وہ شام کو گھر واپس آیا ۔توآرزو میڈ کے ساتھ کچن میں کھانا بنا رہی تھی ۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو میں نے تمہیں کچن میں آنے سے منع کیا ہے نہ وہ سختی سے بولا ۔۔
جی سر میں نے منع بھی کیا لیکن میڈم نہیں مان رہی میڈ نے فورا اپنی صفائی پیش کی ۔
جب عون آرزو کا ہاتھ تھام کر کیچن سے باہر لے آیا
عون جی میں اکیلے کمرے میں بور ہو رہی تھی اس لئے سوچا کیوں نہ ان کی تھوڑی سی ہیلپ کر دوں بیچاری صبح سے کام کر رہی ہے آرزو اس کا موڈ دیکھ کر پریشانی سے بولی
آرزووہ یہ سب کچھ کرنے کے پیسے لیتی ہے ۔اسے اس کی محنت کا پورا معاوضہ ملتا ہے ۔تو تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کی مدد کرنے کی ضرورت ہے چلو کمرے میں چل کے آرام کرو ۔
وہ اسے سختی سے کہتے ہوئے بولا ۔
دن رات آرام ہی کرتی رہوں کیا مجھ سے نہیں بیٹھا جاتا اس طرح سے آرزومنہ بسور کر بولی تو وہ مسکرایا ۔
اچھا جی تم میری بیوی بور ہوتی ہے ۔
تو کیوں نہ میں اپنی بیوی کی بوریت کو دور کرتے ہوئے اسے ایک لانگ ڈرائیو پے لے چلوں عون نے مسکراتے ہوئے آفر کی تو وہ بھی مسکرائی ۔
جس دن سے آرزو کی پریگننسی کی خبر ملی تھی عون اتنا خوش رہنے لگا تھا کہ کبھی اس کی کسی بات کا برا نہیں مناتا ۔
آرزو نے بھی یہ بات بہت نوٹ کی تھی وہ بس گھروالوں کی بات کو لے کر وہ تھوڑا سا ہایپر ہوتا پھر نارمل ہوجاتا
عون اسے اپنے ساتھ گھومانے کے لئے لایا کرو ۔
ان دونوں کا ساتھ پرسکون تھا آرزو ہمیشہ اس کے ساتھ خوش رہتی تھی عون ایک بہترین ہمسفر تھا ۔
تمہیں ایک بریکنگ نیوز سناوں پلیز تم سن کر رونے مت بیٹھ جانا کیونکہ مجھے اس خبر سے بہت خوشی ہوئی ہے ۔
اس نے سسپنس کریٹ کرتے ہوئے کہا ۔
اسی کون سی خبر ہے جو سن کے آپ کو اتنی خوشی مل رہی ہے اور میں رونے بیٹھ جاؤں گی آرزو پوچھے بنا نہ رہ سکی ۔
تمہاری وہ بہن اور میری سابقہ معشوقہ کل رات گھر سے بھاگتے ہوئے پکڑی گئی ہے ۔
اور ماموں نے کل شام اس کا نکاح اپنے کسی جاننے والے کے ساتھ رکھا ہے ۔عون نے مزے لیتے ہوئے خبر سنائی
کیا آپ تامیہ باجی کے بارے میں بات کر رہے ہیں ۔آرزو کو یقین نہ آیا
ہاں بالکل میں اسی کے بارے میں بات کر رہا ہوں یہ موڈ ٹھیک کرو اپنا اگر تم نے ایک آنسو بھی اس عورت کے لئے بہایا تومیں بہت برے طریقے سے پیش آؤں گا تمہارے ساتھ ۔
وہ ٹیشو پیپر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ۔
عون جی یہ تو بہت غلط ہوا باجی کے ساتھ نجانے کس کے ساتھ شادی ہو رہی ہے ان کی آرزو نے پریشانی سے کہا ۔
کیا غلط ہوا ہے بیگم بالکل ٹھیک ہوا ہے اس کے ساتھ کیا وہ جو کر رہی تھی وہ صحیح تھا وہ ماموں کی عزت کو مٹی میں ملا کر کسی کے ساتھ بھاگ رہی تھی وہ تو شکر ہے کہ بھاگنے سے پہلے ہی پکڑی گئی اور ماموں کی عزت بچ گئی ۔
اور اب وہ عزت سے اسے کسی کے ساتھ رخصت کر رہے ہیں۔
عون سیریس انداز میں بولا ۔
