ہیلو ۔۔دوسری بیل پر اس نے فون کان سے لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔
بہت اداسی محسوس کرتے ہوئے اس نے امل کی طرف فون ملایا تھا ۔۔اور جب آپ اداس ہوں تو دل کی باتیں کسی سے بیان کرنا چاھتے ہوں تب آپ کو ایک بہترین کندھا چاہیئے ہوتا ہے ۔۔رونے کے لئے ۔۔اپنی اداسی بیان کرنے کے لئے ۔۔۔
ہیلو ۔۔۔۔دوسری طرف سے خاموشی پاکر امل نے دوبارہ الفاظ دہرائے ۔۔
ہیلو ۔۔۔امل ۔۔۔بوجھل آواز کے ساتھ با مشکل ہی وہ کہہ پایا ۔۔۔
باسط ۔۔۔۔۔حیرانگی کے ساتھ اس نے کہا ۔۔
تبھی لائن معطل ہو گئی ۔۔۔اور وہ ہیلو ہیلو کرتی رہ گئی ۔۔۔
وہ آگے کچھ کہنے ہی لگا تھا جبھی لائن کے معطل ہوجانے پر فون ہاتھ میں لیئے تکتا رہا ۔۔دوبارہ فون ملاتا جبھی ۔۔گھر کا نمبر دیکھ کر خود کو نارمل رکھتے ہوئے اس نے فون کان سے لگایا ۔۔
ہیلو ۔۔بھائی ۔۔۔بھائی ۔۔۔اماں کچھ بول نہیں رہی ۔۔آپ جلدی سے آجائیں ۔۔مناہل کی روتی آواز سن کر وہ سن ہو گیا ۔۔
جلدی سے فون بند کرتے ہوئے اسنے گھر کی جانب دوڑ لگا دی ۔۔۔
۔*****************۔
وہ رش ڈرائیونگ کر رہا تھا جبھی اسکے موبائل کی رنگ بار بار بجنے لگی ۔۔غصے میں نظر انداز کرتے ہوئے اس نے گیٹ سے گاڑی عبور کرتے ہوئے لان میں کھڑی کر دی ۔۔
موبائل کو وہیں چھوڑتے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے وہ کمرے میں داخل ہوا ۔۔
غصے میں سامان کو تہس نہس کرتے ہوئے بالوں کو مٹھی میں جکڑے غصے کے اشتعال کو دبانے کی کوشش میں تھا ۔۔
اہ ۔۔۔۔۔غصے میں اسنے اسٹڈی ٹیبل الٹا دیا ۔۔پیر پٹخاتے ہوئے وہ دیوار پر نسب اسکی تصویروں کے پاس جانے لگا اور پردہ گراتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔
کیوں کیا تم نے ایسا ۔۔کیوں ۔۔۔۔؟ ضبط سے وہ چیخا ۔۔۔
چند منٹ اسے گھورنے کے بعد ڈاکومینٹس ہاتھ میں دباتا وہ باھر کی جانب روانہ ہو گیا ۔۔
وہ گاڑی سی اتر کر اندر کی جانب بڑھتی جبھی اسکی نظر گاڑی میں بیٹھے حزیفہ پر پڑی ۔۔اجلت میں حزیفہ کی گاڑی کے پہیئے چر چرائے ۔۔
وہ جلدی سے گاڑی سے اترتے ہوئے اسکی جانب لپکی ۔۔
مگر تب تک حزیفہ جا چکا تھا ۔۔
حزیفہ ۔۔۔وہ بےتحاشہ اسکے پیچھے دوڑتے ہوئے اسے پکارنے لگی ۔۔۔بہتے آنسوؤں میں روانی آگئی ۔۔۔
زیادہ بھاگنے کی وجہ سے اسکے پاؤں چھید گئے ۔۔۔
مگر وہ تب بھی اسکے پیچھے لپکتے ہوئے اسے آوازیں دینے لگی ۔۔۔بلکل اسی طرح جیسے بچپن میں وہ اسکے پیچھے بھاگی تھی ۔۔
یوسف ۔۔۔یوسف مت جاؤ ۔۔تابی کے پکارنے پر وہ نم آنکھوں سے کھڑکی سے باھر جھانکتے ہوئے اس چھوٹی سی روتی ہوئی گڑیا کو دیکھنے لگا ۔۔
یوسف ۔۔۔۔وہ اسے پکارتی ہوئی گھٹنوں کے بل زمین پر گر گئی ۔۔
غصے میں اسکے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ۔۔اسنے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی جبھی اسکے کانوں میں خوبصورت الفاظ گونجے ۔۔یوسف ۔۔
