دو سالوں کے دوران سیال نے اپنا امیج ایک بہترین طالبعلم کے طور پہ پیش کیا تھا اور سب سے بڑھ کے وہ شینا اور سمعیہ سے باقی لڑکوں کی نسبت احترام سے پیش آتا تھا جو باقیوں کے مقابلے میں اسکا پلس پوائنٹ بن گیا تھا ویسے بھی وہ دونوں ایک دوسرے کو کافی تھیں مگر کبھی جو کوئی ٹاپک انہیں سمجھ نہ آتا تو وہ سیال کی خدمات لیتیں تھیں
اس دن وہ سب رزلٹ کے بعد اپنی یونیورسٹی میں جمع ہوئے تھے سمعیہ کسی کام سے لائبریری کی طرف گئی تھی جب واپسی پہ سیال نے اسے روکا تھا
” مس سمعیہ….آپ کا کچھ وقت لینا ہے”
وہ پوچھ نہیں بتا رہا تھا
” خیریت مسٹر سیال…..”
سمعیہ کچھ حیران ہوئی تھی اس سے جب بھی بات ہوئی تھی شینا کے ساتھ ہوتی تھی مگر اب یوں اکیلے اچانک وہ کچھ گھبرائی اور پھر اپنے ازلی خوداعتماد انداز میں لوٹ آئی تھی
” نہیں مس سمعیہ خیریت نہیں ہے….بس اب آپ ہی خیریت لاسکتیں ہیں”
سیال کی بات پہ سمعیہ کو ایک بار پھر جھٹکا لگا
” جی…….کیا مطلب ہے آپکا ”
” مس سمعیہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں”
سیال ان دونوں سالوں میں جان گیا تھا سمعیہ شادی کے زریعے ہی مل سکتی ہے ورنہ ان دو سالوں میں کتنے موقع آئے تھے مگر سمعیہ پہاڑ کی مانند اپنی جگہ پہ قائم تھی اسے اپنی عزت کرانی آتی تھی
"کیا…..مسٹر سیال….آپ کو معلوم ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں….”
سمعیہ نے اپنی حیرانگی پہ قابو پاتے ہوئے ناگواری سے کہا
” لک مس سمعیہ آپ نے شادی تو کہیں نہ کہیں کرنی ہے تو وائے ناٹ می….میں اپنے پیرنٹس کو آپ کے ہاں بھیجنا چاہتا ہوں ”
سیال نے کہا تو سمعیہ سوچ میں پڑ گئی تھی
واقعی شادی تو کہیں نہ کہیں ہونی تھی اگر میر سیال سے ہوجاتی تو کیا برائی تھی
” یہ فیصلہ میرے پیرنٹس کریں گے میں کچھ نہیں کہہ سکتی….”
اس نے میر سیال کو دیکھتے ہوئے کہا اگر وہ شخص اس کا نصیب بن جاتا تو یہ اسکی خوش قسمتی ہی ہوتی
اونچا لمبا….اور امیر
ایک لڑکی یہی تو چاہتی ہے
مگر یہ سوچنا کے یہ اسکی خوش نصیبی ہوگی سمعیہ کی سب سے بڑی بیوقوفی تھی
سمعیہ کی بات پہ سیال کے لبوں پہ ایک پراسرار مسکراہٹ آئی تھی
اب اگلے قدم کی تیاری تھی
____________________________________
سفیر واپسی پہ اسے لینے آیا تھا وہ ایم اے کے بعد ایک مقامی کالج میں پڑھا رہا تھا
سمعیہ اسے کوئی قصہ سناتے ہوئے بائیک پہ بیٹھی تھی سفیر کا مکمل دھیان اس پہ تھا اس لئے وہ سامنے آنے والے پہ دھیان نہ دے سکا اور سامنے والے کی بائیک سے ٹکر ہوگئی تھی
” اف…..”
سمعیہ ڈر ہی گئی تھی کہ ٹکر کھانے والا میر سیال تھا
” اوہ….ایم سوری…”
سفیر بوکھلا کے اسکی طرف بڑھا تھا
” نو اٹس اوکے ….مجھے دھیان رکھنا چاہئے تھا ” چوٹ کھانے کے بعد بھی میر سیال کی زبان شہد ٹپکا رہی تھی
مقام حیرت تھا کوئی سن لیتا تو بےہوش ہی ہوجاتا جو میر سیال کا واقف کار اگر ہوتا
” سمعیہ….تم گھر جاؤ….میں انہیں اسپتال لے جاتا ہوں”
سفیر نے اس سے کہا تھا بڑی پریشانی ہوگئی تھی سمعیہ ہمیشہ اسکے ساتھ آتی جاتی رہی تھی اب اسے اکیلے جانا پڑ رہا تھا یوسف صاحب سنتے تو دونوں کی صحیح عزت ہوتی
” اوکے بھائی….”
سمعیہ جانتی تھی کہ سفیر کا اسے اسپتال لے جانا ضروری تھا
” چلی جاؤگی نا….”
سفیر نے پوچھا
” جی بھائی….آپ فکر نہ کریں”
سمعیہ نے اسے تسلی دی اور سائیڈ پہ ہوگئی
سفیر گہری سانس لیتا ہوا سیال کی طرف متوجہ ہوا تھا اگر ابا کو پتہ چل جاتا سفیر سے ایکسیڈنٹ ہوا تو یہ سمعیہ کو گھر اکیلے بھیجنے سے زیادہ خطرناک ہوتا
کلینک کے بعد وہ سیال سے پوچھ کے اسے گھر لے آیا تھا مگر سمعیہ کی اسے فکر لاحق تھی نامعلوم وہ گھر پہنچی بھی تھی کہ نہیں
” کیا بات ہے کچھ پریشان لگ رہے ہیں….”
سیال نے اسکی بے چینی دیکھتے ہوئے پوچھا
” نہیں…بس ہمشیرہ کی فکر ہے…”
سفیر نے کہا
” تو آپ فون کرلیں….”
سیال نے ٹیلیفون اسٹینڈ کی طرف اشارہ کیا تھا
” نہیں بس میں ویسے ہی گھر جا رہا ہوں”
سفیر نے انکار کیا
” کم ان سفیر صاحب….گھر تو نہ جانے کب پہنچے آپ تسلی ہوجائے گی تو سفر صحیح سے گزرے گا”
سیال کی بات پہ سفیر آمادہ ہوگیا تھا
اس نے گھر کے نمبر ملائے اتفاق سے فون سمعیہ نے اٹھایا تھا
” ہاں….ہیلو…سمعیہ..”
سمعیہ کے ہیلو کے جواب میں اس نے کنفرم کیا
” جی بھائی خیریت…”
” ہاں خیریت ہی ہے ….تم ٹھیک سے پہنچ گئیں”
” جی بھائی شینا کے ساتھ آئی ہوں اس نے لفٹ دے دی تھی ”
سمعیہ کی بات پہ اس نے شکر ادا کرتے ہوئے فون رکھ دیا تھا
” تھینکس سیال….”
” تھینکس تو مجھے آپکا کرنا چاہئیے ….آپ نے میرا خیال کیا…”
سیال نے اسے اچھے طریقے سے رخصت کیا تھا سفیر اس سے اسکے گھر سے رکھ رکھاؤ سے متاثر ہوا تھا
درحقیقت اس نے اپنا ایک ووٹ پکا کیا تھا
” اوہ چیتے کیا گیم کھیلی ہے مان گئے…..” عاصم سفیر کے جانے کے بعد آیا تھا
” بکواس نہیں….کام ہوا”
سیال نے بیزاری سے کہا
” ہاں ہوگیا….یہ لے ایڈرس”
عاصم نے اسکی طرف چٹ بڑھائی
” ویسے یہ زیادہ نہیں ہوگیا….” عاصم نے اسکی چوٹ کی طرف اشارہ کیا
” شہزادے دیکھ بدلے میں ملا بھی تو کیا ہے”
” کیا ملا ہے صرف ایڈرس ”
” نہیں صرف ایڈرس نہیں….بلکہ فون نمبر بھی…”
سیال کی بات پہ عاصم چونک گیا تھا
” وہ کہاں سے ملا….”
” خود آیا ہے…..سیال اتنی محنت فضول میں نہیں کرتا ….سی ایل آئی سے نمبر نوٹ کرلو”
سیال نے فون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
” مان گئے استاد….”
