حمزہ لوگوں انے والے تھے جب شاہ گڑیا کے روم میں ایا گڑیا چندا کہاں ہے شاہ نے پوچھا بھائ وہ تو ماما کے کچھ مہمان آئے تھے وہ ان کے پاس ہے ایمان نے مجھے کہا کہ آپ کا ڈریس روم میں تیار ہے گڑیا نے جواب دیا
شاہ اپنے روم میں ایا تو اس کا ڈریس بیڈ پر تھا اور بعکی چیزیں بھی موجود تھی شاہ مسکرایا اور تیار ہوا
اللہ اللہ کر کے نکاح شروع ہوا اور گڑیا نے روتے ہوے سائن کیا اس کے ساتھ شاہ تھا اس نے گڑیا کے سر پر ھاتھ رکھا ایک آنسو شاہ کی آنکھ سے گرا انسو صاف کرتے ہوے باہر چلا گیا
سب کے جانے کے بعد گڑیا ایمان کے گلے لگ کر بہت روئی اور ایمان بھی روئی
کچھ ٹائم بعد ایمان نے خود سے الگ کیا یار گڑیا بس اب حمزہ میں مزاق بناے گا ایمان نے کہا
کیوں گڑیا نے روتے ہوئے کہا
یار تمہارا مک اپ خراب ہو گیا ہے اور تم بہت بری لگ رہی ہو ایمان نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہا
گڑیا نے شسشہ میں خود کو دیکھا اور کہا اب کیا ہو گا
یار او میں ٹھیک کر دو ایمان نے کہا اور گڑیا کے ساتھ باتے میں لگ گئی
گڑیا کو حمزہ کے ساتھ بیٹھیا گیا حمزہ تو گڑیا کو دیکھا کر کھو گیا اور جھکا کر اس کے کان میں کہا
مبادک ہو مسز حمزہ
آپ کو بھی گڑیا نے شرمتے ہوے کہا کیا تم نے مجھے آپ کہا اتنی غرت یہ کب ہوا حمزہ نے گڑیا کو تنگ کرتے ہوے کہا
گڑیا نے اس کی بات پر گھورا حمزہ اب آپ میرے شوہر ھے گڑیا نے اس کو یاد کرتے ہوے کہا
اووو گڑیا کچھ لوگوں کو عزت رسا نہیں ہوتی ایمان جو ان کی بات سن رہی تھی بولی
اس کی بات پر گڑیا مسکرائ جبکہ حمزہ نے منہ بناے اففف کہاں سے لگتا ہے تم آیک دن کی دلہن ہو بھابھی جی حمزہ نے مزہ سے کہا
ایمان اس کی بات پر ٹپ گئی حمزہ کے بچے اب وہ بات کر ہی رہی تھی کہ حمزہ نے اس کی بات کاٹی
ایمان یار ابھی تو میرا نکاح ہوا ہے بچے کہاں سے ائے حمزہ نے شوخاں ہوتے ہوئے کہا
اس کی بات پر گڑیا بلش کرنے لگئی لیکن پھر پہلے ایمان کو پھر حمزہ کو گھورا
حمزہ میری دوست کو تنگ نہیں کرو ایمان نے ہنستے ہوے کہا
اب یہ میری بیوی ہے حمزہ نے جتاتے ہوے کہا
جبکہ گڑیا نے نفی میں سر ہلایا یعنی ان دونوں کا کچھ نہیں ہو سکتا
شاہ جو کچھ کام کر کے لان میں ایا اس کی نظر ایمان پر گئی وہ حمزہ سے بات کرتے ہوے مسکراے رہی تھی شاہ تو کچھ دیر اس کو دیکھتا رہا وہ آج بھی پیاری لگ رہی تھی
چندا تم مجھے پاگل کر دو گئی شاہ نے کہا اور مسکراتے ہوے ایمان کہ پاس ایا
ایمان کی اب نظر شاہ پر لگئی دونوں کی نظریں ملی شاہ آج بہت پیارا لگ رہا تھا ایمان کی ایک بیٹ مس ہوئی
