طوفانی بارش تھی ساتھ ہی ساتھ تیز ہوائیں بھی چل رہی تھیں جس نے ماحول کو ہولناک بنا دیا تھا۔۔۔ ۔
”خدایا خیر ۔۔۔! کہیں یہ طوفان مجھ سے میرا ہم سفر نہ چھین لے۔۔۔!!” اس نے سسکاری بھری ،دروازے پر ہلکی سی دستک سنائی دی،مانوس قدموں کی چاپ ، شفق نے کھڑکی بند کی اور رخ پھیر کر دیکھا تو نرس دوا لیے کھڑی تھی اس کے پیچھے ہی ڈاکٹر بھی کمرے میں داخل ہوا۔
” جہاں تک ممکن ہوجلد سے جلد آپ کے شوہر کا آپریشن ہوجائے۔۔۔یہ بےحد ضروری ہے۔۔۔۔۔ورنہ کینسر تمام جسم میں پھیلنے کے امکانات ہیں۔۔۔!!!”
ڈاکٹر نے سرگوشی میں کہا تو شفق بےاختیار بیمار شوہر کو دیکھنے لگی ،اس کا زرد مائل چہرہ آنسوؤں سے تر تھا
“میں مرنا نہیں چاہتا۔۔۔!”
اس کے خشک ہونٹ لرز اٹھے۔شفق تیزی سے آگے بڑھی اور شوہر کے ہاتھوں کو اپنی گیلی ہتھیلیوں میں بھینچ لیا۔
موت جیسے قریب سے قریب تر ہوتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔۔۔ شفق لان کے تنہا گوشے میں بیٹھی بڑی بے بسی کے عالم میں آسمان کو تکےجارہی تھی۔۔ بے شمار آنسو آنکھوں میں جھلملاتے ہوئے جیسے وجود میں پھیلی بے بسی ، عیاں کررہے تھے۔
“آپ یہاں بیٹھی ہیں ۔۔۔۔۔؟جبکہ اندرآپریشن کی تیاری کی جارہی ہے”
نرس کی آواز سماعت سے ٹکرائی تو شفق بھیگی پلکیں اٹھائے حیرت سے نرس کو دیکھتی رہی پھر کچھ توقف بعد کپکپاتے لہجے میں استفسار کیا
” فیس؟”
“آپ کو پتا نہیں۔۔؟ وہ تو صبح ہی بھردی گئی۔”
“کس نے؟” اس نےحیرت کے سمندر میں غوطہ زن ، پوچھا
” آپ کا کوئی بھائی ہے۔۔۔”
” بھائی ۔۔۔؟” وہ تذبذب کے عالم میں اسپتال کی راہداری عبور کرتی ہوئی آپریشن تھیٹر کی جانب دوڑی۔سامنے جس شخص کو پایا ۔۔۔اسے اور زیادہ حیرت زدہ کیا
حمید ۔۔۔! مجہول سا کینٹین بوئے، اس کے سامنے چائے کی پیالی رکھتا ہوا دھیمی مسکان تلے کہتا نظر آیا
“میم صاب اور کچھ چاہیے؟”
“میم صاب نہیں۔۔باجی کہہ سکتے ہو۔۔تم میرے دینی بھائی ہو۔”
آپریشن مکمل ہوا اور ڈاکٹر نے کامیابی کی نوید سنائی تو وہ قریب کھڑے حمید کا شکریہ ادا کرتی ہوئی بے اختیار روپڑی ۔
“کل کے اخبار میں آپ کی تصویر کے ساتھ امداد کی اپیل پڑھی تھی۔۔۔اس طرح آپ تک رسائی حاصل کرسکا ۔”
” تم نے عامر کے ساتھ ساتھ میری بھی زندگی بچائی ہے۔۔۔بہت شکریہ ”
شفق تشکر سے کہتی دوبارہ رونےلگی
“یہ سب آپ ہی کا ہے۔۔۔!!”حمید نے دھیرے سے کہا ۔جواب میں شفق اس فرشتے صفت نوجوان کو الجھن بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی
“یاد ہوگا آپ چائے اور ناشتے کے بعد مجھے ٹپ دیا کرتی تھیں۔”
“ہاں۔۔۔۔تو؟”
” پھر ایک دن اپ نے مجھے پڑھنے کی تلقین کرتی ہوئیں ،اسکول فیس بھی ادا کردی۔۔۔۔
” رب نے آپ کو ذریعہ بنا کر میرا رخ ، کامیاب زندگی کی جانب موڑ دیا۔ الحمدللہ آج میں ترقی کی اُن اُونچائیوں پر کھڑا ہوں جہاں سے دنیا کی آسائش بہت چھوٹی نظر آتی ہے۔۔۔”
دنیا کے ہر یتیم میں کوئی نہ کوئی قابلیت پوشیدہ ہوتی ہے لیکن یہ دنیا بہت بے رحم ہے کوئی ہاتھ بڑھا کر کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا نہیں چاہتا۔۔۔
شفق ! حمید کی زبان سے اس قدر گہری باتیں سن کر دلچسپ نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی اور بےاختیار مسکراکر بولی
” صرف ایک بوند نیکی کا یہ صلہ دے رہے ہو۔۔۔۔؟
” یہ آپ کا حق تھا۔۔۔۔اگر یہاں نہیں ملتا تو بےشک رب العالمین آخرت کے لیے محفوظ کردیتے۔۔۔ویسے خدا گواہ ہے اس ایک بوند نے سمندر کا رخ اختیار کیا ہے الحمدللہ۔۔۔۔۔!!!! حمید تشکر آمیز لہجے میں کہتا ہنس پڑا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...