اگلے دن زارا ڈیوٹی پر موجود تھی۔
معاذ کو لگا تھا کہ شاید آج وہ چھٹی کرے مگر وہ آگٸ تھی۔
اسکے لیے ناشتہ بنا رہی تھی۔
چپ چاپ کام کرتی معاذ کو کھٹک رہی تھی۔
ناشتہ لگا کر وہ پلٹ گٸ۔
پھر سارا دن ہی وہ چپ چپ رہی تھی۔
اسکے کانٹریکٹ کو ختم ہونے میں پانچ دن رہ گۓ تھے۔
اسکے بعد اسے ایک کورس کے لیے دو سال کی لیےجاپان جانا تھا۔
وہ خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی تھی۔
معاذ کی نظریں اس پہ ہیں وہ بخوبی واقف تھی۔
اسی لیے وہ کوٸ غلطی کر کے اس کے روبرو نہیں ہونا چاہتی تھی۔
معاذ کی آج تین میٹینگز تھیں۔ وہ دونوں ہی مصروف تھے۔
حماد کے نہ ہونے کی وجہ سے زارا کو ہی سب دیکھنا پڑ رہا تھا۔
حیرت کی بات تھی معاذنے اسے ایک بار بھی نقاب کھولنے کا نہیں کہا تھا۔
لنچ ٹاٸم میں معاذ مصروف تھا اسکا لنچ سپانسرز کے ساتھ تھا۔
وہ انکے ساتھ کھانے میں مصروف تھا۔
مصروفیت میں وہ یہ بات یکسر بھلا چکا تھا کہ زارا نے بھی اب تک کچھ نہ کھایا تھا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
دو دن کی مسلسل مصروفیت کے بعد معاذ نے اسے ایک دن کا ریسٹ دے دیا تھا۔
ویسے بھی آج وہ فارغ تھا۔
زرک نے اسے اپنی شادی کی پکچرز بھیجی تھیں۔
کافی دن سےوہ دیکھ نہیں پایا تھا۔ سو آج وہ دیکھنے بیٹھ گیا۔
زارا کی تصویر دیکھتے ہی اسے اسکی یاد ستانے لگی۔
اسے زارا کی عادت ہو گٸ تھی۔
کہتے ہیں عادت محبت سے ذیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اور اسے تو دونوں ہو گٸ تھیں۔
تنگ آ کروہ باہر نکل گیا۔
دو تین گھنٹے بے مقصد گھومنے کے بعد وہ سی ساٸیڈ پہ آ گیا۔
ڈوبتا سورج ہر طرف خوبصورتی بکھیر رہا تھا۔
وہ تھوڑا ریلیکس ہوا تبھی اسکی نظر دور بچوں کے ساتھ کھیلتی لڑکی پہ پڑی۔
اسے شک گزرا تو وہ وہیں چلا آیا۔
اسکا شک صحیح تھا وہ زارا ہی تھی۔ دل ایک دم خوش ہو گیا تھا اسے دیکھ کر۔
وہ اسے تک رہا تھا تبھی زارا کی نظر اس پر پڑی۔
آپ یہاں؟؟؟
ہاں وہ میں بس یونہی آیا تھا۔ علیشہ نظر نہیں آ رہی۔
جی وہ گاٶں گٸ ہے۔ زارا کا موڈ کافی اچھا تھا آج۔
گاٶں کس لیے۔
وہ ادا اور بھرجاٸ نہیں ہیں نہ تو اس لیے۔
اوہ اچھا تم کیوں نہیں گٸ۔
میری ان سے ناراضگی چل رہی ہے۔ زارا ہنستے ہوۓ بولی۔
ناراضگی کیوں؟؟؟
وہ حیران ہوا۔
دراصل چار دن بعد میری فلاٸیٹ ہے میں جاپان جا رہی ہوں دو سال کے لیے۔
تو بس اماں بابا ناراض ہو گۓ ہیں۔
وہ آگے چلی گٸ جبکہ معاذ اسکے جانے کا سن کر رک گیا تھا۔
تم جا رہی ہو؟؟؟
ہاں وہ ایکچوٸلی ایک کورس کے لیے جا رہی ہوں۔
تم نے بتایا نہیں۔
دل بجھ گیا تھا۔
مجھے دھیان نہیں رہا۔ اچھا میں چلتی ہوں پھر ملتے ہیں۔
اللہ حافظ۔۔
وہ چلی گٸ جبکہ معاذ وہیں بیٹھا رہ گیا۔
وہ اسے دوست بھی نہیں سمجھتی کیا وہ اسے کسی قابل نہیں سمجھتی؟؟؟
