اگات پور سے ونود کا خط آیا تھا۔ ایک ایسا خط جس نے مجھے پریشان کر دیا تھا۔
ونود نے لکھا تھا “جگل تم فوراً اگات پورچلے آؤ۔ میں بہت پریشان ہوں ۔ ایک بت نے میری راتوں کی نیند چھین لی ہے ۔ تم شاید میری بات کی ہنسی اڑاؤگے لیکن میں سچ لکھتا ہوں ۔ یہ بت روزانہ 12بجے زندہ ہو جاتا ہے اور پھر ٹھیک 12:35 بجے پر دوبارہ بت میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اس لئے تم فوراً یہاں آ جاؤ تاکہ ہم دونوں بت کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکیں ورنہ میں تم کو سچ لکھتا ہوں کہ یہ بت مجھے اور شانتا دونوں کو پاگل بنادے گا۔
ونود میرے بچپن کا دوست تھا۔ ہم دونوں نے ساتھ ہی تعلیم پائی تھی۔ لیکن میں نے ڈاکٹرِی کی سند لینے کے بعد ڈاکٹری کا پیشہ اپنایا تھا اور ونود نے ڈگری لینے کے بعد کاشت کار بننا پسند کیا تھا۔
آج کل ونود اگات پور میں رہ رہا تھا اور وہاں اس نے ایک بڑا فارم قائم کر لیا تھا۔ وہ مجھے پابندی سے خط لکھتا تھا اور اکثر مجھے گاؤں آنے کی دعوت دیتا تھا۔ میں اپنے پیشہ کی مصروفیت کی وجہہ سے ہمیشہ اس کی دعوت ٹال جاتا تھا لیکن جب اس نے مجھے مصبیت میں پکارا تو میں کوئی بہانہ نہ کر سکا میں اسی دن شام کی گاڑی سے اگات پور روانہ ہو گیا۔
دوسرے دن صبح 7بجے اگات پور پہنچ گیا اور ایک گھنٹے کے اندر میں ونود کی حویلی کے سامنے کھڑا تھا۔
میں نے اسٹیشن سے حویلی تک پہنچنے کیلئے ایک یکہ کرائے پر لے لیا تھا۔ یکہ والے نے جب یہ سنا کہ میں زمیندار کی حویلی جا رہا ہوں تو اس نے بڑے غور سے مجھے دیکھا اور پھر کہا “میرا خیال ہے کہ آپ ٹھا کر ونود کمار سے ملنے آئے ہیں “۔
“ہاں” میں نے جواب دیا۔ وہ میرے دوست ہیں ۔
“لیکن سرکار۔۔۔” بوڑھے یکہ بان نے کہا۔
“ٹھا کر صاحب نے یہ حویلی خرید کر بڑی غلطی کی ہے اس حویلی میں تو ہمارے پرانے زمیندار نے بھی رہنا چھوڑدیا تھا۔
لیکن کیوں؟ میں مسکرا کر پوچھا۔
اس لئے کہ حویلی کے باغ میں اکثر رات کو کوئی چلتا نظر آتا تھا۔ اور کبھی کبھی چیخیں بلند ہوتی تھیں ۔ بوڑھے نے بڑے ڈرامائی انداز میں جواب دیا۔
یعنی تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ وہاں کوئی بھوت رہتا ہے ۔
“ہاں سرکار”۔
میں نے یکہ والے سے اور کوئی بات نہیں کی لیکن تمام راستے میں یہی سوچتا رہا کہ واقعی دنیا میں بھوتوں کا کوئی وجود ہے ؟ کیا واقعی انسان مرنے کے بعد بھوت بن جاتا ہے ؟ بھوت کے بارے میں میرا ذہن مختلف سوالوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ میں نے جیب سے ونودکا خط دوبارہ نکال کر پڑھا اور پھر سوچنے لگا کہ بت کیسے زندہ ہو سکتا ہے ؟ یقینا ونود کسی سخت قسم کے وہم میں مبتلا ہو گیا ہے ۔ یہ بالکل ناممکن ہے کہ مٹی، پتھر یا لوہے کا بنا ہوا کوئی بت کسی مقررہ وقت پر زندہ ہو جائے اور پھر مقررہ وقت پر دوبارہ بت میں تبدیل ہو جائے ۔
میں انہی سب خیالوں میں غرق تھا کہ حویلی آ گئی۔
اس وقت حویلی بالکل سنسان پڑی تھی صرف کالکا برآمدے میں بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ یکہ کی آوازسن کر وہ چونک کر کھڑا ہو گیا اور جب اس نے مجھے دیکھا تو دوڑکر میرے پاس آ گیا۔ اس نے میرا سامان اتارنے کے فوراً بعد کہا اچھا ہوا آپ آ گئے چھوٹے بابو آپ کا انتظار ہی کر رہے تھے ۔ میں نے محسوس کیا کہ کالکا صرف پریشان ہی نہیں خوف زدہ بھی ہے ۔
مجھے برآمدے میں بٹھا کر کالکا حویلی کے اندر چلا گیا تاکہ ونود کو میری آمد کی اطلاع دیدے ۔ اور میں حیران حیران نظروں سے حویلی کے ویران باغ کو دیکھنے لگا۔ میں سوچتا رہا کہ ونود نے اس باغ کو درست کیوں نہیں کروایا اور پھر بالکل اچانک میری نگاہ حویلی کے سامنے فوراے کے حوض کے درمیان میں نصب شدہ ایک بت پر پڑگئی۔
یہ بت ایک عورت کا تھا۔
بت پر نگاہ پڑتے ہی میری رگوں میں خوف کی ایک لہر سی دوڑگئی۔ میرے ذہن میں فوراً یہ خیال پیدا ہوا کہ کہیں یہی وہ بت تو نہیں ہے جس نے ونود کی راتوں کی نیند حرام کر رکھی ہے ۔
بت کا رخ حویلی کی جانب تھا۔ اور اپنی کھلی آنکھوں سے مسلسل حویلی کی جانب دیکھے جا رہا تھا۔ دوسرے ہی لمحہ میں نے اپنے اعصابی خوف پر قابو پالیا اور میں اٹھ کر فوارے کے حوض کے قریب پہنچ گیا۔
ٹھوس پتھر کا یہ بت کسی خوب صورت عورت کا تھا۔ اور بت تراش نے اس کی تخلیق میں اپنے فن کا سارا نکھار صرف کر دیا تھا۔ میں چند لمحات کیلئے بت کے حسن میں کھوکر رہ گیا۔ اور اُسی وقت چونکا جب ونود میرے قریب آ کر مجھ سے لپٹ گیا۔
“میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا” ۔ ونود نے کہا
” مجھے پوری امید تھی کہ میرا خط ملتے ہی تم اگات پور کیلئے روانہ ہو جاؤ گے “۔
لیکن میں ونود کی بات کا کوئی جواب نہ دے پایا پہلے میں مہبوت ہو کر بت کی طرف دیکھ رہا تھا اور اب میں انتہائی غم و افسوس کے عالم میں اپنے دوست ونود کی طرف دیکھ رہا تھا کیونکہ ونود برسوں کا بیمار معلوم ہورہا تھا۔ اس کے چہرے پر وحشت سی برس رہی تھی۔ رنگ ہلدی کی طرح پیلا ہو چکا تھا۔ اور آنکھیں بجھی بجھی سی نظر آ رہی تھی۔
میں نے اس سے کہا “یہ تمہاری کیا حالت ہو گئی ہے ونود؟“
“اندر چلو” ونود نے جواب دیا “میں تمہیں ساری داستان سنادوں گا۔
“شانتا بھابھی کہاں ہیں ؟” میں نے دوسرا سوال کیا۔ اس کی حالت مجھ سے بھی زیادہ خراب ہے اُس نے تو اپنے کمرے سے باہر نکلنا ہی چھوڑدیا ہے ۔ ونود نے بڑے اُداس لہجے میں جواب دیا۔
“یعنی کسی بت نے تم دونوں کے چہروں سے زندگی چھین لی ہے” ۔
ہاں ۔ ونود نے حلق سے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
اب ہم دونوں حویلی کے برآمدے میں داخل ہو چکے تھے میں نے پلٹ کر دوبارہ باغ کے بت کی طرف دیکھا وہ اُسی طرح ساکت و جامد کھڑا تھا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں ؟ بت پر نظر پڑتے ہی ایک مرتبہ پھر میرے جسم میں خوف کی ایک لہر سی دوڑگئی۔
شانتا کی حالت واقعی ونود سے زیادہ ابتر تھی ۔ وہ پلنگ پر ٹی بی کی مریضہ کی طرح پڑی تھی۔ مجھے دیکھ کر ایک پھیکی مسکراہٹ اس کے لبوں تک پھیلی اور اس کے بعد اُس کا چہرہ دوبارہ ساکت ہو گیا۔
اب ونود نے اپنی کہانی شروع کی اور مسلسل دو گھنٹے تک وہ اپنی ناقابل یقین کہانی سناتا رہا۔ یہ کہانی ونود کے بجائے اگر کوئی اور سناتا تو میں کسی قیمت پر اس کو سچ نہیں سمجھتا۔
تعلیم کے دوران ہی ونود کھیتی باڑی کے پیشے کو اپنانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی تعلیم ختم کرنے کے بعد شہر میں نہ کوئی کاروبار شروع کیا اور نہ ملازمت تلاش کی۔ اس نے اپنے باپ کے سامنے اپنے مستقبل کا منصوبہ رکھا اور پھر اگات پور میں دریا کے کنارے زمین خریدلی تاکہ وہاں جدید طریقوں پر کاشت کرے ۔