اسنے بیک ویومرر سے دیکھنا چاہا ۔۔۔مگر وہاں کسی کا نام و نشان نہ تھا ۔۔
وہ کیوں آئے گی ۔۔؟ اب تو شاید اسے میری ضرورت نہیں ۔۔وہ سوچتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔۔
مت جاؤ ۔۔۔۔وہ بے تحاشہ روتے ہوئے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھی گڑگڑاتے ہوئے اسے دور تک جاتے ہوئے دیکھنے لگی ۔۔۔جیسے ابھی وہ آکر اسکا ہاتھ تھام لے گا ۔۔اور کہے گا ۔۔لو تابی آگیا میں ۔۔اب واپس تمہیں چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گا ۔۔
اچانک اس نے اپنے کندھے پر کسی کا لمس محسوس کیا ۔۔چونکتے ہوئے اس نے جلدی سے پشت کی جانب دیکھا ۔۔حدید کو دیکھ کر اسے اور زیادہ رونا آیا ۔۔
وہ وہ چلا گیا ۔۔وہ چھوڑ کر چلا گیا ۔۔یہ بھی نہ جانا کہ میں کیا چاہتی ہوں ۔۔۔وہ چھوٹی بچی کی طرح حدید سے اسکی شکایت لگا رہی تھی۔۔
اٹھو تابی ۔۔۔گھر چلو ۔۔۔وہ اسے اٹھاتا اس سے پہلے وہ حدید کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے گویا ہوئی ۔۔
کہیں نہیں جانا مجھے ۔۔سن لیا ۔۔کہیں نہیں ۔۔وہ بچوں کی طرح ضد کرنے لگی ۔۔
اور وہ کھڑا اسے تکنے لگا ۔۔کہ نہ جانے کب تک اسکا ضد ختم ہو اور وہ اسے گھر لے جائے ۔۔۔
۔****************۔
مجھے بہت دکھ ہے باسط ۔۔۔ہم تمہارے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔۔اللہ تمہاری اماں کے درجات بلند فرمائے ۔۔
خالو کی یہ بات تو گویا اس نے سنی ہی نہ تھی ۔۔
اسکا نقطئہ نظر تو کہیں اور اٹکا تھا ۔۔ایک ہی پل میں سب کچھ برباد ہو گیا تھا ۔۔۔کچھ ہی پل کی تو بات تھی جب وہ اماں کو صحیح سلامت گھر پر چھوڑ گیا تھا ۔۔پھر ایسا کیا ہوا کے وہ اتنی جلدی چل بسی ۔۔اس بھری دنیا میں انھیں اکیلا چھوڑ گئی ۔۔
سمبھالو خود کو مناہل ۔۔حوصلہ رکھو اتنا نہیں روتے ۔۔امل کو جونہی باسط کی اماں کے گزر جانے کی خبر ہوئی وہ فوراً چلی آئی ۔آخر دوست جو کہا تھا اسکو ۔۔اور مصیبت کے وقت دوست کا ساتھ نہ دینا ۔۔۔اسکے غم میں شریک نہ ہونا یہ تو بہادروں والا کام نہیں ۔۔
اتنا مایوس نہیں ہوتے ۔۔وہ اللہ پاک کی چیز تھیں جنکو انہوں نے واپس اپنی جانب بلا لیا ۔۔وہ کب سے بیٹھی بے تحاشا روتی ہوئی مناہل کو سمجھا رہی تھی ۔۔
مایوسی سے تو میرا مقدر لکھا گیا ہے امل ۔۔تو میں کیسے نہ اسکا غم مناؤں ۔۔۔وہ اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے بولی ۔۔
تمہیں نہیں پتا جب اولاد کے سر سے ماں باپ کا سایہ چلا جائے ۔۔تو کچھ بھی نہیں بچتا ۔۔کچھ بھی نہیں ۔۔۔
امل کی نظریں اسکے چہرے پر ٹک گئیں ۔۔۔
مجھے دکھ اپنے اکیلے ہونے کا نہیں ۔۔بلکہ دکھ اس بات کا ہے کہ وہ نے تو اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔۔یہ بھی نہ سوچا کے انکے بعد ہمارا کیا ہوگا ۔۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ ہاتھوں میں چہرہ لیئے بےتحاشا رونے لگی ۔۔
امل اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے تھپتھپانے لگی ۔۔۔