آپ کو کیسے پتہ چلا یہ سب کچھ آرزو نے پوچھا ۔
آج فون آیا تھا ماموں کا انہوں نے کل شادی پے انوائٹ کیا ہے ۔
اور پھر پریشانی سے اپنا دکھ بتانے لگے ۔بہت برا لگا مجھے وہ تو شکر ہے کہ کچھ بھی برا ہونے سے بچ گیا ۔ورنہ ماموں تو کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہتے ۔
عون تشکر انداز میں بولا تو آرزو بے ساختہ مسکرا ئی ۔
آپ کو اتنے دور کے رشتوں کی فکر ہے اور آپ کی سگی ماں آرزو کچھ کہہ رہی تھی کہ عون کی گھوری نے اسے خاموش رہنے پر مجبور کردیا ۔
آرزو ہر بات کو اپنے انداز میں مت لیا کرو ۔مجھے ان لوگوں کی فکر ہے کیونکہ وہ تمہارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں وہ تمہارے اپنے ہیں ان کی تکلیف سے تمہیں تکلیف ہوگی اس لئے ان کی پرواہ کرتا ہوں ۔
عون جتالتے ہوئے بولا ۔
پھوپھو بھی تو میری اپنی ہیں ۔ان کی تکلیف سے بھی مجھے تکلیف ہوتی ہے عون جی ۔
آرزو بولے بھی نہ رہ سکی ۔
جب کہ اس کے جواب میں عون کچھ نہ بولا بس خاموشی سے گاڑی گھر کے راستے پر ڈال دی
آرزو شادی پر جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی
عون اس کے قریب آکر رکا اور اس کی تیاری کو دیکھنے لگا وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی عون نے بے اختیار اس کے گال کو اپنے لبوں سے چھوا
بہت پیاری لگ رہی ہے یار آج کہیں مت جاو میرے پاس رہو نا ۔وہ اسے اپنی بانہوں میں لیتے ہوئے بولا ۔
اوراس کی گردن پراپنے لب رکھ دیے۔
آرزوشرماتے ہوئے خود میں سمٹی جا رہی تھی ۔
عون جی جانا بہت ضروری ہے نہ سمجھا کریں نہ تامیہ باجی کی شادی ہے آرزو نے اس سے دوری قائم کرنے کی کوشش کی جب عون نے اگلے ہی سیکنڈ اسے تھام کر اپنے مزید نزدیک کرلیا ۔
آجکل بہت بہانے بنانے لگی ہوکچھ زیادہ ہی دور ہو رہی ہو سنو آج رات میں کوئی بہانہ نہیں سنو گا۔
عون نے اس کے لبوں پر اپنے لبوں سے مہرثبت کی اور اسے جانے کی اجازت دے دی ۔
امی مجھ سے غلطی ہوگئی ہے
امی مجھے ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن ابو کو منع کر دیں میں یہ شادی نہیں کر سکتی وہ مجھ سے کتنا بڑا ہے وہ تو 50 سال کا آدمی ہے خدا کے لئے مجھ پر رحم کرے کیا کر رہی ہیں آپ ۔
تا میہ روتے ہوئے ماں سے گلہ کر رہی تھی جبکہ وہ بھی اس کے ساتھ روتے ہوئے اسے دلاسہ دے رہی تھی ۔
میں کچھ نہیں کرسکتی تامیہ میں نے تیرے باپ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے کہہ دیا ہے کہ اگر میں نے اس معاملے میں کچھ بھی کہا تو وہ مجھے بھی طلاق دے گئے میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتی تجھے یہ شادی کرنی ہوگی امی نے بے بسی سے سمجھایا ۔
امی پلیز ابو سے بات کریں خدا کے لئے وہ کیوں میری زندگی تباہ کر رہے ہیں مجھ سے غلطی ہوئی مجھے ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا مجھے عاصم کے ساتھ بھاگنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن اس نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا تھا