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
معاذ اسکے گھر پہنچ گیا۔
معاذ آپ یہاں؟؟؟
کیوں کر رہی ہو تم ایسا؟؟
میں نے کیا کیا۔۔
وہ حیران ہو گٸ۔
کیا کیا ہے؟؟ یہ تم کہہ رہی ہو۔ اتنا سب کرنے کے بعد تم کہہ بھی کیسے سکتی ہو۔
معاذ نے اسکا بازو دبوچا وہ حواسوں میں نہ لگ رہا تھا۔
کیا اتنی ہی معصوم ہو تم جو میری باتوں کا مطلب نہیں سمجھتی۔
دھوکہ تو بہت آرام سے دے سکتی ہو مگر میری باتیں نہیں سمجھ سکتی تم۔
معاذ چھوڑو مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔
تمہیں درد ہو رہا ہے اور میرے درد کا کیا ہاں بولو میرے درد کا کیا؟؟؟
کیا تم نہیں جانتی کہ میں نے تمہارے لیے کبھی لنچ تو کبھی ڈنر کیوں پلان کیا۔ تم کیا اتنی ہی نا سمجھ ہو کہ اتنا نہیں جانتی کہ آٸ لَو یو۔۔۔۔
وہ اس قدر غصے سے بولا کہ زارا کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوٸ۔
معاذ نے اسے زور سے صوفے پر پھینکا۔
دوبارہ کبھی مجھے اپنی شکل مت دکھانا تم ورنہ تمہاری جان لے لوں گا میں۔
معاذ وہاں سے چلا گیا جبکہ زارا روتی رہی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
اگلے دن زارا کو ڈیوٹی پر دیکھ کر معاذ کا پارہ ہاٸ ہوا تھا۔
اسے لگا تھا کل رات کے بعد وہ جاب پر نہیں آۓ گی۔
مگر وہ آٸ تھی۔
ہاں مگر کوشش کر رہی تھی معاذ سے سامنا نہ ہو۔
وہ ناشتہ کر کے اٹھ گیا۔
آج اسکی بہت امپورٹنٹ میٹنگ تھی اسے فرانس جانا تھا وہاں اس نے ایک فلم ساٸن کی تھی اسی سلسلے میں میٹنگ تھی۔
وہ جا رہے تھے کہ اچانک ایک سنسان سی جگہ پہ گاڑی رک گٸ۔
معاذ نیوز پیپر پڑھ رہا تھا تو اس نے دھیان نہیں دیا۔
گاڑی سے اتریں سر۔
زارا کی آواز پہ اس نے اخبار ہٹایا۔
زارا ڈراٸیور کی کنپٹی پہ گن رکھے ہوۓ تھی۔
اس نے اردگرد دیکھا تو نہایت ہی سنسان جگہ تھی۔
یہ کہاں لے آۓ ہو۔
سر میں نے کہا گاڑی سے اتریں۔
اب کہ زارا نے ذرا اونچی آواز میں کہا۔
گن ابھی بھی ڈراٸیور کی کنپٹی پہ تھی۔
ڈونٹ موو۔
گن رکھے اس نے گاڑی کا لاک کھولا۔
باہر نکلتے ہی اس سے پہلے ڈراٸیور کوٸ ہوشیاری کرتا اس نے فاٸر کر دیا۔
اوہ گاڈ یہ تم نے کیا کیا تم ہوش میں تو ہو۔۔
وِل یو پلیز شٹ اپ۔ جلدی کریں اسے نکالیں گاڑی سے ہمیں ابھی نکلنا ہو گا یہاں سے۔
مگر تم۔۔۔
وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ فاٸرنگ ہونے لگی۔
وہ دونوں نیچے جھک گۓ۔
گاڑی پہ مسلسل فاٸرنگ ہو رہی تھی۔
وہ دونوں گاڑی کی اوٹ لیتے ایک ٹیلے کے پیچھے چلے گۓ۔
یہ سب۔۔۔
آپ پہ اٹیک ہوا ہے۔ یہ ڈراٸیور ملا ہوا تھا۔
معاذ نے اپنی گن بھی نکال لی۔
میں وہاں جاتا ہوں آپ کو اشارہ کروں گا تب فاٸر کرنا۔
مگر تم کیسے۔۔۔ دیکھو کتنی فاٸرنگ ہو رہی ہے۔ تمہیں گولی لگ گٸ تو۔
آپ میری فکر مت کریں۔
