چھت کو گھورتے اس نے ایک نگاہ اپنے پہلو میں سوئی شزا پر ڈالی تھی جس کا چہرہ نہایت پرسکون تھا۔ اسے اپنے قریب کیے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا وہ کچھ ماہ پیچھے چلا گیا تھا۔
یہ واقع ان کے ہنی مون ٹرپ پر ہوا تھا۔
اس وقت وہ اور شزا پیرس کی گلیوں میں گھومتے وہاں کے بازار سے خریداری میں مگن تھے۔
اسی چکر میں حماد کی ٹکڑ ایک ادھیڑ عمر شخص سے ہوئی تھی۔
“اوہ ایم سوری!” حماد معذرت خواہ لہجے میں بولا تھا۔
“اٹس اوکے۔” وہ شخص مسکرایا تھا۔
حماد کا زمین پر گرا والٹ اس نے اٹھایا تھا جب اس میں شبیر زبیری کی تصویر دیکھ وہ چونکا
وہ ان کی پوری فیملی کی تصویر تھی جس میں حماد اور شزا کے ساتھ شبیر زبیری اور انکی بیوی بھی موجود تھیں۔
“حماد۔۔۔” شزا اسے پکارتی اسی جانب آئی تھی۔
“ایکسکیوز می!” وہ آدمی ہڑبڑی میں وہاں سے نکلا تھا
“یہ کون تھا؟” اسے جاتے دیکھ شزا نے سوال کیا۔
“کوئی نہیں بس ٹکڑا گیا تھا!” والٹ پاکٹ میں ڈالے اس نے جواب دیا تھا۔
“آر یو شیور یہ کوئی چور نہیں تھا؟” شزا نے اس کے دور جاتے وجود کو دیکھ آنکھیں چھوٹی کیے سوال کیا تھا۔
“نہیں” سر نفی میں ہلایا تھا حماد نے۔
دوسرے دن شزا کی خراب طبیعت کے باعث وہ اسے ہسپتال لے کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہی حماد نے دوبارہ اس آدمی کو دیکھا تھا جو حماد پر ایک گہری نگاہ ڈالے وہاں سے چل دیا تھا۔
نجانے کیوں مگر حماد کو اس کا ایسے دیکھنا عجیب لگا تھا۔
آج پھر سے حماد ہسپتال آیا تھا مگر شزا کی رپورٹس لینے جب ڈاکٹر نے اسے اس خوشخبری سے نوازہ تھا۔۔۔۔۔ اسے تو جیسے یقین نہ آیا تھا۔
آفس سے باہر نکلتا وہ ایگزیٹ کی جانب بڑھا تھا جب اس شخص نے اس کا راستہ روکا تھا۔
“اینی پرابلم؟” حماد اکھڑے لہجے میں سوال کیا تھا۔
“میرے ساتھ آؤ ایک ضروری بات کرنی ہے تم سے!” ادھر ادھر نگاہیں دوڑائے وہ شخص سخت مضطرب نظر آرہا تھا۔
“مجھے نہیں کرنی” جواب دیے حماد آگے بڑھا تھا۔
“تم شبیر زبیری کے بیٹے ہو نا؟” اب کی بار حماد کے قدم رکے تھے۔
بھلا پیرس میں بیٹھا یہ شخص لندن میں موجود شبیر زبیری کو کیسے جان سکتا تھا۔۔۔۔ وہ بھی تب جب وہ ایک ڈاکٹر تھا جبکہ اس کا باپ ایک بزنس مین۔
“میرے ڈیڈ کو آپ کیسے جانتے ہے؟”
“مختصر کہانی ہے اگر وقت دو گے تم تمہیں بہت کچھ بتاؤں گا!”