وہ دونوں ھی ایک دوسرے کو دیکھنے میں مصروف تھے کہ حمزہ کی نظر ان پر گئی اس نے گڑیا کو بھی ان کی طرف متوجہ کیا
گڑیا اور حمزہ مسکراے اور دونوں نے ایک ساتھ کہا اہم اہم ہم بھی یہاں ہے
ان کی بات پر دونوں شرمندہ ہوے حمزہ شاہ کے پاس ایا بھائی مجھے سے نہیں ملے حمزہ نے کہا
یار باہر کچھ مصروف تھا شاہ نے کہا اور حمزہ کو مبادک دی
میں اور میری مسز کے تم دونوں کے لیے کچھ گفٹ لیا ہے شاہ نے کہا
ایمان نے دو ڈبیاں شاپر سے نکالی ہو ایک گڑیا کو دی ایک حمزہ کو دی
حمزہ اور گڑیا پریشان ہوے
بھائ میں نے اور میری مسز نے بھی آپ دونوں کے لیے کچھ لیا ہے حمزہ نے کہا
ایمان اور شاہ حیران ہوے اچھا ٹھیک ہے پہلے ہمھارا گفٹ کھولو شاہ نے کہا
گڑیا اور حمزہ نے کھولا تو اس میں بہت پیاری رگنز موجود تھی دونوں مسکراے بہت شکریہ بھائ دونوں نے ایک ساتھ کہا
چلو اب پہنوے ایک دوسرے کو ایمان نے کہا
اب آپ ہمہارا گفٹ کھولو حمزہ نے کہا
اس میں بھی دو رگنز موجود تھی چاروں مسکرے چلے بھائ جلدی سے ایمان بھابھی کو پہنے حمزہ نے شرارت سے کہا
اس ہی طرح ان چاروں کی ایک فوٹو بنی
شاہ اپنے روم میں ایا تو ایمان روم میں نہیں تھی ٹائم دیکھا تو 12 بجے تھے شاہ نفی میں سر ہلاتا ہوے گڑیا کے روم میں ایا جہاں دونوں باتوں میں۔ مصروف تھی
ایمان چلو روم میں بہت رات ہو گئی ہے شاہ نے کہا اور ایمان کی بات سنے بغیر ھی روم میں لے ایا
شاہ آج مجھے گڑیا کے ساتھ سونا تھا ایمان نے منہ بنتے ھوے کہا
شاہ اس کی بات پر مسکرایا چندا چلی جاو لیکن ڈریس تو چینچ کرلو
جی ٹھیک ہے ایمان نے کہا اور شسشہ کے سامنے جیولری اتارنے گئی
شاہ بیڈ پر لیٹ اس کو دیکھا رہا تھا ایمان اس کی نظرو سے کنفثور ہو رہی تھی
چندا پھر کیا سوچا گڑیا کی بات کے بارے میں شاہ نے شوخے ہوتے ہوئے کہا
کیسی بات کے بارے میں ایمان نے اس کی طرف منہ کر کے پوچھا
جو گڑیا نے صبح کہا تھا اس کے بارے میں شاہ نے کہا
شاہ گڑیا تو اتنی باتے کرتی ہے مجھے کیا پتا کس بات کا آپ کہ رہے ہے ایمان نے زچ ہوتے ہوئے کہا
اس کو پھوپھو بننے کے بارے میں شاہ نے مزہ سے کہا
اور ایمان منہ کھولے اس کی بات سن کر شروم میں بھاگی
اس کے بھاگنے پر شاہ نے قہقہا لگایا چندا جواب تو دیتی جاوے
کچھ دیر تک وہ ایمان کا انتظارا کرتا رہا نہیں ایمان باہر نہیں ائی
ایمان باہر او نہیں تو میں اندر اجاوے گا شاہ نے کہا
شاہ کی آواز سن کر ایمان جو گڑیا کو لقب سے نواز رہی تھی اللہ کا نام لیا اور باہر آئ
شاہ جو بیڈ پر لیٹ ہوے تھا ایمان کو باہر اتا دیکھا کر کہا ایمان میرے پاس او شاہ نے غصہ سے کہا
جی ایمان شرمندہ سی شاہ کے پاس ائی