۔**************۔
صلاح الدین ۔۔۔صلاح الدین ۔۔۔۔۔دادا گرجتی آواز کے ساتھ لان میں قدم رکھتے ہوئے انھیں پکارنے لگے ۔۔
تابی دو دن سے بستر پر بے ہوش پڑی بخار میں تپ رہی تھی ۔۔۔دادا شہر سے باھر گئے تھے جونہی انکو تابین کی طبیعت کے بارے میں پتا چلا وہ فوراً دوڑتے چلے آئے ۔۔
وہ اپنی لاٹھی سمبھالتے ہوئے تابی کے کمرے میں داخل ہوئے ۔۔سوتی ہوئی تابی کا جائزا لیتے ہوئے وہ باری باری سب کے چہرے پڑھنے لگے ۔۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود کسی نے مجھے اطلاع دینا ضروری نہ سمجھا ۔۔وہ گرجتی آواز میں بولے ۔۔
ابا حضور ۔۔آپ شہر سے باھر تھے اور اس وقت آپ کو تکلیف دینا مناسب نہیں لگا ۔۔۔
تو کیا ہوا ۔۔۔۔شہر سے باھر گیا تھا مر تو نہیں گیا تھا نہ ۔۔؟
اللہ نہ کرے آپ کو کچھ ہو ۔۔تابی کے ابو تڑپ اٹھے ۔۔اور ویسے بھی آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر جواب موصول نہیں ہوا ۔۔
بس کوئی صفائی نہیں چاہیے مجھے ۔۔انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں بولنے سے روک دیا ۔۔
میں دو دن گھر سے غائب کیا ہوا ۔۔میری بچی کی حالت ہی بگاڑ دی تم لوگوں نے ۔۔وہ اسکے پاس بیٹھتے ہوئے گویا ہوئے ۔۔
اسکے چہرے پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ اس پر دم کرتے ہوئے پھونکنے لگے ۔۔
دادا جان ۔۔اب دم درود سے کچھ نہیں ہونے والا ۔۔یہ اس سے بھی آگے کا لیول ہے ۔۔۔حدید نے بیچ میں لقمہ دیا ۔۔جبھی دادا ایک گھوری سے اسے نوازنے لگے ۔۔
وہ شرمندگی اور ڈر کے مارے نظریں جھکا گیا ۔۔
ایک نمبر کے نکمے ہو تم ۔۔کاہل لڑکے ۔۔۔اب انکا اگلا نشانہ حدید کی جانب تھا ۔۔
دادا کی اس بات پر سب نے اپنی ہنسی دبائی ۔۔
تابین کے پک اینڈ ڈراپ کی ذمہ داری میں نے تمہیں سونپی تھی نہ ۔۔اپنے کتے کے چکر میں تم یہ بھی بھول بیٹھے ۔۔۔طنز کے تیر موبائل کی جانب اٹھنے لگے ۔۔
موبائل کو کتا کہنے پر حدید تڑپ اٹھا ۔۔جلدی سے گویا ہوا ۔۔
دادا جان ۔۔۔
بس ۔۔۔بہت ہو گیا ۔۔۔اسکی بات انہوں نے بیچ میں ہی کاٹی تھی ۔۔
اور وہ سر نیچے کئے باھر کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔
۔****************۔
کسی کچے رنگ کی طرح
اترنے لگے ھو دل سے تم
یہ لو زہر کا گھونٹ ۔۔۔زرش نے پٹخنے والے انداز میں کپ اسکے سامنے رکھتے ہوئے زہر خند لہجے میں کہا ۔۔
مگر حزیفہ تھوڑی پر ہاتھ رکھے ٹانگ پر ٹانگ جمائے کسی سوچ میں گم تھا ۔۔
آخر کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ ۔۔۔وہ چڑتے ہوئے اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی ۔۔
مگر حزیفہ کے تاثرات میں کوئی کمی نہ آئی ۔۔وہ خالی نظروں سے زرش کو تکنے لگا ۔۔
آخر تم چاھتے کیا ہو حزی ۔۔۔۔؟
میں جو چاہتا ہوں ۔۔وہ تمہیں کیوں بتاؤں ۔۔۔اسنے رسانیت سے جواب دیا ۔۔