“ٹھیک ہے” حماد نے حامی بھری اور ان کے ساتھ ہولیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“جی بتائیے اب کیا بات کرنی تھی آپ کو؟” اس شخص کے کیبین میں موجود حماد نے سوال کیا۔
“میرا نام بابر علیم ہے اور اس سے پہلے میں تمہیں کچھ بتاؤں، کچھ پوچھنا چاہتا ہوں تم سے۔۔۔۔”
“اب یہ کیسا ڈرامہ ہے؟”
“آرام سے بچے۔۔۔۔۔۔ مجھے بس تم سے ایک سوال کا جواب چاہیے۔۔۔۔۔۔ چند سال پہلے تمہارے باپ نے ایک بچی کو ایڈوپٹ کیا تھا جس کی عمر اس وقت لگ بھگ 8 سے 9 سال کے درمیان تھی۔۔۔ مجھے جاننا ہے کہ اب وہ بچی کہاں ہے؟” بابر علیم کے سوال پر وہ چوکنا ہوا تھا۔
“آپ کا اس لڑکی سے کیا تعلق ہے؟ اور آپ ڈیڈ کو کیسے جانتے ہے؟ پہلے مجھے جواب دیجیے”
“تمہارا باپ صرف ایک بزنس مین نہیں بلکہ اس کا تعلق مافیا سے بھی ہے۔۔۔۔۔۔ تم یہ بات جانتے ہو نا؟” حماد نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“چند سال پہلے تک میں تمہارے باپ کے ساتھ کام کیا کرتا تھا۔۔۔۔۔ میں اس کی مافیا ٹیم کا ایک اہم رکن تھا۔۔۔۔ تمام زخمیوں کو میں ہی ٹریٹ کرتا تھا۔۔۔۔۔۔”
“اوکے لسن سمجھ گیا میں۔۔۔۔ اب پہلے سوال کا جواب دو تمہارا اس بچی سے کیا تعلق ہے؟” حماد نے درشتگی سے اس کی بات کاٹی تھی۔
“وہ بچی۔۔۔۔۔۔ ایک رات شبیر زبیری اس بچی کو نہایت زخمی حالت میں میرے پاس لے کر آیا تھا۔۔۔۔ اس کا پورا جسم خون میں رنگا ہوا تھا۔۔۔۔۔ میں نے اسے فوری طور پر ٹریٹمنٹ دے دی تھی۔۔۔ شبیر سے پوچھنے پر مجھے معلوم ہوا کہ وہ اس کے دشمن کی بیٹی تھی جسے وہ اب بدلے کے طور پر استعمال کرنے والا تھا۔”
“کون سا دشمن؟” حماد نے تیزی سے سوال کیا تھا۔
“ارحام شاہ!۔۔۔۔ وہ ارحام سلطان شاہ کی بیٹی تھی۔۔۔۔۔۔ خیر میں نے اس بچی کا علاج تو کردیا مگر جب اسے ہوش آیا اس وقت ہمیں علم ہوا کہ وہ اپنی یادداشت کافی حد تک کھوچکی تھی۔۔۔۔ لیکن اگر اسے یاد دلایا جاتا تو چانسز تھے کہ اسے سب یاد آجاتا۔۔۔۔۔۔ مگر شبیر ایسا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ اسے ارحام شاہ کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا اسی لیے اسے ایسی میڈیسنز دی گئی کہ وہ تھوڑی بہت بچی کچی یاد بھی کھوچکی تھیں۔۔۔۔۔” حماد کا سانس پل بھر کو ان کی بات سن کر رکا تھا۔
“اب۔۔۔۔اب آپ کیا چاہتے ہیں اور اگر آپ میرے ڈیڈ کے ساتھی تھے تو یہاں کیا کررہے ہے؟”
“مافیا کی زندگی بہت خطرناک ہے۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنی بیوی اور بچے کو کھودیا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں چلا آیا۔۔۔۔ ویسے تو مافیا کو چھوڑنے کی سزا موت ہوتی ہے مگر تمہارے باپ نے ہماری دوستی کا پاس رکھتے ہوئے مجھے بخش دیا تھا۔۔۔۔۔ میں نے اپنی بیوی اور بچے دونوں کو کھودیا مگر تب بھی یہ نا سمجھ سکا کہ وہ میری سزا تھی۔۔۔ اور اب، اب میں خود موت کی جانب جارہا ہوں۔۔۔۔۔ مرنے سے پہلے میں اپنے تمام برے کاموں میں سے چند ایک ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ مجھے امید نہیں تھی کہ تم مجھے یہاں ملو گے۔۔۔۔۔ خیر اہم بات کی جانب آتے ہے۔۔۔۔۔۔ وہ بچی جو اب ایک جوان لڑکی بن چکی ہے، اس کی جان کو خطرہ ہے، تمہارا باپ اسے مارنے والا ہے۔۔۔۔۔ وہ اب اس کے کسی کام کی نہیں رہی۔۔۔۔۔۔ تمہارا باپ سمجھ چکا ہے کہ وہ ارحام شاہ نے بدلا لینے کو اس کی کوئی مدد نہیں کرنے والی۔۔۔ وہ مار دے گا اسے بہت جلد!”