جیسے ہی ایمان شاہ کے پاس آئ شاہ نے اس کو اپنے اوپر گرا اور کہا جواب دو ایمان
وہ وہ ایمان اس کی حرکت پر کنفثور ہوئی
کیا وہ وہ شاہ نے مسکراتے ہوے پوچھا
ان کو مسکراتے ہوے دیکھا کر ایمان نے کہا شاہ نتگ نہیں کرے میں تھک گئی ہو
شاہ اس کی بات پر مسکرایا یار ابھی تو تم مجھے تنگ کر رہی ہو میں تو خود تھک گیا ہوں
میں نے کیا کیا ایمان صدمہ کی کفیت میں بولی
ہائے ایمان تم اتنی کیوٹ کیوں ہو شاہ نے اس کے گال پر کاٹتے ہوے کہا
اہ شاہ درد ہو رہا ہے ایمان نے اپنا گال پر ھاتھ رکھتے ہوے کہا
شاہ نے مسکراتے ہوے اس کے گال پر کس کی
چلو اس سے پہلے میں کچھ اور کرو جلدی سے سو جاو شاہ نے کہا اور اپنے پاس لیٹا دیے
شاہ میں نے گڑیا کے ساتھ سونا تھا ایمان نے کہا
شاہ نے ایمان کی بولتی بند کی اور اب ایمان کو پتا چل گیا تھا کہ کچھ نہیں کہنے
ایمان سونے کی کوشش کرنے لگئی
آج ان دونوں کا ولیمے تھا سارا فنشن شاہ ایمان کو تنگ کرتا رہا اب ایمان ٹھک کر روم میں ائی بے شک وہ آج بھی پیاری لگ رہی تھی
ابھی وہ چینچ ہی کرنے والی تھی کہ شاہ روم میں ایا
ایمان مجھے تم سے بات کرنی ہے شاہ کو سنجدہ دیکھا کر ایمان اس کے پاس آئ
کیا ہوا شاہ سب ٹھیک ھے ایمان نے کہا
ہاں ٹھیک ھے لیکن میرا دل کر رہا ہے تمہاری تعریف کروے شاہ نے مسکراتے ہوے کہا
ایمان اس کی بات پر پریشان ہوئی جی کرے
ایسے نہیں شاہ اس پر جھکا اور لالیٹ بند کر دی
آج ان کے ملنے کی رات تھی چاند بھی اس کو دیکھا کر شرما گیا
ایمان کی صبح آنکھ کھولی تو۔ رات جو ہوا اس پر شرما گئی جلدی سے فریش ہوئی اور نماز شروع کی شاہ کی آنکھ کھولی ایمان کو نماز پڑھتے ہوے دیکھا کر مسکراتا اور فریش ہوا اور مسجد میں گیا
دو ماہ بعد
ان دو ماہ میں ایمان اور شاہ بہت خوش تھے ایمان نے یونی جانے شروع کر دیا تھا اس لیے وہ ہنی مون پر نہیں گئے
شاہ لیپ ٹپ پر کچھ کام کر رہا تھا اور ایمان سو رہی تھی اکثر ایسا ہی ہوتا تھا کیونکہ ایمان نے صبح جلدی یونی جانا ہوتا تھا اس لیے وہ جلدی سو جاتی تھی
بھائ ایمان خیچتے ہوے اٹھی شاہ جلدی سے اس کے پاس ایا چندا کیا ہوا
ایمان جلدی سے شاہ کے سینے سے لگئی اور گرفت مبضوظ کر دی
چندا میری جان کیا ہوا ہے شاہ پریشان ہوا اس کی حالت پر جو بری طرح کانپ رہی تھی لیکن ایمان چپ تھی
شاہ نے کچھ دیر بعد خو سے الگ کیا اور ایمان کو پانی دیے ایمان کیا ہوا ہے شاہ نے پھر سے پوچھا شاہ بہت برا خواب بھائ مجھے پکارا رہے تھے
ایمان نے اٹک اٹک کے کہا
شاہ کو عمر کے نام پر غصہ ایا لیکن ایمان کی حالت دیکھا کر ضبط کر گیا ایمان کچھ نہیں ہوا وہ بس خواب تھا شاہ نے کہا