امی مجھ سے غلطی ہوگئی پلیز ابو سے بات کریں میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی ۔
باہر گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا اچانک تامیہ کی شادی کی وجہ کوئی نہیں جانتا تھا سوائے عون کے اور اسے بھی ماموں نے خود ہی بتایا تھا
عون اور آرزو شادی پہ آئے تو زبیدہ اور ان کی ساری فیملی یہاں پر پہلے سے ہی موجود تھی
وہ سب اسے دیکھ کر خوش ہوگئے کتنے دن کے بعد زبیدہ نے اپنے بیٹے کو دیکھا تھا
وہ اس سے ملنا چاہتی تھیں لیکن عون نے انہیں دیکھتے ہی اپنی راہ بدل گیا ۔
لیکن آرزو عون کی پرواہ کیے بغیر ان لوگوں کے پاس چلی گئی اور عون کو اس کی حرکت بالکل بھی اچھی نہ لگی ۔
فی الحال وہ کچھ بھی نہیں بولا ۔
کچھ ہی دیر میں تامیہ کا نکاح تھا تامیہ کی حالت دیکھنے لائق تھی عون کو اس کی حالت دیکھ کر نہ جانے کیوں مزا آ رہا تھا ۔
وہ اسے دیکھ کر ہنسے جا رہا تھا شاید طنزیہ مسکراہٹ اس عورت نے اس کا گھر برباد کرنے کی کوشش کی اس سے اس کی آرزو کو دور کرنا چاہا ۔
عون کا دل چاہا کہ ابھی اس عورت سے جا کر کہے کہ دیکھ لیا اپنے کیے کا انجام یہ تمہارے گناہوں کی سزا ہے ۔
پھر وہ رکا بھی نہیں تھوڑی دیر کے بعد جب وہ تامیہ کے پاس مبارکباد دینے گیا
تو اپنے پرانے سارے حساب بے باک کرلیے ۔
دیکھ لی اپنی حالت یہ ہوتا ہے انجام دوسروں کا گھر برباد کرنے کی کوشش میں ہمارے ساتھ تو کچھ بھی برا نہیں ہوا لیکن اللہ نے تمہیں تمہارا انجام دکھا دیا ۔
ڈیر پرانی معشوقہ اب خدا کے لیے اپنا گھر بسانا ناکہ دوسروں کا گھر برباد کرنا ۔
خدا کے لیے اب سمبھل جاؤ اپنے باپ کا نام نہ برباد کرنا بات بات پر شکایتیں گھر لے کے مت آنا ۔ویسے مجھے لگتا ہے یہ پہلوان اپنے معاملات خود حل کرتا ہے اس نے سامنے کھڑے آدمی کی طرف اشارہ کیا ۔
جو بدقسمتی سے اس کا دلہا تھا
شادی اٹینڈ کرنے کے بعد وہ لوگ ابھی گھر واپس آئے تھے اور جب سے عون واپس آیا تھا تب سے ایک ہی بات کئے جا رہا تھا بیچاری تامیہ کا کیا ہوگا ۔
جبکہ آرزو جانتی تھی وہ یہ سب کچھ صرف اسے جلانے کے لئے کر رہا ہے ۔اندر سے وہ ذرا سا بھی دکھی نہیں ہے
ہائے میرا کیا ہوگا اس کے بغیر میں کیسے رہوں گا ۔
وہ اس کے کان کے قریب بولا تو آرزو نے اسے گھور کر دیکھا۔
اس کے اس طرح سے دیکھنے پر عون قہقہ لگا کر ہنسا
عون جی آپ کو ذرا ترس نہیں آرہا ان بیچاری پہ آرزو نے کہا
ایسے لوگوں پے ترس نہیں کھایا جاتا سچ میں بیچارا وہ ہے جس سے اس کی شادی ہوئی ہے یہ بیچاری اتنی بے چاری نہیں ہے اس نے بےچاروں والا کوئی کام نہیں کیا ہے تو برائے مہربانی تم اسے بیچاری مت کہو ۔
اور نہ ہی میں اتنا ہیرو ہوں کہ بُرے لوگوں کو اچھا کہہ کر ان کی باتیں بھلانے کی کوشش کروں گا
مجھے جو لوگ اچھے نہیں لگتے وہ نہیں لگتے میں زبردستی انہیں اچھا نہیں کہوں گا ۔
