(Last Updated On: )
ایک اِک زخم چمکتا ہے ستارے کی طرح
ہجر کی شب ہے سیاہی کے نظارے کی طرح
ہو گیا حرفِ وفا دشتِ تغافل میں سراب
ایک اَن دیکھے دلآویز اشارے کی طرح
قطرے بے رنگ ہیں بے شکل و شباہت ہر ایک
بھیڑ دنیا کی ہے بہتے ہوئے دھارے کی طرح
سرحد خواب پر ہوں تشنہ ازل سے کہ ہے یہ
ایک سوکھے ہوئے دریا کے کنارے کی طرح
کون ہے فتنۂ ہستی کا مسلسل نگراں !
دور افتادہ، ستم آئینہ تارے کی طرح
یاد کے چیختے شعلوں سے بچا لیتے ہیں
مجھ کو ناول بھی اب اسلمؔ ہیں سہارے کی طرح
٭٭٭