نہیں شاہ وہ شاہ آپ مجھے چھور کر تو نہیں جاو گیا ایمان نے کہا
نہیں ایمان کوئی اپنا جان کو چھور سکتا ہے میں تمہارے ساتھ ہو شاہ نے کہا اور اس کے ماتھے پر لب رکھے اور اس کے پاس لیٹ گیا اور اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے اس سے باتے کرنے لگا
آج گڑیا اور سب گھر والے کراچی گئے تھے کیونکہ وہاں کیسی رشتہ دار کی شادی تھی
ایمان گھر میں اکیلی تھی شاہ کے گھر انے میں وقت کم ہی تھی کہ مسکراتے ہوے تیار ہونا شروع ہو گئی کیونکہ شاہ نے فون کیا تھا کہ وہ آج باہر جاے گئے
وہ تیار ہوئی تھی کہ ایک نظر شسشہ میں خود کو دیکھا وہ پریشان ہوئی کیونکہ سامنے عمر موجود تھا
بھائ آپ یہاں کیا کر رہے ہو ایمان نے کہا
ایمان مجھے معاف کر دو پلیز
نہیں بھائ میں یہ نہیں کر سکتی ایمان نے کہا
یہی سوچ کر تم بھلا دو خطائیں تمہیں
ہم بہت یاد آتے رہے ہیں
عمر نے اپنی گن نکالی اور اپنے دل کی جگہ رکھی اگر تم مجھے معاف نہیں کرو گئی تو مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے عمر نے کہا
ایمان اس کی بات پر ڈدر گئی بھائ آپ کیا کر رہے ہے اس ہی وقت شاہ روم میں ایا عمر کو دیکھا کر ایک منٹ میں بات سمجھے گئے
عمر پاگل ہو گئے ہوں یہ کیا کر رہے ہو شاہ اس کی طرف ایا
شاہ نہیں پاس نہیں او میں زندہ نہیں رہنا چاہتا بھائ پلیز یہ کیا کر رہے ہے ایمان نے روتے ہوئے کہا
شاہ اب اس کے اور قریب ہوا اس گن لینے کی کوشش کرنے لگا
کہ اچانک اٹھک کی آواز ائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4 سال بعد
ایمان شاہ کی تصیور ھاتھ میں لے کر بیڈ پر بیٹھی تھی
شاہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے چھوڑا کر نہیں جاے گیا میں آج آپ کو بہت یاد کر رہی ہو شاہ ایمان کی آنکھیں سے آنسو گرے
تبہی روم کا درواذ کھولا اور ایک چھوٹا سا وجود اندر ایا
ماما آپ کیا کر رہی ہے علی نے کہا
ایمان نے علی کو دیکھا کر جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے کچھ نہیں
اففف ماما آپ بابا کو یاد کر رہی ہے میں آبھی بابا کو فون کر کے بتاتا ہوں علی نے کہا
کیا بتاو گئے بابا کو ایمان نے غصہ سے علی کو کہا
یہ ہی کہ آپ رو رہی تھی علی نے کہا
اوووو بابا کے چمچہ خبردار اگر تم نے بابا کو کچھ بتایا
ایمان نے علی کو اداس دیکھ کر کہا اچھا علی ماما کی جان ایسی باتے بابا کو نہیں بتاتے
ٹھیک ھے لیکن میں بتاو گا علی اس کو زچ کرتا ہوے روم سے چلا گیا
ایمان منہ کھولے اس کو دیکھتی رہی
اللہ اللہ ایک ہی بیٹا دیا ہے وہ بھی اپنے بابا کی طرح مجھے تنگ کرتے ہے
ماما نیچے ماموں ائے ہےعلی پھر سے روم میں ایا اور کہا
