؟ ہاں، منطقی حوالے سے میرا بھی یہ خیال ہے کہ اسے یہی کرنا چاہیے۔ اس سب کے باوجود میں اس لمحے ایسا نہیں سوچ سکتاجب مجھے پتہ چلتا ہے کہ دعوت میں مدعو کوئی مہمان میرا نیا نویلا سرپوش اڑا لے گیا ہے اور اپنا سال خوردہ سرپوش اس کی جگہ چھوڑ گیا ہے۔ اس وقت خود سے یہ بات کہتے ہوئے مجھے قطعاً کوئی تسکین نہیں ملتی کہ:
’’وہ نہیں جانتا کہ آدمی کی اصل نیکی کن باتوں پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ اس کا محض گمان ہے کہ نیکی میرا سرپوش حاصل کر لینے میں مضمر ہے۔‘‘
نہ مجھے خود اپنے ہی گھر پر ہونے والی دعوت میں مدعو کسی مہمان سے اس قسم کی صورت حال کے پیش آنے پر ایسے ہمدردانہ فلسفہ پر مبنی اظہار کی جرأت کرنے کا سوچنا ہی چاہیے۔ نئے نویلے سرپوش کو یوں کھو دینا نہایت تکلیف دہ ہے بلکہ کچھ بھی گنوا بیٹھنا باعث آزار ہوتا ہے۔ خاص طور پر اگر کسی کو یہ شک ہو کہ اس کی چیز کو جان بوجھ کر اڑا لیا گیا ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں ایپکٹی ٹس کی پیروی کر سکتا تھا۔ بشرطیکہ میں ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کر رہا ہوتا جہاں سرے سے کچھ وقوع پذیر ہی نہیں ہوتا لیکن ایک ایسی دنیا میں جہاں اشیاء نقصان، چوری چکاری یا کسی تکلیف کی وجہ سے تلف ہو جاتی ہیں اور جہاں برے خدمت گاروں کے ذریعے بدمزہ کھانے بیشتر طعام خانوں میں چنے جاتے ہیں اور جہاں دیگر ہزاروں ناموافق چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں تو ایسی حالت میں ایک عام آدمی کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ چہل قدمی والے جوتے پہن کر کوہ ہمالیہ کو سر کرنے کے لیے روانہ ہو جائے نہ کہ تمام عرصہ ایک فلسفی کی طرح آرام کرسی میں بیٹھ کر سوچتا اور زندگی بسر کرتا چلا جائے۔
اس سب کے باوجود ہم میں سے بیشتر یہ یقین کیے بنا نہیں رہ سکتے کہ فلسفی حضرات حق بجانب تھے … حق بجانب تھے کیونکہ وہ اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود اس بات کے مدعی تھے کہ بہت سی چیزیں جن کے متعلق ہم سرکھپاتے ہیں قطعاً اس لائق نہیں کہ ان کے متعلق تردد کیا جائے۔ سقراط کے بجائے اپنی حماقت پر یقین لے آنا نسبتاً سہل ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی اسے سچ نہ مانے تووہ یقیناً دنیا کاسب سے بڑا احمق ہو گا۔ کم و بیش سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ سقراط اور ایپکٹی ٹس جیسے لوگ خارجی اشیاء سے بے اعتنائی برتنے کے سلسلے میں حق بجانب تھے۔ وہ لوگ بھی جو دس ہزار ڈالر سالانہ کما رہے ہیں اور مزید کمائی کے لیے کام میں جٹے ہوئے ہیں، اس بات کو تسلیم کریں گے۔ تاہم اس بات کو تسلیم کرنے کے باوجود ہم میں سے زیادہ تر لوگ چونک اٹھیں گے۔ اگر ہمارے دوستوں میں سے کوئی ایپکٹی ٹسؔ کے فلسفہ پر کاربند ہو جائے۔ کیونکہ وہ شے جسے ہم ایپکٹی ٹس کے ہاں دانائی متصور کرتے ہیں، اسے اگر ایک واقف کار کے ہاں پائیں تو یقیناً اسے پاگل پن قرار دیں گے یاپھر شاید ایک واقف کار کے ہاں نہیں بلکہ کم از کم ایک قریبی رشتہ دار کے ہاں تو اسے ضرور پاگل پن قرار دیں گے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اگر میں دولت، آسائش اور دیگر خارجی اشیاء کے سلسلے میں اتنا ہی لاتعلق ہو جاتا جتنا کہ ایپکٹی ٹس تھا اور اس کے نقوش پا پر چلتے ہوئے نقب زنوں کے متعلق مسکرا مسکرا کر دلیل بازی سے کام لیتا توایسی صورت میں میرے معاملات اور بھی زیادہ پریشان کن ہو جاتے۔ چہ جائیکہ میں بہت زیادہ مادی فلسفے کا حامل ایک کامیاب نوعیت کا کمپنی کو بڑھاوا دینے والا شخص بن جاتا۔ مثال کے طور پر ایپکٹی ٹس کی اس چور اچکے کے بارے میں درج ذیل دلیل پر توجہ فرمائیے جس نے اس کے لوہے کا شمع دان چرا لیا تھا:
’’اس نے خطیر رقم صرف کر کے ایک شمعدان خریدا تھا۔ اس ایک شمعدان کے لیے وہ ایک چور بنا۔ اس ایک شمعدان کی خاطر وہ بے ایمان ہو گیا، اس شمعدان کی بنا پر وہ بد کار کہلایا۔ اس میں کیا یہی چیز اسے سود مند نظر آئی۔‘‘
دلیل بڑی معقول ہے تاہم نہ تو انفرادی طور پر اور نہ ہی اجتماعی حوالے سے ہم جائیداد کی اس تکذیب کو قبول کرتے ہیں۔ کچھ اللّٰہ والے لوگ ایسا ضرور کرتے ہیں، لیکن آغاز کار میں وہ اپنے دوست احباب کے لیے نہایت پریشانی کا سبب ہی بنتے ہیں۔ جب دنیا عام طور سے مسرور اور پرسکون ہو تو ہم اس قول متناقص پر ایمان لے آتے ہیں کہ فلسفی حضرات دانا لوگ تھے، جب کہ ان کا تتبع کرنا سراسرحماقت ہے۔ ہم اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ جہاں فلسفی قابل مطالعہ ہیں وہاں مادی اشیاء قابل اعتنا نہیں ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم دانائی سے ایک ناظر کی حیثیت میں لطف اندوز ہوں۔ گویا یہ اسٹیج پر ہونے والا ایک ایسا خوش کن منظر ہے جس پر یلغار کرنے کی کوشش کرنا ناظرین کے لیے کارِ دارد ہے۔ کیا یونانی اور رومی کسی مختلف قسم کی مٹی سے بنائے گئے تھے؟ کیا سقراط اور ایپکٹی ٹس کے ثنا خوانوں نے واقعی فلسفی بن جانے کی سعی کی تھی کیا وہ بھی ہماری طرح ہی دانائی کے حصول کے سلسلے میں پر امید تھے۔ عملی طور پر نہیں بلکہ اس امرت دھار کی مدد سے جوان سے زیادہ عقل مند آدمیوں نے مہیا کیا تھا؟ بغیر کسی کاوش کے دانش مند بن بیٹھنا مثلاً کسی آواز کو سن کر یا کسی کتاب کو پڑھ کر… یہ بیک وقت سب سے زیادہ ہیجان انگیز اور سب سے زیادہ تسکین بخش خوابوں میں سے ایک خواب تھا اور ایسے ہی ایک خواب میں میرا رابطہ ایپکٹی ٹس سے ہوا اور دیکھو کہ وہ تو محض ایک خواب تھا۔
٭٭٭