نساء آج یونیورسٹی آئی ہوئی تھی۔اسکو لائبریری میں بکس واپس کرکے کلئرنس کروانی تھی۔اتنے میں موبائل پر رنگ سنائی دی۔جب تک اس نے موبائل باہر نکالا کال ڈسکنکٹ ہو چکی تھی۔اور ایقان کی ۵مسڈ کالز لاگ میں نظر آرہی تھیں۔اس نے جلدی سے سائڈ پر ہوکر ایقان کو کال ملائ،پہلی ہی بیل پر کال ریسیو ہو گئ۔
“ہاں نساء کہاں تھیں یار،کب سے کال کر رہاہوں۔”
ایقان کی ناراض سی آواز سنائ دی۔
“وہ دراصل ایقان میں بکس ریٹرن کرنے یونےورسٹی آئی ہوئ تھی،آپ کی کال راستے میں آئی ہوگی،مجھے پتہ نہیں لگا۔”
اس نے جلدی جلدی اپنی صفائی دی۔
“اوکے یہ بتاؤ گھر پر بات کی تم نے ؟”
ایقان اصل بات کی طرف آیا۔
“جی میں نے کی تھی”۔
اس نے اٹک اٹک کے کہنا شروع کیا۔”
پاپا کہہ رہے ہیں کہ آپ فیملی کے ساتھ آکر بیٹھ کے ڈسکس کریں۔ایقان آپ سن رہے ہیں نہ”؟؟
ایقان کی طرف سے گہری خاموشی پا کر اس نے پوچھا۔
“ہوں،اوکے ابھی میں بزی ہوں،کرتا ہوں بعد میں بات”۔
ایقان نے یہ کہ کرفون کاٹ دیا۔
نساء کا دل ایکدم ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا۔اس نے بک واپس کرنے کا ارادہ کسی اور دن پر ملتوی کرکے گھر کی راہ لی۔کیونکہ کاؤنٹر پر ایک لمبی لائن لگ چکی تھی اور فی الحال وہ کھڑے ہونے کے پوزیشن میں نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب جینیفر فریش ہوکر نیچے آئ تو شاہ ویر اور رابعہ عالم بہت خوشگوار موڈ میں کچھ ڈسکس کر رہے تھے۔اسکو دیکھ کر رابعہ عالم نے اپنے برابر میں جگہ بنائی اور ناشتے کا پوچھنے لگیں۔
جینیفر کاموڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں تھا اور اس نے اسکو چھپانے کی کوششش بھی نہیں کی تھی۔رابعہ عالم نے بغور اسکو دیکھ کر خیریت دریافت کی جو اس نے سر درد کا بہانہ کرکے ٹال دیا اورسپاٹ چہرے کے ساتھ میگزین دیکھتی رہی۔
رابعہ عالم کچن میں اس کے ناشتے کی ہدایت دینے چلی گئیں۔شاہ ویر کو بھی محسوس ہوگیا تھا کہ جینیفر کا موڈ کچھ ٹھیک نہیں ہے ،وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ابھی تو اسکو روم میں ٹھیک چھوڑ کر آیا ہے یہ اچانک کیا ہوگیا۔اس نے رابعہ عالم کے جاتے ہی اس سے پوچھا۔
“(جینی از ایوری تھنگ فائن؟)
“جینی سب ٹھیک ہے ؟؟..