کیا بھائ ائے ہے ایمان نے خوش ہو کر کہا
۴ سال پہلے
گولی عمر کو لگئی ایمان شاک سی عمر کے پاس ائی
بھائ پلیز آنکھیں نہیں بند کرے گیا ایمان نے روتے ہوئے
شاہ جلدی سے عمر کو ہپستال لے گیا
دو گنھٹے بعد ڈاکٹر باہر آیا آپریش کامیاب ہو ہے لیکن اگلے 6 گنھٹے بہت اہم ہے بس آپ دعا کرے شاہ نے ڈاکٹر کی بات سن کر ایمان کی طرف دیکھا جو پہچلے دو گھنٹے سے زمیں کو گھورا رہی تھی
شاہ نے گہرا سانس لیا اور ایمان کے پاس ایا
چندا میں طرف دیکھوں شاہ نے کہا
ایمان نے اس کی طرف دیکھا کیا کچھ نہیں تھا ایمان کی آنکھوں میں فکر غصہ درد وایرن
چندا وہ ٹھیک ھے کچھ دیر بعد اس کو ہوش اجاے گا
ایمان نے اس کی بات سنی ہی نہیں یا سن کر ان سنی کی
شاہ اس کی غائب دماغی نوٹ کر رہا تھا پھر بولا چندا گھر جاو رات ہونے والی ہے میں عمر کے پاس ہو
کیا میں بھائ کو ایک بارا دیکھا سکتی ہو ایمان نے بے بس ہو کر کہا
شاہ کو اس کے اس طرح کہنے پر دکھ ہوا جلدی سے بولا
ہاں جاو ایمان عمر کے پاس ائی اب تک جو بھی ہو تھا اس کی زندگی میں سب ایک فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے ارہا تھا
اپنے کہے لفظوں کےتم مطلب مجھے سمجھو نا
رکھے کہاں میں تیری یاد کو جاتے ہوے لے جاو نہ
عمر کو دیکھا کر ایمان اپنا ضبظ کھو گئی اور رونے لگئ
بھائ پلیز اٹھنے نا بھائی دیکھے میں ایمان
ایمان نے روتے ہوے کہا اس کو روتے ہو کچھ وقت ہو گیا تو ایمان چپ کر کے باہر ائ
شاہ باہر اس کا انتظارا کر رہا تھا ایمان کو دیکھا کر کہا ایمان کیا گھر جانا ہے
ایمان نے نفی میں سر ہلایا اور شاہ کے سینے پر اپنا سر رکھا
شاہ نے گرفت مبضوظ کر دی کچھ وقت بعد شاہ نے ایمان کو خود سے الگ کیا شاہ چاہتا تھا کہ ایمان کچھ بولے اس لیے خود ہی بات شروع کی
ایمان تم عمر سے محبت کرتی ہو شاہ نے کہا
جی ایمان نے ایک الفاظ میں جواب دیا
پھر مجھے سے شادی کیوں کی شاہ نے پوچھا
ایمان اس کی بات پر مسکرای
شاہ میں بھائ سے بہت محبت کرتی ہو انہوں نے مجھے پالا انہوں مجھے غلظ صیح سکھایا انہوں نے مجھے زخموں دیے لیکن میری محبت کم ہونے کی بعجے اور بڑے گئی
میری محبت وہ محبت ہے جو ایک بہن کی ایک بھائ سے ہوتی ہے ایمان نے کہا
شاہ اس کی بات سن کر مسکرایا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایمان کا جواب یہ ہی ہوگا
کچھ وقت بعد
عمر کو ہوش اگیا ایمان اس کے پاس آئ شاہ بھی پاس تھا
کیوں کیا آپ نے ایسا ایمان نے غصہ سے کہا
ایمان پلیز مجھے معاف کر دو پلیز عمر تکلیف کی وجہ سے آہستہ بول رہا تھا
نہیں بھائ ایسا نہیں کہے میں نے آپ کو معاف کیا ایمان نے روتے ہوے کہا