“کیا بکواس کررہے ہو جانتے وہ لڑکی اب میری۔۔۔۔۔”
“ہاں جانتا ہوں وہ تمہاری بیوی ہے اب، دیکھا تھا اسے میں نے اس دن تمہارے ساتھ بازار میں، مگر سچ یہی ہے اس کا کام صرف ارحام شاہ سے بدلا لینا تھا۔۔۔۔۔۔ اور اب تمہارا باپ بہت جلد اسے مار دے گا” حماد جو اس کی بات سن غصے سے چلایا تھا اگلے جملے پر اس کی آنکھیں پھیلی تھی۔
“جھوٹ ہے یہ۔۔۔۔”
“نہیں یہ سچ ہے!”
”اچھا اگر یہ سچ ہے تو تمہیں کیسے معلوم؟ تم تو چھوڑ چکے ہو نا مافیا؟” وہ ادب لحاظ سب کچھ بھول چکا تھا۔
“میں نے مافیا کو چھوڑا ہے مافیا نے مجھے نہیں۔۔۔۔۔ تمہارے باپ کے بہت سے خاص آدمی ابھی بھی میرے لیے کام کرتے ہیں، اور انہوں نے ہی مجھے یہ بات بتائی تھی۔۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ تم اس سے کتنی محبت کرتے ہو اور صرف تم ہی اسے اپنے باپ سے بچاکر اس کے اپنوں سے اسے ملوا سکتے ہو۔۔۔۔۔ ایک بات یاد رکھنا حماد۔۔ مرتا ہوا انسان کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔۔۔۔ تمہیں وارن کررہا ہوں اپنی بیوی کو بچالو۔۔۔ ورنہ وہ پل دور نہیں جب تمہارا باپ اسے مار ڈالے گا اور تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔۔۔۔ کیونکہ اس شخص کو تمہاری محبت سے زیادہ اپنی زندگی اور طاقت عزیز ہے!”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال میں پہنچتے ہی حماد نے گہری سانس خارج کی تھی، شزا پر ایک نگاہ ڈالے وہ اسے اپنے بالکل ساتھ لگا چکا تھا۔
“آئی پرامس یو میں تمہیں اور ہمارے بچے کو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔ کوئی تکلیف نہیں پہنچنے دوں گا میں تمہیں!” اس کے بالوں پر بوسہ دیا وہ اسے اپنے مزید قریب کرچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا بات ہے آپا آپ یہاں یوں اکیلی بیٹھی ہے؟ خیریت؟” چائے کا مگ ہاتھ میں تھامے تقی اس کے برابر بیٹھے بولا تھا۔
“کچھ خاص نہیں بس بنا تاروں کے آسمان کو دیکھ رہی جو مجھے اس وقت بالکل میرے جیسا لگ رہا ہے، سیاہ، خالی۔۔۔۔۔” آسمان پر نگاہیں ٹکائے وہ بولی تھی۔
“ایسی باتیں مت کیا کیجیئے آپا!” تقی افسوس سے بولا تھا
“مجھے معاف کردو تقی میرے وجہ سے ایک بار پھر تایا ابو، تائی امی، تم سب کو کتنی مشکل اٹھانی پڑی۔۔۔ اب تو یقین سا ہونے لگا ہے کہ میں سچ میں منحوس ہوں!”