عاصم متاثر ہوا تھا اس معاملے میں ایک وہی سیال کا راز دار تھا
_____________________________________
” عالیہ….عالی…”
سمعیہ نے اسے پکارا
” کیا ہوا….” عالیہ نے سر اٹھا کے اسے دیکھا
وہ رومال کاڑھ رہی تھی
” ایک تو جب بھی دیکھو فضول.کام کرتی رہتی ہو….مجھے نا ایک بہت ضروری بات کرنی ہے تم سے ”
سمعیہ نے بے چینی سے کہا
” محترمہ لڑکیاں ایسے ہی کام کرتیں ہیں…تم دو چار لفظ پڑھ کے خود کو توپ مت سمجھو….بکو کیا بات ہے ”
عالیہ چڑ کے بولی
” جاؤ میں نہیں بتا رہی تمہیں” سمعیہ ناراض ہوگئی تھی
” اچھا بابا سوری اب بولو” عالیہ نے جھٹ کان پکڑے
” تمہیں پتا ہے آج یونیورسٹی میں کیا ہوا….”
سمعیہ نے تجسس پھیلایا
” کیا…” عالیہ نے کہا
” وہ میر سیال ہے نا ہماری کلاس کا اس نے مجھے پرپوز کیا ہے”
سمعیہ نے بم پھوڑا
” کیا….” عالیہ شاکڈ ہوئی
” پھر تم نے کیا کیا”
” میں نے کہہ دیا اماں ابا ہی آخری فیصلہ کریں گے….پر عالیہ میں نے سوچ لیا ہے اس کا رشتہ آیا تو میں اماں سے کہوں گی جھٹ ہاں کردیں آخر کس چیز کی کمی ہے اس میں”
سمعیہ نے مزے سے کہا
” اللّه کا واسطہ ہے چپ ہوجاؤ ….چاچا نے سن لیا تو قیامت آجائے گی ….”
عالیہ دہل کے بولی
” تم تو ڑرتی رہو….میری زندگی ہے فیصلے کا حق بھی مجھے ہے …میر سیال سے بہت رشتہ مجھے نہیں مل سکتا…”
سمعیہ ہٹیلے پن سے بولی
” سمعیہ….” عالیہ اسے دیکھ کے رہ گئی
” اب تم.بھابھیوں کی طرح ڈراؤ نہیں….” عالیہ سفیر کی بیوی تھی انس انکا بیٹا تھا
” پتہ نہیں کیا کرنے جارہی ہو” عالیہ کو سمجھ ہی نہ آیا تھا
” اور پتہ ہے واپسی میں کیا ہوا…..”
سمعیہ نے پھر کہا
” اب کیا ہوا….”
عالیہ نے مرے مرے انداز میں کہا
” تمہارے سفیر صاحب کی بائیک سے اسکا ایکسیڈنٹ ہوگیا”
” کیا…” عالیہ کو دھچکا لگا
” پھر….”
” پھر کیا بھائی اسے لے کے اسپتال گئے….اور میں شینا کے ساتھ گھر”
سمعیہ نے اطمینان سے کہا جبکہ عالیہ کا اطمینان رخصت ہوگیا تھا
_____________________________________
رات بھیگ چکی تھی سمعیہ ابھی عشاء کی نماز پڑھ کے وہ فارغ ہوئی تھی جب و
فون کی گھنٹی بجی
” ہیلو….” سمعیہ نے محتاط لہجے میں کہا ابا بھی تک گھر نہیں لوٹے تھے
” تھینک گاڈ ….آپ ہی ہیں ورنہ مشکل ہوجاتی ”
سیال نے سکون سے کہا
” آپ ….سیال” سمعیہ کے چھکے چھوٹ گئے تھے
” جی میں آپ نے پہچانا تو….” سیال نے دھیرے سے کہا
"کیوں فون کیا ہے آپ نے…..” سمعیہ نے پوچھا
” آپ سے بات کرنے کیلئے…. ”
” مگر آپ سے بات نہیں کرسکتی ….” ابا اگر ابھی آجاتے نہ تو اسکا گلا ہی دبادیتے
” سمعیہ….پلیز…”
” دیکھیں سیال صاحب….بغیر کسی رشتے تعلق کے میں آپ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی”
سمعیہ نے درشتی سے کہہ کے فون رکھ دیا تھا
یہ تو سر ہی چڑھ رہا تھا…..سمعیہ نے غصے سے سوچا….
_____________________________________
” کیا سمجھتی ہے یہ اپنے آپکو….نہیں سیال ٹھنڈے ہوجاؤ …سارا کھیل خراب نہ کرو”
سیال نے اپنے آپکو تسلی دی اور گھر جانے کی تیاری کرنے لگا
” مجھے شادی کرنی ہے” سیال نے والدین کو کہا تھا
” ہاں تو ٹھیک ہے….ہم کل ہی نور کے گھر جاتے ہیں”
میر برفت بولے
” مجھے نور سے نہیں اپنی پسند سے شادی کرنی ہے”
” ایسا نہیں ہوسکتا…..”
میر برفت کو غصہ آگیا تھا
” سیال شادی ہماری پسند سے ہوگی….”
” شادی آپکی نہیں میری ہے لہذا میری پسند سے ہوگی….” سیال تنک کے بولا
” ایسا قیامت تک نہیں ہوگا…” میر برفت نے صاف انکار کیا
” ہوگا اور ضرور ہوگا…..”
” نہ جانے کسے پسند کر بیٹھا ہے”
نغمہ بیگم.نخوت سے بولیں
” ٹھیک ہے وہ دولت کے حساب سے ہمارے ہم پلہ نہیں مگر شرافت اور نجابت میں وہ یقینا اعلی ہیں”
سیال نے کہا
” اچھا….کون ہے کس خاندان سے تعلق ہے کیا کرتا ہے لڑکی کا باپ”
” وہ گورنمنٹ اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہیں اور شادی مجھے انکی بیٹی سے کرنی ہے ان سے نہیں ”
سیال جھلائے ہوئے لہجے میں بولا تھا
” واہ کیا پسند ہے ….صاحبزادے مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نہیں لگا کرتا بھول جاؤ یہ سب ”
میر برفت نے صاف انکار کیا
” آپ لوگ میرا رشتہ لے کے جائیں گے یا نہیں” میر سیال نے پوچھا
” نہیں ہرگز نہیں….آج تک تمہاری ہر ضد پوری کی ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ یہ بھی ہو وہ سب ہمارے معیار کی اور ہم پلہ ہوتیں تھیں”
نغمہ بیگم نے تنفر سے کہا
انکے لاڈلے بیٹے کی بہو اور وہ بھی ایک ہیڈ ماسٹر کی بیٹی
” تو ٹھیک ہے آپ بھی اپنا دیوالیہ نکلوانے کیلئے تیار ہوجائیے….” سیال نے پراسرار لہجے میں کہا
میر برفت چونک اٹھے
” کیا مطلب ہے اس بات کا….مت سنبھالو ہمارا کاروبار خیر سے ہمدان لائق ہوجائے گا کچھ عرصے میں وہ سنبھال لے گا”
” جب کاروبار ہی نہ بچے گا تو وہ کسے سنبھالے گا صرف آپکو ہی….”
سیال طنزیہ بولا
” مطلب….. ” نغمہ بیگم نے پوچھا
” اگر آپ نے میری شادی سمعیہ سے نہیں کی تو میں سارے کاروباری راز اور ڈیلز آپکی مخالف پارٹیز کو بیچ دوں گا….شادی تو پھر بھی ہوجائے گی پیسہ بھی مل جائے گا آپکے دشمنوں سے لیکن آپکا کیا ہوگا میر برفت…..چہ چہ ”
سیال اتنے آرام سے بولا کہ میر برفت کا اطمینان ہی رخصت ہوگیا
” کیا بکواس ہے سیال …..تم ایک دو ٹکے کی لڑکی کیلئے اپنے باپ کے مقابل آؤ گے ”
” میں ایسا ہی کروں گا….اگر آپ لوگوں نے میری بات نہ مانی ”
سیال نے دھمکی دی تھی وہ جانتا تھا کہ باپ کو کیسے قابو کرنا ہے ….ایسے تو وہ کبھی راضی نہ ہوتے سو اس نے یہ حکمت عملی اپنائی تھی
_____________________________________
سیال کی دھمکیوں کا اثر تھا کہ آج وہ دونوں سمعیہ کے گھر بیٹھے تھے ناپسندیدگی انگ انگ سے چھلک رہی تھی
” ہمیں آپکی بیٹی کا رشتہ چاہئیے”
بغیر کسی لگی پٹی کے نغمہ بیگم بولیں تھیں
” محترمہ ہم آپکو جانتے تک نہیں تو شادی بیاہ تک کے معاملات کیسے شروع کریں”
یوسف صاحب تحمل سے بولے
” آپکو جاننے کی ضرورت کیا ہے آپکی بیٹی تو جانتی ہے نا ہمارے بیٹے کو اچھا سکھایاہے صحیح استاد ہیں آپ مان گئے ہم”
نغمہ بیگم کی بس ہوگئی تھی
” کیا کہنا چاہتی ہیں آپ …زبان سنبھال کے بات کیجئے” یوسف صاحب کو بھی غصہ آگیا تھا
"مطلب اپنی بیٹی سے ہی پوچھئے اور عزت سے اسے رخصت کردیجئے ورنہ اپکی رہی سہی عزت بھی گئی”
میر برفت نغمہ بیگم کو اٹھنے لا اشارہ کرتے ہوئے بولے تھے
” سمعیہ….یہاں آؤ سمعیہ….” یوسف دھاڑے تھے
” جی ابا….”