وہ چونکہ دیہات میں ہی رہنے کا فیصلہ کر چکا تھا اس لئے اس نے اگات پور کے زمین دار کی حویلی بھی خریدلی۔ زمیندار صاحب خاتمہ زمین داری کے بعد شہر آ کر رہنے لگے تھے اور ان کی یہ حویلی تقریباً دس سال سے ویران اور خالی پڑی تھی۔ ونود کو یہ حویلی بہت پسند آئی تھی کیونکہ اس کے چاروں طرف ایک باغ بھی تھا۔
حویلی کی ضروری صفائی اور مرمت کے بعد وہ اپنی بیوی شانتا اور اپنے ملازم کالکا کو لے کر مستقل رہائش کے ارادے سے اگات پور پہنچ گیا۔ چند ہی دنوں میں اس کے ٹریکٹر اور دوسرے ملازم بھی اگات پور پہنچ گئے اور ونود اپنے فارم پر مصروف رہنے لگا۔ حویلی میں شانتا تنہا رہ گئی۔
شانتا کو تمام دن یہ تنہائی چوں کہ بار سی معلوم ہوتی تھی اس لئے اُس نے ایک دن ونود سے کہا “میں چاہتی ہوں کہ حویلی کے باغ کو نئے سرے سے لگاؤں ، اس طرح میرا وقت بھی کٹ جائے گا”۔
” ضرور لگاؤ”۔ ونود نے مسکرا کر کہا۔ میں خود چاہتا ہوں کہ جس طرح اس حویلی کونئی زندگی ملی ہے اسی طرح اس کے باغ میں بھی نئے پھول کھلیں ۔ میں کل ہی تمہارے لئے دومالیوں کا بندوبست کر دوں گا”۔
“لیکن مالیوں سے پہلے میں باغ کے پرانے کنوئیں کی صفائی کروانا چاہتی ہوں یہ کنواں باغ کی سینچائی کیلئے ہی پرانے زمیندار نے بنوایا ہو گا۔ شانتا نے سوچ کر کہا۔
“ہاں تم ٹھیک کہتی ہوں “۔ ونود نے جواب دیا۔ “ہمیں پہلے یہ کنواں ہی صاف کرانا چاہئے ۔ تاکہ باغ کے پودوں اور درختوں کو پانی کی محتاجی نہ رہے ۔ میں کل ہی گاؤں سے کچھ مزدور بلوالوں گا اور یہ مزدور اس کنوئیں کی صفائی کر دیں گے “۔
دوسرے ہی دن ونود نے حویلی کے اس قدیم کنوئیں کا معائنہ کیا۔ کنواں نیچے سے اوپر تک پختہ تھا اور کافی بڑا تھا۔ اس نے معائنہ کے بعد کالکا سے کہہ دیا کہ وہ گاؤں سے کنواں صاف کرنے والے پیشہ ور مزدوروں کو بلالائے اور آج ہی سے کنوئیں کی صفائی شروع کرادے ۔
دن کے گیارہ مزدور آ گئے اور انہوں نے کنوئیں کی صفائی شروع کر دی۔ سب سے پہلے انہوں نے کنوئیں کا پانی نکالنا شروع کیا تین دن تک وہ بڑے بڑے ڈولوں کی مدد سے کنوئیں کا پانی باہر نکالتے رہے اور ہزاروں ڈول پانی باہر نکل گیا چوتھے دن پانی کم ہو گیا تو مزدور کنوئیں کے اندر اترنے کے قابل ہو گئے ۔ اب انہیں کنوئیں کی تہہ سے پرانا ٹوٹا پھوٹا سامان نکلنا شروع ہو چکا تھا۔ اس میں برتن بھی نکلے اور پرانی تلواریں بھی کچھ سکے بھی نکلے اور لوہے کے کچھ اوزار بھی۔ لیکن سب سے زیادہ حیرت ناک چیزجو اس کنوئیں سے نکلی وہ پتھر کا ایک بت تھا۔
بت اتنا خوبصورت تھا کہ ونود اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہیں سمایا۔ اس بت کو یقیناً کنوئیں میں پھینکا گیا ہو گا لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ کسی جگہ سے نہیں ٹوٹا تھا اور پانی میں پڑے رہنے کے باوجود اس کی ساری چمک باقی تھی۔
مزدوروں کی وجہہ سے کنوئیں سے اس بت کے نکلنے کی خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ بے شمار یہ بت دیکھنے آئے کسی نے کہاکہ یہ کسی دیوی کا بت ہے اور کسی نے کہا کہ پرانے زمانے کی ایک رانی کا بت ہے ۔ لیکن گاؤں کے بڑے بوڑھے تک یہ نہ بتا پائے کہ یہ بت کس کا ہے ۔
ونود جاننا چاہتا تھا کہ یہ بت کنوئیں میں کیسے پہنچا۔ اس لئے وہ ایک دن شہر گیا۔ اس نے حویلی کے پرانے مالک سے جو گاؤں کا سابق زمیندار بھی تھا ملاقات کی اس کنوئیں سے عورت کا بت نکلنے کی بات بتائی اورپھر اس سے پوچھا “میں نے سنا ہے کہ آپ کے پردادا نے یہ حویلی بنوائی تھی کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ یہ بت اس کنوئیں میں کیسے پہنچا”۔
جواب میں زمیندار نے کہا “میں آپ سے سچ کہتا ہوں میں اس حویلی میں 38 سال تک رہا ہوں مجھے کنوئیں میں بہت کی موجودگی کا کوئی علم نہیں” ۔
“کیا آپ باغ کی سینچائی کیلئے یہ کنواں استعمال کرتے تھے “۔
ونود نے دوسرا سوال کیا۔
“جی نہیں “۔ زمیندار نے جواب دیا۔ “میرے پتاجی نے اس کنوئیں کو بند کرادیا تھا اور مجھے چوں کہ باغبانی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لئے میں نے کبھی کنوئیں کو بند رکھا اور گھریلو استعمال کیلئے اس کنوئیں کا پانی استعمال کرتا رہا جو حویلی کی پشت پر تھا”۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ یہ بھی نہیں بتاسکتے کہ یہ بت کس کا ہو سکتا ہے ۔ نود نے مزید پوچھا۔
جی نہیں ۔ زمین دار نے جواب دیا۔ لیکن آپ خود سوچئے کہ بت دیکھے بغیر میں اس کی شناخت کیسے کر سکتا ہوں ۔
کیا آپ کے پاس آپ کے آباء و اجداد کی تصویروں کا کوئی البم ہے ۔ ونود نے پوچھا۔
جی ہاں ۔ زمیندار نے کہا۔ آپ چاہیں تو اسے دیکھ سکتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ میرے اس البم میں کسی عورت کی تصویر نہیں ہے ۔ اس لئے بت کی شناخت کا مسئلہ پھر بھی باقی رہ جائے گا۔
“کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ آپ کے آباء و اجداد میں کسی کو بت سازی کا شوق تھا؟” ونود نے تھک کر پوچھا۔
جی نہیں ۔ زمیندار نے مسکرا کر کہا۔
“بت سازی تو الگ رہی ، میری حویلی میں بھگوان کی مورتی کے علاوہ کبھی کوئی بت نہیں رکھا گیا۔ میں خود حیران ہوں کہ کنویں سے عورت کا بت کیسے نکلا؟“
ایک منٹ خاموش رہنے کے بعد بوڑھے زمیندار نے کہا۔ “میں آپ کی الجھن دور کرنے کیلئے اس کنویں کے بارے میں آپ کو ایک بات اور بتادینا چاہتا ہوں ۔ یہ کنواں میرے خاندان میں سے کسی نہیں بنوایا ہے بلکہ یہ ہماری حویلی کی تعمیر سے قبل بھی موجود تھا اور استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ اب زمیندار سے مزید گفتگو بالکل بے کار تھی۔ اس لئے ونود وہاں سے قدیم تاریخ کے ایک پروفیسر مسٹر تارک ناتھ کے یہاں گیا اور اس نے ان سے بھی بت نکلنے کی کہانی بیان کی۔ پروفیسر تارک ناتھ نے یہ کہانی بڑی دلچسپی سے سنی اورکہا “میں بت دیکھے بغیر نہیں بتا سکتا کہ اس بت کی عمر کیا ہے ۔ “پھر آپ ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ اگات پور چلیں ۔ ” ونود نے پروفیسر سے درخواست کی اور پروفیسر اس کے ساتھ چلنے پر راضی ہو گیا۔ کیونکہ اسے پرانی چیزوں کے بارے میں تحقیق کرنے کا شوق تھا۔ گاؤں پہنچنے پر پورے دس گھنٹے تک پروفیسر تارک ناتھ اس بت کا معائنہ کرتا رہا اور اس کے بعد اس نے ونود سے کہا “میرے اپنے نظریہ کے مطابق اس بات کی عمر کم ازکم 200 سال ہے کیونکہ یہ بات جو لباس پہنا ہے اور جس قسم کے زیور اس کے بدن پر دکھائے گئے ہیں وہ 200 سال قبل ہندوستان کے امراء کی عورتیں استعمال کرتی تھیں ۔ پروفیسر تارک ناتھ نے مزید کہا “یہ بت کسی امیر گھرانے یک غیر شادی شدہ عورت کا ہے ۔ کیونکہ جس قسم کا لباس یہ پہنے ہے وہ اس زمانے میں صرف کنواری لڑکیاں پہنا کرتی تھیں لیکن جس عورت کا یہ بت بنایا گیا ہے اس کی عمر کم ازکم 22 سال ضرور رہی ہو گی۔ “لیکن پروفیسر” ونود نے پروفیسر کی باتوں میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ خوبصورت بت اس اندھے کنویں میں کیسے اور کیوں پھنکا گیا؟ صاف ظاہر ہے کہ اگر یہ بت اوپر سے پھینکا گیا ہوتو تو یقینا ٹوٹ جاتا اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ بت بالکل ٹھیک حالت میں ہے اور اس کی پالش تک باقی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کسی نے حفاظت کے استھ اس کو رسیوں سے باندھی کر کنویں میں اتارا ہو۔ پروفیسر نے کچھ سوچ کر جوا ب دیا۔ لیکن کس لئے ؟ ونود نے پریشان ہو کر پوچھا۔ یہ راز صرف بت ہی بتاسکتا ہے ۔ پروفیسر نے جوا ب دیا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی بت تراش نے یہ بت اپنے پڑوسیوں سے چھپت کر بنایا ہو اور مکمل ہونے کے بعد اس کو کنویں میں چھپادیا ہو۔ اچھا پروفیسر صاحب کیاآپ ہی کوشش کر کے اگات پور کے ماضی کا پتہ نہیں چلاسکتے ۔ ونود نے اب ایک نیا سوال کیا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے ۔ پروفیسر نے کہا۔ لیکن اس سے بھی ہم کو یہ نہیں معلوم ہو سکے گا یہ بت کس کا ہے اور اس کنویں میں کیوں رکھا گیا۔ دو دن تک پروفیسر تارک ناتھ اس کنویں سے برآمد ہونے والی تمام چیزوں کا معائنہ کرتا رہا اور اس کے بعد ونود سے یہ کہہ کر چلایا گیا کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر اگات پور کے بارے میں اپنی تحقیق اس کو بھیج دے گا۔ لیکن پروفیسر کے جانے کے بعد بھی ونود نے آرام نہیں کیا اس نے گاؤں بڑے بوڑھے بلائے اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس پرانے کنویں کے بارے میں جو کچھ بھی جانتے ہوں اسے بتادیں ۔ ونود کے سوال کے جواب میں ایک بوڑھے نے کہا” میں اپنے بچپن سے اس کنویں کو اسی طرح دیکھ رہا ہوں ۔ اس کا پانی استعمال نہیں کیا جاتا تھا اور اس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اس کنویں کا پانی ناپاک ہے اور جو بھی اس کو پی لیتا ہے بیمار ہو کر مرجاتا ہے ۔ ایک دوسرے بوڑھے نے کہاکہ “میں نے اپنے بچپن میں ایک مرتبہ اپنے باپ کو کہتے سنا تھا کہ اس کنویں میں کوئی خزانہ دفن ہے لیکن کنویں کے اندر ایک سیاہ ناگ اس خزانے کی حفاظت کرتا رہتا ہے ۔ اس لئے آج تک کسی نے اس خزانے کو نکالنے کی ہمت نہیں کی۔ ایک اور آدمی نے کہا”میں نے اپنے لڑکپن میں بڑے بوڑھوں سے یہ سنا تھا کہ اس کنویں میں کوئی بھوت رہتا ہے جو رات کو کنویں سے باہر آتا ہے اور راہ گیروں کو پریشان کرتا ہے ۔ یہ کہانی اتنی زیادہ مشہور ہو گئی تھی کہ لوگوں نے اس کے پاس سے گذرنا بھی چھوڑدیا تھا لیکن اگات پور کے زمیندار نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اس کنویں کے پاس ہی اپنی حویلی بنوالی۔ ونود کی یہ کوشش بھی بے کار گئی اُس کو اس بت کے بارے میں کوئی نئی بات نہیں معلوم ہو سکی۔ ایک ہفتہ اور گذر گیا۔ کنویں کی صفائی ہوتی رہی اور یہ بت کنویں کے قریب ہی زمین پر پڑا رہا۔ اسی اثناء میں پروفیسر تارک ناتھ کا خط آ گیا جس میں انہوں نے اگات پور کے بارے میں اپنی تحقیق کا نچوڑلکھ دیا تھا۔ پروفیسر تارک ناتھ کی تحقیق کے بموجب ۔ اگات پور میں تقریباً 200 سال قبل ایک راجپوت خاندان کا راجہ راج کرتا تھا یہ راجہ دہلی کے مغل بادشا ہوں کا دوست تھا لیکن کسی بات پر راجہ اور مغل بادشاہ میں اختلاف ہو گیا۔ مغل فوجوں نے ریاست پر حملہ کیا اور اس جنگ میں راجہ مارا گیا۔ راجہ کے مرتے ہی یہ گاؤں جو پہلے ایک بڑا شہر تھا بالکل ویران ہو گیا۔ یہاں کے رہنے والے بھاگ کھڑے ہوئے اور راجہ کے خاندان کے بقیہ لوگ پناہ لینے کیلئے اپنے رشتہ داروں کے یہاں چلے گئے لیکن رفتہ رفتہ اگات پور دوبارہ آباد ہونے لگا اور کچھ نئے لوگوں نے آ کر اپنے جھونپڑے بنالئے اور کھیتی باڑی شروع کر دی۔ پروفیسر نے اپنے اس خط میں مزید لکھا تھا “بہت ممکن ہے کہ یہ بُت اسی راجہ کے خاندان کی کسی عورت کا ہو اور راجہ کے رشتہ دار بھاگنے سے قبل اس کو کنویں میں ڈال گئے ہوں لیکن اگر یہ بات سچ مان لی جائے تب بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی رہ جاتا ہے کہ اوپر سے پھینکے جانے کی صورت میں یہ بت ٹوٹا کیوں نہیں ؟ ونود اس کے بعد خاموش ہو گیا۔ اُس بت کے بارے میں مزید چھان بین ختم کر دی اور یہ فیصلہ کر لیا وہ اس بت کو باغ کے حوض کے وسط میں نصب کرادے گا تاکہ حوض بھی خوبصورت نظر آئے اور باغ بھی۔ تین دن کے اندر اس نے راج مزدوروں سے باغ کے حوض میں ایک خوبصورت چبوترا بنوایا اور پھر کنویں سے برآمد شدہ اس بت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس چبوترے پر نصب کرادیا۔ اس کام سے فارغ ہونے کے اس نے اپنی بیوی شانتا سے کہا “شانتا ہمیں نہیں معلوم یہ بات کس کا ہے لیکن جیسے میرا دل کہہ رہا ہے کہ یہ بات صرف تخیل کی بنیاد پر تراشنے والے نہیں تراشا ہے بلکہ یہ بت ایسی عورت کا ہے جو کبھی ہماری طرح زند ہتھی۔ تم ذرا اس بت کے ہونٹوں پرپھیلی ہوئی نازک سی مسکراہٹ کو غور سے دیکھ تم بھی میری رائے سے اتفاق کرنے لگو گی۔ بہرحال یہ بت کسی کا بھی ہو مجھے یقین ہے کہ آج کے بعد اس کی روح کو سکون ضرور مل جائے گا۔ رات کے کھانے کے بعد ونود نے شانتا سے کہا “اب تم مالیوں کو ساتھ لے کرباغ لگانا شروع کر دو اور میرا خیال ہے کہ کل سے ہی کام شروع کر دو۔ اس گفتگو کے دو دن بعد… ونود اپنے فارم میں کام کی نگرانی کر رہا تھا کہ ایک مزدور سے ٹریکٹر ٹوٹ گیا۔ اس کے ٹوٹنے سے چوں کہ نقصان ہونے کا اندیشہ تھا اس لئے ونود نے سوچا کہ وہ آج ہی اس کا ٹوٹا ہوا پرزہ لے کر شہر چلا جائے اور اس کو ٹھیک کرا لائے یا نیا خرید لائے ۔ چنانچہ اس نے حویلی آ کر شانتا سے کہا “میں رات ذرا دیر سے آؤں گا تم کھانے پر میرا انتظار نہ کرنا، میں اپنے ٹریکٹر کا ایک پرزہ لینے کیلئے شہر جا رہا ہوں “۔ ونود اتنا کہہ کر اُسی وقت شہر چلا گیا۔ شانتا دیر تک اس کی موٹر سائیکل کی آواز سنتی رہی اور سوچتی رہی کہ ونود اُس کا کتنا خیال رکھتا ہے ۔ شام سے قبل وہ مالیوں کا کام دیکھنے کیلئے باغ آئی۔ سب سے پہلے اس کی نگاہ عورت کے بت پر پڑی اور پھر عورت ہونے کے باوجود جیسے شانتا اس عورت کے حسن میں کھوکر رہ گئی۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ آج پہلی مرتبہ اس بت کو دیکھ رہی ہو۔ آج اس نے یہ دیکھا کہ اس خاموش اور سنکی عورت کے بال گھنگھریالے ہیں اور بالوں کی ایک لٹ اس کی سفید پیشانی پر پڑی ہوئی ہے بالوں کا یہ انداز اسے بہت پسند آیا۔ اس نے غیر ارادی طورپر خود اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور پھر اسے افسوس ہی ہوا کہ خود اس کے بالوں میں یہ پیچ و خم کیوں نہیں ہے ۔ مالیوں نے جو کام کیا تھا شانتا نے اس کا معائنہ کیا۔ دوسرے دن کیلئے ان کو ہدایت دیں اور دوبارہ اپنے کمرے میں چلی آئی حویلی میں داخل ہوتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اس نے اس بت کو دیھکا اس مرتبہ اس کی آنکھوں سے بہت کیلئے ایک حسد سا جھان کرہا تھا۔ ونودکو شہر سے واپسی میں دیر ہو گئی اس کی موٹرسیکل خراب ہو گئی اور اسے ریل کے ذریعہ اگات پور آنا پڑا۔ جب وہ اپنی حویلی کے سامنے پہنچا تو رات کے 12:05 ہورہے تھے۔ وہ تیز تیز قدموں کے ساتھ حویلی میں داخل ہوا پھر جیسے اس کے قدم اپنی جگہ جم کر رہ گئے ۔ حویلی کے سامنے والے حوض میں بت کا چبوترہ بالکل خالی پڑا تھا۔ ایک لمحہ کیلے اس نے سوچا کہ بہت ممکن ہے بت حوض میں گر پڑا ہو اور اسی لئے چبوترہ خالی نظر آ رہا ہوں لیکن جب قریب آ کر اس نے یہ دیکھا کہ حوض بھی خالی پڑا ہے تو اس کی حیرت کی کوئی حدو انتہا نہیں رہی۔ چاندنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی سرد ہوا کے تیز جھونکے چل رہے تھے ایک لمحہ تک ونود اس خالی چبوترے کو دیکھتا رہا اور پھر جیسے اس کا خون سرد ہونے لگا۔ فوری طورپر اس کے خوف زدہ ہونے کی وجہہ یہ تھی کہ اب وہ حوض کے باہر زمین پر گیلے قدموں کے نشان دیکھ رہا تھا۔ اور اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ یا تو یہ نشانات بت کے قدموں کے ہیں یا اس عورت کے جس نے اس بت کو اس کی جگہ سے ہٹایا تھا۔ کیوں یہ نشانات بالکل تازے تھے اور یقینا کسی عورت کے تھے ۔ ونود انتہائی ڈراور خوف کے عالم میں وہاں سے شانتا کے کمرے کی طرف بھا گا لیکن شانتا نے بھی اس کی کوئی مدد نہیں کی۔ کیوں کہ وہ اپنی مسہری پر بالکل بے ہوش پڑی تھی۔ گیلے قدموں کے یہ نشانات اس کی مسہری کے پاس بھی موجود تھے ۔ بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اس نے شانتا کے ننگے تلوؤں کو دیھکا۔ اس کے تلوے بالکل خشک تھے ۔ اب وہ گھبرا کر تقریباً چیختا ہوا دوبارہ حویلی کے باہر نکلا برآمدے میں پہنچتے ہی اس کی نگاہ حوض پر پڑی۔ عورت کا بت دوبارہ اپنی جگہ کھڑا تھا۔ ونود نے ایک چیخ ماری اور اُسی جگہ گر کر بے ہوش ہو گیا۔
رات گئے جب کالکا کی آنکھ کھلی تب اُسے یادکہ اس کا مالک شہر گیا تھا چنانچہ یہ معلوم کرنے کیلئے کہ ونود واپس آیا کہ نہیں وہ اپنی کوٹھری سے باہر نکلا۔ اور پھر یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی کوئی حد و انتہا نہیں رہی کہ ونود برآمدے کے فرش پر بے ہوش پڑا ہوا ہے ۔
اس وقت رات کے 3بج رہے تھے ۔ کالکا گھبرا کر شانتا کے کمرے کی طرف بھاگا تاکہ اس کو جگا کر ونود کی بے ہوشی کی اطلاع دے لیکن جب ا س نے شانتا کو بھی اپنے پلنگ پر بے ہوش پایا تو وہ پریشان ہو کر بے تحاشہ چیخنے لگا۔ اس کی چیخیں سن کر دوسرے نوکبر بھی جاگ کر پہنچ گئے ۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ شانتا اور ونود بے ہوش کیوں ہوئے تھے ۔
15 منٹ کی کوششوں کے بعدبہرحال ونود کو ہوش آ گیا۔ پہلے ہوش شانتا کو آیا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولتے ہی سب سے پہلے گھبرا کر چارں طرف دیکھا اور جب اُسے مانوس چہرے نظرآئے تو اس نے بڑی مردہ آواز میں کالکا سے پوچھا “تمہارے مالک کیا اب تک نہیں آئے “۔
“آ گئے مالکین….” کالکا نے روہانسی آواز میں جواب دیا۔
“کہاں ہیں وہ …”شانتا نے دوسرا سوال کیا۔
“برابر کے کمرے میں “۔ کالکانے جواب دیا۔ “آپ کی طرح وہ بھی بے ہوش پڑے تھے لیکن آپ گھبرائیں نہیں …ابھی وہ بھی ہوش میں آ جائیں گے “۔ اتنا کہنے کے بعد کالکا نے شانتا سے پوچھا
آپ دونوں کو کیا ہو گیا تھا مالکین۔
“کچھ نہیں ….” شانتا نے کالکا سے اصل بات نہ بتانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس نے کالکا سے کہا “آو میرے ساتھ” اتنا کہہ کر وہ کالکا کا سہارا لے کر اٹھی اور اس کمرے تک گئی جہاں ونود بے ہوش پڑا تھا۔
اس وقت شانتا کا چہرہ غم اور خوف کی وجہہ سے اتنا سفید نظر آ رہا تھا جیسے کسی نے اس کے جسم کا سارا خون نچوڑلیا ہو۔ ایک ہی رات میں وہ اتنی کمزور ہو گئی تھی کہ اس سے قدم نہیں اٹھائے جا رہے تھے دونوں کی بے ہوشی کی خبر نے اس کے ذہنی خوف میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اب بھی جب وہ رات کے منظر کے بارے میں سوچنے لگتی اس کے جسم کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے تھے اور وہ خوف زدہ ہرنی کی طرح گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگتی تھی۔
لیکن…..اس کا یہ خوف کم ہو گیا جب اس نے ونود کو ہوش میں دیکھا۔ ونود ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ مسلسل چھت کی طرف دیکھ رہا تھا شانتا کی آواز سن کر اس نے اپنی پوری آنکھیں کھولیں اور بڑی نیم مردہ آواز میں کہا ’میں بالکل ٹھیک ہوں شانتا”۔
لیکن آپ کو کیا ہو گیا تھا….شانتا نے بڑی آہستہ آواز میں پوچھا۔ “تم جانتی ہو شانتا کہ تمہارے سوال کا جواب کیا ہے ۔ ونود نے شانتا کو انگریزی میں جواب دیا تاکہ دوسرے نوکروں کو بے ہوشی کا اصل سبب نہ معلوم ہو سکے ۔ اس نے مزید کہا “بہرحال میں نوکروں کے جانے کے بعد تمہاری آپ بیتی سبھی سنوں گا اور اپنی کہانی بھی سناؤں گا۔ اس وقت ہماری خاموشی ہی مناسب ہے کیونکہ اگر نوکروں کو ہماری بے ہوشی کا اصل سبب معلوم ہو گیا تو وہ ہمیں اطلاع دئیے بغیر حویلی سے بھاگ جائیں گے ۔
پندرہ منٹ کے بعد جب کالکا اوردوسرے نوکروں نے یہ دیکھا کہ شانتا اور ونود کی طبعیت بالکل ٹھیک ہے تو وہ اجازت لے کر چلے گئے صرف کالکا موجود رہا لیکن ونود نے اس کو بھی جانے کیلئے کہہ دیا۔ اب وہ جلد ازجلد تنہائی چاہتا تھا تاکہ شانتا کی کہانی سن سکے اور اپنی سناسکے ۔ انسان کی عجیب فطرت ہے دوسروں کا غم سن کر خود اس کا غم ہلکا ہو جاتا ہے اور اپنا غم دوسروں کو سنانے کے بعد بھی وہ ایسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے اس کے غم میں کمی آ گئی ہے ۔
