کمرے میں گونجتی آواز بند ہوگئی۔ ایک لمحے کے لیے ہر ایک ساکت ہوگیا۔ مسٹر راجر کے ہا تھ سے کافی کی ٹرے دھماکے سے زمین پر گر گئی۔ ساتھ ہی ڈرائینگ روم کے باہر کسی کی زوردار چیخ سنائی دی۔ کیپٹن لمبورڈ کے حواس سب سے پہلے بحال ہوئے۔ وہ تیزی سے کمرے کے دروازے کی طرف دوڑے اور دروازہ کھول دیا۔
دروازے کے باہر مسز راجر ڈھیرکی صورت میں زمین پر گری ہوئیں تھیں۔ انوتھی بھی کیپٹن کی مدد کرنے آگے بڑھا۔ دونوں نے مل کر مسز راجر کو اُٹھا کر صوفے پر ڈالا۔ ڈاکٹر جلدی سے آگے بڑھے اور مسز راجر کی نبض چیک کی۔
’’یہ بس بے ہوش ہے۔ کوئی خطرے کی بات نہیں۔ دومنٹ میں اسے ہوش آجائے گا۔ راجر کافی کا ایک کپ لے کر آؤ جلدی۔‘‘
’’یس۔۔۔یس سر۔۔۔‘‘ سفید چہرے اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ راجر باہر بھاگا۔
’’یہ کون تھا؟ یہ۔۔۔ یہ خوفناک آواز میں کون بول رہا تھا؟‘‘ ویرا تقریباً رونے کے قریب تھی۔
’’یہ کون ہمارے ساتھ بیہودہ اور اخلاق سے گرا مذاق کررہا ہے۔‘‘ جنرل چیخا۔ وہ اپنی عمر سے ۱۰ سال بڑا لگ رہا تھا۔ کیپٹن لمبورڈ مسز راجر کو ڈاکٹر کے حوالے کرکے دوبارہ حرکت میں آگیا تھا۔ وہ میزوں کے نیچے اور پردوں کے پیچھے جھانکنے لگا۔ آخر وہ آتش دان کے برابر بنے دروازے کے سامنے آکھڑا ہوا۔ پیچھے موجود سب لوگوں کی نگاہیں اس پر تھیں۔ کیپٹن نے آہستگی سے ہینڈ ل پر ہاتھ رکھا۔ دل میں ایک دو تین کیا اور دھڑام سے دروازہ کھول دیا۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ نہ کوئی شخص کمرے سے نکل کر بھاگا۔۔۔ نہ گولیاں چلنی شروع ہوئیں۔ اندر تاریکی ہی تاریکی تھی۔ کیپٹن دبے پاؤں اندر کی جانب بڑھا اور فوراً لائٹ کا بٹن دبادیا۔
’’آہا! سب یہاں آجاؤ۔ آواز کامعمہ بھی حل ہوگیا۔‘‘ اس نے ڈرائینگ روم کی طرف منہ کر کے آواز لگائی۔ دروازے کے قریب ایک گول میز رکھی تھی۔ جس پر پرانے زمانے کاٹیپ ریکاڈر رکھا تھا۔ کیپٹن نے آ گے بڑھ کر اس کا بٹن دبایا۔ ’’اس کمرے میں موجود مجرموں کو۔۔۔‘‘ وہی آواز فضامیں پھر گونج اٹھی۔
’’بند کرو۔۔۔بندکرو۔۔۔‘‘ ویرا ہذیاتی انداز میں چلائی۔ چپ چاپ کیپٹن نے ٹیپ کا بٹن دبادیا۔
’’ایک احمقانہ مذاق۔‘‘ ڈاکٹر نے ٹیپ بند ہونے پر سکون کا سانس لیا۔
’’تو تمہارے خیال میں یہ ایک مذاق ہے ڈاکٹر؟‘‘ جج وار گریو نے ہلکے سے کہا۔
’’اس کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے؟ ڈاکٹر نے حیرانی سے جج کو دیکھا۔ جج نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’ارے سب چھوڑو! یہ بتاؤ کہ اس ٹیپ ریکارڈ میں کیسٹ کس نے لگائی۔‘‘ انوتھی نے زور سے پوچھا۔
جج وار گریونے سر ہلایا۔ ’’ہاں یہ معلوم کرنا بھی ضروری ہے۔‘‘ اور واپس ڈرایئنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔ سب نے اس کی پیش قدمی کی۔ ڈرائینگ روم میں مس برنٹ صوفے پر لیٹی مسز راجر پر جھکی ہوئی تھی اور اسے جگانے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’مادام! مجھے بات کرنے دیں۔‘‘ مسٹر راجر آگے بڑھا اور مسز راجر کے گالوں کو تھپتھپایا۔