"کون تھے یہ لوگ ….اور کیا بکواس تھی یہ کب سے جانتی ہو انکے بیٹے کو”
"میں کچھ نہیں جانتی ابا….آپ صاف انکار کردیں وہ صرف کلاس میں پڑھتا تھا ”
سمعیہ نے کہا
” اسی دن کیلئے اسی دن کیلئے منع کرتا تھا میں کہ یونیورسٹی مت جاؤ….دیکھا وہی ہوا نا جس کا مجھے ڈر تھا اتنے سالوں کی عزت مٹی میں مل گئی ”
” ابا پلیز….میں نے کچھ نہیں کیا…خواہ مخواہ غصہ مت کریں کچھ نہیں ہوا” سمعیہ کو بھی غصہ آگیا تھا
اور وہ غصہ اس نے رات میں سیال پہ نکالا تھا جو اس گمان میں تھا کہ اماں ابا رشتہ لے کے گئے ہیں تو اب جلد ہاں ہوجائے گی کیونکہ نغمہ بیگم نے اس سے یہی کہا تھا اصل بات چھپا لی تھی
” کیا سمجھتے ہیں آپ…..آپ اگر عزت دار اور دولتمند ہیں تو ہم بھی گرے پڑے نہیں …میرے لئے ماں باپ کی عزت سے بڑھ کے کچھ نہیں لعنت ہے ایسے رشتے پہ سو بار”
” سمعیہ….کیا ہوگیا ہے اصل بات بتاؤ….”
سیال حیرانگی سے بولا
” کیوں آپکی ماں نے نہیں بتایا اپنا کارنامہ”
سمعیہ نے تنک کے کہا
” سمعیہ….ٹیل می رئیلٹی مجھے کچھ نہیں معلوم”
سیال نے اصرار کرتے ہوئے کہا
جواب میں سمعیہ نے اسے ساری بات بتا دی تھی سیال کو غصہ اگیا تھا والدین کی اس چالاکی پہ
” آج صبح کا اخبار نہیں پڑھا آپ نے”
سیال نے ناشتہ کرتے میر برفت کو مخاطب کیا
” ایسا بھی کیا خاص ہے… پڑھ لیں گے”
میر برفت لاپروائی سے بولے تھے
” پڑھ لیتے تو اطمینان سے ناشتے کے بجائے دل تھام کے بیٹھے ہوتے ”
سیال نے طنزیہ کہا
” کیا مطلب….”
میر برفت چونک کے بولے اور ملازم کو اخبار لانے کا کہا
سیال کندھے اچکا کے رہ گیا
اور اخبار پڑھ کے انکی پیشانی پسینے سے تر ہوگئی تھی
انکے شئیرز کی قیمت مارکیٹ میں دس فیصد گرگئی تھی ….میر برفت کو دھچکا لگا تھا
کہاں وہ ایک روپے کا نقصان نہیں برداشت کرسکتے تھے اور کہاں یہ نقصان
” یہ تمہاری حرکت ہے….کیسے کیا تم نے…”
میر برفت نے اسے گھورا
” آپ سمعیہ کے گھر جو کرکے آئیں ہیں وہ آپ نے مجھے بتایا جو میں آپکو بتاؤں…میری بات کو آپ نے ہلکا لیا تھا نا”
سیال نے انہیں ٹریلر دکھا دیا تھا
وہ میر سیال تھا اپنے نام کا ایک اپنے مقصد کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا تھا
_____________________________________
” ہم بہت عزت سے آپکی بیٹی کو رخصت کراکے اپنے گھر لے جانا چاہتے ہیں…برائے مہربانی انکار نہ کیجئے گا اور ہماری کوتاہی معاف کیجئے گا”
نغمہ بیگم نےنرمی سے کہا تھا اندر جو چل رہا تھا اس سے بے نیاز ہو کے
سیال کے مجبور کرنے پہ وہ ایک بار پھر آئے تھے
” آپ کہنا کیا چاہتیں ہیں محترمہ ….پچھلی بار بھی آپ نے کسے قدر لایعنی گفتگو کی تھی ”
یوسف صاحب کو بھولا نہ تھا
” بس غلطی ہوگئی….مجھے تو آپ کی باکردار بیٹی چاہئیے ….بس میرا دامن بھر دیجئے”
وہ اتنی لجاجت سے بولیں تھیں کہ یوسف صاحب سوچ میں پڑگئے تھے
” ہر قسم کی چھان بین کرلیں ہمارا ایک نام ہے….اور اسکو چار چاند آپکی بٹیا لگائیں گی….بس آگے کو دیکھیں”
نغمہ بیگم نے بات مکمل کی تھی
یوسف صاحب نے سفیر سے رائے لی تھی جسے عالیہ پہلے ہی سمعیہ کی رضامندی بتا چکی تھی انہوں نے جو پہلے کہا لیکن اب وہ اتنی چاہ سے سمعیہ کو مانگ رہے تھء واقعی سمعیہ کو ایسا رشتہ پھر کہاں ملتا
سو دونوں کی شادی ہوگئی تھی
” تو میں نے تمہیں حاصل کرہی لیا….مجھے جو پسند آجائے میں حاصل ضرور کرتا ہوں”
سیال کی خوشی ہی نرالی تھی اتنی محنت کے بعد کامیابی ملی تھی
سمعیہ کو عجیب تو لگا تھا مگر اپنی خوشی میں اس نے دھیان نہیں دیا تھا
کتنا خواب ناک سا لگ رہا تھا یہ سب اونچا عالیشان محل نما گھر اور قیمتی ملبوسات اور زیورات ایک شہزادی ہی لگتی تھی وہ
کسی خواب کی طرح یہ سب لگتا تھا اسے
اور یہ کسی خواب کی طرح تھا جس کی تعبیر بہت بھیانک نکلی تھی
_____________________________________
صرف تین ماہ گزرے تھے اور سمعیہ نے دیکھ لیا تھا بلندی سے پستی پہ آنا کسے کہتے ہیں سیال اپنی پرانی جون میں لوٹ چکا تھا ویسے بھی اپنی من پسند چیز حاصل کرنے کے کچھ عرصے بعد اسکی اہمیت ویسے ہی کم ہوجاتی ہے سمعیہ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا
وہ احتجاج بھی کرتی تو کوئی فائدہ نہ ہوتا تھا اوپر سے نغمہ اور مونا کی کڑوی کسیلی باتیں
آئے دن کوئی نہ کوئی محاذ تیار سمعیہ نے جو بت تراشا تھا وہ بت دھڑام سے بہت سے حصوں میں ٹوٹ چکا تھا
صرف پورے گھر میں میر جاذب تھا یا پھر پانچ سالہ ہالار جس کی وجہ سے اسے زندگی آسان لگتی وہ بھی بھاگ بھاگ کے سمعیہ کے پاس آتا تھا انس کی طرح
سمعیہ ایک سال میں ہی تھکنے لگی تھی سیال ہفتوں گھر نہ آتا تھا اور انہی دنوں میں سمعیہ کو پتہ چلا کے وہ تخلیق کے مرحلے سے گزر رہی ہے وہ یہ بات نغمہ بیگم کو بتانا چاہتی تھی کہ اس سے پہلے ہی انہوں نے ہنگامہ شروع کردیا تھا
” شرم نہیں آتی میرا ایک بیٹا پھنسا کے سکون نہیں ملا تھا جو دوسرے کو بھی پھانس لیا”
” کیا بول رہی ہیں آپ”
” بس بس زیادہ معصوم نہ بنو میرے شوہر کو پھنسا رہی ہو” مونا نے چیخ کے کہا
” جاذب بھائی میرے سفیر بھائی جیسے ہیں” سمعیہ دکھ سے بولی تھی
” کیا مسئلہ ہے کیا شور لگا رکھا ہے”
سیال ابھی گھر لوٹا تھا
” یہ تمہاری بیوی کسی طرح سکون نہیں کرتی پہلے تمہیں پھانسا اب تمہارے بھائی کو ”
نغمہ بھابھی چیخ کے بولیں
” بکواس کررہی ہیں یہ سیال ایسا کچھ نہیں ہے…” سمعیہ نے کہا
” تم دو ٹکے کی لڑکیاں ہوتی ہی ایسی ہو” سیال نے انگلی اٹھاتے ہوئے کہا وہ نشے میں معلوم ہوتا تھا
” سیال مت بھولیں آپ ہی میرے پیچھے آئے تھے” سمعیہ نے یاد دلایا
” غلطی تھی….بہت بڑی غلطی….”سیال نے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا
” نہیں غلطی میری تھی جو میں مٹی کی چمک کو ہیرا سمجھ بیٹھی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی” سمعیہ کی برداشت کی بھی حد ہوگئی تھی
” تو اس کا قصہ ہی ختم کردو طلاق دے دو اسے” نغمہ بیگم نے جلدی سے کہا
” نہیں….” سمعیہ بے اختیار پیچھے ہوئی تھی
” میں نے تمہیں طلاق دی….” سیال نے تین لفظ کہہ کے رہا سہا تعلق بھی ختم کردیا تھا
ہوگئی تھی محبت….نہیں محبت نہیں دل بھر گیا تھا
محبت کا تو بس نام ہی بدنام ہے
_____________________________________
زرا وقت نہیں لگایا تھا مونا اور نغمہ نے اسے گھر سے نکال دینے میں انہیں جاذب کا ڈر تھا جو ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا
سمعیہ خالی ہاتھ وہاں سے سیالی کی نشانی اپنی کوکھ میں لے کے رخصت ہوئی تھی
سست قدموں سے چلتے چلتے وہ تھک گئی تھی وہ کسی ٹرانس میں تھی
یہ تھی وہ زندگی جس کے اس نے خواب دیکھے تھے
” پاگل ہو کیا آگے کھائی ہے….” کسی نے اسے پیچھے کیا تھا اور چونک گیا تھا
"سمعیہ….تم…یہاں” جاذب شاکڈ ہوئے
” ہاں میں سمعیہ…. ”
” تم یہاں کیا کررہی ہو چلو گھر….”
