دروازہ توڑ کر حامد علی خان اپنی ٹیم کے ہمراہ جیسے ہی کمرے کے اندر پہنچے تو سامنے کا منظر دیکھ کر سب ہکا بکا رہ گئے۔
کمرہ بالکل خالی تھا
کمرے میں سوائے ایک لیپ ٹاپ کے کچھ بھی نہیں تھا ۔ کمرہ کا جائزہ لیتے ہوئے حامد کو ایک پرچی ملی جس پر لکھا ہوا تھا ” ہم نے کہا تھا نا کہ ہمارا پیچھا کرنے کی یا ہمارے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی غلطی پروفیسر کی موت کا باعث بن سکتی ہے، میں اس وقت بھی تمہیں دیکھ سکتا ہوں”۔ حامد نے اوپر دیکھا تو سامنے ایک کیمرہ لگا ہوا تھا۔
“سر یہ لوگ تو میری سوچ سے بھی زیادہ ماہر نکلے، اس لیپ ٹاپ کو کسی دوسری جگہ سے ہیک کر کے ہمیں یہ لوکیشن دکھا کر بیوقوف بنایا جاتا رہا”۔ ہیکنگ ایکسپرٹ نے حامد کو بتایا۔
“اگر ہم نے آج کے دن پروفیسر کو آزاد نہ کرایا تو یہ لوگ اسے مارنے میں دیر نہیں کریں گے، ایسے لوگوں کے نزدیک قتل ایک دلچسپ سا کھیل ہے بس” حامد نے واپس ہیڈ کوارٹر پہنچ کر کہا۔
“ناظرین آپ کو ایک اور بہت بڑی بریکنگ نیوز دیتے چلیں، پروفیسر آزاد اغواء کیس میں اغواء کاروں کی جانب سے ایک اور ویڈیو پیغام موصول ہوئی ہے جس میں وہ اپنے مطالبات بتا رہے ہیں، جی ہاں آپ نے بالکل درست سنا، پروفیسر آزاد کو اغواء کرنے والے لوگوں کی جانب سے مطالبات کے سلسلے میں ایک اور ویڈیو پیغام موصول ہو چکی ہے۔ آئیے اب آپ کو لئے چلتے ہیں اس ویڈیو کی جانب” ۔
اغواء سے بائیس دن پہلے!
رات کے ڈیڑھ بجے جب گارڑ اپنا آخری چکر لگا کر جا چکا تھا تو بلال نے سر کے نیچے کئے اپنے تکئے کے اندر سے چھری نکالی اور اپنے ساتھ سوئے اپنے بھائی جلال کو غور سے دیکھنے لگا۔ بلال نے اٹھ کر جیل کی سلاخوں سے اردگرد ایک طائرانہ نظر دوڑائی اور یہ تسلی کر لینے کے بعد کہ سارے گارڑز بھی سو چکے ہیں جلال کی طرف آیا اور اسے جگایا۔
وقت ہو چکا ہے، بلال بولا۔
گارڈ آخری چکر لگا کر چلا گیا، جلال نے ایکٹو ہوتے ہوئے پوچھا۔
ہاں چلا گیا۔
جلال نے نیچے پہنے چادر کے کپڑے کو اپنے کمرے میں لگی جیل کی سلاخوں پر لٹکا دی تاکہ باہر سے کسی کو کچھ نظر نہ آئے۔
بلال نے باتھ روم کے پاس لگے بیسن کو کھولا تو اس کے پیچھے کی دیوار میں ایک بہت بڑا شگاف تھا ۔
بلال اور جلال دونوں سگے بھائی تھے جنہیں قتل کے مقدمے میں عدالت کی طرف سے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں جیل میں تین مہینے گزر چکے تھے اور جیل آتے ہی انہوں نے اپنے بھاگنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ بلال سول انجینئر تھا اور جلال آرکیٹیکچر۔ دونوں کے پاس پیسوں کی کمی نہیں تھی۔ جیل میں آتے ہی دونوں نے جیل وارڈن اور چند طاقتور قیدیوں سے پیسوں کے بلبوتے پر دوستی کر لی اور یوں دونوں کے لئے باہر سے کچھ منگوانا آسان ہو گیا۔ مکمل تسلی کر لینے کے بعد کہ اب ان کی آنے والی چیزیں پکڑی نہیں جائیں گی تو دونوں نے ایک کتاب کے اندر پیک کروا کر جیل کا نقشہ منگوایا اور اس نقشے کے مطابق وارڈن کو پیسے دے کر وہ کمرہ حاصل کیا جس کے بیسن کے بالکل پیچھے دیوار کے اندر سے پانی کے پائپوں اور بجلی کا انڈر گراؤنڈ سسٹم جا رہا تھا ۔ سوا مہینے سے روزانہ رات کو دو بجے سے لے کر صبح چار بجے تک دونوں بھائی باری باری بیسن کو کھول کر اندر جا کر دیوار کو لوہے کے ایک راڈ اور ہتھوڑے سے توڑنے کی کوشش کرتے۔ اب وہ اپنی منزل مقصود کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے کیونکہ یہ راستہ سیدھا انہیں جیل سے پچاس میٹر باہر پہنچاتا تھا۔ باقی دیوار توڑنے کا کام چند دنوں کا رہ گیا تھا۔ بھائی اب آزادی سے فقط تین دن کی دوری ہے ہماری، جلال نے چار بجے بیسن کو بند کرتے ہوئے بلال کو کہا۔
موجودہ دن!