“آپ ایسی باتیں کیوں کررہی ہے اور جو کچھ ہورہا ہے اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں، اور جہاں تک بات رہی آج جو ہوا ہے اس کی تو فکر مت کرے وہ شخص جلد آپ کو آزاد کردے گا” اس کا ہاتھ تھامے تقی نے یقین دلایا تھا۔
“وہ نہیں کرے گا تقی۔۔۔۔ تم نے نہیں میں نے دیکھی تھی اس کی وہ آنکھیں، وہ آگ برساتی، جنونیت بھری نگاہیں۔۔۔۔ اس کی آنکھیں میں ایک عہد تھا، ایک وعدہ تھا کہ جو کہاں ہے اس پر عمل بھی کروں گا۔۔۔۔۔ مجھے اس لمحے بہت خوف محسوس ہوا تھا تقی۔۔۔ اگر وہ واقعی مجھے لے گیا اپنے ساتھ زبردستی تو؟” وہ پینک ہونے لگ گئی تھی۔
“آپا۔۔۔۔آپا ادھر دیکھے میری جانب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ وعدہ ہے میرا۔۔۔۔۔ آپ کا بھائی کچھ نہیں ہونے دے گا آپ کو۔۔۔۔ وہ شخص چاہے جتنے مرضی ہاتھ پیر مار لے وہ آپ کو کچھ نہیں کہہ پائے گا!۔۔۔۔۔ میں ہوں نا آپ کے ساتھ؟” اس کے دونوں ہاتھوں کو تھامے تقی وعدہ کن لہجے میں بولا تھا جس پر ماورا نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“یہ۔۔۔یہ کیا ہے آپا؟” اچانک اس کی نظر ماورا کی کلائی پر گئی تھی جہاں پرپل رنگ کے نشان تھے۔
”وہ پرانے زخم” اپنے ہاتھ اس کی گرفت سے کھینچے ماورا لبوں کو تر کرتی بولی
“پرانے لگ تو نہیں رہے!” تقی کے بولنے پر اس نے تھوک نگلا تھا۔
“نہیں پرانے ہی ہیں۔۔۔ تمہیں شائد غلط فہمی ہوئی ہوگی۔۔۔”
“اچھا چھوڑے۔۔۔۔۔ ویسے آپ کے ماتھے کا زخم بھی کافی مدھم ہوگیا ہے!” تقی کے بولنے پر اس نے اپنے ماتھے کو چھوا تھا۔
ایک بار پھر دماغ میں اس دن کا حادثہ لہرایا تھا
فہام جونیجو
اس انسان کو سوچتے ہی اس کا پورا وجود سنسنا اٹھا تھا۔
اگر ماورا کو زندگی میں کسی انسان نے خوفزدہ کیا تھا تو وہ فہام جونیجو تھا۔۔۔۔۔ جس کا فقط نام ہی ماورا کو سانسیں کھینچ لینے کو کافی تھا۔
اسے یاد کرتی وہ تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھتی کمرے کی جانب بھاگی تھی۔
تقی نے سر افسوس سے نفی میں ہلایا تھا۔
کمرے میں آتے ہی دروازہ بند کیے اس کی حالت بگڑنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔ بالوں کو کھینچتی وہ ادھر سے ادھر چکر لگاتی تھک ہار کر کبرڈ کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ کپڑوں کے پیچھے سے ایک شاپر نکالے وہ بیڈ پر آبیٹھی تھی۔
اس میں انجیکشن اور نشیلی ادویات نکالے اس نے جلدی سے خود کو انجیکشن لگایا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ پرسکون ہوچکی تھی۔
انجیکشن کو واپس شاپر میں ڈالے اس نے بیڈ کے نیچے کردیا تھا۔
اب اسے انتظار تھا تو فجر کا۔۔۔ یہی وہ وقت ہوتا تھا جب وہ تایا ابو اور تقی کے مسجد جانے کے فوراً بعد انجیکشن کو پھینک دیا کرتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بھیا آپ نے بلایا؟” اس کی سٹڈی کا دروازہ ناک کیے زویا بولی تھی۔
“ارے زویا آؤ میری جان۔۔۔۔” سنان جو کوئی فائل پڑھ رہا تھا اچانک مسکرایا تھا۔