” نہیں جاسکتی….میرا کوئی گھر نہیں…”
” پاگل تو نہیں ہو کیا ….”
” ہاں پاگل ہوگئیں ہوں میں….سیال نے مجھے طلاق دے دی ہے…میں پاگل ہوگئی ہوں” سمعیہ وحشت زدگی سے بولی تھی جاذب اسے زبردستی کار میں بٹھا کے اسپتال لے گیا تھا
سمعیہ کی ذہنی حالت درست نہیں تھی
” تم پریگننٹ ہو….” جاذب نے اس سے پوچھا
” ہاں…” سمعیہ کا لہجہ خالی تھا
” سیال کو بتایا تھا”
” نہیں…”
” بتاتیں تو وہ اتنا بڑا قدم نہیں اٹھاتا”
” وہ اپنے حواسوں میں کہاں تھے” سمعیہ نے کہا تو جاذب ایک گہری سانس لے کے رہ گئے تھے
” تم آرام کرو میں سفیر کو فون کرتا ہوں ”
جاذب نے اسے نیند کا انجکشن دیا تھا ورنہ اسے نیند کہاں تھی
اور خود گھر لوٹے تھے جہاں سب ڈنر میں یوں مصروف تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا
” سمعیہ کہاں ہے…..”
انہوں نے پوچھا
” واہ آپ کو بڑی فکر ہورہی ہے اسکی نہیں ہے وہ اب یہاں” مونا چمک کے بولی
” مطلب….” جاذب نے انجان بن کے پوچھا
” سیال نے اسے طلاق دے دی ہے” نغمہ بیگم آرام سے بولیں تھیں
"اور آپ نے اسے روکا ہی نہیں” جاذب نے شکوہ کیا
” ہم سے پوچھ کے شادی کی تھی جو ہم روکتے ” میر برفت بولے
” آپ جانتے بھی تھے کہ وہ پریگننٹ تھی …آپ لوگوں نے بڑا ظلم کمایا”
جاذب نے دھماکہ کیا تھا وہ ڈاکٹر تھا جان گیا تھا
میر برفت چونک گئے تھے
” کہاں گئی ہے وہ….”
” کیوں اب کیا کام ہے اس سے ” نغمہ بیگم بیزاری سے بولیں تھیں
” احمق خاتون ہمارے بیٹے کی نشانی اسکے پاس ہے…..ہماری وراثت کی نشانی”
میر برفت کو اسکی نہیں اپنے وارث کی فکر تھی خود غرض لوگ……
” نہ تو آپ ثواب کما لیں….” مونا تین سال کے عدیل کو سنبھالتے ہوئے بولی جو ہالار سے چھوٹا تھا
” تم فکر نہ کرو ثواب تو میں کماؤں گا ایسا تم یاد رکھو گی”
میر جاذب چڑ کے بولا تھا کیسے بے حس لوگ تھے یہ…..!!!!!!
اب اسے ہی سمعیہ کو ان اور آنے والے کو بچانا تھا
______________,______________________
” نہیں کیا کرلیں گے آپ بتائیں مجھے…..!!!!” مونا غراتی ہوئی بولی تھی
” تم اپنا منہ بند رکھو تو زیادہ بہتر ہوگا ….ورنہ ” جاذب نے با مشکل اپنے آپ کو کنٹرول کیا تھا
” کیا ہوگیا ہے میر جاذب…..کیوں گھر کا ماحول خراب کرنے پہ تلے ہوئے ہو ….سیال کا دل تھا تو بسا لیا…دل بھر گیا تو اتار دیا”
نغمہ بیگم کو شدید غصہ آیا تھا
جاذب سر جھٹکتے ہوئے چلے گئے تھے جو کرنا تھا انہوں نے خود ہی کرنا تھا
” نغمہ….سیال نے بہت جلدی کی” میر برفت کچھ سوچ کے بولے تھے
” اسے کیا معلوم تھا اور اس گھنی نے بھی تو پتہ نہیں لگنے دیا ”
نغمہ بیگم کوفت سے بولیں انہیں سیال کے بچے سے کوئی دلچسپی نہ تھی
"ہم پتہ کرواتے ہیں سمعیہ کہاں ہے ہمیں اپنا وارث چاہئیے”
میر برفت اٹل انداز میں کہہ کے اٹھ کھڑے ہوئے تھے
اپنے خاندان کے وارث کو وہ یوں نہیں چھوڑ سکتے تھے
_____________________________________
” سمعیہ….کیسی ہو”
جاذب نے اس کی فائل بند کرتے ہوئے کہا
ایک ہفتہ ہوگیا تھا سمعیہ اسپتال میں ہی تھی اس نے اپنے گھر بتانے سے منع کیا تھا اور اسکی حالت دیکھتے ہوئے جاذب بھی رک گئے تھے
” بابا….آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں”
جاذب نے بتایا
” کیوں….” سمعیہ حیران ہوئی
” انہیں اپنا وارث چاہئیے”
جاذب نے اسکے سر پہ دھماکہ کیا تھا
” نہیں یہ بچہ میرا ہے صرف میرا…..یہی میری جینے کی وجہ ہے میری زندگی کا دارومدار اسی پہ ہے”
سمعیہ کو رونا آنے لگا تھا
” تم گھبراؤ مت….ابھی کسی کو معلوم نہیں ہے کہ تم یہاں ہو”
جاذب نے اسے تسلی دی تھی
” آپ سفیر بھائی کو بلادیں مجھے یہاں نہیں رہنا….”
