ایک دم گھر میں شور مچ گیا زوھیب کے آنے کا.سب کی نظریں دراوزے کی طرف اٹھیں.سب کے چھرے خوشی سے مسکرا رھے تھے.
جیسے ھی زوھیب نے گھر میں قدم رکھا.سب کے چهروں سے مسکراھٹ غائب ھو گئ.
زوھیب ایک لڑکی کا ھاتھ پکڑ کر گھر میں داخل ھوا تھا.
زوھیب کون ھے یه لڑکی.آغا جی(دعا کے دادا اور زوھیب کے نانا)کی گرج دار آواز لاؤنچ میں گونجی.
آغا جی یه آرزو ھے میری بیوی.زوھیب نے مضبوط لھجے میں کھا.
زوھیب کی بات سن کر گویا سب کو سانپ سونگھ گیا تھا.دعا بھی وھاں کھڑی خاموش تماشائ کا کردار نبھا رھی تھی.ایک آنسو دعا کی آنکھ سے نکلا تھا اپنی تزلیل پر اپنی نا قدری پر.امی.زوھیب بھاگتا ھوا فرح بیگم کی طرف آیا جو زوھیب کی بات سن کر صوفے پر گر گئ تھی.
پیچھے ھو جاؤ نا مراداور لاریب تم دعا کو کے کر کمرے میں جاؤ.آغا جی نے حکم دیا.
شفا آزر اور اسکی فیملی ابھی تک آۓ کیو نھیں. نور نےشفاسے پوچھا.
آپی میں نے انھیں کال کی تھی.وه کھ رھے تھے کے وه لوگ گاؤں سے نکلنے والے ھیں.
اچھا ٹھیک ھے.نور کھ کر کمرے سے چلی گئ.شفا نے دوباره آزر کو کال کی.اس دفعه بھی اس کا موبائل بند آ رھا تھا.شفا کی آزر سے جب سے بات ھوئ تھی تب سے لے آکر اب تک وه تین بار کال کر چکی تھی اور اسکا موبائل مسلسل بند آرھا تھا.شفا کو پریشانی شروع ھو گئ تھی.
لاؤنچ میں سارے بیٹھے ھوۓ تھے.
بولو کیوں کیا تم نے ایسا.کیوں میری معصوم بیٹی کو اپنے نام پر بٹھاۓ رکھا جب تم نے اسے اپنانا ھی نھی تھا تو.کلثوم بیگم نے غصے میں کھا.
کلثوم کو زوھیب پر بھت غصه آرھا تھا اور اپنی بیٹی کی قسمت پر رونا.
مامی جان آپ خود بتاۓ جس شخص کو آپ پسند نھیں کرتے اسکے ساتھ آپ ساری زندگی کیسے ره سکتے ھیں.مجھے آرزو سے مھبت ھے اسی لیۓ میں نے اپنی زندگی کو اس کے ساتھ گزارنے کا فیصله کیا ھے.زوھیب نے جواب دیا.
زوھیب کی بات سن کر دعا نے سر اٹھا کر ایک نظر اسکو دیکھا اور واپس سر جھوکا لیا.
بس کردو زوھیب.حد ھوتی ھے نافرمانی اور بد تمیزی کی.ایک تو تم نے غلطی کی اوپر سے تم جواب دے رھے ھو.بھائ بھابھی میں معافی مانگتی ھو. زوھیب کی غلطی کی.دعا بیٹا خدا کے لۓ مجھے معاف کر دو.فرح بیگم نے دعا کے سامنے ھاتھ جوڑے.
دعا یه دیکھ کر تڑپ ھی تو گئ تھی.پلیز پھوپھو ایسا مت کریں.دعا نے انکے ھاتھ نیچے کرتے ھوۓ کھا.
پلیز پھوپھو ایسا مت کریں دعا نے انکے ھاتھ نیچے کرتے ھوۓ ھوۓ کھا.
ھر ایک کا حق ھوتا ھے کے وه کس کے ساتھ زندگی گزارنه چاھتا ھے.اگر زوھیب نے اپنی پسند کی شادی کر لی ھے تو سے میں کوئ بری بات نھیں ھے.یه انکا حق تھا.آرزو ھی انکے نصیب میں تھی میں نھیں.دعا نے فرح بیگم کا ھاتھ پکڑ کر دھیمے لھجے میں کھا.
فرح بیگم نے نم آنکھوں سے اس لڑکی کو دیکھا جس پر اتنا کچھ گزر جانے باوجود اسکے چھرے پر شکایت کا ایک عنصر تک نا تھا.کوئ اتنا اچھا کیسے ھو سکتا ھے.انھوں نے دل میں سوچا.
کلثوم بیگم کھڑی ھوئ.دعا کے سے انگھوٹی اتار کر فرح بیگم کے جانب بڑھائ.میں نے آپ کو اور زوھیب کو معاف کیا.شاید دعا زوھیب کے نصیب میں تھی ھی نھیں.یه کھ کر وه دعا کا ھاتھ پکڑ کر کمرے کی جانب چلی گئ.
فرح بیگم نے زوھیب کو معاف کر دیا تھا.جب سب معاف کر چکے تھے وه تو پھر آخر ماں تھی.کیسے اپنی اولاد سے ناراض ره سکتی تھیں.
کیا کر رھا ھے میرا بیٹا.کچھ نھیں امی بس آفس کا کام کر رھا تھا.دانیال نے محبت سے اپنی ماں کو دیکھتے ھوۓ جواب دیا. Graduation کے بعد دانیال نے آفس میں جاب شروع کر دی تھی.
بھئ میں تو سوچ رهی ھو که اب اپنے بیٹے کے ھاتھ پیلے کر دوں.اب تو خیر سے اتنی اچھی پوسٹ پر بھی ھے اور اکلوتا بیٹاھے میرا سو سو ارمان ھیں میرے اپنے بیٹے کی شادی کے. فائزه بیگم نے محبت سے کھا.اچھا تمھیں کوئ لڑکی پسند ھے.فائزه بیگم نے دوستانه لهجے میں پوچھا.
انکی بات پر دانیال کے ذھن دعا کا خیال آیا.لیکن وه تو کسی اور کی ھو چکی ھے.اب تک تو شاید اسکی شادی کی تاریخ بھی رکھ دی گئ ھو گی.کاش وه میری ھوسکتی.
دانیال صرف سوچ کر ھی ره گیا.
کھا کھو گۓ.فائزه بیگم نے کھا.
نھیں مجھے کوئ پسند نهی اورجیسا آپ کو ٹھیک لگے.یھ کھ کر وه کام پر مصروف ھو گیا.
پلیز آزر فون اٹھا لو پلیز.شفا نے روتےھوۓ کھا.شفا کل سے لے کر اب تک آزر کو لاتعداد فون کر چکی تھی.لیکن اسکا موبائل مسلسل بند آرھا تھا.آج آخری دن تھا شفا کی محلت کا.اگر آج آزر کی فیملی نھیں آئ تو کل نور رشته والوں کو بلا لے گی اور وه کچھ نھیں کر سکے گی.یهی سوچ سوچ کر شفا کی جان ھلکان ھو رھی تھی.شفا کے زھن میں نور کی بات آئ.اسنے فورا اپنی سوچ کو جھٹکا.نھیں آزر مجھے دوکھا نھیں دے سکتا.
اسی وقت اسکے موبائل پر ایک میسج آیا.