ایک دو فاٸر کرتے ہی آپ وہاں سے نکل جانا۔
یہاں سے باٸیں جانب کچھ ہی فاصلے پر آبادی ہے۔
وہاں سے مدد لے کر شہر کی طرف نکل جانا۔
وہ اٹھ کر جانے لگی کہ معاذ نے اسے روک لیا۔
تمہیں اکیلے چھوڑ کر کیسے چلا جاٶں۔
سر آپ میری فکر مت کریں آپ جاٸیں میں سنبھال لوں گا سب۔
فاٸرنگ تیز ہو گٸ تھی۔
زارا نے فوراً اپنی ایجنسی سے رابطہ کیا۔
وہ فاٸر بھی کر رہی تھی۔
ریت کا طوفان اٹھا تھا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔
فاٸرنگ ابھی بھی جاری تھی۔
لمحہ بہ لمحہ فاٸرنگ تیز ہوتی جا رہی تھی۔
معاذ نجانے کہاں تھا۔
اس اندھا دھند فاٸرنگ میں وہ اسے ڈھونڈ نہ پا رہی تھی۔
طوفان ذرا تھما تو زارا اس جانب بھاگی۔
وہ بھاگ رہی تھی کہ اسکا پاٶں مڑ گیا۔
وہ منہ کے بل گری۔
گولیاں ابھی بھی چل رہی تھیں۔
وہ بمشکل گھسٹتی ہوٸ چل رہی تھی۔
کہنیوں کے بل آگے بڑھتے ریت اسکی آنکھوں میں گھس رہی تھی۔
ہلنا مت۔۔۔
وہ آگے بڑھ رہی تھی کہ راٸفل کی نال اسکے سر سے ٹکراٸ۔
اسکے پاس دو سیکنڈ تھے فیصلے کے لیے۔
پلٹ کر اس نے فاٸر کر دیا۔
نشانہ چوک گیا۔
اس آدمی نے اسے جوتوں کی زد میں رکھ لیا۔ وہ مسلسل اسے لاتیں مارے جا رہا تھا۔
ایک زوردار لات اس نے زارا کے پیٹ میں ماری۔
قریب تھا کہ وہ اسے راٸفل کےدستے سے مارتا ایک گولی اسکے آلگی۔
وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔
معاذ اسے بری طرح پیٹے جا رہا تھا۔
سر سر نکلیں یہاں سے۔
زارا نے بمشکل اسے روکا۔
وہ فوراً اسکی جانب مڑا اور اسے لیے ایک پہاڑی کی اوٹ میں ہو گیا۔
آپ گۓ کیوں نہیں؟؟؟ جب میں نے کہا تھا تو۔۔
چپ ایک چپ ایک لفظ اور نہیں۔
دل تو چاہتا ہے دو تھپڑ لگاٶں تمہیں۔
کیوں تم گٸیں وہاں اور مجھے کیا بزدل سمجھا ہوا ہے جو بھاگنے کا کہہ رہی تھی۔ کچھ ہو جاتا آج تو۔
معاذ نے اسے زور سے بھینچ لیا۔
سر آپ۔۔۔
چپ ہو جاٶ تم مجھے غصہ مت دلاٶ۔
معاذ نے اسکا نقاب ہٹایا۔
زارا کا سانس سوکھ گیا۔
مگر معاذ نارمل تھا تو کیا وہ جانتا تھا کہ نقاب میں زارا ہے۔۔۔
اچانک اسکی واچ میں سگنل موصول ہوا۔
نکلیں یہاں سے ہیلپ آ گٸ ہے۔
تم چلو گی کیسے؟؟؟
چل لوں گی آپ فکر مت کریں۔
تھپڑ کھاٶ گی تم۔
وہ اسے سہارا دے کر بچتا بچاتا جا رہا تھا۔
اچانک سامنے سے فاٸرنگ ہونے لگی۔
گھمسان کارن پڑا دونوں جانب سے فاٸرنگ ہونے لگی تھی۔
پاک رینجرز بھی وہاں آگۓ تھے۔
ہر طرف گولیاں برس رہی تھیں۔
گردو غبار خون گولیاں خوف پیدا کر رہے تھے۔
اچانک ایک گولی سنسناتی ہوٸ آٸ تھی۔
اسکی نظر پڑی تو اس نے فوراً اسے دھکا دیا تھا۔
لمحوں کا کھیل تھا اور اسکا وجود خون میں لت پت پڑا تھا۔
یہ کیا کیا تم نے؟؟؟
تم پاگل ہو کیا؟؟؟ اس دن تم ان مرغابی کو مارنے سے ڈر رہی تھی اور آج تم نے بندہ مار دیا ہے۔۔۔
معاذ نے اسے جھنجوڑا۔