حزی تم سمجھتے کیوں نہیں ۔۔۔تمہاری وجہ سے سب پریشان ہیں اور ماما بابا کو تو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ آخر تمہارا کیا ہوگا ۔۔؟کیوں تم انھیں پریشانی میں مبتلا کر رہے ہو ۔۔
دیکھو زری ۔۔۔کسی کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔جسکو کرنی چاہیے تھی اسے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔
ایسا نہیں ہے حزیفہ ۔۔کیا پتا اسے تمہاری فکر ہو ۔۔اور تم اس سے بے خبر یہاں چھپ کر بیٹھے ہو ۔۔
ہر گز نہیں ۔۔۔۔اسنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔میں کسی سے چھپ کر یہاں نہیں آیا ۔۔اور رہی بات میری فکر کی ۔۔اسکا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔وہ پلر سے ٹیک لگاتے ہوئے بولا ۔۔
تو پھر نظریں کیوں چرا رہے ہو ۔۔؟ میری آنکھوں میں دیکھ کر کہو کے تم حالات کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہو ۔۔اسے کسی اور کا ہوتے ہوئے دیکھنے سے ڈرتے ہو جبھی سب سے چھپ کر یہاں آئے ہو۔۔۔زرش اسکے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہنے لگی ۔۔
وہ زمین کو گھورتے ہوئے پچھلا منظر یاد کرنے لگا ۔۔
نظریں تو وہ چراتے ہیں ۔۔جنکے دل میں چور ہو ۔۔۔لوگوں کی نظروں میں نظریں گاڑ کر حالات کا مقابلہ کرو ۔۔یوں بزدلوں کی طرح چھپ کر اپنی شے کو کسی اور کا ہوتے ہوئے دیکھنا بہادروں کا کام نہیں ۔۔مرد بنو یار ۔۔۔
سینہ چوڑا کر کے ۔۔لوگوں کے سامنے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے لے آؤ ۔۔کیوں کہ وہ تمہاری ہے ۔۔سمجھ گئے ۔۔وہ ہمدردی سے اسکا ہاتھ دباتی ہوئی چلی گئی ۔۔
اور وہ اسکی باتوں پر غور کرنے لگا ۔۔
۔***************۔
وقت کی گاڑی تو چلتی رہتی ہے ۔۔پھر چاہے وقت مشکل ہو یا آسان ۔۔
کسی کو ڈھیروں خوشیاں دے کر تو کسی پر غموں کا انبار نچھاور کر کے ۔۔
وہ لان میں کھڑا ۔۔ماں باپ کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کرنے لگا جبھی اپنے کندھے پر کسی کا لمس محسوس کرتے ہوئے فوراً پلٹا ۔۔
سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا ۔۔
اپنے تاثرات کو چھپاتے ہوئے وہ وہاں سے جانے لگا جبھی نوشین کی آواز پر اسکے قدم تھم گئے ۔۔
میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں باسط ۔۔۔میری بات نہیں سنو گے ۔۔؟ لہجے میں افسردگی پیدا کرتے ہوئے وہ گویا ہوئی ۔۔۔
کیا اب بھی کوئی وجہ باقی رہتی ہے بات کرنے کی ۔۔۔وہ تیش میں اسکی جانب مڑتے ہوئے بولا ۔۔
باسط ۔۔۔وہ اسکا ہاتھ تھامنا چاہتی تھی جبھی باسط دو قدم پیچھے ہوا ۔۔نہیں ۔۔ہاتھ کے اشارے سے اسنے سر نفی میں ہلایا ۔۔
میں مانتی ہوں ۔۔مجھ سے غلطی ہوئی ہے ۔۔لیکن میں کیا کرتی ۔۔حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے اماں ابا کے فیصلے پر گھٹنے ٹیک دیئے ۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں ۔۔۔