“آؤ بیٹھو!” اس نے اپنے سامنے موجود کرسی کی جانب اشارہ کیا تھا۔
“جی بھیا۔۔۔۔۔”
“سر!” اچانک کریم نے دروازہ ناک کیا تھا۔
“کریم کم ان” سنان نے فوراً اسے بلایا تھا۔
“آپ نے بلایا سر؟” زویا کے ساتھ موجود خالی کرسی کے پاس کھڑے اس نے سوال کیا تھا۔
“ہاں کریم میں نے تم دونوں کو ایک بہت اہم بات کرنے کے لیے بلایا ہے” فائل سائد پر رکھے وہ ان کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
“خیریت سر؟”
“ارے بیٹھو تو سہی پھر ہی بتاؤں گا۔”
“نو سر اٹس اوکے”
“بیٹھو!” اب کی بار حکم دیا گیا تھا جس پر کریم فوراً بیٹھ گیا تھا۔
“جیسا کہ تم دونوں جانتے ہو کہ میں اور وائے۔زی کچھ ماہ کے لیے دوبارہ لندن جارہے ہیں۔۔۔۔۔ تو ایسے میں میرا ایک بہت اہم کام ہے جو تمہیں کرنا ہوگا کریم”
سنان نے کل رات ہی کھانے پر سب کو اپنے اور وائے۔زی کے لندن جانے کی اطلاع دی تھی۔
زویا کو اس کی بات سن کر دکھ ہوا تھا مگر وہ جانتی تھی ان کا کام ہی ایسا تھا۔
“جی کہیے سر” کریم فوراًۤ بولا تھا
“میں زویا کہ لیے ایک ٹیچر ہائر کرنا چاہتا ہوں، مگر ہمارے دشمنوں کے ہوتے کسی پر بھی بھروسہ کرنا آسان نہیں۔۔۔ تو میں چاہتا ہوں کریم کے تم زویا کو بیسک انگلش پڑھنا اور لکھنا سکھاؤ۔۔۔۔۔ بعد میں یہ کوئی بھی انگلش لینگویج انسٹیٹیوٹ جوائن کرلے گی۔۔۔۔۔ مگر بیسک باتیں تم سکھاؤ گے تو اچھا رہے گا!”
“سر میں؟” کریم حیران ہوا
“ہاں تم۔۔۔۔۔ کیوں کوئی مسئلہ ہے؟” سنان نے ابرو اچکائے سوال کیا
“نو سر۔۔۔ مگر میم نے پوچھ لے ایک بار”
“مجھے کوئی مسئلہ نہیں!” سنان کے پوچھنے سے پہلے ہی زویا نے اپنا جواب سنایا تھا
“دین اٹس ڈئسائڈیڈ۔۔۔۔ کریم اب سے تمہیں پڑھائے گا!”
“بٹ سر آفس؟”
“وہ معتصیم سنبھال لے گا!”
“آر یو شیور سر؟” کریم کے سوال پر اس نے گہری سانس خارج کی تھی۔
“یس ففٹی پرسنٹ۔۔۔ مگر زویا کو تم ہی پڑھا رہے ہو!” سنان نے انگلی اٹھائے اسے وارننگ دی تھی۔
“اوکے سر!” موؤدب انداز میں جواب دیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ماورا۔۔۔۔ ماورا، ماورا” ربیعہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس پہنچی تھی۔
“کیا ہوا؟” ماورا چونکی
“یو نو واٹ تمہارے ٹیبل پر ایک ڈیشنگ سا کسٹمر آیا ہے۔۔۔۔۔ اینڈ آئی مسٹ سے۔۔۔ افف یار کیا بندہ ہے” ہاتھ سے خود کو ہوا دیے ربیعہ ہنسی تھی۔۔۔۔ ماورا نے مسکرا کر سر نفی میں ہلایا
نوٹ پیڈ اٹھائے وہ اپنے ٹیبل کی جانب بڑھی تھی۔
“السلام علیکم سر۔۔۔۔۔۔ میں آج کی آپ کی ویٹرس ماورا ہوں، امید ہے آپ اپنا آرڈر سلیکٹ کرچکے ہوگے!” نوٹ پیڈ پر نگاہیں ٹکائے وہ بولی تھی
“ہمم!” سامنے والے بس ہنکارہ بھرا تھا۔
“آپ کیا لے گے سر؟”
“تم!” حیرت سے سر اٹھائے اس نے سامنے بیٹھے معتصیم کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔ آنکھوں میں اپنے آپ ناگواری در آئی تھی۔
پیر پٹختی وہ وہاں سے جانے کو مڑی جب معتصیم کے الفاظ نے اس کے قدم روک دیے تھے۔