بندے کو اگر میں نہ مارتی تو وہ ہمیں مار دیتا۔
دو کے بجاۓ ایک کا مرنا صحیح تھا سو میں نے اسے مار دیا۔
زارا مزے سے بولی۔
کافی ڈھیٹ تھی ورنہ جس قدر وہ زخمی تھی اسے اب تک بے ہوش ہو جانا چاہیے تھا۔
اور معاذ نے اسے یہ کہا بھی تھا۔
مسٹر معاذ چوہدری یہ تعریف تھی یا طنز۔
زارا دانت پیستے ہوۓ بولی۔
جو تمہیں ذیادہ فِیل ہو وہی۔۔۔
معاذ بھی حساب برابر کرتا آگے بڑھ گیا۔
ایک لمحے کو تو اس کی سانسیں رک سی گٸ تھیں۔ جب زارا نے اسے دھکا دیا تو اسے لگا گولی زارا کو لگی ہے۔
مگر وہ بھول گیا تھا کہ وہ کوٸ انڈین ہیروٸن نہیں بلکہ پاکستانی ٹرینڈ سیکیورٹی آفیسر تھی۔
زارا نے معاذ کو جب دھکا دیا تو وہ خود بھی نیچے گری جس سے حملہ آور کی گولی مِس ہو گٸ جبکہ زارا نے پلٹ کر گولی اس کی گردن میں ماری۔
اگر معاذ سے کوٸ پوچھتا کہ ماں باپ کی موت کے بعد اس پہ سب سے ذیادہ اذیت ناک لمحہ کونسا گزرا تو شاید یہی وہ لمحہ ہوتا جب اسے لگا کہ گولی زارا کو لہو لہان کر چکی ہے۔
مگر اب وہ ہلکا پھلکا تھا۔
سیکیورٹی اہلکار اور رینجرز نے صورتحال کو کنٹرول کر دیا تھا۔
حملہ آور مارے گۓ تھے جو زخمی تھے وہ پکڑے گۓ تھے۔
معاذ آگے جا رہا تھا جب اسے زارا کے چیخنے کی آواز آٸ۔
آآآآآآ۔۔۔۔۔
اس نے پلٹ کر دیکھا تو زارا پیر پکڑے بیٹھی تھی۔
وہواپس اس تک آیا۔
کیا ہوا ایسے گلا پھاڑ کے چِلا کیوں رہی ہو؟؟؟
مم میرا پاٶں۔۔۔ لگتا ہے ٹوٹ گیا ہے۔۔۔
وہ رونی صورت بنا کر بولی۔
اچھا کیا ہوا کیا سے ٹوٹا اوہ زارا اب تو تم لنگڑی ہو جاٶ گی۔ پھر سب تمہیں ایک ٹانگ والی مرغی کہیں گے اب کیا ہو گا۔
معاذ بظاہر سنجیدگی سے بولتا آخر میں اسے چڑانے لگا۔
اور زارا کا دل کیا کہ ایک عدد گولی اسے بھی دے مارے۔
اس نے مٹھی بھر کر ریت معاذ پر پھینکی۔
اففف جاہل لڑکی۔۔۔
ریت معاذ کی آنکھوں میں پڑی۔
مجھے مرغی کیوں بولا۔
زارا منہ بنا کر بولی۔
لِسن میں نے تمہیں مرغی نہیں ایک ٹانگ والی مرغی بولا۔
تم۔۔۔۔
زارا نے اسے دونوں سے پیٹ ڈالا۔
ارے ارے کیا کر رہی ہو پاگل ہو گٸ ہو کیا۔۔۔
معاذ پیچھے کو گر گیا۔
تمہیں میں مار ڈالوں گی۔ وہ مسلسل اسے مارے جا رہی تھی کہ معاذ نے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔
جنگلی بٹیر ۔۔۔گولیاں مار سکتی ہو ایک پاٶں سے چل نہیں سکتی کیا۔
نہیں بالکل نہیں چل سکتی۔ تمہیں میں نے بچایا ہے میں خود زخمی ہو گٸ مگر تم ہٹے کٹے۔۔۔ تم سے اتنا نہیں ہوتا مجھے شکریہ ہی کہہ دیتے یا پھر مجھے گاڑی تک ہی لے جاتے۔
اہم ہم۔۔۔۔ اگر آپ کا جھگڑا ختم ہو گیا ہو تو کیا ہم چلیں۔۔
زارا کے باس نے آکر انہیں چپ کروایا۔
ہونہہ۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو گھورتے وہاں سے چلے گۓ۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...