’’ایتھل۔۔۔ ایتھل۔۔۔ اٹھو۔۔۔ سب ٹھیک ہے اٹھ جاؤ۔۔۔ یہ لو کافی پیو۔‘‘ مسٹر راجر نے اپنی آواز کو پر سکون کرتے ہوئے اسے پکارا۔ مسز راجر نے تھوڑی سی کوشش کے بعد آنکھیں کھول دیں۔ اس نے خوفزدہ نظروں سے اپنے گرد جمع لوگوں کو دیکھا۔
’’تھامس کیا ہوا تھا؟ وہ آواز ۔۔۔اوہ کیا میں بے ہوش ہوگئی تھی۔‘‘ اس نے مسٹر راجر کا ہاتھ سختی سے پکڑا۔
’’سب کچھ ٹھیک ہے مسز راجر۔ تم یہ پیو۔۔۔بہتر محسوس کروگی۔‘‘ ڈاکٹر نے کافی کا کپ اس کے منہ سے لگایا۔
’’مسٹر راجر۔۔۔ کیسٹ ریکاڈرمیں ٹیپ تم نے لگایاتھا۔‘‘ جج وار گریو نے خشک لہجے میں سوال کیا۔
’’میں قسم کھا کے کہتا ہوں مجھے بالکل نہیں پتہ تھا کہ کیسٹ میں کیا ہے؟ میں تو صرف احکامات کی تعمیل کررہا تھا۔‘‘
’’کس کے احکامات؟‘‘
’’مسٹر اوین کے۔‘‘
’’صحیح طرح واضح کرو مسٹر راجر۔۔۔‘‘ وارگریو کی آواز میں سختی تھی۔
’’مجھے مسٹر اوین کی طرف سے یہ ہدایت ملی تھی کہ کھانے کے بعد جب سب ڈرائینگ روم میں جمع ہوں تو یہ کیسٹ ٹیپ ریکاڈر میں لگادوں۔‘‘
’’یہ سارا معاملہ فضول ہے۔۔۔ کون ہے یہ پاگل مسٹر اوین۔‘‘ جنرل بھنّا اٹھا۔
’’ہاں یہی معلوم کرنا نہایت ضروری ہے لیکن پہلے راجر تم مسز راجر کو ان کے کمرے میں لٹا کر آؤ۔ اس کی طبیعت کافی خرا ب معلوم ہوتی ہے۔‘‘
’’جی سر!‘‘ راجر نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’میں تمہاری مدد کرتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر آگے بڑھا۔ ان دونوں کے باہر نکلتے ہی انوتھی اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’میراخیال ہے ہم سب کو ایک ایک کپ اور کافی کی ضرورت ہے۔‘‘
’’ہاں یقینا۔‘‘ لمبورڈ نے بھی حمایت کی۔
’’میں لے کر آتا ہوں۔‘‘ انوتھی باہر نکل گیا۔ ۵ منٹ میں وہ ٹرے سمیت کمرے میں موجود تھا۔
’’کچن میں یہ تیار رکھی تھی۔‘‘ ان سب کی سوالیہ نظروں کے جواب میں اس نے کہا۔ ڈاکٹر کمرے میں واپس آگیا۔ اس کے پیچھے پیچھے راجر بھی ایک دو لمحے میں نمو دار ہوگیا۔
وارگریونے ایک جج کی طرح چارج سنبھالا۔
’’اب بتاؤ راجر۔ مسٹر اوین کون ہیں؟‘‘
’’میں کچھ نہیں بتا سکتا سر۔ سوائے اس کے وہ نیگر آئی لینڈکے مالک ہیں۔ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا۔ کمرے میں اس کے الفاظ سن کر سب میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔
’’تم نے کبھی انہیں نہیں دیکھا؟‘‘
’’سر مجھے اور میری بیوی کو یہاں آئے ابھی ایک ہفتہ بھی پورا نہیں ہوا۔‘‘ راجر نے تھوڑی دیر توقف کیا۔ پھر جب کسی نے کچھ نہ کہا تو خود ہی گویا ہوا۔
’’مسز راجر اور مجھے یہاں ملازمت کی پیشکش ایک خط کے ذریعے کی گئی تھی۔ حوالہ اس ایجنسی کا تھا۔ جس میں ہم دونوں رجسٹرڈ ہیں۔ ہمیں یہاں ایک مقررہ دن پہنچنا تھا۔ جزیرے پر زیادہ کام نہیں تھا۔ صر ف اس گھر کی جھاڑ پونچھ کرنی تھی۔ مسٹر اوین کی ہدایات کے خط ہمیں موصول ہوتے رہتے ہیں۔ اس نے ہمیں خط ہی کے ذریعے آپ لوگوں کے آنے کی اطلاع دی تھی۔ تاکہ ہم آپ لوگوں کے رہنے کے لیے کمرے تیار رکھیں۔ پھر کل شام کی ڈاک سے ہی یہ معلوم ہواکہ مسٹر اوین اور ان کی بیگم کسی وجہ سے نہیں آپائیں گے۔ خط میں یہ بھی ہدایت تھی کہ جب سب رات کے کھانے کے بعد ڈرائینگ روم میں جمع ہوں تو مجھے کیسٹ ریکاڈر میں کون سا کیسٹ لگانا ہے۔‘‘