مجھے نفرت ہے اس لڑکی سے جو کچھ اس کے ساتھ ہوا ہے بالکل ٹھیک ہوا ہے ۔
اور اب تمہیں بھی زیادہ دکھی ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
وہ اس کے قریب آکر اپنا موڈ مکمل بدل کر بولا تھا
عون جی آپ ۔۔۔
جانتا ہوں میں ایک انتہائی بُرا انسان ہوں
باقی باتیں ہم صبح کریں گے اس وقت میں تمہیں دکھانا چاہتا ہوں کہ میں کتنا بُرا ہوں ۔
ایک ہی جھٹکے میں اس کے بالوں کا جھوڑا کھول کے اسے اٹھائے بیڈ پر لے آیا ۔
انہیں اس گھر میں رہتے ہوئے چار مہینے گزر چکے تھے
عون اس کا حد سے بھر کر خیال رکھتا اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا خیال رکھتا ۔
وہ کام پے جاتا تو سارا دن فون پر اسی سے باتیں کرتا رہتا ۔
عون کی محبت اس کے لیے دن بادن بڑھتی جا رہی تھی۔
کبھی کبھی عون کی دیوانگی سے ڈرنے لگتی تو کبھی کبھی اپنی قسمت پر رشک کرتی
ڈاکٹر نے ابھی سے زیادہ احتیاط کرنے کے لئے کہا تھا ۔۔کیونکہ آرزو جسمانی طور پر بہت کمزور تھی۔
عون نے اس کے لئے دو ملازماؤں کا انتظام کیا تھا جن میں سے ایک کسی مجبوری کے باعث اپنے گاؤں جا چکی تھی
جبکہ دوسری بہت مریم چھوٹی تھی
اچھا آرزو سنو میں کام پر جارہا ہوں آج بہت ضروری میٹنگ ہے ۔
ہو سکتا ہے دو پہر میں میرا فون بند ہو ۔
سنو چھوٹی باجی کا خیال رکھنا ۔
میں آج لیٹ واپس آؤں گا مجھے شکایت کا موقع نہیں ملنا چاہیے ۔
وہ ملازمہ سے کہنے کو پلٹا ۔جو تقریباً 15 سال کی ایک چھوٹی بچی تھی
وہ آرزو کا بہت خیال رکھتی تھی
آرزو نے جب زبیدہ کو اس کے بارے میں بتایا تو اس نے کہا کہ یہ وقت کسی سمجھدار انسان کے پاس رہنے کا ہے کسی معصوم بچے کے پاس نہیں ۔
تمہیں ایک زیادہ عمر کی عورت کو نوکری پر رکھنا چاہیے تھا ۔جو سمجھدار ہو اور اس کنڈیشن میں تمہارا خیال رکھ سکے ۔
اس نے پھوپھو کو سمجھایا ۔کہ دوسری ملازمہ نے گاؤں گئی ہے کچھ دن میں لوٹ آئے گی لیکن پھر بھی پھوپھو نے اسے اپنا بہت خیال رکھنے کی تاکید کی
دوپہر کی دو بج رہے تھے جب اس کو اپنی طبیعت خراب ہوتی محسوس ہوئی ۔
اسے چکرآ رہے تھے ۔
پھر کچھ دیر بعد اسے ابکائیاں شروع ہوگئی ۔
مریم کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
باجی آپ کی طبیعت تو بگڑتی جارہی ہے آپ بھیا کو فون کرو ۔
مریم نے پریشانی سے کہا ۔
جبکہ اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے آرزو کو بھی اس کی بات ٹھیک لگی اور وہ عون کو فون کرنے لگی ۔
لیکن بار بار فون کرنے کے بعد بھی عون کا فون نہ لگا اس کا فون مسلسل بند جارہا تھا ۔
اس کی طبیعت مزید بگڑتی جارہی تھی اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
پھر اس نے کچھ سوچتے ہوئے زبیدہ کا نمبر ملایا ۔
ہیلو بولو میری طبیعت بہت خراب ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا آرزو نے روتے ہوئے کہا ۔تو زبیدہ پریشان ہوگئی
بیٹا عون کہاں ہے ۔زبیدہ نے فکر مندی سے پوچھا