آپ نے اچھا نہیں کیا بھائ بہت برے ہے آپ ایمان نے کہا
میری ایمان نے مجھے معاف کر دیا نہ عمر نے خوش ہوتے ہوے پھر پوچھا
ایمان نے ہاں میں سر ہلایا جبکہ شاہ نے غصہ سے عمر کو گھورا
تم نے میری چندا کو میری ایمان کیسے کہا اگر تم بیڈ پر نہ ہوتے تو میں تمہارا منہ توڑا دیکھتا شاہ نے غصہ ضبظ کرتے ہوے کہا
پلیز شاہ میرے بھائی کی طعبیت ٹھیک نہیں ہے ان کا منہ بعد میں توڑا لیجائے گا ایمان نے تڑیپ کر کہا
عمر اس کی بات پر مسکرایا
اور شاہ ان دونوں کو گھورتے ہوے روم سے باہر جانے لگا تو عمر نے اس کو پکارا
شاہ سوری آنئدہ تمہاری چندا کو میری ایمان نہیں کہتا بچپن سے عادت ہے کچھ وقت لگے گا
ٹھیک ھے لیکن آنئدہ خیال رکھنا شاہ نے کہا اور چلا گیا
ایمان تمہارا شوہر بھی غصہ والا ہے تمہاری طرح عمر نے منہ بنتے ھوے کہا
ایمان اس کی بات پر مسکرائ یہ تو ہے
الگے دن گھر آئے شاہ فریش ہوئے چلا گیا ایمان باہر انتظارا کرنے لگئی
شاہ واپس ایا ایمان کو اگنور کرتے لیٹ گیا ایمان اس کی حرکت سے محفوظ ہوتی فریش ہونے چلی گئی
کچھ دیر بعد
ایمان کھانا لے کر روم میں آئ شاہ کھانا مجھے نہیں کھانا شاہ نے کہا
شاہ مجھے بہت بھوک لگئ ہے ایمان نے کہا
تو کھالو شاہ نے کہا شاہ آپ ناراض ہے ایمان نے انجان بنتے ھوے کہا
یعنی حد ہے میں نے رات سے اس سے بات نہیں کی اور یہ مجھے۔ سے پوچھا رہی ہے شاہ نے سوچ
ایمان اس کو دیکھا کر مسکرائ شاہ کیا سوچ رہے ہے کچھ نہیں مجھے سونے دو شاہ نے کہا
ٹھیک۔ ھے پھر مجھے بھی نہیں کھانا ایمان نے کہا اور کھانا کچن میں لے گئی
ایمان کو لیٹے کچھ وقت ہی ہوا تھا کہ شاہ اٹھا کر روم سے باہر گیا ایمان اس کے جانے کے بعد مسکرائ
ایمان جانتی تھی شاہ کیا کرنے والا ہے
شاہ کچھ وقت بعد روم میں ایا اس کے ھاتھ میں کھانا کے برتن تھے چندا کچھ کھا لو
کیوں ایمان نے پوچھا
تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا شاہ نے کہا
جب میرا شوہر ہی مجھے سے کل سے ناراض ہے میں کیوں کھاو ایمان نے کہا
تم نے عمر کی سائیڈ کیوں کی شاہ نے پوچھا
ایمان مسکرائ کیوں کہ وہ میرے بھائی ہے
لیکن بات اس نے غلظ کی تھی شاہ نے غصہ سے کہا
ایمان نے اس کے گال پر کس کرتے ہوے کہا شاہ آپ غصہ میں بہت کیوٹ لگتے ہوں ایمان نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے یہ کیا
شاہ اس کی حرکت پر حیران ہوا اور پھر مسکرایا اچھا اب مکھن نہیں لگوئے اور کھانا کھاو
جو حکم ایمان نے سر ہلاتے ہوے کہا
کچھ وقت بعد وہ باتے کرتے سو گیا
شاہ کی آنکھ کھولی تو وقت دیکھا ۲ بجے تھے وہ فریش ہوا اور اب ایمان کے پاس ایا