(“آئی وانٹ ٹو ٹاک ود یو ان الون”)
“مجھے تم سے اکیلے میں بات کرنی ہے”
اس نے رابعہ عالم کو آتا دیکھ کر بولا اور دوبارہ میگزین دیکھنے میں مگن ہوگئی۔
“(اوکے،رائٹ ناؤ آئی ایم گیٹنگ لیٹ،ول ٹاک ٹو یو ان ایوننگ”)
“اچھا ابھی تو میں لیٹ ہو رہا ہوں،شام کوبات کرتے ہیں”
اس نے جینیفر کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔اور اپنی گھڑی دیکھتے ہوۓ کھڑا ہوگیا۔
“بائے لیڈیز”،وہ ہاتھ ہلاتا دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بہت مصروف دن گزار کر شاہ ویر گھر آیا،اسکا خیال تھا کہ جینیفر اسکا تیار ہوکر انتظار کر رہی ہوگی۔مگر گھر میں گہری خاموشی تھی۔
“ ہدایت “
اس نے ملازم کو آواز دی۔
“جی صاحب “۔
ہدایت دوڑتا ہوا آیا ۔
“سب لوگ کہاں ہیں؟؟”
اس نے ہدایت سے پوچھا۔
“صاحب بڑی بی بی تو اپنے بھائی صاحب کی طرف گئ ہیں اور چھوٹی بیبی روم میں ہیں۔”
ہدایت نے تفصیل سے بتایا۔
“اوکے تم ۲کپ چاۓ کے ساتھ کچھ کھانے کو لیتے آؤ”۔
وہ ہدایت کو ہدایت دیتا اوپر بیڈروم کی طرف چل دیا۔
وہ بہت اچھے موڈ سے بیڈ روم میں داخل ہوا،مگر اندر کا ماحول خاص خوشگوار نہیں تھا۔جینیفر اب تک صبح والے کپڑوں میں تھی اور موبائل میں بزی نظر آرہی تھی،رات کے سارے کپڑے اب تک کاؤچ پر پڑے تھے۔بلینکٹ بھی کھلا پڑا تھا،بیڈ شیٹ پر سلوٹیں تھیں ،کمرے کی صفائی نہیں ہوئی تھی۔
“(جینی آر یو آل رائٹ”؟)
“جینی تم ٹھیک ہو؟”
شاہ ویر لیپ ٹاپ کاؤچ پر رکھتے اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا اس کے قریب آیا اور اسکا ماتھا چھوا۔
“یس آئی ایم”
“ہاں میں ٹھیک ہوں”
اس نے مختصر سا جواب دیا۔
“(دین وائے ڈڈنٹ یو کال اینی ون فار کلیننگ؟)”
تو تم نے کسی کو صفائی کے لئے کیوں نہیں بلایا؟؟
اس نے کمرے پرطائرانہ نگاہ ڈالتے ہوۓ کہا۔
“(بیکاز آئی ڈونٹ وانٹ ٹو”)
“کیونکہ مجھے نہیں کروانا تھا”۔
جینیفربے رخی سے جواب دے کر پھر موبائیل میں بزی ہوگئی۔
.”(جینی لک ایٹ می،واٹ ہیپڈ؟ٹیل می۔وی آر نیولی میرڈ ،وی شڈ بی ھیپی ۔)”
جینی ادھر دیکھو میری طرف اور بتاؤ کیا ہوا ہے؟ہم نۓ شادی شدہ ہیں،ہم کو تو ابھی خوش رہنا چاہیے۔
وہ صوفے کے آگے پنجوں کے بل بیٹھ گیا اور جینیفر کے ہاتھوں کو نرمی سے دباتے ہوۓ بولا،نظریں جینیفر کے چہرے پر تھیں۔
“(یس شاہ،وی آر نیولی میرڈ،وی شڈ اسپینڈ ٹائم ود ایچ ادر”)
“ہاں شاہ ہم نۓ شادی شدہ ہیں ہم کو ساتھ ٹائم گزارنا چاہیۓ”
اس نے چباچبا کر جواب دیا۔
“(اوہ،سو مسز شاہ ویر عالم از اینگری،بیکاز آئی ایم ناٹ گیونگ ہر ٹائم۔اوکے سوری۔”)
..اوہ تو مسز شاہویر عالم اسلئۓ ناراض ہیں کہ میں انکو ٹائم نہیں دے پا رہا ہوں،اوکے سوری۔
اس نےجینیفر کے پاس بیٹھتے ہوۓ اپنے دونوں کان پکڑتے ہوئے کہا۔
