(Last Updated On: )
ایک بلندی سے یوں، آئی صدائے خیال
بول رہا ہو کہیں، جیسے خدائے خیال
اسم بہار آفریں یاد نہیں، دیکھئے
کب وہ مسیحا ہمیں دے گا شفائے خیال
سیرِ فلک ہو گئی، جو نہ ملا مل گیا
کیسے عجب معجزے کر کے دکھائے خیال
کیسے اسے دیکھتی آنکھ نظر کے سوا
وہ جو کفِ گل پہ ہے رنگ جنائے خیال
دور زر و زور کے منطقۂ گرم سے
راس مجھے آ گئی آب و ہوائے خیال
جوئے ستارہ بہے باغ شبِ ہجر میں
تخت صبا پر اسے دور سے لائے خیال
دشت تضادات میں کھو نہ گیا ہو کہیں
آئی نہیں دیر سے کوئی صدائے خیال
٭٭٭