چندا اٹھو جاو یار ٹائم بہت ہو گیا ہے شاہ نے بہت کوشش کی لیکن ایمان نہیں اٹھی
شاہ اب پریشان ہوا ایمان کو اٹھیا اور ہپستال لے ایا
اگر ایمان کو کچھ ہوا تو عمر میں تمہیں قتل کر دو گا شاہ نے غصہ سے کہا
کچھ وقت بعد ڈاکٹر باہر آئ مسٹر شاہ مبادک ہو آپ پاپا بنے والے ہے
شاہ یہ سن کر بہت خوش ہو لیکن ڈاکٹر ایمان ٹھیک تو ہے
جی وہ ٹھیک ھے اکثر ایسی حالت میں ایسا ہوتا ہے اور ان کا بی پی بھی لو تھا ان کو ٹائم پر کھانے کو کچھ دیے کرے ڈاکٹر۔ نے کہا
کچھ ماہ بعد
ایمان اور شاہ کو اللہ نے پیار سا بیٹا دیا دونوں نے اس کا نام علی رکھا کیونکہ دونوں ہی علی کو اپنی زندگی میں مس کرتے تھے
علی ہر وقت میرے بابا یعنی شاہ کی بات مانتا تھا ایمان جو بھی کہا ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالتا تھا
حال
ایمان نیچے آئ تو عمر اس کا انتظارا کر رہا تھا بھائ آپ میں آپ سے ناراض ہو ایمان نے سر پر پیار لیتے ہوے کہا ماموں میں بھی علی بھی بولا
عمر مسکرایا یار سوری میں بیزی تھا ایمان مسکرائ پھر آج کیسے ٹائم ملا مجھے سے ملنے کا
میں تم سے نہیں میں تو اپنے علی پر ملنے ایا ہو عمر نے علی کی گال پر کس کرتے ہوے کہا
ایمان نے۔ اس کی بات پر منہ بنایا جبکہ علی فورا اپنی ماں کے پاس ایا ماموں ایسا نہیں کہتے آپ کو پتا ہے ماما آپ کو اور بابا کو بہت مس کرتی ہے علی نے کہا
علی کی بات پر ایمان نے علی کو گھورا علی ایسے نہیں کہتے ایمان نے ڈائیت ہوے کہا
عمر نے بات بدلی شاہ کب ائے گا وہ شام کو ایمان نے جواب دیا
شاہ ایک ماہ کے لیے لندن گیا تھا بزس کے کچھ کام سے اس لیے ایمان اس کو یاد کرتی تھی ہر وقت
اس ہی وقت گڑیا اور حمزہ ائے سب کو اسلام کیا
حمزہ اور گڑیا کی شادی کو دو سال ہو گئے تھے ان کی دو ماہ کی بیٹی تھی
ایمان خوش ہو کر گڑیا کے پاس آئ میری ڈول مجھے دو ایمان نے کہا
گڑیا نے دعا کو ایمان کو دیے اور ایمان سے کہا میرا شہزاہ مجھے دو
علی مسکراتا ہوا گڑیا کے پاس ایا پھوپھو
ہائے پھوپھو کی جان کیا حال ہے گڑیا نے علی کو کسں کرتے ہوے کہا
ٹھیک پھوپھو میری ڈول مجھے دو علی نے دعا کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا
نہیں پہلے ماما اس سے پیار کر گئی ایمان نے علی کو گھورا ہوے کہا
پھوپھو علی نے منہ بنتے ھوے۔ کہا
ایمان دعا دے دو علی کو گڑیا نے کہا ایمان نے دعا کو علی کے ھاتھ میں دیا اور غصہ سے روم میں چلی گئی
جبکہ سب لوگ ایمان کی حرکت سے پریشان ہوگیا
میں دیکھتی ہو گڑیا نے پریشان ہوتے کہا
ایمان کیا ہوا ہے گڑیا۔نے پوچھا ایمان نے کوئی جواب نہیں دیا اور الماری میں سے کپڑے ادھرے ادھرے کرنے لگئی