“(بٹ مائی ڈئیر وائف،وی آر ود ایچ ادر فار لاسٹ ۱۸ ڈیزآئی ڈو ھیو سم رسپانسبلٹیز ٹو۔۔ڈونٹ یو تھنک اٹس امپورٹنٹ)”.؟
“مگر میرے پیاری بیگم ،ہم پچھلے ۱۸دنوں سے ساتھ ہیں۔اور میری کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں۔مجھے آفس بھی جانا ہے،تم کو نہیں لگتا یہ واقعی ضروری ہے؟؟”
اس نے جینیفر کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوۓ کہا۔
“(یس اٹ از،بٹ ایٹ لیسٹ وی کین ھیو بریک فاسٹ ٹو گیدر”)
..”ہاں یہ ضروری ہے مگر کم ازکم ہم ناشتہ تو ساتھ کر سکتے ہیں نہ؟”
جینیفر نے نروٹھے پن سے اس کے شرٹ کے بٹن گھماتے ہوئے کہا۔
“(راجر باس،فرام ٹومارو وی ول ھیو بریک فاسٹ ٹو گیدر،ٹوڈے آئی ڈدنٹ ویک یو اپ بیکاز یو ور ٹائیرڈ یسٹرڈے”۔)
“ راجر باس،کل سے ہم ساتھ ناشتہ کریں گے،آج میں نے تم کو صرف اسلئے نہیں اٹھایا کہ تم تھکی ہوئ تھیں”۔
شاہ ویر نے ماتھے تک ہاتھ لے جاکر سیلوٹ کے انداز میں یقین دہانی کروائی۔
جینیفر بھی مسکرا دی۔
جب ہی دروازے پر ناک ہوا۔
“(آئی تھنک ہدایت مسٹ بی دئیر،آئی آسکڈ ہم فار ٹی۔جسٹ ٹیک اٹ،آئی ایم گوئنگ ٹو ٹیک شاور”۔)
.”میرے خیال سےہدایت ہوگا،میں نے اسکو چاۓ کا کہا تھا،لے لو۔میں شاور لینے جارہا ہوں۔”
شاہ ویر جینیفر کو کہتا واش روم کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج شام سے نساء کو پیٹ میں گرہیں پڑتیں محسوس ہورہی تھیں۔رات کو ایقان کو اپنی فیملی کے ساتھ آنا تھا۔نساء کو لگ رہا تھا گویا آج ہی روزِ محشر آگیا ہو۔وہ پریشانی میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی۔
سجل اسکو دکھ سے دیکھ رہی تھی۔
“نساء اب بیٹھ جاؤ،اس نے نرمی سے نساء کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر بیٹھایا۔”
“آپی دعا کرو پاپا ایقان کی بات مان جائیں،کیوںکہ ایقان اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہونگے یہ میں اچھے سے جانتی ہوں”۔
۔نساء نےسجل کو بے چادگی سے دیکھتے ہوۓ کہا۔
“نساء بس دعا کرو وہی جو جس میں تمھاری بہتری ہو”۔
سجل نے اسکو گلے لگاتے ہوۓ کہا۔
“نہیں آپی بس مجھے ایقان چاہیۓ،میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی ہوں”۔
نساء ایک جھٹکے سے سجل سے الگ ہوتے ہوۓ بولی۔
“ اوکے،تم ٹینشن نہ لو،بس اللہ پاک سب اچھا کریںگے۔”
سجل نےاسکو تسلی دی۔
اتنے میں پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز آئی۔نساء نے جلدی سے کھڑکی سے پردہ ہٹا کر دیکھا،ایقان کی فیملی گاڑی سے اتر رہی تھی۔اسکا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کی ٹیبل پر وقار صاحب اور علی صاحب (ایقان کے والد) بزنس اور پھر سیاست ڈسکس کرنے لگے۔ایقان نے کھانا خاموشی سے کھایا۔نساء تو ٹیبل پر آئ ہی نہیں تھی، اس میں کسی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔شاہدہ خاتون کے پوچھنے پر کلثوم بیگم نے سر درد کا بہانہ کردیا۔