سمعیہ نے سوچا
” تم سب سے زیادہ محفوظ یہاں ہو….سمعیہ وہاں سے وہ تمہیں فورا ڈھونڈ نکالیں گے ….کیوں کہ انہیں معلوم ہوگا کہ اب تم وہیں جاؤگی اور تم ہو بھی عدت میں ”
جاذب نے کہا تو سمعیہ کا جھکا ہوا سر مزید جھک گیا تھا چادر کھینچ کے اور آگے سرکا لی تھی
جاذب اس سے تھوڑی دیر کیلئے تسلی دینے کیلئے آتے تھے تو سمعیہ پردے میں ہی ان کے سامنے آتی تھی
حالات نے کہاں لا کے کھڑا کردیا تھا اسے
پھر سمعیہ یہاں مہرماہ کی ولادت تک رہی تھی سفیر کو اس نے مہرماہ کی ولادت کے بعد بلایا تھا عالیہ کے ساتھ جو سمعیہ کو یوں دیکھ کے شاکڈ رہ گیا تھا اتنے عرصے میں اسکا کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تھا اس نے اسے
” سمعیہ…یہ سب کیا ہے …کیا ہوا”
سفیر حیران ہوا تھا
” چاند کو چھونے کی تمنا میں ہاتھ جھلس ہی جاتے ہیں بھائی میرے ساتھ بھی یہی ہوا ”
سمعیہ نے دو لفظوں میں اپنی کتھا مکمل کی تھی
” میں پوچھوں گا سیال سے آخر کیوں کیا اس نے ایسا”
کیا سوچا تھا اس نے سیال کے بارے میں اور کیا نکلا وہ
” تم ہمارے پاس کیوں نہیں آئیں ….”
” گھر والے اسے ڈھونڈ رہے تھے ….انہیں اپنا وارث چاہئیے …اور اب تو جب کہ بیٹی ہے ابا کسی صورت میں اسے نہیں چھوڑیں گے کہ یہ ہمارے گھرانے کی پہلی لڑکی ہے”
میر جاذب تفصیل سے بولے تھے
” سمعیہ چلو گھر چلتے ہیں ابا اماں ویسے ہی بہت پریشان ہیں ”
سفیر نے سنجیدگی سے کہا تھا اب بہن کے ساتھ بھانجی کی بھی ذمہ داری تھی
سمعیہ واپس آگئی تھی ابا اماں کو دھچکا لگا تھا اسے دیکھ کے ابا تو یہ صدمہ برداشت ہی نہ کرپائے اور اس دنیا سے رخصت ہوگئے
” مجھے معاف کردیں اماں….میں آپکے سہاگ کو بھی کھا گئی”
سمعیہ عورتوں کی باتیں سن کے نڈھال ہوکے بلک پڑی تھی
عالیہ نے اسے اپنی شفیق بانہوں میں لے لیا تھا سمعیہ کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی
عالیہ ہی اب ننھی مہرماہ کو سنبھالتی تھی یہ نام میر جاذب نے بہت پیار سے رکھا تھا جسے سمعیہ نے قبول کرلیا تھا
انس کو تو جیسے کھیلنے کیلئے ننھی گڑیا مل گئی تھی مہر ماہ کی پیدائش کے دو ماہ بعد نیہا کی پیدائش ہوئی تھی تب بھی انس کے لگاؤ میں کوئی کمی نہیں آئی تھی وہ اسے اٹھاتا فیڈر پلانے کی کوشش کرتا اور جب مہرماہ روتی تو بے چین ہو کے اسے چپ کرانے کی کوشش کرتا تھا
_____________________________________
” میر صاحب….جاذب صاحب کو سب خبر ہے وہ آپکی بہو کے گھر جاتے رہیں ہیں”
انکے مخبر نے اطلاع کی تھی نہ جانے کہاں میر جاذب سے چوک ہوگئی تھی
” لیکن انہیں تو خود علم نہیں تھا ….” میر برفت حیران ہوئے تھے
” میر جاذب سب جانتے ہیں”
اندر آتے میر جاذب چونک گئے تھے وہی ہوا جس کا ڈر تھا اس سے پہلے کہ میر برفت وہاں پہنچتے میر جاذب سفیر کے پاس پہنچ گئے تھے
” اگر تم چاہتے ہو مہرماہ سمعیہ کے پاس رہے تو اسے یہاں سے لے جاؤ کہیں دور”
"مگر اچانک کہاں جائیں….”
سفیر پریشان ہوئے تھے
” سنو سفیر ….اس سے پہلے کے مہرماہ کے ساتھ ساتھ تمہارے بچے بھی تم سے چھن جائیں ….یہاں سے جاؤ ایسا کرو کینیڈا کے ویزے مل رہے ہیں وہاں چلے جاؤ”
جاذب نے مشورہ دیا
” مگر اس میں بھی وقت لگے گا….اور پوری فیملی کو میں کیسے لے جاسکتا ہوں”
سفیر نے کہا
” ایک کام کرو….یہاں سے کراچی نکل جاؤ وہ ویسے بھی انسانوں کا جنگل ہے اور یہاں سب سے کہہ دو کہ تم کینیڈا جا رہے ہو ریسرچ کیلئے…میں بھی بابا جان سے یہی کہوں گا وہ تمہیں وہاں ہی ڈھونڈتے رہیں گے ”
میر جاذب کو یہی آئیڈیا بہتر لگا تھا
سفیر بھی متفق ہوگیا تھا بہن کیلئے وہ سب ہرسکتا تھا اسلئے سب کو اس نے کینیڈا کا کہہ کے کراچی کی تیاری کی اور یہاں آکے بس گیا تھا میر جاذب سے پھر اس کا کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا
سمعیہ نے کراچی آنے کے بعد اسکول میں جاب کرلی تھی مہرماہ کیلئے
…..وہ اب بڑی ہورہی تھی کراچی آنے کے سال بھر بعد اماں گزر گئیں تھیں اب سمعیہ کو اللّه کے بعد بھائی کا سہارا تھا
____________________________________,
” ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہمارا بیٹا ہی ہمارا دشمن نکلے گا” میر برفت میر جاذب پہ دھاڑے
” میں نے کیا کیا ہے ”
” تم نے سمعیہ کو ہم سب سے چھپایا اور ہمارے وارث کو بھی”.
” کتنا اچھا لگے گا نا جب آپکو یہ پتہ چلے گا کہ وہ وارث آپکی پوتی ہے….ہمارے خاندان کی اس گھر کی اکلوتی بیٹی …”
میر جاذب نے دھماکہ کیا تھا انکی کوئی بیٹی نہ تھی اور نہ ہمدان کی
” تم یہ بھی جانتے ہو …..نیاز نے صحیح کہا تھا ….بتاؤ کہاں ہے وہ …ہمیں اپنی پوتی چاہئیے ”
میر برفت انتہا کے جذباتی ہوگئے تھے پوتی کا سن کے
” وہ اب آپکو وہاں نہیں ملیں گے….”
” کہیں بھی ہوں ہم انہیں ڈھونڈ نکالیں گے ”
” ٹھیک ہے پھر کینیڈا میں ڈھونڈ لیں اگر ڈھونڈ سکیں آپکا راج اس گھر میں چل سکتا ہے اس ملک میں چل سکتا ہے مگر پرائے دیس میں نہیں….”
میر جاذب نے تنفر نے کہا تھا
” تم نے بہت بڑی غلطی کی میر جاذب ہم تمہیں اسکیلئے کبھی معاف نہیں کریں گے”
میر برفت کی بے بسی کوئی دیکھتا
” مجھے معافی چاہئیے بھی نہیں….میں نے جو کیا ٹھیک کیا….” میر جاذب اٹل تھے
” سنتے ہو میر سیال تم باپ بن گئے ہو وہ بھی ایک بیٹی کے…..مگر تم اسے دیکھ نہیں سکتے مل نہیں سکتے کیا بدنصیبی ہے تمہاری ”
میر جاذب نے اسے مخاطب کر کے کہا تھا
میر سیال سن سا ہوگیا تھا
” ضروری تو نہیں وہ میری ہی ہے….”
” بکواس مت کرو….سیال….جب وہ اس گھر سے گئی تھی تب ہی تخلیق کے مرحلے سے گزر رہی تھی اور اسکا ایک ایک نقش تمہاری طرح ہے سوائے ان آنکھوں کے وہ بھی بالکل اسکی ماں کے جیسی ہیں….کالی رات کی ساری چمک لئے….میر سیال کیا کھو دیا تم نے تمہیں خبر ہی نہیں…..”
میر جاذب نے اسے آئینہ دکھایا تھا جس میں اسکی شکل بہت بھیانک تھی
واقعی کیا پایا تھا اس نے!!!!!!
اور کیا کھویا تھا اس نے !!!!!!