“اگر تم نے ایک قدم مزید اٹھایا تو تمہارے مینیجر کو شکایت لگا کر یہاں سے نکلوا دوں گا” معتصیم کی بات پر وہ غصے سے بھری اس کی جانب مڑی تھی۔۔۔۔۔ جس کے لبوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں شرارت تھی۔
“یور آرڈر سر” دانت پیسے وہ بولی تھی۔
“یو” نگاہیں اس پر ٹکائے پرسکون جواب دیا گیا تھا۔
“اوویل ایبل نہیں ہے سر۔۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ اور” لبوں پر زبردستی کی مسکان سجائے اس نے پوچھا تھا۔
“اوہ مائی بیڈ لک۔۔۔۔۔” وہ افسوس سے بولا
” ویل ون سمپل بلیک کافی” پیچھے کو ٹیک لگائے اس نے آرڈر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سمپل بلیک کافی چاہیے اس کو؟ ابھی دیتی ہوں” غصے سے کھولتی وہ پانچ بڑے چمچ چینی کے کافی میں ڈال چکی تھی۔
مگر یہی اس نے بس نہ کی تھی۔۔۔۔۔۔ چاکلیٹ کے ساتھ ساتھ اس نے کریم بھی بیچ میں ڈال دی تھی۔
“لے پی لے اپنی سمپل بلیک کافی” لال آنکھوں سے اس کپ کو گھورتی وہ اسےاٹھائے معتصیم کے ٹیبل کی جانب بڑھی تھی۔
“یور آرڈر سر” سر پر زور ڈالے اس نے ایک جھٹکے سے کافی ٹیبل پر پٹخی تھی۔
کچھ چھینٹے اڑ کر معتصیم کی شرٹ کو گندہ کرگئے تھے۔
“واٹ دا۔۔۔۔۔۔”
“اوہ ایم سوری سر۔۔۔۔ رئیلی سوری” معصوم شکل بنائے وہ بولی تھی۔
کافی کا مگ لبوں کو لگائے معتصیم نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا تھا۔
معتصیم کو ایک میٹھی مسکراہٹ سے نوازتی وہ وہاں سے نو دو گیارہ ہوگئی تھی۔
“واٹ دا۔۔۔” کافی کا ایک سپ لیے اس نے فوراً کپ کو خود سے دور کیا تھا۔
اس پورا منہ اس وقت میٹھا ہوچکا تھا۔
نگاہیں اٹھائے اس نے سامنے کاؤنٹر کے پاس کھڑی ماورا کو دیکھا جس کے لبوں پر ایک چڑا دینے والی مسکراہٹ تھی۔۔۔۔۔ اسی مسکراہٹ سے اسے نوازتی وہ اپنے باقی ٹیبلز کی جانب سروس دینے کے لیے بڑھی تھی۔
سر جھٹکے وہ بھی کافی کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔۔ وہ مسکرائی تھی۔۔۔۔ اور وجہ وہ خود تھا۔۔۔۔۔ یہ سوچتے ہی اس کے لب بھی مسکرادیے تھے
“how was the coffee sir?”
بل پیمنٹ کے وقت مسکراہٹ دبائے اس نے معتصیم کو زچ کرنے کو سوال کیا تھا۔
“Oh it was fantastic Mrs. Mawra Affandi”
اس کے مسز کہنے پر ایک دم ماورا کے ہونٹوں سے مسکراہٹ جدا ہوئی تھی
“بالکل ویسی جیسی مجھے پسند ہے۔۔۔۔۔ کرواہٹ میں چھپی محبت بھری مٹھاس۔۔۔۔ جسٹ لوو اٹ” اس کے کان کے پاس سرگوشی کرتا وہ اسے ڈھیر ساری ٹپ سے نوازتا وہاں سے نکل چکا تھا۔
غصے سے کھولتی ماورا نے اس چند خوبصورت القابات سے نوازہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شزا کے معاملے میں حماد ضرورت سے زیادہ چوکنا ہوچکا تھا۔۔۔۔ وہ اسے کہی بھی اکیلے آنے جانے نہ دیتا۔۔۔۔ ہمیشہ اسی کے ساتھ رہتا۔۔۔۔۔ ایسے میں شبیر زبیری کو اپنے پلان پر عمل کرنے کے لیے مشکلات آرہی تھی۔
آخرکار بہت کوشش کے بعد آج انہیں موقع مل ہی گیا تھا۔