کھانے سے فارغ ہوکر سب ڈرائنگ روم میں آگۓ،سجل سب کو چاۓ دینے لگی،جو کچھ دیر پہلے ناہید رکھ کر گئ تھی۔بلاخر وقار صاحب نے علی صاحب سے آنے کے اصل مقصد کا تذکرہ کیا،جس پر علی صاحب یہ کہ کر الگ ہوگۓ کہ
“جسکا مسئلہ ہے آپ اس سے ہی بات کرلیں تو زیادہ مناسب ہوگا،ہم میاں بیوی سے تو آپ ابھی بولیں تو ہم آج ہی ڈیٹ فکس کرکے چلیں جائیں”۔
انہوں نے شاہدہ خاتون کو دیکھتے ہوۓ کہا۔جس پر شاہدہ خاتون نے تائیدی انداز میں گردن ہلائ۔
وقار صاحب نے گہری نظروں سے ایقان کو دیکھا جو گردن جھکاۓ چاۓ کے کپ پر انگلی پھیر رہا تھا۔
“ہاں تو ایقان بیٹا پھر کیا ارادہ ہے تمھارا؟”
انہوں نے نرمی سے پوچھا۔
“انکل وہ دراصل میں آئرلینڈ جانا چاہ رہا ہوں،وہاں ICT ریلیٹڈ بزنس بہت پرافٹایبل ہے،میں وہاں بزنس شروع کرنا چاہ رہا ہوں۔”
اس نے تفصیل سے اپنا پلان بتایا۔
“ہوں ں ں۔۔۔دیٹس گڈ،میرے بھی ۱/۲جاننے والے وہاں ہیں،اچھی مارکیٹ ہے بزنس کی وہاں۔”
انہوں نے گردن ہلاتے ہوۓ کہا۔پھر وہ علی صاحب کی طرف متوجہ ہوۓ۔
“علی صاحب ایقان کی پلاننگ اچھی ہے اللہ کرے وہاں جاکر اسکا کام چل جاۓ،مگر ایسا کرتے ہیں شادی جس ٹائم پر فکس ہوئ تھی،اسی پر ہوگی۔شادی کرکے ایقان باہر چلا جاۓ،نساء ہم لوگ کے ساتھ رہ لے ،چاہے گا تو سہولت سے نساء کو بلا لے گا ورنہ جب تک سیٹل نھیں ہو جاتا نساء ہمارے ساتھ رہ لے گی۔”
انہوں نے ایقان کو ایک نظر دیکھتے ہوۓ کہا۔
“مگر میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا ہوں،شادی ایک ذمہ داری ہوتی ہے،میں پہلے اپنا بزنس اسٹیبلش کرنا چاہتا ہوں،۲سال کی تو بات ہے اگر بزنس نہیں سیٹ ہو پایا تو میں واپس آجاؤں گا،دونوں صورتوں میں شادی ۲سال بعد ہی کرسکتا ہوں۔”
ایقان نے کھل کر اپنا موقف بیان کیا۔
“ایقان وقار صاحب ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں تم سے کون کہہ رہا ہے کہ نساء کو فورا ساتھ لے کر جاؤ،نساء چاہے گی تو ہمارے ساتھ رہے گی،چاہے گی تو اپنے والدین کے ساتھ۔تم کو جب سہولت ہو بلا لینا اسکو،ہم لوگ ہیں یہاں اسکو دیکھنے کے لیۓ۔”
علی صاحب نے بیچ میں مداخلت کی۔
“مگر پاپا ،انکل آپ لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ہے”۔
اس نے جھلاتے ہوۓ کہا۔
“اوکے بیٹا نیکسٹ سنڈے تک اچھے سے سوچ لو اگر شادی ابھی کرکے جانا ہے تو آپ لوگ اگلے ہفتے ڈیٹ فکس کرنے آجائیے گا “
انہوں نے علی صاحب کو دیکھتے ہوے کہا۔
“اور اگر ابھی شادی نہیں کرکے جانا ہے تو معذرت کے ساتھ یہ رشتہ میری طرف سے ختم سمجھۓ گا”