پایا اس نے کم ہی تھا اپنے زعم کے ہاتھوں کھویا اس نے زیادہ تھا
اب نہ جانے پچھتاوا تھا یہ اپنی انا کے ٹوٹ جانے یا ہارنے کا دکھ تھا
اپنے غم کو مٹانے کیلئے اس نے ام الخبائث کا سہارا لیا تھا اور ریش ڈرائیونگ کرتا وہ جب گھر آرہا تھا اسے ہر جگہ سمعیہ کی یاد آرہی تھی ….سمعیہ….سمعیہ…اسکی زندگی اسکی محبت….اسکی ضد وہ سب ہار گیا تھا
یہاں تک کے اپنی زندگی کی بازی بھی
میر سیال زندگی سے بھی ہار گیا تھا…….!!!!!
میر برفت ڈھے سے گئے تھے میر جاذب ایک بار پھر قصور وار ٹھرے تھے مگر اسے کوئی پچھتاوا نہ تھا
ننھا ہالار گھر کی بدلتی ہوئی حالت دیکھ رہا تھا اور یہ اسکے لئے اچھا نہ تھا اس لئے ہالار کو میر جاذب نے کراچی بھیج دیاتھا وہ اب صرف چھٹیوں میں گھر آتا تھا
میر برفت آج تک یہ بات نہ بھولے تھے انہوں نے سمعیہ اور اسکی بیٹی کو بہت ڈھونڈا تھا مگر وہ انہیں کہیں نہیں ملیں تھیں کینیڈا ….امریکہ وہ وہاں ہوتیں تو ملتیں نا…..
_____________________________________
” سمعیہ…..کھانا کھا لو ….کھانا کیوں نہیں کھا رہیں” عالیہ نے اس سے کہا جو گم صم بیٹھی تھی
” بھابھی ….دل نہیں کررہا…”
” مہر ماہ کیلئے کھا لو….”
” اسی کیلئے تو جی رہی ہوں اب تک….”
سمعیہ اداسی سے بولی تھی
” آج کیا ہوا ہے سمعیہ….تم کچھ زیادہ اداس ہو …”
عالیہ نے پیار سے پوچھا
” آپ نے آجکا اخبار نہیں پڑھا…..”
سمعیہ نے پوچھا….
” کوئی خاص خبر…..بچوں میں لگ کے تو وقت ہی نہیں ملتا”
” مشہور انڈسٹریلیسٹ…..میر برفت کے بیٹے میر سیال کار ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ….”
سمعیہ نے رٹے رٹائے انداز میں خبر سنائی تھی
” اوہ….” عالیہ کو دکھ ہوا تھا
” آج میری بیٹی یتیم بھی ہوگئی بھابھی …”
سمعیہ سسکی
” پلیز سمعیہ…سفیر ہیں ہم ہیں…تم فکر نہ کرو ہم کبھی اسے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیں گے”
عالیہ نے اسے تسلی دی تھی
سمعیہ پھیکا سا مسکرائی تھی
تو زندگی اب یوں اس نہج پہ گزرنی تھی
_____________________________________
"ماما…..میں یتیم ہوں….” مہرماہ نے اسکا دوپٹہ تھامتے ہوئے کہا
” کیا…آپ سے یہ سب کس نے کہا” سمعیہ پریشانی سے بولی تھی
” ماما آج انس بھائی جب مجھے لنچ کرا رہے تھے تو نیہا کی فرینڈ نے کہا کہ وہ مجھے کیوں اسے کیوں نہیں لنچ کرارہے….پھر نیہا نے کہا کہ میرے پاپا نہیں ہیں اس لئے وہ سب میرا خیال کرتے ہیں….ماما آپ بتائیں نا میں یتیم ہوں….میرے پاپا کہاں ہیں…”
مہرماہ اب بڑی ہورہی تھی اب اسے یہ سوال کرنے تھے
سمعیہ کا دل پھٹنے لگا تھا
” ماہ…بیٹا…آپکے ماموں تو ہیں نا”
” پر پاپا تو نہیں ہیں….میرے پاپا کہاں ہیں…”
مہرماہ نے پوچھا
” پلیز ماہ….آپکے پاپا یہاں نہیں ہیں وہ اللّه کے پاس چلے گئے ہیں…میں ہوں نا آپ کے پاس…آپ آئندہ ماما کو پریشان نہیں کرنا اوکے” سمعیہ نے اسے سمجھایا اسے رونا آرہا تھا
مہرماہ نے اپنی سیاہ آنکھیں اٹھا کے اسے دیکھا تھا عرصہ ہوا سمعیہ کی سیاہ رات جیسی آنکھوں کی جوت بجھ چکی تھی
مہر ماہ کے دماغ میں تب سے یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ اپنے غم اپنے اندر ہی رکھنے ہیں
” کیا بات ہے پارٹنر….اداس ہو”
انس اسکے پاس بیٹھتے ہوئے بولا
” کچھ نہیں بھائی….”
مہرماہ جھولے پہ بیٹھی تھی اداس چپ چاپ
” سنو کوئی تم سے کچھ کہنا چاہتا ہے…” انس نے بتایا
” کون…”
” بس کوئی ہے….اور اچھی لڑکی میں چاہتا ہوں جب وہ تمہیں کچھ کہے تو تم بھی اسے معاف کردو یہی اچھی بات ہے”
انس نے اسے سمجھایا
"سوری…. ماہ میں نے تمہیں ہرٹ کیا….آئی سوئیر میں ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی…”
نیہا نے بے چارگی سے کہا
وہ دونوں ساڑھے پانچ سال کی تھیں مگر مہرماہ کو وقت نے پہلے سے ہی سمجھدار کردیا تھا
” اٹس اوکے….” مہرماہ نے اسے ہاتھ سے پکڑ کے جھولے پہ بٹھا لیا تھا نیہا نے سچ ہی تو کہا تھا کہ وہ یتیم تھی جس پہ انس نے اسے سمجھایا تھا اور عالیہ نے ڈانٹا تھا
” چلو اب چاکلیٹ کھاتے ہیں پھر دادو سے اسٹوری سنیں گے مزے کی….”
انس نے انہیں چاکلیٹ دیتے ہوئے کہا تھا
_____________________________________
وقت آگے مزید کچھ سرکا تھا مہرماہ ساتویں سال میں تھی کہ ایک روز سمعیہ سوئی تو اٹھ ہی نہ سکی سفیر کو اور پورے گھر کو دھکا لگا تھا
ایسا تو کسی نے سوچا بھی نہ تھا
مہرماہ کی زندگی میں اداسی کے رنگ اور گہرے ہوچلے تھے وہ پہلے بھی نہیں بولتی تھی اب تو اور خاموش رہنے لگی تھی
ایسے میں انس اس کا سایہ بن گیا تھا وہ اسے پورا پورا وقت دیتا تھا
اسکے ساتھ کھیلنا باتیں کرنا اسے ہنسانے کی کوشش کرتا مہرماہ انکے لئے مسکرانا سیکھ گئی تھی مگر اکیلے میں وہ جب بھی جھولے پہ بیٹھتی تو وہ ساری دنیا سے اکیلی دکھتی تھی اداس ….تنہا
اور جب ہم اندر سے بہت اکیلے اور تنہا ہوتے ہیں تو ہمیں ایک soul mate کی تلاش ہوتی ہے جو ہمیں بن کہے سمجھ لے ….اسکا احساس اسکا ساتھ ہمارے اندر کے خلا بھرنے لگتا ہے
ایسا ہی مہر ماہ کے ساتھ بھی ہوا تھا.
کہتے ہیں نا کہ کوئی ایک کسی ایک وقت میں کسی کے ایک لمحے میں اجنبی سے یوں آشنا بنتا ہے کہ ہمارا اور اس کا رشتہ بے نام مگر بے حد مضبوط ہوجاتا ہے …..لیکن پھر بھی وہ اجنبی رہتا ہے….مانوس اجنبی
ہالار جاذب…..مہر ماہ کیلئے مانوس اجنبی ہی رہا
یہ ان دنوں کی بات تھی جب سمعیہ اسے اس دنیا میں اکیلا چھوڑ گئی تھی ….مہر ماہ کی خاموش زندگی اب اور بھی خاموش ہوگئی تھی
سفیر صاحب کو ریڈیو سننا ہمیشہ سے پسند رہا تھا…..ٹی وی سے بھی زیادہ
انکی سہل اور پرسکون زندگی کا ساتھی
” مہری…یہاں آؤ”
سفیر صاحب نے اسے پکارا جو جھولے پہ اداس سی بیٹھی انہیں ہی دیکھ رہی تھی اور ہولے ہولے اپنے بیگ پہ ہاتھ پھیر رہی تھی یہ بیگ اسے آخری دفعہ سمعیہ نے لے کے دیا تھا…..سمعیہ کی نشانی….اس وقت وہ سب بچے سفیر صاحب سے پڑھتے تھے انس اور نیہا کا جھگڑا ہوچکا تھا اور انس اب ازالے کے طور پہ اسے چاکلیٹ دلانے کیلئے گیا تھا ہمیشہ کی طرح مہرماہ کو بھی اس نے آفر کیا تھا
مگر مہر ماہ نے منع کردیا تھا اس کا دل ہی نہیں کررہا تھا
” جی ماموں….”