وہ کام پر گئے ہیں ان کی کوئی بہت ضروری میٹنگ ہے ان کا فون بھی نہیں لگ رہا ۔آرزو نے روتے ہوئے بتایا
میں ابھی آتی ہوں تھوڑی دیر میں تو فکر مت کر تو رونا بند کر میں کچھ ہی دیر میں سمیر کے ساتھ آتی ہوں۔ زبیدہ نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے سمیر کو فون کیا
رات کو کیا کھایا تو نے ضرور تو باہر سے کچھ کھاکے آئی ہے پھوپھو کب سے ڈانٹے جا رہی تھی
پھوپھو میں نے کچھ نہیں کیا وہ عون جی مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے کے گئے تھے وہ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولی ۔
وہ زبردستی اپنے ساتھ لے گیا اورتو نے مزےسے باہر کا کھانا کھایا
آرزو تو احتیاط کیوں نہیں کرتی ہے بیٹا تیرا پانچواں مہینہ شروع ہونے والا ہے تجھے احتیاط کی ضرورت ہے اور تو بہت کمزور ہے
اسی لئے کہتی تھی تیرا اکیلے اس گھر میں رہنا ٹھیک نہیں ہے کسی بڑے کی ضرورت ہے ۔
لیکن وہ تیرا شوہر جب کوئی بات مانے تب نہ۔ ابھی وہ ا سے ڈانٹ ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
عون کو اس کی کال آئی تھی لیکن میٹنگ کے دوران اس کا فون بند ہونے کی وجہ سے وہ اس کا فون اٹینڈ نہیں کر پایا ۔
اب فون آن کرتے ہی لاتعداد میسجز ایسے رسیو ہوئے
اس کے اتنے سارے میسجز اور فون کال دیکھ کر عون پریشان ہو گیا اسی لئے اس نے جلدی سے گھر آنے کا فیصلہ کیا ۔
لیکن گھر آتے ہی یہاں زبیدہ کو دیکھا تو مزید پریشان ہو گیا۔
وہ بھیا آرزو باجی کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی وہ تو خدا کا شکر ہے ۔
ان کی پھو پھو جی آگئی ۔ورنہ میں تو بہت گھبرا گئی تھی ۔چھوٹی نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔
عون پریشانی سے اندر آیا ۔
کیا ہوا ارزو تم ٹھیک تو ہو
کیا ہوا تھا طبیعت خراب ہوگئی تھی تمہاری
تم نے مجھے فون کیوں نہیں کیا
ہاں فون کیا تھا وہ میرا فون بند تھا میں میٹنگ میں تھا تم ٹھیک ہونا ۔وہ فکرمندی اسے بغیر اسے بولنے کا موقع دیئے بول رہا تھا ۔
جی میں ٹھیک ہوں پھوپھو آگئی تھی ۔
وہ کہہ رہی تھی جو کل رات ہم نے باہر سے کھانا کھانا ہمیں نہیں کھانا چاہیے ۔
ہاں بیٹا آرزو کو احتیاط کی ضرورت ہے ۔اس کے ساتھ ہر روز کوئی نہ کوئی ہونا ضروری ہے اس لئے میں نے سوچا میں آرزو کو کچھ دن کے لیے اپنے ساتھ لے جاتی ہوں ۔
زبیدہ ابھی بول ہی رہی تھیں کہ انہوں نے اپنا ہاتھ اٹھا کر انہیں بولنے سے باز رکھا ۔
میں اپنی بیوی اور بچے کا خیال رکھ سکتا ہوں مجھے آپ کی ضرورت نہیں وہ سرد مہری سے بولا ۔
آپ یہاں تک آئیں ہمارے لیے تکلیف اٹھائی اس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں ۔
عون کہہ کراوپر چلا گیا جبکہ آزرو پھوپھو کے سامنے شرمندہ ہو کر رہ گئی ۔
اچھا بیٹا میں چلتی ہوں ۔فون کروں گی اگر طبیعت مزید خراب ہوئی تو بتانا مجھے ۔