انہوں نے ایقان کو غور سے دیکھتے ہوۓ کہا۔ڈرائنگ روم میں موجود ہر شخص کو جیسے سانپ سونگھ گیا،سب کی نظریں ایقان کے چہرے پر جمی تھی جس پر غصہ اور بے زاری صاف جھلک رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجل پچھلے دو گھنٹے سے نساء کو سمجھا رہی تھی،مگر وقار صاحب کا فیصلہ سن کر نساء بلکل ہی اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔اس نے رو رو کر اپنا برا حال کرلیا تھا۔پڑھنے کا تو سوال ہی نہیں تھا،جب کہ ایگزام سر پر تھے۔
“آپی پاپا ایسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ۔”
وہ ہر تھوڑی دیر بعد یہی سوال دہراتی تھی۔
“نساء پاپا نے کچھ نہیں کیا ہے،انہوں نے تو ابھی بھی ایقان کو ایک موقع دیا ہے۔اگر ایقان کے دل میں تمھارے لئے واقعی جگہ ہوگی تو وہ پاپا کی بات مان لے گا،اور تم کو کیوں لگ رہا ہے کہ وہ منع کردے گا۔”
سجل نے اسکو سمجھانے کی کوششش کی۔
“آپی کیونکہ مجھے ایقان کا پتہ ہے وہ جو چیز بھی زہن پر سوار کرلیں پھر اس سے انکو کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔”
نساء نے آنسو پونچھتے ہوۓ کہا۔
“مگر نساء تم اتنی ارزاں نہیں ہو کہ وہ تم کو اپنی دھن پر قربان کردے،اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ تم کو ڈیزرو ہی نہیں کرتا ہے۔جب بندہ اتنا مٹئرلسٹک ہو جاۓ تو اسکو رشتے جوڑنے نہیں چاہیۓ۔”
سجل نے افسوس سے گردن ہلاتے ہوۓ کہا۔
“مگر آپی وہ جیسے بھی ہیں آئ ڈونٹ ھیو اینی ایشو۔میں انکے بغیر رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ہوں۔اور ویسے بھی وہ شادی سے پیچھےنہیں ہٹ رہے ہیں،۲سال کا وقت ہی تو مانگا ہے،میں کونسا ۲سال میں بوڑھی ہو رہی ہوں۔”
نساء نے ناراضگی سے بولا۔
“نساء بات بوڑھے ہونے کے نہیں ہے،بات کمٹمنٹ کی ہے،جو شخص ایک بار پیچھے ہٹ سکتا ہے ،وہ آگےبھی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ویسے بھی وہ تم کو اہمیت دیتا ہوگا تو وہ فی الحال تم کو پرائورٹی دے گا۔باہر وہ بعد میں بھی جا سکتا ہے،مگر تم اسکو بعد میں نہیں ملو گی۔”
سجل نے دو ٹوک الفاظ میں تجزیہ کیا۔جس سے نساء کو اتفاق نہیں تھا،مگر وہ خاموشی سے اپنے ہاتھوں کی لکیروں پر انگلی پھیرے گئ۔
“آپی مجھے ایقان سے بات کرنی ہے تم باہر جاؤ گی”؟؟
اس نے اپنی آنکھیں خشک کرتے ہوۓ کہا۔سجل اسکو ہمدردی سے دیکھتی باہر چلی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ویر آج پورے ایک ہفتے بعد آفس آیا تھا،آتے ہی اسکو احد نظر آگیا جو اس وقت کسی کام کے سلسلے میں روم سےنکلا تھا۔شاہ ویر کو آتے دیکھ کر وہ زور سے بولا،
“وہ آۓ ہمارے آفس خدا کی قدرت
کبھی ہم انکو کبھی اپنے آفس کو دیکھتے ہیں”
شاہ ویر اسکو گھورتا اپنے روم میں اینٹر ہوگیا۔احد بھی اسکے پیچھے ہی داخل ہوا۔