محبت جیسے پاکیزہ الفاظ کو یوں بدنام نہیں کرتے ۔۔محبت سے عاری لوگ ۔۔ہر حالات کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں ۔۔حقیقت تو یہ ہے کہ تمہیں مجھ سے محبت تھی ہی نہیں ۔۔تم تو چند ٹکڑوں پر بک گئی ۔۔۔یہ جانے بغیر کے مجھ پر میرے گھر والوں پر کیا گزرے گی ۔۔وہ بے حد افسردگی کے ساتھ بولا ۔۔
میری محبت پر شک نہ کرو باسط ۔۔میری محبت پانی کی طرح شفاف ہے ۔۔وہ غرائی ۔۔
محبت انکی شفاف ہوتی ہے جنکے دل صاف ہوں ۔۔اور تمہارا دل تو سیاہ ہو چکا ہے ۔۔اور جنکے دل سیاہ ہوں نہ ۔۔ان پر محبت اثر نہیں کرتی ۔۔بےدردی سے اسنے اپنی آنکھیں رگڑیں ۔۔
نہیں ۔۔۔وہ منہ پر ہاتھ رکھے نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔
کیا کمی رہ گئی تھی مجھ میں ۔۔یا میری محبت میں ۔۔جو تمہیں راس نہ آئی ۔۔
اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔میں تو تمہیں خوش رہنے کی دعا بھی نہیں دے سکتا ۔۔کیوں کے تم نے میرے سر پر غموں کا انبار جو پھینکا ہے ۔۔یہ کہتے ہی وہ جانے لگا جبھی نوشین کی آواز نے اسکے قدم روک دیئے ۔۔
اب میں خوش بھی کیسے رہ سکتی ہوں ۔۔غموں نے دوستی جو کر لی مجھ سے ۔۔۔مجھے طلاق ہو گئی ہے باسط ۔۔۔وہ خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔
۔***************۔
اماں کو گئے ہوئے کافی دن گزر چکے تھے ۔۔مگر گھر میں اداسی نے تو مانو ڈیرا ہی جما لیا تھا ۔۔ہر طرف سناٹا تھا ۔۔
مناہل کی وجہ سے فلحال اس نے اپنے سارے پروگرام معطل کر دیئے تھے ۔۔نہ تو کام پر جارہا تھا اور نہ ہی یونیورسٹی ۔۔
بار بار امل فون کر کے اسکی حالت دریافت کرتی ۔۔جب وقت ملتا تو ملنے بھی آجایا کرتی ۔۔
آج اسکی حالت دریافت کرنے حدید آدھمکا تھا ۔۔
کچھ سوچتے ہوئے اس نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔۔
جواب موصول نہ ہونے پر دو تین بار کھٹکھٹایا ۔۔
دروازہ کھلا ہے دیکھ نہیں سکت ۔۔ے ۔۔تنگ آکر اسنے دروازہ کھولتے ہوئے منہ سے الفاظ نکلاے ہی تھے جبھی حدید کو دیکھتے ہوئے اسکی زبان کو چپ لگ گئی ۔۔
السلام علیکم ۔۔۔!
اس نے سر سے پیر تک مناہل کا جائزا لیتے ہوئے کہا ۔۔
وعلیکم السلام ۔۔جواب دیتے ہوئے وہ اسے اندر کا اشارہ کیئے خود جانے لگی ۔۔
سنو ۔۔۔۔۔!
جبھی حدید کے آواز لگانے پر وہ رک گئی ۔۔
جی کہیئے ۔۔۔۔مڑتے ہوئے اس نے جواب دیا ۔۔
جبھی حدید کو وہ پہلے سے سست اور کمزور لگی ۔۔آنکھوں کے نیچے ہلکے دیکھ کر وہ اندازا لگا سکتا تھا کہ وہ رات بھر روتی رہتی ہے ۔۔
کہیئے ۔۔۔
مناہل نے اپنے الفاظ دوبارہ دھرائے ۔۔
وہ یہ ۔۔۔۔اس نے ایک شاپر مناہل کو تھماتے ہوئے کہا ۔۔
یہ کیا ہے ۔۔۔۔؟ وہ حیرانگی کے ساتھ ساتھ چونکی بھی ۔۔۔
دودھ کے ساتھ پتی اور ۔چینی بھی ہے ۔۔حدید نے ہاتھوں پر گنواتے ہوئے یاد دلانا چاہا ۔۔
جبھی وہ کچھ کچھ سمجھنے پر سر ہلاتی ہوئی ہلکا سا مسکرا دی ۔۔۔
تبھی حدید کو غور کرنے پر پتا چلا ۔۔کہ اسکی مسکراہٹ اس سے بھی زیادہ حسین ہے ۔۔
۔****************۔