کالکا کے جانے کے فوراً بعد ہی ونود نے شانتا سے پوچھا “ہاں اب بتاؤ کہ تم بے ہوش کیوں ہوئی تھیں ؟ تم نے کیا دیکھا تھا؟”
“میں تمہارے انتظار میں ایک ناول پڑھ رہی تھی کہ تھک کر میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ چند منٹ بعد گھڑی نے 12کے گھنٹے بجائے میں نے آنکھیں بند کئے کئے سوچا کہ آخر تمہیں شہرسے آتے ہوئے اتنی دیر کیوں ہو گئی ہے ۔ اسی طرح 5منٹ گزر گئے ۔ اچانک میں نے محسوس کیا جیسے کمرے میں میرے علاوہ کوئی اور بھی موجود ہے ۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اور پھر ونود۔ یہ دیکھ کر میری آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی کہ میرے پلنگ کے بالکل قریب ایک عورت میری طرف دیکھ رہی تھی۔
پہلی ہی نظر میں پہچان چکی تھی کہ یہ عورت وہی ہے جس کا بت پرانے کنویں سے نکلا تھا اور ج تم نے حویلی کے سامنے حوض میں نصب کرادیا تھا اتنا کہنے کے بعد شانتا ایک لمحہ کیلئے خاموش ہو گئی اس نے بڑی خوف زدہ نظرو سے اپنے چاروں طرف دیکھا اور پھر کہا “ونود… اس عورت کو اپنے بالکل قریب دیکھ کر میں نے چیخنا چاہا لیکن چیخ نہ سکی، میں نے اٹھ کر بھاگنا چاہا لیکن میرا جسم جیسے شل ہو گیا تھا اور پھر دوسرے ہی لمحہ میں آواز نکالے بغیر بے ہوش ہو گئی”۔
یہ عورت کیسا لباس پہنے تھی”۔ ونود نے پوچھا۔ “وہی لباس جو بت کے جسم پر موجود ہے ۔ شانتا نے بڑی مردہ آواز میں جواب دیا۔
کیا وہ بالکل خاموش تمہارے نزدک کھڑی تھی تمہیں دیکھ رہی تھی۔ ونود نے دوسرا سوال کیا۔
ہاں ….بالکل خاموش کھڑی تھی۔ شانتا نے جواب دیا۔
کیا اس کی پلکیں جھپک رہی تھیں ۔ ونود نے نیا سوال کیا کیونکہ اس نے سن رکھا تھا کہ بھوتوں اور چڑیلوں کی پلکیں زندہ انسانوں کی طرح نہیں جھپکتی ہیں اور بالکل ساکت و جامد رہتی ہیں ۔
“یہ میں نے غور نہیں کیا کہ اس کی پلکیں جھپک رہی تھیں یا نہیں البتہ میں نے یہ ضرور محسوس کیا کہ اُس کی آنکھوں میں خلاف معمول بہت زیادہ چمک تھی۔
اس نے تم سے کوئی بات کی۔۔۔ ونود نے پوچھا۔
“نہیں بس وہ میری طرف دیکھے جا رہی تھی”۔ “اچھی طرح یاد کر کے بتاؤ شانتا کہ کیا تم نے کوئی خواب تو نہیں دیھا تھا…. ونود نے شانتا کو تسلی دینے اور اس کا خوف دور کرنے کیلے پوچھا۔
نہیں ونود…. شانتا نے بڑے یقین بھرے لہجے میں کہا۔ “میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ کہہ رہی ہوں کہ میرے قریب بالکل وہی عورت کھڑی تھی جس کا سنگی بت کنویں سے نکلا تھا۔
“اچھایہ بتاؤ کہ تم نے اس کے پیروں کی طرف دیکھا بھی تھا” ونود نے پوچھا۔ “ہاں دیکھا تھا اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس کے پیرہی دیکھ کر بے ہوش ہوئی تھی”۔ “کیا اس کے پیر چڑیلوں کی طرح مڑے ہوئے تھے “۔ ونود نے سوال کیا۔ “نہیں ونود… اس کے پیر زندہ انسانوں کے پیر تھے لیکن وہ بالکل گیلے تھے ۔ بالکل اس طرح جیسے وہ پانی میں چل کر میرے کمرے تک آئی ہو….”
ونود نے اس کے بعد شانتا سے اورکوئی سوال نہیں کیا چند منٹ تک وہ بالکل ساکت نظروں سے شانتا کی طرف دیکھتا اور پھر اس نے کہاکہ “تم ٹھیک کہتی ہو شانتا۔ وہ واقعی پانی میں چل کر تمہارے پاس آئی تھی….” ایک لمحہ کی خاموشی کے بعد اس نے مزید کہا “میں نے اس عورت کے گیلے قدموں کے نشان دیکھے تھے “۔
“لیکن تم برآمدے میں بے ہوش کیسے پائے گئے “۔ شانتا نے پوچھا۔ “تم رات کو کس وقت واپس آئے تھے ؟ کالکا کہتا تھا کہ اس نے رات کو 3بجے تم کو برآمدے میں بے ہوش پایا تھا”۔ “میں نے اس عورت کو دیکھ لیا تھا شانتا” ونود نے اب شانتا سے جھوٹ بولنا ہی مناسب سمجھا۔ اس نے کہا “لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اس علاقہ کی کوئی چور عورت ہے جو حویلی میں چوری کرنے آئی تھی اور مجھے دیکھ کر بھاگ گئی”۔
“لیکن ونود…”شانتا نے کہاکہ “اس کی شکل اور اس کا لباس پرانے کنویں کے بت سے ہوبہو ملتا جلتا تھا اور پھر اس کے پیر بھی گیلے تھے “۔
ہو سکتا ہے کہ جس عورت کا یہ بت ہے اس نے دوبارہ جنم لیا ہو اور اسی لئے اس کی شکل بت سے بالکل مشابہہ ہو ونود نے اپنا جھوٹ ثابت کرنے کیلئے فلسفہ آواگون یعنی تناسخ کا سہارا لیا۔
“اور اب یہ ثابت کرو کہ اس کے پیر کیوں گیلے تھے ؟ شانتا نے بڑے بھولے پن سے پوچھا۔ “بہت ممکن ہے کہ وہ حوض میں نصب شدہ خود اپنا بت دیکھ کر حیران ہوئی اور اس نے پانی میں اتر کر اس بت کو غور سے دیکھا ہو…. ونود نے دوسرا جھوٹ بولا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تم کیوں بے ہوش ہو گئے تھے ۔ شانتا اب اصل مطلب کی طرح آئی۔
سچی بات تو یہ ہے شانتا کہ میں حویلی میں ایک اجتنی عورت کودیکھ کر ڈرگیا تھا جیسے تم ڈر گئی تھیں ۔ ونود نے جواب دیا۔
ونود نے سوچا اور ٹھیک ہی سوچا کہ اگر وہ شانتا سے یہ کہہ دے گا کہ اس نے حویلی میں داخل ہوتے ہی بت کا چبوترہ خالی پایا تھا اور جب وہ دوبار اس کے کمرہ سے باہر نکل کر برآمدے سے آیا تھا تو اس نے حسب معمول بت کو اپنی جگہ موجود پایا تھا تو شانتا نہ صرف یہ کہ انتہائی خوف زدہ ہو جائے گی بلکہ اسی لمحے حویلی چھوڑدے گی چنانچہ اس نے شانتا کو تسلی دینے کیلئے اور اس کے ذہنی خدشات کو دور کرنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیا تھا۔
اس حادثہ کے بعد دونوں میاں بیوی ساری رات جاگتے رہے تھے ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ بت کے سوال پر غور کر رہے تھے لیکن دونوں کا انداز فکر ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔ ونود سوچ رہا تھا کہ بت زندہ کیسے ہو گیا اور شانتا سوچ رہی تھی کہ یہ اجنبی عورت کون ہو سکتی ہے ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ فکر مند تھے دونوں خوف زدہ تھے اور دونوں کو بڑی بے چینی سے آنے والی صبح کا انتظار تھا۔
صبح ہوتے ہی ونود نے سب سے پہلے آ کر بت والے حوض کا معائنہ کیا اور ایک مرتبہ پھر خود کو یہ یقین دلانا چاہا کہ اس نے رات کو جو کچھ دیکھا وہ اس کا وہم نہیں تھا۔ بت حسب معمول چبوترے پر نصب تھا اور حوض کے چاروں طرف کسی قسم کا کوئی نیا نشان نہیں تھا۔ ونود دیر تک کھڑا اس خوبصورت عورت کے بت کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہاکہ وہ رات کی بات کا یقین کرے یا نہ کرے ۔