شاہ ویر کو دیکھتے ہی سارا آفس تندہی سے کام میں مصروف ہوگیا۔وہ جو پچھلے ایک ہفتے سے آفس میں پکنک والا ماحول تھا وہ یکلخت کسی امتحانی کمرے کا منظر پیش کرنا لگا،جہاں ہر شخص اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے۔
احد کا پورے آفس سے ہنسی مذاق چلتا تھا،شاہ ویر کا سب پر ایک رعب تھااسکا لیا دیا انداز،سنجیدہ دو ٹوک لہجہ،اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہی سامنے والے کے اعتماد کو متزلزل کرنے کے لیۓ کافی ہوتا تھا۔اس پر متزاد اسکی کھڑی ستواں ناک،اور ذہیں آنکھیں جو چہرے کو اور تمکنت بخشتی تھیں۔
احد کمرے میں اینٹر ہوتے ہی سب سے پہلے کافی میکر کی طرف بڑھا۔
“تم پیو گے کافی؟”۔
اس نے شاہ ویر سے پوچھا۔
“میں بس یہی سوچ رہا تھا کوئ کافی پارٹنر مل جاۓ،جولیا(ریسیپشنسٹ) کو آفر کرنے جا رہا تھا کہ تم آگۓ،چلو فی الحال بورنگ کمپنی ہی صحیع”۔
اس نے لہجے میں بے چارگی سموتے ہوۓ شاہ ویر کو دیکھا جو پچھلے ۵منٹ سے اسکی بات ختم ہونے کے انتظار میں تھا کہ اسکو کافی کے لۓ نہ کر سکے۔
“میں کافی نہیں پیوں گا۔”
شاہ ویر نے گہرا سانس لیتے ہوۓ کوٹ اسٹینڈ پر ہینگ کیا۔
“اور بہت بہتر ہوتا کی تم بھی جولیا کے ساتھ ہی پی لیتے۔”
اس نے سیدھے سے احد کی بے عزتی کی۔مگر سامنے بھی احد تھا،جو اپنے نام کا ایک تھا۔
“ارے مجھے تو بہت مل جائیں گے،تم جیسے خشک بندے پر ترس کھا کر آجاتا ہوں”۔
احد نے کرسی کھینچ کربیٹھتے ہوۓ کہا۔
شاہویر ڈرار سے اپنا سامان نکالنے لگا۔جب اسکی نظر ڈرار میں رکھی اپنی اور جینیفر کی پکچر پر گئ،یہ Rialto bride کی پک تھی جو انہوں نے اپنے ہنی مون پر ایک ٹورسٹ سے کھنچوائ تھی۔یہ پکچر شاہویر کو بہت پسند تھی اور اسی لئے وہ اسکو فریم کروا کر آفس لے آیا تھا۔یہ پکچر اسکی ٹیبل پرہی رہتی تھی۔جاتے ٹائم وہ سب سامان ڈرار میں رکھ کر جاتا تھا۔اور جینیفر سے رشتہ ختم ہونے کے بعد وہ آج پہلی بار آفس آیا تھا۔
جتنا وہ ان یادوں سے پیچھا چھڑاناچاہتا تھا،اتنا ہی آسیب کی طرح اسکو ہر جگہ بیتی یادیں نظر آتی تھیں۔اس نے تصویر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ ڈرار بند کی اور بظاہر کام میں مصروف ہوگیا۔
احد نے شاہویر کے چہرے کے رنگ بدلتے دیکھے تھے اور وہ سمجھ گیا تھا کہ شاہویر نے ڈرار میں کیا دیکھا ہوگا۔کیونکہ وہ پکچر احد نے ہمیشہ شاہ ویر کی ٹیبل پر دیکھی تھی ،جب سے شاہ ویر نے آفس سنبھالا تھا۔
“اوکے یار چلتا ہوں،بہت کام ہے۔”
احد نے ڈسپوزایبل کپ ڈسٹ بن میں ڈالتے ہوۓ کہا۔وہ شاہ ویر کو اکیلا چھوڑنا چاہتا تھا۔احد کےجاتے ہی شاہ ویر نے لیپ ٹاپ فولڈ کیا اور چئیر کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں.ماضی کسی فلم کی طرح اسکی آنکھوں کے آگے چلنے لگا۔