گڑیا جانتی تھی جب وہ پریشان ہوتی ہے ایسا ہی کرتی ہے
ایمان میری جان بتاو کیا بات ہے کیوں پریشان ہو گڑیا نے پوچھا
پتہ نہیں گڑیا آج کل مجھے کیا ہوتا جارہا ہے کبھی بہت غصہ آتا ہے تو کبھی بہت رونا آتا ہے ایمان نے پریشان ہوتے ہوئے کہا
ایمان ریلکس کچھ نہیں ہوا بھائی کو بتایا گڑیا اس کی بات سن کر خود بھی پریشان ہوئی ایمان نے نفی میں سر ہلایا
شاہ گھر آیا سب سے ملا لیکن وہاں ایمان موجود نہیں تھی وہ کچن میں مصروف تھی
سب نے مل کر کھانا کھایا اور گڑیا اپنے گھر واپس چلی گئی
شاہ روم میں ایمان کا انتظارا کرتا رہا لیکن وہ نہیں ائی علی روم میں ایا بابا علی نے شاہ کے پیار کرتے ہوے کہا
جی بابا کی جان شاہ نے کہا
بابا آپ مجھے سولا دو علی نے کہا کیوں ماما کہاں ھے شاہ نے پوچھا
ماما مجھے سے ناراض ہے علی نے منہ بنتے ھوے کہا
کیوں شاہ نے وجہ پوچھی تو علی نے دوپہر والی ساری بات سنانی
شاہ اس کی بات پر پریشان ہوا چلو پھر میں اپنی جان کو خود سولتا ہو
کچھ وقت بعد علی سو گیا تو شاہ روم سے باہر آیا
ایمان کچن میں کچھ کام کر رہی تھی یا کیو کہ لے کہ ٹائم پاس کر رہی تھی شاہ اس کے پاس ایا
چندا علی کو نیند آئ ہے چلو اس کو سولاو شاہ میں مصروف ہو اس لیے آپ سولا دے ویسے بھی وہ میری بات نہیں سنتا ایمان نے جواب دیا
شاہ اس کو زبردستی روم میں لیا اور صوفہ پر بیٹھیا
ایمان روم میں آئ تو علی کو سوتے ہوے دیکھا کر شاہ کو گھورا
کیا ہوا ہے ایمان شاہ نے پوچھا کچھ نہیں ایمان اپنا ہاتھ دیکھتے ہوے بولی ایمان شاہ نے غصہ سے پکارا
ایمان نے گہرا سانس لیا اور ساری بات شاہ کو بتاتی اور آخرہ میں رونے لگئی
شاہ نے اس کو اپنے ساتھ لگیا چندا کچھ نہیں ہوتا یہ تمہارا وہم ہے لیکن پھر بھی ہم صبح ڈاکٹر کے پاس جائے گئے
جی ایمان نے جواب دیا علی بہت اداس تھا شاہ نے کہا جانتی ہو ایمان نے کہا اور علی کے پاس آئ
ماما کی جان سوری ایمان نے علی کو پیار کرتے ہوے کہا
ساری رات دونوں پریشان رکھے
صبح شاہ ایمان کو ڈاکٹر کے پاس لایا
ڈاکٹر سب ٹھیک ھے شاہ نے پوچھا ایسی حالت میں ایسا ہوتا ہے
شاہ پریشان سا ہوا کیسی حالت
یہ ماں بننے والی ہے ایک ماہ کی پرگنسی ہے آپ ان کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھے
ایمان اور شاہ حیران ایک دوسرے کو دیکھا رہے تھے
کار میں خاموش تھی کہ اچانک شاہ نے کار روکی
چندا میری جان میں بہت خوش ہو شاہ نے کہا
لیکن شاہ ایمان نے پریشان ہوتے ہوے کہا
یار کچھ نہیں ہوتا ڈدر نہیں شاہ نے اس کے ماتھے پر لب رکھے
The end
________________________________________