پھوپھو نے اٹھتے ہوئے کہا اتنے میں عون یونیفارم چینج کر کے نیچے آ چکا تھا
کس کے ساتھ جائیں گی آپ آئیے میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں ۔
وہ انہیں کہتا گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا جب کہ وہ آرزو سے مل آہستہ آہستہ اس کے پیچھے قدم اٹھاتی باہر آئیں
آج انہیں آرزو سے ملے پورا ایک مہینہ گزر چکا تھا ۔
نہ جانے کیا بات تھی کہ اس دن کے بعد آرزو نے فون بھی نہ کیا ۔
شاید عون نے اسے بات کرنے سے منع کردیا ہوگا ۔
زبیدہ بہت پریشان تھی۔
انہیں ہروقت آرزو کی پریشانی لگی رہتی جو اتنی کم عمر میں ماں بننے جا رہی تھی اور کوئی بھی بڑا اس کے ساتھ نہیں تھا ۔
مانا کے عون کا بہت خیال رکھنا تھا ۔
لیکن ایسے معاملات میں عون بھی کچھ نہیں سمجھتا تھا ۔
انہوں نے بہت بار عون کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ہمیشہ ہی ان کی کالز اگنور کر دیتا ۔
کہیں بار ان کا دل چاہا کہ وہ اور آرزو سے ملنے کے لیے ان کے گھر چلی جائے ۔
لیکن پھر دل پر پتھر رکھ لیتی ۔
وہ ان سے ملنا تو دوع ان کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ آرزو بھی ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق رکھے۔
اوروہ آرزو سے بار بار مل کر ان دونوں میں بدمزگی پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
انہیں یقین تھا کہ عون نے ہی آرزو کو ان سے بات کرنے کے لیے منع کر دیا ہے ۔
ایک مہینہ گزر چکا تھا اس نے پھوپھو سے بات نہیں کی تھی ۔اس دن عون جب گھر واپس آیا تو سب سے پہلے اس نے ایک بہترین بڑی عمر کی ملازمہ کا انتظام کروایا ۔
جو اس کی غیر موجودگی میں آرزو کا خیال رکھے ۔
اور اس کا انتظام ہونے کے بعد عون نے آرزو کو یہی آرڈر دیا تھا کہ آج کے بعد وہ پھوپھو کو کبھی فون نہیں کرے گی ۔
اسے جب بھی کوئی پروبلم ہوگئی تو وہ ان سے رابطہ کرے نہ کہ اپنی پھوپھو سے ۔
ان لوگوں سے دور ہوکر الگ مکان میں اس لیے رہ رہا ہے تاکہ ان لوگوں کا سایہ بھی اس کی زندگی پر نہ پڑے۔
عون نے اسے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ ان لوگوں کی اپنی زندگی میں مخالفت اسے ہرگز گوارا نہیں ۔
اس لیے بہتر ہوگا کہ آرزو بھی اب سے کوئی تعلق نہ رکھے ۔
آرزو نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن اور اپنی بات سے نہ پلٹا ۔
اس کی وجہ سے ان دونوں میں کافی لڑائیاں بھی ہوئی جس کے اینڈ پے آرزو ہمیشہ ہمت ہار کے بیٹھ جاتی وہ چاہے کتنی بھی کوشش کیوں نہ کرلے لیکن کبھی بھی اس سے لڑ نہیں پاتی تھی ۔
عون کی اونچی آواز کے سامنے اس کی آواز دب جاتی ۔
نجانے کیوں اسے عون کی اونچی آواز سے ڈر لگتا تھا ۔
آرزو سمجھ گئی تھی کہ وہ عون سے لڑ نہیں سکتی لیکن ناراض تو سکتی تھی وہ دو ہفتے سے اس سے ناراض تھی۔
اور روز آکر اسے منانے کی کوشش کرتا ۔
لیکن آرزو نے نا ماننے کی قسم کھا رکھی تھی آج کل اس نے ایک ہی رٹ لگائی تھی کہ اسے واپس اسی گھر میں جا کر رہنا ہے ۔