مہرماہ انکے پاس کرسی پہ ہی بیٹھ گئی تھی
سفید فراک میں اسکے گال کا ڈمپل بھی اداس تھا
” اتنی خاموش کیوں رہتی ہو بیٹا….ہنسا بولا کرو نیہا کی طرح”
"میں نیہا کی طرح نہیں ہوں….ماموں…”
مہر ماہ نے دکھ سے پوچھا مگر کہا نہیں ہمارے غم ہمیں وقت سے پہلے ہی بڑا کردیتے ہیں
” مہری ….یہ سنو..”
سفیر صاحب نے ریڈیو کی طرف اشارہ کیا تھا
اس وقت کوئی بچوں کا پروگرام چل رہا تھا
” اس مدرز ڈے پہ ہمارے ایک ساتھی کے خوبصورت خیالات ….ماں کے نام…ہالار جاذب کی آواز میں”
یہ پہلا تعارف تھا مہرماہ کا اس سے
” ماں سوچوں تو ایک عظیم جذبہ….محسوس کروں تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا….بولوں تو شہد سے بھی میٹھا….ایسا ہے ماں کا رشتہ …ماں ایسا احساس جو گھر میں نہ ہو تو زندگی کا احساس ہی نہیں کوئی”
اور مہر ماہ اسکی اس بات پہ ایمان لے آئی تھی
” ماں ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے دنیا میں ہی جنت ہے…..ماں ایک عظیم ہستی ہمارے دکھ درد کی ساتھیوں….مگر میرے ساتھیوں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماں کی محبت ازل سے ابد تک قائم اور دائم رہتی ہے وہ اس دنیا میں نہ بھی ہو مگر اپنی بیش بہا محبت اور احساسات ہمارے پاس چھوڑ جاتی ہے….تو اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپکی ماں نہیں تو آپکے پاس کچھ نہیں…تو ایسا کبھی نہ سوچیں ماں تو وہ عظیم ہستی ہے جو ہمیشہ آپکے ساتھ ہے آپکے پاس ہے…بس انہیں محسوس کرنے کی ضرورت ہے وہ آپکے ساتھ ہی تو ہیں آپ سےالگ ہو ہی نہیں سکتیں”
اور مہرماہ کے زخموں پہ مسیحائی کے پھائے پہلی بار کسی نے یوں رکھے تھے کہ اس کی تاثیر اسکی روح کی گہرائیوں میں اتر گئی تھی
ہالار جاذب سے اس دن جو تعارف ہو وہ ایک مانوس اجنبی رشتے میں ڈھل گیا تھا
مہرماہ کی تو پھر جیسے روٹین ہی بن گئی تھی وہ پروگرام ہر روز شام میں نشر ہوتا تھا مگر وہ انکے پڑھنے کا وقت تھا سو مہرماہ نے اپنے پڑھنے کے اوقات بدل دئیے تھے اب وہ جس وقت مامی انس اور نیہا کو اور اسے سلاتیں تھیں تب پڑھتی تھی اور جو سمجھ نہیں آتا وہ عالیہ سے پوچھ لیتی تھی یوں یہ مہرماہ کی کچی عمر میں اپنی دوپہر کی کچی نیند کی پہلی قربانی تھی
انس کو اعتراض ہوتا تھا کہ وہ انکے ساتھ
کیوں نہیں پڑھتی
جواب میں مہرماہ خاموشی سے اپنی سیاہ آنکھیں اٹھا کے اسے دیکھتی تو انس خود بخود ہی ڈھیلا ہوجاتا تھا
مہرماہ نے اپنی ایک نئی دنیا بنا لی تھی جس میں میں وہ مطمئن تھی جہاں ستارے تھے تھے پھول تھے….اور ہالار جاذب کی روشن روشن باتیں
وہ مہرماہ کی نو عمری کا پہلا خواب تھا
پہلی بارش کی خواہش کی طرح تھا
کسی بن مانگی عقیدت بھری دعا کی طرح تھا
_____________________________________
وقت کے تھال میں سالوں کے سکے مزید کچھ گرے تھے نیہا اور مہرماہ دونوں میٹرک کے ایگزام دے کے فارغ ہوئیں تھی انس ائیر فورس کالج میں تھا
گھر میں اب صرف وہ دونوں ہوتیں تھیں اور عالیہ اور سفیر صاحب
عالیہ کی نگرانی میں مہرماہ اور نیہا نے گھر کے سارے کام سیکھ لئے تھے مگر سلائی کڑھائی سے نیہا کی جان جاتی تھی ….مہرماہ نے بہت دل لگا کے سلائی سیکھی تھی کیوں کہ یہ عالیہ کو پسند تھا اور اسکی زندگی میں کتنے کم لوگ تھے نا اسلئے وہ انہیں خوش دیکھنا چاہتی تھی
عالیہ نے کتنی بار برملا کہا تھا کہ نیہا سے زیادہ مہرماہ میری سنتی ہے …..میری پیاری بیٹی…عالیہ ایک نفیس مزاج کی خاتون تھیں وہ مہرماہ سے کبھی رقابت کا شکار نہیں ہوئیں تھیں
جبکہ نیہا نے اسی انسٹیوٹ میں اسکیچنگ اور ڈیزائن میپنگ کی کلاسز لیں تھی
اسے انس کو دیکھتے ہوئے انجینئر بننے کا جنون تھا
اس دن بھی جب وہ پیلے سورج کی حبس بھری دھوپ میں واپس گھر لوٹیں تھی جب ایک اور مصیبت ان پہ نازل ہوئیں تھیں عالیہ بہت بری طرح سے سیڑھیوں سے گریں تھیں گھر میں کوئی بھی نہ تھا مہرماہ اور نیہا بوکھلا گئیں تھیں ….نیہا نے بھاگ کے سفیر صاحب کو کالج کے نمبر پہ رنگ کیا تھا اور بلایا تھا سفیر صاحب ایمبولنس لے کے پہنچے تھے
بہت دیر ہوچکی تھی خون کافی بہہ چکا تھا اور چوٹیں شدید تھیں وہ بچ تو گئیں تھیں مگر چلنے پھرنے سے فی الحال معذور تھیں ڈاکٹرز نے کہا تھا ایکسرسائز اور میڈیسن سے وہ ریکور کرلیں گی
وہ سب اپنی جگہ پریشان تھے عالیہ گھر کا ایک اہم ستون تھیں اب وہ ایک جگہ کی ہوکے رہ گئیں تھیں سو صورت حال خاصی ابتر تھی
انس بھی گھر آگیا تھا مگر کب تک اس نے واپس جانا تھا اسی غم میں انکے میٹرک میں پاس ہونے کی خوشی بھی پھیکی پڑ گئی تھی
نیہا اور مہرماہ اپنی جگہ چپ تھے کہ اب کیا کریں کیوں کہ اگر وہ اب کالج جاتیں تو عالیہ اور گھر کو کون دیکھتا بھلے سے ملازم کے سر پہ بھی تو کوئی ہونا چاہئیے تھے نا
گھر کا نظام ہی ہل گیا تھا ایسے میں ہلچل نیہا کی خالہ کی آمد نے مچائی تھی
” سفیر بھائی اتنا پریشان کیوں ہوتے ہیں….نیہا ہے نا اب بچی تو رہی نہیں ہے خیر سے میٹرک کرچکی ہے اب سنبھالے سب….باقی تو پرایا دھن ہیں ”
اشارہ مہرماہ کی طرف تھا عالیہ لاکھ اسکے ساتھ اچھی تھیں مگر عالیہ کے میکے والے اسکے ساتھ ایسے کبھی نہیں رہے تھے جیسے نیہا اور انس کے ساتھ تھے
نیہا کا منہ تو کھل ہی گیا تھا یہ باتیں سن کے مطلب اسکے خواب گئے بھاڑ میں
نیہا نے کچن میں آکے پھوٹ پھوٹ کے رونا شروع کردیا تھا …..مہرماہ جو سوپ بنا رہی تھی گھبراگئی تھی
” کیا ہوا ہے نیہا…..کیوں رو رہی ہو…مامی ٹھیک ہیں نا”
” سب ٹھیک ہے ….بس میری قسمت ہی خراب ہے سب گیا بھاڑ میں….میرے خواب میری خواہشیں….”
