ہزاروں سال پہلے تم
ہوا کے تند جھونکوں کی طرح آئے
ہماری سر زمیں کو روندتے
تم نے گزرنا تھا
مگر تم تو بگولے بن گئے جیسے
جو باغوں ، جنگلوں، کھیتوں کو
بس تاراج کرتے تھے
جو ہم پر راج کرتے تھے
تمہارے رقصِ جشنِ فتح میں
صدیوں تلک اڑتے رہے تھے
اصل باشندوں کی آزادی کے،
ان کی عزت و ناموس کے ٹکڑے
ہمیں محکوم کر کے تم رہے صدیوں تلک نازاں
یہاں پھر جو ہوا وہ سب الگ قصہ کہانی ہے
چلو چھوڑو اب اس قصے، کہانی کو،
نیا قصہ سنو!
اب میں دراوڑ
خود تمہاری سر زمیں پر آنے کو تیار بیٹھا ہوں
مگر اندھے بگولے کی طرح ہر گز نہیں
میں تو فقط بادِ صبا کے نرم جھونکے
کی طرح دھیرے سے آؤں گا
تمہارے گلشنوں کو تاخت و تاراج
کرنے کو نہیں، میں ۔۔۔۔۔ بلکہ ان کی
خوشبوؤں کو اپنے من میں
جذب کرنے کے لئے آؤں گا اور
اپنی محبت کے وسیلے سے مجھے
اب آریاؤں کے دلوں پر راج کرنا ہے
سنو، اے آریاؤ!
میں تمہارے پاس آنے کے لئے تیار بیٹھا ہوں!