’’کیا تمہارے پاس یہ سارے خط موجود ہیں؟‘‘
’’نہیں جناب سوائے اس خط کے جو کل موصول ہوا ہے میرے پاس اور کوئی خط نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر راجر نے اپنی جیب سے خط نکال کر جج وار گریوکے ہاتھ میں تھمادیا۔ جسے اس نے کھول کر پڑھنا شروع کیا۔ کیپٹن اس کی پشت پر کھڑا تھا۔ اس نے بھی خط پر نظر دوڑائی۔
’’بہت ہی مشکل نام ہے اس بندے کا۔‘‘ کیپٹن نے برا سامنہ بنایا۔ جج وارگریو ایک دم چونکا۔
’’شکریہ کیپٹن تم نے ہماری توجہ ایک اہم بات کی طرف دلائی۔‘‘ اس نے ان سب کو دیکھا۔ ’’دوستو! کیوں کہ ہم سب یہا ں کسی دعوت نامہ کی وجہ سے ہی ہیں۔ تو اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی معلومات ایک جگہ جمع کردیں۔‘‘ وہ رکا پھر بولا۔ ’’ہم سب کو یہاں کس طرح مدعو کیا گیا۔‘‘
مس برنٹ نے سب سے پہلے اپنے خط کے بارے میں بتایا کہ کس طرح اسے ایک پرانی دوست کا خط ملا۔ اس نے اپنا خط لاکر جج کو دے بھی دیا۔ ویرا نے اپنے سیکریٹری کے عہدے کے بارے میں بتایا۔ ڈاکٹر نے اپنے پروفیشنل دورے کا ذکر کیا۔ جج وار گریوڈاکٹر کے بعد انوتھی کی طرف متوجہ ہوا۔
’’مجھے تو اپنے پرانے جاننے والے کی طرف سے خط ملا تھا۔ جس نے اس جزیرے پر آنے کی پیشکش کی تھی۔‘‘ انوتھی بولا۔۔۔ میکرتھول نے بھی اسی طرح کے دعوت نامے کا تذکرہ کیا۔ کیپٹن لمبورڈ کا دماغ تیزی سے چل رہا تھا۔ کیا وہ اپنی اصلیت بتادے یا کوئی کہانی بنا کر سنا دے وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ آخر اس نے فیصلہ کر لیا۔ مجھے بھی کچھ دوستوں نے بلایا تھا۔ اس نے مختصر طور پرکہا۔ جج وار گریو نے اسے غور سے دیکھا پھر مسٹر بلور کو پکارا: ’’جی مسٹر بلور! آپ یہاں کیسے آئے؟‘‘
’’میرے خیال میں اس صورت حال میں مجھے اپنی اصلیت بتادینی چاہیے۔ مجھے مسٹر اوین کی طرف سے ایک خط موصول ہوا تھا۔ میں تھوڑے عرصے پہلے تک خفیہ ادارے سے منسلک تھا۔ مجھے یہاں آکر یہاں موجود لوگوں کی نگرانی کرنی تھی۔ اور مسز اوین کے جواہرات کی حفاظت میری ذمہ داری تھی۔‘‘ جج وار گریو اب گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ آخر اس نے سر اٹھایا۔
’’ایک بات واضح ہے یہ سارے دعوت نامے صرف ایک شخص نے بھیجے ہیں۔ مس برنٹ کے خط میں اس نے اپنا نام صرف ی۔۔۔ ن۔۔۔ الف۔۔۔ لکھا ہے۔ مس ویرا کواس نے یو نانیسنی اوین کے نام سے خط لکھا۔ راجر کو یولک نومن اوین کے طور پر ہدایات دیں۔ یہ جو کوئی بھی ہے مسٹر نا معلوم اس نے ہمیں کسی خاص مقصد کے تحت یہاں اکھٹا کیا ہے۔‘‘
’’یہ پاگل پنا ہے۔‘‘ ویرا گھبرا کر بولی۔
’’ہاں یہ پاگل پنا ہے۔ لیکن یہ شخص پاگل نہیں بلکہ انتہائی چالاک اور شاطر دماغ شخص ہے۔
کمرے میں خاموشی تھی لیکن فضا میں پریشانی محسوس کی جاسکتی تھی۔ جج کی سرد آواز نے سکوت کو توڑا۔