شزا کا اس وقت پانچواں مہینہ چل رہا تھا۔۔۔۔۔۔ حماد اسے چھوڑ کر جانا تو نہیں چاہتا تھا مگر پھر بھی آج ایک ضروری میٹنگ کی وجہ سے وہ آفس چلا گیا تھا۔۔
شبیر زبیری کے پاس یہی ایک موقع تھا اپنے پلان کو عمل میں لانے کے لیے۔۔۔۔ اور اس میں مزید مدد انجانے میں عالیہ کرچکی تھی۔
اسے مال سے کچھ چیزیں خریدنی تھی اور ایسے میں وہ شزا کو اپنے ساتھ لے کر گئی تھی۔
مال میں گھنٹہ گھوم لینے کے بعد وہ شزا کو واشروم کا بہانہ کرتی اپنے بوائےفرینڈ کے ساتھ وہاں سے نکل چکی تھی۔
تھوڑی دیر تک اس نے شزا کو ڈرائیور کے ساتھ گھر جانے کو بولا تھا کیونکہ اسے اس کی دوستیں مل گئی تھی اور اسے ان کے ساتھ وقت گزارنا تھا۔
شزا کندھے اچکاتی مال سے نکلتی گاڑی کی جانب بڑھی تھی۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے حماد کی کال آئی تھی۔
“ہیلو حماد۔۔۔”
“شزا تم اس وقت کہاں ہو؟” اس کی بات کاٹتا وہ تیزی سے بولا تھا۔
“کیا ہوا حماد؟” شزا نے اچھنبے سے سوال کیا۔
“تم کہاں ہو شزا؟” گاڑی ڈرائیو کرتے اس نے تیز لہجے میں سوال کیا تھا۔
“اممم مال!”
“کونسے؟” جواب میں شزا نے مال کا نام بتایا تھا
“وہی رہنا میں آرہا ہوں!” کال کاٹے اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔
وہ میٹنگ سے جلد فارغ ہوگیا تھا جب اس نے شزا کو کال کی مگر نیٹ ورک ان ریچ ایبل آرہا تھا۔۔۔۔ کچھ سوچتے ہوئے اس نے لینڈ لائن پر کال کی اور میڈ نے کال رسیوو کیے اسے اطلاع دی تھی شزا کے باہر جانے کی۔
اس لمحے سے حماد کا سانس لینا محال ہوا تھا۔۔۔۔۔ اگر شزا کو یا اس کے بچے کو کچھ ہوگیا تو؟
تیز رفتار میں گاڑی چلاتا وہ مال کی پارکنگ میں پہنچ گیا تھا۔۔۔۔۔ ڈرائیور کو اپنی گاڑی دیے وہ شزا کو اس گاڑی میں لیے گھر کے لیے نکلا تھا۔
شزا نے چور نظروں سے اسے دیکھا جس کے لب بھینچے ہوئے تھے۔
“ناراض ہو؟” ہچکچاتے اس نے سوال کیا تھا۔
اس پر ایک نگاہ ڈالے حماد نے دوبارہ ڈرائیونگ شروع کردی تھی۔
“حماد پلیز۔۔۔۔ میں نہیں جانا چاہتی تھی مگر عالیہ نے فورس کیا۔۔۔۔۔ سوری نا!”
“سوری؟ رئیلی سوری؟ جب میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ تم میرے علاوہ کسی کے ساتھ باہر نہیں جاؤ گی تو کیوں گئی۔۔۔۔۔ اور اس عالیہ کو تو میں پوچھتا ہوں۔۔۔۔ تمہیں اس حالت میں اپنے ساتھ مال گھمانے لے کر گئی تھی”
“حماد پلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتی گاڑی کے ٹائر پر فائرنگ ہونے سے وہ چرچرائی تھی۔
ساتھ ہی گولیاں برسنا شروع ہوگئی تھی۔
“حماد!”شزا چلائی
حماد نے فوراً اسے اپنی پناہوں میں لیے اس نیچے کردیا تھا۔
دونوں جانب سے ان پر گولیاں برسائی جارہی تھی
ایک گولی شزا کے کندھے میں پیوست ہوئی تھی۔
اچانک اسے اپنا سر گھومتا محسوس ہوا تھا۔۔۔
“حماد۔۔۔” بیہوش ہونے سے پہلے اس نے اسے پکارا تھا جو خون میں لت پت دوسری جانب کو لڑکھ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...