ونود ایک لمحہ کیلئے بھی یہ ماننے کیلئے تیار نہیں تھا کہ رات کو اُس کی آنکھوں نے دھوکہ کھایا ہو گا۔ اس نے اپنی بیدار اور زندہ آنکھوں سے بت کو چبوترہ خالی دیکھا تھا۔ حوض کے آگے برآمدے میں گیلے قدموں کے نشان دیکھے تھے ۔ پھر وہ یہ کیسے مان لیتا کہ رات کو اس نے جو کچھ دیکھا تھا وہ اس کی نظروں کا فریب تھا۔ ونود نے سوچا کہ اگروہ تھوڑی دیر کیلئے یہ مان بھی لے کہ رات کو اس کی نظروں نے دھوکہ کھایا تھا تو پھر کیا شانتا کی نظروں نے بھی دھوکہ کھایا تھا کیا وہ بھی خواب دیکھ رہی تھی؟
لیکن یہ بالکل ناممکن تھا کہ شانتا نے خواب دیکھا ہو۔ اس لئے کہ خود اس نے اپنی آنکھوں سے شانتا کی مسہری کے قریب گیلے قدموں کے نشان دیکھے ۔ ونود بت کی طرف دیکھتا رہا اور اس کا ذہن مختلف خیالات کی آماجگاہ بنا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب کیا کرے ۔ اگات پور میں اس کا کوئی دوست بھی نہیں تھا جس سے وہ کوئی مدد یا مشورہ لیتا۔ اچانک اس کا ذہن پروفیسر تارک ناتھ کی طرف گیا جس سے اُس نے بت کی تاریخ معلوم کرنے میں مدد لی تھی۔ اس نے شانتا سے آ کر کہا کہ وہ چار گھنٹے کیلئے شہر جا رہا ہے اور دوپہر تک واپس آ جائے گا شانتا چونکہ ونود کے جھوٹ کی وجہہ سے اب بالکل خوف زدہ نہیں تھی اس لئے اُس نے بھی ونود کو نہیں روکا۔
ونود نے چلتے چلتے شانتا سے یہ بھی کہا “تم رات والی عورت کی بات کالکا یا کسی دورسے نوکر کو نہ بتانا”۔
“کیوں نہ بتاؤں ؟” شانتا نے پوچھا۔
“تم نہیں جانتیں یہ چھوٹی طبعیت کے لوگ ہوتے ہیں یہ لوگ بات کا بتنگڑبنالیں گے اور اس طرح میں اس چور عورت کو تلاش نہ کرپاؤں گا”۔
“تو کیا تم شہر اسی عورت کے چکر میں جا رہے ہو”۔ شانتا نے پوچھا۔
“ہاں …..” ونودنے ایک اور جھوٹ بولا “میں پولیس کو اطلاع دینے جا رہا ہوں “۔
“حیر…پھر میں اپنی زبان بند رکھوں گی”۔ شانتا نے بڑے مطمئن لہجے میں جواب دیا۔
ونود شہر پہنچا تو اتفاق سے پروفیسر تارک ناتھ اپنی کوٹھی میں ہی مل گئے ۔ اس دن ان کی طبیعت خراب تھی اس لئے وہ یونیورسٹی نہیں گئے تھے ۔ ونود کو دیکھتے ہی مسکرائے اور انہوں نے کہا
“میرا خیال ہے آپ اسی بت کے سلسلے میں آج بھی آئے ہیں “۔
“جی ہاں ….” ونود نے بڑی ہلکی آواز میں جواب دیا۔
“لیکن آپ کو کیسے پتہ چل گیا کہ میں پرانے بت کے سلسلے میں ہی آپ سے ملنے آیا ہوں “۔
اس لئے کہ آپ کچھ پریشان نظر آ رہے ہیں ۔ پروفیسر نے بدستور اپنی مسکراہٹ باقی رکھی۔
“ہاں پروفیسرصاحب….” ونود نے جواب دیا۔ “اورمیری یہ پریشانی اتنی عجیب و غریب ہے کہ آپ شائد میری بات کا یقین نہ کریں “۔
“نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں کہ آپ کوئی بات کہیں اور میں اس پر یقین نہ کروں ” پروفیسر تارک ناتھ نے اب اپنی مسکراہٹ ختم کر دی۔
ونود نے چند منٹ کے اندر پروفیسر کو رات کی پوری داستان سنادی اور پھر کہا کہ “میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نہ میری نظروں نے فریب کھایا اور نہ میں کسی وہم میں مبتلا ہوں ۔ میں اپنے بارے میں آپ کو یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ میں بھوت پریت پر بالکل یقین نہیں رکھتا”۔
ونود کی داستان سننے کے بعد پروفیسر چند لمحات تک آنکھیں بند کئے بیٹھا رہا اور پھر اس نے کہاکہ “آپ نے یقینا ایک ناقابل یقین داستان سنائی ہے لیکن میں بہرحال اس پر یقین کر رہا ہوں کیونکہ میں ماضی کی بھی ایسی کئی کہانیوں سے واقف ہوں جب روح دوبارہ اس دنیا میں واپس آئی اور اس نے اس دنیا کی سیرت کی۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ آپ مجھ سے کس قسم کی مدد لینا چاہتے ہیں ؟ ”
“میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس بت کے بارے میں ایک مرتبہ پھر تحقیقات کریں کہ اس بت کی کہانی کیا ہے ؟ یہ بت کس کا ہے ؟ یہ بت کنویں میں کیوں پڑا تھا؟” ونود نے کہا۔
“میں کوشش کروں گا”۔
“نہیں پروفیسر صاحب” ونود نے کہا
“آپ آج ہی سے یہ کام شروع کر دیجئے۔ اس کام پر آپ میری طرف سے دل کھول کر روپیہ خرچ کر سکتے ہیں کیونکہ میں ہر قیمت پر اس بت کا راز حاصل کرنا چاہتا ہوں “۔
“لیکن اس سے آپ کو فائدہ کیا ہو گا”پروفیسر نے سوال کیا۔
“میں بت کی بے چین روح کو سکون دلانا چاہتا ہوں “۔ ونود نے جواب دیا” اور اگر اس کی زندگی میں کوئی تمنا ادھوری رہ گئی ہے یا کوئی کام نامکمل رہ گیا ہے تو میں اسے سبھی پورا کر دینا چاہتا ہوں تاکہ روح کے بے قراری کو قرار آ جائے ۔”
“میں آپ کے خیالات کی قدر کرتا ہوں مسٹر ونود”۔ پروفیسر تارک ناتھ نے کہا
“میں بہرحال ہر ممکن کوشش کروں گا کہ اس بت کے بارے میں جو کچھ بھی معلومات ہوں وہ جلد ازجلد فراہم کر کے آپ تک پہنچادوں “۔
ونود اور پروفیسر تارک ناتھ دیر تک روح کے مسئلہ پر گفتگو کرتے رہے ۔ پروفیسر تارک ناتھ نے اپنی گفتگو کے دوران اگات پور کے بارے میں کچھ نئی باتیں بھی بتائیں ۔ انہوں نے کہا
“اگات پور کے حکمران راجپوت صرف بہادر ہی نہیں غیور بھی تھے ۔ ان کے یہاں بیوہ عورتوں کے ستی ہو جانے کا بھی رواج تھا۔ یہ کبھی غیر خاندان میں اپنے لڑکے کی شادی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی لڑکی کی…. میں نے بہت تحقیقات کی لیکن مجھے کوئی پتہ نہیں چل سکا کہ یہ حکمران خاندان اگات پور چھوڑنے کے بعد کہاں چلا گیا تھا اور راجہ کی نسل آج کل کس علاقہ میں آباد ہے ”
پروفیسر تارک ناتھ نے یہ بھی کہا “آپ بھوت پریت اور ارواح خبیثہ پر یقین کریں یا نہ کریں لیکن میرا یقین ہے کہ مرنے کے بعد بھی بعض روحیں اس دنیا میں موجود رہتی ہیں ان میں سے بعض نیک ہوتی ہیں اور بعض بد… بعض انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور بعض فائدہ پہنچاتی ہیں اور بعض نہ فائدہ پہنچاتی ہیں اور نہ نقصان”۔
حویلی کے بت کے بارے میں انہوں نے کہا
” میں نہیں کہہ سکتا کہ عورت کی روح نیک ہے یا بد… لیکن یہ بات ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ اس عورت کی روح آپ کی بیوی شانتا کے کمرے میں کیوں داخل ہوئی تھی اور اگر داخل ہو بھی گئی تھی تو اس کے پلنگ کے قریب کھڑی ہو کر شانتا کی شکل غور سے کیوں دیکھ رہی تھی”۔
“ہاں ….ونود نے کہا
” خود یہی سوال میرے ذہن میں بھی کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے ۔”
جواب میں پروفیسر نے کہا “آپ نے عورت کے وجود کے بارے میں شانتا سے جھوٹ بول کر بہت ہی اچھا کیا۔ ورنہ وہ نہ صرف پریشان ہوتی بلکہ شائد وہ اس حویلی میں ایک لمحہ کو بھی نہیں رکتی”۔
ونود پروفیسر سے باتیں کر کے اگات پور واپس آیا تو شانتا حسب معمول مالیوں سے باغ میں کام لے رہی تھی، رات کے حادثے کا اس کے چہرے پر کوئی ردعمل باقی نہیں رہا تھا۔ ونود کو دیکھ کر وہ فوراً اس کے قریب آئی اور اس نے پوچھا “تم نے پولیس میں رپورٹ درج کرادی..”