پروفیسر آزاد آج بہت ڈرے ڈرے لگ رہے تھے، ان کے چہرے پر خون کے دھبوں کے نشانات تھے، صاف لگ رہا تھا کہ ان پر تشدد بھی کیا گیا ہے۔
“تیس کروڑ روپے، ہمارے خلاف سارے مقدمات کو فوری ختم کیا جائے، جس کے لیے آپ کے پاس صرف دس گھنٹے کا وقت ہے اور وہ دس گھنٹے آپ کے شروع ہوتے ہیں اب، اس اغواء کار نے پاس بندھے پڑے پروفیسر آزاد کو کچھ باندھا اور بٹن دبا دیا جس پر دس گھنٹے کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو گیا۔ یہ ایک ٹائم بم تھا جو پروفیسر کو لگایا گیا ۔
اگر تم نے کوئی آخری بات کسی کے ساتھ کرنی ہے تو کر دو کیونکہ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو دس گھنٹے بعد یہ بم تمہارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے خودبخود پھٹ جائے گا ، اغواء کار نے پروفیسر آزاد سے کہا۔
” مجھے نہیں پتہ کہ میں یہاں سے زندہ بچ کر واپس آؤں گا یا نہیں۔
رافیعہ اگر تم مجھے دیکھ رہی ہو تو میں تمہیں کہنا چاہتا ہوں کہ آزاد آج بھی تمہارا اسیر ہے
I love you so much Raafi”۔
پروفیسر آزاد کی آواز بھی اس کی طرح خوبصورت تھی۔
اِسی کے ساتھ ہی اغواء کار نے پروفیسر آزاد کے منہ پر ٹیپ باندھ دی اور ویڈیو بند ہو گئی۔
اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد جہاں لوگوں کے دلوں میں پروفیسر آزاد کے لئے ہمدردی اور محبت میں مزید اضافہ ہوا وہیں سب لوگوں کو پروفیسر آزاد اور رافیعہ کی محبت کے بارے میں بھی پتہ چل گیا اور سب نے پروفیسر کی سلامتی اور خیر خیریت سے واپسی کے لئے دعائیں مانگنا شروع کر دیں اور باقاعدہ احتجاجی مظاہرے سخت کر دیئے کہ کسی بھی حالت میں پروفیسر کو واپس لایا جائے۔ پروفیسر آزاد عوام میں بہت زیادہ مقبول ہو چکے تھے، ہر دوسرا فرد پروفیسر کو جان چکا تھا ٹاک شوز میں تو ویسے ہی وہ ڈسکس ہو رہا تھا پر ہر گھر الگ سے ایک ٹاک شو بن چکا تھا جہاں فقط پروفیسر کی باتیں ہو رہی تھیں۔
رافیعہ پروفیسر کی حالت دیکھ کر برداشت نہ کر پائی اور مظاہرے میں ہی بے ہوش ہو گئی جہاں سے اسے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے یہ کیس ایک بہت بڑا امتحان اور دردِ سر بن چکا تھا۔ یہ کیس خاص اس وجہ سے بن چکا تھا کیونکہ اس میں عوام شامل ہو چکی تھی اور عوام جس کے ساتھ ہوتی ہے طاقت اسی کے ساتھ ہوتی ہے کیونکہ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہوتی ہے۔
“یہ خبر کتنی سچی ہے” ، حامد علی خان فون سنتے ہی خوشی سے اپنی کرسی سے کھڑے ہو گئے۔
“سر کیا ہوا سب خیریت ہے نا” پاس بیٹھے ہوئے ایک آفیسر نے پوچھا۔
اغواء کاروں کے ٹھکانے کی پکی خبر ملی ہے، میں نے اپنے چند خبریوں کے ذمے لگایا تھا کہ وہ مجھے اُن بھاگے ہوئے قیدیوں کے ٹھکانے کا پتہ کر کے بتائیں اور آج آخرکار پتہ چل ہی گیا
Get ready for the action guys.