عون اسے منانے کی کوشش کرتا ہے اور جب بات بس سے باہر ہو جاتی چلاتا غصہ کرتا اور پھر خود بھی ناراص ہو کر بیٹھ جاتا ۔
پھر دوسرے دن ایک نے سرے سے اسے منانے کی کوشش کرتا ۔
عون نے غصے میں آکر اس کا نمبر بدل دیا وہ جانتا تھا کہ آرزو کو کوئی نمبر یاد نہیں ہے ۔
جس کی وجہ سے اب وہ پھوپھو سے بات نہیں کر پا رہی تھی
پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے سب کچھ بالکل ٹھیک ہے ۔
بس اپنی خوراک کا خاص خیال رکھیں آپ بہت کمزور ہیں ۔
باقی جس طرح سے آپ کے ہسبنڈ کا خیال رکھ رہے ہیں
ان شاءاللہ کوئی پرابلم نہیں ہوگی ۔
ماشااللہ آپ بہت پیاری ہیں اور آپ کے ہسبنڈ آپ سے بہت پیار کرتے ہیں بےبی آجانے کے بعد ان شاءاللہ اور بھی زیادہ کریں گے ۔
ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے سامنے بیٹھی تھی آرزو سے کہا۔
تو وہ بے ساختہ شرمادی۔
پھر ایک نظر کمرے کے باہر دیکھا جہاں عون اس کا انتظار کر رہا تھا ۔
وہ صبح زبردستی اسے ساتھ لایا تھا ۔
ورنہ وہ تو اس کے ساتھ ہوسپٹل آنے میں بھی نخرے دکھا رہی تھی ۔
یہ بات الگ تھی کہ عون کے سامنے اس کے نخرے کم ہی چلتے تھے ۔
وہ اٹھ کر باہر اس کے پاس آئی۔
ہوگیا چیک اپ اب گھر چلیں آرزو نے منہ بنا کر کہا ۔
کیا کہا ڈاکٹر نے عون نے فکر مندی سے پوچھا ۔
کیا کہے گی ڈاکٹر بالکل ٹھیک ہوں میں میں نے تو گھر پہ بول دیا تھا وہ منہ بناتی آگے چل دی۔
اس کی ناراضگی عون کو بہت بھاری پر رہی تھی ۔
کچھ تو بتایا ہی ہوگا ڈاکٹر نے عون اس سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا ۔
کچھ نہیں کہا بس اتنا ہی کہا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں اور بے بی بھی ہیلتھی ہے ۔اور اب آپ مجھے گھر چھوڑ کر جائیں اپنے کام پر آرزو نے منہ پھیرتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا دیا ۔
لیکن آج تو میں سارا دن اپنی بیوی کے ساتھ گزاروں گا ۔
ایک مزے دار سا لنچ کرتے ہیں پھر کہیں گھومنے چلے گے عون نے آفر کی ۔
اب آرزو اپنا منہ سیدھا رکھیے تو ٹھیک ورنہ تھوڑی دیر کے بعد عون کو بھی غصہ آ جانا تھا ۔
میں باہر کا کھانا نہیں کھا سکتی عون جی ڈاکٹر نے منع کیا ہے ۔اور ویسے بھی پھوپھو کہتی ہیں کہ وہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ اس نے عون کی طرف دیکھا جو سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔
مطلب صاف تھا ان کا ذکر کرکے اس نے عون کا موڈ خراب کر دیا ہے ۔
کھانا کھانا ہوتا ہے آرزو باہر کا یا گھر کا کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر ڈاکٹر نے منع کیا ہے تو ٹھیک ہے میں تمہیں واپس گھر لے چلتا ہوں اور آج میں خود اپنے ہاتھوں سے تمہارے لیے کچھ اسپیشل بناؤں گا ۔
عون نے آج اپنے غصے کو کنٹرول کر کےاسے خوش کرنے کی کوشش کی تھی ۔
جس کی وجہ سے آرزو کچھ نہ بول پائی۔