’’اس سے پہلے ہم تفتیش کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوں۔ میںآپ کو اپنے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔‘‘ اگلے کچھ منٹوں میں جج نے ان کے سامنے اپنے خط کے بارے میں وضاحت کی جو انھیں ملا تھا۔ جسے پڑھ کر انہوں نے نیگرآئی لینڈ آنے کا فیصلہ کیا۔
’’ایک بات ہمارے سامنے ہے۔ یہ جو بھی شخص ہے ہم سب کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے۔ اتنی اچھی طرح کہ اس نے ہماری زندگی میں پیش آنے والے مختلف واقعات کی صحیح صحیح تاریخ تک بتا دی۔‘‘ جج وار گریو کے یہ الفاظ کہنے کی دیر تھی کہ سب نے ایک ساتھ بولنا شروع کردیا۔
’’یہ سب من گھڑت ہے۔‘‘ جنرل میکر تھور چلایا۔
’’جھوٹ۔۔۔ ساری باتیں جھوٹی ہیں۔‘‘ راجر نے حلق کو پورازور دے کر کہا۔
’’ہم کبھی ایسا سفاک کام نہیں کرسکتے۔‘‘ ویرا نے دل پر ہاتھ رکھا۔
جج وار گریو نے اپنا ہاتھ بلند کیا۔
’’آپ سب خاموشی اختیار کریں۔ ہم سب کی باری آئے گی۔ تب آپ نے جو کہنا ہو کہہ لیجئے گا۔ ابھی چپ ہوجائیں۔ جج وار گریو اس وقت پوری طرح اپنے جج کے روپ میں موجود تھا۔
’’سب سے پہلے میں اپنے اوپر عائد الزام کی وضاحت کردوں۔ ہمارے نامعلوم دوست یا دشمن کا کہنا ہے کہ ایڈورڈ سیٹن کی موت کا ذمہ دار میں ہوں۔ جیسے کہ آپ سب کو میرا عہدہ معلوم ہے۔ میرا کام ہی اچھے برے میں فرق کرنا ہے۔ ایڈورڈ سیٹن کو میرے پاس ایک بوڑھی عورت کے قتل کے جرم میں گرفتار کر کے لیا گیاتھا۔ مقدمہ جون ۱۹۳۰ء میں میرے زیر سماعت تھا۔ گواہیاں اور شواہد سب اس کے خلاف تھے۔ آخر کار یہ ثابت ہوگیا کہ وہ قاتل تھا۔ حالاں کہ اس کے وکیل نے بہت اچھے طریقے سے اس کا دفاع کیا لیکن آخر عدالت نے اسے سزائے موت دے دی۔ یہ میرا فرض تھا۔ اس سے مجھے کوئی ذاتی مفاد حاصل نہ ہوا۔
’’جج وار گریو! کیا آپ ایڈورڈ سیٹن کو جانتے تھے۔ میرا مطلب ہے جب یہ کیس سامنے آیا تھا اس سے پہلے؟ ڈاکٹر اس سے پہلے اپنی زبان کو روکتا اس کے منہ سے نکلا۔
’’مجھے سیٹن کے بارے میں کیس سے پہلے کچھ علم نہیں تھا۔‘‘ جج کا لہجہ انتہائی سرد تھا۔
’جھوٹ۔۔۔ جج وار گریو جھوٹ بول رہا ہے۔‘ ڈاکٹر نے دل میں سوچا لیکن اس بار اپنی زبان کو قابو میں رکھا۔
ویرا کلیتھرون نے لرزتی ہوئی آواز میں سب کومخاطب کیا۔ ’’میں آپ کو بتانا چاہوں گی۔۔۔ اس بچے کے بارے میں۔۔۔ سائیرل ہمیلٹن۔۔۔ میں اس کی آیا اور نگران تھی۔ اس کو گہرے سمندر میں تیرا کی کرنے پر پابندی تھی۔ ایک دن میری توجہ بھٹک گئی۔ وہ تیرتا ہوا سمندر میں دور تک نکل گیا۔ جب مجھے پتہ چلا تو بہت دیر ہوگئی تھی۔ میں اس کے پیچھے کودی لیکن سائیرل بچ نہ سکا۔۔۔ میں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر بھر پور کوشش کی لیکن۔۔۔ شاید قدرت کو اس کا زندہ رہنا منظور نہیں تھا۔ میں بے قصور تھی۔ سائیرل کے پورے خاندان اور اس کے ماں باپ نے مجھے کوئی الزام نہیں دیا تھا۔ سب کو مجھ سے ہمدردی تھی۔‘‘ اپنی بات ختم کر کے ویرا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...