“ہاں شانتا… ونود نے جھوٹی مسکراہٹ کو اپنے لبوں پر بکھیرتے ہوئے جواب دیا۔
“لیکن تم نے اس عورت کا حلیہ کیا لکھوا یا ہے ۔ ” شانتا نے پوچھا۔
“وہی حلیہ جو اس بت کا ہے …، ونود نے بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور پھر موضوع بدلنے کیلئے شانتا سے کہا :
“کھانا تیار ہے یا نہیں “۔
“بالکل تیار ہے “۔ شانتا بولی “تم چل کر ہاتھ منہ دھوؤ میں ابھی میز پر کھانا لگواتی ہوں “۔
شانتا یہ جواب دے کر حویلی کے رسوئی گھر کی طرف چلی گئی لیکن ونود حویلی میں داخل نہیں ہوا وہ چلتے چلتے حوض کے قریب رک کر بت کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔
بت کی طرف دیکھتے ہی دیھکتے ونود نے اچانک محسوس کیا جیس بت کی نگاہیں زندہ ہو گئی ہیں اور ساکت آنکھوں میں زندگی کی چمک پیدا ہو گئی ہے ۔ چند لمحات بعد اس نے بت کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی پھیلتے دیکھی اور پھر قریب تھا کہ ونود کے حلق سے ایک چیخ سی نکل جاتی کہ کالکا وہاں آ گیا۔
ونود نے جب دوبارہ بت کی طرف دیکھا تو بت بدستور ساکت و جامد تھا۔ نہ بت کی آنکھوں میں چمک تھی نہ لبوں پر مسکراہٹ تھی اور نہ چہرے پر کوئی سرخی تھی۔ وہ اپنے وہم پر دل ہی دل میں ہنسا اور کالکا سے باتیں کرتا ہوا حویلی کے اندر داخل ہو گیا۔
ابھی شانتا رسوئی گھر سے نہیں آئی تھی لیکن ونود کھانے کی میز پر بیٹھ چکا تھا۔ اپنے مالک کو فرصت میں دیکھ کر کالکا نے کہا :
“آج میں دیہات کے بازار گیا تھا وہاں میں نے ویدجی سے آپ کی رات والی بے ہوشی کا تذکرہ کیا تو انہوں نے مجھے ایک بالکل نئی بات بتائی۔
“یہ وید جی کون ہیں …پہلے تو تم نے کبھی ان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا تھا”۔
“گاؤں کے بڑے پرانے لوگوں میں سے ایک ہیں مالک” کالکا نے جواب دیا۔
“وید جی کبھی اپنے مکان سے باہر نہیں نکلتے اور نہ ہی کسی مریض کے علاج کی فیس لیتے ہیں ۔ “”انہوں نے تم سے کہا کیا ہے …”
ونود نے بڑی گھبراہٹ کے ساتھ سوال کیا۔
“انہوں نے یہ کہا مالک کہ یہ حویلی جس میں ہم رہتے ہیں بڑی منحوس ہے “۔
کالکانے بڑے پراسرار انداز میں کہا۔ “کیوں کہ یہاں رہنے والی کوئی بہو ایک سال سے زیادہ زندہ نہیں رہی ہے ۔ زمیندار کو جب اس بات کا پتہ چلا تو اس نے اپنی بہو اور بیٹی کو حویلی میں نہیں رکھا”۔
“کیا وید جی نے کسی ایسی بہو کی مثال دی جو اس حویلی میں مری ہو….” ونود نے اب پہلی مرتبہ کالکا کی گفتگو میں دلچسپی لی۔
“جی ہاں …انہوں نے کہا کہ اگات پور کے ایک زمیندار کی بہو ایک رات اپنے کمرے میں مردہ پائی گئی۔ چند برسوں کے بعد جنہوں نے اپنے دوسرے بیٹے کی شادی کی اور بہو حویلی آئی تو یہ بہوی بھی چند ماہ بعد اپنے کمرے میں مردہ ملی چنانچہ اس نے اس کے بعد پنڈتوں سے مشورہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ سے کوئی بہو اس حویلی میں نہیں رکھی جائے گی چنانچہ حویلی کی بہوؤں کیلئے گاؤں میں ایک بڑا مکان بنوا دیا گیا”۔
“کیا تمہارے وید جی نے اس کا سبب بھی بتایا کہ ذمیندار کے لڑکوں کی بیویوں کے مرنے کا سبب کیا تھا”۔
“نہیں بتایا…”کالکا نے جواب دیا۔
“بس انہوں نے اتنا کہا کہ یہ حویلی منحوس ہے “۔
“سب بکواس…” ونود نے کہا:
“تم جا کر شانتا سے کہوں کہ وہ جلد کھانابھجوائے مجھے ستخت بھوک لگ رہی ہے ۔ ونود نے کالکا سے کہنے کو تو کہہ دیا تھا کہ وید جی نے صرف بکواس کی ہے لیکن جیسے اُس کا دل کہنے لگا کہ گاؤں کا یہ وید اس حویلی کے بارے میں کوئی اہم بات ضرور جانتا ہے ۔
اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کھانا کھانے کے بعد گاؤں جا کر اس وید سے ضرورت ملاقات کرے گا۔ کھانے کے دوران شانتا اور ونود نے بت کے مسئلہ پر کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ کالکا موجود تھا اور ونود شانتا سے منع کر چکا تھا کہ وہ نوکروں کی موجودگی میں اس مسئلہ پر کوئی بات نہ کرے ۔
کھانا کھا کر ونود نے شانتا سے کہا :
“میں ذرا گاؤں جا رہا ہوں “۔
“کیا اسی سلسلے میں ….”شانتا نے راز داری کے خیال سے آنکھ کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
“ہاں ” ونود نے مختصر سا جواب دیا۔
“اور میں جلد ہی واپس آ جاؤں گا”۔
حویلی سے گاؤں کی آبادی زیادہ دور نہیں تھی ونود جلد ہی وہاں پہنچ گیا، وید جی کے مکان تلاش کرنے میں بھی اُسے زیادہ دیر نہیں لگی۔ وید جی نے جب یہ سنا کہ حویلی کا نیا مالک ان سے ملنے آیا ہے تو وہ فوراً باہر چلے آئے ونود نے ان سے کہا
“میں آپ سے تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں “۔
وید جی نے بیٹھ کھلوا کر ونود کو بڑے احترام سے بٹھایا اور پھر اس سے کہا “میں آپ کی ہر خدمت کیلئے تیار ہوں “۔
ونود نے کہا “آج آپ نے میرے نوکر سے کہا تھا کہ میری حویلی منحوس ہے “۔
“جی ہاں ” وید نے جواب دیا۔
“اور آپ کے نوکر نے مجھے سے یہ کہا تھا کہ کل رات آپ برآمدہ میں بے ہوش پائے گئے تھے اور آپ کی بیوی اپنے کمرے میں “۔
“اس نے ٹھیک کہا تھا لیکن ہم دونوں کی بے ہوشی کا حویلی کے منحوس ہونے سے کیا تعلق ہے “۔ ونود نے بڑے نرم لہجے میں جواب دیا۔
“بہت بڑا تعلق ہے ” وید نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ اور یہ تعلق اتنا اہم ہے کہ آپ نے اپنی بے ہوشی کا اصل سبب اپنے نوکروں سے چھپایا ہے ۔
“نہیں یہ غلط ہے “ونود نے کہا۔
“نہیں ونود بابو”وید نے بڑی شفقت سے کہا “ڈاکٹر اور وکیل سے کوئی بات نہیں چھپانا چاہئے آپ نے اپنے نوکروں سے صحیح بات نہیں بتائی تو یہ اچھا کیا لیکن آپ نے مجھ سے بھی یہ بات پوشیدہ رکھی تو آپ خود سوچئے کہ کیا میں حویلی کے منحوس ہونے کے بارے میں آپ کو پکا ثبوت دے سکوں گا”۔
بوڑھے وید نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی تھی کہ ونود اب اس سے کوئی بات نہیں چھپا سکا۔ اس نے بڑی تفصیل سے وید کو ساری داستان سنادی۔
ونود کی کہانی سننے کے بعد وید نے کہا:
“آپ کی کہانی کوئی نئی کہانی نہیں ہے ۔ میرے پتا جی بھی اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ اس حویلی میں کوئی بے چین روح موجود ہے جو شائد کسی عورت کی ہے “۔
“لیکن آپ اس سلسلے میں میری کیا مدد کر سکتے ہیں “۔ ونود نے پوچھا۔
“میں آپ کو صرف مشورہ دے سکتا ہوں بشرطیکہ آپ اس پر عمل کریں “۔ وید نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
“اگر آپ کا مشورہ قابل قبول ہوا تو میں اسے ضرور مان لوں گا”۔ ونود نے جواب دیا۔
اب اس کے لہجے میں ایک مایوسی سی آ گئی تھی۔
“آپ عورت کے بت کو دوبارہ کنویں میں پھینک دیں “۔ وید نے بڑی آہستہ آواز میں کہا۔