حامد اپنا پستول لوڈ کرتے ہوئے بولے۔
لیکن سر ابھی تک یہ بات تو کنفرم نہیں ہوئی کہ پروفیسر آزاد کو اغواء کرنے والے وہی قیدی ہیں، ٹیم کا ایک افسر بولا۔
تم نے اس ویڈیو میں ان کے مطالبات نہیں سنے تھے ، جس میں وہ اپنے خلاف کے تمام مقدمات کو ختم کرنے کی بات کر رہے تھے اور میرے خبری کو ان کے ٹھکانے کا پتہ دو دن پہلے ہی چل گیا تھا مگر اس وقت کنفرم نہیں تھا ، اس نے دو دن تک مکمل تصدیق کی ہے اور اس کے بعد مجھے بتایا، حامد نے تفصیلی جواب دیا ۔
حامد پروفیسر آزاد کو بازیاب کرانے کے لئے مکمل منصوبہ بندی کر کے اپنی ٹیم کے چار لوگوں کے ہمراہ مذکورہ جگہ پر روانہ ہو گیا جو شہر سے دور ایک بڑی پرانی عمارت تھی۔ تقریباً پینتالیس منٹ کے بعد ساری ٹیم اس عمارت کے قریب پہنچ گئی۔ عمارت کے باہر ایک گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ عمارت کے اردگرد آبادی کے نام پر چند عجیب قسم کے جانور پھر رہے تھے اور مٹی کے بڑے ٹیلے بنے ہوئے تھے۔ حامد نے ٹیم کو ایک مرتبہ پھر سے ساری پلیننگ سمجھائی۔ دو لوگ عمارت کے پیچھے کی طرف گئے ، دو سامنے کی طرف اور حامد خود عمارت کے بائیں جانب سے بنی ایک کھڑکی کے پاس چھپ گیا ۔ حامد نے کھڑکی پر لگے شیشے کے ایک ٹوٹے ہوئے کونے سے اندر دیکھا تو سامنے پروفیسر آزاد بندھا ہوا پڑا تھا اور بندوق تھامے ایک شخص اس کے پاس چکر لگا رہا تھا۔ حامد شیشہ توڑ کر اندر داخل ہو گیا۔ یہ پوری بلڈنگ کے اندر واحد جگہ تھی جہاں آسانی سے اندر داخل ہوا جا سکتا تھا کیونکہ باقی پوری بلڈنگ میں صرف ایک بڑا گیٹ تھا جو اتنا مضبوط تھا کہ اسے توڑنا نا ممکن تھا ۔
کھڑکی ٹوٹنے کی آواز پر اندر موجود لوگ چوکنا ہو گئے اور حامد پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ فائرنگ کی آواز سن کر ٹیم کے باقی لوگ بھی بھاگتے ہوئے اس طرف آئے جہاں حامد کھڑا تھا۔
فائرنگ کے دوران ایک گولی کمرے میں موجود واحد بلب کو لگی اور پوری بلڈنگ تاریکی میں ڈوب گئی۔ تقریباً دس منٹ تک بلڈنگ کے اندر فائرنگ ہوتی رہی، اس کے بعد فائرنگ رک گئی۔ ٹیم کے دو لوگ اسی کھڑکی سے چپکے سے اندر داخل ہوئے تو ایک زوردار دھماکہ ہوا جس کے ساتھ ہی وہ اور باہر کھڑے باقی کے دو لوگ سارے بلڈنگ سے دور جا پڑے اور ہر طرف فضا میں دھواں پھیل گیا۔