نیہا کا رونا ہی بند نہیں ہورہا تھا
” مجھے بتاؤ نیہا….ہوا کیا ہے….”
” خالہ نے کہا ہے کہ ابا کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے….کیونکہ میں اب پڑھائی چھوڑ کے گھر سنبھالوں گی ….میں نیہا …اف خدایا….”
مہر ماہ اسکی بات سن کے کچھ سونے لگی تھی
نیہا کتنی جذباتی تھی ….مہر ماہ جانتی تھی
” تم کچھ نہیں چھوڑوگی نیہا….تم پڑھو گی …سارے خواب پورے ہوں گے تمہارے”
مہرماہ نے آنسو صاف کئے تھے اسکے
"مگر کیسے…..”
” میں ہوں گھر میں ویسے بھی میں پرائیوٹ پڑھوں گی تو میں مینج کرلوں گی… ”
مہرماہ کے اندر کچھ زور سے ٹوٹا تھا ….اسکے بھی تو کچھ خواب تھے
کچھ خواہشیں تھیں….مگر مہرماہ نے اندر ہی اپنی ساری خواہشوں کا قبرستان بنا لیا تھا
” مگر تم …. نے کبھی بتایا نہیں ” نیہا حیران ہوئی تھی
” وہ میں نے سوچا تھا رزلٹ آنے کے بعد بتاؤں گی….تم فکر نہ کرو میں بات کرتی ہوں ماموں سے”
مہر ماہ اسے تسلی دے کے باہر نکل گئی تھی
” ماموں….نیہا کے ایڈمیشن کیلئے آپ نے کس کالج کا….”
” نیہا پرائیوٹ پڑھ لے گی”سفیر صاحب نے ٹی وی سے نظریں اٹھا کے اسے دیکھا تھا
” آپ جانتے ہیں وہ انجینئرنگ کرنا چاہتی ہے….آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں….پرائیوٹ تو میں پڑھنا چاہتی ہوں …اور اگر آپ گھر اور مامی کیلئے پریشان ہے تو میں مینج کرلوں گی .
….لیکن نیہا کو مت روکیں..پلیز”
” تم ایسا اس لئے کہہ رہی ہو نا تاکہ نیہا کالج جا سکے….مہر ماہ وہ اسکی ماں ہے زیادہ حق اسکا ہے”
” مطلب میرا کوئی حق نہیں….کوئی فرض نہیں…وہ میری سگی ماں نہیں ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ میں کچھ نہیں کرسکتی….”
مہرماہ کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں
سفیر صاحب گھبرا گئے تھے
” نہیں مہری…..میرا یہ مطلب نہیں تھا ….کیا تم دل سے چاہتی ہو جو کہہ رہی ہو….”
” جی ماموں….”
دل میں جو قیامت کا عالم تھا اسے دبا کے اس نے کہا تھا
یوں مہرماہ نے گھر کے ابتر نظام کو سدھارنے کے ساتھ ساتھ وہ پڑھنے بھی لگی تھی عالیہ کی کئیر کرنا ….عالیہ کے دل میں اسکا مقام کچھ اور بڑھ گیا تھا
مہرماہ کی ساری زندگی ان لوگوں کو خوش کرنے میں ہی گزری تھی
بس
ایک ہالار جاذب تھا …..جس کو سننے پہ اسے دل نہیں مارنا پڑتا تھا
مگر وہ خوش تھی …..اپنی اس چھوٹی دنیا میں
_____________________________________
” ہالار….تم اور اس وقت …” مونا اسے دیکھ کے حیران ہوئیں تھیں
وہ کبھی بھی اس طرح بنا بتائے نہیں آتا تھا ….
” دادا کہاں ہیں…..” ہالار نے انکا سوال نظر انداز کرتے ہوئے کہا تھا
” وہ تو یہاں نہیں ہیں….”
” پھر …..”
” وہ ہمدان کے ساتھ لندن گئے ہیں چیک اپ کیلئے….دس پندرہ دن تو لگ ہی جائیں گے. ”
مونا نے تفصیل.سے بتایا تھا
” اف…..”
ہالار پہ کوفت کا شدید دورہ پڑا تھا
وہ جس کام کو جتنا جلدی کرنا چاہ رہا تھا وہ اتنا ہی لیٹ ہورہا تھا
وہ انکا دیا ہوا کام کرچکا تھا اسکی تلاش ختم ہوگئی تھی
مگر یہ میر برفت بیٹھے بٹھائے لندن پہنچ گئے تھے
” ہالار….اب تم آگئے ہو تو سبین سے مل کے جانا…اب تم شادی کرلو”
” اماں پلیز….مجھے کسی سبین سے شادی نہیں کرنی….”
ہالار کوفت سے بولا تھا
"تو پھر کس سے کرن ہے….” مونا کے تیور تھیکے ہوئے تھے
"وہ میں دادا کو ہی بتاؤں گا….”
ہالار کا لہجہ ٹھوس تھا
” ہاں ایک تمہارا باپ اور دوسرا اسکا باپ وہی تمہارے سگے ہیں….میرا تو کوئی حق ہی نہیں تم پہ….” مونا غصے سے بولیں تھیں اور واک آؤٹ کرگئیں تھیں
ہالار جانتا تھا کہ اس وقت ان سے کچھ بھی کہنا بے کار ہے وہ سنیں گی ہی نہیں سبین کو وہ جانتا تھا اس سے شادی کا مطلب اس گھر میں ایک اور مونا کا اضافہ……
ابھی تو وہ اپنے باپ کے ناکردہ جرم کی تلافی کرنا چاہتا تھا ….
اسے آگاہی تب ہوئی تھی جب وہ انٹر کے بعد گھر آیا تھا میر برفت حسب معمول میر جاذب کو سنا رہے تھے
ہالار جو ان سے ملنے آرہا تھا اسے بہت برا لگا تھا
” اگر تم نے سمیہ کا ہمیں بتا دیا ہوتا تو ہم کونسا اسکے ساتھ کچھ غلط ہونے دیتے ….”
” آپ لوگوں کے ہوتے ہوئے جو سلوک اسکے ساتھ ہوا اسکا گواہ ہوں میں…..”
جاذب نے ناگواری سے کہا تھا
” کم ازکم ہماری بچی…ہماری پوتی تو ہماری نگاہوں کے سامنے رہتی نا”
” اوہ تو اصل فکر پوتی صاحبہ کی ہے….آپکو اسکی ماں کا کوئی احساس نہیں جو آپکی بہو بھی تھی ….”
میر جاذب کی بات پہ میر برفت کا بی پی ہائی ہوگیا تھا
ہالار نے آگے بڑھ کے انہیں سنبھالا تھا
” دادا…مجھے بتائیں آپ کس پوتی کی بات کررہے تھے ”
” تم بھی آخر اپنے باپ کی اولاد ہو….ہمارا کسی کو کیا احساس ….”
میر برفت نے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا
” تمہارے باپ نے جو کیا میں اسکو کبھی معاف نہیں کروں گا….اسکی اس غلطی کیلئے تو کبھی نہیں”
” کیسی غلطی…کچھ بتائیں تو سہی”
ہالار الجھ گیا تھا
” سمعیہ یاد ہے تمہیں…”
” سیال چچا کی بیوی….”
ہالار کو وہ شفیق سے لڑکی یاد تھی بالکل ٹھنڈی چھاؤں جیسی
” ہاں…سیال نے اسے چھوڑ دیا تھا….اس سے ہماری ایک پوتی ہے…ہمارے خاندان کی اکلوتی لڑکی….جسے تمہارے باپ کی مدد سے سمعیہ نے دنیا کی بھیڑ میں غائب کردیا ہے”
میر برفت نے اسے سب بتا دیا تھا
” آپ بابا کو اب سے کچھ نہیں کہیں گے….میں میر ہالار جاذب وعدہ کرتا ہوں
..کہ آپکی پوتی آپکو واپس لا کے دوں گا …یہ ایک میر کا وعدہ ہے”
ہالار سے باپ کی بے عزتی برداشت نہیں ہوئی تھی وہ باپ سے بہت اٹیچ تھا اس لئے وعدہ کر بیٹھا تھا
جس میں آج سرخرو ہوا تھا ….
مگر
اب اسے کچھ دن اور انتظار کرنا تھا
_____________________________________
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...