اس نے مزید کہا”میں یقین دلاتا ہوں کہ ماضی میں بھی جب اس عورت کو روح نے حویلی والوں کو پریشان کیا ہو گا انہوں نے ہی اپنے وقت کے پنڈتوں اور گیانیوں سے مشورہ کرنے کے بعد اس بت کو کنویں میں پھینک دیا ہو گا اور اس طرح انہوں نے بت کو مصیبت سے نجات حاصل کر لی ہو گی”۔
“لیکن وید جی” ونود نے کہا
“سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بت کو کنویں میں پھینک دیا جاتا ہے تو عورت کی روح کی سرگرمیاں کیوں ختم ہو جاتی ہیں” ۔
“میرے پاس آپ کے اس سوال کا جواب نہیں ہے” ۔ وید نے جواب دیا
” میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ حویلی منحوس ہے ۔ پرانے راجاؤں کی بنوائی ہوئی یہ حویلی یقینا آسیب زدہ ہے ۔ اس لئے یا تو آپ اسے خالی کر دیجئے اور یا اس بت کو کنویں میں پھینک دیجئے” ۔
وید جی نے اس کے بعد ونود کو روحوں کے اور کئی قصے سنائے ۔ اس نے اپنے بارے میں بھی سب کچھ ونود کو بتادیا اس نے کہا
“میں خاندانی وید ہوں ، میرے باپ دادا سب ہی وید تھے اور پرانے زمیندار کے خاندانی ملازم تھے”۔۔۔
” جتنا میں اگات پور کے بارے میں جانتا ہوں اتنا کوئی نہیں جانتا ہو گا”۔
“وید جی …” ونود نے چلتے چلتے کہا:
“مان لیجئے کہ میں نہ حویلی خالی کروں اور نہ بت کو کنویں میں پھینکوں “۔
“تب آپ کا بھگوان ہی مالک ہے ” وید نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا
“آپ کو آنے والے حادثات کا مقابلہ کرنے کیلئے خود کو تیار کر لینا چاہئے” ۔
ونود اس کے بعد وہاں سے چلا آیا۔ وہ بہرحال یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ نہ حویلی خالی کرے گا اور نہ بت کو کنویں میں پھینکے گا۔ بلکہ اس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ آج رات بت کے زندہ ہونے کا انتظار کرے گا اور بت سے باتیں کرے گا۔
ونود حویلی واپس آیا تو شانتا سو رہی تھی۔ اس کو دوپہر کے بعد کھانا کھا کر سونے کی عادت تھی اور یہ اس کا روزانہ کا معمول تھا۔ یہ دن ونود کا سخت الجھن میں کٹا۔ کسی نہ کسی طرح شام ہو گئی اور پھر چاروں طرف رات کا اندھیرا پھیل گیا۔ اس اندھیرے میں حویلی کے درخت یوں پرسکون نظر آ رہے تھے جیسے وہ اس حویلی کے پہریدار ہوں اور کسی کے جنازے کی آمد کا انتظار کر رہے ہوں ۔
ونود ڈرے بغیر باغ میں ٹہلتا رہا اور پھر حوض کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ اب چاند بھی نکل آیا تھا اور اس کی سفید روشنی چاروں طرف پھیلنے لگی تھی ۔ دور آسمان پر یہ چاند بالکل ایسا نظر آ رہا تھا جیسے یہ چاند نہ ہو کسی بیوہ کی آنکھ میں لرزتا ہوا آنسو کا قطرہ ہو۔
ونود بت کی طرف دیکھتا رہا۔ اور پھر اسے اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے بت کی یہ ساکت و جامد آنکھیں ایک ہی نگاہ میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں کو دیکھ رہی ہوں ، ونود کو ایسا محسوس ہوا جیسے یہ آنکھیں زندہ ہو گئی ہوں جیسے یہ آنکھیں آنسوؤں ک یسمندر میں تیر رہی ہوں جیسے بت کے شاداب چہرے پر بالکل اچانک نفرت و حقارت کی لکیریں ابھر آئی ہوں ۔ ونود نے واقعی ایسا محسوس کیا جیسے بت کے ہونٹوں پر ایک دبی ہوئی غم ناک مسکراہٹ پھیل گئی ہو اور یہ مسکراہٹ پکار پکار کر اپنی لٹی ہوئی آرزوؤں کی کہانی سنا رہی ہو، اپنی مسلسل خاموشی کی داستان بیان کر رہی ہوں ، اپنی ناکام تمناؤں کا افسانہ سن رہی ہو،۔ وہ ایسا محسوس کرنے لگا جیسے اس پر کسی نے سحر کر دیا ہو… اب وہ حود ایک بت بن چکا تھا۔ زندہ بت، زندگی کی سانسیں لیتا ہوا بت، دیکھتا ہوا بت، سنتا ہوا بت، پندرہ منٹ تک ونود پریہ حالت طاری رہی۔
اس کے بعد وہ چونکا اور حویلی میں داخل ہو گیا۔ شانتا سو چکی تھی۔ تمام نوکر بھی اپنے کوارٹروں میں جا چکے تھے پوری حویلی خاموشی اور سکون میں ڈوبی ہوئی کھڑی تھی۔ ونود حویلی کے اس کمرے میں جا کر خاموشی سے بیٹھ گیا جس کی ایک کھڑکی سے نظر آ رہا تھا۔ وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ تمام رات اس کمرے میں جاگتا رہے گا اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھے گا کہ بت جاگتا ہے یا نہیں ۔
اور … جیسے ہی بارہ کا گھنٹہ بجا ونود کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون اچانک تھم گیا ہو، اس کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہو گئی اور کیسے نہ ہوتیں جب کہ عورت کا بت واقعی زندہ ہو چکا تھا۔
عورت کا بت زندہ ہوا، اس زندہ عورت نے گردن گھما کر چاروں طرف دیکھا، ایک پراسرار مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیلی، پھر وہ چبوترے سے اتر کرحوض میں آئی اور حوض سے نکل کر باہر کھڑی ہو گئی۔ چند لمحات تک وہ ایک عجیب ادا سے وہاں کھڑی رہی اور اس کے بعد حویلی کی پشت کی طرف قدم اٹھانے لگی۔
ونود نے اس کو صرف چلتے ہوئے ہی نہیں دیکھا اس کے پیروں کی پازیب کی جھنکار بھی سنی، اب ونود بھی اپنی مکیں گاہ سے باہر نکل آیا وہ اب عورت کا دبے پاؤں تعاقب کر رہا تھا۔
عورت حویلی کے پیچھے جا کر ایک مسمار مکان میں جو حویلی کے احاطہ کے اندر ہی تھا داخل ہو گئی۔ اور پھر غائب ہو گئی۔ ونود چونکہ بہرحال ایک انسان تھا اس لئے وہ ڈر گیا۔
وہ زندہ بت کا مزیدتعاقب نہ کر سکا اور بوسیدہ مکان کے کھنڈر میں داخل ہونے کی ہمت نہ کر سکا۔ لیکن وہ دور کھڑا ہو کر بت کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ دس منٹ بعد عورت کا بت دوبارہ کھنڈر سے نکلا۔ اس مرتبہ اس کے قدموں کا انداز بوجھل تھا۔ وہ بڑے تھکے تھکے قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی وہ سیدھی حوض کے قریب آئی اور دوبارہ چبوترے پر چڑھ گئی۔ ونود کے دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے ہی لمحہ عورت دوبارہ پتھر کے ایک بے جان بت میں تبدیل ہو گئی۔
تمام رات ونود جاگتا رہا۔ صیح ہوتے ہی وہ سب سے پہلے اس کھنڈر میں گیا۔ وہ اس حویلی میں کئی مہینے سے رہ رہا تھا۔ لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کھنڈروں کے نیچے ایک تہہ خانہ بھی ہے ۔ آج کھنڈر میں داخل ہوتے ہی اس کی نگاہ ایک شکستہ زینے پر پڑی جو نیچے جا رہا تھا۔ وہ بلا کسی جھجک کے بالکل جنونی کیفیت میں اس زینے سے نیچے اتر گیا۔ تقریباً 20 سیڑھیوں کے بعد یہ زینہ ایک بڑے تہ خانے میں جا کر ختم ہو گیا۔
تہ خانے میں ہلکی ہلکی روشنی پھیل چکی تھی۔ ونود نے آنکھیں پھاڑپھاڑکر تہ خانے میں چاروں طرف دیکھا اور پھر جیسے اس کے حلق سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکل گئی۔ کیونکہ تہہ خانے کے وسط میں انسانی ہڈیوں کا ایک پنجرا پڑا ہوا تھا۔
یہ کتاب تعمیر نیوز ویب سائٹ کے اس صفحہ سے لی گئ ہے۔